تمہید
الحمد لله رب العالمين والصلوۃ والسلام علی رسوله الکريم امابعد:
تمام تعریفات اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہیں جس نے پوری کائنات کو تخلیق کیا ،اس کی ذات وصفاتاور ملکیت میں کوئی شریک نہیں وہ یکتا ہے۔ اور درود وسلام ہو نبی امیٍ محمد ﷺ پر کہ جن کے ذریعے سےہم تک اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اسلام پہنچااور اللہ کی رحمتیں نازل ہوں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر جنہوں قرآن وسنت کی تعلیم کو قول اور عمل کے ذریعے دنیا کے ہر کونے تک پھیلایا۔
انسانی زندگی کی تعمیر اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ رب العالمین نے انبیاء کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتابیں بھی نازل کیں ،ان میں انسانوں کی ہدایت کے لیے احکامات متعین کیے اور صراحتاً حلال اور حرام اشیا کو بیان کیا ،تاکہ اہل ایمان بالخصوص اور پوری انسانیت بالعموم حلال اختیارکرےاور حرام سے اجتناب کریں ۔
سود کی حرمت بھی احکامات الہی میں شامل ہے اور قرآن مجید میں سود میں مبتلا شخص کے حوالے اللہ نے بہت سخت وعیدیں سنائیں ہیں۔موجودہ دور میں عالمی سطح پر سودی لین دین کی صورت میں معاملات کو طے کیا جاتا ہے ۔اسی طرح بینک سرمایہ دارسےکچھ شرح سودپرقرض لےکراپنےگاہک(costumer)کوشرح سودپرقرض پردیتے ہیں اوراس طرح بینکاری معیشت کاپوراسسٹم سودپرکھڑاہے۔
انیسویں صدی میں سود کی حرمت کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے گئے کہ قرآنی آیات میں جو سود حرام قراردیا گیا ہے اس کا دائرہ کار کیا ہے ؟آیا اس حکم میں کوئی تخصیص ہے ؟اور یہ بھی کہاگیا کہ سود کی صرف وہ صورت حرام ہے جواستحصالی(ضروریات زندگی کے لیے جانے والے قرض پر سود) ہو ۔یہ وہ بنیادی اشکالات تھے جس کی بنا پر دو طبقات سامنے آئے ۔
جمہور علما کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مطلقاً ربا حرام ہے ،یعنی ہر وہ زیادتی جو اصل پربطورسودلی جائےحرام ہے ۔
دوسرا طبقہ جن کی تعداداگر چہ قلیل ہے ان کا نقطۂنظریہ ہے کہ قرض پرلیےجانے والےسود کی صرف وہ صورت حرام ہے جو استحصالی ہو اس کے علاوہ ہر صورت جائز ہے ۔اس مقالے میں اسی پہلو پر گفتگوکی گئی ہےکہ آیا یہ نقطۂنظرشریعت کے مطابق ہےیا اس میں کوئی جھول ہے۔
اس مقالے میں چار فصلیں ہیں جن کی ترتیب یہ ہے۔
فصل اول: سود کے بنیادی مباحث
فصل دوم: بینکاری کی تاریخ اور اس کے سودی کاروبار کی وضاحت
فصل سوم : بینکاری کے سود کے جواز اور عدم جواز کے قائلین کے دلائل
فصل ثالث : مجمعات فقہیہ کی بینک کے سود کی حرمت پر قرارداد
فصل رابع ۔ دلائل کا موازنہ ،ترجیح اور وجوہِ ترجیح
اہمیت وضرورت
دورِ حاضر میں معاشرے میں سود کی وبا تیزی سے سرایت کرتی جارہی ہے ۔اور تجارت کی ایسی جدیدشکلیں پیش کی جاتیں ہیں کہ جن کا سِرا بالآخر ربا سے جاملتا ہے ۔اوراس طرح تجارتی سود بھی ایک وباکی صورت میں دن بدن عام ہوتا جارہا ہے۔تجارتی سود کےجوازکےحوالےسےایک گروہ ہے جو قرآنی آیات کی تفسیر عقل کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔اور دوسرا گروہ جمہور علما کا ہے جو اس کی حرمت کے قائل ہیں ۔اور یہ بحث دونوں طبقوں میں جاری ہے ۔اس صورت حال میں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ دونوں طبقات کے دلائل کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اور حقیقی صورتحال کو واضح کیا جائے تاکہ اسلام کی درست تعلیمات پر عمل کیا جاسکے ۔
سابقہ تحقیقی کا م کاجائزہ
زیرِ بحث موضوع پر جواز اور عدمِ جواز دونوں پہلؤوں پر لکھا گیاہے۔اس سلسلےمیں چند قابل ذکر کتابیں اوران کا مختصر تعارف درج ذیل ہے ۔
1۔فوائد البنوك هي الربا
یہ کتاب عرب دنیا کے مشہور عالم ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں موصوف نے سود کی حرمت پر ہونے والے تمام شبہات کا تفصیلاً جائزہ لیا ہے ،اور ان شبہات کے جوابات بھی دیے ہیں۔مصنف نے اس کتاب میں قرآن وحدیث سے ثابت کیا ہے کہ بنک کا سود حرام ہے ۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ ڈاکٹر عتیق ظفر صاحب نے کیا ہے اور اس کو I.P.S نے شایع کیا ہے ۔
2۔سود
یہ کتاب مولاناسید ابوالاعلیٰ مودویؒ کی ہے جنہوں نے اہل مغرب اور ان سےفکری طو پرمتاثرہونےوالوں کے تمام شبہات کو نقلی اور عقلی دلائل سےدور کیا ۔اس کتاب میں موصوف نے تجارتی سود کے حوالے سے تفصیلاً بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ تجارتی سود حرام ہے اور کی مثالیں عہد نبویﷺ میں بھی موجود تھیں ۔
3۔بحث ِربا
یہ کتاب استاذابو زہرہ کی ہے جن کا شمار مصر کےمشہور علمامیں ہوتا ہے ۔اس کتاب میں موصوف نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ سود مطلقاً حرام ہے۔ اس کا اردوترجمہ ساجدالرحمٰن صدیقی کاندھلوی نے کیا ہے اورادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے شایع کیا ہے۔
4۔سود پر تاریخی فیصلہ
یہ کتاب مفتی محمد تقی عثمانی کی ہے ۔موصوف نے اس کتاب میں سود کی حرمت پر ہونے والے تمام شبہات کا جواب دیا ہے اور اس بات کو دلائل سے ثابت کیا ہے کہ بنک کا سود حرام ہے ۔
5۔اسی طرح سرسید احمد خان نے اپنی تفسیر قرآن عظیم میں بینک کے سود کو جائز قرار دیا ہے اور اس پر عقلی دلائل پیش کیے ،مولانا جعفر شاہ پھلواری نے اس عنوان پر مستقل کتاب ‘‘کمرشل انٹرسٹ کی فقہی حیثیت ’’کے نام سے تصنیف کی جس میں عقلی دلائل سے اس کا جواز کا ثابت کیا ۔
واضح رہے کہ مذکورہ کتب میں مختصراً معترضین کے شبہات کا ذکر ہے ۔اس مقالے میں مجوزین کے دلائل تفصیلاًان کی کتب سے نقل کیے گئے ہیں۔
بنیادی سوال
• کیا مطلقاً سود حرام ہےیااس میں تخصیص ہے ؟
• کیا تجارتی سود عہدنبویﷺ میں ہوتا تھا؟
• کیا فریقین کی رضامندی سود کو جائز کرسکتی ہے ؟
• کیا سود کی علت استحصال ہے ؟اگر فریقین میں کسی پر ظلم کا احتما ل نہ ہو تو سود کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے ؟
مقاصدِ تحقیق
• حرمتِ سود پر کیے جانے والے شبہات کا جائزہ
• قائلین جواز سود کے دلائل کا جائزہ
تحقیق کا طریقۂ کا ر
• قرآن کی آیات ،احادیث
• فقہی آراء
• معاصر علما کی آراء
• فقہ اکیڈمیز کی قراردادیں
فصل اول
سود کا مفہوم
سود کا لغوی مفہوم:
ربا الشئ يربو,اي زاد ونما قال تعالى: وير بى الصدقات
ربا الشئ يربو ربوا، أي زاد. والرابِيَةُ: الرَبْوُ، وهو ما ارتفع من الارض.
الربا في اللغة: الفضل والزيادة، يقال: ربا الشيء يربو ربا وربوا أي: زاد.
تمام اہل لغت نے ربا کالغوی مفہوم ایک ہی بیان کیا ہے کہ مطلقاً اضافے اور بڑھوتری کو ربا کہا جاتا ہے ۔۔قرآن مجید میں اسی معنی میں لفظ ربا استعمال ہوا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ۔ البقرۃ /271ترجمہ:اور وہ صدقات میں اضافہ کرتا ہے ۔
سودکی اصطلاحی تعریف
امام سرخسی ؒحنفی ‘‘کتاب المبسوط’’میں ربا کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الرِّبَا : هُوَ الْفَضْلُ الْخَالِي عَنْ الْعِوَضِ الْمَشْرُوطِ فِي الْبَيْعِ
ترجمہ:بیع میں مشروط عوض کے بدلے اضافہ طلب کرنے کانام ربا ہے ۔
امام رملی (جوشافعیہ کے مشہور امام ہیں )نے سود کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : عَقْدٌ عَلَى عِوَضٍ مَخْصُوصٍ غَيْرِ مَعْلُومِ التَّمَاثُلِ فِي مِعْيَارِ الشَّرْعِ حَالَةَ الْعَقْدِ أَوْ مَعَ تَأْخِيرٍ فِي الْبَدَلَيْنِ أَوْ أَحَدِهِمَا
ترجمہ: مخصوص عوض کے بدلے میں ایسا عقد جس میں شرعی معیار پر اس کا متبادل دونوں طرف سےیا کسی ایک میں نہ عقد کرنے کے دوران اور نہ ہی تاخیر سے معلوم نہ ہو ۔
مالکیہ کے مشہور امام علامہ ابن العربی نے احکام القرآن میں ربا کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
وَالرِّبَا فِي اللُّغَةِ هُوَ الزِّيَادَةُ ، وَالْمُرَادُ بِهِ فِي الْآيَةِ كُلُّ زِيَادَةٍ لَمْ يُقَابِلْهَا عِوَضٌ۔
ترجمہ :ربا لغت میں بڑھوتری /اضافے کو کہا جاتا ہے ،اور آیت میں ربا سےمراد ہر وہ اضافہ ہے جس کے مقابلے میں کو ئی عوض نہ ہو ۔
ابن قدامہ حنبلی ‘‘ المغنی ’’میں سود کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الزِّيَادَةُ فِي أَشْيَاءَ مَخْصُوصَةٍ.
