مقالات

مرکز تعلیم وتحقیق کے زیر  اہتمام تخصص فی الفقہ والافتاء کے طلبہ نےجدید موضوعات پرتحقیقی مقالاجات لکھے ہیں۔ جن میں جدید فقہی مسائل،میڈیکل سائنس کے جدید  مسائل  ،حلال فوڈ،عائلی قوانین اور خرید فروخت کے جدید مسائل جیسے اہم موضوعات شامل ہیں ۔ اور الحمد للہ! آج تک یہ سلسلہ قائم ہے، ادارے کے لکھے گئے چند مقالہ جات  درج ذیل ہیں۔

قتل بہ جذبۂ رحم

اللہ پاک نےاپنی تمام مخلوقات میں سب سے افضل انسان کوبنایااوراسےاکرام سےنوازا اورفرمایاکہ:

‘‘وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ’’[1]یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی۔

انسان پراللہ پاک کی بےشمارنعمتیں ہیں جن کوگنِانہیں جاسکتا،اس لئےکہ کائنات کی تمام چیزوں میں انسان کےلئےنفع رکھاگیاہے،صحت بھی اللہ پاک کی ایک عظیم نعمت ہےاور اس کی حفاظت وصیانت انسان کی ذمہ داری  ہے،اس لئےکہ شریعت مطہرہ نےانسانی جان کونہایت ہی قیمتی اورقابل حرمت قراردیاہےاوراسلامی تعلیمات جن پانچ بنیادی اصولوں کےگرد گھومتی ہیں ان کی حفاظت اسلام کامطمح نظراور احکام شرعیہ کامقصودہے،ان کی حفاظت میں دنیوی زندگی کی سلامتی اوراخروی زندگی کی فوزوفلاح مضمرہے،انہی میں سے ایک اہم ترین مقصدانسانی جان کی حفاظت بھی ہے،یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اپنی جان کوہلاکت میں ڈالنےسے روکاگیاہے

آپریشن (سرجری )کی مختلف صورتیں اور انکے شرعی احکام

سماج اور معاشرے میں طبیب اور ڈاکٹر کا ہونا نہایت ضروری ہے ،حالات اور احوال کے لحاظ سے بھی اطباء کی اہمیت اور ضرورت بہت ہی بڑھ جاتی ہے،اگر اطباء کی ضرورت کی تکمیل نہ کی جائے تو لوگون کی زندگیوں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگیں،اسی مخلوق کے ساتھ شفقت اور ان سے حرج اور مشقت کے ازالہ کیلئے  شریعت نے علم طب

طب کی اسی اہمیت کے پیش نظر مسلمان اطباء کی ضرورت اور اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے،تاکہ میدان طب میں بھی ہم صرف غیر مسلم اطباء پر اعتماد اورتکیہ کئے نہ رہیں،چونکہ اپنے امراض کے سلسلے میں انکی جانب رجوع سے بہت سارے دینی اوع دنیوی نقصانات ہوسکتے ہیں ۔

خصوصا علم طب میں اس وقت آپریشن عمل جراحی کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے،کیونکہ اس وقت جنگوں،حادثات کی کثرت،کمپنیوں اور وسائل نقل وحمل کی شکل میں انسانوں کو بے شمار زخموں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔اسی طرح آج کل کے دور میں نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں اور نئی نئی بیماریاں وجود میں آرہی ہیں کہ جن کا علاج آپریشن کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے اسکے علاوہ ان کا کوئی اور علاج ممکن نہیں۔

 

آزاد کشمیر میں تجہیزو تکفین سے متعلق رائج رسومات و بدعات کا شرعی جائزہ

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں نہ تو زیادتی کی گنجائش ہے اور نہ ہی کمی کی ۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد دین مکمل ہو گیا اور اب اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی کی گنجائش نہیں ہے۔اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانونِ فطرت تمام موجودات میں جاری و ساری ہے۔زمین و آسماں میں موجود سب حیوانات ،جمادات و نباتات سب اس کے اس قانون میں جھکڑے ہوئے ہیں ۔اور کسی کو اس میں ترمیم و

 نبی اکرم ﷺ کے بعد دین مکمل ہو گیا اور اب اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی کی گنجائش نہیں ہے۔ اب کوئی شخص دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ کرتا ہے جس کی تعلیم  رسول اللہ ﷺ نے نہیں دی تو گویا وہ اس چیز کا دعویٰ کر رہا ہے کہ دین نامکمل ہے(نعوذ باللہ ) اور میری ترمیم کا محتاج ہے۔

