مقدمہ
موضوع کا تعارف ، ضرورت و اہمیت
الْحَمد لله الَّذِي وفقنا للتفقه فِي الدّين الَّذِي هُوَ حبله المتين وفضله الْمُبين وميراث الْأَنْبِيَاء وَالْمُرْسلِينَ وحجته الدامغة عَن الْخلق أَجْمَعِينَ ومحجته السالكة إِلَى أَعلَى عليين وَالسَّلَام على خير خلقه مُحَمَّد الْمَبْعُوث رَحْمَة للْعَالمين وعَلى آله وَصَحبه وَالتَّابِعِينَ وَالْعُلَمَاء العاملين اما بعد :
رسول اللہ ﷺ کی عزت وحرمت ایک مسلمان کیلئے سب سے بڑی متاع ایمان ہے مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن محبوب خدا ، شافع روز جزا حضرت محمد ﷺ کی شان میں ادنی بے ادبی وگستاخی اس کیلئے ناقابل برداشت ہے اور اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمان سرکار دو عالم ﷺ کی عزت وحرمت پر کٹ مرنے کیلئے تیار ہے اور ایسے موذیوں کے مقابلے میں سچے محب رسول ﷺ کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہان ہر دور اور ہر عہد میں اس محبوب کائنات کے حضور ان کے چاہنے والے عقیدت ومحبت کے گلاب پیش کرتے رہے وہاں کبھی کبھی ان سے بغض اور ان کے دین سے عداوت رکھنے والے بیمار ذہن ان کی شان میں زبان طعن بھی دراز کرتے رہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اوائل اسلام ہی سے اہانت رسول ﷺ کی جرم قبیح کا ارتکاب کرنے والوں کو موت کی سزا دی جاتی رہی ہے ۔
اج کل کے دور میں لوگ مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں پھر ان لوگوں کو قتل کی سزا سے بچانے کیلئے مختلف تاؤیل اور حیلے اختیار کئے جاتے ہیں اور یہ آراء پیش کی جاتی ہیں کہ شریعت میں کہیں بھی توہین رسالت کی سزا مقرر نہیں ہے اسی وجہ سے اس موضوع کی اہمیت اور ضرورت بہت زیادہ ہے اسی حوالے سے زیر بحث موضوع کا انتخاب کیا ہے
سابقہ کام کا جائزہ
السیف المسلول علی شاتم الرسول (امام تقی الدین سبکی شافعی )
کتاب الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام ( علامہ شامی حنفی )
الصارم المسلول علی شاتم الرسول ( شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ )
کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ( قاضی عیاض مالکی )
تحفظ ناموس رسالت اور گستاخ رسول کی سزا (ایچ ساجد اعوان )
اسلام میں توہین رسالت کرنے والے کی سزا قرآن وحدیث اور اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں ( برھان الدین ظفر درانی )
قانون توہین رسالت قرآن وسنت ، حقوق انسانی ، پاکستان ،یورپ کی اعلی عدلیہ کے فیصلوں کے آئینے میں ( محمد اسماعیل قریشی )
قرآن وحدیث ، اجماع امت اور مذاہب عالم کی روشنی میں توہین رسالت کی سزا ( پروفیسر حبیب اللہ چشتی )
بنیادی سوالات:
کی شریعت میں توہین رسالت کی سزا مقرر ہے ؟
کیا توہین رسالت کے مرتکب کی سزا پر فقہاء متفق ہے ؟
منہج تحقیق :
قرآن وسنت اور فقہا ء کی آراء سے استدلال کیا جائے گا ۔
فقہ اور قانون کا باہمی تقابل اور تجزیہ :
خاکہ تحقیق:
یہ مقالہ چار ابواب اور چار فصول پر مشتمل ہے باب اول میں توہین رسالت کا مفہوم اور اس کے مرتکب کی توبہ کا بیان ہے جس کے تحت دو فصل ہیں ۔ پہلی فصل میں توہین رسالت کا مفہوم ،ثبوت کے الفاظ، توہین رسالت کے جرم کی نوعیت اور توہین رسالت کی سزا حد یا تعزیر پر بحث کی گئی ہے ، دوسری فصل میں توہین رسالت کے مرتکب مسلمان یا ذمی کے توبہ کا بیان ہے دوسرے باب میں توہین رسالت کے مرتکب کی سزا کے بارے میں فقہاء اور معاصر فقہی اداروں کی آراء کو جمع کیا گیا ہے جس کے تحت دو فصل ذکر ہیں پہلی فصل میں توہین رسالت کے مرتکب کی سزا کے حوالے سے مذاہب اربعہ پر روشنی ڈالی گئی ہے، دوسری فصل میں توہین رسالت کے حوالے سے معاصر فقہی اداروں کی آراء کو جمع کیا گیا ہے ، تیسرا باب توہین رسالت کا ملکی قانون کے بارے میں ہے جس میں قانون توہین رسالت کا پس منظر اور قانون کی موجودہ صورت حال پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔چوتھے باب میں توہین رسالت پر ہونے والے اعتراضات کے جائزہ کا ذکر ہے آخر میں خلاصہ بحث ، سفارشات ، مصادر ومراجع اور کتابیات کاذکر ہے ۔
باب اول : توہین رسالت کا مفہوم اور اس کے مرتکب کی توبہ کا حکم
فصل اول :توہین رسالت کا مفہوم اور ثبوت کے الفاظ
• توہین رسالت کا مفہوم
• توہین رسالت کے ثبوت کے الفاظ
• توہین رسالت کے جرم کی نوعیت
• توہین رسالت کی سزا :حد یا تعزیر
فصل دوم :مرتکب توہین رسالت کی توبہ کا حکم
• مسلمان
• ذمی
باب دوم : توہین رسالت کے مرتکب کی سزا فقہاء اور معاصر فقہی اداروں کی روشنی میں ایک تجزیہ ۔
فصل اول :مذاہب اربعہ کی روشنی میں
• فقہ حنفی میں
• شافعی میں
• فقہ مالکی میں
• فقہ حنبلی میں
• حاصل بحث
فصل دوم : معاصر فقہی اداروں کی آراء : ایک تجزیہ
• اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان
• فقہ اکیڈمی سعودی عرب
• حاصل بحث
باب سوم : توہین رسالت کا ملکی قانون
فصل اول :تاریخی پس منظر
فصل دوم : قانون کی موجودہ صورتحال
باب چہارم : توہین رسالت پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ
• :گستاخ کی سزا کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ؟
• : یہ قانون ایک آمر نے بنایا اوراس سے اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں ؟
• : قانون توہین رسالت انسانی حقوق کے منافی ہے ؟
• : آپﷺ نے اپنے دشمن کومعاف کیا تو ہم کیوں سزا دے ؟
• : آج تک کسی مرتکب توہین رسالت کو سزا کیوں نہیں ہوئی ؟
(توہین رسالت کا مفہوم اور اسکے مرتکب کی توبہ کا حکم )
فصل اول : توہین رسالت کا مفہوم :
اہانت لغت میں اھان کا مصدر ہے اور اصل فعل ھان ہے جس کا معنی ہے کسی شخص کی تحقیر کرنا ، اہانت کرنا ۔فقہائے کرام نے استقرائی طور پر جو شکلیں گنوائی ہیں ان کی مدد سے بآسانی توہین کے حدود اربعہ متعین کیا جاسکتا ہے ۔
امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ:
‘‘وَأَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ كَذَّبَهُ أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنْقُصُهُ؛ فَقَدْ كَفَرَ بِاللَّهِ وَبَانَتْ مِنْهُ زَوْجَتُهُ؛ فَإِنْ تَابَ وَإِلا قُتِلَ’’
ترجمہ : جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کو گالی دے ، یا تکذیب کرے ، یا عیب لگائے ، یا آپ ﷺ کی شان میں کمی کرے تو اس نے اللہ تعالی سے کفر کیا اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی پس اگر اس نے توبہ کیا ورنہ قتل کیا جائے گا ۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں :
‘‘مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ شَتَمَهُ أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنَقَّصَهُ قُتِلَ: مُسْلِمًا كَانْ أَوْ كَافِرًا وَلَا يُسْتَتَابُ’’
ترجمہ : جس شخص نے آپ ﷺ کو گالی دی ، یا آپ ﷺ کی طرف عیب کو منسوب کیا ، یا آپﷺ کی شان اقدس میں تحقیر و تنقیص کا ارتکاب کیا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اسے قتل کی جائے گا ۔
اسلامی شرع کے تحت ‘‘بے حرمتی و کفر گوئی ’’ کی اصطلاح کا اطلاق خاص اعمال ، کلمات یا تحریرات پر ہوتا ہے اس زمرے میں مندرجہ ذیل میں سے کوئی ایک یا سب کے سب آتے ہیں
رسول اللہ ﷺ کو تحریر میں زبان سے گالی دینا ، یاان کی بے عزتی کرنا ، ان کے بارے میں تحقیری یا ذلت آمیز کلمات کہنا ، رسول اللہ ﷺ کے وقار وعزت پر بد زنی کرکے حملہ کرنا ، یا ان کو بدنام کرنا ، یا جب ان کا نام آجائے تو برا منہ بنانا ، یا رسول اللہ ﷺ پر الزام اور تہمت لگانا ، ، یا رسول اللہ ﷺ کو رسو ا کرنا ، یا رسول اللہ ﷺ کا دائرہ اختیار یا فیصلہ کو کسی طور نہ ماننا ، یا سنت نبویہ سے انکار کرنا ، یا رسول اللہ ﷺ سے بغاوت کرنا ۔
ان میں سے کسی ایک کا بھی مرتکب ہونا شرع اسلامی میں ‘‘ توہین رسالت اور بے حرمتی ’’ کے ذیل میں آتا ہے ۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ وہ کونسے ایسے اعمال وافعال ہیں جو گستاخی کے زمرے میں آکر بندہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ادنی سی بے ادبی ، توہین و تنقیص ، تحقیر و استخفاف ، خواہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ، بالفاظ صریح ہو یا بانداز اشارہ وکنایہ ہو یہ تمام صورتیں گستاخی میں شامل ہے اسی طرح آپ ﷺ کی ذات گرامی ، آپ ﷺ کی صفات وعادات ، اخلاق واطوار ، آپ ﷺ کے اسماء گرامی اور اشارات یا آپ ﷺ سے متعلقہ کسی بھی چیز کی ادنی اور معمولی سی تحقیر یا اس میں سے کوئی عیب نکالنا بھی گستاخی اور موجب کفر ہے ،ہر وہ شخص جو حضورﷺ کی ذات اقدس میں عیب اور نقص کا متلاشی ہو یا آپ ﷺ کے اخلاق ، کردار ، عظمت ، سیرت ، خصائص واصاف حمیدہ ، نسب پاک کی طہارت وپاکیزگی اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کی عظمت وحرمت کی طرف کمی ، خامی اور عیوب منسوب کرتا ہو تو نہ صرف یہ کہ ضلات وگمراہی ، تاریکی اور ظلمت کی وادی میں بھٹکنا اس کا مقدر بن جاتا ہے بلکہ اس کے منحوس وجود سے اس زمین کو پاک کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے ۔
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘كل من شتم النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- أو تنقصه مسلمًا كان أو كافرًا فعليه القتل’’
ترجمہ : ہر وہ شخص جو آپ ﷺ کو گالی دے ،یا آپ ﷺ کی تنقیص وتحقیر کرے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر ہو اس کو قتل کرنا واجب ہے ۔
چنانچہ فقہاء کرام نے یہ صراحت فرمائی ہیں کہ ہو وہ قول وفعل جس سے آپ ﷺ کی تحقیر ہو یا جس سے آپ ﷺ کی گستاخی وبے ادبی کا پہلو نکلتا ہو وہ گستاخی کے ضمن میں شامل ہے گویا گستاخی کے مفہوم میں انتہائی عموم ہے اور اس سے صرف وہ خاص معنی مراد نہیں ہے جسے ہمارے عرف میں گالی کہتے ہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آیا شریعت مطہرہ نے توہین اور گستاخی کی کوئی تعریفی حد بندی کی ہے یا اسے لوگوں کے عرف پر چھوڑا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے شریعت نے اسے لوگوں کے عرف پر چھوڑا ہے کہ عرف اور رواج میں جن افعال اور اقوال کو توہین سمجھا جائے گا اس پر گستاخی کے احکامات کا نفاذ ہو گا ۔
امام ابن تیمیہ ؒ الصارم المسلول میں فرماتے ہیں کہ :
‘‘وإذا لم يكن للسب حدمعروف في اللغة ولا في الشرع فالمرجع فيه إلى عرف الناس فما كان في العرف سبا للنبي فهو’’
ترجمہ :جب گالی کیلئے لغت اور شریعت میں کوئی معروف تعریف نہیں ہے تو اس میں مرجع لوگوں کا عرف ہے اور جو عرف میں گالی ہوتا ہے وہ نبی کریم ﷺ کیلئے بھی گالی ہے ۔
قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘أَنّ جَمِيع من سَبّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم أَو عَابَه أَو ألْحَق بِه نَقْصًا فِي نَفْسِه أَو نَسَبِه أَو دِينه أَو خَصْلَة من خِصَالِه أَو عَرّض بِه أو شبهة بشئ عَلَى طريق السَّبّ لَه أَو الأِزْرَاء عَلَيْه أو التَّصْغِير لِشَأْنِه أَو الْغَضّ مِنْه وَالْعَيْب لَه فَهُو سَاب لَه وَالْحُكْم فِيه حُكْم السَّابّ يقْتَل’’
ترجمہ : جو شخص آپ ﷺ کو گالی دے ، یا آپ ﷺ پر عیب لگائے ، یا آپ ﷺ کی ذات گرامی یا آﷺ کی نسب ، یا آپ ﷺ کے دین ،یا آپ کی عادات میں کسی عادت کی طرف نقص اور کمی کی نسبت کرے ،یا آپ ﷺ پر تعریض کرے ، یا بطریق گستاخی آپ ﷺ کو کسی چیز سے تشبیہ دے ، یا آپ ﷺ کو ناقص کہے ، یا آپ کی شان کو کم کرے ، یا آپ ﷺ پر یا آپ کی کسی بات پر عیب لگائے تو وہ آپ کا گستاخ کہلائے گا اور گستاخ رسول ﷺ کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے ۔
قاضی عیاض ؒ نے مزید لکھا ہے :
‘‘وَكَذَلِك من لعنه أَو دعا عَلَيْه أَو تمنى مضرة لَه أو نسب إليه مَا لَا يليق بمنصبه عَلَى طريق الذم أَو عبث فِي جهَتِه العَزِيزَة بسُخْف مِن الْكَلَام وَهُجْر وَمُنْكَر مِن الْقَوْل وَزُور أَو عيره بشئ مِمَّا جَرَى مِن الْبَلَاء والْمِحْنَة عَلَيْه أَو غَمَصَه بِبَعْض الْعَوَارض الْبَشَرِيّة الْجَائِزَة وَالْمَعْهُودَة لَدَيْه’’
ترجمہ : اسی طرح جو شخص آپ ﷺ پر لعنت کرے (العیاذباللہ) یا آپ ﷺ کے حق میں بد دعا کرے یا آپ ﷺ کیلئے کسی ضرر اور تکلیف کی آرزو کرے یا آپ ﷺ کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت کرے جو آپ ﷺ کی شان کے لائق نہ ہو اور اس کا مقصد آپ ﷺ کی برائی کرنا ہو یا آپ ﷺ کی شان میں بیہودہ کلام کرے یا آپﷺ کو برا کہے یا جھوٹ کہے یا آپ ﷺ پر جو مصائب اور سختیاں آئی ہیں ان کی وجہ سے آپ ﷺ کو عار دلائے یا بشریت کی وجہ سے عادۃ جو عوارض ( بیماری ، بھوک وغیرہ ) آپ ﷺ کو لاحق ہوئے ان کی بناء پر آپ ﷺ کی قدر کم کرے یہ سب صورتیں گستاخی میں شامل ہے ۔
حضرت ابن وہب نے امام مالک ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ :
‘‘من قال: إن إزار النبي – عَلَيْهِ السَّلَامُ – وسخ أراد به عيبه قتل’’
ترجمہ : جو شخص یہ کہے کہ نبی کریم ﷺ کی چادر یا آپ ﷺ کی قمیص کا بٹن گندا اور میلا ہے اور اس سے اس کا ارادہ آپ ﷺ کی تحقیر کا ہو تو اسے قتل کیا جائے ۔
احمد بن سلیمان کا قول ہے کہ :
‘‘من قَال إنّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم كَان أسْوَد، يُقْتِل’’
ترجمہ : جو شخص یہ کہے کہ نبی کریم ﷺ کا رنگ سیاہ تھا اسے قتل کیا جائے ۔
قاضی عیاض ؒ نے الشفاء میں فقہائے اندلس کا ایک متفقہ فتویٰ ذکر کیا ہے جوکہ حسب ذیل ہے:
‘‘وَأفْتى فُقَهَاء الأنْدَلُس بِقَتْل ابن حَاتِم المُتَفَقَّة الطُّلَيْطُلِيّ وَصَلْبِه بِمَا شُهد عَلَيْه بِه مِن اسْتِخْفَافِه بحَقّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم وَتَسْمِيَتِه إيَّاه أثْنَاء مُنَاظَرَتِه باليَتِيم وَخَتَن حَيْدَرَة وَزَعْمِه أَنّ زُهْدَه لَم يَكُن قَصْدًا وَلَو قَدَر عَلَى الطَّيّبَات أكَلَهَا’’
ترجمہ : فقہائے اندلس نے بالاتفاق ابن حاتم طلیطلی کے قتل اور سولی دینے کا فتویٰ دیا تھا ،کیونکہ اس کے خلاف یہ گواہی دی گئی تھی کہ اس نے آپ ﷺ کا استخفاف کیا ہے اور مناظرہ کے دوران آپ ﷺکو یتیم اور حضرت علی ؓکا سسر کہا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ آپ ﷺ کا زہد اختیاری نہیں تھا بلکہ آپ ﷺ اس پر مجبور تھے کیونکہ آپ ﷺ کو العیاذباللہ نعمتیں میسر نہیں تھی بلکہ اگر آپ کو دنیوی نعمتیں میسر ہوتیں تو آپ ﷺ انہیں استعمال کرتے ۔اب چونکہ ابن حاتم کا یہ بکواس سراسر آپ ﷺ کی گستاخی تھی اس وجہ سے فقہائے اندلس نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا ۔
خلاصہ کلام یہ ہو ا کہ ہر وہ قول وفعل جو صراحۃتو درکنار اس سے یہ شائبہ تک بھی نکلتا ہو یہ حضورﷺ کی شان اقدس کے خلاف ہے یا اس سے بے ادبی اوراور استخفاف کا پہلو نکلتا ہو تو وہ گستاخی کے زمرے میں شامل ہوگا اسی طرح ہو وہ چیز جس کا حضور ﷺ کے ساتھ ربط وتعلق ہو اس کے متلعق ادنی سی بے ادبی بھی گستاخی ہونے کی وجہ سے ایمان ختم ہوجاتا ہے اسلئے ہر وقت اور ہر لمحہ ایسے قول وفعل سے بچا جائے جو بارگاہ نبوت کے ادب اور تقدس کے خلاف ہو ۔
توہین رسالت کے ثبوت کے الفاظ :
یعنی وہ کون کون سی باتیں اور الفاظ ہیں جو توہین رسالت متصور ہوتی ہیں ؟
اس مسئلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ ہر وہ بات جسے عرف میں توہین آمیز کلمہ تصور کیا جائے گا جس میں کسی بھی ذریعہ سے حضور ﷺ کی توہین وتنقیص کا پہلو نکلتا ہو وہ توہین رسالت متصور ہوگی بلکہ یہ اتنا نازک مقام ہے کہ بعض چیزیں جنہیں عرف میں توہین نہیں بھی سمجھا جاتا رسالت کے باب میں ایسا غیر مناسب رویہ بھی توہین و تنقیص تصور کیا جاتا ہے ۔اس کے متعلق چند جماہیر امت کی آراء ملاحضہ ہوں ۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ :
‘‘اعْلَم وفقنا اللَّه وإياك أَنّ جَمِيع من سَبّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم أَو عَابَه أَو ألْحَق بِه نَقْصًا فِي نَفْسِه أَو نَسَبِه أَو دِينه أَو خَصْلَة من خِصَالِه أَو عَرّض بِه أو شبهة بشئ عَلَى طريق السَّبّ لَه أَو الأِزْرَاء عَلَيْه أو التَّصْغِير لِشَأْنِه أَو الْغَضّ مِنْه وَالْعَيْب لَه فَهُو سَاب لَه وَالْحُكْم فِيه حُكْم السَّابّ يقْتَل’’
ترجمہ : جان لو (اللہ تعالیٰ تمھیں اور ہمیں توفیق دے ) کہ جو شخص حضور ﷺ کو گالی دے یا آپ ﷺ پر عیب لگائے یا کسی نقص کی نسبت آپ ﷺ کی ذات ، نسب ،دین یا آپ ﷺ کی عادات میں سے کسی عادت کی طرف کرے یا آپ ﷺ کو بطریق گساتاخی کسی چیز سے تشبیہ دے یا آپ ﷺ کو ناقص کہے یا آپ ﷺ کی شان کو کم کرے یا آپ ﷺ پر یا آپ ﷺ کی کسی بات پر عیب لگائے وہ شخص آپ ﷺ کی توہین کرنے والا ہوگا ۔ اس کے متعلق وہی حکم ہے جو آپ ﷺ کو گالی دینے والے کا ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا ۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ :
‘‘فيجب أن يرجع في الأذى والشتم إلى العرف فما عده أهل العرف سبا أو انتقاصا أو عيبا أو طعنا ونحو ذلك فهو من السب’’
ترجمہ : اذی ، سب اور شتم کا مفہوم سمجھنے کیلئے عرف کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اھل عرف کے نزدیک جو چیز گستاخی ، تنقیص ، عیب اور طعن شمار ہو گی ان سب کو گالی ‘‘سب ’’ کہا جائے گا ۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ :
‘‘من أذى رسول الله صلى الله عليه وسلم بطعن فى شخصه او دينه او نسبه او صفة من صفاته او بوجه من وجوه الشين فيه صراحة او كناية او تعريضا او اشارة كفر ولعنه الله فى الدنيا والاخرة واعدّ له عذاب جهنم’’
ترجمہ : جوبھی شخص حضورﷺ کو اشارہ وکنایہ ، صریح و غیر صریح ، عیب کی جملہ وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے یا آپ ﷺ کے دین یا آپ ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق کسی بھی قسم کی زبان درازی کرے گا تو وہ کافر ہوجائے گا اللہ تعالٰی نے دنیا وآخرت میں اس پر لعنت کی اور اس کیلئے جہنم کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
توہین رسالت کے متعلق علماء امت نے بعض چیزوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں کا ارتکاب کرنے والا توہین رسالت کا مرتکب ہوگا ۔تاکہ اس مسئلہ کی نزاکتیں مزید واضح ہو جائیں ان میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔
۔ ذومعنی لفظ کا اطلاق
۔ کسی کو حضورﷺ سے بڑا عالم کہنا
۔ نبی کریم ﷺ کی کملی کی طرف کوئی عیب منسوب کرنا
۔ حضورﷺ کے بال مبارک کی توہین کرنا
۔ حضور ﷺ کے حسن وجمال پر تنقید کرنا
ذیل میں ان تمام مسائل کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں
(۱)ذومعنی لفظ کا اطلاق
ارشاد باری تعالی ہے :
‘‘يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ’’
ترجمہ : اے ایمان والوں تم ‘‘راعنا’’ نہ کہو اور غور سے سنو اور کفر کرنے والوں کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔
اس آیت کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب نبی کریم ﷺ صحابہ کرام ؓ کو وعظ فرماتے تو اگر کسی صحابی کو کوئی بات سمجھ نہ آتی تو وہ عرض کرتا ‘‘راعنا یا رسول اللہ ’’ اے اللہ کے رسول ہماری رعایت فرمائیے اور ہماری طرف توجہ فرمائیے ۔یہود کی لغت میں یہی لفظ بد دعا کیلئے استعمال ہوتاتھا اور اس کا معنی تھا سنو تمھاری بات نہ سنی جائے : وہ اس معنی کا لحاظ کرتے ہوئے یہ الفاظ کہتے تھے اور ہنستے تھے کہ پہلے تو ہم تنہائی میں بد دعا دیتے تھے اب تو مجلس میں بد دعا دینے کا موقع ہاتھ آگیا ۔ حضرت سعد بن معاذؓ کو یہود کی لغت کا علم تھا انہوں نے یہود کی اس سازش کو بھانپ لیا اور انہوں نے فرمایا :اے !یہود تم پر اللہ تعالی کی لعنت ہو اگر تم نے آئندہ یہ لفظ بولا تو میں تمہاری گردن اڑادوںگا یہود کہنے لگے تم بھی یہی لفظ کہتے ہو اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور اہل ایمان کو بھی ‘‘راعنا’’کے لفظ کے استعمال سے روک دیا کیونکہ یہ ذو معنی اور مشترک لفظ تھا ۔
