مقدمہ
الحمد لله الذي خلق السموات والأرض، وجعل الظلمات والنور ثم الذين كفروا بربهم يعدلون والصلاة والسلام على عبد الله ورسوله محمد صلى الله عليه وسلم، الذي أرسله الله على حين فترة من الرسل أمابعد :
اسلام ایک فطری دین ہے اس نے ہر چیز کا ایک فطری طریقہ کار بھی بتایا ہے اسی طرح انسانی نسل کی بقا کے لیے بھی ایک فطری طریقہ بتادیا ہے جو کہ دوسری ساری مخلوقات سے مختلف ہے اور ﴿ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ﴾ (ترجمہ: اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے ہیں ، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔) اس قانون کے تحت اللہ تعالٰی نے مرد اور عورت کو بھی جوڑا بناکر بھیجاجو حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام سے لیکر تا قیامت آخری انسان تک یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا اور اس سلسلہ کو جاری وساری رکھنے کے ایک فطری طریقہ کار بھی بتا دیا کس طرح اس نسل انسانی کو فطری طریقے سے جاری وساری رکھو اور اس پیدائش کے بعد اس کے اس دنیا میں آنے کا مقصد بھی واضح اپنے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے بتادیا اور امت محمدیﷺ کو بھی اپنے پیغمبر پر وحی کرکے اس کے ذریعے سے مقصد کی نشاندہی کردی کہ ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اورکام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں ) اور جب اللہ تعالٰی انسان کو جب اس دنیا میں بھیج رہا تھا تو فرشتوں نے سوال کیا کہ آپ ایسی مخلوق کو پیدا کر رہے ہیں جو دنیا میں جاکر خون خرابا کرے گی تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ ﴿قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴾ (میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ) اور اللہ تعالی جب انسان کو اس دنیا اپنے خلیفے کی حیثیت سے بھیج رہا تھا تو اسے ایک واضح مقصد اور مشن کے ساتھ بھیجا اور وہ ہے بندگی ، اللہ تعالی اور اس کے نبی کریم ﷺ نے زندگی کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں انسان کی رہنمائی نہ کی ہو اور اگر انسان زندگی کے ہر شعبے میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلے تو یہ سب اس کی بندگی میں شمار ہوتے ہیں تو اس بندگی کاایک جز نکاح بھی ہے جس سے مرد اور عورت اپنی خواہشات شرعی اور فطری طریقے سے پوری کرسکتے ہیں جس کو نبی کریم ﷺ نے صدقہ سے تعبیر کیا ہے اوراسی نکاح سےانسانی نسل کی بقاء کا تصور قائم کیا ہےاور چونکہ شارع نے نسل انسانی کا تسلسل اور بقاء کو مقاصد شرعیہ میں بھی شامل کیا ہے اور بتایا کہ حفظ نسل بھی مقاصد شرعیہ میں سے ایک مقصد ہے اور یہ فطری اور شرعی طریقے نکاح ہی سے ممکن ہے اور نکاح پر ابھارنے کے لیے قرآن میں بہت ساری آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں مثلا قرآن میں ہے کہ ﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ (ترجمہ :اور تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں ) کا اس وقت نکاح نہ ہو ، ان کابھی نکاح کراؤ ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں ، ان کا بھی ۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تواللہ اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کردے گا ۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے ، سب کچھ جانتا ہے ۔) اور اسی طرح دوسری آیت میں اللہ تعالی اپنے رسل کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ﴿وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ ﴾)ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ ہم تم سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں اور انہیں بیوی بچے بھی عطا فرمائے ہیں ، اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ کوئی ایک آیت بھی اللہ کے حکم کے بغیر لاسکے ۔ ہر زمانے کے لیے الگ کتاب دی گئی ہے ۔)
اوراللہ تعالی نے اپنے بندوں کی صفت بیان کی ہے جو اپنی دعاؤں میں صالح عورت اور اولاد کا سوال کرتے ہیں ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴾ (ترجمہ:اور جو (دعا کرتے ہوئے ) کہتے ہیں کہ : ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیز گاروں کا سربراہ بنادے ۔)
اور نبی کریم ﷺ نے بھی بہت سارے مقامات پر نکاح کی ترغیب دی ہے جس طرح فرمایا کہ : ‘‘قَالَ: «مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ » ‘‘ (نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘ تم میں جسے بھی نکاح کرنے کی مالی طاقت ہواسے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو نیچے رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔)
اور اسی طرح بخاری کی اور روایت میں آیا ہے کہ :
‘‘جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا، فَقَالُوا: وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلاَ أُفْطِرُ، وَقَالَ آخَرُ: أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: «أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي »’’
(ترجمہ: تین حضرات (علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہم ) نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں نبی کریمﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا بنی کریمﷺ سے کیا مقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کرونگا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی بھی ناغہ نہیں کرونگا ، تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لونگا اور کبھی نکاح نہیں کرونگا ۔ پھر نبی کریمﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ، میں تم سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ۔ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ : «مَنْ قَدَرَ عَلَى أَنْ يَنْكِحَ، فَلَمْ يَنْكِحْ فَلَيْسَ مِنَّا » (جو نکاح کی طاقت رکھتے ہوئے بھی نکاح نہیں کرتا وہ ہم سے نہیں )
اور اسی طرح ایک اور جگہ پر نبی کریم ﷺ نے نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا کہ : «انْكِحُوا النِّسَاءَ فَإِنَّهُنَّ يَأْتِينَكُمْ بِالْمَالِ » (عورتوں سے نکاح کرو پھر بیشک وہ آپ کے پاس مال لیکر آئیں گی )
انسانی معاشرے میں سب سے اہم سوال مرد وزَن کے باہمی فرائض وحقوق اور تعلقات کاہے۔ کیونکہ انسان کو دو صنفوں میں پیدا کیا گیا ہے، اوران تعلقات میں توازن اوراعتدال دونوں کا باہمی ارتباط اور ضابطہ ونظام کیا ہونا چاہیے؛جس پر انسانی زندگی کے بنیادی پہلوؤں کا انحصار ہو۔ اسلام کا عظیم احسان یہ بھی ہے کہ اس اہم ترین مسئلہ پر وہ ایک بڑا معتدل ومتوازن نظام پیش کرتا ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر ہر دو صنفیں سکون واطمینان کے ساتھ حیاتِ مستعار کے ایام گزار سکتے اوردنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی سے سرفراز ہوسکتے ہیں۔ آج مغربی اقوام میں یہی سوال بنیادی معاشرتی اہمیت بھی اختیار کر گیا ہے کہ بہت سے مغربی ممالک نے ہم جنس پرست کی شادی اور تعلقات کی اجازت دے دی ہے اور اس بنیادی مسئلہ پرہی وہ فطرتِ انسانی سے انحراف کربیٹھے ہیں۔وہ بے چارے اتنی بنیادی رہنمائی سے ہی محروم ہیں۔
چونکہ خاندان ایک معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک پر امن و سکون خاندان بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس سےشوہر اور بیوی کی خوشگوار ازدواجی زندگی مطلوب و مقصودہے اور اسی شرعی اور فطری طریقے کے لیے شریعت اسلامی نے بڑی تفصیل کے ساتھ قوانین بیان کیے ہیں، اور بالفرض میاں بیوی میں نباہ کرنا مشکل یا ناممکن ہوجائے تو اس کے بھی اسلام نے بڑے متوازن حل بتائے ہیں۔ ان احکام کی بہت سی تفصیلات ہیں جن سے قرآن کریم اور احادیثِ مبارکہ ہمیں آگاہ کرتی ہیں۔اسلام نے نکاح کے سلسلے میں مرد اور عورت دونوں کی رضامندی اور حقوق کا برابر طور پر خیال رکھا ہے۔ کوئی ایسا نکاح ، جس میں مرد وعورت کی رضامندی یکساں طور پر شامل نہ ہو، شریعتِ اسلامیہ اس کی بالکل گنجائش نہیں دیتی بلکہ عورت کے مستقبل میں ازدواجی حقوق کی نگہداشت کے لیے نکاح میں اس کے خاندان کو بھی اہم ایک کردارتفویض کیا گیا ہےاور یہ حقیقت ہے کہ جن خواتین کے نکاح میں اُن کے خاندان کی سرپرستی اور بعد ازاں دلچسپی ونگرانی برقرار رہتی ہے، وہ عورتیں زیادہ بہتر طور پر اپنے ازدواجی حقوق کا تحفظ کرسکتی ہیں۔
اوراسلام نے جس طرح نکاح کے لیےقونین اور اصول وضع کیے ہیں اسی طرح خدانخواستہ اگر کسی بھی وجہ سے شوہر اور بیوی میں نباہ کرنا مشکل ہوجائے تو اسلام اس تفریق زوجین کو سخت ناپسندقرار دینےکے باوجود اس کے موزوں طریقے بھی پیش کرتا ہے۔اگر یہ دونوں کی رضامندی سے ہو تو اسے مبارات اور اگر مرد نکاح کو ختم کرنا چاہے تو شریعتِ اسلامیہ نے اُس کے لیے طلاق کا حق دیا ہے لیکن ساتھ ساتھ شوہر کو یہ بھی بتا دیا گیا کہ حلا ل چیزوں میں ناپسند ترین چیز طلاق ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : «أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ » (حلال چیزوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کو غصہ دلانے والی چیز طلاق ہے )۔
اور اگر عورت کا کسی وجہ سے نباہ کرنا مشکل ہوجائے تو جبراور غیریّت کے اس سلسلے کو طول دینے کی بجائے اللّٰہ تعالیٰ نے عورت کو خُلع کا حق دیا ہے۔ لیکن بیوی کو ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کسی وجہ کے بغیر شوہر سے خلع کا مطالبہ کرنے والی جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گی۔
اور اسی طرح حاکم اور قاضی اور میاں بیوی کے رشتہ داروں کوکہا کہ اگر کبھی میاں بیوی میں نا چاقی ہوجائے تو اس کو حتی الامکان دور کرنے کی کوشش کرنے کی کوشش کرو چنانچہ قرآن میں فرمایا کہ : ﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا ﴾ (اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے ) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرمادے گا ۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے ۔)
ان تمام احتیاطی اقدامات کے باوجود اگر آپس میں اللّٰہ کی حدود کو قائم رکھنا مشکل ہوجائے تو پھر طلاق وخلع کا راستہ دکھا دیا۔مرد کے ہاتھ میں نکاح کا بندھن دے کر، اسے عورت سے ایک درجہ بلند کردیا [جس بندھن کے تقدس کی حفاظت کی تلقین نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوادع میں فرمائی ] اور عورت کو جذباتی مزاج ہونے کے ناطے ، صرف طلاق بول دینے؍ مانگ لینے کی بجائے ، اس امر کا پابند بنایا کہ وہ شوہر کو حق مہر واپس کرکےاس سے علیحدگی حاصل کرسکتی ہے، اور اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو عورت قاضی سے رجوع کرکےاپنا حق خلع حاصل کرسکتی ہے۔گویا زوجین کو مل جل کر رہنا چاہیے تاہم دونوں کا نباہ مشکل ہوجائے تو ہردو کے لیے علیحدگی کا نظام موجود ہے، مرد کے لیے قدرے آسان اور عورت کے لیے کچھ تفصیل کے ساتھ ، تاہم یہ حق ہردو کے لیے شریعت ثابت وقائم رکھتی ہے!!
طلاق کو اللہ تعالیٰ نے مرد کے ہاتھ میں رکھا ہے، اور زوجین میں افتراق کی اکثر وبیشتر صورتیں مرد کے اس اختیار کے ذریعے ہی پوری ہوتی ہیں۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے حق خُلع دیا ہے جو وہ خود حق مہر/فدیہ کی پیش کش کرکے شوہر سے لے سکتی ہے۔ تاہم بعض ناگزیر صورتوں میں قاضی کو چاہیے کہ ملک میں مروجہ قانون کے تحت فریقین کے درمیان مصالحت کرنے کی کوشش کرے لیکن خاتون اگر کسی صورت میں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں اور قاضی کے پاس خلع کی ڈگری جاری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار بھی نہیں تو قاضی خلع کی ڈگری جاری کرسکتا ہے لیکن قاضی کے لیے بہتر یہ ہے خلع کی ڈگری جاری کرنے میں تأخیر کرے ہوسکتا ہے خاتون اپنے میاں سے رہنے کے لیے تیار ہوجائے اور ایک خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے۔
بنیادی سوال:
ملک میں مروجہ عائلی قوانین میں عدالتی خلع اور شریعت میں موجود خلع کے طریقہ کار میں شوہر کی رضامندی ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر ہاں تو کس حد تک ضروری ہے اگر نہیں تو کیوں ضروری نہیں ؟
منہج ِتحقیق:
اس تحقیق کا منہج جائزہ ہوگا یعنی فقہ اسلامی میں خلع اور عدالتی خلع کا ایک جائزہ ۔
خاکہ تحقیق:
یہ مقالہ مقدمہ ، تین ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ہے ۔ پہلے باب کی پہلی فصل میں خلع کی تعریف ،دوسری فصل خلع کی مشروعیت، تیسری فصل خلع کی ضرورت اور حکمت اور دوسرےباب کی پہلی فصل میں ناپسندیدگی اگر بیوی کی طرف سے ہو تو کیا خلع کا کیا حکم ہے ؟ اور دوسری فصل ناپسندیدگی اگر شوہر کی طرف سے ہو تو کیا حکم ہے؟ اورتیسری فصل اگرناچاقی دونوں کی طرف سے ہو تو خلع کا کیا حکم ہے ؟ اور چوتھی فصل اگر شوہر خلع پر راضی نہ ہو تو خلع کا کیا حکم ہے ؟ اور پانچویں فصل عدالتی خلع کا طریقہ کار کے بارے میں ہے ۔ باب سوم کی پہلی فصل میں علما کرام کی آراء ، دوسری فصل میں مختلف مراکز فتاوٰی کے فتاوٰی کے متعلق ہے ۔
سابقہ کام کا جائزہ:
اس موضو ع پر بکھرا مواد بہت ساری کتب میں پایا جاتا ہے اس مقالے لکھنے کا مقصد ان بکھرے مواد کو یکجا کرنا اور پھر ان کا آپس میں تقابل کرنا ہے اس موضوع کا کچھ مواد ان ان کتابوں میں ذکر ہے الاسرۃ المسلمۃ ، فقہ الاسرۃ ، رسالة في جواز خلع القاضي للزوجة ببعض المهر عند حدوث الشقائق بين الزوجين،أحكام الخلع واشتراط رضا الزوج فيه،: أحكام الخلع،الفرق بين الفسخ والطلاق،موانع فسخ العقد الفاسد في الشريعة الإسلامية دراسة مقارنة بقانون الأحوال الشخصية الأردني والقانون المدني ، احکام خلع ، عدالتی تفریق ،حقوق الزوجین،اسلام میں خلع کی حقیقت،گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء ، بندش بچگانہ شادی ایکٹ 1990ء ، قانون انفساخ ازدواج مسلمانان1939 ء ، مسلم فیملی لاء آرڈی ننس 1961ء ، مسلم عائلی قوانین آرڈی ننس 1961ء کے قواعد ، مصالحتی عدالتوں کا آرڈی ننس 1961ء، نفاذ شریعت کا قانون 1962ء، مغربی پاکستان فیملی کورٹس ایکٹ 1964ء ، مغربی پاکستان فیملی کورٹس رولز 1965ء۔
باب اول: خلع کی تعریف اور مشروعیت
: خلع کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:
خلع کی لغوی تعریف
خلع لغت میں خاء کی زبر کے ساتھ آتا ہے اور بہت ساری معنوں میں استعمال ہوتا ہے مثلا: خلع: خَلَعَ الشيءَ يَخْلَعُه خَلْعاً واختَلَعه: كنَزَعه إِلا أَنَّ فِي الخَلْعِ مُهْلة، وسَوَّى بَعْضُهُمْ بَيْنَ الخَلْع والنَّزْعِ. وخلَعَ النعلَ والثوبَ والرِّداءَ يَخْلَعُه خَلْعاً: جَرَّده.
خلع کی معنی اتارنے کے ہیں مثلا کوئی کہتا ہے کہ خلعت النعل یعنی میں نے جوتے اتارے ۔
اور جس طرح قرآن مجید میں آیا ہے کہ : إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (اے موسٰی (علیہ السلام) میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے ۔ تو وادی مقدس طوی میں ہے ۔)
والخِلْعةُ مِنَ الثِّيَابِ: مَا خَلَعْتَه فَطَرَحْتَه عَلَى آخَرَ أَو لَمْ تَطْرَحْه. وكلُّ ثَوْبٍ تَخْلَعُه عَنْكَ خِلْعةٌ؛ وخَلَع عَلَيْهِ خِلْعةً .