اسی لئے رسول اللہ ﷺ نےبدعت کو ضلالت اور گمرائی فرمایا ہے۔ٍآج کل کی تقریبات میں طرح طرح کی رسومات کی قید لگائی جاتی ہے معلوم نہیں کہ یہ کہاں سے آئی ہیں ؟ لیکن اگر ان سے منع کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ :‘‘نئے نئے مولوی آئے ہیں جو ہمیں دین سکھا رہے ہیں ۔کیا ہمارے باپ دادا گمرہ تھے ۔’’ آج کل  اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ان رسومات میں اس طرح  پابند ہو چکے ہیں کہ فرض اور واجب  کے قضا ہونے کا اتنا غم نہیں ہوتا  جتنا اگر ذرا سی بھی کسی رسم میں کوئی  کمی کے رہ  جانے پر پریشان ہوتے ہیں ۔ اور ان کی تکمیل کے لئے مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دین و دنیا دونوں سے دور ہو جاتے ہیں مگر ان رسومات  کو اپنے مقرر مدت میں ہی ادا کرتے ہیں ۔  ان کا رواج  عام ہے اس لئے اس کی برائی بھی دل میں برائے نام ہے۔ بلکہ بعض کام کو باعثِ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں ۔اور چونکہ اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں ناکامی کا سبب ہے اس لئے اس پر مطلع کرنا  لازمی تھا ۔اس لئے اس تحقیق کا  موضوع ‘‘ آزاد کشمیر میں تجہیزو تکفین سے متعلق رائج رسومات و بدعات  کا شرعی جائزہ’’ رکھا گیا  ہے۔

طبیب کی کوتاہی پر ضمان

ڈاکٹر حضرات سے دورانِ علاج کسی قسم کی کوتاہی سرزد ہو سکتی ہے اور اس سے مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے اور کسی عضو کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، کیا اس صورت میں ڈاکٹر پر کوئی ضمان ہوگا یا نہیں۔ لہذا اس بات کا جاننا نہایت ضروری ہے کہ علاج و معالجہ کے شرعی احکام کیا ہیں، طبیب کا معیار مطلوب کیا ہونا چاہئے، اسی طرح ڈاکٹر اگر دوران علاج کوتاہی کرے تو اس پر کیا ضمان ہوگا، ضمان کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں اور ان کے کیا احکام ہیں۔

ان سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس موضوع کی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر اسے مقالہ کے لئے موضوع بحث منتخب کیا گیا ہے۔تاکہ اطباء حضرات اور عوام الناس علاج معالجہ کے شرعی احکام اور دوران علاج کوتاہی پر اس کے ضمان کا شرعی حکم  جان سکیں اور پھر ڈاکٹرز علاج کرتے ہوئے احتیاط سے کام کریں،اور لاعلم ڈاکٹرز کسی خطرناک مرض کے علاج سے پرہیز کریں۔

نکاح میں ولی کی اجازت شرعی اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ایک تجزیہ

اس دور کو  ترقی یافتہ دورکا نام دیاجاتاہے ۔یورپ جو خودکو حقوق نسواں کا علمبردار کہلاتا ہے۔کیا وہاں عورت کی  اتنی عزت ہے ، جواسلام نے ایک عورت کو دی ہے؟یقینا آپ کے پاس اس کا جواب ‘‘نہیں ’’میں ہوگا۔وہاں عورت دو کوڑی کے عوض بازار کی زینت  بنادی جاتی ہے۔یہ ایک ایسے معاشرے  کی تصویر کشی ہے جو خود کومہذب  سمجھتا ہے۔ بہرحال ان کی تہذیب ان تک ہی محدود رہے  یہی اچھا ہے۔لیکن راقم  یہاں اس معاشرے کی  بات کرےگا جس کے ہم باسی ہیں ۔کیا ہمارے  مسلم معاشرے میں عورت کو  عزت واحترام  کا مقام دیا جاتا ہے ، اور کیا  ایک  ماں ، بیوی ،بہن اور بیٹی  کے حقوق ان کو  دیے جاتے ہیں ؟ہمارامعاشرہ بالخصوص دیہی علاقوں  کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی  کہ عورت کو عمومًا  دو  بنیادی حقوق  سے محروم کیا جاتا ہے۔ ایک حقِ وراثت اور دوسرا  انتخاب ِ زوج کا حق۔چوں کہ مؤخر الذکر  راقم کا موضوع  ہے۔ لہذا مختصرا ً اس پر بحث کرکے مقدمہ کو  اختتام کی طرف لے جاؤں گا۔