چونکہ یہود نے راعنا کا مشترک اور ذومعنی لفظ بول کر حضور ﷺ کی توہین کا راستہ اختیار کیا تھا ۔ اللہ تعالی نے راعنا کا لفظ بولنا ہی منع فرما دیا اس سے معلوم ہو ا کہ جو بھی لفظ کسی معنی اور لحاظ سے نبی کریم ﷺ کی توہین کو سبب بنے وہ رسول اللہ ﷺ کی گستاخی تصور ہوگی۔جیسے ‘‘ذلیل ’’کا لفظ اگر چہ عربی میں بے سر وسامان کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن یہ گھٹیا اور حقیر کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔جیسے قرآن مجید میں منافقین کا یہ قول بیان کیا گیا ہے :
‘‘يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ’’
ترجمہ : وہ کہتے ہیں اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا ۔
یہاں ذلت کا لفظ عزت کے متضاد کے طور پر استعمال ہواہے اور اردو میں ذلیل کو لفظ استعمال ہی گھٹیا معنی میں ہوتا ہے ۔
فیروزالغات میں ہے کہ : ذلیل (ذلیل ) ع صف ۔ خوار ۔ رسوا ۔ بد نام ۔ کمینہ ۔
تونبی کریم ﷺ پر ایسے الفاظ کا اطلاق توہین تصور ہو گا جو کسی بھی لحاظ سے برے معنی میں استعمال ہوتے ہوں ۔
(۲)کسی کو حضورﷺ سے بڑا عالم کہنا
علامہ شہاب خفاجی فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے حضورﷺ پر کسی کی علمی فضیلت ثابت کرتے ہوئے کہا کہ :‘‘فلان اعلم منہ ’’
کہ فلاں شخص حضورﷺ سے زیادہ علم والا ہے تو وہ کافر ہوجائے گا ۔
(۳) نبی کریم ﷺ کی کملی کی طرف کوئی عیب منسوب کرنا
علماء امت نے وضاحت فرمائی ہے کہ حضورﷺ کی کملی مبارک کی توہین بھی کفر ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں :
‘‘وروى ابن وهب عن مالك من قال: “إن رداء النبي صلى الله عليه وسلم ويروى برده “وسخ” وأراد به عيبه قتل’’
ترجمہ : ابن وہب نے امام مالک ؒ سے روایت کیا ہے کہ جس نے توہین کی نیت سے یہ کہا کہ نبی کریم ﷺ کی چادر مبارک میلی ہے اسے قتل کر دیا جائے۔
(۴) حضورﷺ کے بال مبارک کی توہین کرنا
علامہ شامی لکھتے ہیں :
‘‘وفی المحیط لو قال لشعر النبی شعیر یکفر عندالبعض المشائخ وعند البعض لا یکفر الا اذا ذالک بطریق الاہانۃ’’۔
ترجمہ : محیط میں ہے کہ بعض مشائخ کے نزدیک کہ اگر کسی نے حضورﷺ کے بال مبارک کو توہین کی نیت سے ‘ شعیر ’ یعنی بصیغہ تصغیر کہا تو وہ کافر ہوجائے گا اور بعض کے نزدیک اگر چہ توہین کی نیت سے نہ بھی ہو تب بھی حضور ﷺ کے بال مبارک کو شعیر کہنے والا کافر ہو جائے گا ۔
(۵) حضور ﷺ کے حسن وجمال پر تنقید کرنا
قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘وَأفْتى أَبُو مُحَمَّد بن أَبِي زيد بِقَتْل رَجُل سَمِع قَوْمًا يَتَذَاكَرُون صِفَة النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم إِذ مر بِهِم رَجُل قَبِيح الْوَجْه وَاللَّحْيَة فَقَال لَهُم تُريدُون تَعْرفُون صِفَتَه هي فِي صِفَة هَذَا الْمَارّ فِي خَلْقِه وَلِحْيَتِه قال ولا تقب لتوبته وَقَد كَذَب لَعَنَة اللَّه وَلَيْس يخرج من قلب سُلَيْم الْإِيمَان’’
ترجمہ : امام محمد بن زید نے اس شخص کے قتل کا فتوی دیا جو ایک قوم کی باتیں سنے لگا جو حضورﷺکی صفات کا تذکرہ کررہی تھی اچانک ایک قبیح چہرے داڑھی والا شخص وہاں سے گزرا تو وہ شخص کہنے لگا کیا تم حضورﷺ کی صفت جاننا چاہتے ہو تو حضورﷺ کی صفت، خلقت اور داڑھی مبارک اس گزرنے والے کی طرح ہے (معاذاللہ ) امام محمد بن ابو زید نے فرمایا اس کی توبہ قبول نہیں ہے یہ جھوٹا ہے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو ایسی باتیں اس شخص کی دل سے نہیں نکلتی ہے جس کا ایما ن کامل اور سلامت ہو ۔
لہذا ہر وہ بات اور قول جس سے نبی کریم ﷺ کی توہین اور تنقیص مقصود ہو اور کسی نہ کسی پہلو میں اہانت نظر آتی ہو تو وہ توہین کے زمرے میں آئے گا ۔
توہین رسالت کے جرم کی نوعیت
توہین رسالت کے جرم کی دو مختلف صورتیں ہیں ۔فقہائے احناف کا موقف یہ ہے کہ ملزم کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے سے اس جرم کی توعیت پر فرق پڑتا ہے اگر کسی مسلمان نے اس شنیع جرم کا ارتکاب کیا تو وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس فعل پر ان تمام احکام کا اطلاق ہوگا جو ارتداد کی صورت میں لاگو ہوتے ہیں ۔جبکہ غیر مسلم چونکہ مرتدد نہیں ہو سکتا اس لیے اگر غیر مسلم اس فعل کا ارتکاب کرے تو اس کے اثرات بھی مختلف ہوں گے
ارتداد کے قانونی اثرات
پہلے اس شخص کا ذکر کرتے ہے جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا ۔
۱ ۔ ارتداد کے احکام میں ایک اہم حکم یہ ہے کہ ارتداد کی سز ا چونکہ حد ہے اس لیے اس کے اثبات کیلئے ایک مخصوص ضابطہ ہے اس مخصوص ضابطے کے سوا کسی اور طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔
۲ ۔ حد کی سزا شبہ سے ساقط ہوتی ہے اب چونکہ حد ارتداد تکفیر کے بعد ہی نافذ کی جاسکتی ہے اسلئے کسی بھی ایسے قول یا فعل کی بنیاد پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی جس کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہو ۔ اسی طرح اگر کسی قول یا فعل کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ان میں کوئی تعبیر ایسی ہو جس کی رو سے اسے کفر نہ قرار دیا جاسکتا ہو تو اسی تعبیر کو اپنایا جائے گا چناچہ ملزم سے پوچھا جائے گا کہ اس قول یا فعل سے اس کی مراد کیا تھی ، الا یہ کہ وہ کفر بواح کا مرتکب نہ ہو اگر ملزم کفر سے انکاری ہو تو اس کے انکار کو قبول کیا جائے گا خواہ اس کے خلاف گواہی موجود ہو ں کیونکہ اس کے اس انکار کو رجوع اور توبہ سمجھا جائے گا ۔
۳ ۔ اگر اقرار یا گواہی کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزم کا متعلقہ قول یا فعل ارتداد کے زمرے میں آتا ہے تو عدالت اسے توبہ کیلئے تلقین کرے گی اور سوچ بچار کے لیے تین ۳ دن کی مہلت دے گی ۔ اگر وہ اس کے بعد بھی اپنے اس قول سے رجوع کرکے اس سے مکمل براءت کا اظہار نہ کرے تب عدالت اس سزا سنائے گی اور یہ سزا ناقابل معافی ہوگی ۔
۴ ۔ چونکہ ارتداد کی سزا حد ہے اس لئے اس کا نفاذ افراد کا کام نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے ۔
۵ ۔ کسی شخص کے مرتد ثابت ہوجانے کے بعد اس کے عائلی زندگی پر بھی کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مثلا اس کی بیوی اس کیلئے حرام ہوجاتی ہے اور ارتداد کے بعد وہ جس مال کا مالک بنا ہو وہ اس کے موت کے بعد اس کے ورثاء کو نہیں ملے گا۔
اگر کوئی مسلمان (العیاذباللہ ) توہین رسالت کا ارتکاب کرے اور جناب نبی کریم ﷺ یا باقی انبیاءکرام میں سے کسی نبی کی گستاخی یا تنقیص وتخفیف کرے تو باتفاق امت وہ کافر ہوجائیگا گویا وہ مرتد ہو کر دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا ، لیکن عام مرتدین اور اس مرتد گستا خ کے حکم میں فرق ہے ، اور وہ یہ ہے کہ عام مرتد ین کے بارے میں حکم یہ کہ انھیں تین دن کی مہلت دی جاتی ہے ان کے شکوک وشبہات زائل کئے جاتے ہیں اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے لہذا اگر وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام قبول کرتے ہیں تو ان کی سزائے موت ساقط ہوجاتی ہے ۔ لیکن گستاخ رسول ﷺ وہ بد بخت کافر ہے کہ اس سے نہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور نہ ہی اسے مہلت دی جائے گی بلکہ فوراہی قتل کیا جائیگا ۔یہاں پر چند فقہاء کے اقوال پیش کرتے ہیں جنہوں نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ توہین رسالت کے مجرم سے توبہ کا مطالبہ نہیں ہو گا ۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘من سب النبي صلى الله عليه وسلم أو غيره من النبيين من مسلم أو كافر قتل ولم يستتب’’
ترجمہ : جو شخص حضورﷺ یا باقی انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرے چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر تو اسے قتل کیا جائیگا اور اس سے توبہ کامطالبہ نہیں ہو گا ۔
حضرت امام لیث ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘وَقَالَ اللَّيْثُ فِي الْمُسْلِمِ يَسُبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنَّهُ لَا يُنَاظَرُ وَلَا يُسْتَتَابُ وَيُقْتَلُ مَكَانَهُ، وَكَذَلِكَ الْيَهُودِيُّ وَالنَّصْرَانِيُّ ’’۔
ترجمہ : امام لیث ؒ فرماتے ہیں کہ جو مسلمان حضورﷺ کی گستاخی کرتا ہے تو اسے نہ مہلت دی جائے گی اور نہ ہی اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ فورا ہی قتل کیا جائے گا اور یہی حکم یہودی ونصاری کا بھی ہے کہ اگر وہ بھی توہین رسالت کرتے ہیں تو انھیں بھی بغیر مہلت کے اور بغیر مطالبہ توبہ کے قتل کیا جائے گا ۔
وھبۃ الزحیلی فرماتے ہیں کہ :
‘‘وأما من سب الله تعالى أو النبي صلّى الله عليه وسلم أو أحداً من الملائكة أو الأنبياء، فإن كانمسلماً قتل اتفاقاً. واختلف هل يستتاب أو لا، المشهور عند المالكية عدم الاستتابة’’
ترجمہ : جو شخص اللہ تعالی کی شان میں یا نبی کریم ﷺ کی شان میں یا کسی فرشتے یا انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو اگر وہ مسلمان ہو تو بالاتفاق اسے قتل کیا جائیگا اور آیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائیگا یا نہیں ؟ تو مالکیہ کے مشہور مذہب کے مطابق اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائیگا ۔
امام احمد بن حنبل ؒ کا فرمان ہیں کہ :
‘‘كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم أو تنقصه مسلما كان أو كافرا فعليه القتل وأرى أن يقتل ولا يستتاب’’۔
ترجمہ : ہر وہ شخص جو حضورﷺ کو گالی دے یا آپ ﷺ کی تنقیص کرے خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر بہر حال اسے قتل کیا جائیگا اور میرا مذہب یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائیگا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائیگا ۔
امام اصبغ مالکی ؒ کا قول ہے کہ :
‘‘وَقَال أصْبَغ، يُقْتَل عَلَى كُلّ حَال أسَرّ ذَلِك أو أظهره وَلَا يُسْتَتَاب لِأَنّ تَوْبَتَه لَا تُعْرَف’’
ترجمہ : گستاخ رسول کو ہر حال میں قتل کیا جائیگا خواہ وہ گستاخی کو چھپائے یا ظاہر کردے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائیگا کیونکہ اس کی توبہ کرنے کی کوئی مثال پائی نہیں جاتی ۔
اگر ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے
اگر ملزم غیر مسلم ہو تو اس فعل کو کفر میں اضافہ کہا جائے گا لیکن ظاہر ہے کہ اس کو ارتداد نہیں کہا جاسکتا ۔چنانچہ فقہاء اس مسئلے کو ارتداد کے بجائے نقض ذمہ کے عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں اور متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذمی کے اس فعل سے اس کا عقد ذمہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں ۔اس کےمتعلق فقہائے احناف کا مسلک یہ ہے کہ ذمی کے اس فعل سے اس کا عقد نہیں ٹوٹتا ۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فعل شنیع کے ارتکاب پر ذمی کو سزا نہیں سی جاسکے گی بہ الفاظ دیگر ان کا موقف یہ ہے کہ اس فعل سے ذمی کا دارالاسلام میں سکونت کا حق ختم نہیں ہوجاتا لیکن چونکہ یہ فعل دارالاسلام کے ملکی قانون کے تحت جرم ہے اس لیے اسے سزادی جاسکے گی ۔ اس قسم کی سزا کو فقہائے احناف سیاسۃ کہتے ہیں ۔
حد اور سیاسۃ میں فرق
حد اور سیاسۃ میں کئی فروق ہیں ،پہلا فرق: اسلامی قانون کی اصطلاح میں حد کی سزا کا تعلق حق اللہ سے ہے حق اللہ قرار دینے کے نتائج یہ ہیں:(۱)حد کی سزا قیاس اور رائے سے نہیں بلکہ نص کے ذریعے مقرر کی گئی ہے جس میں کمی و بیشی کا اختیا ر ریاست کے پاس نہیں ہے ۔(۲)حد کی سزا شبہ سے ساقط ہوجاتی ہے اور شبہ سے مراد صرف یہ نہیں کہ جرم کے ثبوت کے متعلق جج کے ذہن میں کوئی ابہام پایا جاتا ہے جس کا فائدہ دو ملزم کو دے دیتا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ اگر ملزم کے ذہن میں اس فعل کے قانونی جواز کے متعلق کوئی ابہام حقیقۃ یا فرضا پایا جاتا تھا تو اس کی وجہ سے اسے حد کی سز انہیں دی جاسکے گی۔(۳) حد کی سزا کے اثبات کےلیے صرف دو ۲ ہی طریقے ہیں کسی تیسرے طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جاسکتا : ایک مجرم کی جانب سے عدالت کے سامنے آزادانہ اقرار جرم او ر دوسرا اس کے خلاف گواہی جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق ہو ۔ وہ مخصوص نصاب یہ ہے کہ حد زنا کے علاوہ تمام حدود میں کم سے کم دو ۲ ایسے مسلمان عاقل بالغ مرد گواہی دیں جن کا کردار بے داغ ہو ۔حد زنا کے اثبات کیلئے باقی شروط تو یہی ہیں لیکن گواہوں کی تعداد چار ہونی چاہیے ۔(۴)حد کی سزا کی معافی کا اختیار نہ متاثرہ فرد کے پاس ہے اور نہ ہی حکومت یا ریاست کے ۔
سیاسۃ کی سزا کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں حق الامام کہتے ہیں حق الامام قرار دینے کے اہم نتائج یہ ہیں :(۱) اس سزا کی کوئی کم یا زیادہ حد شریعت نے مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کی حد مقرر کرنے کا اختیار حکومت کو دیا ہے اور حکومت اس کی بعض شنیع صورتوں میں سزائے موت بھی مقرر کرسکتی ہے ۔ (۲)یہ سزا فعل کے قانونی جواز کے متعلق ملزم کے ذہن میں پائے جانے والے ابہام کی بناء پر ساقط نہیں ہو سکتی ۔(۳) اس جرم کے اثبات کے لیے کوئی مخصوص ضابطہ نہیں ہے بلکہ جس طرح کا ثبوت عدالت کو فعل کے وقوع کے بارے میں مطمئن کردے وہ قابل قبول ہے اور اس کی بناء پر مناسب سزادی جاسکتی ہے ۔(۴) اس سزا کی معافی کا اختیار حکومت کے پاس ہے ۔
ذمی شاتم رسول ﷺ کا حکم
ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر ذمی کافر حضورﷺ کی شان اقدس میں سب وشتم کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا یاد رہے کہ حربی کافر تو ویسے ہی مباح الدم ہوتا ہے اس جرم سے وہ تو بدرجہ اولیٰ واجب القتل ہوجائے گا اس لیے اس بحث میں صرف ذمی کا فر پر بحث کی جائے گی ۔
امام علاؤالدین حصکفی لکھتے ہیں :
‘‘كما ذكره (الامام محمد )في السير الكبير فيدل على جواز قتل الذمي المنهي عن قتله بعقد الذمة إذا أعلن بالشتم أيضا واستدل لذلك في شرح السير الكبير بعدة أحاديث منها حديث أبي إسحاق الهمداني قال جاء رجل إلى رسول لله قال سمعت مرأة من يهود وهي تشتمك ولله يا رسول لله إنها لمحسنة إلي فقتلتها فأهدر النبي دمها’’
ترجمہ : امام محمد نے السیرالکبیر میں لکھا ہے کہ اس میں پر دلالت ہے کہ ذمی کو بدرجہ عہد ذمہ امان مل چکی ہے جب علانیہ حضورﷺ کی شان اقدس میں سب وشتم بکے تو اس کا قتل کرنا جائز ہے اور شرح السیر الکبیر میں اس کے قتل کے جواز پر بہت سی احادیث سے استدلال کیا گیا ہے ان میں ایک ابو اسحاق الھمدانی کی بیان کردہ حدیث ہے کہ ایک آدمی جب حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک یہودی عورت کو آپ کو گالیاں دیتے ہوئے سنا خدا کی قسم وہ مجھ پر بہت احسان کرنے والی تھی (اس کے باوجود بھی ) میں نے اسے قتل کردیا پس حضورﷺ نے اس کے خون کو ھدر قرار دے دیا ۔
یعنی اس کے قاتل پر کوئی قصاص وغیرہ نہیں ہے کیونکہ وہ توہین رسالت کے ارتکاب کے سبب مباح الدم ہوچکی تھی۔
ابو بکر جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘شَتْمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ فَقَدْ نَقَضَ عَهْدَهُ ووجب قتله’’
ترجمہ : کہ جو ذمی نبی کریم ﷺ کو سب وشتم کرتاہے تو تحقیق اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے اور اس کا قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے ۔
اسی طرح مزید گفتگو کرتے ہوئے امام جصاص ؒ نے اما م شافعی ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی ذمی حضورﷺ کی توہین کرتا ہے تو وہ مباح الدم ہوجاتا ہے یعنی اس کا خون حلال ہو جاتا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ :
‘‘وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: “وَيُشْتَرَطُ عَلَى الْمُصَالِحِينَ مِنْ الْكُفَّارِ أَنَّ مَنْ ذَكَرَ كِتَابَ اللَّهِ أَوْ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَا يَنْبَغِي أَوْ زَنَى بِمُسْلِمَةٍ أَوْ أَصَابَهَا بِاسْمِ نِكَاحٍ أَوْ فَتَنَ مُسْلِمًا عَنْ دِينِهِ أَوْ قَطَعَ عَلَيْهِ طَرِيقًا أَوْ أَعَانَ أَهْلَ الْحَرْبِ بِدَلَالَةٍ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَوْ آوَى عَيْنًا لَهُمْ فَقَدْ نَقَضَ عَهْدَهُ وَأُحِلَّ دَمُهُ وَبَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ”. وَظَاهِرُ الْآيَةِ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ مَنْ أَظْهَرَ سَبَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ فَقَدْ نَقَضَ عَهْدَهُ ’’۔
ترجمہ : اما م شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ معاہدین کیلئے یہ شرط ہے کہ ان میں سے اگر کوئی شخص اللہ تعالی کی کتاب ، یا جناب رسول اللہ ﷺ کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے گا جو اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی شان کے مباسب نہیں یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے گا یا نکاح کے نام سے مسلمان عورت سے بدکاری کرے گا یا کسی مسلمان کو اس کے دین سے پھیرے یا اس کو راستہ میں لوٹے گا یا مسلمانوں کے خلاف رہنمائی کی صورت میں حربی کفار کی مدد کریگا یا ان کے جاسوسوں کو ٹھکانہ دے گا تو ان سب صورتوں میں اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسکا خون حلال ہوجائے گا اور اس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی ذمہ داری ختم ہوجائیگی ۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ :
‘‘وَاَلَّذِي عِنْدِي أَنَّ سَبَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَوْ نِسْبَةَ مَا لَا يَنْبَغِي إلَى اللَّهِ تَعَالَى إنْ كَانَ مِمَّا لَا يَعْتَقِدُونَهُ كَنِسْبَةِ الْوَلَدِ إلَى اللَّهِ تَعَالَى وَتَقَدَّسَ عَنْ ذَلِكَ إذَا أَظْهَرَهُ يُقْتَلُ بِهِ وَيُنْتَقَضُ عَهْدُهُ ’’۔
ترجمہ : میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ ذمی نے اگر حضورﷺ کو گالی دی یا غیر مناسب چیز اللہ تعالی کی طرف منسوب کی اگر وہ ان کے معتقدات سے خارج ہے جیسا کہ اللہ تعالی کی طرف بیٹے کی نسبت کرنا جیسا کہ یہود ونصاری کا عقیدہ ہے جب وہ ان چیزوں کا اظہا ر کرے گا تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا ۔
علامہ ابن تیمیہ امام احمد بن حنبل ؒ کا موقف ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں :
‘‘قال الإمام أحمد في رواية حنبل: “كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم وتنقصه مسلما كان أو كافرا فعليه القتل وأرى أن يقتل ولا يستتاب’’
ترجمہ : حنبل کی روایت کے مطابق امام احمد نے فرمایا کہ جو شخص بھی رسول کریم ﷺ کو گالی دے یا آپ ﷺ کی شان میں تنقیص کرے وہ مسلمان ہو یا کافر اسے قتل کردیا جائے گا ۔ میری رائے میں اسے توبہ کا مطالبہ کیے بغیر قتل کیا جائے گا ۔
مزید لکھتے ہیں :
‘‘وفي رواية أبي طالب: سئل أحمد عمن شتم النبي صلى الله عليه وسلم قال: “يقتل قد نقض العهد’’۔