ترجمہ :مخصوص اشیاء میں اضافے کو ربا کہا جاتا ہے ۔
مذکورہ تعریفات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ربا اس زیادتی کا نام ہے جوبغیر کسی عوض کے وصول کیا جائے ۔
سود کی اقسام
۱۔ ربا النَّسِيئَةِ /ربا القرآن ۲۔ربا الفضل /ربا السنہ
1۔ رِبَا الْفَضْل : فَضْلٌ خَالٍ عَنْ عِوَضٍ بِمِعْيَارٍ شَرْعِيٍّ مَشْرُوطٍ لأِحَدِ الْمُتَعَاقِدَيْنِ فِي الْمُعَاوَضَةِ
ترجمہ:وہ زیادتی جو مشروط شرعی معیار کےمطابق متعاقدین میں سے کسی ایک معاوضہ میں کسی عوض کے مقابلے میں نہ ہو۔
ربا النسیئہ کی تعریف : وَهُوَ : فَضْل الْحُلُول عَلَى لأْجَل ، وَفَضْل الْعَيْنِ عَلَى الدَّيْنِ فِي الْمَكِيلَيْنِ أَوِ الْمَوْزُونَيْنِ عِنْدَ اخْتِلاَفِ الْجِنْسِ ، أَوْ فِي غَيْرِ الْمَكِيلَيْنِ أَوِ الْمَوْزُونَيْنِ عِنْدَ اتِّحَادِ الْجِنْسِ
ترجمہ:وہ اضافہ جو مدت کے مقابلے میں وصول کیا جائے اور قرض کی اصل رقم پر اضافہ اختلاف جنس کی صورت میں موزونی اور مکیلی اشیاء میں ،یا غیر موزونی یاغیر مکیلی اشیاء میں اتحاد جنس کی صورت میں ۔
خلاصہ یہ ہےکہ ربا کی دو اقسام ہیں ۱۔ربا النسیئہ ۲۔ربا الفضل
ربا النسیئہ کو ربا القرآن ،ربا الخفی بھی کہا جاتا ہے ۔اور ربا الفضل کو ربا الحدیث اور ربا الخفی بھی کہا جاتا ہے ۔
سود کی حرمت کے احکام یک بارگی اللہ نے نازل نہیں فرمائے بلکہ شراب کے احکام کی طرح سود کے احکام بھی تدریجاًنازل ہوئے۔
سودقرآن کی روشنی میں
سود کی حرمت میں قرآنی آیات
۱۔پہلی آیت سورۃ الروم کی ہے جو مکی سورۃ ہے جس میں سود کی قباحت بتائی گئی اور اہل ایمان کو اس امر کی طرف راغب کیا گیا کہ سود کوئی اچھی چیز نہیں ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ.
ترجمہ:‘‘اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہوکر وہ بڑھ جائے ،وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا،اور جو زکوۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو اسی کےدینے والے درحقیقت اپنے مال کو بڑھاتے ہیں ’’۔
۲۔دوسری آیت سورۃ النساء کی ہے جو مدنی سورۃ ہے ۔اس آیت میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہود کی تباہی کاسبب یہ کہ وہ سود کھاتے تھے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا.
ترجمہ :‘‘یہ سزا اس وجہ سے دی گئی تھی کہ یہ لوگ(یہود) سود لیتے تھے حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور اس وجہ سے بھی کہ یہ لوگ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ’’۔
۳۔تیسری آیت سورۃ آل عمران کی ہے جس میں بڑھا چڑھا کر سود لینے سے منع کیا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
ترجمہ :اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو مت کھاؤ سود کئی گنابڑھاکر اور اللہ سے ڈروتاکہ تم فلاح پا ہوجاؤ۔
۴۔چوتھے اور آخری مرحلے پر سورۃ البقرۃ میں سودی لین دین سے قطعاً روک دیا گیا اور سودی لین دین سے باز نہ آنے کی صورت میں اللہ نے وعید سنائی ہے کہ ایسی صورت میں اللہ اور اس کےرسول ﷺ کے ساتھ جنگ کرنےکے لیےتیار رہو۔
وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
ترجمہ:اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے پس جس کو بھی یہ نصیحت پہنچ گئی اس کے رب کی جانب سے اور وہ باز آگیا تو جو کچھ پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا ہے ۔اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو کوئی دوبارہ پلٹ جائے توایسے لوگ دوزخ والے ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔اللہ سود سے برکت مٹادیتا ہے اور صدقات بڑھادیتا ہے اوربیشک اللہ ہر ناشکرے اور گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔اے لوگو!جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ باقی ہو سود میں سے اگر تم مؤمن ہو پس اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو خبردار ہوجاؤ جنگ کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اور اگر تم نےتوبہ کرلی تو تم کو اصل مال ملے گانہ تم ظلم کروگے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا ۔.
سود کی حرمت احادیث کی روشنی میں
ربا کی دو نوں اقسام رباالنسیئہ اور ربا الفضل کی حرمت پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے ۔ رباالنسیئہ کی حرمت قرآن مجید سے ثابت ہے جس کو ربا الجاہلیہ بھی کہا جاتا ہے ۔رباالفضل کی حرمت احادیث النبویہ سے ثابت ہے۔ربا الفضل کو رباالحدیث بھی کہا جاتا ہے ۔
عن أبي بَكْرَةَ رضي اللهُ عنه قال: قال رسول اللهِ – صلى الله عليه وسلم -:”لا تَبيعوا الذَّهَبَ بالذَّهَبِ؛ إلا سَواءً بسواءٍ، والفضَّةَ بالفضَّةِ؛ إلا سَواءً بسواءٍ، وبيعوا الذَّهَبَ بالفضَّةِ، والفِضةَ بالذَّهبِ كيف شئتُمْ”.
ترجمہ:حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :سونے کو سونے کے بدلے نہ فروخت کرومگر یہ کہ برابربرابر ہو،اور چاندی کو چاندی کے بدلے فروخت مت کرو مگریہ کہ برابربرابر ہو،اور سونے کو چاندی کے بدلے میں اور چاندی کو سونے کے جیسے چاہو فروخت کرو۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ، إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ، إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِز.
ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سونے کو سونے کے بدلے فروخت نہ کرومگر جیسے کا تیسا ہو،کوئی کسی کو زیادہ نہ دے ،اور چاندی کو چاندی کے عوض نہ بیچو مگر برابر ہو اور غائب کا تبادلہ حاضر سے کرو۔
قَالَ النبيﷺ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ »
ترجمہ:نبی اکرم ﷺ نے سود کھانے اور اس کوکھلانے والےپر لعنت کی ہے ۔
سود کی حرمت پر اجماع
مالکیہ کے مشہور امام ابن عبد البر ؒ نے سود کی حرمت کا اجماع نقل کیا ہے ۔ابن عبد البر لکھتے ہیں :
‘‘ وقد اجمع المسلمون نقلا عن نبيهم صلى الله عليه و سلم أن اشتراط الزيادة في السلف ربا ولو كان قبضة من علف أو حبة۔’’
ترجمہ:‘‘مسلمانوں نے اپنے نبی ﷺسے منقول روایات کی بناپر اجماع کرلیا ہے کہ قرض کے اصل مال پر اضافے اور زیادتی کی شرط لگانا سود ہے ،اگر چہ یہ اضافہ ایک مٹھی گھاس (جانوروں کا چارہ ) ہو یا ایک دانہ ہو ’’۔
سودی معاملات کی قباحت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عہد نبویﷺ سے لےکر اب تک مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ قرض کی اصل رقم پر اضافہ سود ہے حتیٰ کہ ایک دانہ بھی اضافی طلب کرنا سود ہے ۔
حرمتِ سود کی علت فقہاکی نظر میں
ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس حدیث میں آپ ﷺ نے جن چھ اشیا ء کا تذکرہ کیا ہے حرمت صرف ان اشیاء تک محدود نہیں ہے ،بلکہ ان میں جو علت موجود ہے اگروہ علت دیگر اشیاء میں پائی گئی توان پر بھی حرمت کا حکم لگایا جائے گا ۔
اسی بات کی طرف امام سرخسی ؒ نے اشارہ کیا ہے :
اتَّفَقَ فُقَهَاءُ الْأَمْصَارِ – رَحِمَهُمُ اللَّهُ – عَلَى أَنَّ حُكْمَ الرِّبَا غَيْرُ مَقْصُودٍ عَلَى الْأَشْيَاءِ السِّتَّةِ، وَإِنَّ فِيهَا مَعْنًى يَتَعَدَّى الْحُكْمَ بِذَلِكَ الْمَعْنَى إلَى غَيْرِهَا مِنْ الْأَمْوَالِ۔
ترجمہ: فقہاےامصارنے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ربا کا حکم صرف ان چھ اشیاء پر ہی موقوف نہیں ہے بلکہ ان اشیاء میں جو علت موجود ہے جن اشیاء میں وہ علت پائی جائےگی ان میں بھی حرمت کا حکم ثابت ہوگا ۔
مسالک اربعہ کے فقہانے ان چھ اشیاء میں علت کا استنباط کیا ہے اور ہر امام نے مختلف علت مستنبط کی ہے ،جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
فقہاےاحناف
فقہااحناف کے نزدیک ان چھ اشیا میں حرمت کی علت جنس اور قدر ہے ۔جنس سے مراد یہ کہ بائع اور مشتری کے پاس ایک ہی جیسی چیز ہو جس پر وہ بیع کرنا چاہتے ہیں ۔امام سرخسی فرماتے ہیں :علت ِجنس کا استنباط حدیث کے الفاظ ‘‘الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ وَالْحِنْطَةُ بِالْحِنْطَةِ’’ سے کیا ہے ۔قدر سے مراد ناپ تول ،وزن ہے ۔علتِ قدر کا استنباط حدیث کے الفاظ ‘‘مِثْلًا بِمِثْلٍ’’ سے کیا ہے۔
فقہاے مالکیہ
مالکیہ کے نزدیک علت ِربا قوت (وہ اشیاء جو غذا کے لیے استعمال ہوتی ہیں )ادخار(وہ اشیاء جن کو ذخیرہ کی جاتا ہے )ہے ۔ ابن رشداسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:‘‘فالذي استقر عليه حذاق المالكية أن سبب منع التفاضل. أما في الأربعة: فالصنف الواحد من المدخر المقتات، وقد قيل: الصنف الواحد المدخر، وإن لم يكن مقتاتا، ومن شرط الادخار عندهم أن يكون في الأكثر،. وأما العلة عندهم في منع التفاضل في الذهب والفضة فهو الصنف الواحد أيضا مع كونهما رءوسا للأثمان وقيما للمتلفات، وهذه العلة هي التي تعرف عندهم بالقاصرة، لأنها ليست موجودة عندهم في غير الذهب والفضة’’.