انتہائی افسوس ہے کہ  ہمارےسماج میں نکاح کے لئے لڑکی کی اجازت اور مرضی  پوچھی  نہیں جاتی اگر ان سے اجازت لی بھی جاتی ہے  تو وہ بس ایک رسم  کہ طور پہ جو نہ ہونے کے برابر  ہے۔وہ والدین کی عزت کی خاطر اتنی بڑی قربانی دل  پہ پتھر رکھ کر قبول کرلیتی ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ لڑکی کو سوائے قبول کرنے کہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔کیوں کہ وہ ایک ایسے سماج  کی بیٹی ہےجہاں اسے باپ دادا کے خلاف اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ پھر اس قسم کی انجام پانے والی شادیاں  بڑے المیے سے دوچار ہوتی ہیں ۔ لیکن ایک دوسری انتہا بھی ہے جس سے  صرف ِنظر کرنا یقیناً  زیادتی ہوگی ۔آئے روز  مختلف ذرائع سے  ہم تک یہ بات پہنچتی ہے کہ ‘‘لڑکی نے گھر سے بھاگ کر نکاح کرلیا’’ اور پھر  ایسی حرکتوں کا انجام ِبد  تو  آنا ہی تھا۔گھر سے بھاگ کر جانے والی حوا کی بیٹی  ابنِ آدم کے  فریب کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ اور شریف گھرانے کی بیٹی حوس و درندگی کا نشانہ بننے کے لئے غیر محفوظ ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔اگر والدین اور معاشرہ  اپنی ذمہ داری ادا نہیں   کرتے تو پھر یہ ناسور پھیلتا چلا جائے گا  ، وہ دن دور نہیں جب گھروں سے عزت کے جنازے نکلے گے۔

مروجہ اسلامی بینکوں میں شریعہ ایڈوائزری کا نظام : ایک تحقیقی و تنقیدی جا ئزہ

جہاں مروجہ بینکاری کا نظام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے وہاں اسکے ساتھ ساتھ اسلامک بینکنگ کا نظام بھی ترقی کی طرف گامزن ہے ۔مروجہ بینکاری کی اہم خرابی اس کا سودی نظام ہے جس کا متبادل علماء و فقہاء نے اسلامی بینکاری کو فروغ دیا ۔چونکہ اسلامی بینکاری مروجہ بینکاری کے متبادل  کے طور پر لائی گئی ہے تو اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ معاشرے کوسود سے  پاک کیا جا سکے لیکن اس کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی بینکاری کے نظام کو مضبوط کیا جائے اور سود سے خلاصی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں ان شاء اللہ اس مقالہ میں بھی اس بات پر تحقیق کی جائے گی کہ اسلامی بینکاری کےنظام کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کیا کیا طریقہ اختیار کیے جا سکتے ہیں جس سے معاشرے کو سود سے خلاصی مل سکے۔

رحمِ مادر میں زندگی کے آثار

اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش اور رحمِ مادر میں مختلف مراحل کے حوالے سے جو نظام بنایا ہے وہ انسانی عقل کو حیران بھی کرتا ہےاورتخلیقِ انسانی پر غور و فکر کی طرف راغب بھی کرتا ہے اور غیر مسلموں کو چیلنج کرتا ہے کہ کیا کوئی ہے ایسا کہ جو اِس قدر دقیق اور باریک بینی کے ساتھ اور اَحسن طریقہ پر انسان کی تخلیق کرسکے؟

بلاشبہ قرآن و حدیث میں رحمِ مادر میں  جنین کے متعلق مختلف مراحل کا بڑی تفصیل سے ذکر ہوا ہے،جس میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ رحمِ مادر میں پورا جسم بننے کے بعدبچہ  کی عمر،رزق،موت اور بدبخت یا نیک بخت ہونے کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور پھر آخری مرحلہ زندگی کے آثار شروع ہونے  یعنی رُوح  ڈالنے کا آتا ہے۔