ترجمہ : ابی طالب سے مروی ہے کہ امام احمد سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو حضورﷺ کو گالی دے تو آپ نے فرمایا اسے قتل کردیا جائے گا کیونکہ اس کا عہد ٹوٹ چکا ہے ۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ مذکورہ بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو رہی ہے کہ سب ائمہ کے نزدیک اگر کوئی ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے گا تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور وہ واجب القتل ہو گا ۔
توہین رسالت کی سزا :بطور حد یا تعزیر
توہین رسالت کا جرم حدود سے متعلق ہے یا تعزیرات سے ؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے حدود اور تعزیرات کی تعریف معلوم ہونی چاہیے کہ حدود سے کیا مراد ہے اور تعزیرات سے کیا مراد ہے ؟ ان سوالوں کا جواب حد اور تعزیر کی تعریف معلوم ہونے سے بخوبی سمجھ آسکتا ہے ۔
علامہ کاسانی ؒ حد کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
‘‘الْحَدُّ فِي اللُّغَةِ: عِبَارَةٌ عَنْ الْمَنْعِ، وَمِنْهُ سُمِّيَ الْبَوَّابُ حَدَّادًا؛ لِمَنْعِهِ النَّاسَ عَنْ الدُّخُولِ، وَفِي الشَّرْعِ: عِبَارَةٌ عَنْ عُقُوبَةٍ مُقَدَّرَةٍ وَاجِبَةٍ حَقًّا لِلَّهِ تَعَالَى’’
ترجمہ : ایسی مقررہ سزا جس کا نفاذاللہ تعالی کے حق کے طور پر واجب ہے ۔
فقہ حنفی کے معروف محقق علامہ ابن نجیم المصری حد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
‘‘الحد عقوبة مقدر لله تعالى) بيان لمعناه شرعا فخرج التعزير لعدم التقدير’’
ترجمہ : حد وہ سزا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ ہے یہ اس کے شرعی معنی کی وضاحت ہے پس اس سے تعزیر نکل گئی کیونکہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے طے شدہ نہیں ہوتی ۔
ان عبارتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حد اس سزا کو کہتے ہیں جو شارع کی طرف سے حق اللہ کے طور ر مقرر شدہ ہو اور جو سزا شارع کی طرف سے مقرر شدہ نہ ہو وہ حد نہیں فقہاء اس کو تعزیر سے تعبیر کرتے ہیں ۔
چنانچہ علامہ سرخسی حد اور تعزیر کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
‘‘الحد اسم لعقوبة مقدرة تجب حقا لله تعالى ولهذا لا يسمى به التعزير لأنه غير مقدر’’
ترجمہ: حد اس سزا کا نام ہے جو مقرر شدہ ہو اللہ تعالی کے حق کے طور پر واجب ہو اس وجہ سے اس کو تعزیر نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ مقررشدہ سزا نہیں ہوتی ۔
کسی بھی سزا کے حد ہونے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے مقرر شدہ ہو اور جو سزائیں اللہ تعالی کی طرف سے مقرر شدہ ہیں وہ یا تو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں یا رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں حد کی سزا کا ثبوت قرآن مجید یا حدیث رسول ﷺ سے ضروری ہے لیکن تعزیری سزا کیلئے اس کا ثبوت قرآن یا حدیث سے ضروری نہیں کیونکہ وہ شارع کی طرف سے مقرر شدہ نہیں ہوتی ۔ حد کی سزا کا تعلق حق اللہ سے ہے اس لیے حد کی سزا قیاس ورائے سے نہیں بلکہ منجانب اللہ نص کے ذریعے سے مقرر شدہ ہوتی ہے جس میں کمی وبیشی کا اختیار کسی بھی ریاست کے پاس نہیں ہوتا ۔
چنانچہ امام سرخسی ؒ فرماتے ہیں :
‘‘فَالْحَدُّ بِالْقِيَاسِ لَا يَثْبُتُ’’
ترجمہ:حد قیاس کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی۔
بلکہ اس کے ثبوت کیلئے نص صریح کا پایا جانا ضروری ہے ، حد کی سزا شبہ سے ساقط ہوجاتی ہے ۔اس بحث کے بعد ائمہ حضرات کے اقوال کا ذکر کرتے ہیں کہ علما ء اور ائمہ نے توہین رسالت کے مرتکب کی سزا حدود میں شمار کیا ہے یا تعزیرات میں ۔
گستاخ رسول سے متعلق مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ توہین رسالت کے مجرم کو جو سزائے موت دی جاتی ہے اس کی توعیت کیا ہے ؟ آیا یہ سزائے موت کفر کی وجہ سے ہے ؟ یا سیا سۃ ہے ؟ یا بطور حد ہے ؟
جمہور فقہاء کرام کامذہب یہ ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کی سزائے موت بطور حد ہے اور حدود کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ حدود توبہ سے ساقط نہیں ہوا کرتیں ، لہذا گستاخ رسول اگر توبہ بھی کرلے تو اس توبہ کی وجہ سے اس کی سزائے موت ختم نہیں ہوسکتی بلکہ دنیوی احکام میں اسے بہرحال قتل کیا جائے گا ، ہاں اگر اس نے سچے دل سے خلوص نیت کے ساتھ توبہ کی ہو تو آخرت کے عذاب سے بچ جائیگا ۔
یہاں پر چند فقہاء کے اقوال ذکر کرتے ہیں جنہوں نے یہ تصریح فرمائی ہے کہ گستاخ رسول کی سزائے موت بطور حد ہے ۔ لہذا اس پر حدود سے متعلقہ مسائل کا اجرا ء ہو گا ۔
علامہ ان ہمام ؒ فتح القدیر میں فرماتے ہیں کہ :
‘‘كُلُّ مَنْ أَبْغَضَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِقَلْبِهِ كَانَ مُرْتَدًّا، فَالسِّبَابُ بِطَرِيقٍ أَوْلَى، ثُمَّ يُقْتَلُ حَدًّا عِنْدَنَا فَلَا تَعْمَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِ الْقَتْلِ. قَالُوا: هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ، وَنُقِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ’’-
ترجمہ : ہر وہ شخص جو دل سے آپ ﷺ کے ساتھ بغض رکھے تو وہ مرتد ہے ، تو گستا خی کرنے والا بطریق اولی مرتد ہوگا پھر ہمارے احناف کے ہاں اس گستاخ رسول کو حدا قتل کیا جائے گا لہذا توبہ کرنے کی وجہ سے اس کی یہ سزا ئے موت ساقط نہیں ہو سکتی ، فقہاء نے لکھا ہے کہ یہی اہل کوفہ اور حضرت امام مالک ؒ کا مذہب ہے اور حضرت صدیق اکبرؓ سے بھی یہی مذہب منقول ہے ۔
علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘ونقل أبو بكر الفارسي أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع أن من سب النبي صلى الله عليه وآله وسلم بما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء فلو تاب لم يسقط عنه القتل لأن حد قذفه القتل وحد القذف لا يسقط بالتوبة’’
ترجمہ : امام ابوبکر فارسی ؒ جو ائمہ شافعیہ میں سے ہیں انہوں نے ‘‘کتاب الاجماع ’’ میں نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کی توہین کرے وہ تمام ائمہ کے ہان کافر ہے اگر وہ توبہ بھی کرلے تب بھی اس کی یہ توبہ اس سے سزائے موت کو ساقط نہیں کرسکتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی حد قذف ہے جس کی سزا قتل ہے اور حد قذف توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔
علامہ ابن نجیم ؒ کا قول ہے کہ :
‘‘ثُمَّ يُقْتَلُ حَدًّا عِنْدَنَا فَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ في إسْقَاطِهِ الْقَتْلَ قالوا هذا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ’’۔
ترجمہ : پھر ہمارے احناف کے ہاں گستاخ رسول کو حدا قتل کیا جائے گا لہذا توبہ کرنے کی وجہ سے اس کی سزائے موت ساقط نہیں ہو سکتی ،فقہاء نے کہا ہے کہ یہی اہل کوفہ اور حضرت امام مالک ؒ کا مذہب ہے ۔
علامہ حصکفی ؒ اپنی کتاب ‘‘الدر المختار ’’ میں فرماتے ہیں کہ :
‘‘من نقص مقام الرسالة بقوله، بأن سبه (ص)، أو بفعله بأن بغضه بقلبه: قتل حدا’’
ترجمہ :جو شخص اپنے کسی قول سے مقام رسالت کی نتقیص کرے ، بایں طور کہ آپ ﷺ کی گستاخی کرے ،یا اپنے کسی فعل سے جیسے دل سے آپ ﷺ سے بغض رکھے تو اسے حدا قتل کیا جائے ،
ایک جگہ پر علامہ شامی ؒ گستاخ رسول پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
‘‘( فإنه يقتل حدا ) يعني أن جزاءه القتل على وجه كونه حدا ولذا عطف عليه قوله ولا تقبل توبته لأن الحد لا يسقط بالتوبة’’
ترجمہ : پس اس گستاخ کو حدا قتل کیا جائے گا یعنی اس کی یہ سزا ئے موت بطور حد کے ہے اسی وجہ سے اس پر مصنف کے اس قول کا عطف کیا ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہے کیونکہ حدود توبہ سے ساقط نہیں ہوتیں ۔
صاحب مجمع الانہر فرماتے ہیں کہ :
‘‘وَأَمَّا إذَا سَبَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – أَوْ وَاحِدًا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ مُسْلِمٌ وَلَوْ سَكْرَانَ وَأَنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّا وَلَا تَوْبَةَ لَهُ أَصْلًا’’۔
ترجمہ : اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ یا باقی انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرے اگرچہ حالت نشہ میں کیوں نہ ہو تو اسے حدا قتل کیا جائے گا اور کسی بھی صورت میں اس کی توبہ قبول نہیں ہے ۔
علامہ محمد بن فراموز ملا خسرو فرماتے ہیں کہ :
‘‘قُلْنَا إذَا شَتَمَهُ سَكْرَانُ لَا يُعْفَى وَيُقْتَلُ أَيْضًا حَدًّا وَهَذَا مَذْهَبُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ – وَالْإِمَامِ الْأَعْظَمِ وَالثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ وَالْمَشْهُورُ مِنْ مَذْهَبِ مَالِكٍ وَأَصْحَابِهِ’’
ترجمہ :ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نشے کی حالت میں بھی آپ ﷺ کی گستاخی کرے گا اسے معافی نہیں ملے گی بلکہ اسے بھی حدا قتل کیا جائے گا ( جس طرح کہ حالت نشہ میں نہ ہونے کی صورت میں گستاخی کرنے والے کو حدا قتل کیا جاتا ہے ) اور یہی حضرت صدیق اکبر ؓ کا مذہب ہے ،امام اعظم ؒ ، حضرت ثوری ؒ اور اہل کوفہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے اور حضرت امام مالک ؒ اور ان کے اصحاب کا مشہور مذہب بھی یہی ہے ۔
تنقیح الفتاوی میں ہے کہ :
‘‘فَهُوَ كَافِرٌ يَجِبُ قَتْلُهُ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَإِسْلَامُهُ فِي إسْقَاطِ الْقَتْلِ سَوَاءٌ تَابَ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِ وَالشَّهَادَةِ عَلَى قَوْلِهِ أَوْ جَاءَ تَائِبًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ لِأَنَّهُ حَدٌّ وَجَبَ وَلَا تُسْقِطُهُ التَّوْبَةُ كَسَائِرِ الْحُدُودِ’’
ترجمہ : توہین رسالت کا مرتکب کافر ہے اور باتفاق امت اس کو قتل کرنا واجب ہے اور اس سے سزائے موت کے ساقط کرنے کیلئے اس کی توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کا کوئی اعتبا ر نہیں ، برابر ہے کہ گرفتاری کے بعد اور اس کے خلاف گواہیں ہونے کے بعد توبہ کرے یا خود بخود تائب ہو کر آجائے کیونکہ اس کی یہ سزائے موت بطور حد کے ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتی ۔جس کہ باقی حدود توبہ سے ساقط نہیں ہوتے ۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘وقد استدل بقصة ابن خطل طائفة من الفقهاء على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم من المسلمين يقتل وإن أسلم حدا ’’
ترجمہ : فقہاء کرام کی ایک جماعت نے ابن خطل کے قصے سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کرے تو اسے حدا قتل کیا جائیگا ، اگرچہ وہ بعد میں مسلمان کیوں نہ ہو جائے ۔
حاصل بحث یہ ہے کہ مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات بالکل صاف ظاہر ہوتی ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کیلئے سزائے موت بطور حد کے ہے لہذا اگر کوئی گستاخ توبہ بھی کرلے تب بھی اس کے توبہ کرنے کی وجہ سے اس کی سزائے موت ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ حدود توبہ سے معاف نہیں ہوتیں اور یہی محققین احناف کا مذہب ہے۔
چنانچہ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے جامعہ دارالعلوم کراچی کے استاذ مفتی محمود اشرف فرماتے ہیں کہ :
یہ بات بھی خوب ثابت ہوگئی کہ ایسا بد گو مرتد اگر اپنی بد گوئی اور اپنے کفر سے صحیح توبہ کرلے تب بھی اکثر علماء ، فقہاء اور محدثین کے نزدیک اس کا اسلام تو قبول ہو جائے گا مگر بد گوئی اور رسول اللہ ﷺ پر تہمت لگانے کی وجہ سے اس کی سزائے قتل ہرگز معاف نہ ہو گی ۔ اسلام لانے کے باوجود بطور حد کے قتل کیا جائے گا ( جیسا کہ عام انسانوں کو لگائی جانے والی تہمت پر حد قذف کہ وہ بھی توبہ سے معاف نہیں ہوتی ) احناف کے اکثر جلیل القدر علما ء کا یہی مذہب ہے ۔
فصل دوم :مرتکب توہین رسالت کی توبہ کا حکم
ایک بندے کا اپنے پروردگار کی بارگاہ میں پلٹ آنے کا ، گذشتہ گناہوں پر ندامت کے آنسو بہانے اور آئندہ اپنے خواہشات کو مرضی مولا کے سامنے قربان کردینے کے عزم مصمم کا نام ہے ۔ لیکن توبہ کے باب میں سنت الہیٰہ یہ ہے کہ اللہ تعالی توبہ سے ان گناہوں کو تو معاف کردیتا ہے جو خالصۃ اسی کی ذات سے متعلق ہوتے ہیں جنہیں اصطلاح میں حقوق اللہ کہاجاتا ہے لیکن وہ گناہ جن کا تعلق بندوں سے ہوتا ہے انہیں معاف کرنے کا حق بھی اس نے بندوں کو ہی دے رکھا ہے گویا حقوق العباد توبہ سے معاف نہیں ہوتے ۔ اگر مظلوم ظالم کو معاف کردے تو اللہ تعالی بھی اسے معاف کردے گا اور اگر مظلوم اسے معاف نہیں کرے گا تو اللہ تعالی باوجود قادرمطلق ہونے کے اسے معاف نہیں کرے گا۔
مثلا اگر کوئی کسی کو گالی دیتا ہے تو جب تک جسے گالی دی گئی ہے وہ اسے معاف نہ کرے گالی دینے والا اگر چہ لاکھ مرتبہ توبہ کرتا رہے اس کی دنیاوی سزا اسے ضرور ملے گی اور توبہ اس کی دنیاوی سزا کو ختم نہیں کرائے گی اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ جسے گالی دی گئی ہے وہ اگر اپنی زندگی میں اسے معاف نہ کرے تو بعد میں کسی کو بھی اس کی طرف سے معاف کرنے کا اختیار نہیں ہے بلکہ مجرم کو دنیاوی سزا ملے گی ہاں اگر وہ خلوص نیت سے توبہ کرے گا تو اس کا اجر اس کو آخرت میں ملے گا ۔
مسئلہ توبہ
قرآن مجید ، احادیث ،اور ائمہ کرام وعلماء کے اقوال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جوبھی شخص چاہےمسلمان ہو یا غیرمسلم گستاخی رسول کا ارتکاب کرے وہ کافر مرتد ہے اور حدا قتل کا مستحق ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفر وارتداد اور گستاخی کے بعد اگر کوئی اگر کوئی شخص توبہ کی طرف مائل ہو تو اس کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ توبہ کسی وقت معتبر ہے کیا گستاخی کا ارتکاب کرتے ہی یعنی ‘‘قبل الاخذ ’’(گرفتار ہونے یا مقدمہ دائر ہونے سے پہلے )کی توبہ قبول ہوگی یا ‘‘بعد الاخذ’’(گرفتار ہونے اور مقدمہ دائر ہوجانے کے بعد) کی توبہ قبول ہوگی۔
اس حوالہ سے تیسرا سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ گستاخ رسول کی توبہ کی قبولیت کا کیا معنی ہے ؟ کیا یہ عنداللہ قبول تصور ہوگی اور کیا یہ توبہ صرف گناہ معاف کرانے کیلئے ہی کافی ہوگی یا اسقاط قتل کیلئے بھی ، یعنی اس سے توبہ سزائے موت بھی معاف ہو سکتی ہے یا نہیں ؟
جملہ مذاہب کے ائمہ وفقہاء جنہوں نے اس موضوع پر لکھا ہے ان کی تصریحات وتحقیقات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے یہ اس مسئلہ میں کل تین ۳ آراء ہیں ۔
پہلی رائے:توبہ مطلقا قبول نہیں
توہین رسالت کا مرتکب بہر صورت واجب القتل ہے اور اس کی توبہ مطلقا کسی بھی صورت میں قبول نہیں کی جائے گی خواہ ‘‘قبل الاخذ’’ یعنی مقدمے کے اندراج یا گرفتاری سے پہلے توبہ کرے یا ‘‘بعد الاخذ’’ یعنی مقدمے کے اندراج یا گرفتاری کے بعد توبہ کرے ہر صورت برابر ہے کسی صورت بھی قطعا قبولیت توبہ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔اس موقف کو امت کے جمہور ائمہ افقہاء نے اختیار کیا ہے ۔
دلائل :
‘‘إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا’’
ترجمہ : بےشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کوایذا پہنچاتے ہیں ان پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کیلئے اس نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اس آیت کریمہ سے ابن تیمیہ ؒ استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
‘‘ان المسلم يقتل اذا سب من غير استتابة وان اظهر التوبة بعد اخذه کما هو مذهب الجمهور’’
ترجمہ :جو بھی حضورﷺ کی بے ادبی وگستاخی کرے گا ، اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کردیا جائے اگر چہ وہ بعد الاخذ توبہ کرے اور وہ کہتے ہیں کہ یہی مذہب جمہور کا ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اﷲ کہتے ہیں، کہ سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے، شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی و بے ادبی کا ارتکاب کرنے والے کی سزا تو بہ کا موقع دیئے بغیر قتل کرنا ہے۔ حدیث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہی بات سامنے آتی ہے۔
فانه امر بقتل الذي کذب عليه من غير استتابه .
ترجمہ :‘‘حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں بغیر توبہ کا موقع دیئے قتل کا حکم صادر فرمایا جس نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔‘‘
فتنہ اہانت رسول میں مسلم وغیر مسلم کا امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ دونوں پر حد کا اجراء ہوگا، کوئی بھی اس سے مستثنیٰ و مبراء نہ ہوگا۔ امام مالک رحمہ اﷲ نے اسی چیز کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘من سب رسول اﷲ أو شتمه أو عابه أو قتل مسلما کان أو کافراً ولا يستتاب’’ .
ترجمہ :جس شخص نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا عیب لگایا یا آپ کی تنقیص کی تو وہ قتل کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ نے فرمایا ہروہ شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا تنقیص واہانت کا مرتکب ہوا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اس جسارت پر سزائے قتل اس پر لازم ہوجائے گی۔
مزید برآں فرماتے ہیں :
‘‘اری ان يقتل ولا يستتاب’’5
ترجمہ :‘‘کہ میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کر دیا جائے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کے صاحبزادے فرماتے ہیں ایک روز میں نے والد گرامی سے پوچھا جو شخص حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کرے آپ کی شان اقدس میں دشنام طرازی کا ارتکاب کرے تو ایسے شخص کی توبہ قبول کی جائے گی؟ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا:
وجب عليه القتل ولايستتاب.
’’سزائے قتل اس پر واجب ہو چکی ہے اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوگی۔‘‘
جو شخص حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی کا مرتکب ہو کیا اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔؟
اس کے بارے میں امام زین الدین ابن نجیم حنفی فرماتے ہیں کہ ایسا شخص جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قلبی طور پر بغض وعداوت رکھتا ہے وہ مرتد ہے جبکہ کھلم کھلا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دینے والا بطریق اولیٰ کافرومرتد ہے۔
‘‘يقتل عندنا حدا فلا تقبل توبته في إسقاطه القتل’’.
ترجمہ :‘‘ہمارے نزدیک (یعنی مذہب احناف کے مطابق) اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور حد قتل کو ساقط کرنے کے حوالے سے اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
اسی طرح امام ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اﷲ شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اہانت وگستاخی کے مرتکب کی سزا کے متعلق فرماتے ہیں:
‘‘فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته لأن الحد لايسقط بالتوبة، وأفاد أنه حکم الدنيا وأما عند اﷲ تعالیٰ فھي مقبولة’’.
ترجمہ :اسے حداً قتل کر دیا جائے گا۔ اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ حد توبہ سے ساقط ومعاف نہیں ہوتی، یہ حکم اس دنیا سے متعلق ہے جبکہ آخرت میں اﷲ رب العزت کے ہاں اس کی توبہ مقبول ہوگی۔‘‘
محمد بن علی بن محمد علائو الدین حصنی دمشقی المعروف حصکفی فرماتے ہیں:
الکافر بسب نبي من الأنبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا ولو سب اﷲ تعالیٰ قبلت لأنه حق اﷲ تعالیٰ والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شک في عذابه وکفره کفر.