ترجمہ:مالکیہ کے ماہرین فقہا اس نتیجے پر پہنچے کہ (چھ اشیاء میں )زیادتی کی وجہ چار چیزوں میں قوت وادخار ہے ،اور ایک قول یہ ہے کہ صرف (وہ اشیاءہیں )جن کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اگر چہ قوت (وہ اشیاء جو غذا کے لیے استعمال ہوتی ہیں)نہ ہو ،اور ان کے نزدیک ذخیرہ اندوزی کے لیے شرط یہ کہ وہ زیادہ ہو ، سونے اور چاندی میں اضافہ کے ساتھ بیع نہ کرنے کی وجہ ۔۔۔۔۔۔
فقہاے شافعیہ
امام شافعی ؒ سےحرمت کی علت کے حوالے سے دو روایت ہیں، قول ِقدیم یہ ہے کہ حدیث میں چار اشیاء (گندم،جوُ،کھجوراور نمک )میں علت طُعم اورکیل ہے ۔اورقولِ جدید یہ کہ چار اشیا میں طُعم ہے اور سونا اور چاندی میں ثمنیت ہے ۔
امام نوویؒ قول جدید کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
إنما يحرم الربا في المطعوم، والذهب، والفضة. فأما المطعوم، فسواء كان مما يكال أو يوزن، أم لا، هذا هو الجديد، وهو الأظهر. والقديم: أنه يشترط مع الطعم الكيل أو الوزن.
ترجمہ : ربا کی حرمت ان اشیا ء میں ہے جنہیں عام طورپر لوگ اپنی غذا کے لیےاستعمال کرتے ہیں اور سونااورچاندی میں بھی مطعوم اشیاء میں وہ سب مطعومات شامل ہیں جن کو وزن یا درجن کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہو ۔یہ جدید قول ہے اور یہی قول زیادہ راجح ہے ۔امام شافعی ؒ کےقدیم قول میں مطعوم اشیاءمیں وزن/ کیل کی شرط موجود ہے ۔
امام شافعی کے قدیم قول کے مطابق وہ مطعوم اشیاء جن کا وزن نہیں کیا جاتا اس میں ربا نہیں ہوگا ۔مثلاً:موجودہ دور میں کیلے ،نارنگی (سوائے کچھ علاقوں کے) انڈے وغیرہ ہیں ۔
فقہاےحنابلہ
ابن قدامہ ؒنے ربا کی علت کے حوالےسے‘‘المغنی ’’میں تین روایات نقل کی ہیں ۔
ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں :
وَلِأَنَّ قَضِيَّةَ الْبَيْعِ الْمُسَاوَاةُ،وَالْمُؤَثِّرُ فِي تَحْقِيقِهَا الْكَيْلُ، وَالْوَزْنُ، وَالْجِنْسُ، فَإِنَّ الْوَزْنَ أَوْ الْكَيْلَ يُسَوِّي بَيْنَهُمَا صُورَةً، وَالْجِنْسُ يُسَوِّي بَيْنَهُمَا مَعْنًى، فَكَانَا عِلَّةً،وَالرِّوَايَةُ الثَّانِيَةُ، أَنَّ الْعِلَّةَ فِي الْأَثْمَانِ الثَّمَنِيَّةُ، وَفِيمَا عَدَاهَا كَوْنُهُ مَطْعُومَ جِنْسٍ، وَالرِّوَايَةُ الثَّالِثَةُ؛ الْعِلَّةُ فِيمَا عَدَا الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ كَوْنُهُ مَطْعُومَ جِنْسٍ مَكِيلًا أَوْ مَوْزُونًا فَلَا يَجْرِي الرِّبَا فِي مَطْعُومٍ لَا يُكَالُ وَلَا يُوزَنُ، كَالتُّفَّاحِ وَالرُّمَّانِ،وَالْخَوْخِ،وَالْبِطِّيخِ، وَالْكُمَّثْرَى،وَالْجَوْزِ، وَالْبَيْضِ، وَلَا فِيمَا لَيْسَ بِمَطْعُومٍ، كَالزَّعْفَرَانِ، وَالْأُشْنَانِ، وَالْحَدِيدِ، وَالرَّصَاصِ، وَنَحْوِهِ.
ترجمہ :بیع کا قضیہ یہ کہ اس میں مساوات ہو اور مؤثر علت وہ کیل ،وزن اور جنس ہے ۔اس لیے کہ وزن اور کیل کے درمیان صورت برابری ہے اور جنس کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان برابری ہوتی ہے لہذا یہ دونوں علت ہیں ۔
2۔سونا اور چاندی میں علت ثمنیت ہے اور اس کے علاوہ میں جنس اور طعم ہے ۔
3۔ سونا اور چاندی کے علاوہ میں علت طعم ہے چاہے وہ اشیاء موزونی اور مکیلی ہوں ،اور جن اشیاء کو وزن نہیں کیا جاتا ان میں ربا کا حکم جاری نہیں ہوگا ۔جسے:سیب،انار،آڑو،تربوز،امرود،اخروٹ ،انڈے ۔اور نہ ان اشیاء میں جن کوکھایانہ جاتا ہو۔جیسے:زعفران،لوہا،وغیرہ
فصل ثانی
بینکاری کی تاریخ
مغربی ممالک سے بینکاری کی ابتدا ہوئی ۔پہلے زمانےمیں کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کیا کرتے تھے اور انہیں اپنے پاس رکھنے کے بجائے سُناروں کے پاس بطور امانت رکھوایا کرتے تھے سنار امانت داروں کو ردسید دے دیا کرتے تھے کہ جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اتناسونا فلاں سنار کے پاس ہے ۔
مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:‘‘پہلے زمانے میں لوگ اپنا سونا صرافوں کے پاس بطور امانت رکھتے تھے اور سنار اس کی رسید لکھ کر دیتے تھے۔ پھر رفتہ رفتہ ان رسیدوں سے ہی معاملات شروع ہوگئے۔ لوگ سونا واپس لینے کے لیے کم آتے تھے‘ تو یہ صورت حال دیکھ کر صرافوں نے سونا قرض دینا شروع کردیا۔ پھر جب یہ دیکھا کہ لوگ عموماً رسیدوں سے ہی معاملات کرتے ہیں تو صرافوں نے بھی قرض خواہوں کو سونے کے بجائے رسیدیں دینی شروع کردیں۔ اسی طرح بینک کی صورت پیدا ہوئی۔ بعد میں اس کو ایک منظم ادارے کی شکل دے دی گئی ’’
مولانا مودودی ؒ نے اپنی کتاب ‘‘سود’’ میں بینکاری کے ارتقاء کے تین مراحل ذکر کیے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے :‘‘مغربی ممالک میں اس کی ابتدا ہوئی اور پہلے کاغذ کے نوٹ نہ چلتے تھے تو لوگ زیادہ تر اپنی دولت سونے کی شکل میں جمع کیا کرتے تھے اور انہیں گھروں میں رکھنے کے بجائے حفاظت کی غرض سے سُناروں کے پاس رکھوادیا کردیتے تھے ۔سُنار ہر امانت دار کو اس کی امانت کی بقدر سونے کی رسید لکھ دیتا تھا جس میں اس بات کی تصریح ہوتی تھی کہ رسید بردار کا اتنا سونا فُلاں سُنار کے پاس محفوظ ہے ۔رفتہ رفتہ یہ رسیدیں قرضوں کی ادائیگی ،مالی معالات کے لین دین میں ایک آدمی سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہونے لگیں ۔ سُناروں کو اس بات کا تجربہ ہونے لگا کہ لوگوں کی امانتوں کا دسواں حصہ بمشکل نکلوایا جاتا ہے باقی 9 حصے ان کی تجوریوں میں بے کار پڑے رہتے ہیں۔انہوں نے سوچا کہ 9 حصوں کو کیوں نہ استعمال کیا جائے ۔چناچہ انہوں نے یہ سونا لوگوں کو قرض دے کر سود وصول کرنا شروع کردیا اور اس طرح استعمال کرنے لگے گویا وہ ان کی ملکیت ہے حالانکہ وہ لوگوں کی ملکیت تھی ۔مزید لطیفہ یہ کہ وہ سونے کے مالکوں سے اس کی حفاظت کا معاوضہ بھی وصول کیا کرتے تھے اور چپکے چپکے اسی سونے کو قرض پر چلاکر اس پر سود بھی وصول کیا کرتے تھے۔یہ پہلا مرحلہ تھا ۔
دوسرا مرحلہ :جس دور میں جدید ساہوکاری اس جعلی سرمایہ کاری سے طاقت پکڑ کر سر اٹھارہی تھی یہ وہی دور تھا جب مغربی یورپ میں ایک طرف صنعت اور تجارت سیلاب کی شدت کے ساتھ سر اٹھا رہی تھی اور تمام دنیا کو مسخر کیا چاہتی تھی ۔اس موقع پر ہر قسم کے معاشی اور تمدنی کاموں کو سرمائے کی حاجت تھی نئی صنعتیں اور تجارتیں اپنے آغاز کے لیے سرمایہ مانگ رہی تھیں۔اس وقت صرف دو ذرائع تھے جس سے یہ خون ِحیات اس تمدن جدید کے نوخیز شباب کی آبیاری کے لیے بہم پہنچ سکتا تھا ۔
۱۔وہ سرمایہ جو سابق سُناروں اور حال کے ساہُوکاروں کے پاس تھا ۔