رحمِ مادر میں تبدیلی کے مراحل اور زندگی کے آثار شروع ہونے کے حوالہ سے جو  روایات آئی ہیں اُن سے دو طرح کے فہم لیے گئے ہیں،ایک فہم کے مطابق یہ مراحل چار (۴)ماہ میں پورے ہوتے ہیں  اور پھر زندگی کے آثار شروع ہوجاتے ہیں،یہ فہم قدیم فقہاء و اطبّاء کا ہے،جب کہ دوسرے فہم  کے مطابق یہ مراحل چالیس(۴۰)  سے پینتالیس(۴۵) دنوں میں ہی پورے ہوجاتے ہیں اور پھر زندگی کے آثار شروع ہوجاتے ہیں اور یہ فہم بعض جدید فقہاء و اطبّاء کا ہے۔

سندھ میں رائج رسوماتِ نکاح کا شرعی جائزہ

آج کل بھی معاشرے میں بہت سارے ایسے احکامات پائے جاتے ہیں جن کا دارومدار عرف  اور عادت پر ہے  اور ان میں سے کچھ شریعت کے مطابق ہیں  اور کچھ کو شریعت اسلامی تسلیم نہیں کرتی۔لیکن سندھ میں نکاح سے متعلق چند ایسے عرف وعادات  اور رسومات پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں الجھن موجود ہے کہ یہ رسومات شریعت کے موافق ہیں یا شریعت کے مخالف ہیں۔او رکچھ ایسی بھی نکاح سے متعلق رسومات ہیں جن پر لوگ آباء واجداد کے عمل کرنے کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہیں لیکن ان میں غالب پہلو شریعت کی مخالفت کا ہو تا ہے،خاص طور پر سندھ میں  ایسی رسوماتِ نکاح  ہیں جو شریعت کے عام اصولوں کے مخالف ہیں  اور لوگ ان پربغیر  کسی جھجھک کے  عمل پیرا ہیں،ان رسومات میں فضول خرچی کی جاتی ہے  اور اس کے علاوہ  شریعت کے قوانین کی کھلے عام مخالفت کی جاتی ہے،ان رسوماتِ نکاح میں مرد  اور عورت کے درمیان کوئی تباین نہیں پایا جاتا،بلکہ مرد  اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے

اس تحقیقی تحریرکا مقصد لوگوں  اور معاشرے کی تربیت  اور اصلاح ہے تاکہ ان فضول رسومات  میں وقت  اور پیسہ صرف کرنے کے علاوہ کسی اچھے کام میں  صرف کیا جائے اور اللہ  اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی کو مول نہ لیا جائے  اور شرعی اصولوں کی پاسداری کی جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے  اور ان غلط رسومات سے بچائے۔اٰمین۔

ملازمت پیشہ خواتین کادائرہ کار اور دورانِ ملازمت پردہ کےاحکام

عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

کوہستان میں خواتین سے متعلق رسومات کا شرعی جائزہ

آج کل بھی معاشرے میں بہت سارے ایسے احکامات پائے جاتے ہیں جن کا دارومدار عرف  اور عادت پر ہے  اور ان میں سے کچھ شریعت کے مطابق ہیں  اور کچھ کو شریعت اسلامی تسلیم نہیں کرتی۔لیکن سندھ میں نکاح سے متعلق چند ایسے عرف وعادات  اور رسومات پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں الجھن موجود ہے کہ یہ رسومات شریعت کے موافق ہیں یا شریعت کے مخالف ہیں۔او رکچھ ایسی بھی نکاح سے متعلق رسومات ہیں جن پر لوگ آباء واجداد کے عمل کرنے کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہیں لیکن ان میں غالب پہلو شریعت کی مخالفت کا ہو تا ہے،خاص طور پر سندھ میں  ایسی رسوماتِ نکاح  ہیں جو شریعت کے عام اصولوں کے مخالف ہیں  اور لوگ ان پربغیر  کسی جھجھک کے  عمل پیرا ہیں،ان رسومات میں فضول خرچی کی جاتی ہے  اور اس کے علاوہ  شریعت کے قوانین کی کھلے عام مخالفت کی جاتی ہے،ان رسوماتِ نکاح میں مرد  اور عورت کے درمیان کوئی تباین نہیں پایا جاتا،بلکہ مرد  اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے

اس تحقیقی تحریرکا مقصد لوگوں  اور معاشرے کی تربیت  اور اصلاح ہے تاکہ ان فضول رسومات  میں وقت  اور پیسہ صرف کرنے کے علاوہ کسی اچھے کام میں  صرف کیا جائے اور اللہ  اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی کو مول نہ لیا جائے  اور شرعی اصولوں کی پاسداری کی جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے  اور ان غلط رسومات سے بچائے۔اٰمین۔