ترجمہ :‘‘انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی توہین کرکے جو شخص کا فر ہو اسے حداً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی صورت میں قبول نہیںہوگی۔ اگر اس نے شان الوہیت میں گستاخی کی (پھر توبہ کی) تو اس کی توبہ قبول ہو جائے گی۔ اس لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے (جو توبہ سے معاف ہوجاتا ہے) جبکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی یہ حق عبد ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا اور جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
دوسرا مؤقف :
دوسرا مؤقف یہ ہے کہ گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا حداً قتل ہی ہے لیکن قبولیت توبہ کے امکان کے ساتھ بایں طور پر اگر وہ قبل الأخذ گرفتاری یا مقدمے کے اندراج سے پہلے تائب ہو تو یہ توبہ لاسقاط الحد ہوگی۔ اس توبہ سے قتل کی سزا اٹھ جائے گی۔ اکثر شوافع اور بعض احناف نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔
امام ابو یوسف نے فرمایا کوئی بھی شخص جس نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی یا آپ ﷺکی تکذیب اور عیب جوئی کی یا آپﷺ کی شان اقدس میں تنقیص و اہانت کا مرتکب ہوا تو وہ کافر ہو جائے گا اور بیوی سے اس کا نکاح بھی ٹوٹ جائے گا۔
امام ابن عابدین شامی نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کا دوسرا قول اس طرح بیان کیا ہے:
‘‘إن کان مسلما يستتاب فإن تاب وإلا قتل کالمرتد’’.
ترجمہ :‘‘اگر کوئی مسلمان (شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کرے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ پھر اگر وہ توبہ کرے تو بہتر ورنہ مرتد کی طرح قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
احناف میں سے بعض ائمہ نے قبل الأخذ توبہ کی جو صورت بیان کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی عام مرتدین کی صف میں شامل کرتے ہوئے اس پر بھی ارتداد کے احکام جاری کیے ہیں۔ چونکہ احناف کے نزدیک مرتد کو توبہ کا موقع دیا جاتا ہے۔ اتمام حجت کے لئے اس پر بھی توبہ پیش کی جاتی ہے ۔ مگر اس کے باوجود اسے تعزیراً قید بھی کیا جاتا ہے۔ غرضیکہ بعض ائمہ احناف نے حد ساقط کرنے کے لئے قبول توبہ کا جو قول کیا ہے اس میں سبب اختلاف ٹھہرا کہ ان کے نزدیک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی وگستاخی اور اہانت و تنقیص ایسا کفر ہے جو باعث ارتداد ہے۔ اس لئے انہوں نے ارتداد کی صورت میں قبولیت توبہ کے احکام کا گستاخ رسول پر بھی اطلاق کر دیا ہے۔ بنابریں ان کے نزدیک اس کے لئے توبہ کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے جبکہ بعض ائمہ نے تطبیق پیدا کرتے ہوئے فرمایا کہ امر واقعہ یہ ہے جو شخص حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی و اہانت کے سبب کافر ومرتد ہوا ہے وہ عام مرتدین سے مستثنیٰ ہے۔ عام مرتدین کے لئے اتمام حجت کے طور پر قبولیت توبہ کے معاملات ہوں گے جبکہ شاتم رسول کے لئے قبولیت توبہ کی کوئی صورت ہی نہیں۔
اسی چیز کو امام الشیخ زین الدین ابن نجیم حنفی رحمہ اﷲ ’’البحر الرائق‘‘ میں يعرض الاسلام علی المرتد (مرتد کو اسلام پیش کیا جائے) کے تحت عام مرتدین کے احکام بیان کرتے ہوئے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہانت کی بنا پر جو مرتد ہوا اسے اس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ اور مستثنیات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
‘‘يستثنی منہ مسائل الأولی الردة بسب النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم. والثانية الردة بسب الشيخين أبي بکر وعمر. والثالثة لا تقبل توبة الزنديق في ظاهر المذهب. والحق ان الذي يقتل ولا تقبل توبته هو المنافق والرابعة توبة الساحر.’’
ترجمہ :‘‘ارتداد کے احکام میں سے چند مسائل مستثنیٰ ہیں، اس میں پہلا مسئلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب وشتم کرنے کی وجہ سے مرتد ہونا ہے۔ دوسرا شیخین، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عہنما کو گالی دے کر مرتد ہونا ہے۔ تیسرا زندیق۔ ظاہر مذہب میں ان کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اوردرست بات یہی ہے کہ جسے قتل کیا جائے گا اور جس کی توبہ قبول نہ ہوگی وہ منافق ہے۔ چوتھا جادوگر کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔‘‘
امام حصکفی رحمہ اﷲ بھی عام مرتدین کے احکام سے گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘کل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا الکافر بسب نبی من الانبياء فإنه يقتل حداً ولا تقبل توبته مطلقا’’.
ترجمہ :‘‘ہر مسلمان جو مرتدہوا اس کی توبہ قبول ہوگی سوائے اس کافر کے جو انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی کی گستاخی کے باعث کافر ہوا اسے حداً قتل کر دیا جائے گا اور مطلقا (قبل الاخذ اور بعد الاخذ) اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
تیسرا مؤقف
تیسرا مؤقف پہلے مؤقف کی ہی تائید ہے۔ سزائے قتل حداً واجب ہے۔ توبہ بھی قبول نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مؤقف ثانی کے مطابق قبل الأخذ قبولیت توبہ کا مفہوم ان کے ہاں عند اللہ مقبولیت کا ہے، عند الناس قبولیت مراد نہیں۔ اس کی توبہ سے آخرت کی سزا وعقوبت تو مرتفع ہوجائے گی۔ مگر توبہ سے حد قتل قطعاً ساقط نہیں ہو گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ موقف ثالث کے مطابق قبل الأخذ عندا للہ قبولیت توبہ سے اس شخص کو یہ فائدہ ہو گا کہ سزائے موت کے بعد اس پر احکام اسلام کا اجراء ہوگا، نماز جنازہ ادا کی جائے گی، تکفین وتدفین میں بھی اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ درحقیقت تیسرا موقف بھی پہلا مؤقف ہی ہے۔ بایں وجہ اس میں بھی قبولیت توبہ کو اسقاط قتل کے ساتھ متعلق نہیں کیا گیا بلکہ قبولیت توبہ کا تعلق عند اللہ مقبولیت کے ساتھ خاص ہے اور اس کے وقت موت، مسلم و غیر مسلم ہونے کے ساتھ مختص ہے کیونکہ اس بناء پر ہی تو فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا اس کا نماز جنازہ پڑھا جائے اور اس کی تکفین و تدفین کی جائے یا نہ کی جائے۔ پہلے اور تیسرے موقف میں یہی بات قدرے مشترک ہے کہ سزائے موت کسی بھی صور ت میں مرتفع نہ ہو گی۔ بہر صورت اس کا نفاذ ہو گا سو اس اعتبار سے تیسرا موقف بھی حقیقتًا پہلا موقف ہی قرار پاتا ہے۔
امام ابن عابدین شامی تیسرے موقف کے حوالے سے گستاخ رسول کی مطلقًا عدم قبولیت توبہ اور اس پر بہر صورت حد قتل کے اجراء ونفاذ او ربعد از توبہ اس پر مسلمانوں کے احکام جاری کرنے کے متعلق فرماتے ہیں:
‘‘فيجب قتل هؤلاء الأشرار الکفار تابوا أو لم يتوبوا، لأنهم إن تابوا وأسلموا قتلوا حداً علي المشهور وأجري عليهم بعد القتل احکام المسليمن وإن بقوا علی کفرهم وعناد هم قتلوا کفراً وأجری عليهم بعد القتل أحکام المشرکين’’.
‘‘شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی وبے ادبی کرنے والے) ایسے شریر وگستاخ کفار کو قتل کرنا واجب ہے خواہ یہ توبہ کریں یا نہ کریں۔ اس لئے کہ اگر یہ (گستاخی و اہانت کے بعد) توبہ کر لیں اور دوبارہ مسلمان ہو بھی جائیں تو انہیں مذہب مشہور کے مطابق حداً قتل کر دیا جائے گا۔ (توبہ اور دوبارہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے) قتل کے بعد ان پر مسلمانوں کے احکام (تدفین وتکفین ) جاری کیے جائیں گے اور اگر یہ اپنے کفر اور عداوت ودشمنی پر قائم رہیں تو انہیں کفر وارتداد کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا۔ اور قتل کے بعد ان پر مشرکین کے احکام جاری کیے جائیں گے۔‘‘
گویا شان رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی فرد جس لمحے ادنیٰ سی گستاخی وبے ادبی، اہانت واستخفاف اور تحقیر و تنقیص کا مرتکب ہو۔ اس پر اسی وقت حد قتل لازم ہو جائے گی، یہ کسی بھی صورت میں ٹل نہیں سکتی۔ ناموس رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے والے کی توبہ مطلقاً قبول نہ ہوگی۔ ہاں صرف اس حد تک اسے فائدہ پہنچے گا کہ اگر حد قتل کے اجراء سے قبل اس نے صد ق دل سے توبہ کرلی تو اسے توبہ کے نتیجے میں بعد از اجراء حد اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی سلوک جائے گا۔ اس کی تدفین وتکفین اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔ اس کے برعکس اگر وہ گستاخی رسول پر حد قتل کے اجراء تک قائم رہے یوں ہمیشہ کیلئے اپنی تباہی و بربادی کا سامان بھی کرتا رہے اور اہانت رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی مصر رہے تو ایسے گستاخ کے ساتھ کفار ومشرکین جیسا ہی سلوک کیا جائے گا اور اسے قتل کرنے کے بعد مٹی کا گڑھا کھود کر دفن کر دیا جائے گا۔
خلاصہ کلام:
ہمارے نزدیک حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادنیٰ سی گستاخی و بےادبی، توہین و تنقیص، تحقیر و استخفاف، صریح ہو یا بانداز اشارہ و کنایہ، ارادی ہو یا بغیر ارادی بنیت تحقیر ہو یا بغیر نیت تحقیر، گستاخی کی نیت سے ہو یا بغیر اس کے حتیٰ کہ وہ محض گستاخی پر دلالت کرے تو اس کا مرتکب کافر و مرتد اور واجب القتل ہے۔اس بحث کے بعد اب مسلمان اور ذمی کا الگ الگ ذکر کرتے ہیں ۔
مسلمان مرتکب توہین کی توبہ کا حکم :
اب مسئلہ یہ ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب شخص کی توبہ قابل قبول ہے یا نہیں اور توبہ کی نوعیت کیا ہوگی اس کو استتابہ کہتے ہیں ۔
استتابہ سے مراد :
استتابہ لغت میں توبہ طلب کرنا ہے، کہا جاتا ہے ‘‘استتبت فلانا ’’میں نے فلان سے اپنے گناہ سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا ۔اور توبہ گناہ پر ندامت اور اس کو چھوڑنا ہے ۔ استتابہ :اس سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا ۔اصطلاحی مفہوم لغوی مفہوم سے الگ نہیں ہے ۔
اس میں اختلاف ہے اور یہ اختلاف اس بات پر مبنی ہے کہ اس شخص کا قتل حدا ہے یا ردۃ ہے چنانچہ جو حضرات کہتے ہیں کہ اس قتل ردۃ ہے وہ استتابہ کے قائل ہیں اور جوحضرات کہتے ہیں کہ اس قتل حدا ہے ان کے نزدیک اس میں عفو کی کوئی صورت نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شخص سچی توبہ کرے تو توبہ کرنے سے اس کا آخرت کا معاملہ سدھر جائے گا البتہ دنیا میں اسکی سزائے قتل ساقط نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی اس کو معاف کرسکتا ہے ۔
ابن مسعودؓ سے روایت ہیں کہ :
‘‘وَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِوَالٍ أَنْ يُؤْتَى بِحَدٍّ إِلَّا أَقَامَهُ’’
ترجمہ : حاکم وقت یعنی والی کے اوپر لازم ہے کہ جب اس کے پاس کوئی آدمی حد کیلئے لایا جایا تو اس پر حد قائم کرے ۔
علامہ شاہ انور شاہ کشمیری ؒ فرماتے ہیں کہ :
‘‘فی قبول التوبۃ فی احکام الدنیا اختلاف وتقبل فیما بینہ وبین اللہ’’۔
ترجمہ : دنیاوی احکام میں توبہ کے قبول ہونے میں اختلاف ہے اور اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔
امام ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں کہ:
‘‘وَأَيُّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ كَذَّبَهُ أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنْقُصُهُ؛ فَقَدْ كَفَرَ بِاللَّهِ وَبَانَتْ مِنْهُ زَوْجَتُهُ؛ فَإِنْ تَابَ وَإِلا قُتِلَ. فَإِنْ تَابَ وَإِلا قُتِلَ. وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ؛ إِلا أَنَّ أَبَا حنيفَة قَالَ: لَا تقتل الْمَرْأَة وتجبر على الْإِسْلَام’’
ترجمہ : جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کو گالی دے ، یا تکذیب کرے ، یا عیب لگائے ، یا آپ ﷺ کی شان میں کمی کرے تو اس نے اللہ تعالی سے کفر کیا اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی پس اگر اس نے توبہ کیا ورنہ قتل کیا جائے گا اسی طرح عورت کا بھی حکم ہے مگر امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا اور اس پر اسلام کیلئے جبر کیا جائے گا ۔
شرح الصغیر میں ہیں کہ :
‘‘(كَالسَّابِّ) لِنَبِيٍّ مُجْمَعٍ عَلَيْهِ؛ فَيُقْتَلُ بِدُونِ اسْتِتَابَةٍ وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ، ثُمَّ إنْ تَابَ قُتِلَ حَدًّا. (وَلَا يُعْذَرُ) السَّابُّ (بِجَهْلٍ) : لِأَنَّهُ لَا يُعْذَرُ أَحَدٌ فِي الْكُفْرِ بِالْجَهْلِ (أَوْ سُكْرٍ) حَرَامًا (أَوْ تَهَوُّرٍ) : كَثْرَةُ الْكَلَامِ بِدُونِ ضَبْطٍ، وَلَا يُقْبَلُ مِنْهُ سَبْقُ اللِّسَانِ (أَوْ غَيْظٍ) فَلَا يُعْذَرُ إذَا سَبَّ حَالَ الْغَيْظِ بَلْ يُقْتَلُ إلَخْ. (أَوْ بِقَوْلِهِ: أَرَدْت كَذَا) : أَيْ أَنَّهُ إذَا قِيلَ لَهُ: بِحَقِّ رَسُولِ اللَّهِ فَلَعَنَ، ثُمَّ قَالَ: أَرَدْت الْعَقْرَبَ: أَيْ لِأَنَّهَا مُرْسَلَةٌ لِمَنْ تَلْدَغُهُ فَلَا يُقْبَلُ مِنْهُ وَيُقْتَلُ ’’
ترجمہ : کسی متفق علیہ نبی کو گالی دینے والا قتل کردیا جائے گا ، نہ اس سے توبہ طلب کیا جائے گی اور نہ اس کی توبہ مقبول ہے اگر وہ توبہ بھی کرے تب بھی اسے بطور سزا قتل کیاجائے گا یہ برا کہنے والا نہ جہالت کی وجہ سے معذور ہوگا کیونکہ کفر میں جہل کوئی عذر نہیں نہ یہ نشہ کی وجہ سے معذور ہوگا بشرطیکہ وہ نشہ حرام ہو نہ لاپرواہی کی وجہ سے معذور ہوگا کہ بلاسوچے سمجھے کثرت کلام کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوگیا ،اسی طرح سبقت لسانی کا عذر بھی قبول نہیں کیا جائے گا نہ غصہ کی وجہ سے معذور ہوگا بلکہ اگر شدید غصہ میں گالی دے تب بھی قتل کیا جائے گا یا تاویل کرکے یہ کہے کہ میری مراد تو کچھ اور تھی جیسے کسی کے سامنے رسول اللہ ﷺ کے حق کا ذکر کیا گیا اس نے لعنت کی اور پھر کہنے لگا میں نے تو بچھو پر لعنت کی تھی کیونکہ اسے بھی کاٹنے کیلئے اللہ تعالی نے بھیجا ہے ان سب صورتوں میں توبہ قبول نہیں اور قتل لازمی ہے ۔
اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ :
‘‘أَيْ قَبُولُ تَوْبَتِهِ كَمَا هُوَ مَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ ’’
ترجمہ : کہ اس کا توبہ قبول ہے جس طرح امام شافعی ؒ کا مذہب ہے ۔
ان عبارات سے معلوم ہو تا ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ شافعیہ اور حنفیہ کے ہاں اس کی توبہ قبول ہے اور اس کی وجہ سے اس سے قتل کی سزا ساقط ہوجائے گی اور امام مالک اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک اس کی توبہ دنیا کے حق میں قبول نہیں ہوگی اور توبہ کی وجہ سے اس کی سزا قتل ساقط نہیں ہوگی ۔
ذمی مرتکب توہین رسالت کی توبہ کا حکم :
ذمی مرتکب توہین رسالت کی توبہ کے حکم میں مشہور تین ۳ اقوال ہیں ۔
(۱) ذمی کو بہر حال قتل کیا جائے گا اگر چہ گرفتاری کے بعد توبہ بھی کرلے یہ امام احمد اور امام مالک کا مشہور موقف ہے اور امام شافعی ؒ کا ایک قول ہے ۔(۲) ذمی کا توبہ اگر توبہ کرے اور توبہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہوجائے تو اس کی یہ توبہ قبول کی جائے گی یہ امام احمد اور امام مالک ؒ سے ظاہر الروایۃ ہے ۔(۳) ذمی کو قتل کیا جائے گا مگر یہ کہ یا تو اسلام لے آئے یا حقیقی ذمی بن جائے اور اسی پر امام شافعی ؒ کا ظاہر کلام دلالت کرتا ہے ۔
ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ استتابہ کے مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ کہ امام ابو حنیفہ ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کے راجح قول کے مطابق مسلمان کی توبہ قابل قبول نہیں اور ذمی کی توبہ کے بارے میں مذکورہ بالا تین اقوال ہے ۔ اس لیے زمانہ کے حالات اور تقاضوں کے مطابق حکومت وقت ان دو میں سے کسی بھی موقف کے مطابق قانون بنا سکتی ہے لیکن شان رسالت اور ناموس رسالت کی انتہائی عظمت اور جلالت شان کا تحفظ بہر حال ضروری ہے اور اگر قانون میں توبہ کی گنجائش نکالی گئی تو توبہ کا طریقہ کار وہی اختیار کرنا ہوگا جو اس سنگین جرم کے مطابق ہو جس کا طریقہ یہ ہے ۔
توبہ کا طریقہ کار :
(۱) مذکورہ بالا تفصیلات سے وضح ہوچکا ہے کہ توہین رسالت کا مرتکب بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے لہذا توبہ کی صورت میں اس کیلئے بڑے علماء و عوام کے مجمع میں فورا تجدید ایمان کرنی لازم ہوگی اور اس کا اس قدر اعلان ہوگا جس قدر ان حرکتوں کا اعلان ہوچکا ہے ۔
(۲) چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے اس کا نکاح ختم ہوچکا تھا اس لیے اسلام لاتے ہی فورا نکاح کی تجدید کرنی لازم ہوگی اور اس کا اعلان بھی اس طرح ہوگا جس طرح تجدید ایمان کا اعلان کیا تھا ۔
(۳) یہ شخص گزشتہ جرم پر انتہائی شرمندہ رہے گا ۔
(۴) اس وقت انتہائی عاجزی سے اللہ سے معافی مانگے ۔
(۵) آئندہ کیلئے ان سب باتوں کے نہ کرنے کا پختہ عزم کرے ۔
توہین رسالت پر مشتمل مواد اگر کتاب اور تحریری شکل میں ہو تو اس صورت میں اس کے سارے موجود نسخے جلائے اور جہاں جہاں یہ کتاب یا رسالہ پہنچا ہے ہر ممکن طریقے سے وہاں سے اس کو ختم کرانے کی کوشش کرے اخبارات کے ذریعے اس کا عام اعلان کرے کہ میں اس کتاب یا رسالہ سے براءت کا مکمل طریقہ سے اعلان کرتا ہو لہذا اس کتاب کو جلائے جائے یا کم ازکم اس سے میرے نام کا ورق جلائے جائے ۔
باب دوم : توہین رسالت کی مرتکب کی سزا فقہاء اور معاصرفقہی اداروں کی آراء کی روشنی میں ایک تجزیہ
فصل اول :مذاہب اربعہ کی روشنی میں :
اسلام کے مختلف مکاتب فکر کے لوگوں میں ایسے شخص کی سزا کے بارے میں جو کہ اللہ تعالی کا مذاق اڑائے اور رسول ﷺ کو گالی دے اور ان کی اہانت کرے ، قطعا کوئی اختلاف نہیں ہے برا بھلا کہنے والا چاہے مسلمان ہو یا کافر اس کی سزا قتل ہے امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دنیا میں کہیں بھی پائیں مقررہ سزا تک پہنچانے کا اہتمام کریں ۔
• فقہ حنفی میں
گالی کامعنی و مفہوم معلوم ہوجانے کے بعد گستاخ رسول ﷺ کی سزا سے متعلق احکام الفقہ اور آئمہ امت اقوال پیش کرتے ہیں ۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ :
‘‘كُلُّ مَنْ أَبْغَضَ رَسُولَ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِقَلْبِهِ كَانَ مُرْتَدًّا، فَالسِّبَابُ بِطَرِيقٍ أَوْلَى، ثُمَّ يُقْتَلُ حَدًّا عِنْدَنَا فَلَا تَعْمَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِ الْقَتْلِ. قَالُوا: هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ، وَنُقِلَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – وَلَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَجِيءَ تَائِبًا مِنْ نَفْسِهِ أَوْ شُهِدَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ، بِخِلَافِ غَيْرِهِ مِنْ الْمُكَفِّرَاتِ فَإِنَّ الْإِنْكَارَ فِيهَا تَوْبَةٌ فَلَا تَعْمَلُ الشَّهَادَةُ مَعَهُ، حَتَّى قَالُوا: يُقْتَلُ وَإِنْ سَبَّ سَكْرَانَ وَلَا يُعْفَى عَنْهُ، وَلَا بُدَّ مِنْ تَقْيِيدِهِ بِمَا إذَا كَانَ سُكْرُهُ بِسَبَبٍ مَحْظُورٍ بَاشَرَهُ مُخْتَارًا بِلَا إكْرَاهٍ، وَإِلَّا فَهُوَ كَالْمَجْنُونِ. وَقَالَ الْخَطَّابِيُّ: وَلَا أَعْلَمُ أَحَدًا خَالَفَ فِي وُجُوبِ قَتْلِهِ’’.