وَفِي حَدِيثِ كَعْبٍ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتي أَن أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ»
اور خِلْعةُ مِنَ الثِّيَابِ کپڑوں سے عاری ہونا یعنی جن کپڑوں کو آپ اتارکر پھینک دیں یا نہ پھینکیں یعنی آپ کپڑوں کو اپنے آپ سے الگ کردیں ۔ جس طرح حضرت کعب رضی اللہ عنہ والی حدیث میں أَنْخَلِعَ آیا ہے کہ : حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے میں خیرات کرتا ہوں ۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ‘‘نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو ۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے ۔’’
حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا سارا مال اپنے آپ سے الگ کرکے صدقہ کر دیتا ہوں جس طرح انسان کپڑوں کو الگ اپنے آپ سے الگ کرکے ننگا ہوجاتا ہے ۔ فقہ میں جو خلع ہے وہ بھی اسی معنٰی میں استعمال ہوتا ہے لیکن وہ عرفا ہے اور وہ خاء کے زبر کے ساتھ آتا ہے ۔
اور خلع کو بھی خلع اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ عورت مال دے کر شوہر سے علیحدگی اختیار کرتی ہے اور خلع کواس لیے بھی خلع کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے بیویوں کو شوہروں کے لیے لباس بنایا ہے اور شوہروں کو ان کے لیے جس طرح کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ‘‘هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُم لِبَاسٌ لَّهُنَّ’’ (ترجمہ: وہ تمارے لیے لباس اور تم ان کے لیے لباس ہو)تو شوہر جب طلاق دیتا ہے تو گویہ وہ اپنے لباس(بیوی) کو اپنے آپ سے الگ کرتا ہے اور عورت اگر خلع لیتی ہوتو گویا وہ بھی اپنے
لباس (شوہر) کو اپنے آپ سے الگ کرتی ہے ۔ ۔
خلع کی اصطلاحی تعریف:
ائمہ اربعہ کے ہاں خلع کی تعریف
• احناف کے ہاں خلع کی اصطلاحی تعریف:
صاحب مختار نے خلع کی تعریف اس طرح کی ہے وَهُوَ أَنْ تَفْتَدِيَ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا بِمَالٍ لِيَخْلَعَهَا بِهِ، فَإِذَا فَعَلَا لَزِمَهَا الْمَالُ وَوَقَعَتْ تَطْلِيقَةٌ بَائِنَةٌ ۔ (عورت مال دے کر اپنے آپ کو شوہر کے نکاح سے اپنے آپ کو آزاد کرے اگر دونوں نے اس طرح کردیا تو اب عورت پر مال لازم ہوگا اور ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی)۔
ابن نجیمؒ نے خلع کی تعریف اس طرح کی ہے کہ: إزَالَةُ مِلْكِ النِّكَاحِ الْمُتَوَقِّفَةِ عَلَى قَبُولِهَا بِلَفْظِ الْخُلْعِ أَوْ فِي مَعْنَاهُ (نکاح کو خلع یا اس جیسے الفاظ سے ختم کرنا جو بیوی کے قبول کرنے پر موقوف ہو )
‘‘مِلْكِ النِّكَاحِ’’ یہ لفظ بیان کرکے اس سے نکاح فاسد ، طلاق بائن اور اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی مرتد ہوجائے اور اس کے بعد خلع کرنا چاہیں تو خلع نہیں ہوگا۔
’’ الْمُتَوَقِّفَةِ عَلَى قَبُولِهَا‘‘ یہ لفظ بیان کرکے اس سے یہ نکل جائے گا مثلا اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو کہے کہ : خالعتک میں نے آپ سے خلع کیا اگر اس نے اس سے مراد طلاق لی تو طلاق بائنہ ہوجائے گی کیوں کہ یہ لفظ کنایہ ہے اور کنایہ میں اگر مراد طلاق لی جائے تو وہ طلاق بائنہ شمار ہوتی ہے ۔
’’بِلَفْظِ الْخُلْعِ‘‘ لفظ خلع بیان کرکےاس سے طلاق علی المال نکل جائے گا ۔
‘‘أَوْ فِي مَعْنَاه ’’ یہ الفاظ تعریف میں شامل کرکے یہ بتانا مقصود ہے کہ خلع یا خلع کے ہم معنی الفاظ اگر استعمال کیے ہیں تو اس سے خلع واقع ہوجائے گا مثلا : مبارأۃ ، مفارقۃ اور مباینۃ ان جیسے الفاظ سے بھی خلع ہوجائے گا ۔
یہ تعریف اس بات کا بھی فائدہ دیتی ہے کہ طلاق رجعی میں بھی خلع ہوسکتا ہے کیونکہ عورت ابھی تک ملک نکاح میں ہے ۔ اگر ملک نکاح سے نکل جائے یعنی طلاق بائن دے دی تو اب اس صورت میں اب خلع واقع نہیں ہوگا ۔
اور صحیح اور راجح تعریف جو ابن ہمامؒ نے کی ہے وہ یہ ہے ۔ إزَالَةُ مِلْكِ النِّكَاحِ بِبَدَلٍ بِلَفْظِ الْخُلْعِ (کچھ مال لیکر اور اس کے بدلے میں نکاح کو لفظِ خلع کے ساتھ ختم کرنے کو خلع کہا جاتا ہے)
• مالکیہ کے ہاں خلع کی اصطلاحی تعریف:
امام دردیر نے خلع کی تعریف اس طرح کی ہے (وَهُوَ الطَّلَاقُ بِعِوَضٍ أَوْ بِلَفْظِهِ) (وہ طلاق جو عوض کے بدلے میں ہو یا خلع اور اس کے ہم معنی الفاظ کے ساتھ ہو )
تعریف میں جو ‘‘الطلاق ’’ کا لفظ کہا ہے تو اس مراد طلاق چاہے صریح الفاظ کے ساتھ ہویا کنائی الفاظ کے ساتھ خلع ہوجائے گا ۔
‘‘بِعِوَضٍ’’ یعنی وہ طلاق مال کے بدلے میں ہو۔
‘‘بِلَفْظِهِ’’ چاہے وہ خلع کے لفظ کے ساتھ ہویا اس لفظ کے ہم معنی لفظ ہو اس سے بھی خلع ہوجائےگا ۔
ان کی اس تعریف سے یہ پتہ چلتا ہے ان کے ہاں طلاق علی المال اور خلع میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
• شوافع کے ہاں خلع کی اصطلاحی تعریف:
(هُوَ فُرْقَةٌ بِعِوَضٍ مَقْصُودٍ بِلَفْظِ طَلَاقٍ أَوْ خُلْعٍ) (ایسی جدائی جو کسی عوض کے بدلے میں ہو لفظِ طلاق کے ساتھ یا خلع کے ساتھ )
• حنابلہ کے ہاں خلع کی اصطلاحی تعریف:
(وَهُوَ فِرَاقُ) الزَّوْجِ (امْرَأَتَهُ بِعِوَضٍ يَأْخُذُهُ الزَّوْجُ) مِنْ امْرَأَتِهِ أَوْ غَيْرِهَا (بِأَلْفَاظٍ مَخْصُوصَةٍ ) (شوہر کا اپنی بیوی سے یا کسی اور سے مال لے کر الفاظِ مخصوصہ کے ساتھ الگ ہونے کا نام خلع ہے ۔)
حنابلہ کی اس تعریف میں ایک تو یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے مال لیکر یا کسی اور سے مال لے اور پھر اپنی بیوی کو مخصوص الفاظ سے جدا کرے ادھر مخصوص الفاظ سے مراد دو الفاظ ہیں ۔
۱۔ صریح : جیسے خلع: مثلا یہ الفاظ کہے خَالَعْتُكَ؛ لِأَنَّهُ ثَبَتَ لَهُ الْعُرْفُ میں نے آپ سے خلع کیا کیوں کہ یہی عرف سے ثابت ہے ،
الْمُفَادَاةُ؛ لِأَنَّهُ وَرَدَ بِهِ الْقُرْآنُ، بِقَوْلِهِ سُبْحَانَهُ: {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229] ۔ مفادأۃ یعنی عورت فدیہ دے کر اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار کرے اور شوہر اس طرح کے الفاظ استعمال کرے
فسخ :وَفَسَخْت نِكَاحَك؛ ۔ یا شوہر فسخ کا لفظ استعمال کرے اور یہ کہے کہ میں نے آپ سے نکاح فسخ کردیا ۔
اگر شوہر نے اس طرح کے الفاظ استعمال کیے تو اب شوہر سے اس کی نیت معلوم کرنے کی ضرورت نہیں خلع ہوجائے گا اور ان کے درمیان خلع ہوجائے گا ۔
۲۔ کنایہ : مثلا: بَارَأْتُك، وَأَبْرَأْتُك، وَأَبَنْتُك اگر اس طرح کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس سے اس کی نیت پوچھی جائے گی اگر اس کی نیت طلاق کی ہوگی تو طلاق واقع ہوجائے گی اگر اس سے خلع کا ارادہ کیا ہے تب خلع واقع ہوجائے گا۔
اور ان کی اس تعریف سے پتہ چلتا ہے کہ خلع عوض کے علاوہ نہیں ہوتا اور یہی روایۃ امام احمد بن حنبل سے روایت ہے ۔اور ان کے ہاں خلع اور طلاق علی مال میں فرق ہے ۔
فصل ثانی : خلع کی مشروعیت
اگر زوجین میں نزاع اور عدم موافقت ہوجائے تو اس حالت میں خلع جائز ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ لوگوں کو اس کی حاجت پڑتی رہتی ہے اکثر علماء کی یہی رائے ہے ، کیونکہ عورت اپنے شوہر پر ناراض اور ناپسند کرتی ہے اور اس سے رہنا پسند نہیں کرتی اسکی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں کبھی کبھار شوہر کے جسم میں کسی عیب کی وجہ سے اور کبھی اس کے بداخلاقی کی وجہ سے اور کبھی شوہرکی بڑی عمر ہونے کی وجہ سے اور کبھی اس کے کمزور جسم کی وجہ سے اسے ناپسند کرتی ہے اور وہ عورت اللہ کےحقوق نہیں ادا کر پا رہی اور شوہر اس کو طلاق بھی نہیں دے رہا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ خلع کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ اس خلع کو قبول کرے اور اگر شوہر کی طرف سے زیادتی ہے اور تو علماء کہتے ہیں کہ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ فدیہ میں مال لے پھر عورت سے خلع کرے اور عورت کو زیادہ مال دینے پر بھی زور اور زبردستی نہ کرے ۔
خلع کی مشروعیت قرآن سے :
- الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
ترجمہ: طلاق دو بار ہے ۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے ان کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو،البتہ یہ صور ت مستثنٰی ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ، یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ حدود الہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔
خلع کی مشروعیت حدیث سے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْبَلِ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً»
(حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی ۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو ادا نہیں ادا کرسکتی ) اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ باغ قبول کرلو اور انہیں طلاق دے دو۔)
عن عائشة: أن حبيبةَ بنتَ سهل كانت عند ثابت بن قيس بن شمَّاس فضربها، فكسر بعضَها، فأتت رسولَ اللهِ – صلَّى الله عليه وسلم – بعدَ الصُّبْحِ فاشتكته إليه، فدعا النبي – صلَّى الله عليه وسلم – ثابتاً فقال: “خُذْ بَعْضَ مالِها وفارِقها” فقال: ويَصْلُح ذلك يا رسولَ الله؟ قال “نعم” قال: فإني أصدقتُها حديقَتْينِ وهما بيدها، فقال النبي – صلَّى الله عليه وسلم -: “خُذْهما وفَارِقْها” ففعل
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حبیبہ بنت قیس بن شماس ؓ کے نکاح میں تھی ۔ ثابت نے انہیں مارا اور ان کاکوئی عضو ٹوٹ گیا ۔ حبیبہ بنت سہلؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ثابتؓ کی اس بارے میں شکایت کی۔ آپ ﷺ نے ثابتؓ کو بلایا اور فرمایا کہ ‘‘ حبیبہ سے کچھ مال لے کر اسے چھوڑ دو ’’ ثابتؓ نے کہا کہ : ‘‘ اے اللہ کے رسول ﷺ یہ صحیح ہوگا’’ آپﷺ نے فرمایا ہاں ۔ انہوں نے کہا: یارسول اللہﷺ میں نے انہیں دو باغ دیے ہیں اور وہ اس پاس ہی ہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ‘‘ ان باغوں کو لے لو اور اس سے علیحدگی اختیار کرلو’’ پھر اس نے ایسا ہی کیا ۔
وَشَذَّ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَيْنِيُّ عَنِ الْجُمْهُورِ، فَقَالَ: لَا يَحِلُّ لِلزَّوْجِ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ زَوْجَتِهِ شَيْئًا، وَاسْتَدَلَّ عَلَى ذَلِكَ بِأَنَّهُ زَعَمَ أَنَّ قَوْله تَعَالَى: {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ } مَنْسُوخٌ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا } الْآيَةَ. وَالْجُمْهُورُ عَلَى أَنَّ مَعْنَى ذَلِكَ بِغَيْرِ رِضَاهَا، وَأَمَّا بِرِضَاهَا فَجَائِزٌ .
اور ابو بکر بن عبداللہ المزنی نے جمہور سے الگ رائے اختیار کی ہے اور کہا ہے کہ ‘‘ شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے کچھ لے اور انہوں نے استدلال اس سے کیاہے کہ یہ آیت {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} منسوخ ہے اس آیت سے {وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا} اور جمہور کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ہے کہ جب بیوی کی اس میں رضامندی نہ ہو اگر کی راضی ہےتو یہ جائز ہے ۔
عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ،أَنَّ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ ثَابِتَ بْنَ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ ضَرَبَ امْرَأَتَهُ فَكَسَرَ يَدَهَا، وَهِيَ جَمِيلَةُ بِنْتُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ، فَأَتَى أَخُوهَا يَشْتَكِيهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى ثَابِتٍ فَقَالَ لَهُ: «خُذِ الَّذِي لَهَا عَلَيْكَ وَخَلِّ سَبِيلَهَا»، قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَرَبَّصَ حَيْضَةً وَاحِدَةً، فَتَلْحَقَ بِأَهْلِهَا ۔
حضرت یحی بن ابی کثیر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے محمد بن عبدالرحمن نے خبر دی اس کو ربیع بنت معوذ بن عفراء نے خبر دی کہ : بیشک ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو مارا اور (ایسی مار ماری کہ ) کہ اس کا ہاتھ (ہی) توڑ دیا ۔ عورت عبداللہ بن ابی کی بیٹی جمیلہ تھی ، اس کا بھائی اس کی شکایت لےکر رسول ﷺ کے پاس آیا ، رسول ﷺ نے ثابت بن قیس کو بلا بھیجا (جب وہ آئے تو) آپ ﷺ نے ان سے فرمایا ‘‘ جو تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو ’’ انہوں نے کہا : اچھا ، پھر رسول ﷺ نے اسے (یعنی عورت جمیلہ کو ) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۔
خلع کی مشروعیت اجماع سے :
ابن قدامہ مغنی میں فرماتے ہیں کہ : تمام امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خلع جائز ہے سوائے بکرابن عبداللہ المزنی کے وہ اس کو جائز قرار نہیں دیتے اور ابن سیرین ، ابو قلابۃ نے شرط لگائی ہے کہ خلع جائز نہیں سوائے اس کے کہ عورت نے زنا کیا ہو۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے : وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ (اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اس مہر کا کچھ حصہ لے اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو۔ ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کی مرتکب ہوں(تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے )۔
اور اسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا اجماع ہے اور یہی قول حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے کیونکہ ہم نے ان کے دور میں اس کے خلاف کوئی فیصلہ ان کے دور خلافت میں نہیں سنا تو لہذا گویا اس بات پر اجماع ہوگیا ۔
تعامل خلفاء راشدین
حضرت عمررضی اللہ عنہ کےدور خلافت میں ایک عورت اور مرد کا مقدمہ پیش ہوا عورت نے کہا کہ : میں اس مرد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی توحضرت عمر رضی اللہ عنہ عورت کو سمجھا یا کہ آپ شوہر کے پاس ہی رہو تو اس عورت نے انکار کردیا ۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو کوڑا کرکٹ سے بھری کوٹھڑی میں بند کردیا اور تین دن بند رکھنے کے بعد اسے نکال کر پھر پوچھا کہ : اب کیا چاہتی ہو اس کے ساتھ رہوگی یا نہیں ؟ تو اس نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے ان اندھیری راتوں اور کوڑا کرکٹ میں بھری کوٹھڑی میں راحت نصیب ہوئی ہے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کےشوہر کو حکم دیا کہ ‘‘اخلعھا ویحک ولو من قرطھا’’ اس کو خلع دے دے خواہ وہ اس کے کان کے بالیوں کےعوض ہی میں ہو۔
اور اس طرح کا ایک اور واقعہ ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملتا ہے کہ : ربیع بنت معوذ بن عضراء نے اپنے شوہر سے کہا کہ میری ساری ملکیت لے لیں لیکن مجھے خلع دے دیں لیکن اس کے شوہر نے انکار کردیا پھر یہ معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو حکم دیا کہ اس کے چوٹی کے موباف تک لےلے اور اسکو خلع دے دے ۔
فصل ثالث : خلع کی ضرورت اورحکمت:
جس طرح شریعت نے مرد کو طلاق (Divorce) دیا ہے اسی طرح عورت کے لیے خلع کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔ خلع یہ کہ عورت مرد کو کچھ مال دے کر یا مرد کے ذمہ اس کا جو کچھ باقی ہے اس کو معاف کرکے بدلہ میں طلاق حاصل کر لے اور اس طلاق کے لیے خلع کا لفظ استعمال کرے تو اس وجہ سے یہ طلاق بائن (Divorce of Etachment) واقع ہوجاتی ہے ۔
ابن رشد اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : وَالْفِقْهُ أَنَّ الْفِدَاءَ إِنَّمَا جُعِلَ لِلْمَرْأَةِ فِي مُقَابَلَةِ مَا بِيَدِ الرَّجُلِ مِنَ الطَّلَاقِ، فَإِنَّهُ لَمَّا جُعِلَ الطَّلَاقُ بِيَدِ الرَّجُلِ إِذَا فَرَكَ الْمَرْأَةَ، جُعِلَ الْخُلْعُ بِيَدِ الْمَرْأَةِ إِذَا فَرَكَتِ الرَّجُلَ. (فداء (خلع) عورت کے اختیار میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے ، چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے اور جب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شریعت نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے ۔)
خلع شریعت میں ایک ناپسندیدہ چیز قرار دی گئی ہےاس لیے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کی وجہ سے خاندان کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے بال بچوں کی پرورش اس طرح نہیں ہوپاتی جس طرح ہونی چاہیے ، اکثر اوقات ان کو باپ کی شفقت یا ماں کی ممتا میں سے کسی ایک سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنا چاہیے اوراس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ عین ممکن ہے کہ اس ظاہری شر میں اللہ تعالی نے کوئی اور خیر اور بھلائی رکھی ہو۔
اور جو عورت اس طرح کرتی اس کے بارے میں حدیث میں ہے کہ : “عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: “أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ ” (جس عورت نے کسی خاص اور ضروری سبب کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبوحرام ہوگی ۔
اس لیے بیوی کا بلا ضرورت اور معمولی شکایتوں ، چھوٹی چھوٹی باتوں یا محض تجدید لذت اور نیا مزہ چکھنے کی خاطر شوہر سے طلاق کا مطالبہ سخت گناہ ہے ۔ اسی طرح ایسی چیزوں پر خلع کا مطالبہ جو شرعا جائز ہیں نہایت نا مناسب اور نا پسندیدہ ہے مثلا ہمارے ہاں عام طور شوہر کی دوسری شادی کرلینے کی وجہ سے عورتیں طلاق کا مطالبہ کرنے لگتی ہیں حالانکہ یہ دوسری شادی اس کی طرف سے ظلم اور ناانصافی کا باعث نہ بنے تو جائز اور درست ہے اور اس پر طلاق کا مطالبہ غلط ہے ۔
باب دوم : خلع کے مختلف اسباب جن بنیاد پر مختلف شرعی اور ملکی قوانین کی روشنی میں احکام مرتب ہوتے ہیں۔
فصل اول : اگر ناپسندیدگی بیوی کی طرف سے ہو اور وہ خلع لے رہی ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟
مفسرین آیۃ خلع کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خلع عورت کا حق ہے اگر اپنے نکاح کے عقد کو ختم کرنا چاہ رہی ہو تو فدیہ دے کر ختم کرسکتی ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ : وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ (ترجمہ : ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو،البتہ یہ صور ت مستثنٰی ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ۔)
اس آیت میں ‘‘یخافا’’ اور ‘‘یقیما’’ دونوں ضمیر تثنیہ ہے یہ ضمیر یا تو زوجین کی طرف لوٹتی ہے یا حکمین کی طرف ۔ اور لفظ ‘‘جناح’’ کا پھر کیا مطلب ہوگا کیا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اگر شقاق دونوں کی طرف سے ہو تو کیا شوہر کا خلع کے بدلے میں کچھ لینا درست ہوگا ؟ صرف عورت کی طرف سے نہ ہو؟
امام ابو جعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ‘‘اگر عورت شوہر کی مطیعہ اور اس سے راضی ہو تو شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس کو خوامخواہ مجبور کرے کہ وہ کچھ فدیہ دے کر خلع کرے اور اگر اس کے بدلے اگر اس کے شوہر نے اس کے بدلے میں کچھ لے لیا تو اب یہ اس شوہر کے لیے یہ مال حرام ہے اور اگر نافرمانی ، بغض اور ظلم اس عورت کی طرف سے ہے تو اب شوہر کے لیے جائز ہے کہ اس سے مال لے اگر وہ مال کے بدلے میں خلع لے رہی ہو ’’
اور امام ابوجعفر الطبری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات عقل اور نقل دونوں کے موافق ہے کیونکہ کتاب وسنت نے شوہر کے لیے یہ جائز قراردیا ہے کہ وہ اپنا دیا ہوا مہر یا اس سے کچھ زائد(اگر عورت زائد دینے پر راضی ہو) لے اگر عورت اس نکاح عقد کو خلع کےذریعے ختم اور توڑنے کا اراد ہ رکھتی ہواور تحقیق یہ بات بخاری شریف کی حدیث سے بھی ہمیں معلوم ہوتی ہے عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِينٍ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الكُفْرَ فِي الإِسْلاَمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، »
(حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی ۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو ادا نہیں ادا کرسکتی ) اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا)
واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔)
تو اس حدیث سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر عورت جدائی کا مطالبہ کرے تو یہ جدائی اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک وہ عورت لوٹادے جو اس کواس کے مرد نے دیا تھا اور یہی قول سلف وخلف کےعام اہل علم کا قول ہے کہ : شوہر کا خلع کے بدلے میں مال لینا جائز ہے اگر غلطی عورت کی طرف سے ہو اور وہ ہی اس جدا ہونا چاہتی ہو ۔
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : ‘‘وَالْجُمْهُورُ عَلَى أَنَّ أَخْذَ الْفِدْيَةِ عَلَى الطَّلَاقِ جَائِزٌ. وَأَجْمَعُوا عَلَى تَحْظِيرِ أَخْذِ مَا لَهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ النُّشُوزُ وَفَسَادُ الْعِشْرَةِ مِنْ قِبَلِهَا ’’جمہور یہ فرماتے ہیں کہ طلاق پر فدیہ لینا جائز ہے اور اس بات پر اجماع ہے کہ عورت سے مال لینا درست نہیں سوائے اس صورت میں کہ نادانی اور عقد کو ختم کرنے میں اس کا ہاتھ ہو تو اس صورت میں اس طلاق کے بدلے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
اور امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ : ‘‘ ائمہ سلف وخلف کے بہت سارے علماء کا قول یہی ہے کہ خلع جائز ہی نہیں ہے سوائے اس صورت میں کہ نشوز عورت کی طرف سے ہو تو اس وقت شوہر کے لیے فدیہ لینا جائز ہے اور ان کی دلیل اللہ تعالی کا یہ قول ہے : ‘‘{وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا [إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ] }’’ اور ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ جمہور علماء کا اجماع بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ‘‘فَلَمْ يَشْرَعِ الْخُلْعَ إِلَّا فِي هَذِهِ الْحَالَةِ، فَلَا يَجُوزُ فِي غَيْرِهَا إِلَّا بِدَلِيلٍ،وَالْأَصْلُ عَدَمُه’’ اور خلع جائز نہیں ہے سوائے اس حالت میں اور اس کے علاوہ کی صورت میں جائز نہیں الا یہ کوئی واضح دلیل آجائے اور اصل اس میں عدم ہے ۔اور یہی قول ابن عباس ، طاؤس ،ابراہیم، عطاء ، حسن اور جمہور کا ہے ’’۔
فصل ثانی: ناپسندیدگی شوہر کی طرف سے ہو تب خلع کا حکم
خلع اصل میں ہوتا ہی اسی وقت ہے جب عورت اپنے شوہر سے الگ ہونا چاہتی ہو اور وہ طلاق نہ دے رہا ہو تب عورت مال کا فدیہ دے کر شوہر سے جان چھڑا سکتی ہے اور اگر شوہر اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرنا چاہ رہا ہے تو اس کو شریعت نے طلاق کا حق دیا ہے کہ وہ طلاق دے دے اور اگر وہ طلاق نہیں دے رہا اور بیوی کو خلع پر مجبور کر رہا ہے تو اس صورت میں اگر عورت خلع کر بھی لے تو اب یہ مال جو خلع میں اس کو ملا ہے شوہر کا اس مال کو لینا شرعا درست نہیں ہے ۔
جیسا امام ابن جریر الطبری اپنی سند کے ساتھ حضرت ربیع سے روایت کرتے ہیں ‘‘عن الربيع في قوله:” الطلاق مرتان فإمساك بمعروف” إلى قوله:” فلا جناح عليهما فيما افتدت به”. قال: إذا كانت المرأة راضية مغتبطة مطيعة، فلا يحل له أن يضربها، حتى تفتدي منه. فإن أخذ منها شيئا على ذلك، فما أحذ منها فهو حرام، وإذا كان النشوز والبغض والظلم من قبلها، فقد حل له أن يأخذ منها ما افتدت به .’’