مناھج المستشرقین البحثیۃفی دراسۃالقرآن الکریم‘‘ للدکتورحسن عزوزی

بنک کاسود شرعی نقطہ نظر سے

عدالتی نکاح کےبڑھتےرجحانات فقہی اور سماجی پہلو شرعی اور عدالتی فیصلوں کا جائزہ

کوئی فرد بھی معاشرے میں دوسرے کے مفاد کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی من ومرضی نہیں کرسکتا ، مرد اور عورت کا جنسی تعلق درحقیقت انسانی تمدن کے سنگ بنیاد ہے اور کوئی عورت یا مرد اس قانون کے دائرے سے خارج نہیں ہوسکتا جو اس تعلق کو منضبط کرنے کے لیے بنایا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر جوان ہے تو خود اس کو ایک شریک زندگی سے واسطہ پڑے گا چونکہ انسان کی تمدنی زندگی کا آغاز عقد ازدواج سے ہوتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ان میں ایک صورت اس رشتے کی ہے جس میں متعاقدین اولیاء کی مرضی کے بغیر اپنی مرضی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں لیکن اس طرح کی شادی پر ہمارے معاشرے میں رد عمل افراط وتفریط کا ہوتا ہے زیر تحریر مقالے میں اس طرح کی شادی کی حیثیت میں اسلام پاکستانی قوانین کی روشنی میں واضح کرنا مقصود ہے ۔ 

مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ھیکہ ہمارے معاشرے میں نکاح کے لئے لڑکی کی اجازت اور رضامندی  رائے نہیں لی جاتی اور اگر لی بھی جاتی ھے تو وہ بس ایک رسم کے طور پر جوکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔تو وہ مظلوم بچاری والدین کے عزت کی خاطر دل پہ پتھر باندھ کراتنی بڑی قربانی قبول کر لیتی ہےکیونکہ وہ ایک ایسے سماج کی بیٹی ہے  جہاں اسے اولیاء کے خلاف  اعتراض کرنےکا کوئی حق نہیں ہوتا۔پھراس قسم کی  انجام پانے والی شادیاں کچھ عرصے کے اندر ہی بڑے المیے کا شکار ہوجاتی ہیں۔

اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنی اس تحریری مقالے کا عنوان ‘‘عدالتی نکاح کے بڑھتے رجحانات فقہی اور سماجی پہلواور عدالتی فیصلوں کا جائزہ’’ کا انتخاب کیا ہے ، اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ میری چھوٹی سی اس کاوش کو اپنے بارگاہ میں  قبول فرمائےگا ۔۔۔۔۔۔اور اسکے ساتھ ساتھ دعا گو ہوں کہ اسکو ہمارے ملک کیلئے اصلاح کا ذریعہ  بنائے ۔۔۔۔۔آمین۔

انسانی حقوق اور حق آزادی کے تناظر میں میرا جسم میری مرضی کا نعرہ:شرعی جائزہ

آج کےدور میں عورت کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ شور مچایا جارہاہے مظاہرےکئے جا رہے ہیں کہ عورت کو حقوق دئیے جائیں، اسلام نے جو حقوق انہیں دئیے ہیں ان کے اوپر مختلف قسم کے اعتراضات اُٹھائے جاتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو عورت سے بالا تر سمجھا ہے، عورت کی بہ نسبت مرد کو زیادہ حقوق دئیے گئے ہیں، جبکہ عورت کو گھروں میں بند رہنے کا حکم دیا ہے۔لیکن ااسلام نے جہاں مردوں کو حقوق دئیے ہیں وہاں عورتوں کو بھی حقوق دئیے ہیں،لیکن ہر ایک کے لئے حدود مقرر کئے گئےہیں کہ ان حدود سے تجاوز نہ کریں۔ اب ہر ایک مرد  اور عورت کو اپنے دائرے میں رہ کر اسلام کے احکامات کی پابندی کر تے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے۔اسلام نے عورتوں کی حق آزادی کے جو حدود مقرر کیے ہیں وہ اعتدال پر مبنی ہیں، مرد کو معاشرے کا مصلح بنایا ہے تو عورت کو گھر کا مصلح  بنایا ہے، مرد اپنی استطاعت اور اللہ کے بھیجے ہوئے دین کی روشنی میں معاشرے کی اصلاح کرتا ہے اور عورت دین اسلام کی روشنی میں گھر کی اصلاح کرتی ہے۔عورت کا معاشرے کو مصلح افراد فراہم کرنے میں بھی بڑا کردار ہے۔ماں کی گود بچے کے لئے پہلا درس گاہ ہوتی ہے ،یہاں سے بچے کو صحیح تربیت ملے تو مصلح معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اگر پہلی درسگاہ میں اسے صحیح تربیت نہ ملے تو فاسد معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے، چنانچہ اسلام نے دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ذمہ داریاں نبھانے کا پابند بنایا ہے ۔