۲۔وہ سرمایہ جو متوسط اور خوش حال طبقوں کے پاس ان کی پس انداز کی ہوئی آمدنیوں کی شکل میں جمع تھا ۔
اس صورتحال میں ساہوکاروں نے ایک ایسی چال چلی جس کے ذریعے سے لوگوں کا مکمل سرمایہ ان کے پاس منتقل ہوگیا اور وہ پہلے سے زیادہ قوی ہوگئے ۔وہ چال یہ تھی کہ جو لوگ کاروبار میں اپنا سرمایہ لگانا چاہتے تھے /کاروبار میں شراکت کا ارادہ رکھتے تھے ان کوسود کا لچ دے کر ان کا سرمایہ اپنی طرف کھینچ لیا جب سارا سرمایہ ان کی طرف منتقل ہوگیا تو وہ سرمایہ کی قوت سے مالا مال ہو گئے ۔وہ کم شرح سود پر سرمایہ لیتے تھے اور زیادہ شرح سود پر قرض دیا کرتے تھے یہ تھی وہ چال جس کی بنا پر تمام ادارے ان ساہوکاروں کے محتاج ہوگئے ۔
تیسرا مرحلہ:اس کے بعد اس گروہ نے تیسرا قدم اٹھایا اور اپنے کاروبار کو وہ شکل دی جسے اب جدید دور میں ساہوکاری کہاجاتا ہے ۔پہلے یہ لوگ انفرادی طور پر کام کرتے تھے پھر ان کو یہ سوجھی کہ جس طرح کاروبار کے تمام شعبوں میں کاروبار کی مشترک سرمائے کی کمپنیاں بن رہی ہیں اسی طرح روپے کے کاروبار کی کمپنیاں بنائی جائیں اور بڑے پیمانے پر اس کی تنظیمِ نو کی جائے ۔اس طرح یہ بینک وجود میں آئے جو آج تمام دنیا کے نظامِ مالیات پر قابض ومتصرف ہیں ’’۔
بینکوں کاسرمایہ جمع کرنے کا طریقہ کار
بینکاری کے نظام نے پوری دنیا میں جال بچھالیا ہے حتی کہ اس کے بغیر زندگی کے معمولات نہیں چل سکتے ۔لہذا ضروری ہے کہ اس کے طریقہ کار کو معلوم کیا جائے کہ کس انداز میں بینک بڑی تعداد میں لوگوں سے سرمایہ وصول کرتا ہے ؟
مولانا مودودیؒ بینکوں کے لوگوں سے مال جمع کرنے کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :‘‘بینک امانت داروں سے جو رقم وصُول کرتا ہے وہ دو بڑی قسموں پر مشتمل ہوتی ہیں ایک مؤجل (FIXED)دوسری معجل یا عندالطلب((CURRENTپہلی قسم کم از کم تین ماہ یا اس سے زیادہ مدت کے لیے بینک کے حوالے کی جاتی ہے اور قسم میں سے آدمی ہر وقت لیتا رہتا ہے ۔
بینک کا قاعدہ یہ کہ جتنی زیادہ مدت کےلیے کوئی رقم اس کے پاس رکھوائی جائے اسی قدر زیادہ شرح سود اس پر دیتا ہے اور جتنی مدت کم ہوجاتی ہے اسی قدر زیادہ شرح سود اس پر دیتا ہے اور جتنی مدت کم ہوجاتی ہے اسی قدر شرح بھی کم ہوجاتی ہے ۔
بعض بینک عند الطلب یا چالو کھاتے((CURRET ACCOUNT پر برائے نام کچھ سود دے دیتے ہیں ،لیکن بالعموم اب اس پر سود دینے کا قاعدہ نہیں رہا ۔بلکہ جو لوگ اپنے چالو کھاتے میں سے بہت زیادہ اور بار بار رقمیں نکالتے رہتے ہیں ان سے یاتو بینک ان کا حساب کتاب رکھنے کی اجرت وصول کرتے ہیں یا ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایک خاص تناسب کے مطابق اپنی رقم کا کچھ حصہ بینک میں مستقل طور پر رکھوادیں تاکہ اس کے سود سے بینک کا وہ خرچ نکل آئے جو وہ ان کا حساب کتاب رکھتے ہوئے برداشت کرتاہے’’ ۔
بینک کے قیام کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا محمد تقی عثمانی ؒلکھتے ہیں :بنک لوگوں کو اپنی امانتیں جمع کرانے کی دعوت دیتا ہے (جو فقہی طور پر قرض ہوتا ہے )ان کو اردو میں ‘‘امانتیں ’’عربی میں ‘‘ودائع’’اور انگریزی میں ‘‘DEPOSITS’’ کہتے ہیں ۔
ڈپازٹ کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔
1۔ ((CURRET ACCOUNT اس کو عربی میں ‘‘ الحساب الجاری ’’ اور اردو میں ‘‘مدرواں ’’کہتے ہیں ۔اس میں رکھی ہوئی رقم پر سود نہیں ملتا ۔اس اکاؤنٹ میں رکھی ہوئی رقم کسی وقت بھی’ جتنی مقدارمیں چاہیں بغٰیر کسی پابندی کے نکلوائی جاسکتی ہے ۔
2۔(Saving ACCOUNT)جس کو عربی میں ‘‘حساب التوفیت’’اور اردو میں ‘‘بچت کھاتہ’’کہتے ہیں ۔اس میں رقم نکلوانے پر عموماًمختلف پابندیاں ہوتیں ہیں اس پر بنک سود دیتا ہے ۔
3۔fined posit)) جس کو عربی میں ‘‘ودائع ْثابتۃ’’ کہتے ہیں ۔اس میں مقررہ مدت سے پہلے واپس لی جاسکتی ہے اس میں بینک سود دیتا ہے اور سود کی شرح مدت کے مطابق ہوتی ہے ۔طویل مدت میں شرح زیادہ ہوتی ہے اور کم مدت پر شرح کم ہوتی ہے ۔
جب ان تین قسم کے ڈپازٹ سے بنک کے پاس سرمایہ جمع ہوجاتا ہے اور کچھ بنک کا ابتدائی سرمایہ بھی ہوتا ہے تو اس تمام سرمائے کو استعمال کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس سرمائے کا ایک مقررہ حصہ سیال شکل کی صورت میں اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کراناضروری ہوتاہے مرکزی بینک میں یہ سرمایہ عموماً ایسے سرکاری تمسکات کی شکل میں رہتے ہیں جو بآسانی نقد میں تبدیل کئے جاسکیں اور ان پر کچھ سود بھی ملتارہے ۔
خلاصہ یہ کہ بینک جتنا بھی سرمایہ وصول کرتا ہے بنک سرمائے کے مطابق سود امانت داروں کو دیتا ہے ۔اورکچھ (option) ایسے ہیں جن بینک سود نہیں دیتا بلکہ امانت دار جتنی رقم نکالتا ہے اسی کے مطابق اس رقم وصول کی جاتی ہے تاکہ ان کا خرچ نکل آئے جو سرمائے کی حفاظت وغیرہ پر خرچ ہوتے ہیں ۔
بینک کے سود کے بارے میں نقطۂ نظر
یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ استعمار ہمارآبادی سے رخصت ہوگیا، لیکن اس نے اپنے نظریات کی اس انداز میں ترویج کی اب تک ہم ان کے نظریات اور سوچ کے پندار میں مبتلا ہیں ۔جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں سے بعض اہلِ علم مغرب سے متاثر ہوکراسلام کے اساسی نظریات کی من گھرٹ تاویلیں کرنے میں پیش پیش نظر آنے لگے ۔عقل کی بنیاد پر آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوی ﷺ کی توضیح وتشریح کرنے لگے یہاں تک کہ 14 سو سال سے تواتر کے ساتھ نقل ہونے والی تفسیر سے انحراف کیا ۔یہی حال سود کی حرمت کے ساتھ کیاگیا اور اس کی حرمت پر شبہات وارد کیے ۔
انیسویں صدی میں کچھ اہل علم حضرات نے ربا/سود کی آیات کو ‘‘استحصالی سود ’’(ضروریات زندگی کے لیے جانے والے قرض پر سود)کے ساتھ خاص کیا ہے اورکہاکہ اس کے علاوہ سود جائز ہے ۔مثلاً تجارتی سود،بینک کا سود وغیرہ ۔برصغیر میں اس نظریہ کے حامل سرسید احمد خان ،ڈاکٹر فضل الرحمٰن،مولانا جعفر شاہ پھلواری ،سیدطفیل احمد،سید یعقوب شاہ ،عطاء اللہ پالوی ہیں ۔
اسی طرح اہل عرب کےچندمشہور علما کابھی یہی نظریہ ہے مثلاً:شیخ محمد عبدہ،ڈاکٹر محمد سید طنطاوی،شیخ عبد الوہاب خلاف،شیخ محمد شلتوت۔
دوسرا نقطہ ِنظر جمہور علماکا ہے جنہوں نے حرمت ِ سود کے حوالے سے قرآنی آیات کو کسی صورت کے ساتھ خاص نہیں کیا بلکہ اس کا اطلاق ہراس زیادتی پر کیا ہےجس میں اصل رقم سے زیادہ رقم وصول کی جائے وہ ربا ہے ،چاہے وہ اضافی رقم کسی کو مجبوری میں قرض دے کر وصول کی جائےیا کسی کو کاروبار کے کے لیے رقم دے کر وصول کی جائےدھوکے سے وصول کی جائے، وغیرہ وغیرہ ۔