ترجمہ : ہر وہ شخص جو دل سے آپ ﷺ کے ساتھ بغض رکھے تو وہ مرتد ہے ، تو گستا خی کرنے والا بطریق اولی مرتد ہوگا پھر ہمارے احناف کے ہاں اس گستاخ رسول کو حدا قتل کیا جائے گا لہذا توبہ کرنے کی وجہ سے اس کی یہ سزا ئے موت ساقط نہیں ہو سکتی ، فقہاء نے لکھا ہے کہ یہی اہل کوفہ اور حضرت امام مالک ؒ کا مذہب ہے اور حضرت صدیق اکبرؓ سے بھی یہی مذہب منقول ہے ۔باقی وہ خود توبہ کرکے آئے یا اس کے خلاف گواہی دی جائے دونوں صورتیں برابر ہیں بخلاف دیگر مکفرات کے کہ ان میں جرم سے انکار توبہ کی صورت بن جاتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے گواہی پر عمل نہیں کیا جاتا ۔بلکہ فقہاء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی نشہ کی حالت میں بھی گستاخی کا ارتکاب کرے گا تو اسے بھی قتل کیا جائے گا اور کوئی معافی نہیں ملے گی البتہ نشہ کی حالت میں یہ قید لگانا ضروری ہے کہ اس کو جو نشہ چڑھا ہے وہ ایسی چیز سے آیا ہو جو شرعا ممنوع ہو اور اس نے بغیر کسی کے مجبور کرنے کے خود اپنی مرضی سے اسے اپنایا ہو کیونکہ اگر یہ قیود نہ پائی جائیں تو پھر وہ مجنون کے حکم میں ہوگا ۔علامہ خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے کوئی فقیہ ایسا معلوم نہیں کہ جس نے گستاخ رسول ﷺ کیلئے قتل کے واجب ہونے میں اختلاف کیا ہو ۔
فتاوی قاضی خان میں ہیں کہ :
‘‘إذا عاب الرجل النبي عليه السلام في شيء كان كافرا، قال بعض العلماء لو قال شعر النبيّ صلى الله عليه وسلم شعرا فقد كفر وعن أبي حفص الكبير رحمه الله تعالى من عاب النبي عليه السلام بشعرة من شعراته فقد كفر، وذكر في الأصل أن شتم النبيّ صلى الله عليه وسلم كفر’’۔
ترجمہ :اگر کوئی شخص کسی بھی چیز میں آپ ﷺ کا عیب نکالے تو وہ کافر ہوجائیگا ۔ اسی طرح بعض علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ ﷺ کے بال مبارک کو شعیر (تصغیر کے ساتھ برائے تخفیف یا تنقیص ) کہہ دے تو وہ بھی کافر ہوجائیگا ۔امام ابو حفص کبیر ؒ نے فرمایا ہیں کہ جو شخص آپ ﷺ کے مقدس بالوں میں سے کسی ایک بال میں بھی عیب نکالے گا تو وہ کافر ہوجائے گا اور مبسوط میں ہے کہ آپ ﷺ کی گستاخی کفر ہے ۔
اسی طرح مجمع الانہر میں ہے کہ :
‘‘إذَا سَبَّهُ كَافِرٌ وَأَمَّا إذَا سَبَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – أَوْ وَاحِدًا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ مُسْلِمٌ وَلَوْ سَكْرَانَ وَأَنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّا وَلَا تَوْبَةَ لَهُ أَصْلًا تُنْجِيهِ مِنْ الْقَتْلِ سَوَاءٌ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِ وَالشَّهَادَةِ أَوْ جَاءَ تَائِبًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ كَالزِّنْدِيقِ لِأَنَّهُ حَدٌّ وَجَبَ فَلَا يَسْقُطُ بِالتَّوْبَةِ وَلَا يُتَصَوَّرُ خِلَافُهُ لِأَنَّهُ حَدٌّ تَعَلَّقَ بِهِ حَقُّ الْعَبْدِ.وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ مَنْ شَكَّ فِي عَذَابِهِ وَكُفْرِهِ فَقَطْ كَفَرَ بِخِلَافِ مَا إذَا سَبَّ اللَّهَ تَعَالَى ثُمَّ تَابَ لِأَنَّهُ حَقُّ اللَّهِ تَعَالَى’’
ترجمہ :اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ یا دیگر انبیاء کرام میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرے اگرچہ وہ حالت نشہ میں کیوں نہ ہو تو اسے حدا قتل کیا جائیگا اور کسی بھی صورت میں اس کی توبہ قبول نہیں کہ توبہ کی وجہ سے وہ قتل ہو جانے سے بچ سکے ، برابر ہے کہ وہ گرفتاری اور شہادت کے بعد توبہ کرے یا خود بخود تائب ہو کر آجائے (دونوں صورتوں می اسے قتل سے نجات نہیں مل سکتی ) جیسا کہ زندیق کا یہی حکم ہوتا ہے کیونکہ اس کی یہ سزا ئے موت بطور حد اس پر واجب ہوچکی ہے ، لہذا یہ توبہ سے ساقط نہیں ہو سکتا اور اس کے خلاف کا تو تصور ہی نہیں ہوسکتا ، کیونکہ یہ ایک ایسی حد ہے کہ جس کے ساتھ بندہ کا حق متعلق ہو چکا ہے ، اور فتاوی بزازیہ میں ہے کہ جو شخص گستاخ رسول کے معذب اور کافر ہونے میں شک کرے تو وہ خود کافر ہوجاتا ہے بخلاف اس صورت کے کہ وہ اللہ تعالی کی شان میں نازیبا الفاظ کہے اور پھر توبہ کرے کیونکہ یہ خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے ۔
قاضی ثناءاللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ :
‘‘وفي الفتاوى من مذهب ابى حنيفة ان من سب النبي صلى الله عليه وسلم يقتل ولا يقبل توبته سواء كان مؤمنا او كافرا وبهذا يظهر انه ينتقض عهده ويؤيده ما روى ابو يوسف عن حفص بن عبد الله بن عمر ان رجلا قال له سمعت راهبا سب النبي صلى الله عليه وسلم فقال له لو سمعته لقتلته انا لم نعطهم العهود على هذا ’’
ترجمہ : فتاوی میں امام ابو حنیفہ ؒ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس نے بھی نبی کریمﷺ کو گالی دی وہ قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ نہیں کی جائے گی برابر ہے کہ وہ مومن ہو یا کافر ہو اس سے واضح ہو ا کہ حضورﷺ کو سب وشتم کرنے سے ذمی کا عہد ٹوٹ جاتا ہے اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس کو امام ابو یوسف ؒ نے حفص بن عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے ہ ایک آدمی نے ان سے کہا کہ میں ایک راہب کو حضورﷺ کوگالی دیتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا کہ اگر میں اسے حضورﷺ کو گالیاں دیتے ہوئے سن لیتا تو میں اسے یقینا قتل کردیتا ہم نے انہیں (ذمیوں کو ) اس لیے تو امان نہیں دی کہ وہ شان رسالت میں توہین کرتے رہیں ۔
درر الاحکام میں ہے کہ :
‘‘ وَأَمَّا إذَا سَبَّهُ أَوْ وَاحِدًا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ – صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ – مُسْلِمٌ، فَإِنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّا وَلَا تَوْبَةَ لَهُ أَصْلًا سَوَاءٌ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِ وَالشَّهَادَةِ أَوْ جَاءَ تَائِبًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ كَالزِّنْدِيقِ؛ لِأَنَّهُ حَدٌّ وَجَبَ فَلَا يَسْقُطُ بِالتَّوْبَةِ وَلَا يُتَصَوَّرُ خِلَافٌ لِأَحَدٍ؛ لِأَنَّهُ حَدٌّ تَعَلَّقَ بِهِ حَقُّ الْعَبْدِ فَلَا يَسْقُطُ بِالتَّوْبَةِكَسَائِرِ حُقُوقِ الْآدَمِيِّينَ وَكَحَدِّ الْقَذْفِ لَا يَزُولُ بِالتَّوْبَةِ، بِخِلَافِ مَا إذَا سَبَّ اللَّهَ تَعَالَى ثُمَّ تَابَ؛ لِأَنَّهُ حَقُّ اللَّهِ تَعَالَى وَلِأَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بَشَرٌ وَالْبَشَرُ جِنْسٌ تَلْحَقُهُ الْمَعَرَّةُ إلَّا مَنْ أَكْرَمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَالْبَارِي تَعَالَى مُنَزَّهٌ عَنْ جَمِيعِ الْمَعَايِبِ وَبِخِلَافِ الِارْتِدَادِ؛ لِأَنَّهُ مَعْنًى يَنْفَرِدُ بِهِ الْمُرْتَدُّ وَلِكَوْنِهِ حَقَّ الْغَيْرِ قُلْنَا إذَا شَتَمَهُ سَكْرَانُ لَا يُعْفَى وَيُقْتَلُ أَيْضًا حَدًّا وَهَذَا مَذْهَبُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ – وَالْإِمَامِ الْأَعْظَمِ وَالثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ ’’
ترجمہ : بہر حال اگر کوئی مسلمان آپ ﷺ یا باقی انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرے تو اسے بطور حد شرعی قتل کیا جائےگا اور اس کی توبہ بالکل قبول نہیں ہوگی ، چاہے گرفتاری اور شہادت کے بعد توبہ کرے یا خود بخود تائب ہوکر آجائے ، دونوں کا حکم ایک جیسا ہے جیسا کہ زندیق کا حکم ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک واجب شدہ حد ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہو سکتی ہے اور اس میں کسی کے اختلاف کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ یہ ایک ایسا حق ہے کہ جس کے ساتھ بندہ کا حق متعلق ہوگیا ہے ، لہذا وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوسکتا جس طرح کہ انسانوں کے باقی حقوق کا معاملہ ہوتا ہے کہ وہ توبہ سے ساقط نہیں ہوا کرتے اور اسی طرح یہ حد قذف کی طرح ہے کہ جو توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ، برخلاف اس صورت کے کہ جب وہ اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرے اور پھر توبہ کرے کیونکہ یہ خالص اللہ کا حق ہے اور گستاخ رسول کی توبہ اس وجہ سے بھی قابل قبول نہیں کہ آپ ﷺ ایک بشر ہیں اور بشریت ایک ایسی جنس ہے جس کو عار لاحق ہو سکتا ہے مگر وہ کہ جسے اللہ تعالی عزت وشرف سے سرفراز فرمائے ( جیسا کہ حضورﷺ کی ذات گرامی کو اللہ تعالی نے دو جہاں کی عزت وشرف سے سرفراز فرمایا ہے ) جبکہ اللہ تعالی کی ذات تمام عیوب سے پاک ہے اور بخلاف عام مرتد کے اس کا ارتداد اس کے نفس تک محدود ہوتا ہے اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نشہ کی حالت میں بھی آپ ﷺ کی گستاخی کرتا ہے تو اسے بھی معاف نہیں کیا جائے گا ، بلکہ بطور حد شرعی کے قتل کیا جائیگا ، یہی حضرت ابوبکر ؓ ، امام اعظم ؒ، امام ثوری ؒاور اہل کوفہ کا مذہب ہے ۔
تنقیح الفتاوی میں ہے کہ :
‘‘ فَهُوَ كَافِرٌ يَجِبُ قَتْلُهُ بِاتِّفَاقِ الْأُمَّةِ وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَإِسْلَامُهُ فِي إسْقَاطِ الْقَتْلِ سَوَاءٌ تَابَ بَعْدَ الْقُدْرَةِ عَلَيْهِ وَالشَّهَادَةِ عَلَى قَوْلِهِ أَوْ جَاءَ تَائِبًا مِنْ قِبَلِ نَفْسِهِ لِأَنَّهُ حَدٌّ وَجَبَ وَلَا تُسْقِطُهُ التَّوْبَةُ كَسَائِرِ الْحُدُودِ وَلَيْسَ سَبُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالِارْتِدَادِ الْمَقْبُولِ فِيهِ التَّوْبَةُ لِأَنَّ الِارْتِدَادَ مَعْنًى يَنْفَرِدُ بِهِ الْمُرْتَدُّ لَا حَقَّ فِيهِ لِغَيْرِهِ مِنْ الْآدَمِيِّينَ فَقُبِلَتْ تَوْبَتُهُ وَمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَلَّقَ بِهِ حَقُّ الْآدَمِيِّ وَلَا يَسْقُطُ بِالتَّوْبَةِ كَسَائِرِ حُقُوقِ الْآدَمِيِّينَ فَمَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أَحَدًا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ صَلَوَاتُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَامُهُ فَإِنَّهُ يَكْفُرُ وَيَجِبُ قَتْلُهُ ثُمَّ إنْ ثَبَتَ عَلَى كُفْرِهِ وَلَمْ يَتُبْ وَلَمْ يُسْلِمْ يُقْتَلُ كُفْرًا بِلَا خِلَافٍ وَإِنْ تَابَ وَأَسْلَمَ فَقَدْ اخْتَلَفَ فِيهِ وَالْمَشْهُورُ مِنْ الْمَذْهَبِ الْقَتْلُ حَدًّا وَقِيلَ يُقْتَلُ كُفْرًا فِي الصُّورَتَيْنِ ’’.
ترجمہ : گستاخی کرنے والا کافر ہے باتفاق امت اس کا قتل کرنا واجب ہے ، اور اس سے سزائے موت کے ساقط کرنے کیلئے اس کے توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کا کوئی اعتبار نہیں برابر ہے کہ گرفتاری اور اس کے خلاف گواہیاں ہوجانے کے بعد توبہ کرےیا خود بخود تائب ہوکر آجائے، کیونکہ اس کی سزائے موت بطور حد کے ہے جو توبہ سے ساقط نہیں کوسکتی جس طرح کہ باقی حدود توبہ سے ساقط نہیں ہوتیں ۔ اور آپﷺ کی شان میں گستاخ اُس طرح کا ارتداد نہیں جس میں توبہ قبول ہوتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ( یعنی عام ارتداد اور توہین رسالت کی وجہ سے مرتد ہونے میں فرق یہ ہے کہ ) ارتداد ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا تعلق مرتد کے اپنے نفس کے ساتھ ہے اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا اس کے ساتھ کوئی حق متعلق نہیں ہوا کرتا ، اس وجہ مرتد کی توبہ قبو ل ہوتی ہے اور جو آدمی حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو اس کے ساتھ انسانوں کے حق متعلق ہوجاتا ہے ، لہذا توبہ سے اس کا جرم ساقط نہیں ہوسکتا جس طرح کہ انسانوں کے عام حقوق صرف توبہ کرنے سے معاف نہیں ہوتے ، لہذا جس آدمی نے حضورﷺ یا باقی انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کی تو وہ کافر ہوجائے گا اور اس کا قتل کرنا واجب ہوجائیگا پھر اگر وہ اپنے اس کفر پر برقرار رہا اور اس نے توبہ بھی نہیں کی اور اسلام بھی قبول نہیں کیا تو بغیر کسی اختلاف کے اس کو قتل کیا جائیگا لیکن اگر توبہ کرکے اسلام قبول کرے تو اس صورت میں فقہاء کا اختلاف ہے ، مشہور قول کے مطابق اسے پھر بھی حدا قتل کیا جائیگا ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں صورتوں میں اسے کفرا قتل کیا جائیگا ۔
فتاوی شامی میں ہیں کہ :
‘‘والحاصل أنه لا شك ولا شبهة في كفر شاتم النبي وفي استباحة قتله وهو المنقول عن الأئمة الأربعة ’’
ترجمہ :حاصل کلام یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کے گستاخ کے کفر میں اور اس کے قتل کے مباح ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے ، اور یہی مذہب ائمہ اربعہ سے منقول ہے ۔
اسی طرح درمختار میں ہے کہ :
‘‘ وكل مسلم ارتد فتوبته مقبولة إلا) جماعة: من تكررت ردته على ما مر، و (الكافر بسب نبي) من الانبياء فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته مطلقا،’’
ترجمہ : ہر وہ مسلمان جو ارتداد اختیار کرتا ہے تو اس کی توبہ مقبول ہوتی ہے مگر ایک جماعت ایسی ہے کہ ان کی توبہ قابل قبول نہیں ، اور یہ وہ لوگ ہیں جو بار بار ارتداد اختیار کرتے ہیں اور اسی طرح وہ آدمی جو انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی گستاخی کرنے کی وجہ سے مرتد ہوجائے ( یعنی اس کی توبہ بھی قابل قبول نہیں ) پس اسے بطور حد قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ کسی بھی صورت میں مقبول نہیں ہے ۔
فقہ شافعی میں :
امام شافعی ؒ اپنی کتاب ‘الام ’ میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘ إنْ ذَكَرَ مُحَمَّدًا – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَوْ كِتَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ دِينَهُ بِمَا لَا يَنْبَغِي أَنْ يَذْكُرَهُ بِهِ، فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللَّهِ ثُمَّ ذِمَّةُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَجَمِيعُ الْمُسْلِمِينَ وَنَقَضَ مَا أُعْطِيَ عَلَيْهِ الْأَمَانُ وَحَلَّ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مَالُهُ وَدَمُهُ كَمَا تَحِلُّ أَمْوَالُ أَهْلِ الْحَرْبِ دِمَاؤُهُمْ.’’
ترجمہ :‘‘ یعنی مسلمان جب ذمیوں کے لئے صلح کی تحریر لکھے تو اس میں یہ بھی لکھے کہ اگر تم میں سے کوئی حضرت محمد ﷺ یا اللہ تعالی ٰ کی کتاب یا اللہ کے دین کا تذکرہ نامناسب الفاظ کے ساتھ کرے گا تو اس سے اللہ تعالی ٰ کا ذمہ اور پھر امیر المومنین اور سب مسلمانوں کا ذمہ ختم کوجائیگا اور جس بات پر اسے امان دیا گیا تھا وہ ٹوٹ جائیگا اور امیر المومنین کیلئے اس کا مال اور خون حلال ہو جائیگا جیسے کہ حربیوں کا مال اور خون حلال ہے’’۔
امام محمد بن سحنون بھی اجماع نقل کرتے ہیں کہ :
‘‘اجمع العلماء ان شاتم النبی ﷺ المتنقص لہ کافر والوعید جار علیہ بعذاب اللہ لہ وحکمہ عند الامۃ القتل ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر
ترجمہ :‘‘ اس بات پر علماء کا اجماع منعقد ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو گالی دینے والا اور آپ ﷺ کی توہین کرنے والا کافر ہے اور اس کے بارے میں عذاب خداوندی آئی ہے ۔ امت کے نزدیک اس کا حکم یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے اور جو شخص اس کے کفر اور اس کی سزا میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ’’۔
ابوبکر فارسی کا نظریہ :
‘‘وقدحكى أبو بكرالفارسي من أصحاب الشافعي إجماع المسلمين على أن حد من يسب النبي صلى الله عليه وسلم القتل كما أن حد من سب غيره الجلد وهذا الإجماع الذي حكاه هذا محمول على إجماع الصدر الأول من الصحابة والتابعين أو أنه أراد به إجماعهم على أن ساب النبي صلى الله عليه وسلم يجب قتله إذا كان مسلما’’
ترجمہ :‘‘ اصحاب شافعی میں سے ابوبکر فارسی ؒ نے اس امر پر مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ جو شخص نبی کریم ﷺ کو گالی دے اس کی حد شرعی قتل ہے جس طرح کسی اور کو گالی کی سزا کوڑے مارنا ہے ۔ جو اجماع انہوں نے نقل کیا ہے اس سے صدر اول یعنی صحابہ وتابعین کا اجماع مراد ہے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو گالی دینے ولا اگر مسلم ہو تو وہ واجب القتل ہے’’ ۔
امام محی السنۃ لکھتے ہیں کہ :
‘‘ من سب رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يُقتل حداً؛ لما روي أن رجلاً قال لعبد الله بن عمر؛ سمعت راهبا يشتم رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فقال: “لو سمعته لقتلته؛ إنا لم نعط الأمان على هذا’
ترجمہ : جو شخص نبی کریمﷺ کو گالی دے اس کو حد ا قتل کیا جائیگا ۔اس روایت کی وجہ سے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عمر سے کہا ، میں نے ایک راہب کو سنا جو رسول اللہ ﷺ کو گالی دے رہا تھا ، ابن عمر نے کہا کہ اگر میں اس کو گالی دیتے ہوئے سنتا تو میں اس کو قتل کرتا کیونکہ ہم ان کو اس شرط پر امان نہیں دیتے ہیں ۔
امام شوکانی اپنی کتاب ‘‘نیل الاوطار ’’ میں ابوبکر الفارسی کے حوالے سےلکھتے ہیں کہ :
‘‘ونقل أبو بكر الفارسي أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع أن من سب النبي صلى الله عليه وآله وسلم بما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء فلوتاب لم يسقط عنه القتل لأن حد قذفه القتل وحد القذف لا يسقط بالتوبة’’
ترجمہ :ائمہ شافعیہ میں سے ابوبکر فارسی نے کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جس نے نبی کریم ﷺ کو گالی دی اور صریحا قذف وتہمت لگائی وہ تمام علماء کے اتفاق سے کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ توبہ کرلے تو اس سے سزائے قتل زائل نہیں ہوگی کیونکہ اس کے نبی اکرم ﷺ پر تہمت لگانے کی سزا قتل ہے اور تہمت کی سزا توبہ کرنے سے ساقط نہیں کوہوتی ۔
فقہ مالکی میں :
قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے علمائے مالکیہ نے ایسے گستاخ ذمی کے قتل کے حکم پر قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کیا ہے :
‘‘وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ’’
ترجمہ : اور اگر وہ اپنی قسموں کو توڑیں اور عہد شکنی کرکے آپ کے دین کے بارے میں بد گوئیاں کریں ۔
اس آیت قرآنی کے علاوہ علماء مالکیہ نے سید عالم ﷺ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے کیونکہ حضورﷺ نے کعب بن اشرف کو اس کی گستاخیوں کی وجہ سے قتل کروایا تھا ۔ اس گستاخ کے علاوہ اور دوسرے گستاخ بھی تعمیل حکم نبوی ﷺ میں قتل کیے گئے تھے ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہیں کہ :
‘‘قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( من لكعب بن الأشرف فإنه قد آذى الله ورسوله ) . فقام محمد بن مسلمة فقال يا رسول الله أتحب أن أقتله ؟ قال ( نعم )’’ .
