مقدمہ:
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی اشرف الخلق والمرسلین وعلی آلہ و اصحابہ وسلم تسلیماً کثیرا،وبعد:
سب تعریفات اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہیں جو اس کائنات کا خالق بھی ہے اور مالک بھی ہے،ہم بھی اسی رب سے مدد مانگتے ہیں اور اسی رب سے استغفار کرتے ہیں اور اسی سے ہی گناہوں کی بخشش کی امید کرتے ہیں۔ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں شیطان کی بری چالوں سے بچائے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے وہی ہدایت پر ہے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور جس کو خود اللہ تعالیٰ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمدﷺ اس کے رسول ہیں۔آپﷺ اور آپﷺ کے تابعین پر لاکھوں سلام ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرامؑ کومبعوث فرمایا تاکہ مخلوق کواللہ کےدین کی طرف بلائیں اورمعاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسومات کی اصلاح کریں،اسی مشن کی تکمیل کے لیے حضرت محمدﷺ مبعوث ہوئے ،آپﷺ کی بعثت کے وقت لوگ جاہلانہ رسومات کا شکار تھے ،آپ ﷺ نے ایسی رسومات کو ختم کیا جو شرعی اصولوں کی مخالف تھیں اور ان کو باقی رکھا جو اسلام کے قانون پر پورا اتر رہی تھیں،لیکن کچھ ایسی رسومات تھیں جن میں اسلام کی کچھ جھلک نظر آرہی تھی ان کو جزوی طور پر باقی رکھا گیا۔
دور جدید میں بھی چند ایسی رسومات نے جنم لیا ہے جو اسلام کے قوانین کے یا تو بالکل مخالف ہیں یا کسی نہ کسی طرح اس کے اصولوں سے ٹکراتی ہیں اور اس کے باوجود بھی لوگ ان پر عمل پیرا ہیں اور اسی خرابی کی وجہ سے اس تحقیقی موضوع کاانتخاب کیا گیاہے تاکہ ان رسومات کی شرعی حیثیت معلوم کرکے عوام الناس کو اس بات کی تعلیم دی جائےکہ یہ رسومات کس حد تک جائز اور کس حد تک شریعت کے مخالف ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ایسی رسومات سے بچائے جو کہ شریعت کی مخالف ہیں ۔ اٰمین یا رب العالمین۔
اہمیت و ضرورت:
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عرف و عادت کو فقہ کے مصادر میں سے ایک مصدر سمجھا جاتا ہے اور اس پر بھی کئی احکامات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں:جس چیز کو لوگ اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھی ہے،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ما رأى المسلمون حسناً فهو عند الله حسنٌ ۔اس کے علاوہ رسول اللہﷺ نے زمانۂ بعثت سے پہلے عربوں میں بعض معاملات کے متعلق جو طریقہ رائج تھا اس کو باقی رکھا۔
آج کل بھی معاشرے میں بہت سارے ایسے احکامات پائے جاتے ہیں جن کا دارومدار عرف اور عادت پر ہے اور ان میں سے کچھ شریعت کے مطابق ہیں اور کچھ کو شریعت اسلامی تسلیم نہیں کرتی۔لیکن سندھ میں نکاح سے متعلق چند ایسے عرف وعادات اور رسومات پائی جاتی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں الجھن موجود ہے کہ یہ رسومات شریعت کے موافق ہیں یا شریعت کے مخالف ہیں۔او رکچھ ایسی بھی نکاح سے متعلق رسومات ہیں جن پر لوگ آباء واجداد کے عمل کرنے کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہیں لیکن ان میں غالب پہلو شریعت کی مخالفت کا ہو تا ہے،خاص طور پر سندھ میں ایسی رسوماتِ نکاح ہیں جو شریعت کے عام اصولوں کے مخالف ہیں اور لوگ ان پربغیر کسی جھجھک کے عمل پیرا ہیں،ان رسومات میں فضول خرچی کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ شریعت کے قوانین کی کھلے عام مخالفت کی جاتی ہے،ان رسوماتِ نکاح میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تباین نہیں پایا جاتا،بلکہ مرد اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے،ان رسومات میں عورتیں پردے کا خیال نہیں رکھتیں بغیر پردے مردوں کے درمیان گھومتی ہیں،غریب ہو یا امیر ان رسومات کو غلط طریقے سے انجام دیے بغیر اپنے کام انجام نہیں دیتا،اگر کوئی شخص ان رسومات کو غلط سمجھ کر نہ کرنے کا ارداہ کرتا ہے تو لوگ اس کو طعن دیتے ہیں اور اپنی برادری سے خارج کردیتے ہیں،جو لوگ غریب ہوتے ہیں وہ عام طور پر سودی قرضہ لے کر ان رسومات کو ادا کرتے ہیں اور پھر ساری عمر ان سودی قرضوں کو ادا کرنے میں ختم کر دیتے ہیں۔
لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ اگر ان رسومات کو نہ کیا جائے تو ان کے ادا کیے ہوئے کام پورے نہیں ہوتے،مثلاً:نکاح کے موقع پر اگر مایوں بٹھانے کی رسم نہ کی جائے تو نکاح جیسا کام پورا نہیں ہوتا۔
کچھ ایسی بھی رسومات ہیں جن کی وجہ سے عورت رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بغیر ہی معاشرے کی نظر میں بیوہ بن جاتی ہے جو واضح طور پر اسلام کے مخالف اور عورت پر زیادتی ہے۔
اس تحقیقی تحریرکا مقصد لوگوں اور معاشرے کی تربیت اور اصلاح ہے تاکہ ان فضول رسومات میں وقت اور پیسہ صرف کرنے کے علاوہ کسی اچھے کام میں صرف کیا جائے اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناراضگی کو مول نہ لیا جائے اور شرعی اصولوں کی پاسداری کی جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے اور ان غلط رسومات سے بچائے۔اٰمین۔
سابقہ کام کا جائزہ:
رسومات نکاح کا موضوع اس دور میں خاصی اہمیت کا حامل ہے اس پر اس دور کے چند علما اور فقہا نے قلم اٹھایا ہے لیکن اس موضوع کی اہمیت کے لحاظ سے یہ کتابیں کافی نہیں اور نہ ان میںرسومات کا پورا احاطہ کیا گیا ہے،اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے ۔اس موضوع پر لکھی گئی چند کتابیں اور ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
1۔رسم نکاح اور شریعت کی مخالفت:
یہ کتاب علامہ عبدالعزیز بن باز اور محمد بن صالح العثیمین کے فتاوی جوکہ رسوماتِ نکاح کے متعلق ہیں ان کو محمد اخترصدیق(فاضل مدینہ یونیورسٹی)نے اس کتاب میں جمع کیا ہے اور اس کا اردو ترجمہ کیا ہے اور کچھ چیزیں اپنی طرف سے بھی زیادہ کی ہیں یہ کتاب35 صفحات پر مشتمل ہے ،اس میں صرف فتاوی ہی ہیں اس کے علاوہ اور کوئی بحث نہیں کی گئی ہے۔
2۔مسنون نکاح اور شادی بیاہ کی رسومات:
یہ کتاب حافظ صلاح الدین یوسف کی تصنیف ہے،جو کہ 109 صفحات پر مشتمل ہے، اس کے شروع میں رسوماتِ نکاح کے متعلق 25 کے قریب فتاوی موجود ہیں اور اس کے بعد بارات اور موسیقی کی رسم پر تھوڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے،اس کے علاوہ اس میں شادی آرڈیننس کے بارے میں شرعی عدالت کا استفسار اور اس کا جواب مذکور ہے اور آخر میں فضول خرچی سے متعلق رسوماتِ نکاح کا مختصر تذکرہ موجود ہے۔
3۔پاکستانی مسلمانوں کے رسوم رواج:
یہ کتاب شاہد حسین زراقی نے لکھی ہے اس میں انہوں نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان جس میں پنجاب،سندھ،خیبر،ریاست بہاولپور،بلوچستان،قبائلی علاقہ جات اور ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کی رسومات کا ذکر کیا ہے کہ کون کون سی رسومات ان میں پائی جاتی ہیں۔آپ نے اس کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے پہلا حصہ ولادت اور لڑکپن کی رسومات پر،دوسرا نکاح اور شادی کی رسومات اور تیسرا موت کی رسومات کے متعلق ہے۔ اور آخر میں ایسی رسومات کا ذکر کیا ہے جو مذموم ہیں۔اس کتاب میں صرف رسومات کی تفصیل ہے ان کا کوئی شرعی حکم مذکور نہیں ہے۔یہ 290 صفحات پر مشتمل ہے۔
4۔دور نبوت میں شادی بیاہ کے رسم ورواج اور پاکستانی معاشرہ:
یہ کتاب مصنفہ گلریز محمود کی لکھی ہوئی ہے اس میں دور جاہلیت کے نکاح ،نکاح کی مختلف صورتیں،اسلام میں شادی بیاہ کی رسوم اور اسلام میں نکاح کا طریقہ اس کے علاوہ پاکستان میں رائج رسومات نکاح اور آخر میں دور نبوت اور موجودہ دور کے رسم ورواج کا ذکر کیا گیا ہے یہ کتاب تقریباً 300 صفحات پر مشتمل ہے۔
بنیادی سوال:
اس مقالے کا بنیادی سوال یہ ہے کہ نکاح سے متعلق سندھ میں جو رسومات ہیں ان کا شرعی حکم معلوم کیا جائے کہ یہ جائز ہیں یا نہیں؟ اور اگر جائز یا نا جائز ہیں تو کلی طور پر ہیں یا جزوی طور پر ؟
خاکۂ تحقیق:
اس مقالے میں دو باب اورچار فصلیں ہیں،پہلے باب جس کے تحت تین فصلیں ہیں ان میں سے ایک میں رسم ورواج اور عرف و عادت کا تعارف اور اس کی توضیح،دوسری فصل میں دور جہالت اور دینِ اسلام میں نکاح کا طریقہ اورتیسری فصل میں نکاح کا تصور ،مقصد اور اہمیت کا تذکرہ ہے۔
دوسرے باب کے تحت ایک فصل ہے جس میں سندھ میں رائج رسوماتِ نکاح کی عملی شکل اور ان کا شرعی جائزہ ، حکم اورفتاوی کا ذکر ہے۔
آخر میں خلاصۂ بحث ،سفارشات، فہرست آیات ،فہرست احادیث اور کتابیات مذکور ہیں۔
باب اول:ابتدائی مباحث
فصل اول:تعریفات
رسم کی تعریف
لغوی تعریف
‘‘رَسمٌ’’ کا لفظ رَسَمَ یَرسُمُ باب نَصَرَ یَنصُرُسے عربی زبان کا مصدر ہے،اس کی جمع رُسُومٌ ہے اور یہ لفظ درج ذیل معنوں میں استعمال ہوتا ہے:
1۔تصویر،فوٹو 2۔نقاشی،نقشہ 3۔نشان 4۔ بیان احوال 5۔ مروجہ طریقہ و عادت 6۔ڈیزائن 7۔ ٹیکس،محصول،فیس جیسے رسم البرید ڈاک کی فیس،اجرت 8۔کسی چیز کا قلمی خاکہ۔
ان تمام معانی میں واضح،ظاہر اور ثابت ہونا قدرِ مشترک ہے،چونکہ مروجہ طریقہ (رسم)بھی متعلقہ لوگوں کے لیے اس طرح واضح اور غیر مبہم ہوتا ہے جیسے کوئی نقش شدہ چیز واضح ہوتی ہے اسی لیے کسی طور طریقے ،دستور اور ریت کو ‘‘رسم’’ کہتے ہیں۔اگرچہ یہ رسم کے حقیقی نہیں بلکہ التزامی معانی ہیں۔
اردومیں عربی زبان کےالفاظ بکثرت آئے ہیں چنانچہ اردو زبان میں منتقل ہونے کے بعد یہ لفظ نشان،نشان چھوڑنا،کوئی چیز مقرر کرنا،تحریر،نوشت،مذہبی اشعار،طور طریقہ ،ڈھنگ ،چلن،رویہ اور اجرت کی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔
عربی کے لحاظ سے‘‘رسوم’’ رسمٌ کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہیں طور طریقے،ریت رواج او رعام معاملات خواہ اچھے ہوں یا برے،اردو میں برے رواجوں کو رسوم کہتے ہیں مگر یہ لفظ عام ہے اور اچھی اور بری دونوں رسومات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اصطلاحی تعریف
اصطلاحی لحاظ سے رسم کا اطلاق ارتفاقات(آسائش سے زندگی بسر کرنے کی تدبیریں)پر کیا جا تا ہے،لیکن ارتفاقات اور رسم میں تھوڑا فرق پایا جاتا ہے،ارتفاقات معنوی چیزیں ہیں ان کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے اور رسوم افعال ظاہرہ ہیں جو معنویات پر دلالت کرتے ہیں،مثلاً :نکاح ارتفاق کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے اور معنوی چیز ہے اور اس کا طریقہ یعنی ایجاب و قبول ،گواہ،لوگوں کا اجتماع اور دعوت ولیمہ وغیرہ رسوم(ریت و رواج)ہیں جو نکاح پر دلالت کرتے ہیں اور ان کا خارج میں وجود پایا جاتا ہے۔
فقہا اور اصولیین کی اصطلاح میں لفظ‘‘ رسم’’ کا الگ حیثیت کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا بلکہ وہ اس لفظ کو عادت کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں،اس لیے اصطلاحی طور پر جو تعریف آئندہ صفحات میں لفظ ‘‘عادت’’کی کی جائے گی وہی تعریف لفظ ‘‘رسم’’ کی بھی سمجھی جائے۔
رواج کی تعریف
لغوی تعریف
باب نَصَرَ یَنصُرُ سے رواجاً مصدر کا صیغہ ہے جس کے معنیٰ ہیں عام ہونا ،چالو ہونا اور رواج یافتہ۔اس مادے سے لفظ تَرَوّج بھی ہے جس کے معنیٰ ہیں حوض کے ارد گرد گھومنا،اسی وجہ سے اس کو رواج کہا جاتا ہے کیونکہ یہ لوگوں کے معاملات میں ان کے ارد گرد گھومتا ہے۔
اردو زبان میں یہ لفظ رسم،دستور اور معمول کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے ۔
اصطلاحی تعریف
عربی زبان میں اس لفظ کا استعمال شائع وعام نہیں ہے،بلکہ عربی زبان میں یہ لفظ عادت ہی کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے،اسی لیے عادت کی جو تعریف ہے دراصل رواج کی بھی وہی تعریف ہے ۔
عرف کی تعریف
لغوی تعریف
باب ضَرَبَ یَضرِبُ ثلاثی مجرد سے آتا ہے،اس کا مصدر العرف آتا ہےجس کے معنیٰ ہیں جاننا اور پہچاننا اور یہی لفظ رواج کے معنیٰ میں بھی آتا ہے
علاوہ ازیں یہ لفظ مندرجہ ذیل معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے:
1۔عِرفَانٌ اور مَعرِفَۃٌ بھی اس کے مصدر آتے ہیں جس کے معنیٰ بقول امام راغب اصفہانیؒ تفکر اور تدبر کے ساتھ کسی کو جاننے کے ہیں،‘‘المعرفۃ والعرفان ادراک الشیء بتفکر و تدبر’’
2۔اس مادے سے باب افتعال کے وزن پر اعتراف اس کا مصدر آتا ہے جس کے معنی ہیں کسی امر کے جاننے کا اقرار کرنا۔
3۔باب تفعیل سے اس کا مصدر تعریف بھی آتا ہے جس کے معنیٰ تعارف (انٹروڈکشن) کے ہیں۔
4۔اسی مادے سے لفظ‘‘العرّاف’’ بھی آتا ہے جو کہ کاہن کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے،اس کو ‘‘عرّاف’’ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غیبی امور جاننے کا دعویدار ہوتا ہے،چنانچہ حدیث میں ہے:
‘‘مَنْ أَتَى عَرَّافًا أَوْ كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ فِيمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ’’ (جو کسی عراف یا کاہن(جو غیبی علم جاننے کا دعویٰ کرتا ہے) کے پاس آیا اور اس کی بات کی تصدیق بھی کی گویا اس نے آپﷺ پر نازل شدہ احکامات کا انکار کیا۔)