مجوزین سودکے دلائل
مجوزین سود نے جو دلائل پیش کیے ہیں ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے ۔
1۔قرآن میں سود کی حرمت کا اطلاق صرف استحصالی سود( ضروریات زندگی کے لیے جانے والے قرض پر سود) پر ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ سود حلال ہے ۔
2۔ عہد نبوی ﷺ میں تجارت کے لیے قرضوں پر سود کی کوئی مثال موجود نہیں لہذا تجارتی سود جائز ہے۔
3۔ بینک کے سود میں دونوں فریقین کو کوئی نقصان نہیں ہوتا اور قرآن میں جس سود سے منع کیا گیا ہے اس صورت میں ایک فریق کو نقصان ہوتا ہے ۔
4۔قرض دینے والابینک کو خود رقم دیتا کہ وہ اسے کاروبار میں لگائے اور منافع میں سے اسے بھی کچھ دے ،بینک قرض دہندہ کو ایک پہلے سے طے شدہ سود ادا کرتا ہے ۔
5۔تاجر یا صنعت کار جو بینک سے قرضہ حاصل کرنا چاہتا ہے وہ بخوشی بنک کو شرح ِسود کی پیش کش کرتا ہے ۔گویا یہ معاملہ دونوں فریقین کی رضامندی سے طے پاتا ہے ۔
ان دلائل کی بناء پر سود کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ دلائل کو تفصیلاً مجوزین نے اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
سرسید احمد خان
سرسید احمد خان سورۃ البقرۃ کی آیت ‘‘وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا’’ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:‘‘میری اس سمجھ پر جو کچھ شبہ ہوسکتاہے وہ یہ ہے کہ ‘‘وَحَرَّمَ الرِّبَا’’جو ایک عام حکم تھا اس کو میں نےخاص کردیا ہے اور اسی ربا پر منحصر کردیا ہے جو ایسے لوگوں سے لیا جاوے جن کے ساتھ سلوک کرنے اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی قرآن مجیدمیں ہدایت ہوئی ہے ۔بس جس قدر آیتیں اس سے قبل اور جس قدر اس کے بعد ہیں ان سب کو ملانے سے اور سیاق وسباق کے کلام پر نظر کرنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ وہی ربا حرام کیا گیا ہے جو ایسے غریب ومحتاج آدمیوں سے لیا جاتا تھا جو کھانے کو محتاج اور غلہ کھجور یں یا اور کچھ قرض لےکر قوت لایموت بہم پہنچاتے تھے ۔ان کے سوا وہ لوگ ہیں جو ذی مقدور اورصاحب دولت وجاہ حشمت ہیں اور اپنے عیش آرام کے لیے روپیہ قرض لیتے ہیں جائیدادیں مول لیتے ہیں مکان بناتے ہیں اور قرض روپیہ لے کر چین اڑاتے ہیں گو ان کو قرض دینا بعض حالتوں میں خلاف اخلاق ہو مگر ان سے سود لینے کی حرمت کی کوئی وجہ قرآن مجید کی رو سے مجھ کو معلوم نہیں ہے۔
اسی طرح بہت سے معاملات قرضے کے ہیں جو تجارت کے کاروبار میں پیش آتے ہیں اور ایسے بینکوں کے قائم ہونے سے سود پر تجارت کے مقاصد کے لیے روپیہ قرض دیتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ روپیہ پہنچادیتے ہیں اور ہرقسم کی آڑ ھتوں کا کام کرتے ہیں اور جن سے تجارت کو ترقی اور افزوئی آبادی کو نہایت امداد پہنچتی ہے ان معاملات میں جو سود لیا جاتا ہے مجھ کو قرآن مجید کی رُو سے اس کے ایسے ربا ہونے کی جس کو آیت میں حرام کہا ہے کو ئی وجہ معلوم نہیں ہوتی بس حکم ِربا جو قرآن میں ہے وہ نہایت اخلاق ونیکی پر مبنی ہے اور کسی طرح ترقی وتجارت وترقی ملک ودولت کا مانع نہیں ہے ۔فقہا نے بلاشبہ اپنے اجتہاد اور قیاس سے ایسی قیدیں بڑھادیں ہیں جن سے ربا کا حکم تجارت کی ترقی کا مانع حکم ہوگیا ہے’’ ۔
مولانامحمد جعفر شاہ پھلواری
سورہ بقرہ کی آیت ‘‘وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ’’سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :‘‘اگر کوئی ایسی تجارت ہو جس میں دونوں فریقوں کی رضامندی اور خوش دلی ہو تو وہ یقیناً اکل باطل نہ ہوگا ۔اب ذرا ٹھنڈے دل سے اسی عینک سے کمرشل انٹرسٹ کو دیکھیے کیا اس میں قرض لینے والا اسی طرح مجبور ومظلوم ہوتا ہے جس طرح قرض مندانہ ضروریات کے لیے قرض لینے والاہوتا ہے ؟اور کیا وہ قرض دینےوالے کے نفع سے سود کے یک طرفہ نفع کی طرح ناخوش ہوتا ہے ؟جو ربا حرام ہے وہ وہی ہے جس میں صرف ایک فریق کا خود غرضانہ نفع اور دوسرے کا نقصان ہوتاہے ۔کمرشل انٹرسٹ پر جو تجارت کی جاتی ہے اس میں دونوں فریق کی باہمی رضامندی وخوش دلی ہوتی ہے اور کاروبار کی ترقی سے دونوں کی خوشحالی وابستہ ہوتی ہے اور اس صورت حال کو ‘‘إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ’میں داخل کرنے سے کوئی شرعی قباحت نظر نہیں آتی’’ ۔
شیخ محمد عبدہ
وَلَا يَدْخُلُ فِيهِ أَيْضًا مَنْ يُعْطِي آخَرَ مَالًا يَسْتَغِلُّهُ وَيَجْعَلُ لَهُ مِنْ كَسْبِهِ حَظًّا مُعَيَّنًا ; لِأَنَّ مُخَالَفَةَ قَوَاعِدِ الْفُقَهَاءِ فِي جَعْلِ الْحَظِّ مُعَيَّنًا – قَلَّ الرِّبْحُ أَوْ كَثُرَ – لَا يُدْخِلُ ذَلِكَ فِي الرِّبَا الْجَلِيِّ الْمُرَكَّبِ الْمُخَرِّبِ لِلْبُيُوتِ ; لِأَنَّ هَذِهِ الْمُعَامَلَةَ نَافِعَةٌ لِلْعَامِلِ وَلِصَاحِبِ الْمَالِ مَعًا، وَذَلِكَ الرِّبَا ضَارٌّ بِوَاحِدٍ بِلَا ذَنْبٍ غَيْرَ الِاضْطِرَارِ، وَنَافِعٌ لِآخَرَ بِلَا عَمَلٍ سِوَى الْقَسْوَةِ وَالطَّمَعِ، فَلَا يُمْكِنُ أَنْ يَكُونَ حُكْمُهُمَا فِي عَدْلِ اللهِ وَاحِدًا، بَلْ لَا يَقُولُ عَادِلٌ وَلَا عَاقِلٌ مِنَ الْبَشَرِ:
ترجمہ :اور سود یہ نہیں ہے کہ کوئی ایک شخص دوسرے کو قرض دے اور اس کی کمائی میں ایک حصہ اپنے لیے متعین کرلے ،اس لیے کہ فقہا کے قواعد کی مخالفت معین حصے میں ہے اگر چہ نفع کم ہو یا زیادہ ۔یہ صورت اس ربا مرکب میں شامل نہیں ہوگی جس کی وجہ سے گھر بگڑ جاتے ہیں (ایک شخص کو نفع اور دوسرے کو فائدہ حاصل ہوتا ہے )۔اس لیے کہ یہ معاملہ مالک اور عامل (مزدور) دونوں کے لیے فائدہ مند ہے ۔اور ربا تو وہ ہے جس میں کسی ایک فریق کو بغیر کسی قصور کے ضرر پہنچتا ہے اور دوسرے کو فائدہ ،یہ دونوں صورتیں اللہ کے عدل میں ایک نہیں ہوسکتیں ۔
ڈاکٹر محمد سید طنطاوی
ولا مانع في الشرع من أن يقوم البنك المستثمر للمال بتحديد ربح معين مقدما في عقد المضاربة الذي يكون بينه وبين صاحب المال الذي يضعه في البنك بنية ويقصد الاستثمار.وان البنك لم يحدد الربح مقدما إلا بعد دراسة مستفيضة ودقيقة لأحوال السوق العالمية وبتعليمات وتوجيهات من البنك المركزي الذي يعد بمنزلة الحكم بين البنوك والمتعاملين معها.وتحديد الربح مقدما فيه منفعة لصاحب المال ولصاحب العمل لأنه يعرف حقه معرفة خالية من الجهالة ولصاحب العمل لأنه يحمله على أن يجد ويجتهد في عمله.