ترجمہ : حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘کون ہے جو کعب بن اشرف کی خبر لے اس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف پہنچایا ہے تو محمد بن مسلمۃ کھڑا ہوگیا اور فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ پسند کرتے ہو کہ میں اسے قتل کرو آپ ﷺ نے فرمایا جی ہاں اسے قتل کیا جائے ۔
ابو مصعب اور ابن ابی اویس نے امام مالک ؒ سے روایت کی ہے کہ :
‘‘سَمِعْنَا مَالِكًا يَقُولُ: «مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ شَتَمَهُ أَوْ عَابَهُ أَوْ تَنَقَّصَهُ قُتِلَ مُسْلِمًا كَانَ أَوْ كَافِرًا وَلَا يُسْتَتَابُ’’
ابو مصعب اور ابن ابی اویس فرماتے ہیں کہ ہم نے امام مالک ؒ سے سنا ہے وہ فرما رہے تھے کہ ‘‘جو شخص حضورﷺ کو گالی دے یا برا بھلا کہے ،یا آپ ﷺ پر عیب لگائے یا آپﷺ میں کوئی نقص نکالے اسے قتل کیا جائے گا اگر وہ مسلمان ہو تو اس کی توبہ یا کافر ہو تو اس کی معذرت قبول نہیں کی جائے گی ’’
الشفاء میں اصبع کا قول بھی ذکر ہے کہ :
‘‘ يُقْتَلُ عَلَى كُلِّ حَالٍ، أَسَرَّ ذَلِكَ أَوْ أَظْهَرَهُ وَلَا يُسْتَتَابُ لِأَنَّ تَوْبَتَهُ لَا تُعْرَفُ ’’
ترجمہ : کہ شاتم رسول ﷺ ہر صورت میں قتل کیا جائے گا چاہے وہ علانیۃ گالی دے یا خفیہ طور پر اور اس کی توبہ قابل قبول نہیں کیونکہ اس کی توبہ کا حال معلوم نہیں کہ وہ درست ہے یا صرف جان بچانے کی خاطر کی ہے ۔
ابو سلیمان خطابی نے لکھا ہے کہ :
‘‘ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اخْتَلَفَ فِي وُجُوبِ قَتْلِهِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا’’
ترجمہ : میں مسلمان علماء میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو نبی کریم ﷺ کو گالی دینے والے کو قتل کرنے کا قائل نہ ہو جب کہ وہ مسلمان ہو ۔
ابن سحنون مالکی کا فتوی یہ ہے کہ :
‘‘أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ شَاتِمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَنَقِّصَ لَهُ كَافِرٌ، والوعيد جار عليه بعذاب الله له، وَحُكْمُهُ عِنْدَ الْأُمَّةِ الْقَتْلُ.. وَمَنْ شَكَّ فِي كُفْرِهِ وَعَذَابِهِ كَفَرَ’’
ترجمہ : تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ شاتم رسول ﷺ اور نبی کریم ﷺ میں نقص نکالنے والا کافر ہے اور اس کیلئے اللہ کی عذاب کا وعید ہے اور امت کے ہاں اس کا حکم قتل ہے اور جو شخص اس کے کفر کے بارے میں یا اس کے سزا کے بارے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔
خلیفہ ہارون الرشید کے واقعہ سے بھی امام مالک ؒ کا نقطہ نظر واضح ہوتی ہے کہ :
‘‘ وسئل مالك سأله الرشيد في رجل شتم النبي صلى الله عليه وسلم وذكر له أن فقهاء العراق أفتوه بجلده.فغضب مالك وقال: يا أمير المؤمنين، ما بقاء الأمة بعد نبيها! من شتم الأنبياء قتل’’
ترجمہ : خلیفۃ ہارون الرشید نے امام مالک ؒ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا جو حضورﷺ کو گالی دے ۔ہارون نے لکھا تھا کہ عراق کے فقہاء نے شاتم رسول ﷺ کے لیے کوڑوں کی سزا تجویز کی ہے تو امام مالک ؒ نے غضب ناک ہوکر فرمایا وہ امت کیسے زندہ رہے گی جو نبی کریم ﷺؑ کی شان اقدس میں سب وشتم پر خاموش رہے ۔ جو بھی کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے ۔
الاستذکار میں ہے کہ :
‘‘ قال إسحاق وقد أجمع المسلمون أن من سب الله عز و جل أوسب رسوله صلى الله عليه و سلم أو دفع شيئا مما أنزل الله تعالى أو قتل نبيا من أنبياء الله تعالى أنه كافر بذلك وإن كان مقرى بكل ما أنزل الله ’’
ترجمہ : امام اسحاق ؒ کا قول ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرے یا اللہ کے رسول ﷺ کی گستاخی کرے یا اللہ تعالی کی نازل کردہ چیزوں میں سے کسی بھی شے کو رد کرے یا اللہ تعالی کے انبیاء کران میں سے کسی نبی کو قتل کرے تو بیشک وہ آدمی ان مذکورہ کاموں کی وجہ سے کافر ہو جائیگا ، اگر چہ وہ اللہ تعالی کی نازل کردہ تمام چیزوں کا اقرار بھی کرتا ہو ۔
الاستذکار فقہ مالکی کی مستند کتاب ہے علامہ ابن عبدالبر ؒ کا فقہی مقام اور علمی تفوق اہل علم سے مخفی نہیں ، مذکورہ حوالہ میں علامہ نے امام اسحاق کا بہت اہم قول نقل فرمایا ہے کہ توہین رسالت کی وجہ سے آدمی کافر ہوجاتا ہے اگر چہ وہ دین کے تمام امور کا اقرار کرتا ہو اور کسی بھی حکم کا منکر نہ ہو لیکن توہین رسالت کا جرم اتنا سنگین ہے کہ اس کی وجہ سے وہ بہر حال کافر ہوجائیگا ۔
محمد بن رشد فرماتے ہیں کہ :
‘‘أما من حجد ما نزل على نبي من الأنبياء مثل أن يقول إن الله لم ينزل التوراة على موسى بن عمران أو الإنجيل على عيسى بن مريم أو جحد نبوة أحد منهم فقال إنه لم يكن بنبي فإنه كفر صريح إن أعلنه أستتيب فإن تاب وإلا قتل ، وإن أسره حتى ظهر عليه قتل ولم يستتب لأنه حكمه ، وحكم من سب رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أحد من الأنبياء يقتل بلا استتابة ’’
ترجمہ :جس نے انبیاء پر نازل کردہ کتابوں میں سے کسی کا انکار کیا مثلا یوں کہا کہ اللہ تعالی نے موسی ؑپر تورات اور عیسی ؑ پر انجیل نازل نہیں کیا ہے ،یا انبیاء میں کسی نبی کا انکار کیا کہ یہ اللہ کا نبی نہیں ہے تو اس نے صریح کفر کیا ،اگر انکار علانیۃ کیا تو اس کا توبہ قبول کیا جائے گا اگر اس نے توبہ کیا ورنہ قتل کیا جائےگا ،اگر اس نے پوشیدہ رکھا یہاں تک کہ وہ ظاہر ہوگیا تو اس کو قتل کیا جائےگا اور توبہ قبول نہیں کیا جائےگا کیونکہ یہ اس کا حکم ہے ،اور جس نے رسول اللہ ﷺ یا کسی اور نبی کو گالی دی تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائےگا اور اس سے توبہ قبول نہیں کیا جائےگا ۔
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ :
‘‘وذكر بعض المالكية إجماع العلماء على أن من دعا على نبي من الأنبياء بالويل أو بشيء من المكروه أنه يقتل بلا استتابة.’’
ترجمہ : بعض مالکیہ نے اس پر علماء کا اجماع روایت کیا ہے کہ جو بھی انبیاءکرام ؑ میں سے کسی نبی کیلئے تباہی یا کسی ناپسندیدہ چیز کی دعا مانگے اسے توبہ کا مطالبہ کیے بغیر قتل کردیا جائے گا ۔
مزید لکھتے ہیں کہ :
‘‘ وَقَال ابن عَتَاب: الْكِتَاب والسُّنَّة مَوجِبَان أَنّ من قَصَد النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْه وَسَلَّم بِأذى أو نَقْص مُعَرَضًا أَو مُصَرَّحًا وإن قَلّ فَقَتْلُه وَاجِب، فَهَذَا الْبَاب كُلُّه مِمَّا عده الْعُلمَاء سَبًّا أَو تَنَقُّصًا يجب قَتْل قائِلِه لَم يَخْتَلف فِي ذَلِك مُتَقَدّمُهُم وَلَا متأخرهم’’
ترجمہ : امام ابن عتاب مالکی فرماتے ہیں کہ قرآن وسنت اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ جو بھی نبی کریم ﷺ کی ایذا کا ارادہ کرے یا آپ ﷺ کی تنقیص کرے اشارۃ یا صراحۃ اگرچہ وہ توہین معمولی ہی کیوں نہ ہو تو اس کا قتل کرنا واجب ہے اس باب میں جن جن چیزوں کو علماء کرام نے سب اور تنقیص شمار کیا ہے بالاتفاق ان کے قائل کا قتل واجب ہے اس میں متقدمین یا متاخرین علماء میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ۔
فقہ حنبلی میں :
امام احمد بن حنبلؒ شاتم رسولﷺ کی حد وسزائے قتل کے قائل تھے وہ مسلمان ہو یا کافر ذمی ۔چنانچہ حنبل کہتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ (احمد بن حنبل ) سے سنا ہے :
‘‘قال حنبل: “سمعت أبا عبد الله يقول: “كل من شتم النبي صلى الله عليه وسلم أو تنقصه مسلما كان أو كافرا فعليه القتل وأرى أن يقتل ولا يستتاب” قال: وسمعت أبا عبد الله يقول: “كل من نقض العهد وأحدث في الإسلام حدثا مثل هذا رأيت عليه القتل ليس على هذا أعطوا العهد والذمة ’’
ترجمہ : ہر وہ شخص جو نبی کریم ﷺ کو گالی دے یا آپﷺ کی شان میں تنقیص وتحقیر کرے اس کی سزا قتل ہے وہ مسلمان ہو یا کافر ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اسے قتل کردیا جائے اور اس سے توبہ نہ کروائی جائے ۔فرمایا اسی طرح میں نے ابو عبداللہ سے سنا کہ جو کافر ذمی عہدشکنی کرے یا اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز ایجاد کرے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے قتل ہی کرنا چاہیے انہیں عہد وذمہ امان اس لیے تو نہیں دیا گیا تھا کہ وہ جو جی چاہے کرتے پھریں ۔
احکام الملل میں ابو طالب کی روایت ہے کہ :
‘‘ أن أبا عبد الله سئل عمن شتم النبي، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: يقتل؛ قد نقض العهد ’’
ترجمہ : ابی طالب سے مروی ہے کہ امام احمد سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو حضورﷺ کوگالی دے توآپ نے فرمایا اسے قتل کردیا جائےگا کیونکہ اس کاعہد ٹوٹ چکا ہے ۔
ابو الصفرا کہتے ہیں کہ :
‘‘ سألت أبا عبد الله عن رجل من أهل الذمة شتم النبي، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ماذا عَلَيْهِ؟ قَالَ: إذا قامت البينة عَلَيْهِ يقتل من شتم النبي، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مسلما كان، أو كافرا ’’
ترجمہ : ابو الصفرا کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ (امام احمد) سے ایک ذمی شخص کے بارے میں پوچھا جس نے نبی کریم ﷺ کی توہین کی تھی کہ اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جب ایسے شخص کے خلاف شہادت مل جائے تو اسے قتل کردیا جائےگا ۔ وہ مسلمان ہو یا کافر ۔
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ :
‘‘وقال أصحابنا: “التعرض بسب الله وسب رسوله صلى الله عليه وسلم ردة وهو موجب للقتل كالتصريح’’
ترجمہ : ہمارے اصحاب ( حنابلہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کو اشارۃ گالی دینا بھی ارتداد ہے اور اس سے بھی وہ آدمی ایسے ہی واجب القتل ہوجاتا ہے جیسے صراحۃ گالی دینے والا ہوتا ہے ۔
ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں کہ :
‘‘ ومن سب الله تعالى كفر سواء كان مازحا أو جادا وكذلك من استهزأ بالله تعالى أو بآياته أو برسله أو كتبه قال الله تعالى { ولئن سألتهم ليقولن إنما كنا نخوض ونلعب قل أبالله وآياته ورسوله كنتم تستهزئون * لا تعتذروا قد كفرتم بعد إيمانكم } وينبغي أن لا يكتفي من الهازىء بذلك لمجرد الإسلام حتى يؤدب أدبا يزجره عن ذلك فإنه إذا لم يكتفي ممن سب رسول الله صلى الله عليه و سلم بالتوبة فممن سب الله تعالى أولی ’’
ترجمہ : جو شخص اللہ تعالی کو گالی دے وہ کافر ہوجائےگا خواہ مزاح میں دے یا سمجھ بوجھ کردے اسی طرح وہ آدمی بھی کافر ہوجائیگا جو اللہ تعالی یا اللہ تعالی کی آیات یا اللہ تعالی کے رسولوں یا اللہ تعالی کی نازل کردہ کتابوں کا مذاق اڑاے اللہ تعالی کا ارشاد ہے ‘‘اگر تو ان سے پوچھے تو وہ کہیں گے کہ ہم تو بات چیت کرتے تھے ،اور دل لگی ،توکہہ دے کیا اللہ سے اور اس کے حکموں سے اور اس کے رسولوں سے تم مذاق کرتے تھے ،بہانے مت بناؤ تم تو کافر ہوگئے اظہار کے بعد ، اور مناسب یہ ہے کہ مذاق اور تمسخر کرنے والے سے صرف اسلام کا مطالبہ کرنے کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایسی سزادی جائے جو اسے ایسا کرنے سے روک دے ، کیونکہ جب حضورﷺ کی گستاخی کرنے والے کو صرف توبہ کرنے کی وجہ سے نہیں چھوڑا جاتا ( بلکہ ہر حال میں قتل کردیا جاتا ہے ) تو اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کرنے والے کو تو بطریق اولی نہیں چھوڑا جائے گا ۔
وھبۃ الزحیلی اپنی کتاب ‘‘الفقہ الاسلامی وادلتہ’’ میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘وأما من سب الله تعالى أو النبي صلّى الله عليه وسلم أو أحداً من الملائكة أو الأنبياء، فإن كان مسلماً قتل اتفاقاً. واختلف هل يستتاب أو لا، المشهور عند المالكية عدم الاستتابة ’’
ترجمہ : جو شخص اللہ تعالی کو یا نبی کریم ﷺ یا فرشتوں میں سے کسی فرشتے کو یا انبیاءکرام میں سے کسی نبی کو گالی دیتا ہے ،تو اگر وہ مسلمان ہو تو باتفاق ائمہ اسے قتل کیا جائیگا البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائیگا یا نہیں ؟ مالکیہ کے مشہور قول کے مطابق اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔
امام احمد بن حنبل ؒ کے مطابق جو شخص رسول اللہ ﷺ یا ان کے اہل بیت کو گالی دے ،چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم اسے سزائے موت دینی چاہیے ،قاضی ابو الحسین اور عبداللہ اس پر مزید اضافہ کرتے ہیں کہ ایسے شخص کی توبہ اور معذرت قبول نہیں کی جاسکتی ۔
حاصل بحث :
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ فقہ حنفی کی رو سے شاتم رسول ﷺ کے سزائے موت متعین ہے بشرطیکہ جس سے جرم سرزد ہوا ہے ، وہ مسلمان ہو اور توبہ کیلئے تیار نہ ہو اور جرم کی نوعیت ایسی ہو کہ اسے بلاشک وشبہ ارتداد میں داخل کیا جاسکے ۔ اگر کسی مجرم میں ان میں کوئی شرط مفقود ہو ، مثلا توہین رسالت کرنے والا غیر مسلم ہو یا ملزمہ عورت ہو ،شرائط مفقود ہونے کی صورت میں شرعی طور پر کوئی متعین سزا تو موجود نہیں ہے ،ایسے موقع پر تعزیری سزا سے کام لیا جاتا ہے تعزیری سزا سے مراد وہ سزا ہے جو شریعت نے از خود متعین نہیں کی ہوتی ، اس کے بارے میں ریاست یا ریاستی اداروں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ جرم اور مجرم کی نوعیت دیکھ کر اور حالات اور مصالح کو سامنے رکھ کر جو سزا مناسب سمجھیں ، تجویز کرسکتے ہیں ۔ ناگزیر حالات میں بطور تعزیر سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ۔بلکہ جہاں جرم کی نوعیت شدید ہو ،وہاں سزائے موت ملنی چاہیے ۔
شافعی ، مالکی اور حنبلی علماءوفقہاء کے اقوال سے یہ بات کسی شبہ کے بغیر واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی بھی مسلم اور غیر مسلم توہین رسالت کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے چاہے وہ تحریر میں زبان سےاﷺ کو گالی دیتا ہو ، یا آپﷺ کی بے عزتی کرتا ہو ، یا آپﷺ کے بارے میں تحقیری یا ذلت آمیز کلمات کہتا ہو ،یا آپﷺ کے وقار وعزت پر بدزنی کرکے حملہ کرتا ہو ،یا آپﷺ کو بد نام کرتا ہو ، یا جب آپﷺ کا نام آجائے تو برا منہ بناتا ہو ، یا آپﷺ پر تہمت اور الزم لگاتا ہو ،یا آپﷺ کو دائرہ اختیار یا کسی فیصلہ کو کسی طور پر نہیں مانتا ہو ،یا آپﷺ سے بغاوت کرتا ہو ۔
جب بھی اس کا جرم ثابت ہوجاتا ہے تو اس کی سزا صرف اور صرف موت ہے اس سلسلہ میں کسی ایک فقیہ یا عالم نے بھی اس کے متبادل کوئی اور بیان نہیں کی ہے ۔
فصل دوم :معاصر فقہی اداروں کی آراء : ایک تجزیہ
• اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان
• فقہ اکیڈمی سعودی عرب
1 ۔ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان :
توہین رسالت کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی دو فیصلے ہیں ۔پہلا ’’ سزائے شتم رسول ’’کےعنوان سے اور دوسرا ‘‘توہین رسالت کے جرم کو ناقبل دست اندازی پولیس بنانے کی مجوزہ ترمیم اور کونسل کی رائے ’’کے عنوان سے موجود ہیں ۔
1 ۔ سزائے شتم رسول ﷺ :
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے بیسویں اجلاس منعقدہ یکم جنوری ۱۹۸۴ مسودہ قانون ارتداد کی تالیف کے سلسلہ میں یہ محسوس کیا کہ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی بھی موجب ارتداد ہے ۔ لہذا اس کے ارتکاب پر سخت سزادی جانی چاہیے ،چنانچہ کونسل نے اس سلسلے میں باتفاق رائے مندرجہ ذیل سفارش کی ۔
Punishment for wilful irreverence to the Holy Prophet (S.A.W.S) proposed amendment in the Pakistan Penal Code .
Whoever wilfully says or does any thing which is derogatory of or which , directly or indirectly , shows or tends to show irreverence towards the Holy Prophet Hazrat Muhammad (sallallaho sallam) shall be punished with death . Provided that the burden of proving that the thing was not said or done wilfilly shall be on the person accused of the offence .