5۔عربی زبان میں سردار کے لیے لفظ‘‘عریف’’ کا استعمال ہوتا ہے کیونکہ وہ قوم کے معاملات،جذبات اور احساسات سے باخبر ہوتا ہے اور یہی معنیٰ نبی کریمﷺ کی اس حدیث کے ہیں:‘‘حملۃ القرآن عرفاء اھل الجنۃ یوم القیامۃ ’’(قرآن کا علم رکھنے والے قیامت کے دن اہل جنت کے سردار ہوں گے۔)
6۔زجاج نحوی کا قول ہے کہ اس مادے سے لفظ ‘‘معروف’’ مشتق ہے جس کے معنیٰ ہیں پسندیدہ افعال:مایستحسن من الافعال ۔کیونکہ ایسے افعال لوگوں کے درمیان جانے پہچانے ہوتے ہیں۔
7۔پہاڑ،ٹیلہ یا زمین کی بلند جگہ کو بھی عرف کہا جاتا ہے،عرف الرمل والجبل والارض (ٹیلے،جبل یا زمین کی بلند جگہ)اس کی جمع اعراف ہے،قرآن میں ہے: ﴿وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ﴾ (بلندیوں پر کچھ لوگ ہوں گے۔)
عرف کی اصطلاحی تعریف
عرف کی اصطلاحی تعریف کے سلسلے میں علماے اصول فقہ کی عبارات اگرچہ مختلف ہیں لیکن ان کا مفہوم تقریباً ایک ہے،ذیل میں چند علماء و فقہا کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ان اقوال کی روشنی میں ‘‘عرف’’ کا ایک جامع اور وسیع مفہوم سامنے آسکے۔
1۔‘‘العرف ھو ما تعارفہ الناس وساروا علیہ من قول او فعل’’(عرف سے مراد وہ طریقہ ہے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہو اور لوگ اس کو قولی و عملی طور پر اپناتے ہوں۔)
2۔‘‘العرف ھو کل ما اعتادہ الناس وساروا علیہ من کل فعل شاع بینھم او قول تعارفوا اطلاقہ علیٰ معنیٰ خاص’’ (عرف ہر وہ چیزہے جس پر لوگ عمل کرنے کے عادی ہوچکے ہوں اور اپنے مروجہ امور میں اس پر عمل پیرا ہوں نیز وہ ہر قول جس کا انہوں نے کسی خاص معنیٰ میں استعمال متعارف کرایا ہو ۔)
3۔‘‘العرف ما اعتادہ الناس من معاملات و استقامت علیھم امورھم’’ (عرف وہ طریقہ ہے جس پر لوگ عمل کرنے کے عادی ہوچکے ہوں اور اس پر ان کے امور قائم ہوں۔)
4۔‘‘العرف ما استقرت النفوس علیہ بشھادۃ العقول و تلقتہ الطبائع بالقبول’’(جوچیز عقل سلیم کے ذریعے لوگوں میں راسخ ہو چکی ہو اور طبائع اسے قبول کرچکے ہوں اس کو عرف کہتے ہیں۔)
5۔‘‘العرف عادۃ جمھور قوم فی قول او عمل’’(قول اور عمل میں عام لوگوں کی عادت اور رواج کو عرف کہا جاتا ہے۔)
الغرض ماہرین فن کی مذکورہ مختلف تعریفات کو مدنظر رکھتے ہوئے بطور خلاصہ عرف کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے:
انسانی معاشرے کے ہر دور میں کسی علاقے کے باشندوں کی اکثریت کا ایسا پسندیدہ طرز عمل جو ان کے درمیان جاری و ساری ہو اور وہ لوگ اس پر عمل کرتے ہوں اور وہ کام اور عمل قرآن و سنت کے خلاف نہ ہو۔
عادت کی تعریف
عربی عبارات میں عموماً لفظ ‘‘عرف’’ کے ساتھ ‘‘عادت’’ کا بھی استعمال ہوتا ہےاسی لیے یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ عرف کے ساتھ لفظ ‘‘عادت’’ کی بھی وضاحت کی جائے۔
لغوی تعریف
عادۃ مصدر ہے باب نَصَرَ یَنصُرُ سے عَوَدَ یَعوُدُ آتا ہے جو تعلیل کے بعد عَادَ یَعُودُ بنا۔اس کے معنیٰ لوٹنے یا دوبارہ آنے کے ہیں قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ﴾ (وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا)
جو کام با ر بار کیا جاتا ہے اس کی عادت پڑ جاتی ہے اسی لیے بار بار کیے جانے والے فعل کو بھی عادت کہا جاتا ہے۔
اسی معنیٰ اور مفہوم کی مطابقت کی وجہ سے ‘‘عید’’ کو بھی عید کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خوشی کا موقع مسلمانوں پر باربار آتا ہے‘‘انما العید ما عاد الیک من الشوق والمرض و نحوہ’’(لوٹ کر آنے والی خوشی یا غم وغیرہ کو عید کہا جاتا ہے)عادت کے معنیٰ طور طریقے کے بھی آتے ہیں‘‘العادۃ بمعنیٰ الدیدن۔’’
عادت کی اصطلاحی تعریف
علم اصول فقہ کے ماہرین نے اس سلسلے میں بہت عبارات تحریر فرمائی ہیں ان میں سے چند منتخب کردہ عبارات کچھ یوں ہیں:
1۔‘‘العادۃ عبارۃ عمّا یستقرّ فی النفوس من الامور المتکررۃ المقبولۃ عند الطّباع السلیمۃ’’(عادت ایسی کیفیت ہے جو کسی عمل کے باربار دہرانے سے نفس میں مرتکز ہوجائے اور سلیم الفطرت طبیعتوں کے لیے قابل قبول ہو)۔
2۔‘‘العادۃ ماخوذۃ من المعاودۃ فھی بتکررھا و معاودتھا مرۃ بعد اخریٰ صارت معروفۃ مستقرہ فی النفوس والعقول ملتقاۃ بالقبول من غیر علاقۃ ولا قرینۃ حتی صارت حقیقۃ’’(عادت کا لفظ معاودۃ(باربار لوٹنا) سے ماخوذ ہے اور باربار کرنے سے ایک فعل جانا پہچانا بن جاتا ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں بغیر کسی علاقہ اور قرینہ کے جاگزین(سکونت اختیار کرنا)ہوکر قابل قبول بن جاتا ہے۔)
3۔‘‘العادۃ اسم لتکریر الفعل والانفعال حتی یصیر ذلک سھلاً تعاطیہ کالطبع ولذلک قیل العاۃ طبیعۃ ثانیۃ’’(فعل یا انفعال کے باربار ہونے کا نام عادت ہے ،یہاں تک کہ طبعی امور کی طرح اس کا انجام دینا آسان ہوجائے اسی لیے عادت کو دوسری طبیعت کہا جاتا ہے۔)
4۔‘‘العادۃ وھی الامر المتکرر ولو من غیر علاقۃ عقلیۃ’’(عقلی تعلق کے علاوہ باربار پیش آنے والا امر عادت ہے۔)
ان سب تعریفات کو مد نظر رکھتے ہوئے عادت کی تعریف کچھ یوں کی جاسکتی ہے:
انسانی معاشرے کے ہر دور میں قولی یا فعلی عادات جن کو باربار کیا جائے یا وہ باربار پیش آئیں چاہے وہ اقوال اور افعال اچھے ہوں یا برے ان کا نام عادت ہے۔
نکاح کی تعریف
لغوی تعریف
نکاح لغت میں نَکَحَ کا مصدر ہے اور اس کاتعلق باب ضَرَبَ یَضرِبُ سے ہے۔اور اس کے معنیٰ ‘‘باہم ملنے’’ کے ہیں،چنانچہ درخت کی شاخیں جب ایک دوسرے سے مل جائیں اور باہم پیوست ہوجائیں تو کہا جاتا ہے‘‘تناکحت الاشجار’’ (درختوں کا ہجوم ہوگیا یا درخت گڈمڈ گئے) اور اس کا اطلاق بطور مجاز عقد نکاح پر ہوتا ہے کیونکہ نکاح مباشرت کا سبب ہوتا ہے۔
اصطلاحی تعریف
نکاح کی اصطلاحی تعریف فقہا نے مختلف انداز سے کی ہے،ذیل میں کچھ ذکر کی جاتیں ہیں:
1۔حنفیہ:‘‘النِّكَاحُ عَقْدٌ يُفِيدُ مِلْكَ الْمُتْعَةِ بِالأنْثَى قَصْدًا، أَيْ يُفِيدُ حِل اسْتِمْتَاعِ الرَّجُل مِنَ امْرَأَةٍ لَمْ يَمْنَعْ مِنْ نِكَاحِهَا مَانِعٌ شَرْعِيٌّ’’(نکاح ایک ایسا عقد ہے جو ملک متعہ کا فائدہ دیتا ہے یعنی ایسی عورت سے مرد کے لیے استمتاع کی حلت کا فائدہ دیتا ہے جس سے نکاح کرنے سے کوئی شرعی مانع (رکاوٹ) نہ ہو۔)
2۔مالکیہ:‘‘النِّكَاحُ عَقْدٌ لِحِل تَمَتُّعٍ بِأُنْثَى غَيْرِ مَحْرَمٍ وَمَجُوسِيَّةٍ وَأَمَةٍ كِتَابِيَّةٍ بِصِيغَةٍ’’(نکاح کسی صیغہ کے ذریعہ محرم ،مجوسیہ اور کتابیہ باندی کے علاوہ کسی عورت سے تمتع کی حلت کے لیے عقد کرنا ہے۔)
3۔شافعیہ: ‘‘النِّكَاحُ عَقْدٌ يَتَضَمَّنُ إِبَاحَةَ وَطْءٍ بِلَفْظِ إِنْكَاحٍ أَوْ تَزْوِيجٍ أَوْ تَرْجَمَتِهِ’’(نکاح ایسا عقد ہے جو لفظ نکاح،تزویج یا اس کے ترجمہ کے ذریعے وطی(مباشرت) کی اباحت پر مشتمل ہو۔)
4۔حنابلہ: ‘‘النِّكَاحُ عَقْدُ التَّزْوِيجِ، أَيْ عَقْدٌ يُعْتَبَرُ فِيهِ لَفْظُ نِكَاحٍ أَوْ تَزْوِيجٍ أَوْ تَرْجَمَتُهُ’’(نکاح عقد تزویج ہے ،یعنی ایسا عقد جس میں لفظ نکاح یا تزویج یا اس کے ترجمہ کا اعتبار کیا جائے۔)
فصل ثانی:دور جاہلیت اور دینِ اسلام میں نکاح کا طریقہ
دور جاہلیت میں نکاح کا طریقہ
جزیرۃ العرب کے معاشرتی حالات بھی باقی تہذیبوں سے الگ نہ تھے، اس معاشرے میں بھی عورت کو جائیداد کی طرح مرد کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا۔زنا اور ناجائز تعلقات کی وجہ سے ان کا خاندانی نظام درہم برہم ہوچکا تھا ،اس معاشرے میں زنا اور بدکاری کوئی گناہ یا جرم نہیں تھا ،ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی بھی طریقے سے جنسی لذت حاصل ہوجائے اور جنسی خواہشات کو ختم کیا جائے ،الغرض ان کا معاشرتی اور ازدواجی نظام پستی کی آخری حدود تک پہنچ چکا تھا۔
شاہ معین الدین احمد ندوی جزیرۃ العرب کی اس حالت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘عرب کا ہر گھر میخانہ تھا،بدمستی میں مال و دولت ننگ و ناموس سب قربان کردیتے تھے ،قمار بازی بڑے فخر و مباہات کی چیز تھی گھر کی کل دولت حتٰی کہ عورتوں تک کو بازی میں لگادیتے تھے اور سود در سود سے مقروض کو تباہ کر ڈالتے تھے ،فسق وفجور اور بے حیائی و بے شرمی ہنر بن گئی تھی بڑے بڑے شرفاء اپنی عزیز عورتوں اور شریف خواتین کے عشق ومحبت کی داستان فخریہ عام مجمع میں مزے لے کر سناتے تھے ،زنا کوئی عیب نہیں تھا،عوتوں کی کوئی قیمت نہیں تھی لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیتے تھے نکاح کی کوئی تعداد معین نہ تھی بھیڑ بکری کی طرح جتنی عورتیں چاہتے تھے رکھ لیتے تھے۔’’
ایک طرف تعدد ازواج کی کوئی حد بندی نہیں تھی ایک آدمی جتنی بیویاں چاہتا رکھ لیتا کوئی روک ٹوک نہیں تھی تو دوسری طرف محرمات سے نکاح پر کوئی پابندی نہیں تھی ۔اس حالت کو مولانا صفی الرحمٰن نے یوں بیان کیا ہے:
‘‘زمانہ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا تو معروف بات تھی لوگ دو ایسی عورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہنیں ہوتی تھیں ،باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کرلیتا تھا ،طلاق کا اختیار مرد کو حاصل تھا اس کی کوئی حد مقرر معین نہ تھی۔’’
زمانہ جاہلیت میں نکاح کی مختلف صورتیں
قبل از اسلام عرب معاشرے میں نکاح کے مختلف طریقے رائج تھے جن میں سے بعض کو تو نکاح کہنا ہی درست نہیں ہے،کیونکہ وہ سراسر زنا سے مشابہ تھے حضرت عائشہ ؓ کی درج ذیل روایت سے دور جاہلیت میں رائج نکاح کے ان طریقوں کا پتہ چلتا ہے جو ان کی تہذیب کا حصہ تھے۔
‘‘عَنِ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ النِّكَاحَ فِي الجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ: فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ اليَوْمَ: يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ، فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ: كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا: أَرْسِلِي إِلَى فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ، وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا وَلاَ يَمَسُّهَا أَبَدًا، حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الِاسْتِبْضَاعِ. وَنِكَاحٌ آخَرُ: يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ العَشَرَةِ، فَيَدْخُلُونَ عَلَى المَرْأَةِ، كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا، فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ، وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالٍ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا، أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ، حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا، تَقُولُ لَهُمْ: قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ وَقَدْ وَلَدْتُ، فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلاَنُ، تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا، لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ بِهِ الرَّجُلُ، وَنِكَاحُ الرَّابِعِ: يَجْتَمِعُ النَّاسُ الكَثِيرُ، فَيَدْخُلُونَ عَلَى المَرْأَةِ، لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا، وَهُنَّ البَغَايَا، كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا، فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا، وَدَعَوْا لَهُمُ القَافَةَ، ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ، فَالْتَاطَ بِهِ، وَدُعِيَ ابْنَهُ، لاَ يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ’’
حضرت عائشہؓ کی روایت کے مطابق زمانہ جاہلیت میں چار طرح کا نکاح رائج تھا:
1۔عام نکاح:ان میں سے ایک تو وہ طریقہ تھا جو آج بھی رواج میں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیا جاتا تھا پھر وہ مناسب مہر مقرر کرکے اس لڑکی کا نکاح اس آدمی سے کردیتا تھا۔
2۔نکاح استبضاع:دوسرا یہ تھا کہ کسی آدمی کی بیوی جب حیض سے پاک ہوجاتی تو شوہر خود اپنی بیوی سے کہہ دیتا کہ تو فلاں آدمی کو بلا کر اس سے مباشرت کرلے پھر وہ کچھ عرصہ کے لیے اس سے الگ رہتا اور اس کو ہاتھ نہ لگاتا یہاں تک کہ وہ دوسرے شخص سے حاملہ ہوجاتی جس کو اس نے مباشرت کے لیے بلایا تھا،پھر جب اس کے حمل کے آثار ظاہر ہوجاتے تو اس کے بعد یہ شوہر حسب خواہش اپنی بیوی سے صحبت کرتا اور یہ سب کچھ اس غرض سے کرتا کہ لڑکا نجیب(بڑے شان والا)پیدا ہو ’اس طریقہ کو ‘‘نکاح استبضاع ’’کہا جاتا تھا۔
3۔تیسرا طریقہ نکاح:چند آدمیوں کی ایک ٹولی (روایت میں ‘‘رھط’’ کا لفظ بولا گیا ہے جو دس سے کم کے لیے بولا جاتا ہے)عورت کے پاس پہنچتی اور ان میں سے ہر ایک اس سے صحبت کرتا پھر اگر وہ عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو چند روز کے بعد وہ ان سب آدمیوں کو بلواتی کسی کے لیے بھی یہ گنجائش نہ ہوتی کہ وہ نہ آئے ،یہاں تک کہ وہ سب ہی اس عورت کے پاس پہنچ جاتے،تو وہ کہتی کہ جو کچھ ہوا تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور اس کے نتیجے میں میرے ہاں یہ بچہ پیدا ہوا ہے اور پھر وہ ان میں سے جس کو چاہتی منتخب کرتی اور کہتی:اے فلاں! یہ تیرا لڑکا ہے اور پھر وہ لڑکا اسی کا مان لیا جاتا تھا اور وہ آدمی انکار نہیں کرسکتا تھا۔