(یعنی عورت اپنے شوہر سے راضی ، خوش،اور مطیعہ ہو تو شوہر کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کی مار پیٹ کر ے تاکہ وہ خلع کرے اور اس سے دیا ہوا مال واپس لے اگر شوہر نے کچھ بھی اگر اس سے لیا تو جو کچھ بھی اس لیا ہے وہ حرام ہے اور نشوز،بغض اور ظلم اس کی طرف سے ہو تو شوہر کے لیے جائز ہے کہ اس سے لے جس کے ذریعے سے عورت خلع کر رہی ہے )
اور امام جصاص فرماتے ہیں : ‘‘قَالَ أَصْحَابُنَا إنَّ النُّشُوزَ إذَا كَانَ مِنْ قِبَلِهِ يُكْرَهُ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ شَيْئًا مِنْ مَهْرِهَا وَإِذَا كَانَ مِنْ قِبَلِهَا فَجَائِزٌ لَهُ ذَلِكَ ’’
(اگر نشوز مرد کی طرف سے (یعنی بیوی کو مار پیٹ کرتا ہو ،اس کو تکلیف دیتا ہو ) ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کے مہر میں سے کچھ لے اور اگر نشوز عورت کی طرف سے ہو تو اس طرح کرنا اس کے لیے جائزہے (یعنی اس سے مہر لیکر اس سے خلع کرلے )
تو گویا امام جصاص رحمۃ اللہ علیہ اور امام طبری رحمۃ اللہ علیہ دونوں کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ مرد کے لیے مال لینا حرام ہے جب نشوز اس کی اپنی طرف سے ہو تو کیا ان دونوں حضرات کے ہاں اس صورت میں صرف مال لینا حرام ہے اورخلع ہوجائے گا ؟ یا خلع بھی اصلا واقع نہیں ہوگا یا صرف طلاق رجعی واقع ہوگی ؟
تو ابن کثیرؒ اپنی تفسیر میں تاکید سے فرماتے ہیں کہ اس طرح کا خلع صحیح نہیں ہوگا کیونکہ دلیل اس کے برخلاف ہے اور اس طرح کی کوئی صورت شریعت سے ثابت بھی نہیں ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ : ‘‘لَا يَجُوزُ الْخُلْعُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الشِّقَاقُ وَالنُّشُوزُ مِنْ جَانِبِ الْمَرْأَةِ، لَمْ يَشْرَعِ الْخُلْعَ إِلَّا فِي هَذِهِ الْحَالَةِ، فَلَا يَجُوزُ فِي غَيْرِهَا إِلَّا بِدَلِيلٍ، وَالْأَصْلُ عَدَمُه ’’
( خلع جائز نہیں ہے سوائے یہ شقاق اور نشوز عورت کی طرف سے ہواور اس حالت کے علاوہ کی صورت میں جائز نہیں الا یہ کوئی واضح دلیل آجائے اور اصل اس میں عدم ہے)
اور کچھ ائمہ نے کہا ہے کہ اگر نشوز عورت کی طرف سے تب شوہر کے لیے اس عورت کو دیا ہوا مہر یا اس مہر سے زیادہ لینا جائز ہے اور اگر وہ عورت اپنا سارا مال بھی دینا چاہے تو جائز ہے اور اگر نشور عورت کی طرف سے نہ ہو توعورت سے مہر لینا تو صحیح ہے البتہ مہر سے زیادہ لینا درست نہیں ہے ۔
جیسا کہ امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – لَوْ اخْتَلَعَتْ بِكُلِّ شَيْءٍ لَأَجَزْتُ ذَلِكَ، وَهَذَا؛ لِأَنَّ جَوَازَ أَخْذِ الْمَالِ هُنَا بِطَرِيقِ الزَّجْرِ لَهَا عَنْ النُّشُوزِ؛ وَلِهَذَا لَا يَحِلُّ إذَا كَانَ النُّشُورُ مِنْ الزَّوْجِ، وَهَذَا لَا يَخْتَصُّ بِمَا سَاقَ إلَيْهَا مِنْ الْمَهْرِ دُونَ غَيْرِهِ.فَأَمَّا فِي الْحُكْمِ الْخُلْعُ صَحِيحٌ
(حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : اگر عورت اپنے پورے مال کے ذریعے خلع کرنا چاہے تو میں اس کو جائز قرار دونگا۔ اور یہ جائز اس لیے قرار دیا جارہا ہے کہ عورت کو تنبیہ ہوجائے اس کے نشوز کرنے کی وجہ سے اور یہ جائز نہیں ہے جب نشوز شوہر کی طرف سےہو ۔ باقی خلع دونوں صورتوں میں جائز ہوجائے گا ۔
صحیح اور حق بات جس کی نصوص بھی تائید کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ : چٹی اس پر ہونی چاہیے جس کی طرف سے نشوز ہو مطلب یہ کہ اگر شوہر کی طرف سے نشوز ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ طلاق دے تو اس وقت عورت سے کچھ بھی نہیں لے اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ‘‘وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا ’’ (اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کرلو تو خواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو ، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا ۔ کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کرکے واپس لوگے ؟)
ہاں اگر نشوز عورت کی طرف سے ہو پھر مہر اور مہر کے علاوہ بھی مال لیا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ اوپر تفصیل گذر چکی ہے ۔
فصل سوم : اگر ناچاقی دونوں طرف سے ہو تو خلع کاکیا حکم ہے ؟
جس طرح کہ پیچھے ہم کہہ چکے ہیں کہ جو بھی علیحدگی کرنے میں پہل کرے گا چٹی اس پر ہوگی اور اسی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نقصان برداشت کرے اور یہی عدل کا تقاضہ ہے جس کی تائید نصوص شرعیہ سے ہوتی ہے یہ تو وہ صورتیں تھی جب یہ معاملہ کوئی ایک کر رہا ہو اور اگر دونوں اس معاملے میں خوش ہوں اور دونوں کا ارادہ ہوکہ ہم نکاح کو ختم کررہے ہیں اس وقت کیا ہوگا کس پر ذمہ داری عائد ہوگی کون چٹی اور نقصان اٹھائے گا ؟ کیا آیت خلع میں یا اس طرح کی دوسری کسی نص میں اس طرح کی کوئی مثال ملتی ہے جس میں اس طرح کی کوئی حالت بیان کی گئی ہو جس پر حکم کا انطباق ہوتاہو؟ یا یہ معاملہ وسیع ہے اور اس پر قیاس کرنا ممکن ہے ؟ جس طرح کہ آیۃ خلع میں ضمیر تثنیہ کے صیغے کے ساتھ ہے ‘‘وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ’’
ترجمہ: تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو،البتہ یہ صور ت مستثنٰی ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ۔
تو اس آیت میں ضمیر تثنیہ آئی ہے ‘‘يَخَافَا’’ اور ‘‘يُقِيمَا’’ یہ زوجین کی طرف لوٹتی ہیں یا حکمین کی طرف لوٹتی ہیں جو بادشاہ یا والی کی طرف سے بھیجے گئے ہوں ۔ اور لفظ ‘‘جناح ’’ کے کیا معنی ہونگی ؟ کیا یہ ضمیر ‘‘علیھما ’’عوض اور بدل کی طرف لوٹے گی یا پورے مسئلے کی طرف اس معنی میں کہ شقاق ان دونوں کی طرف سے ہو نہ کہ صرف عورت کی طرف سے ؟
شیخ المفسرین امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ : ‘‘قال: إذا كانت المرأة راضية مغتبطة مطيعة، فلا يحل له أن يضربها، حتى تفتدي منه. فإن أخذ منها شيئا على ذلك، فما أحذ منها فهو حرام، وإذا كان النشوز والبغض والظلم من قبلها، فقد حل له أن يأخذ منها ما افتدت به ’’ (یعنی عورت اپنے شوہر سے راضی ، خوش،اور مطیعہ ہو تو شوہر کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کی مار پیٹ کر ے تاکہ وہ خلع کرے اور اس سے دیا ہوا مال واپس لے اگر شوہر نے کچھ بھی اگر اس سے لیا تو جو کچھ بھی اس لیا ہے وہ حرام ہے اور نشوز،بغض اور ظلم اس کی طرف سے ہو تو شوہر کے لیے جائز ہے کہ اس سے لے جس کے ذریعے سے عورت خلع کر رہی ہے
یہ بات جو امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے یہ عقل اور نقل دونوں اس پر متفق ہیں کیونکہ کتاب اور سنت نے شوہر کے لیے مباح قرار دیا ہے خلع میں مال لینے کو جب عورت خلع کا ارادہ کرے اور وہ عورت ہی خلع کا مطالبہ کرے تب ۔ اس بات میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے لیکن شقاق اور نشوز دونوں کی طرف سے ہو ایک دوسرے پر ۔ تو کیا اس صورت میں شرعا خلع واقع ہوگا یا نہیں ؟ اور کون کس کو مال دے گا ؟ اس کا جواب بھی امام طبری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی تشریح میں حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا اثر بیان کرتے ہوئے دیا ہے کہ : سعيد بن المسيب، قال: لا يحل الخلع حتى يخافا أن لا يقيما حدود الله في العشرة التي بينهما.
(خلع اس وقت تک حلال نہیں یہاں تک کہ میاں بیوی دونوں کو خوف ہو کہ وہ حدوداللہ کو اپنی زندگی میں نہیں قائم رکھ سکیں گے ۔)
امام ابوجعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ : لا يحل للرجل أخذ الفدية من امرأته على فراقه إياها، حتى يكون خوف معصية الله من كل واحد منهما على نفسه – في تفريطه في الواجب عليه لصاحبه – منهما جميعا، على ما ذكرناه عن طاوس والحسن، ومن قال في ذلك قولهما; لأن الله تعالى ذكره إنما أباح للزوج أخذ الفدية من امرأته، عند خوف المسلمين عليهما أن لا يقيما حدود الله .
(مرد کے لیے حلال نہیں کہ اپنی بیوی سے فدیہ لے جدائی پر یہاں تک کہ دونوں میں سے ہر ایک اپنے اوپر خوف ہو کہ وہ حدواللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے اور معصیت میں پڑجائیں گے یہ امام طاؤس رحمۃ اللہ علیہ اور امام حسن رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے ۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالی نے شوہر کے لیے اپنی بیوی سے فدیہ لینے کو جائز قرار دیا ہے کہ جب مسلمانوں کو خوف ہو کہ یہ دونوں حدود اللہ پر قائم نہیں رہ سکیں گے ۔)
اس سے پتہ چلا کہ اگر نشوز دونوں کی طرف سے ہو اور دونوں کو خوف ہو کہ وہ حدود اللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تب بھی شوہر کے لیے فدیہ لینا اپنی عورت سے جائز ہے۔
اور مذاہب اربعہ ، ظاہریہ ، اور جمہور فقہاء سلف و خلف کا قول یہ ہے کہ خلع اصل میں اسی وقت ہوتا ہے جب نشوز فقط عورت ہی کی طرف سے ہو ۔
امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘السیل الجرار ’’ میں رقمطراز ہیں : ‘‘دل ذلك على ان المخافة لعدم إقامة حدود الله من طريقها كافية في جواز الاختلاع ’’ (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ والی جو حدیث ہے وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حدود اللہ کا قائم نہ رکھا جانا صرف عورت کی طرف سے ہی کافی ہے خلع کے جائز ہونے کےلیے ۔ )
امام ابن جزی المالکی فرماتے ہیں کہ: ‘‘أَن يكون خلع الْمَرْأَة اخْتِيَارا مِنْهَا وحبا فِي فِرَاق الزَّوْج من غير إِكْرَاه وَلَا ضَرَر مِنْهُ بهَا فَإِن انخرم أحد هذَيْن الشَّرْطَيْنِ نفذ الطَّلَاق وَلم ينفذ الْخلْع ’’
( خلع عورت کےاختیار سے ہوتا ہے اور وہ شوہر سے علیحدگی کو پسند کرتی ہو اس پر کسی قسم کا اکراہ اور شوہر کی طرف سے زبردستی بھی نہ ہو پھر اگر ان دونوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی(شوہرنے عورت کو مجبور کیا خلع پر یا اس نے اپنی خوشی سے خلع نہ کیاہو) تو طلاق ہوجائے اور خلع نافذ نہ ہوگا )
اور زیادہ ترجیح بھی اسی بات کو ہوگی کہ خلع اس وقت جائز ہوگا جب نشوز عورت کی طرف سے ہو اور وہ اس سے خلع لینا چاہتی ہو تب خلع ہوگا کیونکہ شوہر کو شریعت نے طلاق کا حق دیا ہے جب اس سے ناراض وغیرہ ہو یا اس کی کسی بات سے ان بن ہوگئی ہو۔اور اگر دونوں کی طرف سے نشوز ہو تب بھی خلع جائز ہوگا مہر کے بدلے میں اور شوہر کا خلع کے بدلے مال لینا جائز ہے عورت سے ۔ کیونکہ آیت کا بھی یہی تقاضہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
فصل رابع : خلع میں شوہر کی رضامندی کی شرط
اس مسئلے میں دو طرح کی آراء پائی جاتی ہیں 1۔ ایک رائے یہ ہے کہ خلع شوہر کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوتا ۔
2۔ دوسری رائے یہ ہے کہ خلع اگر عدالت کروا رہی ہے تو اس میں شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ہے ۔
پہلی رائے رکھنے والوں کے دلائل : قرآن سے
معلوم ہوتا چاہیے کہ پہلا مصدر قرآن ہے اور قرآن کریم میں لفظ خلع اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ لغوی معنی میں آیا ہے اور وہ اتارنے کے مثلا اللہ تعالی کے اس قول میں کہ { إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوىً }. (اے موسٰی (علیہ السلام) میں ہی تیرا رب ہوں ، جوتیاں اتار دے ۔ تو وادی مقدس طوی میں ہے ۔)
اور خلع کے حوالے سے جو قرآن سے استدلال کیا جاتا ہے وہ قرآن مجید کی سورۃ طلاق کی ایک ہی آیت ہے جس میں صراحۃ آیا ہے کہ عورت کے لیے جائز ہے کہ فدیہ دے کر اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرے اور وہ آیت یہ ہے { الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ }
ترجمہ: طلاق دو بار ہے ۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے ان کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو،البتہ یہ صور ت مستثنٰی ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ، یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ حدود الہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔
اور یہ بات واضح ہے کہ خلع طلاق کی ایک قسم ہے اور اس الگ کوئی قسم نہیں ہے کیوں کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے کہ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ( تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے)
آیت کا یہ ٹکڑا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ عورت کے لیے جائز ہے کہ کچھ مال دے کر اپنے شوہر کو طلاق دینے کے لیے راضی کرے ، اس آیت کا ضمنی معنی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ عورت کو چاہیے کہ خلع حاصل کرنے کے لیے شوہر کو کچھ مال دے کر طلاق کے لیے راضی کرے کیوں کہ طلاق کا جو ملکہ ہے وہ شوہر کو حاصل ہے اور قرآن کی بہت ساری آیت اس پر دلالت کرتی ہیں مثال کے طور پر { وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ } )، عزموا:میں جو ضمیر ہے وہ شوہر وں کے لیے ہے نہ کہ بیویوں کے لیے ۔
{ وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ وَلا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلاحاً وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ } اس آیت میں جو وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ہے وہ بھی اسی بات پر دلالت کرتا ہے کہ مردوں کا عورتوں پر درجہ بڑھا ہوا ہے اس آیت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بعض معاملات میں جو اختیارات مرد کو حاصل ہیں وہ عورتوں کو نہیں ہے َ۔
{ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَى الْمُتَّقِينَ }. اس آیت میں المطلقات: آیا ہے جس کی معنی ہے جس کو طلاق دی گئی یہ نہیں آیا کہ جو طلاق دیتی ہیں ۔
اور اس طرح کی بے شمار آیات قرآن مجید میں وارد ہوئی ہیں جوواضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ طلاق دینا مرد کا حق ہے اور اللہ تعالی نے جو مرد کو عورت سے تمتع اور اس کے ساتھ زندگی گذارنے کے لیے نکاح شرعی کے ذریعے اس کے لیے حلال کیا ہے اور طلاق سے یہ ساری چیزیں اس پر حرام کی ہیں جس کا وہ مالک تھا نکاح کے وقت جس پر قرآن کی بہت ساری آیات دلالت کرتی ہیں ۔
اور طلاق کا جو اختیار ہے وہ مرد کے پاس ہے عورت کے پاس طلاق کا کوئی حق نہیں ہے ہاں اگر وہ اپنے شوہر سے الگ ہونا چاہتی ہے آپس میں ان بن کی وجہ سے یا شوہر اس کو نقہ وغیرہ نہیں دے رہا ہے یا عورت کو یہ خدشہ ہے کہ اگر وہ اس شوہر کے پاس رہے گی تو فتنے میں پڑ جائے گی تو اس کے لیے جائز ہے کہ اپنے شوہر کو مال دے کر راضی کرے کہ وہ اپنے حق (طلاق) کو چھوڑ دے اور اس کو طلاق دے دے اگر وہ اس میں راضی ہو ۔
خلع اور طلاق میں کوئی فرق اور اختلاف نہیں سوائے اس ایک جزئیے کہ خلع میں عورت اپنے شوہر کو کچھ مال دے کر راضی کرتی ہے کہ وہ اس کو طلاق دے دے اور طلاق میں اس میں اس طرح نہیں ہے اگر شوہر نے طلاق دے دی تو اب چاہے اس کی بیوی راضی ہو یا نہ ہو اور طلاق کو قبول کرے یا رد کرے طلا ق واقع ہوجائے گی اور خلع میں شوہر کی رضامندی ضروری ہے اگر مال کے عوض دے رہا تو طلاق واقع ہوجائے گی اگر راضی نہیں تو طلاق نہیں ہوگی ۔
اور معتبر مفسرین میں سے کسی نے بھی ایسے نہیں کہا کہ خلع صرف خالصتا عورت کا حق ہے اور مرد کا اس میں کسی قسم کا حق نہیں ہے کیونکہ آیت خلع واضح اور صریح ہے اور اس میں کسی قسم کی تأویل کی گنجائش نہیں ہے ۔
ابھی ہم آیت خلع کا جائزہ لیتے ہیں کہ مفسرین کرام نے کس طرح اس آیت تشریح اور توضیح کی ہے ۔
آية الخلع { الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا، وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ، فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ } .
{ وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا } یعنی حلال نہیں کہ شوہروں ، ائمہ اور حکام کے لیے ۔ یہاں پہلے خطاب شوہروں سے ہے اور دوسرا ائمہ اور حکام کے لیے اور اس حکم میں ائمہ اور حکام کو بھی داخل کیا کیوں کہ وہ مال لینے اور دینے کا حکم کرتے ہیں جب ان کے پاس کو فیصلہ آتا ہے تو گویا وہ لینے اور دینے والے بن گئے ۔
{ مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً } : امام زمخشري رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ‘‘أي مما أعطيتموهنّ من الصدقات’’(یعنی جو کچھ آپ نے ان کو مہور میں سے دیا ہے اس میں سے کو بھی چیز آپ کے لیے لینا جائز نہیں ہے ۔ )
اور ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ : ‘‘تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم عورتوں کو تنگ کرکے ان کو دیا ہوا پورا مہر یا مہر کا کچھ حصہ لو جس طرح کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ : { وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَة } [تمہارے لیے یہ حلال نہیں کہ انہیں تنگ کرکے اس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشسش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ۔ ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کی مرتکب ہوں) (تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے ) ] اور اگر عورت اپنی خوشی سے آپ کو کوئی چیز ہبہ کرتی ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ : { فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْساً فَكُلُوهُ هَنِيئاً مَرِيئا } اور باقی جب ان کے درمیان کوئی ان بن ہوجائےاور عورت اپنے شوہر کے حقوق پورا نہ کر ہی ہو اور اس کو ناپسند کرتی ہواور اس کے ساتھ مزید رہنے کی طاقت نہ رکھتی ہو تو اس کے لیے ہے کہ جو شوہر نے اس کو مہر دیا تھا اس کے بدلے میں خلع حاصل کرے اور یہ مہر اور فدیہ اس کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور شوہر کے لیے اس کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اور امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں کہ : ‘‘ومعنى الآية: أن المرأة إذا خافت أن تعصي الله في أمر زوجها لبغضها إياه، وخاف الزوج أن يعتدي عليها لامتناعها عن طاعته جاز له أن يأخذ منها الفدية، إذا طلبت ذلك.’’اس آیت سے مراد جب عورت کو خوف ہو اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کر پارہی ہو اور اس سے شدید نفرت ہو اور شوہر کو بھی خوف ہو کہ اس پر زیادتی ہو رہی ہےاس اطاعت نہ کرنے کی وجہ سے تو شوہر کے لیے جائز ہے کہ اس سے فدیہ لے جب وہ خلع کے لیے اس کہے ۔
اس آیت کی تشریح میں بہت سارے مفسرین کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں تاکہ کوئی وہم کرنے والا یہ وہم نہ کرے کہ خلع میں شوہر کی رضامندی ضروری نہیں ہے صرف عورت کا حق ہے خلع میں ۔ اور ان تقریبا مفسرین کا کلام بھی اس کے اردگرد گھومتا ہے کہ عورت کو اگر شوہر کو پسند نہیں کرتی تو اس کو چاہیے کہ وہ مال دیکر اپنے شوہر کو خلع پر راضی کرے تاکہ وہ خلع پر راضی ہوکر اسے طلاق دے دے مال کے بدلے میں ۔
بلکہ ان میں سے بعض علماء نے تو صراحۃ یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اس مسئلے میں تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ اس مسئلے میں مرد کا حق ساقط نہیں ہوتا جس طرح کہ محمد علی سایس نے اپنی تفسیر تفسير آيات الأحكام میں لکھتے ہیں کہ : ‘‘إن جميع الفقهاء يرون أنه لا يجبر الرجل على قبول الخلع ’’ (تمام فقہاء کی یہی رائے ہے کہ شوہر کو خلع قبول کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا ۔)
پہلی رائے رکھنے والوں کے دلائل : حدیث سے
اور حضور ﷺ کے دور نبوی سے بھی ہمیں اس کا ثبوت ملتا ہے اور احادیث ملتی ہیں خلع کے بارے میں اس کا واضح ثبوت حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ اس کی بیویوں نے حضور ﷺ سے درخواست کی ہم حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو حضورﷺ نے ان میں سے ہر ایک کو کہا کہ اس کو مہر لوٹا دو گی جو اس نے تمہیں مہر میں دیا تھا تو انہوں نے کہا : ہاں ۔ اور ان میں سے ہر ایک کا خلع لینے کا سبب دوسری سے جدا تھا سوائے ایک سبب کے اور وہ سبب بدصورتی تھی کہ سب اسے بد صورت ہونے کی وجہ سے نا پسند کرتی تھیں ۔
اور یہ قصہ بہت ساری کتب احادیث میں بیان کی گئی ہیں کچھ میں احادیث تفصیل کے ساتھ ہیں اور کچھ میں اختصار کے ساتھ اور جس کو تفصیل کے ساتھ قصہ کے ہر پہلو کا مطالعہ درکار ہے وہ کتب احادیث کا کی طرف رجوع کرے ہم یہاں صرف جو مختلف روایات میں مختلف الفاظ آئے ہیں وہ شراح حدیث کی تشریح کے ساتھ بیان کریں گے تاکہ جو اس کے سمجھنے میں جو اشکا ل ہے وہ ختم ہوجائے۔
بخاری ، نسائی ، طبرانی میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ‘‘أن امرأةً ثابت ابن قيس – رضي الله عنه – أتت النبي – صلى الله عليه وسلم – فقالت: (يا رسول الله ثابت بن قيس ما أعتب عليه في خلق ولا دين ولكنّي أكره الكفر في الإسلام، فقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: أتردين عليه حديقته، قالت: نعم، قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: اقبل الحديقة وطلِّقها تطليقة ’’
(حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی ۔ (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو ادا نہیں ادا کرسکتی ) اس پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کرسکتی ہو ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ باغ قبول کرلو اور انہیں طلاق دے دو۔)
(أكره الكفر في الإسلام): ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یہ بات کہنا چاہتی ہے کہ میں اگر ان کے پاس رہی تو میں کفر میں پڑ جانے کا خدشہ ہے ۔
اور ایک اور روایت میں آیا ہے کہ : (إلا أني أخاف الكفر) (مجھے کفر میں پڑ جانے کا خوف ہے ۔)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : گویا یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اس سے سخت نفرت کا اظہار کررہی ہے تاکہ کسی طرح بھی اس کا نکاح اس سے فسخ ہوجائے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ شوہر کی نافرمانی کرنا حرام ہے اور اگر وہ مزید اس کے ساتھ رہی گی تو ہوسکتا ہے نافرمانی اور کفران ہوجائے اس لیے اس نے جلد ہی خلع کا مطالبہ کرلیا ۔
(وما أعتب عليه في خلق ولا دين)کی معنی کہ میں اس سے نہ ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن بعض روایات میں آیا ہے کہ اس نے اس کا ہاتھ توڑا تھا تو اس کو اس پر محمل کیا جائے گا کہ اس نے اس سے اس کا بدخلق ہونے کا ارادہ کیا تھا کہ وہ بدخلق ہے لیکن اس نے اس کو دوسری چیز کے ساتھ عیب لگایا ۔اور وہ تھا بدصورت تھا جس طرح امام احمد ، بزار اور طبرانی نے حضرت عبداللہ ابن عمرو اور سھل بن ابی خثمہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ : كَانَتْ حَبِيبَةُ ابْنَةُ سَهْلٍ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ الْأَنْصَارِيِّ فَكَرِهَتْهُ، وَكَانَ رَجُلًا دَمِيمًا، فَجَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي لَا أَرَاهُ فَلَوْلَا مَخَافَةُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لَبَزَقْتُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ الَّتِي أَصْدَقَكِ؟ ” قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَرَدَّتْ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ خُلْعٍ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ ۔ ( حبیبہ بنت سھل ثابت بن سھل رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی اور وہ اسے ناپسند کرتی تھی اور وہ صورت کا اچھا نہ تھا وہ حضور ﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ : اے اللہ کے رسول ﷺ اگر مجھے اللہ تعالی کی نافرمانی کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس کے منہ پر تھوک دیتی ۔ تو حضور ﷺ نے اس سے فرمایا کہ : کیا آپ اس کو اس کا باغ لوٹاؤ گی جو اس نے آپکو مہر میں دیا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ : ‘‘ہاں ’’ پھر اس نے اس کو اس کا باغ واپس کردیا اور حضور ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کردی ۔ راوی فرماتے ہیں کہ یہ اسلام میں پہلا خلع تھا۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ : (أول خلع كان في الإسلام امرأة ثابت بن قيس أتت النبي – صلى الله عليه وسلم – يا رسول الله لا يجتمع رأسي ورأس ثابت أبداً، إنّي رفعت جانب الخباء فرأيته أقبل في عدّة، فإذا هو أشدّهم سواداً، وأقصرهم قامة، وأقبحهم وجهاً، فقال: أتردِّين عليه حديقته، قالت: نعم وإن شاء زدته، ففرق بينهما .
(اسلام میں پہلا خلع خلع ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کا جو حضور ﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں اور ثابت آپس میں ساتھ کبھی بھی نہیں رہ سکتے کیونکہ جب میں نے اپنا گھونگھٹ اٹھایا تو وہ چند آدمیوں کے ساتھ آرہا تھا ، میں نے دیکھا وہ ان میں سے سب سے کالا ، سب سے چھوٹے قد والا اور سب سے زیادہ بد صورت تھا ۔تو آپ ﷺ نے ان سے کہا کہ آپ اس کو اس کاباغ واپس کروگی ، تو اس نے کہا : ہاں اگر چاہے تو زیادہ بھی دونگی ، تو آپ ﷺ نے ان کے درمیان تفریق کردی ۔)
اور احادیث میں جو (اقبل حديقتها وطلِّقها تطليقةً)، وفي رواية: (فردَّتها وأمره يطلِّقَها)، وفي رواية: (فردَّت عليه وأمره ففارقَها)، وفي رواية: (خذ منها، فأخذ منها) ، وفي رواية: (خذ منها ذلك احسبه، قال: وطلِّقها) ، یہ سارے الفاظ جو حکم
پر دلالت کرتے ہیں یہ نصیحت تھی حضور ﷺ کی ثابت قیس رضی اللہ عنہ کو کیونکہ حضورﷺ کو جب اس چیز کا معلوم ہوا کہ یہ عورتیں اب اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو افضل یہی ہے کہ اس سے دے دلا کر اس کو طلاق دے دی جائے اور حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو جب حضور ﷺ نے کہا تو اس نے فورا طلاق دی کیونکہ وہ تو صحابی رسولﷺ ہیں حضور ﷺ کسی بات کا کہیں اور وہ صحابی نہ کرے یہ ناممکن ہے۔
اس کی یہ معنی نہیں کہ خلع میں حضورﷺ نے شوہر کا کوئی عمل دخل نہیں رکھا ہے صرف عورت مال دے اور خلع لے لے چاہے شوہر کی رضامندی ہو یا نہ ہو ۔ یہ بات کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ معتمد شراح حدیث ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جو حضور ﷺ کا حکم تھا وہ اس کو صلاح ، مشورہ ، اور بطور نصیحت کے تھا ۔
قال ابن حجر العسقلاني: (هو أمر إرشاد وإصلاح لا إيجاب ). (ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ : حضور ﷺ کا حکم بطور ارشاد اور اصلاح کے تھا وجوبی نہ تھا ٌ)
وقال القسطلاني: (هو أمر إرشاد وإصلاح لا إيجاب ). (امام قسطلانی فرماتے ہیں کہ : حضور ﷺ کا حکم بطور ارشاد اور اصلاح کے تھا وجوبی نہ تھا ٌ)
وقال أيضاً: (ولم يكن أمره – صلى الله عليه وسلم – بفراقها أمر إيجاب وإلزام بالطلاق، بل أمر إرشاد إلى ما هو الأصوب ). (اور مزید فرمایا کہ حضورﷺ کا جدائی اور طلاق کا حکم ایجابی نہ تھا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حکم ارشادی تھا ۔ )
وقال بدر الدين العيني: (الأمر فيه للإرشاد والاستصلاح لا للإيجاب والإلزام ). (اور علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اس حدیث میں جو حکم ہے وہ ارشاد اور اصلاح کے لیے ہے ایجابی اور الزامی نہیں ہے)
اور دوسرا یہ کہ کچھ روایتوں میں اجمال اور اختصار ہے اور کچھ روایتوں میں یہاں تک آیا ہے کہ حضور ﷺ نے جب یہ معاملہ ہوا (قیس بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بیویاں حضورﷺ کے پاس آئیں) تو حضور ﷺ نے باتیں سن کر اور فیصلہ سنایا پھر حضرت قیس بن ثابت رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے بھی فیصلہ کرنے والے کی لاج رکھتے ہوئے اس فیصلے کو سر خم تسلیم کر لیا ، اور اسی میں
اپنی خیرو صلاح پائی ، اس بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ خلع میں شوہر کا بھی کچھ حصہ ہوتا ہے یعنی اس سے پوچھنا اور اس کی رضامندی کو بھی دیکھا
جاتا ہے ۔
اور اس طرح کی روایات احادیث کی دوسری کتب میں ملتی ہیں مثال کے طور مصنف عبدالرزاق میں ہےکہ ‘‘أَنَّ ثَابِتَ بْنَ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ كَانَتْ عِنْدَهُ ابْنَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلُولٍ، وَكَانَ أَصْدَقَهَا حَدِيقَةً فَكَرِهَتْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ الَّتِي أَعْطَاكِ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخَذَهَا، وَخَلَّى سَبِيلَهَا، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ ثَابِتَ بْنَ قَيْسٍ قَالَ: قَدْ قَبِلْتُ قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’ ( ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے پاس عبداللہ بن سلول کی بیٹی نکاح میں تھی اور اس کا مہر باغ تھا اور وہ (بیوی) اسے ناپسند کرتی تھی ۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ : ‘‘جو اس نے آپ کو باغ دیا ہے وہ اس کو لوٹاؤ گی ؟ ’’ تو اس نے کہا : ‘‘ہاں’’پھر اس سے وہ باغ لیا اور اس کی راہیں اس سے جدا کردیں ۔ جب یہ بات ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو اس نے کہ میں نے حضور ﷺ کا فیصلہ قبول کرلیا ۔ )
اور اسی طرح دوسری حدیث میں ہے کہ :‘‘ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: قَالَ لِي عَطَاءٌ، أَتَتِ امْرَأَةٌ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي أُبْغِضُ زَوْجِي، وَأُحِبُّ فُرَاقَهُ قَالَ: «فَتَرُدِّينَ إِلَيْهِ حَدِيقَتَهُ الَّتِي أَصْدَقَكِ؟»، وَكَانَ أَصْدَقَهَا حَدِيقَةً قَالَتْ: نَعَمْ، وَزِيَادَةً مِنْ مَالِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا زِيَادَةٌ مِنْ مَالِكَ فَلَا، وَلَكِنِ الْحَدِيقَةَ»، فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَقَضَى بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجُلِ، فَأُخْبِرَ بِقَضَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: قَدْ قَبِلْتُ قَضَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’(ایک عورت حضورﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ : میں اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہوں اور میں اس سے جدائی چاہتی ہوں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : کیا آپ اس کو وہ باغ واپس کرنا چاہتی ہو جو اس نے تمہیں مہر میں دیا تھا ؟ اور اس کا مہر ایک باغ تھا ۔ تو اس عورت نے کہا کہ : ‘‘ہاں اور میرے مال میں سے زیادہ بھی دونگی ’’ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ‘‘آپ کے مال میں سے زیادہ نہ دو صرف باغ دے دو’’ تو اس عورت نے کہا کہ : ‘‘ہاں ٹھیک ہے ’’پھر حضور ﷺ نے فیصلہ کردیا پھر جب مرد کو حضورﷺ کے فیصلے کی خبر دی گئی تو اس نے کہا کہ : ‘‘میں نے حضورﷺ کا فیصلہ قبول کرلیا’’۔
صرف یہ نہیں بلکہ بعض روایات سے تو تفصیل ہے کہ حضورﷺ نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا تاکہ وہ حاضر ہو اور اس سے فرمایا کہ وہ اس کو طلاق دے دے اس کے بدلے میں جو اس نے اس عورت کو دیا ہے تو یہ بات ثابت رضی اللہ عنہ کو عجیب لگی کہ وہ دی ہوئی چیز واپس لے لے ۔ بہر حال حضورﷺ کا فرمان تھا اس لیے اس نے وہ باغ لے لیا اور اس عورت کو طلا ق دے دی ۔ یہ تفصیل ہمیں بیہقی کی روایت سے ملتی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ‘‘أن حبيبة بنت سهل تزوجت ثابت بن قيس بن شماس فأصدقها حديقتين له وكان بينهما اختلاف فضربها حتى بلغ أن كسر يدها فجاءت رسول الله صلى الله عليه و سلم في الفجر فوقفت له حتى خرج عليها فقالت يا رسول الله هذا مقام العائذ من ثابت بن قيس بن شماس قال ومن أنت قالت حبيبة بنت سهل قال ما شأنك تربت يداك قالت ضربني فدعا النبي صلى الله عليه و سلم ثابت بن قيس فذكر ثابت ما بينهما فقال له النبي صلى الله عليه و سلم ماذا أعطيتها قال قطعتين من نخل أو حديقتين قال فهل لك أن تأخذ بعض مالك وتترك لها بعضه قال هل يصلح ذلك يا رسول الله قال نعم فأخذ إحداهما ففارقها ثم تزوجها أبي بن كعب رضي الله عنه بعد ذلك فخرج بها إلى الشام فتوفيت هناك ’’(حبیبہ بنت سھل نے ثابت بن قیس بن شماس سے شادی کی اور اس کو دو باغ مہر دیے تھے اور دونوں کے درمیان اختلافات تھے تو حضرت ثابت نے اس کو مارا اور بازو توڑ دیا تو وہ عورت فجر کے وقت حضورﷺ کے پاس آئی اور کھڑی رہی یہاں تک حضورﷺ نکلے اور کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ میں ثابت بن قیس بن شماس کے پاس نہیں رہنا چاہتی ، آپ ﷺ نے فرمایا کہ : آپ کون ہو؟ اس عورت نے کہاکہ : حبیبہ بنت سھل ، تو آپ نے فرمایا کہ : تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں کیا معاملہ ہے ؟ تو اس عورت نے کہا کہ مجھے مار پیٹ کی ہے ۔ توآپ ﷺ نے ثابت بن قیس کو بلایا اور تو ثابت نے سب کچھ بتا دیا جو ان دونوں کے درمیان ہوا تھا۔ تو آپ ﷺ نے اس کو کہا کہ : آپ نے اس کو کیا دیا تھا تو اس نے کہا : کھجور کے باغ میں سے دو ٹکڑے یا دو باغات ، تو نبی کریم ﷺ نے اسکو کہا کہ : آپ کے مال میں سے کچھ لے لو جوآپ نے دیا تھا اور کچھ چھوڑ دو ، تو اس نے کہا (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ )کہ : کیا اللہ کے رسول ﷺ اس طرح کرنا صحیح ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ہاں ۔ پھر ایک باغ لیا اور اس سے تفریق کردی ۔ پھر اس کے بعد اس عورت نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے شادی کی اور وہ اس کو شام لے گیا اور وہ وہیں وفات پا گئیں ۔
اور اسی طرح ایک اور حدیث جو کہ مصنف عبدالرزاق میں ہے : ‘‘عَنْ دَاوُدَ ابْنِ أَبِي عَاصِمٍ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ امْرَأَةً كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَكَانَ أَصْدَقَهَا حَدِيقَةً وَكَانَ غَيُورًا، فَضَرَبَهَا فَكَسَرَ يَدَهَا، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَكَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَنَا أَرُدُّ إِلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَ: «أَوَ تَفْعَلِينَ؟» قَالَتْ: نَعَمْ، فَدَعَا زَوْجَهَا، فَقَالَ: «إِنَّهَا تَرُدُّ عَلَيْكَ حَدِيقَتَكَ» قَالَ: أَوَ ذَلِكَ لِي؟ قَالَ: «نَعَمْ» قَالَ: فَقَدْ قَبِلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبَا، فَهِيَ وَاحِدَةٌ»، ثُمَّ نَكَحَتْ بَعْدَهُ رِفَاعَةَ الْعَابِدِيَّ، فَضَرَبَهَا، فَجَاءَتْ عُثْمَانَ، فَقَالَتْ: أَنَا أَرُدُّ إِلَيْهِ صَدَاقَهُ، فَدَعَاهُ عُثْمَانُ، فَقَبِلَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: اذْهَبِي، فَهِيَ وَاحِدَةٌ ’’ (ایک عورت جو حضرت ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی تھی اور اسکا مہر ایک باغ تھا اور ثابت بن قیس بن شماس غیور تھے پھر اس کی مار پیٹ کی اور اسکا ہاتھ ٹوٹ گیا تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں اور اسکی شکایت کی اور پھر کہا کہ : میں اس کو اس کا باغ لوٹانا چاہتی ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا واقعی آپ اس طرح کرنا چاہتی ہو؟ تو اس عورت نے کہا کہ : ‘‘ہاں’’ تو آپ ﷺ نے اس کے شوہر کو بلایا اور اسے کہا کہ : ‘‘یہ آپ کو آپ کا باغ لوٹا رہی ہے ’’تو اس کے شوہر نے کہا کہ : یہ باغ میرا ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ہاں ۔ تو اس نے کہا کہ میں نے قبول کیا اے اللہ کے رسولﷺ ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کہ دونوں چلے جاؤ اور وہ اکیلی تھی ، پھر اس نے بعد میں رفاعہ العابدی سے نکاح کیا پھر اس نے بھی اس کی مار پیٹ کی تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور کہا کہ : میں اس کو اس کا مہر لوٹانا چاہتی ہوں ،پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے شوہر کوبلایا اور اس نےقبول کرلیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ : چلی جاؤ اور وہ اکیلی تھی ۔
اور بڑے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین جب عورت کو اپنے شوہر سے خلع لیتے تو شوہر کی طرف معاملہ کردیتے تھے اگر وہ راضی ہوجاتا تو خلع کروادیتے تھے اور اگر نہیں تو نہیں اس بات کی تائید ہمیں سابقہ روایت سے بھی ملتی ہے ۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلع کروایا تو شوہر کو بلایا اور اس شوہر نے اس خلع میں باغ کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کردی تو ان کے درمیان خلع کروادی ۔
یہ موقف حنفی فقہاء کرام کا ہے کہ طلاق کا اختیار مردوں کے ہاتھ میں ہے اور خلع بھی مال کے عوض میں طلاق ہی ہے ، اسی لیے مرد کی آمادگی بہرطور ضروری ہوگی ، اسی بناء پر ان کے یہاں حکمین کی حیثیت زوجین کے وکیل کی ہوتی ہے ، اور وہ ان ہی حدود میں رہ کراقدام کرسکتا ہے جو زوجین نے متعین کردی ہیں ، ان کا استدلال اس واقعہ سے بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے ہی مقدمہ میں حکم متعین کئے ، پھر ان حکمین سے مخاطب ہوکر ان کی ذمہ داری بتائی کہ اگر ان دونوں کو جمع کردو اور اگر تفریق وعلیحدگی مناسب سمجھو توعلاحدہ کردو، عورت تو اس پر آمادہ ہوگئی مگر مرد نے علاحدگی پر اپنی عدم آمادگی کا اظہار کیا ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مرد پر دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب تک اس عورت کی طرح فیصلہ کی ہر صورت میں پر آمادگی کا اظہار نہ کردو ، یہاں سے ہٹ نہیں سکتے ۔
اور مولانا تقی عثمانی رحمہ اللہ اپنے مقالے اسلام میں خلع کی حقیقت میں فرماتے ہیں کہ : ‘‘اب تک تمام فقہاء اور مجتہدین کا اس بات پر اتفاق چلا آتا ہے کہ ‘‘خلع’’ شوہر اور بیوی کا ایک باہمی معاملہ (TRANSACTION) ہے جو فریقین کی رضامندی پر موقوف ہے ، لہذا کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کرسکتا ۔ نہ شوہر کو یہ حق ہے کہ وہ بیوی کو خلع پر قانونا مجبور کرے، اور نہ بیوی کو یہ حق ہے کہ وہ شوہر سے بزورِ قانون خلع حاصل کرے ۔’’
دوسری رائے رکھنے والوں کے دلائل
قرآن سے دلائل :
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ (اگر تم کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں (یعنی زوجین ) پر اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ (یعنی عورت) کچھ فدیہ دے کر علٰیحدگی حاصل کرلے ۔
اس آیت میں ماخوذ زوجین کا ذکر تو غائب کے صیغوں کے میں کیا گیا ہے لہذا لفظ خِفْتُمْ (اگر تم کو خوف ہو) کے مخاطب وہ نہیں ہوسکتے ۔ اب لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے مخاطب مسلمانوں کے اولی الامر ہیں اور حکم الہی کا یہ منشا یہ ہے کہ اگر خلع پر زوجین میں باہمی رضامندی حاصل نہ ہو تو اولی الامر کی طرف رجوع کیا جائے ان کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے ۔
اور خلع ایسی حالت میں ہونا چاہیے ۔ جب کہ حدود اللہ کے ٹوٹ جانےکا خوف ہو ۔ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ اگر چہ خلع ایک بری چیز ہے ، جس طرح کہ طلاق بری چیز ہے ، لیکن جب یہ خوف ہو کہ حدوداللہ ٹوٹ جائیں گے توحدود اللہ ٹوٹ جائیں گی تو خلع لینے میں کوئی برائی نہیں ۔
حدیث سے دلائل :
خلع کا سب سے مشہور واقعہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس واقعہ میں ہے کہ ان سے ان کی بیویوں نے خلع حاصل کیا اور اس پورے واقعے کی تفصیلات مختلف احادیث سے کٹھی کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے ان کی دو بیویوں نے خلع کیا تھا ۔ ایک جمیلہ بنت ابی بن سلول ہیں جو حضور ﷺ کے پاس گئیں اور اپنی شکایت ان الفاظ میں بیان کی ۔ امرأة ثابت بن قيس أتت النبي – صلى الله عليه وسلم – يا رسول الله لا يجتمع رأسي ورأس ثابت أبداً، إنّي رفعت جانب الخباء فرأيته أقبل في عدّة، فإذا هو أشدّهم سواداً، وأقصرهم قامة، وأقبحهم وجهاً .
(ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی حضور ﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ میں اور ثابت آپس میں ساتھ کبھی بھی نہیں رہ سکتے کیونکہ جب میں نے اپنا گھونگھٹ اٹھایا تو وہ چند آدمیوں کے ساتھ آرہا تھا ، میں نے دیکھا وہ ان میں سے سب سے کالا ، سب سے چھوٹے قد والا اور سب سے زیادہ بد صورت تھا ۔)
اور دوسری حدیث میں ہے کہ : : إِنِّي أُبْغِضُ زَوْجِي، وَأُحِبُّ فُرَاقَهُ (میں اپنے شوہر کو ناپسند کرتی ہوں اور میں اس سے جدا ہونے کو پسند کرتی ہوں )
اسی طرح ایک اور حدیث جس کو امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بیان کی ہے ‘‘والله ما كرهت منه دينا ولا خلقا، إلا أني كرهت دمامته !’’ (اللہ کی قسم میں اس کے دین اور اخلاق کو ناپسند نہیں کرتی ، مجھے صرف اس کی بدصورتی مجھے ناپسند ہے )
اور صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ (يا رسول الله ثابت بن قيس ما أعتب عليه في خلق ولا دين ولكنّي أكره الكفر في الإسلام ) (اے اللہ کے رسول ﷺ میں اس کے دین اور اخلاق پر کوئی حرف نہیں رکھتی ۔ مگر مجھے اسلا م میں کفر کا خوف ہے )
اور اسی طرح حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی دوسری بیوی حبیبہ بنت سہل الانصاریہ تھیں ان کی شکایات بھی تقریبا وہی تھیں جو پہلی بیوی جمیلہ کی تھیں مثلا : ایک حدیث جس کو امام مالک اور ابوداؤد نے اس طرح نقل کیا ہے کہ عَنْ حَبِيبَةَ بِنْتِ سَهْلٍ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الصُّبْحِ فَوَجَدَ حَبِيبَةَ بِنْتَ سَهْلٍ عِنْدَ بَابِهِ فِي الْغَلَسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذِهِ؟»، فَقَالَتْ: أَنَا حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ، قَالَ: «مَا شَأْنُكِ؟»، قَالَتْ: لَا أَنَا وَلَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ لِزَوْجِهَا، فَلَمَّا جَاءَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذِهِ حَبِيبَةُ بِنْتُ سَهْلٍ»، وَذَكَرَتْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَذْكُرَ، وَقَالَتْ حَبِيبَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُلُّ مَا أَعْطَانِي عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ: «خُذْ مِنْهَا»، فَأَخَذَ مِنْهَا، وَجَلَسَتْ هِيَ فِي أَهْلِهَا (ایک روز صبح سویرے حضورﷺ گھر سے باہر نکلے تو حبیبہ بنت سھل رضی اللہ عنہا کو اپنے دروازے کے پاس پایا اندھیرے میں ، تو حضورﷺ نے فرمایا : کون ہو؟ تو جواب میں کہاکہ : میں حبیبہ بنت سھل ، آپ ﷺ نے کہا کہ : کیا معاملہ ہے تیرا ؟ تو جواب میں کہا کہ :‘‘ لا انا ولا ثابت بن قیس’’۔ ( میں اور ثابت آپس میں نہیں رہ سکتے ) جب ثابت رضی اللہ عنہ آئے تو حضور ﷺ نے اس سے فرمایا کہ : یہ حبیبہ بنت سھل ہیں ۔ اس بیان کیا جو اللہ نے چاہا۔ تو حبیبہ نے کہا کہ : جو کچھ اس نے دیا تھا میرے پاس ہے ۔ تو حضورﷺ نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے کہا : اس سے لے لے تو اس نے اس سے لے لیا اور وہ اپنے گھر چلی گئی ۔
بہر حال حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی ان دونوں بیویوں (جمیلہ اور حبیبہ ) کی تمام روایات کو اکٹھا اور یکجا کیا جائے تو ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کی شکایات تقریبا مشترک تھیں وہ یہ تھیں کہ ایک تو ان دونوں کو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی صورت ناپسند تھی اور دوسری یہ تھی کہ وہ بہت سخت آدمی تھا یعنی مار پیٹ کرتا تھا اس لیے بھی وہ دونوں کو ان کو نا پسند کرتی تھیں ۔
بہرحال ان دونوں کی شکایا ت سن کر حضور ﷺ کے الفاظ یہ تھے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے لیے ۔ مثلا : اقبل الحديقة وطلِّقها تطليقة ، (باغ لے لو اور طلاق دے دو) وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا (ان دونوں کے درمیان حضور ﷺ نے تفریق کردی )، (خذ منها ذلك احسبه، قال: وطلِّقها) (اس سے وہ لے لو(باغ) اور اس کو طلاق دے دو)، فَأَخَذَهَا، وَخَلَّى سَبِيلَهَا، (پھر اس سے (باغ)لے لیا اور اسکا راستہ چھوڑ دو)
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبَا، فَهِيَ وَاحِدَةٌ»، (پھرنبی کریم ﷺ نے انہیں کہا کہ: دونوں چلے جاؤ اور وہ اکیلی تھیں )
حضورﷺ کے ان سارے جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ نے ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ ان سے علیحدگی اختیار کرلو اگر اس میں شوہر کی رضامندی ضروری ہوتی تو حضورﷺ ضرور ثابت رضی اللہ عنہ سے ان کی رضامندی سے فیصلہ کرتے اور ایک حدیث سے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنی بیوی سے زیادہ محبت کرتے تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے درمیان جدائی ہو لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کے درمیان علیحدگی کرادی اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر بیوی اپنے شوہر سے اتنی حد تک نفرت کرتی ہے کہ اس کے ساتھ ایک پل بھی رہنے کو تیار نہیں تو اس کو شریعت نے خلع کرنے اجازت دی ہے چاہے شوہر راضی ہو یا نہ ہو ۔
اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ کےدور خلافت میں ایک عورت اور مرد کا مقدمہ پیش ہوا عورت نے کہا کہ : میں اس مرد کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی توحضرت عمر رضی اللہ عنہ عورت کو سمجھا یا کہ آپ شوہر کے پاس ہی رہو تو اس عورت نے انکار کردیا ۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ان کو کوڑا کرکٹ سے بھری کوٹھڑی میں بند کردیا اور تین دن بند رکھنے کے بعد اسے نکال کر پھر پوچھا کہ : اب کیا چاہتی ہو اس کے ساتھ رہوگی یا نہیں ؟ تو اس نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے ان اندھیری راتوں اور کوڑا کرکٹ میں بھری کوٹھڑی میں راحت نصیب ہوئی ہے ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کےشوہر کو حکم دیا کہ ‘‘اخلعھا ویحک ولو من قرطھا’’ اس کو خلع دے دے خواہ وہ اس کے کان کے بالیوں کےعوض ہی میں ہو۔
اور اس طرح کا ایک اور واقعہ ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملتا ہے کہ : ربیع بنت معوذ بن عضراء نے اپنے شوہر سے کہا کہ میری ساری ملکیت لے لیں لیکن مجھے خلع دے دیں لیکن اس کے شوہر نے انکار کردیا پھر یہ معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو حکم دیا کہ اس کے چوٹی کے موباف تک لےلے اور اسکو خلع دے دے ۔
علماء کا اجتھاد
قرآن وحدیث کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جس طرح مرد کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ جس عورت کو وہ ناپسند کرتاہے اور جس کے ساتھ وہ کسی طرح نباہ نہیں کرسکتا اسے طلاق دے دے ، اسی طرح عورت کو بھی یہ حق دیا ہے کہ جس مرد کو وہ ناپسند کرتی ہو اور کسی طرح اس کے ساتھ گذر بسر نہ کرسکتی ہو اس سے خلع کرلے ۔
اس باب میں احکام شریعت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک پہلو اخلاقی ہے اور دوسرا قانونی ۔
اخلاقی پہلو یہ ہے کہ خواہ مرد ہو یا عورت ہر ایک کو طلاق یا خلع کا اختیار حاصل ہے اور ان کو یہ اختیار صرف ایک آخری چارہ کا ر کے طور پر استعمال کرنا چاہیے نہ یہ کہ محض خواہشات کی تسکین کےلئے طلاق اور خلع کو کھیل بنا لیا جائے۔ چنانچہ احادیث میں نبی کریم ﷺ کے ارشادات منقول ہیں کہ ۔
عَنْ أَبِي مُوسَى، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُحِبُّ الذَّوَّاقِينَ وَلَا الذَّوَّاقَاتِ »
(اللہ تعالی مزہ چکھنے والے اور مزہ چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا )
اور اسی طرح ایک اور روایت میں ہےکہ : «أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مَنْ زَوْجِهَا بِغَيْرِ نُشُوزٍ فَعَلَيْهَا لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ »
(جس کسی عورت نے اپنے شوہر سے اس کی کسی زیادتی کے بغیر خلع لیا اس پر اللہ اور ملائکہ اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی ۔ )
اور سنن ترمذی کی ایک حدیث میں ہے کہ : ‘‘عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ ’’
(خلع کو کھیل بنانے والی عورتیں منافق ہیں ۔)
اور قانون جس کا کام لوگوں کے حقوق متعین کرے اور قانون جس طرح مرد کو ناساز گار حالت میں مرد کو طلاق کی اجازت دیتا ہے اسی طرح عورت کو بھی کچھ حقوق دیتا ہے کہ بوقت ضرورت اگر نکاح کو ختم کرنا چاہےتو خلع کرلے ایسا نہ ہو کہ دل میں ان کا ایک دوسرے کے لیے بغض ہو اور زوجیت کے حقوق بھی صحیح طرح ادا نہیں کر رہے پھر بھی نکاح میں جڑے رہیں ، نکاح ہرگز اس کا مطلب نہیں ، نکاح کو شریعت نے اس لیے بنایا ہے کہ اس سے دو خاندان آپس میں جڑیں اور ان کی آپس میں الفت اور محبت اور مودت ہو اور نسل انسانیت کی افزائش ہو اگر میاں بیوی کی آپس میں محبت ہی نہیں رہی تو اس سے تو نکاح کا اصل مقصد ہی فوت ہو رہا ہے ۔
رہا یہ سوال کہ دونوں میں سے کوئی فریق اپنے حقوق کو بے جا استعمال کرے گا ۔ تو اس بارے میں قانون جہاں تک ممکن اور معقول ہے پاپندیاں عاید کردیتا ہے ۔ مگر حق کے بجایا بے جا استعمال کرنے کا انحصار بڑی حد تک خود استعمال کرنے والے کے اختیار تمیزی اور اس کی دیانت اور خداترسی پر منحصر
ہے ۔ اس کے اور خدا کے سوا کوئی بھی یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ وہ محض طالب لذت ہے یا فی الواقع اس کے استعمال کی جائز حاجت رکھتا ہے ۔ قانون اس کا فطری حق اسے دینے کے اس کو بے جا استعمال سے روکنے کے لیے صرف ضروری پاپندیا ں اس پر عائد کرسکتا ہے ۔ چنانچہ طلاق کی بحث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ مرد کو عورت سے علیحدگی کا حق دینے کے ساتھ اس پر متعدد قیود لگا دی گئی ہیں مثلا یہ کہ جو مہر اس نے عورت کو دیا تھا ، اس کا نقصان گوارا کرنے ، زمانہ حیض میں طلاق نہ دے ۔ تین طہروں میں ایک ایک طلاق دے ۔ عورت کو زمانہ عدت میں اپنے ساتھ رکھے ۔ اور جب تین طلاق دے چکے تو پھر تو پھر وہ عورت تحلیل کے بغیر دوبارہ اس کے نکاح میں نہ آسکے ۔ اسی طرح عورت کو بھی خلع کا حق دینے کے ساتھ چند قیود عائد کردی گئی ہیں ۔ جن کو قرآن مجید اس مختصر سی آیت میں بتمام کمال بیان کر دیتا ہے ۔ ‘‘وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ’’
(اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو،البتہ یہ صور ت مستثنٰی ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے ۔ )
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت سے مندرجہ ذیل احکام مستنبط کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ : ۔
(۱) خلع ایسی حالت میں ہونا چاہیے ۔ جب کہ حدود اللہ کے ٹوٹ جانے کا خوف ہو۔ ‘‘فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا’’ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ اگر چہ خلع ایک بری چیز ہے ، جس طرح کہ طلاق بری چیز ہے ، لیکن جب یہ خوف ہو کہ حدوداللہ ٹوٹ جائیں گی تو خلع لینے میں کوئی برائی نہیں۔
(۲) جب عورت عقدِ نکاح سے آزاد ہوناچاہے، تو وہ بھی اسی طرح مال کی قربانی گوارا کرے جس طرح مرد کو اپنی خواہش سے طلاق دینے کی صورت میں گوارا کرنی پڑتی ہے ۔ مرد اگر خود طلاق دے تو وہ اس مال میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا جو اس نے عورت کو دیا تھا اور اگر عورت جدائی کی خواہش کرے تو وہ اس مال کا ایک حصہ یا پورا مال واپس کرکے جدا ہوسکتی ہے ، جو اس نے شوہر سے لیا تھا۔
(۳) افتداء (یعنی معاوضہ دے کر رہائی حاصل کرنے) کے لیے محض دینے والی کی خواہش کافی نہیں ہے بلکہ اس معاملہ کا اتمام اس وقت ہوتا ہے جب کہ فدیہ لینے والا بھی راضی ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ عورت محض ایک مقدار مال پیش کرکے آپ سے آپ علیحدہ نہیں ہوسکتی ۔ بلکہ علیحدگی کے لیے ضروری ہے کہ جو مال وہ پیش کر رہی ہے اس کو شوہر قبول کرکے طلاق دے ۔
(۴) خلع کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ عورت اپنا پورا مہر یا اس کا ایک حصہ پیش کرکے علیحدگی کا مطالبہ کرے اور مرد اس کو قبول کرکے طلاق دے دے ‘‘فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ’’ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خلع کا فعل طرفین کی رضامندی سے مکمل ہوجاتا ہے ۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوتی ہے جو خلع کے لیے عدالتی فیصلے کو شرط قرار دیتے ہیں ۔ جومعاملہ گھر کے اندر طے ہوسکتا ہے ۔ اسلام اسے عدالت میں لے جانا ہرگز پسند نہیں کرتا ۔
(۵) اگر عورت فدیہ پیش کرے اور مرد قبول نہ کرے تو اس صورت میں عورت کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے۔ جیسا کہ آیت کے مذکورہ بالا میں ‘‘فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ’’ کے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ اس آیت میں ‘‘خِفْتُمْ’’ کا خطاب ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اولی الامر ہی کی طرف ہے چونکہ اولی الامر کا اوْلین فرض تو حدود اللہ کی حفاظت ہے ، اس لیے ان پر لازم ہوگا کہ جب حدوداللہ کے ٹوٹنے کا خوف متحقق ہوجائے تو عورت کو اس کا وہ حق دلوادیں جو انہی حدود کے تحفظ کے لیے اللہ تعالی نے اس کو عطا کیا ہے ۔
یہ مجمل احکام ہیں جن میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ حدوداللہ کے ٹوٹ جانے کا خوف کن صورتوں میں متحقق ہوگا؟ فدیہ کی مقدار متعین کرنے میں انصاف کیا ہے ؟ اور اگر عورت افتداء پر آمادہ ہو، لیکن مرد قبول نہ کرے تو ایسی صورت میں قاضی کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے ؟ ان سارے سوالوں کا جواب ہمیں حضورﷺ کے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے فیصلوں سے اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے ملتا ہے ۔
اور وہ یہی تھا کہ اگر عورت مرد کے ساتھ رہنے کو بالکل تیار نہیں اور مرد اس کو طلاق نہیں دے رہا اور وہ اس سے جان چھڑانا چاہ رہی تو عورت حاکم وقت یا عدالت میں جاکر اپنا مقدمہ جمع کروائے گی اور حاکم وقت یا جج کے ذریعے خلع کروائے گی اس تمام عدالتی طریقہ کار کی تفصیل ان شاء اللہ آنے والی فصل میں بیان ہوگی ۔
فصل خامس : ملک میں رائج عدالتی خلع کا طریقہ کار
پاکستانی عدالتوں اور ملکی قوانین میں خلع کے متعلق باقاعدہ کوئی وضع شدہ قانون نہیں ۔ شروع میں عدالتیں معروف حنفی فقہی تصور کے مطابق خلع کے میں زوجین کی رضامندی کے بغیر خلع کا فیصلہ نہیں کرتی تھی ۔ چنانچہ قیام پاکستان سے پہلے 1945ء میں لاہور ہائی کورٹ نے عمر بی بی بنام محمد دین کے مقدمے میں جسٹس عبدالرحمٰن اور جسٹس ہارنس نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ عورت شوہر کی مرضی کے بغیر خلع نہیں کراسکتی ۔
اسی طرح ایک اور مقدمہ سعیدہ خانم بنام محمد مسیح کا کافی مشہور ہے جو 1952ء کا مقدمہ ہے اس میں عدالت کے جج صاحبان جسٹس اے ۔آر ۔ کارنیلیس ، جسٹس محمد جان اور جسٹس خورشید زمان صاحبان نے بھی یہی فیصلہ دیا تھا کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا ۔ اور محض اختلافِ مزاج ، ناپسندیدگی اور نفرت کی بناء پر عدالت نکاح کو فسخ نہیں کرسکتی ۔
پاکستان میں پہلی بار 1959ء میں لاہور ہائی کورٹ کے تین جج صاحبان جسٹس شبیر احمد ،جسٹس بی۔ زیڈ ۔ کیکاؤس اور جسٹس مسعود احمد نے بلقیس فاطمہ بنام نجم الاکرام کے مقدمے میں یہ فیصلہ دیا کہ اگر عدالت تحقیق کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ زوجین حدوداللہ کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو عدالت شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کراسکتی ہے ۔
پھر اس کے بعد 1967ء میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان جسٹس ایس۔ اے ۔ رحمان ، جسٹس فضل اکبر ، جسٹس حمود الرحمٰن ، جسٹس محمد یعقوب علی اور جسٹس ایس اے محمود نے بھی خورشید بیگم بنام محمد امین کے مقدمے میں اسی نقطہ نظر کو اختیار کیا ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ماتحت عدالتوں کے لیے قانون کی حیثیت اختیار کرلی اور1967ء کے بعد سے ہماری عدالتیں خلع کے فیصلے اپنی صواب دید پر کررہی ہیں ۔ 2002ء میں قانون میں خلع کے مقدمات کو عدالت میں تیزرفتاری سے نمٹانے کے لیے یہ ترمیم کی گئی کہ عدالت زوجین کو مصالحت کا موقع دے اور اگرمصالحت میں ناکامی کی صورت میں عدالت لازمی طور پر عورت کے حق میں خلع کا فیصلہ کردے ، خاوند کی رضامندی ضروری نہیں ۔