ترجمہ :۔ ‘‘جو کوئی شخص دانستہ کوئی ایسا کلام یا ایسی حرکت کرے گا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ آنحضرت ﷺْ کی شان کے بارے میں اہانت آمیز ہو، یا اہانت کی طرف مائل ہو ،یا سوء ادبی ظاہر کرتی ہو ، مستوجب سزائے موت ہوگا الّا یہ کہ یہ ثابت کرنا کہ اس کی طرف سے دانستہ ایسی حرکت نہیں کی گئی یا کلام نہیں کیا گیا ، اس کا بار ثبوت اس ملزم پر ہوگا ۔
نیز کونسل نے طے کیا کہ اس سفارش کو قانون ارتداد میں شامل کرنے کی بجائے تعزیرات پاکستان میں اضافہ کیا جائے ۔’’
2 ۔ توہین رسالت کے جرم کو ناقبل دست اندازی پولیس بنانے کی مجوزہ ترمیم اور کونسل کی رائے :
ریفرنس از لاء کمیشن
اس موضوع پر پاکستان لاء کمیشن نے بذریعہ مراسلہ نمبر ۱ (۸۷ ) /پی پی سی ۔ لیجس مورخہ ۲۰ /دسمبر ۱۹۹۳ ء چیئرمین کونسل کو ایک ریفرنس بایں مضمون ارسال کیا تھا :
‘‘توہین رسالت سے متعلق مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۵ ۔ ج کے تحت یہ جرم ضابطہ فوجداری ، جدول دوم ، کی رو سے قابل دست اندازی پولیس اور ناقبل ضمانت جرم ہے ۔ بعض اوقات اس قانون کے غلط یا بے جا استعمال کی شکایات سامنے آئی ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں ناکردہ گناہ ملزموں کے غیر معینہ مدت تک بندی خانے میں محبوس رہنے کا امکان ہوتا ہے ۔ اگر اس قانون کا غلط استعمال ہوگا تو غیر مسلم ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کا موقع ملے گا ’’
ان وجوہات کی بنیاد پر لاء کمیشن نے یہ تجویز کیا کہ اس جرم کو قابل دست اندازی پولیس کی بجائے ناقابل دست اندازی پولیس اور قابل ضمانت قرار دیا جائے ۔ یعنی یہ کہ پولیس ملزم کو بلا وارنٹ گرفتار نہ کرسکے اور ملزم کی ضمانت کی قانونی گنجائش بھی موجود ہو ۔
کونسل نے اپنے ۱۳۲ ویں اجلاس منعقدہ ۲۰ ۔۱۲ /اپریل ۱۹۹۸ ء میں اس پر بالتفصیل غور کیا ، بالخصوص اس جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دینے کے مضمرات پر مبسوط بحث ہوئی ۔
کونسل کے نزدیک اس قانون کے غلط استعمال کے امکان کا سد باب کرنا ضروری ہے ، تاہم اس قانون کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دینا کہ پولیس ایسے ملزم کو بلا وارنٹ گرفتار نہ کرسکے اس کا مناسب حل نہیں بلکہ اس طرح قانون کے اجراء کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا اور وہ جرم سے باز رکھنے (Deterrence ) کی صلاحیت سے عاری ہوجائے گا ۔ مزید برآں ضابطہ فوجداری میں صرف یہی جرم قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت جرائم کی فہرست میں شامل نہیں ، متعدد دیگر جرائم بھی قابل دست اندازی پولیس ہیں ۔ ان کے بارے میں بھی پولیس کی طرف سے اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایا ت برابر آتی رہتی ہیں ۔ مگر ان دیگر جرائم کے بارے میں یہ حل پیش نہیں کیا جاتا کہ انہیں ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا جائے ۔
کونسل الزام تراشی میں یقین نہیں رکھتی مگر دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ اعتراضات بالعموم اس طبقہ کی طرف سے کئے جاتے ہیں جو سرے سے اسلامی قوانین کی تنفیذ کی مخالفت میں پیش پیش رہاہے ۔ بد قسمتی سے ہماری حکومتوں کا رویہ بھی اس قانون کے بارے میں معذرت خواہانہ رہا ہے ۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں اور بعض شہرت طلب وکلاء کی ہمدردیاں بھی معروضی حقائق سے قطع نظر ان مجرموں کے ساتھ رہی ہیں جن پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا ۔
برصغیر میں طویل عرصہ سے مسلمان ، ہندو ،سکھ ،عیسائی اور دیگر مذاہب کے پیرو ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں مگر اس لائق نفرین جرم کے حالیہ واقعات کے تسلسل سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی گہرای سازش کار فرما ہے ۔ ہمارے دور میں اگر چہ بالعموم مسلمانوں کی اپنے دین کے احکام سے وابستگی کم ہوگئی ہے مگر ذات رسالت مآب ﷺ سے ہر ایک مسلمان کی والہانہ جذباتی وابستگی ہمارا ایک قیمتی اثاثہ ہے ۔ بین الاقوامی سازش اس کو بھی مسمار کردینا چاہتی ہے ۔ ایک سازش کے تحت بعض اسلام دشمن افراد سے شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخانہ کہلوائے گئے اور پھر ان کو تحفظ دے کر اعزاز کے ساتھ بیرون ملک روانہ کرنے کا اہتمام کیا گیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پروسیجرل لاء میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے ، تاہم جب تک ہم اسلامی احکام اور اقدار وروایات کے مطابق ایک نیا پرو سیجرل لاء نہیں بنالیتے ، اس جرم کو قابل دست اندازی پولیس اور ناقابل ضمانت ہی رہنا چاہیے ۔ اس جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دینے کی صورت میں یہ خدشہ تر ہوجائے گا کہ ایسے مواقع پر عوام قانون کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔ البتہ اس قانون کے غلط یا بے جا استعمال کے امکان کو روکنے کیلئے یہ طریق کار اختیار کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص کسی کے خلاف توہین رسالت کے ارتکاب کی درخواست دے تو وہ یا تو حلفا یہ بیان دے ، یا اپنے بیان دے ، یا اپنے بیان کی تائید میں دو گواہ پیش کرے ، تاکہ آئندہ وہ اپنے بیان سے مکر نہ سکے اور اگر اس نے کسی کو ناجائز طور پر ہراساں کرنے کیلئے ایسی درخواست دی ہے ، تو وہ قانون کے مطابق جھوٹی شکایت دائر کرنے کی سزا پاسکے ۔
2 ۔اسلامی فقہ اکیڈمی ،مکہ مکرمہ :
توہین رسالت کے حوالے سے اسلامی فقہ اکیڈمی ،مکہ مکرمہ (سعودی عرب ) کا فیصلہ بھی موجود ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کا بیان جسے بعض مغربی اخباروں نے شائع کیا
اسلامی فقہ اکیڈمی نے اپنے اٹھارہویں سمینار منعقدہ مکہ مکرمہ بتاریخ ۱۰ ۔۱۴ ربیع الاول ۱۴۲۷ ھ مطابق ۸ ۔ اپریل ۲۰۰۶ ء میں بڑے افسوس کے ساتھ ان اہانت آمیز کا جائزہ لیا جن کو شائع کرنے کی جسارت ڈنمارک کے جو لانڈس پوسٹن نامی ایک اخبار نے کی تھی ، جنہیں یورپ کے بعض اخبارات اور دیگر عالمی اخباروں نے شائع کیا ۔ یہ نبی کریمﷺ کی فرضی اور اہانت آمیز تصویروں پر مبنی تھے ، اس میں آپ ﷺ کا استہزا ء کیا گیا تھا اور ان پر برے جملے کسے گئے تھے ، اس کا مقصد نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی پر کیچڑا اچھالنا تھا ، یہ ساری باتیں ان کے اندر کے بغض کو ظاہر کرتی ہیں اور اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کی قدرومنزلت کو گھٹانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کی بلند تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں غم کی لہر دوڑ رہی ہے اور ان کے احساسات مجروح ہورہے ہیں ، یہ دنیا کے تمام ممالک کے مسلمانوں سے نہایت ہی اہانت آمیز دشمنی ہے ، یہ اس پاکیزہ شخصیت پر جس پر مسلمان اپنی جان ومال فداکرتے ہیں ، ظلم وزیادتی کرکے مسلمانوں کی شبیہ خراب کررہے ہیں اور بین الاقوامی عہد وپیمان کو پس پشت ڈال رہے ہیں اور انسانی قدر ومنزلت سے غفلت برت رہے ہیں جن کی رو سے ان کا یہ عمل انتہائی ناپسندیدہ ہے قابل نفرت ہے ۔
لہذا یہ اجلاس اس افسوس ناک ظلم اور زیادتی کی سخت مذمت کرتا ہے جس کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی اور ان کے دین کی اہانت کی جارہی ہے ، اسلامی فقہ اکیڈمی کا یہ سمینار اس کی سخت مذمت کرتا ہے اور اس کو انجام دینے والوں اور اس کی اشاعت میں مدد کرنے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ چونکہ اس عمل کی وجہ سے ان کے ملکوں میں اور عالم اسلامی میں عظیم بحران کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے ، لہذا وہ اپنے عمل سے رجوع کا اعلان کریں اور امت اسلامیہ سے اپنے اس شرمناک عمل کیلئے معذرت کریں ، سمینار مختلف لوگوںن ، جماعتوں ، گروہوں ، مجلسوں ،کونسلوں اور حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کیلئے حسب قدرت وموقع متحد ہوئیں تاکہ وہ آئندہ اس طرح کی زیادتیوں کو روک سکیں اور ایسا کرنے والوں کی گرفت کرسکیں ۔
نبی کریم ﷺ کی اس قسم کی توہین ایک منظم سازش کا حصہ ہے ، جس کے ذریعہ دشمن ہمارے دین پر حملہ کرتے ہیں ، اس لئے امت اسلامیہ کے افراد کو چاہیے کہ وہ بیدار ہوں اور اس سے بچنے کی ہر راہ اختیار کریں اور اس کوشش میں ایک دوسرے کی مدد کریں ، دوسری جانب داعیوں اور علماء پر فرض ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششیں ان بیہودہ حملوں کے خطرات کے متعلق مومنوں کو آگاہ کرنے میں صرف کریں ، امت مسلمہ پوری قوت کے ساتھ اس چیز کی مدافعت کرے اور جماعتوں وحکومتوں سے ملنے والے ہر ممکن وسائل کا استعمال توہین کرنے والوں کی گرفت اور اس شخص کی تردید میں استعمال کرے جس کا غلیظ نفس اس امت کے مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کو اچھا دکھاتا ہے ، اس ضمن میں ضروری ہے کہ ایک عالمی عہد وپیمان کی تشکیل کی جائے جس کے تحت اللہ کے رسولوں اور نبیوں کی توہین کرنے والوں کو مجرم ٹھہرایا جاسکے اور ایسی کارروائیاں کی جائیں جن کے ذریعہ ان مقدسات کی حفاظت ونگہداشت ممکن ہوسکے اور ہر اس شخص کو جو ایسا گناہ اور زیادتی کرے اس کی سزا مل سکے ، اظہار خیال کی آزادی کیلئے ضروری ہے کہ اس کی آڑ میں دوسروں کی توہین اور دوسروں پر زیادتی کی اجازت نہ دی جائے ۔
اجلاس اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ دباؤ کے جو طریقے اور تدابیرامت مسلمہ اختیار کرے وہ دین حنیف اور اس دین کی اخلاقیات کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں ، کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى۔
اخیر میں اسلامی فقہ اکیڈمی کا یہ اجلاس ان تمام افراد ، جماعتوں ، ادارو ں ، مجلسوں ، محفلوں اور گروہوں کی تعریف کرتا ہے جنہوں نے اپنے بیانات اور مختلف کوششوں کے ذریعہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کی مدد کے واسطے اپنی دینی غیرت کا اظہار کیا اور رابطہ عالمی اسلامی کی کوششوں کی تعریف کرتا ہے جس نے اس عظیم حادثے سے متعلق بیانات اور کارروائیوں کو شائع کیا ، ساتھ ہی اجلاس رابطہ عالم اسلامی سے اس بات کی اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلام سے متعلق کو ششوں کو منظم کرے اور مختلف حلقوں سے رابطہ رکھے ، اجلاس ان دیگر ممالک کی حکومتوں ، تنظیموں اور اداروں کو بنظر استحسان دیکھتا ہے
ہم اللہ تعالی سے دعاگو ہیں کہ وہ اس امت کی پریشانیوں کو دور کرے ، دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرمائے اور ان کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے ۔
باب سوم : توہین رسالت کا ملکی قانون
توہین رسالت کا ملکی قانون :
پاکستان میں نبی کریم ﷺ کی ناموس کے تحفظ کیلئے کوئی قانون نہیں تھا ، البتہ ایک عام قانون تھا جس کے مطابق کسی جماعت یا مذہب کے عقائد کی توہین کرنے یا دوسروں کے مذہبی جذبات مشتعل کرنے پر دو سال قید اور جرمانے کی سزا تھی ۔
تاریخی پس منظر :
سلطنت مغلیہ کے سقوط کے بعد جب ہندوستان میں برطانوی راج مسلط ہوگیا تو یہاں 1860 میں گورنرجنرل ہند کی منظوری سے تعزیرات ہند (The Indian Penal Code)کو نافذالعمل کردیا گیا ۔ اس سے قبل سارے ملک میں اسلامی قانون جاری تھا دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے قرآن وسنت اور فقہ کی روشنی میں صادر ہوتے تھے ،جن کے حوالے ‘‘مشرقی ملکوں میں توہین رسالت کا قانون’’ کے باب میں درج ہیں ۔ تعزیرات ہند کی تدوین لارڈمیکالے کی سربراہی میں تشکیل شدہ کمیشن نے نپولین کوڈ کو سامنے رکھ کر کی تھی جس کا ماخذ اسلامی قانون تھا جس کو فرانس کے واضعان قانون نے حسب منشا ترمیم اور تبدیل کرلیا تھا ۔ اس سلسلہ میں انگلش قوانین میں بھی خاص طور پر انتظامی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا گیا ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انگلستان میں اس وقت بھی یعنی 1860 میں قانون توہین مسیحؑ بطور کامن لا (Common Law ) موجود تھا اور آج بھی موجودہے ۔ البتہ ہندوستان میں حکومت برطانیہ کے خلاف منافرت پھیلانے یا حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی کے جرم کیلئے ایک دفعہ تعزیرات ہند میں شامل کی گئی جسے جرم بغاوت قرار دے کر اس کی سزا ،سزائے عمر قید مقرر کی گئی ۔ جس کی جگہ 1898 میں دفعہ 124 الف کو معمولی ترمیم کے ساتھ شامل تعزیرات کیاگیا مگر سزا اور نوعیت جرم وہی برقرار رہی ۔
اسی سال 1898 میں دفعہ 124 الف کے ساتھ ہی ایک مزید دفعہ 153 الف کا بھی اضافہ کیاگیا تاکہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی وجہ سے ملک میں جو فتنے اور فسادات پیدا ہوں ان کا سد باب کیا جاسکے اور حکومت ان خطرات سے محفوظ رہ سکے ۔ دفعہ 153 الف کا متن حسب ذیل ہے :
دفعہ 153 الف :
‘‘ جو کوئی الفاظ سے بذریعہ تقریر یا تحریر یا اشاروں سے یا کسی اور طریقہ سے ہندوستان میں ہر میجسٹی کی رعایا کی مختلف جماعتوں میں دشمنی یا منافرت کے جذبات ابھارے یا انہیں بھڑکانے کی کوشش کرے اسے دو سال قید تک سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں ’’۔
وضاحت ( Explaination) :
‘‘ایسا کوئی فعل جو بد نیتی کے بغیر نیک نیتی کے ساتھ ان امور کی نشاندہی کرے ، جو ہر میجسٹی کی رعایا کی مختلف جماعتوں کے درمیان دشمنی یا منافرت کے جذبات یا رجحانات پیدا کرنے کا باعث ہوں ، مذکورہ بالا جرم کی تعریف میں نہیں آئے گا ’’۔
محمد اسماعیل قریشی لکھتے ہیں کہ : کہ اس دفعہ کے اضافۃ کا ایک مقصد یہ بھی بتلایا گیا کہ ہر میجسٹی کی رعایا کے دامن امن وامان قائم کرنا ہے ۔
شاتمان رسول کے خلاف بھی مقدمات اسی دفعہ 153 الف کے تحت قائم ہوئے ان میں سب سے مشہور مقدمہ ‘‘رنگیلا رسول ’’کے ناشر راج پال کے خلاف اسی جرم کے ارتکاب پر درج ہوا اور عدالت سیشن جج سے اسے سزا دی گئی ۔ جس کے خلاف اس نے لاہور ہائی کورٹ میں نگرانی دائر کی ، جو سماعت کیلئے دلیپ سنگھ جج کے سامنے پیش ہوئی ، جس نے نگرانی منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ مذہبی رہنماؤں پر تنقید یا طنز خواہ کتنا ہی غیر شائستہ اور ناپسندیدہ کیوں نہ ہو وہ 153 الف کے تحت قابل تعزیر جرم نہیں بنتا ۔ اس فیصلہ کی رو سے ملزم راج پال صاف بری ہو گیا ۔جس سے ہندوستان بھر کے مسلمانوں میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی یہ فیصلہ آل انڈیا رپورٹر 1927 ص 250 پر چھپ چکا ہے ۔ اس فیصلہ کے خلاف اور تعزیرات ہند میں توہین رسالت کے جرم پر کوئی سزانہ ہونے کی وجہ سے سارے ملک میں مسلمانوں نے ہر پلیٹ فارم سے اس پر سخت احتجاج کیا اور بالآخر غازی علم الدین نے گستاخ رسول راج پال کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے ہاتھوں سے اسے توہین رسالت کی سزادی اور خود جام شہادت نوش کرکے زندہ جاوید بن گیا ۔ دلیپ سنگھ کے اس فیصلہ کے برخلاف لاہورہائی کورٹ کے سپیشل بنچ نے اختلاف کرتے ہوئے ‘‘رسالہ ورتمان ’’ کیس کے ملزم کو جس نے رسول پاکﷺ کی زندگی پر بالواسطہ طور پر طنز کیا تھا اسی دفعہ 153 الف کے تحت سزادی اور قرار دیا تھا کہ اس کتابچہ کی تحریر توہین آمیز ہے ۔
برٹش گورنمنٹ نے جب دیکھا کہ دلیپ سنگھ کے اس فیصلہ میں دفعہ 153 الف کی غلط تعبیر اور تشریح کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہورہے ہیں تو ان کی اشک شوئی کیلئے دفعہ 295 الف کو قانون فوجداری کے ترمیمی ایکٹ مجریہ سال 1927 کے ذریعہ تعزیرات ہند میں شامل کیاگیا جو حسب ذیل ہے ۔
295 الف :
‘‘جو کوئی عمدا اور بدنیتی سے تحریری یا تقریری یا علانیۃ طور پر ہر میجسٹی کی رعایا کی کسی جماعت کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرے یا توہین کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس جماعت کے مذہبی جذبات مشتعل ہوں تو اسے دو سال تک قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں ’’۔
دفعہ 295 الف میں 23 مارچ 1956 سے صرف ‘‘ہر میجسٹی کی رعایا ’’ کے الفاظ کو ‘‘پاکستان کے شہریوں ’’ کے الفاظ سے تبدیل کردیا گیا ۔ اس طرح اس دفعہ میں سال 1961 کے ترمیمی آرڈیننس جس کو سال 1956 سے موثر بہ ماضی کیا گیا تھا ،کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ۔ سال 1980 میں دوسری ترمیمی آرڈیننس کے ذریعہ دفعہ 298 الف کا اضافہ کیا گیا جو حسب ذیل ہے ۔
298 الف، ذوات قدسی کی توہین :
‘‘جو کوئی یا تقریری یا علانیۃ یا اشارۃ یا کنایۃ ، بالواسطہ یا بلا واسطہ ،امہات المومنین یا کسی اہل بیت یا خلفائے راشدین میں سے کسی خلیفہ راشد یا اصحاب رسول کی بے حرمتی کرے ،یا ان پر طعنہ زنی کرے یا بہتان تراشی کرے ، اسے دس سال قید تک کی سزا جرمانہ عائد کیا جائے گا یا وہ ان دونوں سزاؤ ں کا مستوجب ہوگا ’’۔
اس دفعہ 298 الف تعزیرات پاکستان کے اضافہ سے صرف ‘‘امہات المومنین یا اہل بیت ، ‘‘خلفائے راشدین یا اصحاب رسول کی بے حرمتی اور ان کی شان میں گستاخی کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا لیکن خود اس مقدس ترین ہستی ، جس سے نسبت کی وجہ سے انہیں یہ مرتبہ حاصل ہوا ، ان کی جناب میں گستاخی ،اہانت ،توہین ،تنقیص، طعنہ زنی ، بہتان تراشی جیسے سنگین اور ناقبل معافی جرم کے بارے میں کوئی سزا تجویز نہیں ہوئی ، اس لئے اس کو کاتاہی اور کمی (Omission) کو پورا کرنے کیلئے سال 1984 میں محمد اسماعیل قریشی کی طرف سے شریعت پٹیشن نمبر 1 سال 1984 فیڈرل شریعت کورٹ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان ، صدر پاکستان اور گورنر ہائے صوبہ جات پاکستان کے خلاف دائر کی گئی ، اس شریعت پٹیشن کا فیصلہ ابھی محفوظ تھا کہ نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں ایک N G O لیڈر خاتون نے بالواسطہ گستاخی کی جس پر محترمہ آپا نثار فاطمہ نے محمد اسماعیل قریشی کے مشورہ سے توہین رسالت کے جرم کی سزا ، سزائے موت کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا ، جو فوجداری قانون (ترمیمی ) ایکٹ نمبر 3 سال 1986 کی صورت میں منظور ہوا جس کی رو سے تعزیرات پاکستان میں C ۔295 کا اضافہ کیا گیا ۔ جو کہ حسب ذیل ہے ۔
قانون کی موجودہ صورتحال :
دفعہ C ۔295
‘‘ جو کوئی عمدا زبانی یا تحریری طور پر یا بطور طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ یا بلا واسطہ ، اشارۃ یا کنایۃ نام محمد کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے ،وہ سزائے موت یا سزائے عمر قید کا مستوجب ہوگا اور اسے سزائے جرمانہ بھی دی جائے گی ’’۔
چونکہ توہین رسالت کے متذکرہ بالا بل میں اہانت رسول کی سزا ، بطور حد کے سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا تھا ،لیکن اس میں سزائے موت کی متبادل سزا ، سزائے عمر قید ، جو دفعہ C ۔295 میں رکھی گئی وہ قرآن وسنت کے منافی تھی ۔ اس لئے محمد اسماعیل قریشی نے دوبارہ اس دفعہ سے عمر ‘‘قید ’’حذف کرنے کا مطالبہ بذریعہ شریعت پٹیشن کردیا کہ توہین رسالت کی سزا بطور حد صرف سزائے موت مقرر ہے اور حد میں کسی قسم کی کمی یا بیشی نہیں کی جاسکتی ۔ یہ شریعت پٹیشن فیڈرل شریعت کورٹ نے اپنے فیصلہ 30 اکتوبر 1990 کے ذریعہ منظور کرلی اور قرارا دیا کہ اہانت رسول کی سزا بطور حد صرف سزائے موت ہے جس میں کسی کو کمی بیشی کا کوئی اختیار حاصل نہیں ۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے توہین رسالت کا یہ فیصلہ صدر حکومت پاکستان کو ارسال کردیاتھا کہ C ۔295 تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے ‘‘عمر قید’’ کے الفاظ 30 اپریل 1991 تک اس دفعہ سے حذف کردئیے جائیں ورنہ اس تاریخ سے ‘‘عمر قید ’’ کے الفاظ اس دفعہ سے غیر موثر ہوجائیں گے ۔ اس فیصلہ میں حکومت کو مزید ہدایت کی گئی کہ اس دفعہ میں ایک شق کا اضافہ کیا جائے ، جس کی رو سے دوسرے پیغمبروں کی اہانت کی سزا بھی سزائے موت مقرر کی جائے ۔ اس فیصلہ کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی جو ہمارے نوٹس پر حکومت نے واپس لے لی ۔ اس طرح فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ عدالت عظمی میں بھی بحال رہا جس کی وجہ سے ‘‘عمرقید ’’ کے الفاظ آئین ، قانون اور فیصلہ کے مطابق C۔295 سے حذف ہوکر ‘‘عمر قید ’’ کی سزا غیر موثر ہوچکی ہے اور اب پاکستان میں اہانت رسول مقبول کی سزا بحمداللہ بطور حد سزائے موت مقرر ہوکر نافذالعمل ہے
ایک اور اہم مقدمے کا ذکر ضروری ہے جو 22 ستمبر 2005 سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے ڈاکٹر محمد امین بنام محمد محبوب میں نہایت اہم آئینی اور قانونی نکتہ پر دیا ہے جبکہ یہ کتاب زیر طباعت تھی ۔ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے محبوب ملزم کو توہین رسالت کے مقدمہ میں اس لئے بری کردیاتھا کہ استغاثہ (Prosecution) کی شہادت اسلام کے معیار شہادت کے مطابق نہیں تھی اس حد تک تو فیصلہ درست تھا لیکن ایک اور وجہ جس کا ذکر فیصلہ میں نمایاں طور پر کیا گیا تھا وہ یہ کہ توہین رسالت کا مجرم اگر اپنے گناہ سے توبہ کرلے تو عدالت اسے معاف کرتے ہوئے بری کرسکتی ہے ۔ محمد اسماعیل قریشی نے عدالت عالیہ کے اس اختیار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا کہ توہین رسالت کے بارے میں قرآن اور سنت اجماع اور آئین اسلامی جمہوریہ آف پاکستان کی رو سے اور فیڈرل شریعت کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ شدہ مقدمہ محمد اسماعیل قریشی بنام جنرل محمد ضیاءالحق کے بعد کسی عدالت ،گورنمنٹ یا اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجرم کو توبہ پر معاف کردے ۔ ایسی صورت میں گستاخان رسول کو یہ فری لائسنس مل جائے گا کہ وہ آپ ﷺ کی توہین کریں اور پھر توبہ کرکے اس جرم سے بری ہوجائیں ۔