4۔چوتھا طریقہ نکاح:ایک عورت سے بہت سے لوگوں کا جنسی تعلق ہوتا تھا کسی کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی تھی،یہ پیشہ ور رنڈیاں تھیں ان کے گھروں کے دروازے پر بطور علامت ایک نشان(جھنڈا) نصب ہوتا تھا جو کوئی بھی چاہتا اس کے پاس پہنچ جاتا تھا،تو ان میں سے جب کسی کو حمل ہوجاتا اور پھر بچہ پیدا ہوجاتا تو اس سے تعلق رکھنے والے سب لوگ جمع ہوجاتے اور پھر قیافہ شناس ماہرین کو بلایا جاتا اور پھر وہ اپنی قیافہ شناسی سے اس بچے کی مشابہت معلوم کرتے جس سے وہ مشابہ ہوتا اس سے اس بچے کو ملا دیا جاتا اور اس کو اس کا بیٹا کہا جاتا اور وہ آدمی اس سے انکار بھی نہیں کرسکتا تھا۔
کرم شاہ نے ان طریقوں کے علاوہ اور بھی کئی طریقے لکھے ہیں جو دور جاہلیت میں رائج تھے:
5۔پوشیدہ نکاح:ایسی بدکاری جو لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو وہ بری نہیں سمجھی جاتی تھی لیکن ایسی بدکاری جس کا عام چرچا ہو اور کھلم کھلا ہو اس کو عیب اور کمینگی سمجھا جاتا تھا ،یعنی جب تک یہ بات چھپی رہتی تب تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور جب وہ بات کھل جاتی تو وہ عورت سے کنارہ کش ہوجاتے ان کا خیال تھا کہ چھپ کر جنسی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے’ہاں اگر یہ بات ظاہر ہوجائے تو وہ اس کو قابل ملامت سمجھتے تھے۔قرآن کریم کی اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
﴿مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ﴾
(تاکہ وہ (حصار نکاح ) میں پاکدامن ہوکر رہیں ،نہ آزاد شہوت رانی کرتی رہیں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کرتی رہیں۔)
6۔نکاح بدل:ان کے ہاں ازدواج کا یہ حیا سوز طریقہ بھی تھا کہ دو مرد آپس میں طے کرلیتے ایک دوسرے کو کہتا کہ تو اپنی عورت کو میرے پاس بھیج دے میں اپنی بیوی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔
7۔نکاح شغار:ایک آدمی اپنی زیر ولایت لڑکی کا بیا ہ کسی مرد کے ساتھ کردیتا اس شرط پر کہ وہ مرد اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے گا اور دونوں بیویوں کو مہر وغیرہ ادا نہیں کریں گے۔
یہ نکاح صرف دور جاہلیت میں ہی تھا ،جب اسلام کا دور شروع ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے اس نکاح کو حرام قرار دیا ،چنانچہ حدیث شریف میں ہے،
‘‘عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ» وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الآخَرُ ابْنَتَهُ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ’’
(حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے اور نکاح شغار یہ ہے کہ مرد اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ کہ وہ دوسرا شخص اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردے اور دونوں کے درمیاں مہر کچھ نہ ہو۔)
8۔نکاح متعہ:اس کا بھی عام رواج تھا اس میں گواہوں کے بغیر عورت اور مرد مقررہ وقت کے لیے معینہ مال کے عوض بیاہ کرلیتے اور میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی بسر کرتے تھے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
‘‘عَنْ: عَبْد اللهِ ، يَقُولُ : كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، لَيْسَ لَنَا نِسَاءٌ ، فَقُلْنَا : أَلاَ نَسْتَخْصِي ؟ فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ ، ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْكِحَ الْمَرْأَةَ بِالثَّوْبِ إِلَى أَجَلٍ’’
(حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں :ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ جہاد کرتے تھے اور ہمارے پاس بیویاں نہ تھیں ،پھر ہم نے آپﷺ سے کہا :کہ کیا ہم خصی نہ ہوجائیں تو آپﷺ نے ہمیں ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ہمیں اجازت دی کہ ایک کپڑے کے بدلے میں ایک معین مدت تک کسی عورت سے نکاح کرلیں۔)
لیکن یہ جواز کا حکم عارضی تھا بعد میں ہمیشہ کے لیے منسوخ ہوگیا جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک اور حدیث اس پر دلالت کرتی ہے:
‘‘عَنِ الرَّبِيعِ بْن سَبْرَةَ الْجُهَنِيُّ ، أَنَّ أَبَاهُ ، حَدَّثَهُ ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الاِسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، فَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُنَّ شَيْءٌ فَلْيُخَلِّ سَبِيلَهُ ، وَلاَ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا’’
(حضرت ربیع بن سبرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے،آپﷺ نے فرمایا:اے لوگو!میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کے دن تک کے لیے حرام کردیا ہے،جس کے پاس متعہ کے نتیجے میں کوئی بیوی موجود ہو تو چاہیے کہ وہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز تم ان کو دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔)
9۔جمع بین الاختین(دو بہنوں کو بیک وقت ایک ہی نکاح میں رکھنا):عرب معاشرے کے لوگ دو سگی بہنوں سے نکاح کو جائز سمجھتے تھے ،بھتیجی ،خالہ اور پھوپھیاں ایک ہی نکاح میں جمع کرلیتے ،یہ طریقہ اس معاشرے میں آپﷺ کے دور میں بھی کسی حد تک رائج تھا ،وہ دو بہنوں کو ایک ہی نکاح میں رکھنے کو عیب نہیں سمجھتے تھے،اس کی مثال ہمیں احادیث شریف سے ملتی ہے:
‘‘عَنْ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيَّ،قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ’’
(حضرت فیروز دیلمیؓ فرماتے ہیں:میں جب مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں پس حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں ان میں سے جس کو چاہوں رکھ لوں اور دوسری کو طلاق دےدوں۔)
یہ طریقہ اسلام کے شروع دور تک رائج تھا لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا جیسا کہ مذکورہ حدیث سے بھی واضح ہو رہا ہے لیکن اس کے حرام ہونے کی اصل دلیل قرآن کی یہ آیت ہے:﴿وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾ (اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ہی نکاح میں جمع نہ کرو مگر جو پہلے ہو چکا۔)
10۔بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنا:عربوں میں تعدد ازواج کی کوئی حد نہ تھی،جس کا جب دل کرتا اور جتنی عورتوں سے چاہتا شادی کرلیتا ،اسلام کے ابتدائی زمانے تک یہ رسم کسی حد بندی کے بغیر جاری تھی ،جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے:
‘‘أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ،فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَخَيَّرَ أَرْبَعًا مِنْهُنَّ’’
(حضرت غیلان بن ثقفی جب مسلمان ہوئے تو اس کی دس بیویاں تھیں انہوں نے بھی آپ کے ساتھ اسلام قبول کیا ’تو اس وقت آپﷺ نے حضرت غیلان ثقفی کو فرمایا:ان میں سے جن چار کو چاہو رکھ لو ۔)
ایک اورروایت میں ہے کہ :
‘‘بنو اسد قبیلے کا ایک شخص مسلمان ہوگیا اور اس کی آٹھ بیویاں تھیں جب اس نے یہ بات نبی اکرم ﷺ کو بتائی تو آپﷺنے اس شخص کو حکم دیا کہ ان میں سے چار کو رکھو اور باقیوں کو چھوڑ دو۔’’
‘‘وَقَالَ الأَسَدِيِّ: أَسْلَمْتُ وَعِنْدِي ثَمَانُ نِسْوَةٍ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلى الله عَلَيهِ وَسَلمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلى الله عَلَيهِ وَسَلمَ: اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا’’
11۔پیدایش سے قبل نکاح کا تعین:عرب میں نکاح کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ بچی کے پیدا ہونے سے قبل ہی اس کے رشتے کی باتیں ہونے لگتیں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں اور معمولی باتوں کے عوض لوگ ان کے پیشگی رشتے طے کردیتے اور بعد میں اپنی بات اور قول سے پھر جاتے چنانچہ پیدائش سے قبل نکاح کا تعین کرنے کے بارے میں سنن ابوداؤد میں ایک باب في تزویج من لم یولد(پیدائش سے قبل نکاح) میں اس بات کی تصریح بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
‘‘حضرت میمونہ بنت کردمؓ کے والد نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام قبول کیا اس کے بعد اس نے آپﷺ کو ایک جنگ کا واقعہ سنایا کہتے ہیں: کہ میں جیش عثران(ایک جنگ) میں شریک تھا وہاں پر طارق بن مرقع نامی شخص نے مجھ سے معلوم کیا کہ کوئی شخص ہے جو کہ مجھے ایک نیزہ اس کے عوض میں دے گا؟ میں نے پوچھا کس چیز کے بدلے میں؟طارق نے کہا اس کے بدلے میں جو کہ میری پہلی لڑکی ہوگی میں اس کا نکاح اس شخص سے کردوں گا چنانچہ میں نے اپنا نیزہ اس شخص کو دے دیا اور وہ چلا گیا۔یہاں تک کہ میں نے ایک دن سن لیا کہ طارق کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور وہ جوان ہو گئی ہےتو میں اس وقت اس کے پاس پہنچا اور میں نے کہا اب میری بیوی رخصت کردو اس نے قسم کھائی کہ میں کبھی بھی اپنی لڑکی نہیں دوں گا جب تک کہ تم مجھ کو اس کے علاوہ جدید مہر ادا نہ کرو جوکہ میرے اور تمہارے درمیان مقرر ہوچکا تھا’ اور میں نے قسم کھائی کہ میں اس کے علاوہ کوئی شے ادا نہیں کروں گا’نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اس لڑکی کو جانے دو(یعنی اس سے نکاح نہ کرو)اس بات کے بعد نبی ﷺ نے فرمایانہ تم گناہ گار ہوئے اور نہ تمہارے ساتھ طارق کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کی رسم تھی۔’’
دور جاہلیت میں رائج رسوماتِ نکاح
1۔نسبت طے کرنا
عربوں کی سماجی اور تہذیبی روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بسا اوقات لڑکیوں کی نسبت بچپن میں ہی طے کردی جاتی تھی جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کی نسبت چھ سال کی عمرسے پہلے ہی جبیر بن مطعم نوفلی سے طے کردی گئی تھی۔اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی بنفس نفیس آپ ﷺ نے اپنے چچا ابو لہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے بچپن میں طے کردی تھیں لیکن بعد میں ان تینوں مذکورہ بالا نسبتوں کو ان کے سسرالی عزیزوں نے ہی توڑ ڈالا تھا۔
جس کی نسبت طے ہوجاتی تھی ایسی خاتوں کو عرب ‘‘مسمّاۃ ’’کہتے تھے ’مسماۃ فلاں،مسماۃ فلاں۔حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں آتا ہے‘‘و کانت عائشۃ مسمّاۃ لجبیر بن مطعم النوفلی’’ (حضرت عائشہؓ کی نسبت جبیر بن مطعم کے ساتھ ہوچکی تھی۔)
2۔عربوں میں نکاح کا پیغام
عربوں میں رشتہ مانگنے کے کئی طریقے مروج تھے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ ایک شخص کسی دوسرے کے پاس آکر رشتہ کے لیے درخواست کرتا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ جو اس کے زیر کفالت ہے یا جو اس کی بیٹی ہے اس کے ساتھ اس کی شادی کردے،اگر معاملہ طے ہوجاتا تو مہر کے تعین کے بعد عقد نکاح ہوجاتا ۔
قریش اور دوسرے کئی قبائل میں لڑکی والے بھی لڑکے والوں کو نکاح کا پیغام بھجوادیتے ،بلکہ کئی مرتبہ تو لڑکیاں خود ہی نکاح کا پیغام بھجواتیں اور یہ بات معیوب نہیں سمجھی جاتی تھی،اسلام سے پہلے نبی اکرم ﷺ کے دادا عبد المطلب آپﷺ کے والد کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے جارہے تھے کہ بنو اسد میں سے ایک عورت جو کہ ورقہ بن نوفل کی بہن تھی کعبہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی ،اس نے عبداللہ کے چہرے کو دیکھا اور کہا اے عبد اللہ ! کہاں جا رہے ہو ؟اس نے کہا:اپنے والد کے ساتھ جا رہا ہوں ’عورت نے کہا جس قدر تمہاری طرف سے اونٹ ذبح کیے گئے تھے اس قدر میں خود کو تمہاری نظر کرتی ہوں تم مجھ سے شادی کرلو،عبد اللہ نے کہا میں اپنے والد کا مطیع ہوں ان کی منشا کے خلاف نہیں کرسکتا۔اس کے بعد عبد المطلب عبد اللہ کو لے کر وہب بن عبد مناف کے پاس آئے جو کہ اپنے قبیلے کے سردار تھے انہوں نے عبداللہ کی شادی اپنی بیٹی آمنہ بنت وہب سے کردی۔
3۔خطبۂنکاح
اسلام سے پہلے عربوں میں نکاح کے موقع پر خطبہ نکاح کا بھی ذکر ملتا ہے،چنانچہ نبی اکرمﷺ کا نکاح جب حضرت خدیجہ ؓ سے ہوا تو اس وقت جناب ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا تھا‘‘أن أبا طالبٍ ھوالذی خطب خطبۃً النکاح’’ (جناب ابو طالب نے ہی نبی اکرم ﷺ کا خطبہ نکاح پڑھا تھا۔) خطبۂ نکاح کا متن درج ذیل ہے:
‘‘الحمد لله الذى جعلنا من ذرية ابراهيم وزرع اسمعيل وضئضئ معد وعنصر مضر وجعلنا حضنة بيته وسوّاس حرمه وجعل لنا بيتا محجوجا وحرما آمنا وجعلنا الحكام على الناس ثم ان ابن أخي هذا محمد بن عبد الله لا يوزن به أحد الا رجح فان كان في المال قل فالمال ظل زائل وأمر حائل ومحمد من قد عرفتم قرابته وقد خطب خديجة بنت خويلد وقد بذل لها من الصداق ما آجله من مالى عشرین بعیراً وهو والله بعد هذا له نبأ عظيم وخطب جليل’’