اور اسی طرح پی ایل ڈی (سپریم کورٹ) ۱۹۴۷ء میں ہے کہ ‘‘اگر عورت مرد سے ناقابل ِ اصلاح نفرت INCURABLE AVERSION کرتی ہو تو یہ خلع کے لیے کافی وجہ جواز ہے ’’۔
باب سوم : علماءکرام کی آراء اور فقہ اکیڈمیز کے فتاوٰی
فصل اول :
علمائے کرام کی آراء
وہ علماء جو کہتے ہیں کہ خلع میں شوہر کی رضامندی ضروری ہے
ابن قیم رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ
خلع ایک عقدِ معاوضہ ہے ۔ جس میں فریقین کی رضامندی شرط ہے ۔ یہ معاملہ بہ اتفاق ایک معاوضہ ہوتا ہے ۔ جس میں فریقین کی رضامندی لازمی شرط ہے اور کوئی فریق دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کر سکتا ۔ ابن قیم رحمہ لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جو خلع کا نام فدیہ رکھا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں معاوضہ کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اس لیے اس میں زوجین کی رضامندی کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے ۔
کراچی یونیورسٹی کے فقہ وتفسیر کے استاد ڈاکٹر حافظ محمد شکیل اوج لکھتے ہیں کہ :
’’شوہر کی طرف سے دی جانے والی طلاق (جو یک طرفہ ہوتی ہے) کو فقط طلاق کہتے ہیں۔ بیوی اگر اپنے شوہر سے علیحدگی کا مطالبہ کرے او راس کے مطالبہ پر شوہر اگر اسے چھوڑ دے تو ایسی طلاق کو خلع کہتے ہیں۔ اگر خلع کا مطالبہ عدالت میں دائر کیا جائے جس کے نتیجے میں علیحدگی ہو تو اسے فسخ نکاح کہتے ہیں ۔ ’’
ابوبکر جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
اگرخلع کا یہ اختیار حاکم کو ہوتا کہ وہ جب دیکھے کہ زوجین حدود اللہ کو قائم نہ کریں گے (تو خود نکاح فسخ کردے) خواہ زوجین چاہیں یا نہ چاہیں تو آپ ﷺ جمیلہ اور ان کے شوہر سے اس معاملےمیں کچھ نہ پوچھتے اور نہ شوہر سے یہ کہتے کہ تم ان سے خلع کرلو بلکہ خود خلع کرکے شوہر کا باغ ان کو لوٹادیتے ، چاہے وہ دونوں انکار کرتے یا ان میں سے کوئی ایک انکار کرتا ۔
امام سرخسی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ :
‘‘خلع حاکم کے پاس بھی جائز ہے اور حاکم کے بغیر بھی ، اس لیے کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی ساری بنیاد باہمی رضامندی پر ہے اور یہ معاوضہ لے کر طلاق دینے کے حکم میں ہے ، شوہر کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے ۔
ابو اسحٰق شیرازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
یہ (خلع) باہمی رضامندی سے عقد نکاح کو ختم کرنے کا نام ہے جو ضرر دور کرنے کے لیے مشروط ہوا ہے لہذا جہاں کسی فریق کو ضرر نہ ہو وہاں (بدرجہ اولٰی ) جائز ہے ۔
تفسیر روح البیان کے مؤلف لکھتے ہیں:
’’مسئلہ: عدالت کی طرف سے شوہر کی رضا مندی کے بغیر جو یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے وہ شرعاً معتبر نہیں۔ اس صورت میں اس عورت کا کسی اور مرد سے نکاح کرنا حرام اور بدکاری ہو گا ۔’’
وہ علماء جو کہتے ہیں کہ خلع میں شوہر کی رضامندی ضروری نہیں اگر ان کے درمیان واقعی کوئی ان بن ہوگئی ہے یا شوہر میں کوئی عیب وغیرہ ہے اور عورت اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو وہ عورت خلع کی درخواست دے سکتی ہے ۔
امام قرطبی ؒ کہتے ہیں کہ:
‘‘آیت خلع میں لفظ فَإِنْ خِفْتُمْ میں خطاب أولی الأمر منکم سے مراد قاضی یا تم میں اختیار رکھنے والے لوگ مراد ہیں ۔ جو اس طرح کے نزاعی معاملات کا حل پیش کریں ۔
امام شوکانی کی رائے یہ ہے کہ :
‘‘اگر خلع طلاق کی ایک قسم ہے تو یہ قسم شوہر کی رضامندی پر منحصر نہیں ہے ۔
مالكی فقیہ ابن رشد لکھتے ہیں:
‘‘ خلع عورت کے اختیار میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے۔ چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہوتو اس کے اختیار میں خلع ہے۔ اور جب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شارع نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے ۔’’
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:
’’عورت سے خلع کے حق کو جس چیز نے عملاً بالکل سلب کرلیا ہے، وہ یہ غلط خیال ہے کہ شارع نے خلع کا معاملہ کلیتاً زن وشوہر کے درمیان رکھا ہے، اور اس میں مداخلت کرنا قاضی کے حدود ِاختیار سے باہر ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خلع دینا، نہ دینا بالکل مرد کی مرضی پر موقوف ہوگیا ہے، اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے اور مرد اپنی شرارت یا خود غرضی سے نہ دینا چاہے تو عورت کے لیے کوئی چارہ کار نہیں رہتا لیکن یہ بات شارع کی منشا کے بالکل خلاف ہے۔ شارع کا یہ منشا ہرگز نہ تھا کہ معاملہ نکاح کے ایک فریق کو بالکل بے بس کرکے دوسرے فریق کے ہاتھ میں دے دے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ بلند اخلاق وتمدنی مقاصد فوت ہوجاتے جو اس نے مناکحت کے ساتھ وابستہ کیے ہیں۔
شریعت نے معاملہ نکاح کے دونوں فریقوں کو ایک ایک قانونی آلہ ایسا دیا ہے جس سے وہ عقدِ نکاح کے ناقابل برداشت ہوجانے کی صورت میں حل عقد کا کام لے سکتے ہیں۔ مرد کے قانونی آلہ کا نام ’طلاق‘ ہے جس کے استعمال میں اسے آزادانہ اختیار دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل عورت کے قانونی آلہ کا نام ’خلع‘ ہے جس کے استعمال کی صورت یہ رکھی گئی ہے کہ جب وہ عقدہ نکاح کو توڑنا چاہے تو پہلے مرد سے اس کا مطالبہ کرے اور اگر مرد اس کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کردے تو پھر قاضی سے مدد لے۔
…اگر آپ جائز طریقے سے ایسا نہ کرنے دیں گے تو وہ ناجائز طریقوں سے اپنی فطرت کے داعیات کو پورا کرے گی، اور یہ زیادہ براہوگا۔ ایک عورت کا پچاس عورتوں کو یکے بعد دیگرے بدلنااس سے بدرجا بہتر ہے کہ وہ کسی شخص کے نکاح میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ بھی زنا کا ارتکاب کرے۔
… اگر شوہر اس کے حکم سے طلاق نہ دے تو قاضی خود تفریق کرا دے، کیوں نہ خلع کے مسئلہ میں دیگر فقہی جزئیات کی قاضی کو یہ اختیار حاصل ہو۔‘‘
خلع کی تعریف کرتے ہوئے پیر محمدکرم شاہ ازہری لکھتے ہیں :
’’… عورت حاکم وقت کے پاس خلع کا مطالبہ کرے، اور حاکم پہلے ان کی مصالحت کی کوشش کرے گا، اگر کامیابی نہ ہو تو خاوند نے عورت کو مہر میں جو کچھ دیا تھا، حاکم اسے لے کر خاوند کو واپس کردے ، اور ان کے درمیان تفریق کرادے ، یہ خلع ہے۔ ’’
جسٹس ایس اے رحمان نے عمدۃ القاری کے حوالے سے امام مالک ؒ ، امام اوزاعی ، اور امام اسحٰق کا یہ مسلک نقل کیا ہے کہ ان کےنزدیک زوجین کے مابین مصالحت کرانے کے لیے جو حکم بھیجے جاتے ہیں ان کو تفریق کا بھی اختیار ہوتا ہے اگر وہ مناسب سمجھیں تو شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی تفریق کراسکتے ہیں ۔
فصل ثانی: مختلف مراکز ِ فتاوٰی کے فتاوٰی
وہ فتاوٰ ی جس میں شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع نہیں ہوتا
خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اور اگر شوہر کی اجازت سے کورٹ خلع دیدے تو میاں اور بیوی دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں؟ شکریہ۔
Published on: Mar 27, 2017
جواب # 149813
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 596-557/Sd=6/1438
خلع کے بعد عورت پر طلاق بائن واقع جاتی ہے، اس کے بعد اگر میاں بیوی ساتھ رہنا چاہیں، تو دوبارہ نکاح ضروری ہے، نئے نکاح کے بعد ہی دونوں رجوع کر سکتے ہیں، لہذا صورت مسئولہ میں اگر شوہر نے بیوی کے مطالبہ خلع پر رضامندی سے خلع دیدیا، تو بیوی پر طلاق بائن واقع ہوگئی، اب دوبارہ رجوع کرنے کے لیے نیا نکاح ضروری ہے ۔واضح رہے کہ کورٹ شوہر کی رضامندی سے خلع اُسی وقت دے سکتا ہے، جب کہ کورٹ کے اراکین مسلمان ہوں اور شوہرباقاعدہ خلع کا وکیل بنا دے، وکیل بنائے بغیر محض شوہر کے خلع پر راضی رہنے سے کورٹ کا خلع دینا شرعا غیر معتبر ہوگا۔ قال الکاساني: ویجوز بالنکاح والخلع۔۔۔۔( بدائع الصنائع:۶/۲۳، المکتبة العلمیة، بیروت ، طلاق، خلع اور عدت سے متعلق چند اہم اور ضروری مسائل ، ص: ۴۲، ط: مکتبہ دار العلوم، دیوبند )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند
کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
زید کا نکاح مریم نامی عورت سے ہوا رخصتی کے بعد شوہر (زید)لڑکی کو مارتا بھی ہے اور نان و نفقہ نہیں دیتا، لڑکی کے گھر والوں نے سمجھایا پر لڑکا باز نہ آیا پھر لڑکی والوں نے بالآخر کورٹ میں مسئلہ اٹھایا اور کورٹ کے بلانے کے بعد بھی لڑکا کورٹ نہ آیا اور کورٹ نے خلع کا حکم دے دیا، اب آپ کیا فرماتے ہیں کیا یہ طلاق (خلع) جو کہ کورٹ نے دیا آیا شرعاً درست ہے ؟ عدت کے گذارنے کے بعد لڑکی دوسرا نکاح کرسکتی ہے ؟؟؟
جزاکم اللہ خیرا.
السائل : محمد یاسین پتافی ، عظیم کالونی ڈھرکی،
بذریعہ مولانا قربان عطاری03082745592,
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
صورتِ مسئولہ میں مذکور امر اگرواقعی اورمبرھن ہے کہ شوہر بیوی کو بلا وجہ مارتا ہے نیز نان و نفقہ بھی نہیں دیتا ،تو کورٹ کا خلع جو کہ در اصل تنسیخِ نکاح ہے نافذ العمل ہے ،بیوی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔
تفصیل درج ذیل ہے :
عموما کورٹوں میں عورتیں اپنے شوہروں کے خلاف کیس درج کرواتیں ہیں اور جج کی طرف سے جو فیصلہ آتا ہے وہ خلع کا ہوتا ہے ،اسلام میں خلع کی بھی حقیقت ہے اور تنسیخِ نکاح کی بھی حقیقت ہے ،البتہ ان دونوں میں فرق ہے ،خلع کے لیے کسی سبب کی ضرورت نہیں ،جبکہ تنسیخ کے لیے مخصوص اسباب ہیں جن کے بغیر جج تنسیخِ نکاح کا فیصلہ نہیں کرسکتا،نیزتنسیخ کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری نہیں جبکہ خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے،(جسکی تفصیل ذیل میں مذکور ہے)۔
عموماً کورٹوں کےفیصلے خلع پر مبنی ہوتے ہیں اور جج خلع کا فیصلہ لکھتا ہے ،حالانکہ اکثر کیسوں میں شوہر پیش بھی نہیں ہوتا ،اور کئی کیس ایسے ہیں کہ جس میں شوہر کا پتہ ہی غلط لکھوایا جاتا ہے ، لھذا دیکھا جائے گا:
اگر کورٹ میں شھادتوں سے ان اسباب کو جنکو اصحابِ فقہ نے بیان کیا ثابت کیا گیا اور جج نے ان شھادتوں کے پیشِ نظر فیصلہ کیا اگرچہ اسمیں تنسیخ کا لفظ استعمال نہیں کیا ،بلکہ خلع کا لفظ استعمال کیا تو ہم اس خلع کو تنسیخ کے معنٰی میں لیں گے اور یہ حکم دیں گے کہ تنسیخِ نکاح ہوگئی ۔
اور اگر کورٹ میں شھادتیں پیش نہیں ہوئی اوربغیر شھادتوں کے فقط عورت کے کہنے پر اسکو مان لیا گیا اور چند ایک پیشیوں کے بعد خلع کا فیصلہ کردیا گیا تو عورت کا دوسری جگہ نکاح جائز نہیں ،اسلیے کہ یہ تنسیخ نہیں بلکہ یہ خلع اپنے حقیقی معنی میں ہے اور خلع حقیقی شوہر کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔
قرآن کریم میں ہے:
الرجال قوّامون علی النساء۔۔۔۔۔۔ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ (سورۃ النساء :آیۃ:٣٤)
طلاق اور خلع کے مختارکے متعلق قرآن کریم میں ہے:
بیدہ عقدۃ النکاح ۔۔۔۔۔۔”طلاق دینے کا اختیار اس کو ہے” جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ۔ (البقرۃ ،آیۃ:٢٣٧)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
انما الطلاق لمن ا خذ بالساق۔۔۔۔۔۔ طلاق اسی کے ہاتھ ہے جسے حق جماع حاصل ہے۔
(سنن ابن ماجہ،کتاب الطلاق،باب طلاق العبد١،مطبوعہ: دار احیاء الکتب العربیہ ،بیروت)
المعجم الکبیرمیں ہے:
لا طلاق لمن لا یملک عقدتہ۔۔۔۔۔۔طلاق وہ نہیں دے سکتا جو طلاق کی گرہ کا مالک نہ ہو ۔
(المعجم الکبیر،باب العین،عطاء عن ابن عباس،مطبوعہ:مکتبہ ابن تیمیہ ۔القاھرہ)
مندرجہ بالاآیات و احادیث کی روشنی میں خلع فقط شوہر دے سکتا ہے شوہر کے علاوہ کوئی دوسرا کسی کی بیوی کو خلع نہیں دے سکتا۔
واضح رہے کورٹ سے جاری شدہ خلع نامہ پر شوہر رضامندی کا اظہار کردےیا اس پر دستخط کر دے تو یہ بھی اسکی طرف سے خلع ہے ،اور بایں طرح عورت پر طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔اگر شوہر اس سے تین طلاقوں کی نیت کرے تو بھی درست ہے اور بایں صورت عورت مغلظہ ہوجائے گی۔
جیساکہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
(وحکمہ) وقوع الطلاق البائن کذا فی التبیین.وتصح نیۃ الثلاث فیہ.
(فتاوی ھندیہ ،کتاب الطلاق ،الباب الثامن فی الخلع وما فی حکمہ وفیہ ثلاثۃ فصول الفصل الأول فی شرائط الخلع وحکمہ وما یتعلق بہ الخلع،دارالفکر بیروت)
خلع میں جس طرح شوہر کا قبول کرنا ضروری ہے اسی طرح عور ت کا قبول کرنابھی شرط ہے محض شوہر کے خلع دینے یا عورت کے علیحدگی کا فیصلہ کر لینے سے خلع نہیں ہوتی ۔لھذا: زوجین یا ان میں سے کسی ایک کی عدم رضا و بلااجازت کورٹ سے خلع یا طلاق حاصل کی جائے تو وہ شرعی معیار کے مطابق نہیں لہذابایں صورت حکم خلع و طلاق بھی نہیں دیا جائے گا، اور بیوی بدستور پہلے شوہر کے ہی نکاح میں رہے گی اور بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا باطل وحرام ہے،اورہر قربت زنا ہو گی ۔ ایسوں پرلازم ہے کہ فوراً ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں اور اللہ عز اسمہ، کی بارگاہ میں سچی توبہ کریں۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
والمحصنٰت من النساء۔۔۔۔۔۔ حرام کی گئی ہیں تم پرشادی شدہ عورتیں۔(سورۃ النساء:٢٤)
البتہ :۔۔۔۔۔۔)قاضی اسلام /عدالت: مخصوص اسباب کے پیشِ نظر بعض صورتوں میں نکاح کو فسخ کرسکتے ہیں ۔
مثلاً:شوہر بیوی کو نفقہ نہ دیتا ہو یا بلاوجہ مارپیٹ کرتا ہو ،حقوقِ زوجیت ادا نہ کرتا ہو، اسے معلق حالت میں روکے رکھنا چاہتا ہو ،کہ نہ اسے بیوی کے طور پر رکھے ،نہ ہی طلاق دے کر آزاد کرے ،عورت جوان ہے اور شوہر ایسے موذی مرض میں مبتلا ہے کہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہیں، یا اس کی اہلیت ہی نہیں رکھتا اور عورت کی اس صورتِ حال کی بنا پر گناہ میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہے ،عورت جوان ہے اور شوہر کو دس ،پندرہ ،بیس سال یا عمر قید کی سزا ہو گئی ہے اور عورت کے لئے اپنے نفس پر قابو پانا دشوار ہے ،اس کے گناہ میں مبتلا ہو نے کا اندیشہ ہے ۔درج بالااسباب اگر مبرھن ہوں اور ان اسباب کے پیشِ نظر جج حکمِ خلع دے جو کہ تنسیخ نکاح کے معنیٰ میں ہے تو اسکے نفاذ کا حکم دیا جائے گا ۔اور نوے (90) دنوں کے بعد دونوں میں علیحدگی متصور ہوگی۔اور وہ عورت عدت کے بعد کسی اور مرد سے نکاح کرسکتی ہے ۔
الحاصل :
اگرسوال میں مذکور امر واقعی اورمبرھن ہے کہ شوہر بیوی کو بلا وجہ مارتا تھا اور نان نفقہ بھی نہیں دیتا تھا تو کورٹ کا خلع جو کہ در اصل تنسیخِ نکاح ہے نافذ العمل ہے اور آپ عدتِ طلاق مکمل کرنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہیں ۔
نیز واضح رہے : عدت کا آغاز خاوند کے بیوی کو طلاق دینے کے وقت سے ہوجا تا ہے ۔اب اگر خلع کے وقت سےبیوی کی عدت مکمل ہوچکی تو بیوی عدت سے نکل گئی، ورنہ نہیں ۔
تصحیح وتصدیق واللہ تعالی اعلم بالصواب
مفتی اعظم شیخ الحدیث کتبہ:جمیل احمدچنہ
پیرمفتی محمد ابراہیم القادری (عفی عنہ بمحمد ن المصطفی ﷺ)
رئیس دارالافتاء الجامعۃ الغوثیۃ الرضویۃ بسکھر
فی الجامعۃ الغوثیۃ الرضویۃ بسکھر 15/08/15
سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! کیا بیوی شوہر کو اطلاع دیئے بغیر قاضی کے پاس جاکر خلع حاصل کرلے تو کیا خلع واقع ہو جائے گی ؟
جواب: خلع دراصل بیوی کی جانب سے مال کی پیشکش یا اپنے مالی حق کی دستبرداری کے ساتھ مطالبہ پر شوہر کا طلاق دینا ہے ، خلع میں شوہر اور بیوی دونوں کی رضامندی لازمی وضروری ہے ، اگر بیوی خلع لینا چاہتی ہے تو مال کی پیشکش کرکے شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے لیکن شوہر کی منظوری کے بغیر خلع قرار نہیں پاسکتا ، شوہر کو اس کی اطلاع نہ دے کر خلع حاصل کرنا تو کوئی معنی نہیں رکھتا ، لہذا بیوی شوہر کو اطلاع دئیے بغیر قاضی کے پاس جاکر خلع نہیں لے سکتی تبیین الحقائق ، کتاب الطلاق ، باب الخلع ، ج 3 ، ص 189 ، میں ہے :
لَا وِلَایَۃَ لِأَحَدِہِمَا فِی إلْزَامِ صَاحِبِہِ بِدُونِ رِضَاہ –
جب شوہر خلع منظور کردے تو خلع واقع قرار پائے گا ، ایسی صورت میں شوہر اور بیوی کے درمیان طلاق بائن واقع ہوجائے گی فتاوی عالمگیری ج 1 ، ص 488 ، میں ہے :
الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِی شَرَائِطِ الْخُلْع ۔۔۔۔۔ ( وَحُکْمُہُ ) وُقُوعُ الطَّلَاقِ الْبَائِنِ کَذَا فِی التَّبْیِینِ . وَتَصِحُّ نِیَّۃُ الثَّلَاثِ فِیہِ .