وأن هذا التحديد للربح مقدما لا يتعارض مع احتمال الخسارة من جانب المستثمر وهو البنك أو غيره لأنه من المعروف أن الأعمال التجارية المتنوعة إن خسر صاحبها في جانب ربح من جوانب أخرى..إننا لا نرى نصا شرعيا ولا قياساً نطمئن إليه يمنع من تحديد الربح مقدماً، ما دام هذا التحديد قد تم باختيار الطرفين ورضاهما المشروع، ومع هذا من أراد أن يتعامل مع البنوك التي تحدد الأرباح مقدماً فله ذلك، ولا حرج عليه شرعا،
ترجمہ: شریعت میں اس امر کی ممانعت نہیں ہے کہ بینک متعین شرح سود کے مطابق قرض دے جس طرح مضاربت میں ہوتا ہے اس لیے کہ بینک عالمی مارکیٹس کی قیمتوں کا اچھے انداز میں جائزہ لے کر نفع کا تعین کرتا ہے اور نفع کا تعین میں صاحب ِ مال اور صاحب ِ عمل دونو ں کے لیے فائدہ ہوتا ہے اس لیے کہ صاحبِ مال اپنے حق کو جانتا ہے ،اور صاحب ِ عمل کے لیے اس لیے ہے کہ وہ اپنے کام میں محنت کرے گا اتنا ہی وہ صلہ پائے گا ۔اور شروع میں نفع کےتعین اس میں خسارے کا احتمال ہی نہیں ہے قرض دینے والے کی طرف سے اوروہ بینک ہے اس لیے کہ تجارت میں یہ معروف ہے اگر ایک جانب سے نقصان ہوتا ہے تو دوسری جانب اس کو نفع بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ ہم کوئی ایسی نصِ شرعی یا قیاس نہیں پاتے جس میں جس میں پہلے نفع کو متعین کرنے سےمنع کیا گیا ہو،جب کہ نفع کا تعین دونوں فریقین کی رضامندی سے طے پاتا ہے جو کہ مشروع ہے ۔لہٰذا جو بنک کے ساتھ متعین نفع کے ساتھ معاملہ کرے اس میں کوئی شرعی حرج نہیں ہے ۔
قائلین عدمِ جواز کے دلائل
قائلین عدمِ جواز کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے ۔
1۔قرآن مجید میں سود کا حکم عام ہے اور عام کی تعریف یہ ہے :عام وہ لفظ ہے جو ان تمام افراد واقسام کو شامل ہوجو اس کے مفہوم میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔
2۔ارشاد باری تعالی:‘‘ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ ’’اور حدیث نبوی ﷺ ُُ‘كل قرض جر نفعا فهو ربا’’سے ثابت ہوتا ہے کہ قرض وصول کرتے وقت تمہارا حق صرف اسی مال میں جو تم نے قرض دیا ہے اس کے علاوہ سود ہے ۔
3۔قرآن وحدیث کی روشنی میں مفسرین اور فقہا نے ربا کی تعریف یہ کی ہے ‘‘قرض کی اصل رقم پر جو زائد رقم بطور شرط ومعاہدہ لی جائے وہ ربا ہے۔
4۔تجارتی سود کی مثالیں عہد نبوی ﷺ میں بھی موجود تھیں ، سب سے بڑی مثال ابن عباسؓ کی ہے جو عرب کے نامور تاجروں میں سےتھے اور دوسرے تاجروں کے لیے قرض بھی دیا کرتے تھے جو سودی اور غیر سودی دونوں کے ہوتے تھے اور اس کو بھی شریعت نے حرام کردیا ہے۔
5۔رأس الما ل کی اصطلاح تجارت اور کاروبار کے سیاق وسباق میں استعمال ہوتی ہے ۔شخصی ادھار اور ذاتی قرضوں میں سرمایہ میں عام طور پر رأس المال کی اصطلاح استعمال نہیں ہوتی ۔
بینک کے سود /تجارتی سود کو انیسوں صدی کے کچھ مفکرین نے جائز قرار دیا اس صورت میں معاصر علماء نے ان کے شبہات کو رد کیا اور دسیوں معاصر علماے کرام نے اس مسئلہ کو قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کیا ۔جس کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
مولانا مودودیؒ
مولانا مودودی ؒ سے تجارتی قرضوں پر سود کے بارے میں سوال کیا گیا انہوں جواب دیا:‘‘زمانہ جاہلیت یا ابتدائی زمانۂ اسلام کے کاروباری رواج میں تجارتی سود اور غیر تجارتی سود کی تفصیل نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اس تفریق وامتیاز کا تصور پیدانہ ہوا تھا اور یہ اصطلاحیں نہیں بنیں تھیں ۔اس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض ہر طرح کا قرض تھا خواہ وہ نادار لے یا مالدار ،خواہ ذاتی ضروریات کے لیے لے یا کاروباری ضروریات کے لیے ۔اس لیے وہ صرف معاملہ قرض اور اس پر سود کے لین دین کا ذکر کرتے اور اس کی ان تفصیلات میں نہیں جاتے تھے’’ ۔
ڈاکٹر یوسف القرضاوی
ڈاکٹر یوسف القرضاوی تجارتی قرضوں پر سود کے بارے میں لکھتے ہیں :‘‘حقیقت یہ کہ یہ بات تیرہ صدیوں میں کسی فقیہ مسلم نے نہیں کہی ۔یہ مطلق ۔۔کو محض ظن وگمان کی بنیاد پر مفید بنانا ہے ،تاریخ سے اس کا بطلان واضح ہوتا ہے ۔جاہلیت میں جو سود رائج تھا وہ اس قسم کا نہیں تھا کہ لوگ کھانے پینے اور ذاتی ضروریات کے لیے طلب کیے جانے والے قرض پر سود لیتے تھے ۔اگر اس قسم کا کوئی واقعہ ملتا ہے تو وہ شاذ ونادرہوگا جس کی بنیاد پر احکام وضع نہیں کیے جاسکتے ۔عہد جاہلیت میں جو سود عام تھا وہ تجارت کا سود تھا۔سردیوں اور گرمیوں میں جانے والے تجارتی قافلوں میں لوگ اپنا مال بھجوادیا کرتے تھے اور معاملہ دو صورتوں میں سے کسی ایک پر طے ہوجاتا تھا یا تو مضاربت پر اور دوسری صورت یہ تھی کہ سود متعین کرکے مال دے دیا جاتا ۔عبداللہ ابن عباس ؓکا سود اسی قبیل سے تھا جسے اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع میں ساقط کرنے کا اعلا ن کیا تھا ’’ ۔
مولانا گوہر رحمٰن ؒ
مولانا گوہر رحمٰن ؒ سے سوال کیا گیا کہ کیا اسلامی قانون کےتحت تجارتی اور غیر تجارتی قرضوں میں امتیاز کرنا درست ہے ؟اس طرح کہ تجارتی قرضوں پر سود لیا جائے اور غیر تجارتی قرضے بلاسود ہوں ؟مولانا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :‘‘اس سوال کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے کہ کیا عربوں میں نزول قرآن کے وقت تجارت کے لیے لیے گئے قرضوں پر سود لیا جاتا تھا یا نہیں ؟اصل اہمیت قانوں کے متن کو حاصل ہوتی ہے ۔دنیا کی کسی بھی عدالت کے سامنے جب ایسا تحریری قانون پیش کیا جائے جس کے متن کے الفاظ عام ہوں اور ان عام الفاظ کے بعد کوئی فقرہ شرطیہ’فقرہ استثنائیہ یا کوئی تشریحی فقرہ موجود نہ ہوں اور مجموعہ قوانین میں کوئی دسری دفعہ بھی اس عام قانون میں تخصص واستثناکرنے والی موجود نہ ہو’تو عدالت اسے عام ہی قرار دے گی اور جس پر بھی یہ قانون صادق آتا ہو اس پر منطبق کرے گی ۔اگر عدالت یا عدالت کے سامنے بحث کرنے کوئی قانونی دلیل کےمحض اپنی صوابدیدی راےیا خواہش کی بنا پر اس عام اور واضح قانون میں تخصیص کرے گا ،تو یہ قانون کی تعبیر نہیں ہوگی بلکہ یہ نئی قانون سازی ہوگی۔یا بالفاظ دیگر قانون میں تحریف وترمیم ہوگی ۔میرے خیا ل میں یہ فلسفہ قانون کا ایسا نکتہ ہے جسے عقلِ عام تسلیم کرتی ہے’’۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒتجارتی سود کے بارے میں لکھتے ہیں :‘‘قرآن وسنت رسولﷺ نے تجارتی اور صرفی قرضوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا اور ہر صورت میں صرف اصل رقوم (رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ)کی وصولی کی اجازت دی ہے۔ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ کی صراحت سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکم سود کے تمام ممکنہ شکلوں پر حاوی ہے ،بلکہ اس کااطلاق تجارتی سود پر زیادہ ہوتا ہے اس لیے کہ رأس الما ل کی اصطلاح تجارت اور کاروبار کے سیاق وسباق میں استعمال ہوتی ہے ،شخصی ادھار اور ذاتی قرضوں میں سرمایہ اور راس المال وغیرہ کی اصطلاحات عام طور پر استعمال نہیں ہوتی ۔ حضرت عباس ؓ کا سود جس کو سرکار دوعالم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ختم کیا کسی بھی طرح صرف قرضوں پر عائد سود نہیں ہوسکتا تھا ۔ان جیسا دولت مند رئیس جو اپنی جیب خاص سے پرے موسم حج میں حجاج کے پانی کا بندوبست کرتا ہو ،جس کو سرکاردوعالم ﷺ نے قریش کا سخی ترین سردار قرار دیا ہو وہ بھلا صرفی اغراض کے لیے قرضہ کیو ں لے گا حضرت عباس نامور تاجروں میں سےتھے اور دوسرے تاجروں کو تجارت کے لیے قرض بھی دیا کرتے تھے جو سودی اور غیر سودی دونوں طرح کے ہوتے ہیں ’’۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے ربا کا جو حکم دیا ہے اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے ،یہی تفسیر تواتر کے ساتھ عہدِ نبوی ﷺ سے نقل ہوتی آرہی ہے اور مطلقاً حرمتِ سود پر مالکیہ کے مشہور امام ابن عبد البر ؒ نے علماء امت کا اجماع نقل کیا ہے ۔ابن عبد البر لکھتے ہیں :‘‘ وقد اجمع المسلمون نقلا عن نبيهم صلى الله عليه و سلم أن اشتراط الزيادة في السلف ربا ولو كان قبضة من علف أو حبة۔’’
ترجمہ:‘‘مسلمانوں نے اپنے نبی سے نقل کی بناء پر اجماع کرلیا ہے کہ قرض کے اصل مال پر اضافے اور زیادتی کی شرط لگانا سود ہے ،اگر چہ یہ اضافہ ایک مٹھی گھاس (جانوروں کے چارہ ) ہو یا ایک حبہ(دانہ ) ہو ’’۔
فصل سوم
فقہ اکیڈمیز کی قراردادیں
فقہ اکیڈمی انڈیا
سود خواہ ذاتی مصارف کے قرضوں پر لیا دیا جائے یا تجارتی یا کاروباری قرضوں پر ،شریعت اسلامیہ کی نظر میں بہرحال حرام ہے۔یہ سمجھنا کہ سود کی حرمت کا اطلاق تجارتی وکاروباری قرضوں پر نہیں ہوتا قطعاً غلط ہے ۔نیز یہ خیال کہ ‘تجارتی وکاروباری قرضوں کا وجود زمانۂنزول قرآن میں نہیں پایا جاتا اس لیے حرمت ربا کا اطلاق ان پر نہیں ہوگا ’کسی طرح درست نہیں ۔یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ تجارتی وکاروباری مقاصد کے لیے سودی لین عرب جاہلیت ،نیز ان قوموں میں جن سے جاہلی عرب کے تجارتی روابط تھے رائج اور شائع تھا۔چناچہ تجارتی وکاروباری مقاصد کے لیے سودی لین دین تحرم ربا کا اولین مورد ہے ۔اس کے علاوہ بالفرض اگر تجارتی وکاروباری مقاصد کے لیے سودی لین کا وجود زمانہ نزول میں نہ پایا جاتا تب بھی مستقل شرعی دلائل دونوں قسم کے قرضوں (ذاتی وشخصی اور تجارتی کاروباری )پر اضافے یعنی سود کی حرمت کے بارے میں قائم ہیں ۔قرآن وسنت،اجماع وقیاس اور امت محمدیہ کا عمل متوارث سب یہی بتاتےہیں کہ حرمت ربا کے بارے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ قرض لینے دینے کا مقصد اور محرک کیا ہے ؟سود کی حرمت پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شرح سود کم ہے یا زیادہ،مناسب حد تک کم ہے یا مناسب حد تک زیادہ ۔شریعت اسلامیہ میں اس بات کو تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں کہ شرح ِسود اگر مناسب حد تک کم ہے تو سودی لین دین جائز ہے اور اگر مناسب ہے حد تک زیادہ ہے تو ناجائز ،دلائل شرعیہ اس طرح کی کسی تفریق کی اجازت نہیں دیتے ۔
مجمع فقهاء الشريعة بأمريكا
فوائد البنوك زيادة مشروطة في قروض فهي ربا بالإجماع
وبناء على جميع ما سبق فإن ودائع البنوك قروض من المودعين تنطبق عليها الأحكام العامة للقروض ومن آكدها حرمة الزيادة المشروطة، وأنها من الربا الحرام بالإجماع ولهذا فإن ما يصرف للمودع يعد ربا،وإن سمي ربحاأوعائدا.