(حمد و ثنا ء اسی خدا کےلیے جس نے ہمیں ابراہیم کے فرزند اور اسماعیل کی اولادمیں سے بنا یا ہمیں نسل معد اور اصل مضر سے بنا یا ،اپنے گھر کا نگہبان اور اپنے حرم کا پیشوا بنا یا،ایسا گھر ہمیں عطا فرمایا کہ اطراف و جوانب کے لوگ اس کی زیارت کے قصد سے آتے ہیں ،ایسا حرم عنایت فرمایا کہ جو شخص وہاں آجائے امان میں ہوجاتا ہے اور ہمیں لوگوں پر حاکم مقرر کیا’اما بعد!یہ میرے بھائی کا لڑکا محمد بن عبد اللہ ہے ،یہ ایک ایسا جوان ہے کہ کسی شخص کا اس سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہ یہ اس سے بڑھا رہے گا،ہاں اگرچہ اس کے پاس مال کم ہے لیکن مال ڈھلنی چھانؤں ہے اور ایک بدلنے والی چیز ہے،محمد وہ شخص ہے جس میرے ساتھ قرابت تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو،اس نے خدیجہ بنت خویلد کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے اور میرے مال میں سے بیس اونٹ مہر مقرر کی ہے اور خدا کی قسم اس کا مستقبل عظیم الشان اور جلیل القدر ہے۔)
4۔مہر
عربوں کے ہاں نکاح کے وقت مہر دینے کا رواج بھی تھا چنانچہ نبی کریم ﷺ کا نکاح جب حضرت خدیجہؓ سے ہوا تھا تو اس وقت آپﷺ کا ان کو مہر دینے کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے:
‘‘لمّا تزوج رسول اللہﷺ خدیجۃ بنت خویلدٍ اصدقھا عشرین بکرۃ’’ (جب نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ بنت خویلد سے نکاح کیا تو آپﷺ نے حضرت خدیجہ کو مہر میں بیس(20) جوان اونٹ دیے۔)
5۔ دعوتِ ولیمہ
اسلام سے قبل عربوں میں نکاح کے بعد دعوتِ ولیمہ کرنے کی روایات ملتی ہیں،طبقات ابن سعد میں ہے:
‘‘جب نبی اکرم ﷺ کے والد عبد اللہ کے دادا ھاشم بن عبد مناف کا نکاح سلمیٰ بنت عمرو سے ہوا تو انہوں نے نکاح کے بعد اپنے قافلے والوں کو اور بنی خزرج کے چند لوگوں جن میں رئیس بھی شامل تھے ان کے لیے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا۔’’
6۔نکاح کے بعد دولہے کا سسرال میں چند دن گذارنا
عربوں میں ایک تہذیبی اور سماجی رسم یہ بھی رائج تھی کہ نکاح کے بعد دولہا اپنی دلہن کے ساتھ اس کے گھر میں تین دن یا کچھ عرصے تک قیام کرتا تھا اور وہیں اپنے سسرال میں شب زفاف مناتا تھا’چناچہ رسول اللہﷺ کے والد ماجد عبداللہ بن عبد المطلب کے بی بی آمنہ سے شادی اور ان کے گھر میں شب زفاف منانے اور نکاح کے بعد سسرال میں رہنے کی روایات ملتی ہیں طبقات ابن سعد روایت کرتے ہیں:
‘‘لمّا تزوج عبداللہ بن عبد المطلب آمنۃ بنت وھب اقام عندھا ثلاثاً وکانت تلک السنۃ عندھم اذا دخل الرجل علی امرأتہ فی اھلھا’’ (جب عبداللہ بن عبد المطلب نے آمنہ بنت وھب سے شادی کی تو وہ ان کے گھر تین دن تک رہے اور ان کے ہاں یہی طریقہ رائج تھا۔)
دینِ اسلام میں نکاح کا طریقہ
دین اسلام کی بے شمار خصوصیات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں مکمل اور تفصیلی تعلیمات نہ دی ہوں،باقی نظاموں کی طرح اسلام کا ازدواجی نظام بھی ایک مفصل و مکمل نظام ہے جس کی تمام شقیں انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں اور عمل کرنے کے لیے بہت آسان ہیں۔
دنیا کے مختلف مذاہب نے شادی بیاہ کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں ،یہودی معاشرہ نے تو اسے سوشل کنٹریکٹ قرار دیا جب چاہا توڑدیا،عیسائیت نے نکاح اور ازدواجی زندگی سے دور رہنے اور رہبانیت و انفرادی زندگی اختیار کرنے کو ہی اعلیٰ اخلاق کا ذریعہ اور اصل دین قرار دے کر اس سے دور رہنے کی تلقین کی ہے ۔
اسلام نے ازدواجی زندگی کے متعلق صاف ستھرا اور قابل عمل تصور پیش کیا جس کی تکمیل سے انسانی زندگی بہاروں کی طرح کھلنے لگتی ہے اور انسان بے شمار معاشرتی اور اخلاقی الجھنوں سے نکل کر ایک صحت مند اور نہایت ہی سکون والی زندگی بسر کرسکتا ہے،اسلام نے نکاح کو انسانی زندگی کا بنیاد قرار دے کر اسے لازمی قرار دیا ہے،چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم خصی (ایسا عمل جس سے انسان کی جنسی خواہشات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں) نہ ہو جائیں تو نبی کریم ﷺ نے ان کو اس عمل سے منع فرمایا۔
کیونکہ اگر انسان کی جنسی خواہشات ختم ہوجائیں تو پھر اس کو نکاح کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی اور نکاح کا جو اصل مقصد امت محمدیہ کے افراد کو بڑھانا ہے وہ بھی فوت ہوجائے گا،ا کے علاوہ قرآن پاک میں بھی کئی مقامات پر استطاعت رکھنے والے مرد اور عورت کو نکاح کرنے کا حکم دیا ہے:
﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾
(تم میں سے جو (مرد و عورت)بے نکاح ہوں ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی ،اگر وہ مفلس ہونگے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا۔)
1۔ رشتہ کا معیاردین داری
انتخاب رشتہ کے وقت ہر فریق کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے فریق میں زیادہ سے زیادہ خوبیاں ہوں ،ہر شخص کا معیار دوسرے سے مختلف ہوتا ہے کسی کے نزدیک صورت معیار ہے تو کسی کے نزدیک سیرت ،کوئی دولت کو ترجیح دیتا ہے تو کو ئی برادری اور خاندان کو ،کوئی دنیوی منصب کو ترجیح دیتا ہے تو کوئی دین داری کو غرض یہ ہے کہ سب کا معیار انتخاب دوسرے سے مختلف ہے۔
اسلام سے پہلے جتنے بھی مذاہب تھے ان سب میں معیار رشتہ کے حوالہ سے ایک عام بات تھی کے انہوں نے دنیوی منصب اور ظاہری خوب صورتی کو ترجیح دی جبکہ اسلام نے ان سب کے مقابلے میں دین داری ’خوش اخلاقی اور تقویٰ کو ترجیح دی تاکہ شادی کے بعد شروع ہونے والی نئی زندگی کا آغاز بھی اسلام پر ہو اور انجام بھی نبی کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
‘‘ تُنْكَحُ المَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ’’
(عورت سے چار وجوہ کی بنا پر نکا ح کیا جاتا ہے ،1۔مال و دولت،2۔حسب ونسب،3۔حسن و جمال،4۔دین و اخلاق،تمہارے ہاتھ خاک آلودہ ہوں تم دین و اخلاق والی کا انتخاب کرنا۔)
یہاں ایک بات بیان کرنا ضروری ہے کہ دین داری کو ترجیح دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شریک حیات عالمہ وفاضلہ ہو اور کسی مدرسہ سے سند یافتہ ہو بلکہ اس کی زندگی اسلام کے مطابق ہو ،اس کے معمولات شریفانہ ہوں’اس کا کردار بے داغ ہو ’اس کے اخلاق اچھے ہوں اور اس کا گفتگو کا انداز مھذبانہ ہو۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نیک بیوی کو دنیا کی سب سے بڑی نعمت قرار دیا ہے:
‘‘عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : الدُّنْيَا مَتَاعٌ ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ’’
(حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:دنیا متاع(سامان) ہے اور دنیا کا بہترین متاع عورت ہے۔)
ان روایات میں زیادہ تر عورتوں کا ذکر آیا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد اگر دین دار نہ ہو تو خیر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی دین داری عورت کے لیے ضروری ہے اتنی ہے مرد کے لیے بھی ضروری ہے۔
2۔شادی سےپہلے لڑکی کو دیکھنا
اسلام چونکہ ایک فطرتی دین ہے اس لیے اسلام نے مرد کو نکاح سے پہلے لڑکی کو ایک نظر دیکھنے کا اختیار دیا ہے تاکہ اس طرح دیکھنے سے نکاح میں رغبت پیدا ہو اور نکاح کے بعد کوئی مسئلہ در پیش نہ ہو اور نکاح سے قبل دونوں ایک دوسرے سے ضروری واقفیت حاصل کرلیں،تاکہ ہر اقدام سوچ سمجھ کر ہو اور کسی کو پچھتانا نہ پڑے ۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
‘‘عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَلَيهِ وَسَلمَ: إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ’’
(حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم سے کوئی شخص اپنے نکاح کا پیغام کسی خاتون کی طرف بھیجے تو پھر اسے چاہیے کہ اگر اس کے لیے ممکن ہو تو اس کے وہ اوصاف دیکھے جو نکاح میں مطلوب ہیں تو ضرور ایسا کرلو۔)
ایک اور حدیث میں ہے:
‘‘عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: خَطَبْتُ امْرَأَةً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَظَرْتَ إِلَيْهَا؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ يُؤْدَمَ بَيْنَكُمَا’’
(حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے عہد رسالت میں ایک عورت کو شادی کا پیغام بھیجا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا:اسے دیکھ بھی لیا ہے نہیں ؟میں نے کہا نہیں’آپﷺ نے فرمایا:اسے دیکھ لو اس سے تم دونوں میں الفت زیادہ ہوگی۔)
3۔عورتوں کونکاح کا اختیار
اسلام سے پہلے عورتوں کو شادی کا کوئی اختیار نہیں دیا جاتا تھا باپ یا سرپرست اس کا نکاح جبراً بھی کراسکتا تھا اور لڑکی اس معاملے میں بے اختیار ہوتی تھی ،مگر اسلام نے عورتوں کو اختیار دیا کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کریں اور بالغ و بیوہ کی اجازت ہر صورت میں لازمی قرار دی گئی ان کی رضامندی کے بغیر ان کا سرپرست ان کا نکاح نہیں کرسکتا ،چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
‘‘أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ’’
(نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:بیوہ کا نکاح اس وقت تک نہ کیاجائے جب تک اس کا حکم نہ ہو اور کنواری کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ حاصل کرلی جائے۔)
ایک اورحدیث میں ہے:
‘‘أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : الأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا ، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا ، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا’’
(نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:بیوہ عورت خود اپنی ذات کی ولی سے زیادہ حقدار ہے اور کنواری کے نکاح کے وقت اس کی اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کا خاموش رہنا ہے۔)
مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام نے شادی کے معاملے میں عورتوں کی رضامندی کو بھی لازمی قرار دیا ہے اور بغیر اس کی رضامندی کے اس کی شادی کسی بھی مرد سے نہیں کی جاسکتی۔
البتہ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اسلام نے اگرچہ لڑکی کو اپنے نکاح کرنے کا اختیار دیا ہے لیکن پھر بھی اس کو ولی کی اجازت سے مشروط کیاہے جیسا کی اس حدیث شریف میں ہے:
‘‘قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَلَيهِ وَسَلمَ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ’’
(نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے۔)
اس کی حکمت یہ ہے کہ لڑکی اپنی نا تجربہ کاری سے ہو سکتا ہے اپنے بارے میں کوئی ایسا فیصلہ کر بیٹھے جو اس کے لیے نقصان دہ اور تکلیف کا باعث بن جائے،ایک نوجوان لڑکی کے مقابلے میں بہر حال اس کا ولی تجربہ کار ہوتا ہے اور وہ لڑکی کے احساسات کو بھی جانتا ہے اس کا فیصلہ عقل ،تجربہ اور خیر خواہی کی بنیاد پر ہوگا۔اس کی دوسری حکمت یہ بھی ہے لڑکیوں کی بذات خود شادی کرنے کی حوصلہ شکنی سے لڑکیوں کے گھروں سے فرار ہونے کی راہیں بھی مسدد ہوجاتی ہیں،بہر حال خلاصہ کلام یہ ہے نکاح کے معاملے میں نہ عورت کو مکمل اختیا ر دیا جائے اور نہ ہی اس کو بے حس سمجھا جائے بلکہ ولی کی اجازت اور لڑکی کے اختیار دونوں سے نکاح طے پاجانا چاہیے تاکہ آگے چل کر عورت کو معاشرتی زندگی میں مسائل کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
4۔ایجاب و قبول
ایجاب سے مراد ایک فریق(یعنی دولہے)کی طرف سے نکاح کے معاملے میں پیش کش کرنا ہے اور قبول سے مراد دوسرے فریق (یعنی دلہن) کی طرف سے اس پیش کش کو قبول کرنا ہے اور یہی ایجاب و قبول کہلاتا ہے۔
ایجاب کو قبول کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اس کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا’مذاہب اربعہ کے فقہا کے نزدیک ایجاب وقبول نکاح کے لیے شرط ہے اس کے بغیر نکاح نکاح کا وجود ممکن ہی نہیں ہے ۔اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بغیر ایجاب وقبول کے محض جبری طور پر عورت کو نکاح میں لایا جائے۔
ایجاب و قبول کے لیے کوئی خاص الفاظ مقرر نہیں ہیں اور نہ یہ شرط ہے کہ ایجاب وقبول عربی میں ہو ،بس ہر وہ جملہ جس سے نکاح اور زوجیت کا مفہوم ادا ہوجائے وہ کافی ہے چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہو۔
5۔عقد نکاح کے لیے گواہوں کی موجودگی
نکاح کے لیے دو گواہوں کا موجود ہونا ضروری ہے اس لیے کہ اگر زوجین پر یہ تہمت آئے کہ انہوں نے چوری چھپے نکاح کیا ہے یا ایسا کوئی اور معاملہ آجائے تو یہ دو گواہ ہوں جو اس معاملے کو ختم کرنے کے لیے گواہی دینے کے لیے موجود ہوں، اور معاشرے میں ان بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