 اس مقالہ میں  اسلام میں حق آزادی  کے تصور کی تفصیل کے ساتھ  وضاحت کی گئی ہے اور  انسانی حقوق کی آڑ  میں  جو میرا جسم میری مرضی کے نعرے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ۔

گستاخ رسول کی سزا قرآن و حدیث،فقھاء کرامؒ کی آراء اور ملکی قانون کی روشنی میں ایک تجزیاتی مطالعہ:

 رحمت دوعالمﷺ     کی طرف سے           توہین رسالت کے       مرتکب  مرد وزن                کے لئے  سزائے موت سے کم پر راضی نہ ہو نا  اس بات کی دلیل ہے     کہ               توہین رسالت     کے مجرم      کی کوئی اور    سزا    ہے ہی      نہیں ،ورنہ ایسے لوگوں کے لئے  اللہ تعالی    اور رسول خداﷺ کی رحمت  سے کچھ حصہ مل ہی جاتا ۔

گستاخ کے لئے آپﷺ  نے یہ   سخت سزا اس لئے تجویز   فرمائی   کہ وہ بیک وقت  کئی  گستاخیوں کو       سرانجام دے رہا ہوتا ہے ،  اس لئے جو شخص                  شان رسالت میں                      گستاخی             کرتا ہے     تو درحقیقت                 وہ اللہ کی شان میں              گستاخی کا مرتکب ہو رہا  ہے            کیونکہ آپﷺ     کو اللہ    ہی   نے رسول بنا کر               بھیجا   ہے    ،اس طرح وہ دین  اسلام        کی    توہین                  کا مرتکب     ہو رہا ہے                 ،کیونکہ اسلام        تو اتباع     رسول ہی کا نام         ہے،اس طرح وہ تمام انبیاء علیہم السلام        کی تو ہیں  کا     ارتکاب              کر رہا ہے ،کیونکہ  تمام  انبیاءعلیہم السلام  نے   نبوت     محمدی         کا اقرار      کیا                 تھا ،اور  وہ توہین رسالت       کا  ارتکاب    کر کے   ایک ارب سے زائد         مسلمانوں     کے      عقیدے         اور ایمان     کو للکار رہا ہے ۔

لہذا قرآن وحدیث  کے رو سے  مرتکب گستاخی کا سزا  قتل ہی ہے اور اس کے لئے   معافی تلافی  کی کوئی صورت     نہیں ۔  اسی طرح تو ہین رسالت   کے   مجرم کے سزائے موت کا قانون  ملکی آئین    کا حصہ ہے  اور یہ    وہ قانون ہے    جسے دونوں ایوانوں   (سینٹ اور قومی اسمبلی )سے  متفقہ  طور پر   منظور کیا گیا ہے  ،یہ قرار داد ۲جون ۱۹۹۲ء   قومی اسمبلی میں پاس ہوئی تھی   اور ملکی آئین کا حصہ بنی ہوئی ہے ۔

توہین رسالت کی سزا فقہ اور قانون کی روشنی میں

رسول اللہ ﷺ کی عزت وحرمت ایک مسلمان کیلئے سب سے بڑی متاع ایمان  ہے مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن محبوب خدا ، شافع روز جزا  حضرت محمد ﷺ کی شان میں ادنی بے ادبی  وگستاخی اس کیلئے ناقابل برداشت ہے اور اس گئے گزرے  دور میں بھی مسلمان سرکار دو عالم ﷺ کی عزت وحرمت پر کٹ مرنے کیلئے  تیار ہے  اور ایسے موذیوں کے  مقابلے میں  سچے محب رسول ﷺ  کا کردار ادا کرسکتا ہے  ۔ یہ ایک حقیقت ہے  کہ جہان ہر  دور اور  ہر عہد میں  اس محبوب کائنات کے حضور ان کے چاہنے والے عقیدت ومحبت کے گلاب پیش کرتے رہے وہاں  کبھی کبھی ان سے بغض  اور ان کے دین سے  عداوت  رکھنے والے بیمار ذہن  ان کی شان میں  زبان  طعن بھی دراز کرتے رہے   تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اوائل  اسلام ہی سے اہانت رسول ﷺ  کی جرم قبیح کا ارتکاب کرنے والوں کو موت کی سزا دی جاتی رہی ہے ۔