اور اگر زوجین باہمی رضامندی سے دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیں تو اندرون عدت یا بعد ختم عدت نیا مہر مقرر کرکے دو گواہوں کے روبرو ازسرنو نکاح کرسکتے ہیں خلع چونکہ طلاق بائن کے حکم میں ہے، لہذا اس میں حلالہ کی ضرورت نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب –
سیدضیاءالدین عفی عنہ ،
شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ
بانی وصدر ابو الحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر ۔www.ziaislamic.com
حیدرآباد دکن
وہ فتاوٰ ی جس میں شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی خلع ہوجاتا ہے ۔
سوال : اقبال نگر سے محمد سلیم سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے فیملی کورٹ میں اپنے خاوند کے خلاف تنسیخ نکاح کا دعوٰی دائر کیا ، اس کے بعد عدالت نے خاوند کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا، اخبارات میں اس کےمتعلق اشتہار بھی دیا لیکن خاوند حاضر نہ ہوا ، آخر کار عدالت نے مؤرخہ ۱۲ جولائی ۲۰۰۲ء کو طلاق کے احکامات جاری کردیے یعنی عورت کے حق میں تنسیخ نکاح کا یک طرفہ فیصلہ کردیا ، اب عورت نکاح ثانی کے لیے کتنی عدت گزارنے کی پابند ہے ؟
جواب: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت کے مطالبہ فسخ نکاح پر عدالت کا یک طرفہ فیصلہ طلاق خلع کہلاتا ہے اور خلع سے نکاح فسخ ہوجاتا ہے ، خلع سے چھٹکارا حاصل کرنا بیوی کا حق ہے بشرطیکہ زوجین میں اس قدر شدید منافرت اور ناچاقی پیدا ہوچکی ہو کہ آیندہ اکٹھے رہنے میں وہ احکام الٰہی کی پابندی نہیں کرسکیں گے کیوں کہ بلاوجہ خلع لینے سے بہت سخت وعید احادیث میں آتی ہے ، چنانچہ حدیث میں ہےکہ : ‘‘عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الجَنَّةِ.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. ’’(جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا اس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے ۔)
چونکہ صورت مسؤلہ میں عدالت نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاشرتی حالات کے پیش نظر عورت کے حق تنسیخ نکاح کا فیصلہ کردیا ہے ، اب نکاح ثانی کے لیے اسے ایک حیض آنے تک انتظار کرنا ہوگا تاکہ رحم کے لیے خالی ہونے کا یقین ہوجائے ، اس کے بعد وہ جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے ۔ چنانچہ امام نسائی نے اپنی کتاب میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ ‘‘ خلع یافتہ عورت کی عدت’’ اس کے تحت وہ ایک حدیث میں لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خلع یافتہ عورت سے فرمایا کہ وہ ایک حیض آنے تک انتظار کرے ۔’’
اگرچہ عدالت نے اپنے فیصلہ میں اسے طلاق سے تعبیر کیا ہے لیکن خلع فسخ ہے ، طلاق نہیں ، حافظ ابن قیم ؒ نے طلاق اور خلع کے درمیان فرق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ‘‘طلاق میں مرد کو رجوع کرنے کا حق ہوتا ہے جبکہ خلع میں ایسا نہیں ہوتا ، دوسرا یہ کہ طلاق کی عدت تین حیض ہے جبکہ خلع کی عدت ایک حیض ہے جیسا کہ سنت نبوی ﷺ اور اقوال صحابہ سے ثابت ہے ’’۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد)
علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ کی خوب وضاحت کی ہے ان کی تحقیق کے مطابق حضرت عثمان ، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا یہی فیصلہ ہے کہ خلع یافتہ عورت ایک حیض آنے تک انتظار کرے۔ (فتاوٰی: 2/3323)
ان تصریحات کی روشنی میں عورت کے لیے ضروری ہے کہ خلع لینے کی صورت میں ایک حیض آجانے کے بعد وہ نکاح ِ ثانی کرنے کی مجاز ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
عربی فتاوٰی
2596- عنوان الفتوى : الخلع إذا كان في غياب الزوج وعلى عوض لم يرض به
تاريخ الفتوى : 09 جمادي الأولى 1429 / 15-05-2008
السؤال:
خطبت امرأة وقد قمنا بكتب الكتاب وحددنا موعد الزفاف وقبل أن يتم حصلت مشاكل مع أهلها وطلبوا الطلاق وأجبروا الابنة على ذلك على كل حال اتفقت على تركها وإرجاع حقي من الأموال كالمهر والذهب وما إلى ذلك واتفقنا على الالتقاء عند أحد الشيوخ الذي سيقوم بالطلاق وعند ذهابي إليه فوجئت بأنه قام بخلعها دون وجودي وتركوا لي بعضا من الذهب وليس كل ما يدينون لي به وقال لي الشيخ بأن الانفصال قد تم وعلمت بعد ذلك أنه أخذ مالا على ذلك مر على هذا ثلاث سنوات وأنا الآن متزوج ولكن زوجتي تلح علي بأن المرأة ما زالت على ذمتي لأن هذا الخلع باطل وتطلب مني التنازل عن بقية حقي وأنا رافض لهذا فماذا يتوجب علي فعله مع العلم أن تلك المرأة تزوجت.
جزاكم الله خيرا.
الفتوى:
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعد:
فالاتفاق الكائن قبل الخلع لا اعتبار له ولا يلزم به شيء لكلا الطرفين “الزوج والزوجة” وإنما المعتبر هو ما تم التراضي عليه عند إيقاع الخلع. وبناء على ما ذكر فإن كان الزوج رضي بما تركت الزوجة من ذهب وأوقع الطلاق مقابل ذلك فالخلع صحيح، ولو لم يكن الذهب أو العوض هو ما تواعدا عليه.
وأما إن كان الزوج لم يقبل العوض الذي تركته الزوجة ولم يوقع الطلاق فإنه لم يقع وهي باقية في عصمته ولا اعتبار لفعل الشيخ المذكور، إذ لا بد من رضى الزوج أو إيقاعه عليه في المحاكم عند قيام مقتضى ذلك. وعلى فرض أن الزوج أخذ العوض الذي تركته الزوجة عند الشيخ وأوقع الطلاق على أنه سيطالبها بالباقي فذلك لا اعتبار له، وليس له إلا ما أخذه من عوض في مقابل الطلاق، إذ لا يلزمها ما تلتزمه. وعلى كل ففي المسألة تفريعات وتحتاج إلى استفصال، وفيها خصومة، وفصل النزاع فيها إنما يحصل بعرضها مباشرة على المحاكم الشرعية أو من يقوم مقامها إن لم توجد كالهيئات الإسلامية ونحوها ثم إصدار الحكم الشرعي فيها.
والله أعلم.
خلع القاضي دون رضا الزوج
الثلاثاء 10 رجب 1431 – 22-6-2010
رقم الفتوى: 137038
السؤال
موقعكم الكريم تفضل وقال إن الخلع ليس من الضروري موافقة الزوج فيه، ممكن طيب أحد يرى أستاذ الفقه المقارن الذي أثبت بإثباتات عديدة أن الخلع لا يقع بدون موافقة الزوج.
وحجة الذين يرون إيقاع الخلع جبراً على الزوج، أن الرسول صلى الله عليه وسلم – كما جاء في الحديث – أمر ثابت بن قيس أن يقبل المهر الذي قدمه لزوجته وهو البستان الذي جعله لها مهراً، وأن يطلقها طلقة، في قوله صلى الله عليه وسلم: ” اقبل الحديقة وطلقها تطليقة “.
فادعوا أن الأمر في قوله صلى الله عليه وسلم: “اقبل الحديقة وطلقها تطليقة” يفيد الوجوب، مع أن كبار شراح الحديث يبينون صراحة أن أمر الرسول صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس هو أمر إرشاد واستصلاح وليس أمر على سبيل الوجوب.
يقول ابن حجر العسقلاني، وهو من أشهر علماء الحديث والفقه وأكابرهم في كتابه: فتح الباري بشرح صحيح البخاري عند شرحه لهذا الحديث: ” هو أمر إرشاد وإصلاح لا إيجاب “
ويقول الكرماني وهو أيضاً من أشهر شراح الحديث بعد ذكره لحديث ثابت بن قيس: ” والأمر في طلاقها أمر إرشاد واستصلاح لا أمر إيجاب وإلزام “.
ونجد أبا بكر أحمد بن علي الرازي الجصاص، وهو من كبار المفسرين وأهل الفقه يقول في كتابه ” أحكام القرآن “: ” ولا خلاف بين فقهاء الأمصار في جوازه ( أي الخلع ) دون السلطان، وكتاب الله يوجب جوازه، وهو قوله تعالى: (فلا جناح عليهما فيما افتدت به)
وقال تعالى: (ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة) فأباح الأخذ منها بتراضيها من غير سلطان، وقول النبي صلى الله عليه وسلم لامرأة ثابت بن قيس أتردين عليه حديقته؟ فقالت: نعم فقال للزوج: خذها وفارقها يدل على ذلك أيضاً، لأنه لو كان الخلع إلى السلطان شاء الزوجان أو أبيا إذا علم أنهما لا يقيمان حدود الله لم يسألها النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك ولا خاطب الزوج بقوله: اخلعها، بل كان يخلعها منه، ويرد عليه حديقته وإن أبيا، أو واحد منهما، كما لما كانت فرقة المتلاعنين إلى الحاكم لم يقل للملاعن: خل سبيلها، بل فرق بينهما، كما روى سهل بن سعد أن النبي صلى الله عليه وسلم فرق بين المتلاعنين، كما قال في حديث آخر، لا سبيل لك عليها، ولم يرجع ذلك إلى الزوج، فثبت بذلك جواز الخلع دون السلطان “.
فمن هذا الكلام للإمام الجصاص – وهو أحد أشهر كبار مفسري القرآن، وكبار الفقهاء يبين بصريح العبارة أنه لا يجوز للحاكم أن يفرض الخلع على أحد الزوجين أو كليهما، فلا يجوز أن يفرض جبراً لا على المرأة ولا على الرجل، بل لا بد فيه من الرضا الحقيقي الكامل من الطرفين وبين هذا المفسر الكبير أنه لو كان من حق الحاكم أن يفرض الخلع على الزوجين أو أحدهما لما سأل النبي صلى الله عليه وسلم امرأة ثابت بن قيس: أتردين
عليه حديقته؟ ولما طلب من الزوج أن يخالعها، بل كان صلى الله عليه وسلم هو الذي يخلعها من زوجها فيطلقها، لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الذي يخلعها من زوجها فيطلقها، لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم بجانب كونه رسولاً كان حاكماً وقاضياً، فلو كان من حق القاضي أن يخلع الزوجة جبراً على الزوجين أو أحدهما لطلقها رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسه، ورد على الزوج المهر الذي كان قد دفعه إلى زوجته وهو الحديقة، كما فعل الرسول صلى الله عليه وسلم في شأن المتلاعنين الذين تلاعنا أمامه، فقد فرق عليه الصلاة والسلام بينهما، ولم يأخذ فيها رأي الزوجين، لأن الفرقة بين المتلاعنين لا يؤخذ فيها رأي الزوجين لا المرأة ولا الرجل، وإنما التفريق بينهما من اختصاص الحاكم وحده ولهذا لم يقل الرسول صلى الله عليه وسلم للرجل الذي لاعن من زوجته: خل سبيلها، بل قام هو عليه الصلاة والسلام بالتفريق بين المتلاعنين.
وقال للزوج: لا سبيل لك عليها، أي لا علاقة زوجية بينكما الآن، ولم يجعل أمر الفرقة بين المتلاعنين راجعاً إلى إرادة الزوج.
الإجابۃ
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فليس صحيحاً أننا نقول بأنّ الخلع لا يشترط له موافقة الزوج، وإنما الذي في الفتاوى أنّ الأصل ألا يتم الخلع إلا بموافقة الزوجين، لكن في حال تضرر الزوجة من البقاء مع زوجها وامتناع الزوج من مخالعتها يجوز حينئذ للقاضي أن يحكم بالخلع ولو لم يرض الزوج، وانظر في ذلك الفتاوى التالية أرقامها: 105875 ، 20609 ، 126259.
وهذه المسألة مختلف فيها بين العلماء و أكثرهم على عدم جواز خلع القاضي دون رضا الزوج وبعضهم يقول بجواز ذلك، وهو الذي رجحّه الشيخ ابن باز والشيخ ابن عثيمين (رحمهما الله).
قال الشيخ ابن باز: مثل هذه المرأة يجب التفريق بينها وبين زوجها المشار إليه ، إذا دفعت إليه جهازه ؛ لقول النبي – صلى الله عليه وسلم – لثابت بن قيس لما أبغضته زوجته وطلبت فراقه ، وسمحت برد حديقته إليه : « اقبل الحديقة وطلقها تطليقة ». رواه البخاري في صحيحه ، ولأن بقاءها في عصمته ، والحال ما ذكر يسبب عليها أضرارا كثيرة ، وقد قال النبي – صلى الله عليه وسلم – : « لا ضرر ولا ضرار » ، ولأن الشريعة جاءت بتحصيل المصالح وتكميلها وتعطيل المفاسد وتقليلها ، ولا ريب أن بقاء مثل هذه المرأة في عصمة زوجها المذكور من جملة المفاسد التي يجب تعطيلها وإزالتها والقضاء عليها ، وإذا امتنع الزوج عن الحضور مع المرأة المذكورة إلى المحكمة وجب على الحاكم فسخها من عصمته ، إذا طلبت ذلك وردت عليه جهازه للحديثين السابقين وللمعنى الذي جاءت به الشريعة واستقر من قواعدها. اهـ من مجموع فتاوى ابن باز.
وقال الشيخ ابن عثيمين: لو أننا ما تمكنا من الجمع بين الزوجين بأي حال من الأحوال، فأبى أن يطلق، وأبت هي أن تبقى عنده، فذهب بعض أهل العلم إلى وجوب الخلع حينئذ بشرط أن ترد عليه المهر كاملاً، ذهب إلى هذا بعض علماء الحنابلة، وشيخ الإسلام ـ رحمه الله ـ يقول عنه تلميذه ابن مفلح: إن شيخنا اختلف كلامه في هذه الصورة، هل يجب الخلع أو لا؟ مع أن بعض علماء الحنابلة صرح بوجوب الخلع والإلزام به، واستدلوا بأن الرسول صلّى الله عليه وسلّم قال لثابت ـ رضي الله عنه ـ: «خذ الحديقة وطلقها» ، وقالوا: الأمر للوجوب؛ ولأنه لا سبيل إلى فك هذا النزاع والشقاق إلا بهذا الطريق، وفك النزاع والشقاق بين المسلمين أمر واجب، وما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب، وهذا القول هو الصحيح؛ لأنه لا مضرة عليه، فماله قد جاءه، وبقاؤهما هكذا، هي معلقة لا يمكن أن تتزوج، وهو كذلك غير موفق في هذا النكاح لا ينبغي.. اهـ من الشرح الممتع على زاد المستقنع.
والله أعلم.
174662: هل للقاضي أن يحكم للزوجة بالخلع مع غياب الزوج عن حضور جلسات المحكمة ؟
السؤال:
لقد كنت مرتبطاً بفتاة ما ( كان نكاحا وليست مجرد خطبة ) في عام 2003 ، وكان أخي الأكبر مرتبطاً بأختها الكبرى أيضا ، وفي عام 2005 تزوج أخي من أختها ، ولكن بعد فترة وجيزة من الزواج انفصلا ، وهو ما أدى إلى انفصال عائلتها عني ، حتى خطيبتي ظلمتني ، بالرغم من أنني لم أرتكب ظلما ضدها منذ أن ارتبطت بها ، كنا أنا وهي نعيش في نفس المدينة ، وقد رفع والدها قضية ” خلع ” ضدي في المحكمة ، وقد تسلمت الإشعار ولكنني لم أظهر في المحكمة بسبب دعاوى باطلة أقاموها ضدي ، بعد ذلك لم تشعرني المحكمة بأي جديد ولا أدري إن كانت المحكمة قد استجابت لدعواهم أم لا ، وقد ارتبطت هي الآن بشخص آخر مدَّعين أن المحكمة قد حكمت لهم وأقرت الخلع ، ولكنها وفي نفس الوقت لم تعطني مالاً مقابل هذا الخلع ، وأنا لم أقل من طرفي إنني طلقتها أو انفصلت عنها أو أي شيء يفيد الانفصال ، هل هذا الخلع جائز ؟ وهل يجوز لها الزواج من غيري في مثل هذه الملابسات أم أن النكاح لا يزال قائماً ؟ .
تم النشر بتاريخ: 2011-11-22
الجواب :
الحمد لله
أولاً:
لا يجوز لأهل الزوجة التفريق بينها وبين زوجها بغير داع قوي يدعوهم لذلك ، والملاحظ عند كثير من الناس الصبر على زوج ابنتهم عندما يتغير حاله للأسوأ وعندما تكثر معاصيه بل بعضهم يترك الصلاة ويسب الدين وتجد أهل الزوجة يصبرونها على البقاء في بيتها ! فإذا ما تزوج عليها أو طلق أخوه ابنتهم الأخرى رأيت منهم المبادرة للتفريق بينها وبينه ورأيت منهم العنف والسوء في تعاملهم وأخلاقهم معه .
ثانياً:
لا يحل للزوجة أن تترك بيت الزوجية إلا بإذن زوجها ، وقد حرَّم الله تعالى الخروج من بيتها إذا طلقها زوجها طلاقاً رجعيّاً فكيف أن تخرج وهي غير مطلقة ؟! .
ولتعلم الزوجة أنه لا يحل لها طلب الطلاق ولا طلب الخلع من غير بأس ، وقد ورد في السنَّة الوعيد على الأمرين ، والفرق بينهما أن طلاقها تأخذ معه حقوقها ، وخلعها تدفع لزوجها مهره أو تسقط عنه حقوقاً لها ، ولا بأس بطلب الطلاق إذا كان الزوج يضربها أو يشتمها أو يشتم أهلها أو يكون مرتكباً لكبائر ، بل قد يجب عليها ذلك إذا كانت تخشى من معاصيه أن تؤثر على دينها وعلى أولادها كشربه للخمر أو تعاطيه للمخدرات ، ولا بأس من طلب الخلع إذا كرهت أخلاقه كاتصافه بالشدة والحدة وسرعة التأثر وكثرة الغضب ، أو كان ذلك بسبب خِلْقته ، أو كبَره ، أو ضعفه .