‘‘البَغَايَا اللَّاتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ’’
(وہ عورتیں بد کار ہیں جو اپنا نکاح بغیر گواہوں کے کرتی ہیں۔)
ایک اور حدیث جو کہ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘‘لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ’’
(ایک ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا۔)
یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسلام میں بغیر گواہوں کے نکا ح کا تصور ہی نہیں ہے اگر اس طرح کوئی نکاح کرتا ہے تو وہ نکاح نہیں بلکہ بدکاری اور زنا شمار ہوگا ’چنانچہ حضرت عمر ؓ کے پاس نکاح کا ایک ایسا معاملہ لایا گیا جس میں صرف ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انہوں نے فرمایا :یہ خفیہ نکاح ہے اور میں اسے جائز قرار نہیں دیتا اور اگر میں اس میں شریک ہوتا تو میں رجم کر دیتا۔
‘‘أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أُتِيَ بِنِكَاحٍ، لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهِ إِلاَّ رَجُلٌ، وَامْرَأَةٌ. فَقَالَ: هذَا نِكَاحُ السِّرِّ. وَلاَ أُجِيزُهُ. وَلَوْ كُنْتُ تُقُدِّمْتُ فِيهِ، لَرَجَمْتُ’’
6۔مہر
مہر در حقیقت اس مالی معاوضے کا نام ہے جو شوہر اپنی بیوی کو بوقت نکاح دیتا ہے ،اسلام سے پہلے کسی مذہب میں مہر کو لازمی قرار نہیں دیا گیا اگرچہ یہودیت اور عیسائیت میں مہر کاتصور موجود ہے لیکن مہر لازمی نہیں ہے ،اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اسلام نے بیوی کو عزت دینے اور معاشی اعتبار سے مستحکم کرنے کے لیے مرد پر عورت کے لیے مہر مقرر کیا ہے،قرآن و حدیث میں متعدد جگہوں پر اس کا تذکرہ ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ﴾
(اور( تمہارے لیے حلاال ہیں) اہل ایمان میں سے پاک دامن عورتیں اور ان میں سے پاک دامن عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دیا گیا جب تم انہیں ان کا مہر ادا کرو۔)
اسلام میں مہر کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بغیر ہونے والے نکاح کو نبی ﷺ نے منع فرمایا:
‘‘عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ» وَالشِّغَارُ أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ الآخَرُ ابْنَتَهُ، لَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ’’
(حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے اور نکاح شغار یہ ہے کہ مرد اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ کہ وہ دوسرا شخص اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کردے اور دونوں کے درمیاں مہر کچھ نہ ہو۔)
7۔دعوت ولیمہ
ولیمہ واجب ہے یا سنت اور مستحب ؟اس میں فقہا کا اختلاف ہے ۔یہ اختلاف اپنی جگہ،مگر احادیث اور سنت رسول ﷺ میں ولیمہ کرنے کے بارے میں تاکید آئی ہے،چنانچہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے جب شادی کی اور آپ ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپﷺ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے کہا:‘‘أولم ولو بشاۃٍ’’ولیمہ کی دعوت کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو۔
نبی کریمﷺ نے اپنی ہر شادی کے موقع پر دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایا چنانچہ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں:
‘‘مَا أَوْلَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَى زَيْنَبَ، أَوْلَمَ بِشَاةٍ’’
(نبی کریم ﷺ نے حضرت زینبؓ کے برابر اپنی کسی بیوی کا ولیمہ نہیں کیا کیونکہ وہ ایک بکری کا ولیمہ تھا۔)
ولیمہ کے وقت کے بارے میں یہی ہے کہ وہ شبِ زفاف کے بعد کیا جائےلیکن اگر نکاح کے دن بھی کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ آج کل عربوں کے ہاں نکاح کے دن ہی دعوت ہوتی ہے، اس کو ہی ولیمہ کی دعوت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی دعوت نہیں ہوتی،نکاح کے دودن بعد تک ولیمہ کیا جاسکتا ہے ،چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
‘‘ولا بأس بأن یدعو یومئذٍ و من الغد و بعد الغد ثم ینقطع للعرس والولیمۃ’’
(نکاح والے دن اور اس کے دو دن بعد تک ولیمہ کی دعوت کی جاسکتی ہے اس کے بعد ولیمہ کی دعوت اور شادی ختم ہوجاتی ہے۔)
8۔نکاح کی تشہیر کی جائے
نکاح معاشرتی زندگی کا اہم ستون ہے اس سے دو لوگ ہی نہیں بلکہ دو خاندان اخوت ومحبت کے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں ،اس لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ‘‘نکاح کی تشہیر کرو ’’ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نکاح ہو رہا ہے کیونکہ بغیر اعلان کے نکاح کرنے سے لوگوں کے ذہنوں میں خواہ مخواہ کے شکوک و شبہات اور غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں چنانچہ بنی اکرم ﷺ کی حدیث ہے:
‘‘عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعْلِنُوا النِّكَاحَ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالغِربَالِ’’
(حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:نکاح کا اعلان(تشہیر ) کرو اور اس میں دف بجاؤ۔)
‘‘حضرت عمر ؓ کے پاس نکاح کا ایک ایسا معاملہ لایا گیا جس میں صرف ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انہوں نے فرمایا :یہ خفیہ نکاح ہے اور میں اسے جائز قرار نہیں دیتا اور اگر میں اس میں شریک ہوتا تو میں رجم کر دیتا:
‘‘أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أُتِيَ بِنِكَاحٍ، لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهِ إِلاَّ رَجُلٌ، وَامْرَأَةٌ. فَقَالَ: هذَا نِكَاحُ السِّرِّ. وَلاَ أُجِيزُهُ. وَلَوْ كُنْتُ تُقُدِّمْتُ فِيهِ، لَرَجَمْتُ’’
اعلان نکاح سے دوسروں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کرنے کا موقع میسرآتا ہے اور دوسرا یہ بھی ہے کہ اعلان نکاح سے سب پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مرد اور عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے ہیں بصورت دیگر انہیں اکٹھا دیکھ کر ہر کوئی سوالیہ نگاہوں سے دیکھے گا اور اسلامی معاشرے کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ شکوک شبہات کو جنم دینے والے اسباب کا ہی خاتمہ کردیتا ہے۔
9۔شادی کی مبارک دینا
نبی کریم ﷺ کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ کسی کی شادی ہوتی تو اس کے لیے دعا کرتے اور اس کو شادی کی مبارک دیتے ،چنانچہ حدیث میں ہے:
‘‘عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلى الله عَلَيهِ وَسَلمَ كَانَ إِذَا رَفَّأَ الإِنْسَانَ إِذَا تَزَوَّجَ، قَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ’’
(حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی کا نکاح ہوتا تو اسے مبارک ضرور دیتے اور اسے دعا دیتے کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے اور تجھ پر برکتیں نازل فرمائے اور تم دونوں کو بھلائی کی توفیق دے۔)
10۔شادی کے موقع پر تحائف دینا
شادی میں شریک ہونے والے شخص کے لیے مستحب ہے کہ وہ دولہا اور دلہن کے لیے حسب توفیق کوئی تحفہ لے کر جائے اور ان کو پیش کرے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے،چنانچہ امام بخاری نے اسی مناسبت سے اپنی کتاب میں باب ھدیۃ العروس (یعنی دولہا دلہن کو تحائف دینا) کے نام سے عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے:
‘‘عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا بِزَيْنَبَ، فَقَالَتْ لِي أُمُّ سُلَيْمٍ: لَوْ أَهْدَيْنَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً، فَقُلْتُ لَھَا: افْعَلِي، فَعَمَدَتِ الى تَمْرٍ وَسَمْنٍ وَأَقِطٍ، فَاتَّخَذَتْ حَيْسَةً فِي بُرْمَةٍ، فَأَرْسَلَتْ بِھَا مَعِي إِلَيْهِ’’
(حضرت انس ؓ فرماتے ہیں جب نبی اکرم ﷺ کا نکاح حضرت زینبؓ سے ہوا تو میری والدہ ام سلیم مجھے کہنے لگیں کہ اس وقت اگر ہم اللہ کے رسول کو تحفہ بھیج دیں تو یہ اچھا ہوگا’چنانچہ میری والدہ نے کھجور’گھی اور پنیر ملا کر حلوہ تیار کیا اور وہ برتن میں ڈال کر میرے ہاتھوں نبی ﷺ کے گھر بھجوادیا۔)
فصل ثالث:اسلام میں نکاح کا مقصد،تصور اور اہمیت
اسلام میں نکاح کامقصد
انسانی معاشرہ دو صنفوں(یعنی مرد اور عورت) سے مل کر وجود میں آتا ہے ،مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟بنیادی طور پر اس کامقصد مرد اور عورت کے باہمی تعلق کے ذریعے نسل انسانی کو آگے بڑھانا اور پروان چڑھانا ہے،اس کے علاوہ نکاح کے اور بھی مقاصد قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں جن کو مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جاتا ہے:
1۔بقاے نسل انسانی
عائلی زندگی کا بنیادی اور اولین مقصد نسل انسانی کی بقا ،تحفظ اور تسلسل ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً﴾
(اے لوگو !اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو اکیلی جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں کی نسل سے مردوں اور عورتوں کی ایک بڑی تعداد دنیا میں پھیلادی ۔)
نبی کریم ﷺ کی حدیث شریف سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ نکاح کا اصل مقصد بنی نوع انسانی کا تحفظ اور بقا ہے،حضرت معقل بن یسار سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
‘‘تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ’’
(ایسی عورتوں سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہوں،میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔)
2۔آرام ،سکون اور محبت
قرآن مجید میں نکاح کا ایک اور مقصد سکون،راحت اور محبت بیان کیا گیا ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾
( اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس(اللہ تعالیٰ)نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس جا کے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا رشتہ قائم کیا۔)
سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘لَمْ يُرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ’’
(محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔)
اس حدیث سے اس بات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ نکاح کے دوسرے مقاصد کی طرح ایک بہت بڑا مقصد محبت بھی ہے اور محبت ہی آرام سکون کا ذریعہ ہے پس جو شخص آرام حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے سب سے بڑا ذریعہ نکاح ہے۔
3۔تحفظ اخلاق اور عصمت نفس
ازدواجی زندگی کا ایک اہم مقصد تحفظِ اخلاق اور عصمتِ نفس بھی ہے،جو آدمی اپنے نفس اور اخلاق کا تحفظ کرنا چاہتا ہے اس کے لیے بہترین ذریعہ نکاح ہے اور اس دور میں واحد ذریعہ یہی ہے جس سے انسان خود کو غلط طریقہ سے جنسی خواہشات کی تکمیل سے روک سکتا ہے ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
‘‘يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ’’
(اے نو جوانو کی جماعت! تم میں سے جو گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ نکاح کرے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرم گاہ کو محفوظ رکھتا ہے اور جو اس (نکاح) کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھے کیونکہ اس سے جنسی خواہش ختم ہوتی ہے۔)
ہر انسان کے اندر خواہش نفسانی رکھ دی گئی ہے اور اس کو جائز طریقے سے پورا کرنے کا واحد ذریعہ نکاح ہی بیان ہوا ہے اگر نکاح کی طاقت نہیں ہے تو پھر روزہ ہی اس کے لیے اچھا ہے کیونکہ اس کے ذریعے گناہوں سے بچا جا سکتا ہے۔
4۔تنگ دستی سے نجات
لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات گردش کر رہی ہوتی ہے کہ میں خود کی بھوک نہیں مٹاسکتا اگر میں نکاح کروں تو میں اپنی بیوی کے حقوق کا خیال کیسے رکھوں گا،اسلام اس بات کی نفی کرتا ہےکہ نکاح سے فقر و فاقہ میں اضافہ نہیں ہوتا ،بلکہ نکاح اگر صحیح اور نیک نیت سے ہو تو اللہ اس کے ذریعے رزق میں اضافہ فرماتا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾
( اور تم میں سے جو بے نکاح ہوں ان کا نکاح کرادو اور اپنی نیک صالح غلاموں اور باندیوں کا،اگر وہ تنگدست ہونگے تو اللہ کو ان کو اپنے فضل سے غنی کردے گا۔)
5۔نبی کریم ﷺ کی سنت
جس طرح نبی کریم ﷺ کی دوسری سنتیں ہیں اس طرح آپﷺ کی ایک سنت نکاح بھی ہے ،چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‘‘النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي’’
(نکاح میری سنت ہے ،جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔)
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘‘أُصَلِّي وَأَنَامُ ، وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي’’
(میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں،میں روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں پس اگر جس نے میری سنت سے اعراض کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔)