اج کل  کے دور میں لوگ مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں  پھر ان لوگوں کو قتل  کی سزا سے  بچانے کیلئے مختلف  تاؤیل  اور حیلے   اختیار کئے جاتے ہیں اور یہ آراء پیش کی جاتی ہیں  کہ شریعت میں  کہیں بھی  توہین رسالت کی سزا مقرر نہیں ہے  اسی وجہ سے  اس موضوع  کی اہمیت اور ضرورت بہت زیادہ ہے   اسی حوالے سے زیر بحث موضوع کا انتخاب کیا ہے

ڈیرہ بگٹی میں پائی جانے والی رسوماتِ نکاح کا شرعی جائزہ

شریعت مطہرہ میں انسانیت کو زندگی کے کسی پہلومیں بھی بغیر راہنمائی کے نہیں چھوڑا ہے اسلام میں زندگی کے متعلق تمام امور کا تذکرہ بھی موجود ہے اور ان امور کو سرانجام کس طرح دینا چاہئے ؟اس کا تذکرہ بھی موجود ہے،اور یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے اور یقین ہے کہ واقعتاً اسلام میں زندگی کے تمام پہلؤوں کے بارے میں راہنمائی موجود ہے اس لیے کہ اسلام دین فطرت ہے اس میں جہاں زندگی کے دوسرے پہلؤوں میں ہرقسم کی راہنمائی دی گئی ہے وہاں معاشرتی اور ازواجی زندگی کے حوالے سے بھی تعلیمات موجود ہیں اور اس میں شریعت کے اپنے اصول ہیں یہ اصول بالکل سادہ و سہل ہیں کوئی پیچدگی اور تکلفات نہیں ہیں ہاں البتہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ معاشرتی اثرات کو قبول کرتا ہےدوسری طرف اسلام کا تقاضہ یہی ہے کہ بندہ مومن اپنے تمام امور کو شریعت مطھرہ کے صاف شفاف چشمے سے حاصل کرے اس کے علاوہ جو رسم و رواج شریعت  کےخلاف ہوں وہ متروک ہونگے اور جو شریعت سے متصادم نہ ہوں  بلکہ مطابق ہوں تو جائز ہوں گے، اب ڈیرہ بگٹی میں  بلوچی رواج کے نام سے جو رسم منگنی سے رخصتی تک کیے جاتے  ہیں اس میں ایک دیندار انسان شش و پنج میں رہتاہے کہ کیا یہ بلوچی یا  رندی  رواج کے نام سے جو رسومات ہم  بڑی پابندی کے ساتھ سر انجام دے رہے ہیں آیا یہ شریعت مطھرہ کی روسے جائز بھی ہیں کہ  نہیں ؟

غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کی شرعی حیثیت

عصر حاضر میں  عامۃ الناس کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیرمسلموں کے تہواروں میں شرکت کے حوالے سے اسلا م کیا راہنمائی  کرتا ہے ؟اسی طرح بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام دیگر مذاہب کی خوشیوں میں اپنے متبعین کو شرکت سے کیوں منع کرتا ہے ؟اس کے  اسباب کیا ہیں ؟ کیونکہ  کافروں سے اظہار دوستی کا ایک  مظہر یہ بھی ہے کہ ان کے تہواروں میں شرکت کیا جائے۔

اس مقالے میں ان سوالات کے تفصیل کے ساتھ جواب دینے  کی پوری کوشش  کی جائے گی تاکہ  مسلم معاشرے کے عام وخاص فرد کے ذہن میں غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت سے متلعق  اسلام کی درست تعلیمات واضح ہوسکے ۔ لیکن اس مقالے کے اندر خصوصی طور پر وہ مشہور تہواروں پر بحث پیش کی جائے گی ،جو ملک پاکستان    میں منائی جاتی ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کریں ۔اللہ رب العز ت اس ادنی سی کوشش کو قبول فرمائے ،اور ہمیں اپنی دشمن کو دشمن ہی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