سپریم کورٹ نے ان لوگوں کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے قرارادیا کہ عدالتیں فیڈرل شریعت کورٹ کے (10 FSC 1991 ) کے فیصلہ کی پابند ہیں اور توہین رسالت کےمجرم کو معاف کردینے کا کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلہ کے مذکورہ بالا حوالے سے اسلامی قانون حدود اور تعزیرات کے بنیادی نکتہ کا ذکر ضروری ہے ،اسلام ہی نے دنیا میں سب سے پہلے نیت ، ارادے اور قصد کو جرم کا بنیادی رکن بنایا ہے اس سے قبل رومن لا ء یا ہندوستان میں لاگو اینگلو سیکسن لاء میں اٹھارویں صدی عیسوی تک یورپ کے قوانین میں ارادہ ،قصدیا نیت کو جرم کا بنیادی رکن یا اسے جرم سے متعلق جز نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ مگرآج سے چودہ سال قبل شارع اسلام ﷺ نے ارادہ اور نیت کو جرم اور عمل کی بنیاد بناکر انسان کو جزا اور سزا کا مستحق قرار دیا ، جو دنیائے قانون وعدل میں سب سے پہلا انقلابی اقدام تھا ۔ چونکہ ساری دنیا نے اس کو تسلیم کرلیا ہے اور یہ جز وقانون بن چکا ہے ، اسلئے اس تاریخی حقیقت کو دنیانے فراموش کردیا ہے ۔
جناب رسالت مآب ﷺ کی یہ مشہور حدیث ‘‘انما الاعمال بالنیات ’’ یعنی ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اس کی روشنی میں C ۔295 کو قرآن اور سنت سے ہم آہنگ کرنے کیلئے اسے دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑے گا ۔ ایک تو بالارادہ جرم توہین رسالت یعنی وہ عمل جو قصدا اور عمدا اہانت رسول ﷺ اور انبیائے کرام کیلئے کیاجائے تو اس کی سزا بطور حد سزائے موت مقرر ہے ۔ دوسرا جرم جو بلا ارادہ ہو جس میں اہانت اور گستاخی کے پہلو کی کوئی نیت یا ارادہ کسی صورت میں ظاہر نہ ہو یا اس میں ایسی کوئی بات نہ ہو جس پر ملزم کی مجرمانہ ذہنیت پر استدلال کیا جاسے تو اسے حد کی سزا موت نہیں دی جائےگی مگر اس پر جرمانہ عائد کیا جائے گا کہ اس نے بلا قصد و ارادہ سہی لیکن گستاخی کرکے حزم واحتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا جس کی ہر عاقل بالغ شخص سے توقع کی جاتی ہے ۔ البتہ جبر واکراہ میں ملزم مستوجب سزا نہیں ہے مگر جو شخص جبر واکراہ کا موجب ہو وہ سزائے موت کا مستحق قرارا پائے گا ۔ قتل جیسے سنگین جرم میں اگر قتل بالارادہ ہو تو قتل عمد کہلائے گا ، جس کی سزا بطور حد سزائے موت ہے ۔ لیکن اگر قتل بالارادہ نہ ہو اسے قتل خظا کہا جائے گا ، جس کی سزا حد طرح قتل نہیں بلکہ اس سے کم تر ہے ۔ فیڈرل شریعت کورٹ میں شروع ہی سے ان لوگوں کا یہی موقف رہا ہے اوروفاقی شرعی عدالت نے بھی اپنے فیصلہ میں اس سے اتفاق کیا ہے ۔
قانون توہین رسالت پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ :
1 :گستاخ کی سزا کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ؟
2 : یہ قانون ایک آمر نے بنایا اوراس سے اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں ؟
3 : قانون توہین رسالت انسانی حقوق کے منافی ہے ؟
4 : آپﷺ نے اپنے دشمن کومعاف کیا تو ہم کیوں سزا دے ؟
5 :آج تک کسی مرتکب توہین رسالت کو سزا کیوں نہیں ہوئی ؟
قانون توہین رسالت پر ہونے والے اعتراضات کا جائزہ :
توہین رسالت کے قانون کو ختم یا تبدیل کرانے کی کوشش کرنے والی لابی کی طرف سے بالعموم جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :
1 ۔ توہین رسالت کے قانون پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ گستاخ رسول کی سزا کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے ؟
جواب : رسول اللہ ﷺ کی گستاخی کرنا ، آپ ﷺ کو تکلیف دینا ، آپ کی اہانت کرنا کفر ہے اور یہ کام فتنہ وفساد کا ذریعہ اور لعنت کا سبب ہے گستاخ رسول ﷺ کی سزا قتل ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
‘‘ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا’’
ترجمہ : ‘‘جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کیلئے نہایت رسوا کن عذاب ہے ’’
کیونکہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی تکذیب وتنقیص اور کفر واہانت کرکے اللہ تعالیٰ کو ایذا دیتے اور رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچاتے ہیں ۔ اس لیے یہ لعنت کے مستحق ہیں اور ان کی سزا قتل ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
‘‘ مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ’’
ترجمہ : ‘‘ان پر پھٹکار برسائی گئی ، جہاں بھی مل جائیں پکڑے جائیں اور خوب ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں ۔’’
ایسے گستاخ اور لعنتی لوگوں کی تائید ومدد بالکل نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی ان کے لیے کوئی نرم گوشہ رکھنا چاہیے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
‘‘ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا ’’
ترجمہ : ‘‘یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور جسے اللہ تعالی لعنت کردے ، تو اس کا کوئی مددگار نہ پائے گا ۔’’ جو مددگار بننے کی کوشش کرے وہ خود بھی ملعون اور مستوجب سزا ہے ۔
2۔ دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ قانون ایک آمر نے متعارف کرایا تھا اور اس قانون کی وجہ سے اقلیتیں غیر محفوظ ہیں اور ان کی جان ومال کو خطرہ ہے جبکہ غیر مسلموں کے حقوق کی پاسداری مسلم ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ؟
جواب ۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے کہ قانون توہین رسالت (C ۔295 ) فوجی آمر ضیاءالحق نے بنایا تھا ۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ قانون اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور ان کو پھنسانے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے جبکہ دونوں باتیں خلاف حقیقت ہیں ۔ اس قانون کو نہ کسی فوجی آمر نے بنایا ہے اور نہ ہی کسی سویلین جابر نے ، یہ قانون رب العزت کا نازل کردہ ہے ،جس کا نفاذ عہد رسالت ، دور خلافت سے ہورہا ہے اور جہاں کہیں مسلمانوں کو اقتدار حاصل رہا ہے وہاں گستاخان رسول کی سزائے موت دی گئی ہے ۔
بدقسمتی سے جب ملک وارض اور فکر ونظر پر انگریز کا قبضہ ہوا تو انہوں نے اس قانون (توہین رسالت )کو 1860 میں سلطنت مغلیہ کے بعد ختم کردیا ، پھر جب ہندوؤں نے آپﷺ کی گستاخی وبے ادبی کی اور حضرت محمد ﷺ کی ناموس پر حملے شروع کردیے تو مسلمانوں کے احتجاج اور مولانا محمد علی جوہر کی تحریک پر ایک معمولی دفعہ A ۔295 کو تعزیرات ہند میں شامل کیا گیا ۔ جس میں توہین مذہب کی سزا 2 سال تک قید یا جرمانہ مقرر ہوئی ۔ اس کے بعد ایک طویل نتیجہ خیز جدوجہد کا آغاز 1983 میں ہوا ۔ جب مشتاق راج ایڈوکیٹ نامی شخص نے ‘‘ آفاقی اشتمالیت ’’ (Heavenly communism) کتاب لکھی ، جس میں اس نے اللہ کا تمسخر،مذہب کا مذاق ، انبیاء کے بارے میں گھٹیا اور نازیبا الفاظ استعمال کیے اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کی تو ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم جیورسٹس نے علماء سے شاتم رسول کے خلاف فتویٰ لیا اور اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کا نوٹس لیا ، لیکن ضیاء حکومت نے اسے قابل توجہ نہ سمجھا ، تو فیڈرل شریعت کورٹ میں ضیاء الحق اور چاروں صوبوں کے گورنرز کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا ۔ جس کے مدعی سابق جج جناب چوہدری محمد صدیق(والد خلیل الرحمان ) تھے ۔حکومت کی طرف سے خلیل الرحمٰن رمدے جو اس وقت ایڈوکیٹ جنرل تھے پیش ہوئے ۔ عدالت میں مدعی باپ اور مدعا علیہ بیٹا پیش ہوئے لیکن دونوں کا موقف ایک ہی تھا ۔ پاکستان کے تمام ایڈوکیٹ جنرلز کی تائید بھی شامل تھی ، چنانچہ شرعی عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ اس کے بعد C ۔295 اسمبلی میں متفقہ طور پر پاس ہوا کسی کو مخالفت کی جرأت نہ ہوئی۔ سزا عمر قید یا سزائے موت مقرر ہوئی ، لیکن علماء اس فیصلے پر مطمئن نہ تھے ۔ فیصلے کو دوبارہ چیلنج کردیا گیا ۔ علماء کا موقف تھا کہ سزا ایک مقرر اور ثابت شدہ حد ہے ۔ اس میں کمی یا اضافے کا اختیار کسی کو نہیں ۔ یہ ایک ناقبل معافی جرم ہے ، چنانچہ 1987 میں سماعت ہوئی تمام مسالک کے علماء ، خلیل الرحمٰن ، جسٹس میاں محمد اجمل ، مولانا محمد متین اور ریاض الحسن نوری مشیر وفاقی شرعی عدالت نے عدالت میں بڑے مضبوط اور مؤثر دلائل دیے کہ عمر قید کی سزا اسلامی احکام کےمنافی ہے ،۔ سندھ حکومت نے بھی اس فیصلے کو تسلیم کیا ۔ علامہ طاہر القادری کا موقف تھا کہ سزا کیلئے نیت ضرورت نہیں ہے یعنی اسے فی الفور قتل کیا جائے ۔ چنانچہ سزائے موت کے حق میں فیصلہ ہو ا کہ حکومت وقت کو 30 اپریل 1991 تک مہلت دی گئی ۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو پیغام بھیجوایا گیا کہ اپیل واپس لی جائے ۔ اس نے بر سر عام اعلان کیا کہ اسے اپیل کا قطعی علم نہ تھا ورنہ یہ غلطی نہ ہوتی ، اگر اس سے زیادہ سخت سز ہوسکتی ہے تو وہ دیتے ۔
چنانچہ اس طرح یہ قانون پاس ہوا اس قانون کے نفاذ کے بعد یہ معاملہ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آگیا ۔ جس کیلئے محمد اسماعیل قریشی نے مرکزی کردار ادا کیا ۔یہ ساری کوشش و کاوش اس قانون کی بحالی اور نفاذ کیلئے کی گئی جو من جانب اللہ ہے کسی انسان کا بنایا ہوا نہیں ۔ اللہ تعالی کا فیصلہ یہی ہے ‘‘قتلوا تقتیلا ’’کی سز ا موت ہی ہے ۔
یہی قانون چودہ سو سال سے امت مسلمہ میں موجود ہے اور قیامت تک یہی رہے گا ، جو اقلیتوں کیلئے نہیں تمام گستاخوں کیلئے ہے ۔
باقی رہی اقلیتوں کے تحفظ کی بات ، تو بلاشبہ ریاست کا بنیادی فریضہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ لیکن ملکی قوانین کا احترام اور ان کی پابندی سب کیلئے ہے اس اعتراض کی حقیقت مختلف عدالتوں میں درج مقدمات سے بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ 1988 کے بعد قائم کئے مقدمات میں سے 480 کا تعلق مسلمانوں سے 340 کا احمدیوں سے ، صرف 119 کا تعلق عیسائیوں سے ، 14 ہندوؤں اور 12 کا دیگر مسالک سے ۔ ان مقدمات میں کسی کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی ۔ عدالتیں تو قانون کے تقاضے پورے کرتی ہیں جبکہ نام نہاد سیکولر لابی اور اقلیتوں کے چیمپئن ہر ملزم کو مظلوم بنا کر ایک طوفان کھڑا کردیتے ہیں ۔
3 ۔ تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ قانون توہین رسالت انسانی حقوق کے منافی ہے ؟
جواب : عام طور پر یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے آرٹیکل ،2،3،4،9،18،19،کو بنیاد بنا کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ توہین رسالت کا قانون ایک امتیازی قانون ہے اور یہ ایک مخصوص مذہب کے تحفظ سے متعلق ہے ، حالانکہ اسی ڈیکلریشن میں کچھ بنیادی اصول دئیے گئے ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آزادی کا یہ حق غیر مشروط اور مطلق نہیں ہے بلکہ اس کی حدود وقیود کا تعین بھی ساتھ ہی کردیا گیا ہے ۔
پہلا اصول ہی یہ بتایا گیا کہ یہ قوانین آفاقی اور عالمگیر ہیں یعنی ہر جگہ اور ہر شخص پر ان کا اطلاق ہوگا ۔ اس لیے ‘‘Rights are universal’’کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے :
‘‘Meaning that rights apply to every one whoever or where that person is ’’ سوال یہ ہے کہ آیا آزادی رائے کا یہ حق غیر مشروط ہے یا آزادی کے علمبرداروں نے خود ہی اس حق کو محدود اور مشروط کیا ہے ؟ اس کا جواب اسی ڈیکلریشن میں موجود ہے :‘‘It is closely related to other rights and may be limited when conflicting other rights ’’اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو آزادی رائے کا حق ہر جگہ مطلق (absloute ) اور غیر مشروط نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مغربی ممالک نے مفاد عامہ کے تحت اس پر حدود اور قیود مقرر کی ہیں ۔ یورپ کے بعض ممالک مثلا ڈنمارک ، اسپین ، فن لینڈ ، جرمنی ، یونان ،اٹلی ، ائرلینڈ، ناروے ،آسٹریا وغیرہ میں مذہبی جذبات مجروح کرنے یا توہین پر سخت سزائیں موجود ہیں ۔ اسی طرح توہین مسیح کا قانون مغرب کے بیشتر ممالک میں ہے ۔ یہ قوانین اس بات کا صریں ثبوت ہیں کہ آزادی رائے کا حق غیر مشروط نہیں ہے :
’’Despite the constitution Guarntee of the free speech in the U K legal system have not treated of speech as absolute ‘‘
امریکی دستور کی پہلی ترمیم ہی آزادی رائے کے حق کو مشروط کرنے سے متعلق ہے ۔ اس کے علاوہ وہ وہاں کی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہے :
’’The court decided National Security , justice or personal asfty override freedom of speech ‘‘یہ سب آزادی اظہار رائے پر وہ قد غنیں ہیں جو مغرب کے نام نہاد مہذب ممالک میں نہ صرف کتاب قانون کی زینت ہیں بلکہ ان کی خلاف ورزی کی صورت میں متعدد محقیقن ، اہل علم ، صحافیوں اور سیاسی شخصیات کو سزائیں ہوچکی ہیں اور ان کی اعلیٰ عدلیہ نے ان سزاؤں کے نفاذ کے وقت بھی یہ جواز پیش کیا ہے کہ یہاں اکثریت عیسائیوں کی ہے اور آزادی کا حق غیر مشروط نہیں ہے ۔
لیکن وہاں حقوق انسانی کے کسی علمبردار ادارے یا ملک نے ان کی رہائی کیلئے نہ احتجاج کیا اور نہ انہیں سیاسی پناہ دی ۔ نہ کسی نے اسے کالا قانون یا غیر مہذب قانون قرار دے کر ملزم کو عدالتی عمل سے نکالنے کی کوشش کی ، کیونکہ مہذب معاشروں میں حق شہرت یا حق عزت پامال کرنے کو انسانی حقوق کے منافی تصور نہیں کیا جاتا ، اس کے برعکس یہاں انسانی حقوق کے نام پر ایک طوفان برپا ہے اور یورپی یونین بھی اس کے ہم آواز ہے ۔
دوہرے معیار کیوں ؟ ایک جلیل القدر پیغمبر ﷺ کی توہین کو اپنا حق قرار دینے پر کیوں اصرار ہے ؟ دراصل معاملہ اظہار رائے کی آزادی کا نہیں ، اصل مقصد مسلمانوں سے روح محمد ﷺ نکالنے کا ہے ۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی امریکہ اور یورپ میں پذیرائی اور ان کے تحفظ کیلئے وسائل صرف کرنا اور انہیں ہیرو بناکر ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرنا اس کا واضح ثبوت ہے ۔
4 ۔چھوتا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ سراپا شفقت ورحمت تھے ، آپ ﷺ نے اپنے دشمنوں کو معاف کردیا ،کبھی سزا نہیں دی تو ہمیں بھی معاف کردینا چاہیے ؟
جواب :نبی کریم ﷺ اپنے حقوق کو خود تو معاف کرسکتے ہیں لیکن کسی دوسرے کو کیا حق حاصل ہے کہ نبی کریم ﷺ کا حق معاف کرتا پھرے ۔ آپ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی معافی کا حق ساقط ہوگیا ۔ صدر ہو یا وزیر اعظم یا کوئی اور کسی کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ معافی دے ۔ تعجب ہے کہ گستاخی رسول اللہ ﷺ کی ہوتی ہے اور معافی دینے کیلئے کوئی دوسرا کھڑا ہوجاتا ہے ۔ کیا رسول اللہ ﷺ نے امت کے کسی شخص ، قوم یا ادارے کویہ اختیار دیا تھا کہ میرے گستاخ کو تم معافی دے دینا ؟ بالکل نہیں ۔ یہ بات بھی درست نہیں کہ آپ ﷺ کے گستاخ دشمن کو کبھی کوئی سزا نہیں ملی ، بلکہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں گستاخوں کو قتل کی سزادی گئی ہے ۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہیں کہ :
‘‘أن رسول الله صلى الله عليه و سلم دخل عام الفتح وعلى رأسه المغفر فلما نزعه جاء رجل فقال إن ابن خطل متعلق بأستار الكعبة فقال ( اقتلوه ) ’’
ترجمہ : انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ کے سر پر ‘‘خود’’ تھا جس وقت آپ ﷺ نے ‘‘خود ’’ اتارا تو ایک شخص نے آکر خبر دی کہ ابن خطل (گستاخ رسول ) کعبۃ اللہ کے پردوں سے لٹک رہا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘اس کو قتل کرو ’’
توہین رسالت اتنا سنگین جرم ہے کہ ایسے مجرم کو حرم میں بھی پناہ نہیں مل سکتی ۔ آپﷺ نے گستاخوں کے خلاف اعلان جنگ و قتال تو مکی دور میں طواف کعبہ کےدوران کردیا تھا ۔‘‘ تَسْمعوِن يا معشر قريش، أمّا والذي نفْس محمَّد بيده، لقد جئتُكم بالذبْح ’’
ترجمہ: ‘‘ اے قریش کے لوگوں ! کیا تم سنتے نہیں ، اس رب کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ، میں تمہیں ذبح کرنے کیلئے آیا ہوں ۔’’
اعلان مکہ کا نفاذ مدینہ کے میدانوں میں ہوا چشم فلک نے دیکھا کہ بدر کے میدان مقتل میں گستاخ کی گردنیں کٹ گئیں اور ان کی لاشوں کو بدر کے بد بودار کنویں میں پھینک دیا گیا ۔ گستاخوں کو فرضیت جہاد سے قبل چھوڑا گیا اور ان سے درگزر کیا گیا ، مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرضیت جہاد کا حکم آگیا تو پھر صرف ان کی سرکوبی ہی کی گئی ہے ، معافی نہیں دی گئی ۔
5 :ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں آج تک توہین رسالت کے مرتکب کسی شخص کو سزائے موت کیوں نہیں ہوئی ؟ آج تک پاکستان میں کسی چور کا ہاتھ اور کسی زانی کو سنگسار کیوں نہیں ہوا ؟
جواب : توہین رسالت کے مجرم کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے توہین رسالت کا دائرہ وسیع اور گستاخوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ فیصلہ تو صادر ہوجاتا ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا ، عمل درآمد نہ ہونے کا ایک سبب تو ایمانی کمزوری اور دوسرا اغٖیار کا ڈر اور خوف ہے ۔ مغرب سے ملنے والے قرضے کی بندش کو ٖڈر ، مراعات کے چھن جانے ، کرسی اور اقتدار کے چلے جانے کا خوف ، یہ تمام تر خوف دل سے نکال کر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے حدود اللہ کا نفاذ کرنے کی ضرورت ہے ، جب تک قانون توہین رسالت پر عمل درآمد نہیں ہوگا اس وقت تک بدامنی بے چینی برقرارا رہے گی جو ملک وملت اور معاشرے کیلئے بہتر نہیں ۔
چور کا ہاتھ نہ کاٹنے اور زانی کو سنگسار نہ کرنے کے برے ثمرات اور خوف ناک نتائج ہمار آنکھوں کے سامنے ہیں ، دن بدن چوری چکاری ، زنا وبد کاری میں اضافہ ہورہا ہے ، نہ کسی کا مال محفوظ ہے اور نہ عزت وجان ، چادر وچاردیواری کا تقدس بھی باقی نہیں رہا ۔ مسلماں دوسرے مسلمان کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے جو خلاف شریعت ہے ۔ ابو موسی اشعریؓ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے آپﷺ سے سوال کیا : أَيُّ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ’’مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ، وَيَدِهِ ‘‘
ترجمہ :‘‘اے اللہ کے رسول ﷺ ! کون سا مسلمان افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔’’
مسلمان ہاتھ اور زبان کو غلط استعمال نہ کریں ۔ لیکن حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مال وجان ، عزت وآبرو ، چادر وچاردیواری کا تحفظ کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب مجرموں پر حدود اللہ کو نافذ کرتے ہوئے ان کو سزائیں دی جائیں گی ۔ اگر یہ ظلم نہ اٹھایا گیا تو پھر ظلم وجبر ، چوری چکاری اور بد کاری کا بازار گرم رہے گا اور گستاخان رسول بے لگام ہو کر سرکشیاں کرتے نظر آئیں گے ۔ اگر حکومت ابتدا ہی سے سزائیں نافذ کرتی تو جرائم کے پھیلاؤ کی یہ کیفیت نہ ہوتی اور ہمارا ملک ومعاشرہ آج مثالی نظرآتا ۔
اللہ تعالی ہمیں رسول اکرم ﷺ کی صحیح پیروی کرنے کی توفیق عطا ء فرمائیں ، اور ناموس رسالت کے تحفظ کیلئے اپنی جان اور مال قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔آمین ۔
خلاصہ
توہین رسالت لغت میں کسی شخص کی تحقیر کرنا اور اصطلاح میں نبی کریم ﷺ کو گالی دینا ، یا تکذیب کرنا ، یا عیب لگانا ، یا آپ ﷺ کی شان میں کمی کرنا وغیرہ کو کہا جاتا ہے ۔
توہین رسالت کے الفاظ وہ ہیں جسے عرف میں توہین آمیز کلمہ تصور کیا جاتا ہے ، جس میں کسی بھی ذریعہ سے حضورﷺ کی توہین وتنقیص کا پہلو نکلتا ہے ۔
احناف کے نزدیک مسلمان اگر اس جرم کا ارتکاب کرے تو مرتد ہو جائے گا اور غیر مسلم پر اس کے اثرات الگ ہونگے ۔
ذمی اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو احناف کے نزدیک اس کے اس فعل سے اس کا عقد نہیں ٹوٹتا ،شوافع ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک عقد ذمہ ٹوٹ جاتا ہے اور واجب القتل ہے ۔
حد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے اور جو شارع کی طرف سے مقررشدہ نہ وہ تعزیر ہے ۔
توہین رسالت کے مرتکب کیلئے سزائے موت بطور حد ہے ،لہذا اگر کوئی گستاخ توبہ بھی کرلے تب بھی اس کے توبہ کرنے کی وجہ سے اس کی سزائے موت ختم نہیں ہو گی کیونکہ حد ود توبہ سے معاف نہیں ہوسکتی ۔
جمہور ائمہ فقہاء کا مسلک ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کی توبہ کسی بھی صورت میں قبول نہیں اور واجب القتل ہے ۔
اکثر شوافع اور بعض احناف کا مسلک ہے کہ گستاخ رسول کی سزا حدا قتل ہے اگر قبل الاخذ تائب ہو جائے تو سزا ساقط ہوجائے گی ۔
پاکستان کا موجودہ قانون یہ ہے کہ ‘‘جو کوئی عمدا زبانی یا تحریری طور پر یا بطور طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ یا بلاواسطہ اشارۃ یا کنایۃ نام محمد کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے وہ سزائے موت یا سزائے عمر قید کا مستوجب ہوگا اور اسے سزائے جرمانہ بھی دی جائے گی ۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ یہ ہے کہ :‘‘جو کوئی شخص دانستہ کوئی ایسا کلام یا ایسی حرکت کرے گا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ آنحضرت ﷺْ کی شان کے بارے میں اہانت آمیز ہو، یا اہانت کی طرف مائل ہو ،یا سوء ادبی ظاہر کرتی ہو ، مستوجب سزائے موت ہوگا’’۔
سفارشات
تحفظ ناموس رسالت ہمارے ایمان کا جز ہے اور ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ناموس رسالت کے خلاف ہونے والے سازشوں کو روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں ۔
ہر روز نبی کریم ﷺ کی شان میں کسی نہ کسی طریقے سے گستاخی کی جارہی ہے ، آخر کا ر یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ، اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت ہے ۔
فقہ اکیڈمیوں کو بھی اپنی آراء پیش کرنی چاہیے ، تاکہ آیندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے
قانون توہین رسالت پر سختی سے عمل کرنا چاہیے اور ایسے بد بخت لوگوں کو تختہ دار پر لٹکانا چاہیے تاکہ آیندہ ایسا کوئی بد بخت اس جرم کا ارتکاب ہی نہ کرے ۔
یہ موضوع بہت اہم ہے مختلف اداروں کو اس موضوع پر سمینار کرانی چاہیے ۔ تاکہ لوگوں کو نبی کریم ﷺ کے مقام اور اس کے خلاف ہو نے والے سازشوں کا علم ہو جائے ۔
حکومت وقت کو یہ مسئلہ سنجیدہ لینا چاہیے اور قانون پر پوری طور پر عمل کرنا چاہیے تاکہ کسی عاشق رسول ﷺ کو قانو ن اپنے ہاتھوں میں لینا نہ پڑے ۔
عدالتوں کو کسی بیرونی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں فیصلے صادر کرنے چاہیے ۔