اسلام میں نکاح کا تصور
اسلام نے نکاح سے متلق ایسا جامع اور بے نظیر تصور پیش کیا ہے کہ کسی اور مذہب میں ایسا تصور دیکھنے کو نہیں ملتا،عیسائیت میں رہبانیت کو اختیار کرنے کو ترجیح دی گئی ہے،ہندومت میں نکاح سے متعلق کوئی خاص تعلیمات نہیں ملتیں اس کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی اس مقدس رشتے کو نبھانے کے لیے کوئی خاص احکام ذکر نہیں کیے گئے ہیں، اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عائلی زندگی کو صحیح طریقے سے نبھانے کے لیے ایسے قواعد اور اصول بتا تا ہے جو پوری زندگی کے لیے کافی اور بے مثال ہیں ،اسلام نے نکاح سے متعلق جو تصور پیش کیا ہے وہ درج ذیل ہے:
1۔اسلام میں رہبانیت نہیں
اسلام نے جنسی خواہشات کو بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ اس پر مضبوط گرفت رکھی ہے چنانچہ اس نے زنا ہی کو نہیں اس کے اسباب و متعلقات کو بھی حرام قرار دیا ہے ،لیکن دوسر ی جانب ایسے رجحانات کا بھی مخالف ہے جو اس فطری خواہش کو سرے سے ختم کردینا چاہتے ہیں،اس لیے اسلام نے معتدل طرز عمل اختیار کرتے ہوئے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے،چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ’’
(اے نو جوانو کی جماعت! تم میں سے جو گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ وہ نکاح کرے۔)
جہاں احادیث میں ایک طرف نکاح کی ترغیب دی گئی ہےتو دوسری طرف نبی ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو ایسا طریقہ اختیار کرنے سے بھی منع کیا جس میں نکاح سے اعراض ہوتا ہو چنانچہ حدیث شریف میں ہے :
‘‘رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ، وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لاَخْتَصَيْنَا’’
(حضرت عثمان بن معظون رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے تجرد (اکیلا پن)کی زندگی گزارنے کی اجازت طلب کی تو نبی کریم ﷺ نے ان کو منع فرمایا،راوی کہتے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ اس کی اجازت دیتے توہم خصی ہوجاتے ۔)
ایک اور حدیث میں ہے :
(بعض اصحاب رسول ﷺ میں تو ترک دنیا کا رجحان پیدا ہوگیا تھا لیکن جونہی نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا :ترک دنیا اسلام کی راہ سے انحراف اور سنت نبوی ﷺ سے اعراض ہے لہٰذا آپﷺ نے ان کو اس بات سے منع فرمایا۔)
2۔بیوی کے ساتھ حسن سلوک
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں عورت کو کم عزت اور کم ذات سمجھا جاتا ہے،اس کو معاشرے میں کوئی عزت نہیں دی جاتی یہاں تک کہ اس کو جانوروں کی مانند سمجھا جاتا ہے بلکہ یو ں کہا جائے کہ اس کو جانوروں سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا،لیکن اسلام نے عورت کو وہ مقام اور مرتبہ دیا ہے جو کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا،چنانچہ قرآن مجید میں شوہر کو بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا رویہ اختیار کرنے کا حکم ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
( اور اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اختیا ر کرو۔)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا﴾
(یا تو ان کو اپنے پاس بھلے طریقے سے رکھو اگر ایسا نہیں کرسکتے تو ان کو اچھے طریقے سے رخصت کرو محض ستانے کے لیے ان کو روکے نہ رکھو تاکہ تم ان کی حق تلفی کرو۔)
3۔بیویوں کے درمیان عدل
اسلام کسی کی حق تلفی کا حکم نہیں دیتا اور نہ ہی اس بات کو اچھا سمجھتا ہے کہ کسی کاحق تلف کیا جائے،چنانچہ اسلام نے تعدد ازواج کی اجازت تو دی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگایا ہے کہ ان کے درمیان عدل ہونا چاہیے تاکہ کسی پر ظلم نہ ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾
(اگر تم کو اس بات کاڈر ہے کہ تم اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکو گے تو پھر تم ایک ہی بیوی رکھو۔)
اگر کسی شخص کو اس بات کاخوف ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکے گا تو اسے اس مشروط اجازت سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے جہاں تعدد ازواج کی اجازت دی گئی ہی وہان عد ل کابھی حکم ہے لہذا بیویوں کے درمیان عدل کرنے کی صورت ہی میں زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے ورنہ صرف ایک ہی کافی ہے ۔
اسلام میں نکاح کی اہمیت
اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے، اسلام نے نکاح کے متعلق سے جو معتدل فکر اور نظریہٴ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت جامع اور بے نظیر ہے۔ اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ انسان کی جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔ اس لیے اسلام میں انسان کو اپنی اس فطری ضرورت کو جائز اور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺہے:
‘‘النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي’’
(نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔)
دوسری حدیث میں نبی ﷺ نے نے نکاح کوآدھا ایمان قرار دیا ہے :
‘‘ إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدْ كَمُلَ نِصْفُ الدِّينِ، فَلْيَتَّقِ اللهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي ’’
( جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اوراس کو چاہیے کہ باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔)
جب انسان نکاح کر لیتا ہے تو شرم گاہ کے شر سے عموماً محفوظ ہو جاتا ہے ، اب اسے صرف منہ کے شر سے اپنی حفاظت کرنی ہے ، گویا اس نے معصیت کا ایک دروازہ بند کرکے آدھا دین مکمل کر لیا، اب اسے منہ کی حفاظت کرکے معصیت کا دوسرا دروازہ بند کرنا اور باقی آدھے دین کو مکمل کرنا ہے۔
نکاح کے ذریعہ انسان کو صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا﴾
(وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔)
اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔
اسلام کا نظام نکاح انسان کے شہوانی جذبات کو بے لگام او ربے مہار ہونے سے بچاتا ہے اور بے شمار برائیوں اور مفاسد سے روکتا ہے ، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ مردوعورت کے اخلاق وپاکیزگی کا تحفظ ہو۔ نسل انسانی کی بقا او رافزائش ہو۔ سکون ومحبت پیدا ہو۔ دینی اور معاشرتی مصالح کی رعایت کی جائے۔ اسی لیے اسلام اپنے ہر پیروکار کو نکاح کی تاکید وترغیب دلاتا ہے اور بے نکاحی زندگی سے شدت سے روکتا ہے ۔
بیوی کے ساتھ جنسی تسکین کااجر
ازدواجی زندگی میں زن وشوہر کے جنسی تعلقات پر جو اجروثواب من جانب الله عطا ہوتا ہے اس کو بیان کرکے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کو نکاح کی ترغیب مؤثر انداز میں فرمائی ہے۔
حضرت ابوذر کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
‘‘وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ؟ قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ؟ فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلاَلِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ’’
(تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے قضاءِ شہوت کرے تو اس میں صدقہ جیسا ثواب ہے ،صحابہ نے عرض کیا:یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرے او راس پر ثواب بھی پائے! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر وہ اس کا استعمال حرام کام میں کرے تو کیا اس کو گناہ نہیں ملے گا؟ اسی طرح ہے اگر اس کا ستعمال ثواب میں کرتا ہے تو اس کو اجر ملے گا۔)
مرد و عورت کے در میان جو صنفی کشش اور شہوانی خوا ہش رکھی گئی ہے اس کی تکمیل و تسکین کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ ان کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ آزادانہ طور پر جس طرح چاہیں اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور شہوت کی پیا س بجھائیں۔
دوسری صورت یہ تھی کہ انہیں ایک مضبوط ومستحکم اور شریفانہ نظام کے ذریعہ ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے اور اس خواہش کی تسکین و تکمیل کا موقع دیا جائے۔
ہر عقل رکھنے والا شخص یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ پہلی صورت دیگر حیوانات اور جانداروں کے لائق تو ہو سکتی ہے لیکن انسانوں کے مناسب بہر حال نہیں، اس لیے کہ انسان صرف ایک حیوانی وجود کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک متمدن اور سماجی مخلوق کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے اور اس حیثیت سے اس کے کاندھوں پر فرائض اور ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلیے وہ ایک خاص قسم کے ما حول اور مخصوص قسم کی تربیت و نگہداشت کا محتاج ہے اور اس کی یہ محتاجی چند دنوں یا ہفتوں یا مہینوں تک نہیں بلکہ سالہا سال کے طویل عرصے تک قائم رہتی ہے۔
پہلی صورت میں جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ مرد چند گھڑیوں کیلیے عورت سے مل کر اور لطف اندوز ہو کر اس سے اور اس ملاپ کے نتیجے سے خود کو الگ کر لے اور حمل، ولادت(پیدائش)، رضاعت(دودھ پلانے ) اور اس کے بعد پرورش و نگہداشت وغیرہ کی ساری ذمہ داریوں اور تکلیفوں کی سزاوار ایک اکیلی کمزور و ناتواں عورت ٹھہرے، ظاہر سی بات ہے کہ ایک اکیلی عورت تنہا اس ذمہ داری کی ادائیگی کیلیے کیسے تیار ہو سکتی ہے ؟اس لیے پہلی بات تو ہے کہ وہ اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کیلیے تیار ہی نہ ہو گی اور اگر ہو بھی جائے تو اس کی کماحقہ ادائیگی سے قاصر اور عاجز ہی رہے گی۔
اس طرح دوسری صورت ہی کے ذریعہ نسلِ انسانی کا تسلسل و بقا اور تمدن کا تحفظ وجود میں آسکتا ہے، اسلیے کہ اس سے مستقل وابستگی اور تعلق کی صورت میں خاندانی نظام کی تشکیل عمل میں آتی ہے اور مرد و عورت ماں اور باپ کی شکل میں مشترکہ طور پر فرائض کی تقسیم کے ساتھ بچوں کی پرورش و پرداخت اور تربیت و کفالت کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں پہلی صورت کو ‘‘زنا و بدکاری’’ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے قبیح ترین جرم قرار دے کر اس کیلیے سخت اخروی عقاب و عذاب کی وعید کے ساتھ سنگین دنیوی سزائیں بھی متعین کی گئی ہیں، اگر زناکار مرد و عورت غیر شادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا متعین کی گئی ہے اور اگر شادی شدہ ہوں توسنگساری یعنی پتھر مار مارکر ہلاک کر دینے کا حکم دیا گیا ہے،شریعت اسلامیہ میں نہ صرف یہ کہ زنا سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے بلکہ اس کے اسباب و دواعی سے بھی دور اور بہت دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾
(خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ۔)
دوسری صورت کا نام‘‘ نکاح’’ ہے، مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل کا واقعی ذریعہ بس نکاح ہی ہے، نکاح نہ صرف یہ کہ نسل انسانی کی افزائش اور تربیت و نگہداشت کا بے خطر اور محفوظ وسیلہ ہے بلکہ اس کے ذریعہ مرد و عورت کے درمیان جو محبت و تعلق وجود میں آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، یہ محبت و تعلق مردو عورت کو لطف ومسرت سے بھرپور جنسی زندگی گزارنے اور حقیقی شہوانی لذت وسکون سے ہمکنار ہونے کا ایسا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے، اللہ کے رسولﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے :
‘‘لَمْ يُرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ’’
(محبت کرنے والوں کے لیے نکاح سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔)
جس نکاح کے ساتھ انسان کی طرح طرح کی ضرورتیں وابستہ ہیں کیسے ممکن تھا کہ اسلام جو دین فطرت ہے اسے اہمیت نہ دیتا اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ساتھ اس کی طرف توجہ نہ کرتا؟اسلام نے نکاح یا بالفاظ دیگر ازدواجی زندگی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ نکاح کے سلسلے میں ترغیب و تاکید سے کام لیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان تر بنانے کے ساتھ ان تمام باتوں کو بھی دور کرنے کا پورا اہتمام کیا ہے جن سے نکاح کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔
باب ثانی
سندھ میں رائج رسوماتِ نکاح کاشرعی جائزہ،حکم اور فتاوی
فصل اول: سندھ میں رائج رسوماتِ نکاح کی عملی شکل،شرعی جائزہ، حکم اور فتاویٰ
• بن بیاہی بیوہ
عملی شکل
سندھ میں رواج یہ ہے کہ بچپن میں نسبت طے کرلی جاتی ہے ،اگر کسی لڑکی کی منگنی بچپن میں ہوجائے اور اس کا منگیتر مر جائے تو اس لڑکی کو بیوہ تصور کیا جاتا ہے اور وہ عمر بھر بیوہ رہتی ہے ،نکاح ہوئے بغیر محض منگنی ہوجانے کی وجہ لڑکی کو بیوہ قرار دینے والی رسم سندھ کے کئی علاقوں میں پائی جاتی ہے ۔اس رسم کے رائج ہونے کا سبب یہ ہے کہ سندھی لوگ منگنی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی بناء پر وہ سمجھتے ہیں کہ منگیتر کی موت شوہر کے موت کے برابر ہے ،اس لیے وہ لڑکے کے مرجانے کے بعد لڑکی کو بیوہ تصور کرتے ہیں اور اس صورت میں اس کا دوسرا نکاح بھی نہیں کرتے۔