ولا يفوتنا في نهاية هذا التعقيب أن نؤكد ونذكر بأن هذا الذي ذكرناه من حرمة الزيادة المشروطة في القروض هو ما أجمع عليه أهل العلم بالشريعة قديما وحديثا، وأنه قد اتفقت على ذلك جميع المؤسسات الفقهية والعلمية في العالم الإسلامي قاطبة، وفي مقدمتها بل ومن أقدمها مجمع البحوث الإسلامية ذاته! الذي أصدر قراره في هذا الصدد بالإجماع، وذلك في مؤتمره المنعقد في القاهرة عام 1385هـ والذي حضره ممثلون ومندوبون عن خمس وثلاثين دولة إسلامية، حيث قرر في هذا المؤتمر مايلي:
الفائدة على أنواع القروض كلها ربا محرّم ، لا فرق في ذلك بين ما يسمّي بالقرض الاستهلاكي وما يسمى بالقرض الإنتاجي . لأن نصوص الكتاب والسنة في مجموعها قاطعة في تحريم النوعين
ترجمہ:اور ان تمام باتوں کی بنیاد پرقرضوں میں بینکوں کا اضافہ کی صورت میں ادائیگی کرنا بالاتفاق سود ہے اور اسی بات پر ۔۔۔بیشک بینک کو جو رقم ادا کی جاتی ہے وہ قرض ہے امانت رکھوانے والوں کی طرف سے اس پر وہی احکامات منطبق ہونگے جو عام قرضوں پر ہوتے ہیں اور اس میں تاکید یہ کہ جو اضافی رقم وصول کی جائے گی وہ بالاجماع حرام ہے ،اور اسی وجہ سے جو صرف کیا جائے گا مودع کو اس کو ربا شمار کیا جائے گا ،اگر چہ اس کا نام ربح رکھا جائے ۔
اور قرض پر اضافی رقم کی حرمت پر متقدمین اور متاخرین علماء کرام کا اتفاق ہے ۔اور اسی طرح تمام عالمِ اسلام کی فقہی اور علمی مؤسسات کا بھی اتفاق ہے اور ان میں سب سے مقدم مجمع البحوث خود ہے ۔جنہوں نے اس پیرائے میں بالاجماع قرار داد منظور کی ،اور یہ اجلاس 1385ھ میں قاہرہ میں منعقد ہوا جس میں 35 اسلامی ممالک سے نمایندے اور مندوبین شریک ہوئے ۔اس اجلاس میں درج ذیل قرار داد منظور ہوئی۔
قرض کی ہر قسم پر فائدہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے، لہذا وہ حرام ہے ۔قرض استھلاکی اور قرض انتاجی میں کوئی فرق نہیں ہے،اس لیے قرآن وسنت کے مجموعے سے دونوں صورتوں کی حرمت قطعی طور پر ثابت ہے ۔
مجمع البحوث اللأسلاميه قاهره
انعقد المؤتمر الثاني لمجمع البحوث الإسلامية، بالقاهرة في شهر المحرم سنة 1385هـ الموافق مايو 1965م، والذي ضم ممثلين ومندوبين عن خمس وثلاثين دولة ،هذا بيان المؤتمر الذي صدر به قراراته وتوصياته ونقتصر في هذا المجال على نشر ما قرره المؤتمر بالإجماع بشأن المعاملات المصرفية :.
. 1 الفائدة على أنواع القروض كلها ربا محرم، لا فرق في ذلك بين ما يسمى بالقرض الاستهلاكي، وما يسمى بالقرض الإنتاجي لأن نصوص الكتاب والسنة في مجموعها قاطعة في تحريم النوعين.
2 ۔كثير الربا وقليله حرام، كما يشير إلى ذلك الفهم الصحيح في قوله تعالى: (يأيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعافًا مضاعفة.
.3 الإقراض بالربا محرم لا تبيحه حاجة ولا ضرورة، والاقتراض بالربا محرم كذلك، ولا يرتفع إثمه إلا إذا دعت إليه الضرورة …وكل امرئ متروك لدينه في تقدير ضرورته.
ترجمہ :ماہ ِمحرم الحرام 1385ھ بمطابق 1965ء میں مجمع البحوث الاسلامیہ کا دوسرا اجلاس قاہرہ میں منعقد ہوا،جس میں 35 اسلامی ممالک کے مندوبین شریک ہوئے ۔
اس اجلاس میں مالی معاملات کے حوالے سے جو قراردادیں پیش کی گئیں ان کا خلاصہ یہ ہے :
1۔ قرض کی ہر قسم پر فائدہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے، لہذا وہ حرام ہے ۔قرض استھلاکی اور قرض انتاجی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
2۔سود چاہے کم ہو یا زیادہ بہرحال وہ حرام ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے صحیح فہم حاصل ہوتا ہے:اے لوگو جو ایمان لائے ہو بڑھاچڑھاکر سود مت کھاؤ۔
3۔سود کے ساتھ قرض لینا حرام ہے ،اسے کو ئی حاجت یا کوئی ضرورت حلال نہیں کرسکتی ۔اور اسی سود پر قرض دینا حرام ہے ۔اور اس کے گناہ کو کوئی چیز رفع نہیں کرسکتی الا یہ کو ئی ضروت ہو۔
اسلامی نظریاتی کونسل
اسلامی نظریاتی کونسل نے نومبر1977میں ماہرین معاشیات پر ایک پینل قائم کیا تھا جس کاکام ملک کے معاشی اورمالیاتی نظام کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھانے کے کام میں کونسل کی مدد کرناتھا۔اس پینل نےپانچ ابواب پر رپوٹ پیش کی ،باب اول میں مطلقاً سود کی حرمت کی قرارداد پیش کی جس کی تفصیل درج ذیل ہےکہ:صرفی ضروریات کے لیے قرضوں پر سود کی عقلی توجیہہ بالکل واضح ہے ،ایسے قرضے زیادہ تر پریشان حال لوگ لیتے ہیں تاکہ ان کی ایسی فوری اور سخت ضروریات پوری ہوسکیں جن کے لیے ان کے پاس ذاتی وسائل نہیں ہوتے ۔انسانیت اور اخلاق کا تقاضایہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سود سے زیر بار نہ کیا جائے ،البتہ جہاں تک پیداواری ضروریات کے لیے قرضوں پر سود کا معاملہ ہے تو اسلام نے اس کی ممانعت اپنے معاشرتی فلسفہ کے بنیاد پر عائد کی ہے جس کا بنیادی اصول عدل وانصاف ہے ،تجارت میں نفع ہمیشہ اور ہر جگہ یقینی نہیں ہوتا ،کسی تاجر یا کاروباری شخص کو پہلے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ نفع ہوگایا نقصان اور یہ کہ کم ہوگا یا زیادہ ،ایسی صورت میں صریح زیادتی ہوگی کہ جو فریق روپیہ فراہم کررہا ہے اس کا نفع پہلے سے پکا ہوجائے اور جو اپنی جان کھپارہاہے اسےانجام بھگتنے کے لیے تنہاچھوڑدیا جائے ۔پھر اس کے برعکس ایک اور صوتحال بھی ہے اور وہ یہ کہ صاحب زر کا نفع میں سود بطور ایک حصہ پہلے سے مقرر کردیا جائے لیکن نفع بے حساب ہو تو ایسی صورت میں نفع کا ایک بیشتر حصہ کاروباری فریق لے جائے گا اور صاحب زر کو سود کی شکل میں اور محدود نفع پر قانع ہونا پڑے گا ۔
فصل رابع
دلائل کا موازنہ
وہ طبقہ جو بینکاری کے سود کو جائز قرار دیتا ہے اگرہم ان کے دلائل کا جائز ہ لیں تو ان کے دلائل کی بنیاد عقل پر ہے عقل کی روشنی میں انہوں قرآن مجید کے ایک عام حکم کو خاص کردیا ۔سرسید احمد خان نےسورۃ البقرۃ کی آیت ‘‘وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا’’کی تفسیر کرتے ہوئے خود اس امر کی وضاحت کی ہے کہ :میں اس آیت کی جو تفسیر کرنے جارہا ہوں اس پر شبہ ہوسکتا ہے کہ میں نے‘‘ حَرَّمَ الرِّبَا ’’کا جو ایک عام حکم تھا اس کو خاص کردیا اور ربا کو استحصالی سود تک محدود کردیا ۔سر سید صاحب کے ان الفاظ سےخود اس امر کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کے ایک عام حکم کو خاص کردیا ،اور یہ ایک ایسا کام ہے جس کا اختیار نبی ﷺکو بھی نہیں ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے ،تو سر سید احمدخان صاحب کو کس طرح ایک حکم عام کو خاص کرنے کا اختیار ہوسکتاہے۔ تمام علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ احکام قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی جس انداز میں وہ احکامات ہیں اسی انداز میں انہیں رہنے دیا جائے گا ۔
امام شاطبی ؒشریعت کے احکام کی خصوصیات لکھتے ہوئے رقم طراز ہیں :‘‘شریعت کے حکم کی دوسری خاصیت اس کا ثابت ہونا اور زائل نہ ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ تم اس کے کمال کے بعد نسخ نہ پاؤگے ،نہ اس کے عموم میں تخصیص اور نہ اس کے اطلاق میں تقیید ہوگی۔نہ اس کا کوئی حکم ختم ہوسکتاہے اس میں نہ مکلفین کے عموم کا خیال رکھا جائے گااور کسی کی حالت کا ،بلکہ جو شے سبب ثابت ہوگی وہ ہمیشہ کے لیے سبب ہے اسے زائل نہیں کیا جاسکتا ۔اسی طرح جو شرط ہے وہ ابدی ہے ،جو واجب ہے وہ ہمیشہ کے لیے واجب ہے جو مستحب ہے وہ ہمیشہ کے لیے مستحب ہے وہ ہمیشہ سے اسی صفت سے اتصاف پذیر رہے گا ۔یہی کیفیت تمام احکام کی ہے کہ نہ وہ ختم ہوسکتے ہیں اور نہ ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے’’ ۔
لہذا سرسید احمد خان صاحب نے ایک حکم عام کو خاص کرکے اس بات کو ثابت کیا کہ استحصالی سود کے علاوہ سود لینا جائز ہے یہ صراحتاً ایک متواتر امر کی مخالفت ہے ۔
مولانا جعفرشاہ پُھلواری سورہ بقرہ کی آیت ‘‘ولَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ’’سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :اگر کوئی ایسی تجارت ہو جس میں دونوں فریق رضامندی اور خوش دلی ہو تو وہ یقیناً اکل باطل نہ ہوگا ۔انہوں اس آیت کی تفسیر درست نہیں کی بلکہ اس کی درست تفسیر یہ کہ لین دین کی رضامندی سے مراد یہ کہ رضامندی جائز امور میں میں ہو اور اسی طرح کو ئی دباؤیا مجبوری نہ ہو ۔اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے شیخ طنطاوی:(جن کا نظریہ یہ ہے کہ بینک کا سود جائز ہے) لکھتے ہیں :ولكن هذا الظاهر غير مراد لأن الشارع قد حرم المتاجرة في أشياء معينة حتى ولو تم التراضي بين المتعاقدين فيها، وذلك مثل المتاجرة في الخمر والميتة ولحم الخنزير، ومثل بيع الغرر والعبد الآبق ونحو ذلك مما نهى عنه الشارع من العقود والمعاملات.