وعليه : فإذا كان طلب الزوجة المخالعة لأجل تطليق أخيك لأختها : فهو سبب غير شرعي ، ولا يبيح لها ذلك ، وأما إذا كان ثمة أشياء أخرى فالمرجع في تحديد الصواب والخطأ هو القاضي الشرعي الذي يستمع لدعواها .
ثالثاً:
فإذا تحقق ما يدعو الزوجة لطلب الخلع ورفعت أمرها للقاضي الشرعي فهل يجب على الزوج إجابة طلبها وتطليقها ؟ ذهب أكثر أهل العلم إلى أنه لا يجب على الزوج ذلك ، وإنما يستحب له إجابتها وقبول ما تبذله له أو تسقطه عنه ليسرحها ، وذهب بعض أهل العلم إلى وجوب إجابة طلبها ، وهو قول عند الحنابلة ، وهو أحد قولي شيخ الإسلام ابن تيمية ، ورجحه الشوكاني ، ويتعين القول بالوجوب حيث يُخشى على المرأة في دينها أو نفسها إن هي بقيت في عصمته ، وهو قول الشيخين ابن باز وابن عثيمين رحمهما الله .
قال الشيخ محمد بن صالح العثيمين – رحمه الله – : ” هل للزوجة أن تطلب الخلع أَوْ لَا ؟ فالجواب : إن كان لسبب شرعي ولا يمكنها المُقَام مع الزوج : فلها ذلك ، وإن كان لغير سبب : فليس لها ذلك ، مثال ذلك : امرأة كرهت عشرة زوجها إما لسوء منظره أو لكونه سيئ الخلق أو لكونه ضعيف الدين أو لكونه فاتراً دائماً ، المهم أنه لسبب تنقص به العشرة : فلها أن تطلب الخلع ، ولهذا قالت امرأة ثابت بن قيس بن شماس رضي الله عنهما للنبي صلّى الله عليه وسلّم : يا رسول الله ! ثابت بن قيس لا أعيب عليه في خُلُق ولا دِين – فهو مستقيم الدين ، مستقيم الخلق – ولكني أكره الكفر في الإسلام – تعني بالكفر : عدم القيام بواجب الزوج – فقال لها النبي صلّى الله عليه وسلّم ( أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ) – والحديقة هي المهر ، حيث كان قد أمهرها بستاناً – فقالت : نعم ، فقال النبي صلّى الله عليه وسلّم لثابت ( خُذ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا ) فأخذها وطلقها – رواه البخاري – .
الشاهد من هذا الحديث أنها قالت ” لا أعيب عليه في خلق ولا دين ” .
وعلى هذا ، فإذا كان الزوج قليل شهود الجماعة في الصلاة ، أو قليل الصلاة ، أو عاقّاً لوالديه ، أو يتعامل بالربا ، وما أشبه ذلك : فللزوجة أن تطلب الخلع لكراهتها دينه .
وإذا وصلت بها الحال إلى ما وصلت إليه امرأة ثابت رضي الله عنهما وطلبت الخلع : فهل يُلزم الزوج بالخلع أو لا يلزم ؟ لا شك أنه يستحب للزوج أن يوافق ، وهو خير له في حاله ومستقبله ، لقوله تعالى ( وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلاًّ مِنْ سَعَتِهِ ) النساء/ 130 ، لكن إذا أبى وعُرض عليه مهره فقيل له : نعطيك المهر كاملاً ، فهل يُلزَم بذلك أو لا ؟ اختلف العلماء رحمهم الله في هذه المسألة ، فأكثرهم يقول : لا يُلزَم ، فهو زوج وبيده الأمر ، والقول الراجح : أنه يُلزَم إذا قالت الزوجة : أنا لا مانع عندي ، أعطيه مهره ، وإن شاء أعطيته أكثر ؛ لأن بقاءها معه على هذه الحال شقاء له ولها ، وتفرق ، والشارع يمنع كل ما يحدث البغضاء والعداوة ، فالبيع على بيع المسلم حرام لئلا يحدث العداوة ، فكيف بهذا ؟! فيلزم الزوج أن يطلق ، وحديث ثابت رضي الله عنه يدل عليه ؛ لأن النبي صلّى الله عليه وسلّم قال : ( خُذ الحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا ) ، والأصل في الأمر الوجوب ، وقول الجمهور : إن هذا للإرشاد فيه نظر .
والقول بالوجوب هو الراجح ، يقول في الفروع : ” إنه ألزم به بعض القضاة في عهده ” ، وهؤلاء الذين ألزموا به وُفِّقوا للصواب ” انتهى من ” الشرح الممتع ” ( 12 / 451 – 454 ) باختصار .
وفي هذه الحال إذا رفض الزوج طلب الخلع من زوجته : فإن القاضي يجبره عليه ، والذي يظهر لنا أن عدم حضورك للمحكمة هو ما جعل القاضي يتمم الخلع الذي تقدمت به زوجتك ، والقاضي معذور في حال أنه طلب حضورك ليستمع منك وأنت رفضت الذهاب لإسماعه دعواك ولردك على دعوى زوجتك ، وأما حقوقك فلعلك إذا راجعت المحكمة أن تجدها هناك في انتظارك.
سئل الشيخ عبد العزيز بن باز – رحمه الله – :
امرأة تزوجت ابن عمها ، ولم يكتب الله في قلبها له مودة ، وقد خرجت من بيته منذ ثلاث عشرة سنة ، وحاولت منه الطلاق ، أو المخالعة ، أو الحضور معه إلى المحكمة : فلم يرض بذلك ، وهي تبغضه بغضاً كثيراً ، تفضِّل معه الموت على الرجوع إليه ، وقد أسقطت نفسها من السطح لما أراد أهلها الإصلاح بينها وبينه ، فما الحكم ؟ .
فأجاب : ” مِثل هذه المرأة يجب التفريق بينها وبين زوجها المشار إليه ، إذا دفعت إليه جهازه ؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم لثابت بن قيس لما أبغضته زوجته وطلبت فراقه ، وسمحت برد حديقته إليه : ( اقبل الحديقة وطلِّقها تطليقة ) رواه البخاري في صحيحه ؛ ولأن بقاءها في عصمته والحال ما ذكر : يسبِّب عليها أضراراً كثيرة ، وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم ( لاَ ضَرَر وَلاَ ضِرَار ) – رواه ابن ماجه بإسناد حسن – ؛ ولأن الشريعة جاءت بتحصيل المصالح وتكميلها ، وتعطيل المفاسد وتقليلها ، ولا ريب أن بقاء مثل هذه المرأة في عصمة زوجها المذكور من جملة المفاسد التي يجب تعطيلها وإزالتها والقضاء عليها .
وإذا امتنع الزوج عن الحضور مع المرأة المذكورة إلى المحكمة : وجب على الحاكم فسخها من عصمته ، إذا طلبت ذلك ، وردَّت عليه جهازه ؛ للحديثين السابقين ؛ وللمعنى الذي جاءت به الشريعة ، واستقر من قواعدها ، وأسأل الله أن يوفق قضاة المسلمين ؛ لما فيه صلاح العباد والبلاد ؛ ولما فيه ردع الظالم من ظلمه ، ورحمة المظلوم وتمكينه من حقه ، وقد قال الله سبحانه : ( وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ وَكَانَ اللَّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا ) النساء/ 130 ” انتهى من ” فتاوى الشيخ ابن باز ” ( 21 / 259 ) .
والخلاصة :
أن مطالبة زوجتك بالخلع قد يكون له وجه حق ، وقد لا يكون ، وإنما يُعرف ذلك بعد استماع القاضي الشرعي لقضيتكما ؛ فإذا نظر القاضي في الأمر ، ورأى فسخ النكاح ، فله ذلك ؛ فإن أبى الزوج قبول الخلع ، أو لم يحضر مجلس الحكم : فللقاضي أن يحكم به بغيابه ، ويُنفذ طلبها على أن ترجع ما دفعه لها من مهر ، وتُسقط عنه المطالبة بالباقي منه ، ولها أن تتزوج بعد حكم القاضي بعد انتهاء عدتها ، وهي حيضة واحدة على الصحيح من أقوال العلماء ؛ إلا أن يكون المعمول به – قضاء – في تلك البلاد أن عدتها ثلاث حيض ، فيلزمها أن تمكث ثلاث حيض ، قبل أن تنكح غيره .
والله أعلم
خلاصہ بحث
اسلام دین فطرت ہے مرد کو حقوق دیے ہیں تو عورت کو بھی دیے ہیں اور خلع عورت کا وہ حق ہے جو اسے مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے۔ مرد تو اپنا حق طلاق ایسے موقعوں پر استعمال کرلیتا ہے جب وہ اپنی بیوی سے ناخوش ہو۔ لیکن اگر عورت کو ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ خاوند سے گلو خلاصی کرانا چاہے، مثلاً شوہر نامرد ہو، وہ حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان نفقہ دینے پر قادر نہ ہو یا قادر تو ہو لیکن دیتا نہ ہو، یا کسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا علم عورت کو شادی کے بعد ہو، یا وہ سخت ظالم و جابر قسم کا ہو جو عورت پر بے جا ظلم و تشدد کرتا ہو، یا شکل و صورت کے اعتبار سے عورت کے لئے ناقابل برداشت اور اس کا اس کے ساتھ نباہ مشکل ہو؛ اس قسم کی تمام صورتوں میں شریعت نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ شوہر کا دیا ہوا حق مہر اُس کو واپس کرکے اس سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر شوہر عورت کی خواہش او رمطالبے پر اُس کو طلاق دے دے تو ٹھیک ہے، مسئلہ نہایت آسانی سے گھر کے اندر ہی حل ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر مرد مذکورہ معقول وجوہات کے باوجود عورت کی خواہش او رمطالبے کو تسلیم نہ کرے، تو پھر عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس مسئلے کو حل کیا جائے گا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ عورت کا مطالبۂ علیحدگی بالکل جائز ہے تو وہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے گا، اگر وہ پھر بھی طلاق نہ دے تو عدالت یا پنچایت فسخ نکاح کا حکم جاری کرے گی جو مرد کے طلاق کے قائم مقام ہوجائے گا او رعورت عدتِ خلع (ایک حیض) گزارنے کے بعد کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہوگی۔یہ ہے خلع کا وہ طریقہ جو قرآن کریم کی آیت :﴿فَإِن خِفتُم أَلّا يُقيما حُدودَ اللَّهِ ﴾… اور حدیث میں مذکور واقعہ حضرت ثابت بن قیس سے ثابت ہے۔
﴿فَإِن خِفتُم﴾ (پس اگر تم ڈرو…) میں خطاب خاندان کے اولیا(ذمّے داران) معاشرے کے معزز افراد یا حکومت کے افسرانِ مجاز(عدالتی حُکام) سے ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان پیدا ہونے والا نزاع، اُن کی آپس کی بات چیت سے ختم نہ ہوسکے تو تم مداخلت کرکے اس کو حل کرو اور عورت سے فدیہ (حق مہر) لے کر مرد کو دو اور اس سے طلاق دلواؤ، اگر وہ طلاق نہ دے تو تم فسخ نکاح کا آرڈر جاری کرکے اُن کے درمیان علیحدگی کروا دو۔
حدیث سے بھی اسی بات کا اثبات ہوتا ہے، حضرت ثابت بن قیس خوش شکل نہ تھے جب کہ اُن کی بیوی خوبرو تھی، اُنہوں نے بارگاہِ رسالت میں آکر نہایت مناسب الفاظ میں اس بات کو بیان کیا او رکہا کہ میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق کے بارے میں تو اُن کو معتوب نہیں کرتی لیکن ان کے ساتھ رہنے میں مجھے ناشکری کا اندیشہ ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے اس کی بات سن کر صورتِ حال کا اندازہ کرلیا او راس سے پوچھا: کیا تو ثابت بن قیس کو وہ باغ واپس کرنے پر آمادہ ہے جو اس نے تجھے (حق مہر میں) دیا تھا؟ اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا: اس سے اپنا باغ لے لو اور اس کو طلاق دے دو، چنانچہ اُنہوں نے طلاق دے دی۔ (یہ واقعہ احادیث کی ساری کتابوں میں موجود ہے)رسول اللّٰہﷺ کا حضرت ثابت کو طلاق کا حکم دینا ایک حاکم کے طور پر تھا اور ظاہر بات ہے کہ خاندانی معاملات و نزاعات میں عدالت یا پنچائیت کی مداخلت ناگزیر ہے، اگر عدالت کو یہ حق نہیں دیا جائے گا یا اُس کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جائے گا تو پھر ان نزاعات کا حل آخر کس طرح نکالا جائے گا؟ اور جب حل نہیں نکلے گا تو ہوسکتا ہے عورت ایسا اقدام کر بیٹھے جو شریعت میں اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو مثلا جب اس کو خلع نہیں مل رہا ہو تو ہوسکتا ہے وہ نعوذ باللہ من ذلک صرف اس جدائی کے لیے وہ مرتد ہوجائے تاکہ اس شوہر سے اس کی جان چھوٹ جائے یا پھر اپنے آپ کو مار دے یا کسی اور سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرے جب کہ یہ شوہر اس کی خواہش پوری نہ کررہا ہو بھرحال اس طرح کے بہت سارے خرافات اور بھی ہیں جن تک عورت پہنچنے کا خدشہ رہتا ہے لہذا اس طرح کے فتاوٰی دینا کہ یہ خلع خلاف شریعت عمل ہے اور اس عدالتی تفریق سے میاں بیوی کے رشتے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور عورت کا کہیں اور نکاح کرنا درست نہیں ہے یہ رجحان درست نہیں ۔ اور دوسری طرف پھر ایک رجحان اور بھی ہے یہ کہ خلع مطلقا جائز ہے کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کے حقوق شریعت کے مطابق سر انجام نہیں دے سکتے اور عدالت زوجین کے درمیان خلع کا فیصلہ کر دے تو فیصلے کے بعد بطور قضاے قاضی خلع متحقق ہوجائے گا ، خواہ خاوند کی رضامندی شامل ہو یا نہ ہو ۔ اصولی طور پر عدالت میں آکر بیوی کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ مجھے اس خاوند سے اس قدر بغض اور نفرت ہے کہ میرا اس کے ساتھ رہنا اب ناممکن ہے ۔ اس طرح کے فتاوٰی کا رجحان زیادہ تر عرب ممالک اور پاکستان میں مولانا ابوالأعلٰی مودودیؒ اور اہل حدیث مراکز افتا کا ہے جس طرح اوپر ذکر کئے گئے فتاوٰی سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے ۔
بہرحال اس رائے کو بھی ہم مطلق طور پر نہیں لے سکتے کہ عورت کا صرف عدالت میں آکر کہہ دینا کافی ہے کہ وہ اس نفرت کرتی اور اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور عدالت اس کو خلع کی ڈگری دے دیتی ہے اور اس میں بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ عورت جب عدالت میں جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میں خلع لینا چاہتی ہوں تو عدالت اس سے کہتی ہے کہ اپنے شوہر کا ایڈریس دیں تاکہ اس کو حاضر ہونے کےلیے بلایا جائے پھر وہ عورت ایڈریس غلط دے دیتی ہے یا پھر اس کا شوہر ادھر اس ملک سے ہی باہر ہوتا ہے کہ اس کو حاضر ہونے کی اطلاع مل سکے اور دو تین بار اس کے شوہرکو حاضر ہونے کے لیے خطوط بھیجے جاتے ہیں اس کا شوہر ادھر ہوتو حاضر ہو یا اس کو اطلاع ملے تو حاضر ہو پھر یہ ہوتا ہے کہ اس کی عدم حاضری کی وجہ سے خلع کا فیصلہ یکطرفہ عورت کو ہی دیا جاتا ہے حتٰی کہ اس کے شوہر کو پتہ تک نہیں ہوتا ۔ یہ رجحان دراصل صحیح ہے لیکن اس کے طریقہ کار کوتھوڑا سا تبدیل کیا جائے کہ عدالت کو پاپند کیا جائے کہ وہ شوہر کی طرف سے بھی حکم بنائے اور عورت کی طرف سے بھی حکم بنائے اور ان حکم کو عدالت پابند کرے کہ وہ ان میاں بیوی درمیان صلح کرادیں وہ حکم اپنی طرف سے بھرپور کوشش کریں اور عدالت اس کا جائزہ بھی لے پھر عدالت اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ اب ان کے درمیان اب صلح ممکن نہیں اور شوہر طلاق بھی نہیں دے رہا تب عدالت شوہر کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کر سکتی ہے ۔
سفارشات اور تجاویز
- علماے کرام کی ایک جماعت بنانی چاہیے
ان کا کام یہ ہو کہ عدالتی خلع کا طریقہ کار کی مکمل کاروائی دیکھیں پھر اس میں جو خرابیاں ہوں ان کو نوٹ کرکے پھر اس کا شرعی حل نکالیں جس میں میاں بیوی کے لیے بھی کوئی ضرر نہ ہو اور شریعت کے خلاف بھی کوئی عمل نہ ہو۔ اور یہ علما ایسے ہوں جن کو پانچوں ہی فقہی احکامات پر عبور حاصل ہو یا ہر فقہ میں سے کچھ علما کا انتخاب کیا جائے ۔ - ججز اور وکلاء کے لیے اس طرح کے فقہی سیمینار اور کانفرنس منعقد کروائی جائیں ۔
تاکہ ان کو بھی پتہ چلے کہ فقہی اور شرعی نقطہ نظر سے اس طرح کے معاملا ت کو کس طرح سے حل کیا جائے صرف محض قانون کو دیکھ کر فیصلے نہ سنا ئے جائے جوشرعی قوانین سے متصادم ہو اور وکیل حضرات صرف پیسوں کی لالچ میں کسی کا گھر اور خاندان الگ کروانا ان کا کام اور پیشہ نہ ہو۔ - بے جا خلع لینے والی عورتوں کے لیے مالی سزا مقرر کرنی چاہیے۔
وہ عورتیں جو صرف تھوڑی سی ناراضگی جو عموما میاں بیوی کے درمیاں ہوتی رہتی ہیں یا بغیر کسی وجہ خلع لے رہی ہیں اور خلع لینے پر مصر ہیں ان کے لیے مالی سزا مقرر ہونی چاہیے تاکہ اس بڑھتے ہوئے فیشنی خلع کی ڈگری کو کسی حد تک قابو کیا جاسکے کیونکہ شریعت کا مقصد ہی یہی کہ حتی الامکان کوشش یہ ہوکہ خاندان آپس میں جڑے رہیں ٹوٹیں نہیں۔ - ملٹی میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے بے جا خلع لینے والی عورتوں کے لیے اصلاحی پروگرامات بنائے جائیں ۔
آج کے اس دور کی ایجادات سے بھی ہمیں فائدہ اٹھا کراس کے ذریعے ان عورتوں کے لیے اصلاحی پروگرامات کروائیں جائیں جو بے جا خلع لے رہی ہیں یا تھوڑی سی ان بن پر عدالت آجاتی ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد پچھتاتی ہیں کہ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے اور ان پروگرامات کے ذریعے سے بے جا خلع لینے کی مذمت میں بیان کی گئی احادیث کا ذکر بھی کیا جائے شاید کسی کی دل میں بات بیٹھ جائے۔ - عدالتی خلع میں اور بھی بہت ساری مباحث ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے اس مقالے میں صرف عدالتی خلع میں شوہر کی رضامندی شرعی ملکی قونین کاصرف جائزہ لیا گیا وقت کی قلت کی وجہ سے اس پر تقابلی جائزہ نہیں ہوسکا ہے ۔ تقابلی جائزہ کے لیے یہ موضوع بھی ہے اور اس طرح کے اور بھی عنوان ہیں جن پر تقابلی جائزہ لیا جا سکتا ہے مثلا ۔ نان ونفقہ کی وجہ سے تفریق ، جس شخص کی کوئی خبر نہ ہو، یا اس شخص کو عمر قید کی سزا ملی ہے اب اس کی بیوی کے خلع کا شرعی اور ملکی قوانین کا تقابلی جائزہ ، اور اس مختلف عیوب کی وجہ سے جو تفریق ہوتی ہے اور ایلاء کی وجہ سے ہونے والی تفریق ، ظہار کی وجہ سے ہونے والی تفریق ، لعان کی وجہ سے ہونے والی تفریق کا شرعی اور ملکی قوانین کا تقابلی جائزہ کا وسیع وعریض میدان ہے جس پر بہت سارے مقالے لکھے جا سکتے ہیں ۔