ترجمہ:ظاہر ہے اس سے مراد وہ اشیاء نہیں ہیں جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے اگر چہ فریقین رضامند کیوں نہ ہوں مثلاً:شراب،مردار،اور خنزیر کے گوشت پر تجارت،اور اسی طرح دھوکے سے تجارت اور اس غلام کی فروخت جو موجود نہیں ہے اور اسی طرح دیگر وہ اشیاء جن سے شارع نے عقود اور معلاملات میں منع فرمایا ہے۔
مولانا مودودیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :آپس کی رضامندی سے مراد یہ ہےکہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہو اور نہ فریب ودغا سے رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے ،مگر فی الواقع وہ رضامندی مجبورانہ ہوتی ہے اور دباؤکا نتیجہ ہوتی ہے ۔
خلاصہ یہ ہےکہ مولانا جعفر صاحب نے آیت کی جو تفسیر کی ہے وہ متواتر تفسیر کے خلاف ہے ۔رضامندی فریقین کی حلال اشیاء میں ہونہ کہ حرام اشیاء میں اسی طرح حرام چیز میں فریقین کی رضامندی حلال چیزکو حلال نہیں کردیتی ۔
اسی طرح بینک کے سود کے جواز میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ‘‘یہ اس لیےحلال ہے کہ عہدِنبویﷺ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی جس کی بنا پر بینک کے سود یا تجارتی سود کو حرام قرار دیا جائے ’’اگر ہم اس دلیل کا جائزہ لیں تویہ بات درست نہیں کہ عہد نبویﷺ میں تجارتی مقاصد کے لیے سود پر رقم نہیں لی جاتی تھی ۔اس لیے آپ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ جن کا شمار مکہ کے بڑے تاجروں میں کیا جاتا ہے ،وہ تجارت کے لیے لوگوں کو قرض دیتے تھے جو سودی اور غیر سودی دونوں طرح کے ہوتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے چچا کا سود ختم کیا ۔
شیخ محمد سید طنطاوی نےتجارتی سود کے جواز میں ایک دلیل یہ پیش کی قرآن میں وہ ربا حرام ہے جس میں فریقین میں سے کسی ایک کو نقصان ہو لیکن تجارتی سود یا بینک کے سود میں ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں فریقین کو نفع پہنچتا ہے لہٰذا یہ جائز ہے ۔یہ محلِ نظر ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ تمہارے لیے قرض دینے کی صورت میں صرف اصل رقم ہے اس پر کوئی اضافہ جائز نہیں ہے ‘‘فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ’’سے اسی امر کی طرف اشارہ ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہ حضرات جو بینک کے سود /تجارتی سود کو جائز قرار دیتے ہیں ان دلائل کی بنیاد عقل ہے اور شریعت کے کسی حکم کوعقل کی روشنی میں پرکھا نہیں جاتا اور نہ عقل کی بناءپر کسی حکم شرعی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
جمہور علماء نے اس مؤقف کو اپنایا ہےکہ بینک کا سود /تجارتی سود حرام ہے اور ثبوت میں جمہور علماء نے قرآن حدیث اور آثارِ صحابہؓ سے استدلال کیا ہے۔اور کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا درست منہج یہی ہے کہ اس کو وحی اور سنت کی روشنی میں ا س کا حکم ثابت کیا جائے ،لہٰذا جمہور کا طریقہ استدلال بھی قوی ہے اورقرآن وسنت کے موافق بھی ہے ۔
عہدِنبویﷺ میں تجارتی سود کی مثالیں
تجارتی سود کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس کی مثال آپﷺ کے زمانے میں نہیں ملتی اس بنیاد پر تجارتی سود جائز ہے۔یہ بات سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور من گھرٹ بات ہے ۔عہد نبویﷺ میں تجارتی سود کی ایک مثال نہیں بلکہ کئی مثالیں موجود تھیں ۔
امام محمد ابن جریر طبریؒ نے سورۃ البقرہ کی آیت ‘‘اتقوا الله وذروا ما بقي من الرّبا إن كنتم مؤمنين’’کی تفسیر کرتے ہوئے تجارت پر لیے جانے والے سود کی مثالیں بیان کیں ہیں جس کی تفصیل یہ ہے۔
1۔عن الضحاك في قوله:”اتقوا الله وذروا ما بقي من الرّبا إن كنتم مؤمنين”، قال: كان ربًا يتبايعون به في الجاهلية، فلما أسلموا أمِروا أن يأخذوا رؤوس أموالهم.
ترجمہ :امام ضحاک اللہ کا فرمان ‘‘اللہ سےڈرو اور ربا میں (سےجو رقم باقی رہ گئی ہے) اس کو چھوڑداگر تم مؤمن ہو’’ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کہ جاہلیت کے دور میں لوگ سودی خریدوفروخت یعنی کاروبار کرتے تھے ۔جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو ان کو حکم دیا گیا کہ صرف اصل رقم ہی وصول کرو۔
2۔علامہ ابن جریر ؒ نے ‘‘وذرومابقي من الربا’’ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : عن السدي قال: نزلت هذه الآية في العباس بن عبد المطلب ورجلٍ من بني المغيرة، كانا شريكين في الجاهلية، يُسلِفان في الرِّبا إلى أناس من ثقيف من بني عمرو وهم بنو عمرو بن عمير، فجاء الإسلام ولهما أموال عظيمة في الربا، فأنزل الله”ذروا ما بقي” من فضل كان في الجاهلية “من الربا”.
ترجمہ :امام سُدی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت عباسؓ اور بنومغیرہ کے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو زمانۂجاہلیت میں کاروبار شریک تھے ۔انہوں نے بنو ثقیف قبیلے کی ایک شاخ بنوعمرو کو سودی قرض پر مال دے رکھے تھے ۔جب اسلام کا دور آیا (اور سود حرام کردیا گیا )تو ان کا بہت سامال سود میں لگا ہوا تھا ۔اس کے بارے میں اللہ نے آیت نازل کی کہ چھوڑ دو جو بقایا ہے سود میں سے۔
3۔امام طبریؒ نے ابن جریج ؒ سے روایت روایت نقل کی ہے کہ بنو عمرو بھی بنومغیرہ کو سودی قرضے دیا کرتے تھے۔
وكانت بنو عمرو بن عُمير بن عوف يأخذون الرِّبا من بني المغيرة، وكانت بنو المغيرة يُرْبون لهم في الجاهلية، فجاء الإسلام ولهم عليهم مال كثير. فأتاهم بنو عمرو يطلبون رباهم، فأبي بنو المغيرة أن يعطوهم في الإسلام، ورفعوا ذلك إلى عتّاب بن أسيد، فكتب عتّاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزلت:”يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الرّبا إن كنتم مؤمنين. فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرْب من الله ورسوله”، إلى”ولا تظلمون”. فكتب بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عتّاب وقال:”إن رَضوا وإلا فآذنهم بحرب”
‘‘دور جاہلیت میں بنو عمرو اور بنو مغیر ہ کےدرمیان سودی قرضون کا لین دین تھا جب اسلام کا دور آیا تو بنوعمرو کا بنو مغیرہ پر بہت سا مال واجب الادا تھا۔چناچہ بنو عمرو’بنومغیرہ کے پاس آئے اور ان سےسود کا بقایا طلب کیا ۔بنومغیرہ نے اسلام کے دور میں سود دینے سے انکار کردیا ،بنو عمرو عتاب بن اسید کے پاس اپنا مسئلہ لے گئے ،عتاب نے آپﷺ کو خط لکھا ’اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو !اللہ کا خوف کرواور جو بھی بقایا ہے سود کا اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو ۔اگر تم ایسا نہ کروگے پس اللہ اور اس کے رسول کی طر ف سے اعلان جنگ ہے ،الی تظلمون تک آپ ﷺ نےیہ آیت لکھوا کر عتاب بن اسد کے پاس بھجوادی اور ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ اگر یہ سود چھوڑنے پر راضی ہوں تو بہت اچھا ورنہ ان کو جنگ کی خبر دے دو ۔