شرعی حکم
سندھ کی یہ مکروہ رسم کہ جس لڑکی کا منگیتر مرجائے تو وہ دوبارہ کسی سے شادی نہیں کرسکتی یہ ہندوانہ رسم ہے،سنسکرت کا ایک مح اورہ ہے:
‘‘سکرت پردیتے کنیا’’ یعنی لڑکی صرف ایک بار دی جاتی ہے۔
ان کے معزز گھرانوں میں جس منگنی شدہ لڑکی کا منگیتر مرجاتا وہ دوبارہ شادی نہیں کرسکتی تھی۔اگر کرلیتی تواس خاندان کو سخت نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،کھتری خاندان اب بھی منگنی کے بعد کہیں اور شادی کو برا جانتا ہے ۔
یہ بات قرآن کےاس واضح حکم کے خلاف ہے جس میں بے نکاح چاہے اس کی شادی پہلے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اس کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
﴿وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ﴾
(تم میں سے جو بے نکاح ہوں ان کے نکاح کردو اور اپنے نیک صالح غلام اور لونڈیوں کا بھی۔ )
‘‘الايم :جمع أيام وأيامى من النساء:من لا زوج لها،بكراً كانت أو مطلقة أو أرملة،من الرجال:من لا امرأة له،تزوج من قبل أم لم يتزوج’’
(أيم کی جمع أيام اورأيامى ہے،عورتوں میں سے وہ ہیں جن کا شوہر نہ ہو چاہے ان کا نکاح پہلے ہوچکا ہو یا نہ ہوا ہو،طلاق شدہ ہوں یا بیوہ ہوں۔مردوں میں سے وہ جن کی کوئی بیوی نہ ہو چاہے اس سے پہلے اس کا نکاح ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔)
اسلام تو بیوہ کو دوسرا نکاح کرنے کی صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ اسلام تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ کوئی بھی چاہے وہ عورت ہو یا مرد ہو بے نکاح والی زندگی نہ گزارے،احادیث میں تو بیوہ عورت کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی بلکہ اس کے ساتھ اس کو خود ہی نکاح کرنے کی ولایت بھی دی گئی ہے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا’’
(ثیبہ (شوہر دیدہ)اپنی ذات کی ولی سے زیادہ حقدار ہے کہ وہ اپنا نکاح خود کرے۔)
لوگوں کے ہاں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ منگنی نکاح کی مانند ہے اگر منگنی ٹوٹتی ہے تو لڑکے کو باقاعدہ طلاق دینا ہوگی ،جبکہ منگنی میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا یہ تو محض وعدہ نکاح ہے اور وعدہ سے کسی بھی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوتا:
‘‘النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول’’ (نکاح ایجاب اور قبول کے کرنے سے منعقد ہوتا ہے۔)
جب نکاح ہوا ہی نہیں تو اس صورت میں یہ کسی کی بیوی نہیں بن سکتی اور اگر بیوی نہ بنی تو بیوہ کس طرح بنے گی،منگنی محض وعدہ نکاح ہوتا ہے اور کسی بھی مسلک میں وعدہ نکاح سے نکاح کا انعقاد نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس صورت میں کوئی عورت بیوہ بنتی ہے۔
نکاح اور منگنی میں واضح فرق ہے:
1۔نکاح کے موقع پر باقاعدہ مہر کا تعین ہوتا ہے جبکہ منگنی میں ایسا نہیں ہوتا اس موقع پر تو مہر کا ذکر ہی نہیں ہوتا۔
2۔منگنی میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔
3۔بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ منگنی لڑکی اور لڑکے سے پوچھے بغیر طے ہوجاتی ہے لیکن نکاح میں ولی باقاعدہ لڑکی اور لڑکے سے اجازت لیتا ہے۔
4۔نکاح کے بعد ولیمہ کا حکم ہے جبکہ منگنی میں ایسا نہیں ہے۔
جس طرح نکاح اور منگنی میں فرق ہے اس طرح دونوں کے حکم میں بھی فرق ہے ،لہذا عورت نکاح کے بعد شوہر کے مرنے سے بیوہ تو بنےگی،لیکن منگنی کے بعد کسی کا منگیتر مر جائے تو وہ بیوہ نہیں بن سکتی ،اسلام دونوں صورتوں میں عورت کو دوسرے نکاح کرنے سے نہیں روکتا۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نکاح سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم سے ہوگئی تھی ۔لیکن جب انہوں نے یہ منگنی توڑ دی تو نبی ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ،اگر اس طرح یہ جائز نہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح نہ کرتے بلکہ ان کو بیوہ سمجھ کر ان سے نکاح نہ کرتے اور اس با ت کا حکم دیتے کہ یہ بیوہ ہے اس سے کوئی نکاح نہ کرے ۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں جتنے نکاح کیے ان میں اکثر بیوہ عورتوں سے کیے،اگر بیوہ عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہ ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنی امت کو اس بات سے آگا ہ کردیتے ،لیکن آپﷺ کے احکامات میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی ،نبی کریم ﷺ کے دور میں بہت سی ایسی صحابیات کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے اپنے پہلے شوہر کی وفات کے بعد دوسرے مردوں سے شادی کی ،حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پہلے شوہر کی وفات کے بعد نبی ﷺ سے نکاح کیا،اسی طرح حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا نکاح پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے ہوا جنگ موتہ میں ان کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوا اور آپؓ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح ہوا۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیوہ کا دوسرا نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بیوہ کی شادی نہ کروانے سے معاشرہ خرا ب ہونے کے دروازے کھل جانے کا قوی امکان ہوتا ہے ،جبکہ اسلام کی تو یہ خصوصیت رہی ہے کہ ایسے اسبا ب جو کہ معاشرہ میں برائی کا سبب بنتے ہیں تو وہ ان کا سد باب کردیتا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
‘‘عرب میں یہ بھی رسم تھی کی جب کوئی شخص مرجاتا تو اس کی بیوی کو نکاح کرنے نہیں دیتے اور یہ رسم ہندوستان میں بھی ہے کہ بیوہ کا نکاح کرنے نہیں دیتے۔’’
یہ رسم سراسر کفار اور ہندوؤں سے لی ہوئی ہے اور ان کی نقالی پر مبنی ہے، اس میں ان سے مشابہت ہوتی ہے جبکہ احادیث میں تو غیر مسلموں کی مشابہت کرنے کی ممانعت آئی ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ (مشابہت اختیا ر کرنے والا )بھی اسی قوم سے ہوگا۔)
دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرما یا :
‘‘أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلاَثَةٌ:مُبْتَغٍ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةَ الجَاهِلِيَّةِ۔۔۔۔۔۔۔’’
(اللہ کو تین شخص ناپسندیدہ ہیں ،ان میں سے ایک وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کی تلاش کرتا ہے۔)
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں اس طرح کی کوئی قید نہیں ہے کہ بیو ہ دوسرا نکاح نہیں کرسکتی ،بلکہ اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا مستحب ہے اور اس میں کوئی قباحت اور پابندی نہیں ہے اور نہ ہی اس کو اسلامی معاشرے میں بری نظر سے دیکھا گیا ہے بلکہ اسلام تو نکاح والی زندگی گزارنےکوبے نکاح والی زندگی سے بہتر اور افضل سمجھتا ہے اور یہ بھی ہے کہ اسلام میں کسی ذات پات کی کوئی تفریق نہیں ہے لڑکی کا جہاں مناسب رشتہ ہو رہا ہووہاں نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
• قرآن سے شادی
عملی شکل
سندھ میں ذات پات کی تفریق بہت زیادہ ہے،سندھ کے وڈیرے اپنی اولاد اور زیر پرست لڑکیوں کی شادی اپنی ذات اور برادری کے باہر نہیں کرتے،سیدوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔یہ لوگ دوسری ذات میں لڑکی کو بیاہ دینا بدترین ذلت تصور کرتے ہیں اگرچہ دوسری ذات کا لڑکا کتنا ہی امیر اور شریف کیوں نہ ہو ،وہ صرف اپنی ذات میں لڑکی کا بیاہ کرواتے ہیں چاہے وہ رشتہ بالکل بے جوڑ ہی کیوں نہ ہو ،کئی مرتبہ لڑکی کی شادی اپنی ذات کے بوڑھے آدمی یا بالکل نابالغ لڑکے سے کردی جاتی ہے،اگر لڑکی کو ایسے رشتے قبول نہ ہوں تو اس کی شادی قرآن سے کی جاتی ہے اگر وہ ایسا کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو جان سے مار دی جاتی ہے۔
قرآن سے شادی کے لیے باقاعدہ پورے خاندان کو مدعو کیا جاتا ہے اور اس لڑکی کو ‘‘بی بی پاک دامن’’ کانام دیا جاتا ہے ،لڑکی کو نہلا کر اچھے کپڑے پہنائے جاتے ہیں ،لڑکی کا والد بڑا بھائی یا اور کوئی بزرگ قرآن پاک لے کر آتا ہے اور اس کے ہاتھ میں قرآن پاک دے کر کہتا ہے کہ تمہاری شادی قرآن سے ہوگئی اب تم اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کرو، ایسی عورت کو خاندان میں معزز سمجھا جاتا ہے اور اس کے بعد اس کی شادی کسی اور لڑکے سے نہیں کی جاتی اگرچہ کوئی موزوں لڑکا ہی کیوں نہ مل جائے،کیونکہ ان کے ہاں قرآن سے شادی کے بعد اس کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
شرعی حکم
اس قسم کی شادی کا رجحان اسی ماحول میں پایا جاتا ہے جہاں جہالت کا وجود ہوتاہے اور شادی کی اصل روح کسی کو معلوم نہیں ہوتی ،شادی اور نکاح مرد اور عورت کے درمیان رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا نام ہے اور اس کے بعد ان دونوں کو جنسی تسکین کی اجازت ملتی ہے اور اسی تعلق کے نتیجے میں اولاد پیدا ہوتی ہے ۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى﴾
(اے لوگو!ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے۔)
شادی ایک انسانی ادارہ جس کے دو اجزاء(مرد اور عورت) ہیں ،شادی اس صورت میں ہوسکتی ہے جب اس کے دونوں اجزاء انسان ہوں اگر ایک جزو انسان ہو اور دوسرا جزو اس کے علاوہ کچھ اور ہو تو اس سے انسانی ادارہ وجود میں نہیں آئے گا۔
قرآن سے شادی کے پس منظر میں رہبانیت کا تصور ملتا ہے ،جہاں مرد یا عورت ایک طرح سے مذہب سے شادی کرتے ہوئے تجرد کی زندگی گزارنے کا عہد کرتے ہیں جبکہ اسلام تجرد کی زندگی گزارنے اور مذہب سے معلق ہوکر اپنی خواہشات کو ختم کرنے سے منع فرماتا ہے،بخاری شریف کی ‘‘کتاب النکاح’’کی پہلی حدیث ہی اس قسم کے رسم ورواج کی نفی کرتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
‘‘نبی ﷺ کو خبر ملی کہ تین صحابہ گفتگو کر رہے تھے ،ایک نے کہا میں ہمیشہ راتوں کو عبادت میں مشغول رہوں گا،دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور تیسرے نے کہا کہ میں کبھی بھی شادی نہیں کروں گا ،نبی کریم ﷺ نے ان کی سخت الفاظ میں حوصلہ شکنی فرمائی اور فرمایا:میں عبادت بھی کرتا ہوں اور نہ بھی کرتا ہوں،روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور میری بیویاں بھی ہیں ،پس جس نے میری سنت سے منہ پھیر ا وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔’’
قرآن سے شادی بھی اپنے نتیجے کے اعتبار سے مجرد رہنے یا عورت کو مجرد رکھنے کی ایک صور ت ہے اور اس سے رہبانیت کا تصور ملتا ہے جبکہ اسلام میں نہ مجرد رہنے کی گنجائش ہے اور نہ ہی اسلام رہبا نیت کی اجازت دیتا ہے،حدیث مبارکہ میں ہے:
‘‘لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الإِسْلامِ’’
(اسلام میں رہبانیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔)
لیکن اگر کچھ لوگ ایک مقدس ذہنی خوش فہمی اورقرآن سے شادی جیسے فریب میں مبتلا ہو کر اس لائن پر چل پڑیں تو اس سے اخلاقی اور معاشرتی اعتبار سے وہی نتائج نکلیں گے جو عیسائیت میں رہبانیت کے نتیجے میں برآمد ہوئے۔ جنسی تسکین انسان کی فطری ضرورت ہے،اگر اس فطری ضرورت کو دبانے کے لیے مذہب کے نام پر قرآن سے شادی جیسے غلط طریقے کو اپنا یا جائے تو تو پھر اس رہبانیت اور تجرد کی زندگی سے نہ تو معاشرہ صحیح رہے گا اور نہ ہی معاشرے میں اخلاقی جرائم کا سد باب ہوگا بلکہ اس سے تو ایسے جرائم اور زیادہ ہونگے اور قرآن سے شادی کسی پاکیزہ مقصد کے بجائے اخلاقی بے راہ روی پر منتج ہوگی۔
نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ شادی کا معیار ذاپ پات ،اونچا خاندان ،مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ دین اور اخلاق ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ جب مناسب رشتہ مل جائے تو اپنی لڑکیوں کا نکاح کردوکیونکہ اس سے فساد اور بگاڑ کا سد باب ہو تا ہے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ’’
(جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آجائے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کروادو ،اگر ایسا نہیں کیا تو زمین میں فتنہ اور فساد پھیلے گا۔)
مناسب رشتہ ملنے کی صورت میں نکاح نہ کرنا معاشرے مین برائی اور فتنہ پھیلانے کا سبب بنتا ہے اور قرآن سے شادی بھی ایک قسم کا نکاح سے اعراض کرنا ہے کیونکہ قرآن سے شادی بھی ایک طرح سے بے نکاحی کی زندگی گذارنے کا عہد ہے جس میں ہمیشہ کے لیے عورت کو مذہب سے معلق کرکے اس سے ازدواجی حقوق چھین لیے جاتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایک فرد کی وجہ سے پورا معاشرہ برائی کے لپیٹ میں آجاتا ہے جب کہ قرآن میں اس بات سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴾
(زمین میں فساد پھیلانے والے نہ بنو۔)
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور نبی کریم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے،اگر قرآن سے شادی جائز ہوتی تو نبی کریمﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح باضابطہ طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہ کرتے بلکہ ان کی شادی قرآن سے کرتے ،یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کبھی بھی ایسے رواج کا قائل نہیں ،یہ سراسر غیر شرعی ہے اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
انسان کا نکاح انسان سے ہوتا ہے اگر کسی لڑکی کا نکاح قرآن سے کردیا گیا تو وہ لغو ہوجائے گا اور اس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہ ہوگا،فقہا نے نکاح کی تعریف میں اس بات کی وضاحت کی ہے:
‘‘النكاح عند الفقهاء عقد يفيد ملك المتعة أي حل استمتاع الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي فخرج الذكروالخنثى المشكل والمحارم والجنية وإنسان الماءلاختلاف الجنس’’
(فقہا کے نزدیک نکاح ایسا عقد ہے جو ملک متعہ کا فائدہ دے یعنی مرد کو عورت سے فائدہ لینے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو،اس سے مذکر انسان ،خنثی مشکل،محرم رشتے ،جن اور پانی میں رہنے والا انسان داخل نہیں ہیں کیونکہ ان کی جنس مختلف ہے۔)
فقہا کے نزدیک نکاح اس سے ہوسکتا ہے جو ملک متعہ کا فائدہ دے یعنی مرد کو عورت سے استمتاع حاصل کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو،لیکن قرآن سے شادی میں یہ چیز ناممکن ہے اور ایسا سوچنا بھی غلط ہے،اس لیے قرآن سے شادی فقہا کے نزدیک لغو ہوگی اور اس کا وجود کسی بھی صورت میں ممکن نہ ہوگا بلکہ ایسا تصور کرنا ہی غلط شمار ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن سے شادی کاجواز کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے اس سے تو رہبانیت اور تجرد کی زندگی گزارنے کا سبق ملتا ہے جو اسلام میں کسی بھی صور ت میں جائز نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا ایک دینی ،اخلاقی اور معاشرتی جرم ہے ،جس کے کرنے سے انسان اخلاقی تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے اور پھر گناہوں کا راستہ اختیا ر کرلیتا ہے جس سے انسان خود بھی برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور معاشرے کو بھی اس میں مبتلا کرتا ہے،جس کی وجہ سے معاشرہ صحت کے اصولوں پر استوار ہونے کے بجائے ‘‘زنا اور کاروکاری ’’ جیسے معاملات کو جنم دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں نفرت اور انتشار کی فضا بلند ہوجاتی ہے اور فرقہ بندی اور قتل و غارت جیسے جرائم سر اٹھاتے ہیں جن کا نتیجہ انتہائی برا نکلتا ہے۔
• بارات
عملی شکل
سندھ میں نکاح ہمیشہ لڑکی کے گھر ہوتا ہے اور لڑکے والے وہاں بارات لے کر جاتے ہیں ،بارات میں قریبی رشتیداروں کے علاوہ قبیلے کے لوگ اور دوست احباب بھی شریک ہوتے ہیں اوران کے ساتھ کثیر تعداد میں عورتیں بھی ساتھ جاتی ہیں اور پھر جب نکاح ہوجاتا ہے تو وہ لڑکی کو اپنے ساتھ رخصت کرکے لاتے ہیں،بارات میں دولہے اور دلہن کے لیے الگ سواری جبکہ دوسرے باراتیوں کے لیے الگ الگ گاڑیوں کا انتظام کیا جاتا ہے ،اکثر اس کابندوبست دولہے والے رتے ہیں اور اس کا خرچہ بھی ان کے ذمہ ہوتا ہے۔
شرعی حکم
شادیوں میں بارات کا رواج کب سے شروع ہوا؟
تاہم یہ بات تو واضح ہے کہ عہد رسالت،عہد صحابہ اور عہد تابعین میں اس کا نام و نشان نہیں ملتا ،صرف گھر کے چند افراد جاتے اور خاموشی و سادگی کے ساتھ نکاح پڑھ کر لڑکی کو اپنے ہمراہ لاتے ۔
مولاانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
‘‘بارات وغیرہ ہندؤں کی ایجاد ہے ،پہلے زمانہ میں امن نہ تھا اکثر راہزنوں اور ڈاکوؤں سے دوچار ہونا پڑتا تھا اس لیے دولہا و دلہن اور اس کے زیورات اور قیمتی سامان کی حفاظت کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی اور حفاظت کی مصلحت سے بارات لے جانے کی رسم ایجاد ہوئی اور اسی وجہ سے فی گھر ایک ایک آدمی لیا جاتا تھا ۔اب تو امن کا زمانہ ہے اس جماعت کی کیاضرورت ہے اب حفاظت وغیرہ کچھ مقصد نہیں ہے صرف رسم کا ادا کرنا اور نام اوری مدِ نظر ہوتی ہے ’’
اس دور میں تو بارات کو شادی کا رکن سمجھا جاتا ہے اس کے بغیر شادی نہیں ہوتی ،لیکن دوسری طرف دیکھیں تو ‘‘نبی کریمﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ کیا رشتہ کرنے کے وقت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود تھے لیکن نکاح کے وقت آپؓ موجود نہیں تھے بلکہ نکاح معلق ہوا تھا ‘‘ان رضی علی’’(اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ راضی ہوں) چنانچہ آپؓ جب حاضر ہوئے تو انہوں نے رضامندی کا اظہار کیا اور پھر نکاح ہوگیا’’ ۔
اکثر باراتوں میں ایک برائی کثرت سے دیکھی گئی ہے کہ دلہن والے چھوٹی بارات کا کہتے ہیں ،لیکن اس سے زیادہ چلے جاتے ہیں ،حالانکہ ایسا کرنا شریعت اسلامی میں ممنوع ہے ،حدیث شریف میں ہے ،حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
‘‘مَنْ دُعِيَ فَلَمْ يُجِبْ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَمَنْ دَخَلَ عَلَى غَيْرِ دَعْوَةٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِيرًا’’
(جس کو دعوت گئی اور اس نے دعوت قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کی اور جو بن بلائے دعوت میں گیا وہ چور بن کر داخل ہوا اور لوٹ مار کر نکلا۔)
دوسرا یہ بھی ہے کہ بارات کی متعین تعداد سے زیادہ لاکر وعدہ خلافی کی جاتی ہے جبکہ اسلام میں اس کو برا تصور کیا گیا ہے ،نبی کریمﷺ نے فرمایا:
‘‘آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ’’
(منافق کی تین علامات ہیں،1۔جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے،2۔جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے،3۔جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾
( اور عہد کو پورا کرو بیشک عہد کے بارے میں(قیامت کے دن) پوچھا جائے گا۔)
ان فضول رسومات میں جو لوگ شرکت کرتے ہیں ان میں سے اکثر لوگ ایسی رسومات کی وجہ سے نماز اور دوسری عبادات سے غافل ہوجاتے ہیں،جو عورتیں میک اپ کرکے آتی ہیں ان کے بارے میں تو یہ سوال پید اہی نہیں ہوتا کہ نماز بھی پڑھتی ہونگی کیوں کہ اگر وہ وضو کریں گی تو ان کا سارا میک اپ اتر جائے گا جو وہ ہر گز برداشت نہیں کریں گی،جو لوگ عبادت سے غفلت برتتے ہیں ان کی تشریح قرآن میں یو ں کی گئی ہیں:
﴿إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ﴾
(شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوا کے ذریعے تمہاری آپس میں دشمنی کروادے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے دور کردے ۔)
اس آیت میں جوئے اور شراب کے دو نقصانات بیان کیے گیے ہیں ایک یہ کہ شیطان ان کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی پیدا کردے اور دوسرا یہ اللہ کی یاد اور نماز سے تمہیں غافل کردے ،نبی کریم ﷺ نے ‘‘مَيْسِرِ’’ کی تشریح کرتے ہوئے یو ں فرمایا:
‘‘كُلُّ مَا أَلْهَى عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ، وَعَنِ الصَّلَاةِ فَهُوَ مَيْسَرٌ ’’
(ہر وہ چیز جو اللہ کے ذکر اور نمازسے غافل کردے وہ سب جوا ہے۔)
اب اسی سے بارات اور ایسی دوسری رسومات کاحکم نکال دیجیے ،حدیث کے صاف الفاظ کہتے ہیں جو چیز نماز اور ذکر سے غافل کرے ان کا حکم بھی جوئے اور شراب سا ہے، یعنی جتنا گناہ ان دونوں (جوئے اور شراب) سے ہوگا اتنا گناہ ایسی رسومات کرنے سے بھی ہوگا جو نماز اور ذکر الٰہی سے غافل کرتی ہیں اور اس کا سبب بنتی ہیں،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں ایسی رسمیں ہوتی ہیں وہاں نماز کی پابندی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
آج کل شادی بیاہ کی دوسری رسومات کی طرح بارات میں بھی بے حیائی اور فحاشی اور عریانی عروج پر ہوتی ہے اور عورتون نے اپنی جسمانی ونسوانی حسن کی نمائش کو اشعار بنا لیا ہے ،ایسے لباس میں ملبوس ہوتی ہیں کہ شرم کے مارے آنکھیں بھی جھک جاتی ہیں،ایسے لباس کے بارے میں نبی کریمﷺ نے وعید بیان فرمائی ہے اور ان کے بارے میں کہا ہے کہ ایسی عورتیں جہنم میں داخل ہونگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‘‘صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلاَتٌ مَائِلاَتٌ رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لاَ يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ ، وَلاَ يَجِدْنَ رِيحَهَا ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا’’
(دوقسم کے لوگ جہنم میں داخل ہونگے میں نے ان کو نہیں دیکھا،ان میں سے ایک ایسی عورتیں جو بظاہر تو لباس میں ہونگی لیکن وہ ننگی ہونگی،وہ سیدھے راستے سے بھٹکانے والی اور خود بھی بھٹکی ہوئی ہونگی،ان عورتوں کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہونگے وہ عورتیں نہ جنت میں داخل ہونگی اور نہ ہی اس کی خوشبوء کو محسوس کر سکیں گی ،جبکہ جنت کی خوشبوء اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جارہی ہوگی۔)
اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے جہنم میں جانے والے دو گروہوں کا ذکر کیا ہے جو آپﷺ کے دور میں نہیں تھے ،ان میں سے ایک ایسی عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہونگی اس کی تین شکلیں ہوسکتی ہیں:
1۔لباس پہننے کے با وجود ان کے جسم کے بہت سے قابل ستر حصے ننگے ہونگے جیسے:چہرہ ،بازو ،گردن اور سینہ (چھاتی)وغیرہ۔عورتوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے یہ حصے ننگے ہوتے ہیں حالانکہ ان کو پردے میں رکھنے کاحکم ہے۔
2۔ایسا تنگ اور چست لباس پہنیں گی،جس سے جسم کے خدو خال ہی نہیں انگ انگ بھی نمایاں ہوگا۔
3۔ایسا باریک لباس پہنیں گی جس سے سارا جسم جھلکتا نظر آئے اور ان کی جلد کی رنگت اور حسن نمایاں ہو تا ہوگا۔
‘‘ممیلات اور مائلات’’ کی تشریح یوں کی گئی ہے:
ایسی عورتیں جو خود بے حیائی اور فحاشی کرنے والی ہونگی اور اس ے ساتھ ان کا چال چلن ایسا ہوگا کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی،آج کل کی شادیوں میں شریک عورتوں کا بھی یہی حال ہے وہ خود بھی بے حیائی کرتی ہیں اور دوسری خواتین اور مردوں کو بھی اپنی جال میں پھنسا دیتی ہیں۔
بارات کے لیے گاڑیوں کا انتظام کرنا خاص کرکے دولہے کے لیے الگ گاڑی کا انتظام کرنا اور اس کے ساتھ ہر باراتی کا اس رسم کے لیے الگ جوڑے بنوانا یہ سب فضول خرچی اور ریاء کاری ہے اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اسلام تو اس بات کا تصور دیتا ہے کہ نکاح سادہ اور کم خرچ پر مبنی ہو ،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
‘‘إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً’’
(سب سے برکت والا نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔)
فتاویٰ
1۔نکاح کے لیے بارات لے جانا کوئی شرعی حکم نہیں ہے،مصلحت و ضرورت کے مطابق آدمیوں کو لے جایا جاسکتا ہے۔
2۔بارات کی شرعاً کو ئی اصل نہیں اور نہ ہی سنت سے اس کا کوئی ثبوت ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نکاح کے لیے لڑکی والون کے گھر بارات لے جانا جائز ہے لیکن یہ سلسلہ مختصر ہونا چاہیے ۔لمبی لمبی باراتوں کا سلسلہ فضول خرچی اور اسراف ہونے کے علاوہ لڑکی والوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث ہے ،اس کاصحیح حل یہی ہے کہ نکاح والے دن لمبی لمبی باراتوں کا سلسہ چھوڑ کر محض والدین ،بہن بھائی اور نہایت ہی ضروری اقرباء کو نکاح کے لیے لے جایا جائے تاکہ لڑکی والوں پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑے اور فضول خرچی سے بھی اجتناب ہو جائے ،دوسرا یہ بھی ہے کہ بارات میں ان ساری خرافات اور برائیوں سے بھی پرہیز کرنی چاہیے جو اسلام میں ممنوع ،ناجائز اور حرام ہیں۔ اور ایسے ملبوسات پہننے سے بھی گریز کرنا چاہیے جن میں جسمانی نمائش،عریانی،بے پردگی ،ظاہری نمائش اور فخر شامل ہو۔
• مہندی کی رسم
عملی شکل
مہندی کی رسم کے لیے باقاعدہ تاریخ مقرر کی جاتی ہے اور یہ رسم زیادہ تر راتوں کو انجام پاتی ہے،اس رسم میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہوتی ہیں،مہندی والی رات کو دولہا کے گھر سے دلہن کے لیے مہندی کا تھال بھیجا جاتا ہے جو بہت سجا ہوا ہوتا ہے ،اس کے درمیان موم بتی یا چراغ جلتا رہتا ہے،دلہن کو کسی بلند جگہ بٹھایا جاتا ہے اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں میں مہندی لگائی جاتی ہے،جس طرح دلہن کے لیے مہندی آتی ہے اس طرح دولہے کے لیے بھی دلہن کے گھر سے مہندی آتی ہے اور دولہے کو لگائی جاتی ہے۔
شرعی حکم
اسلام میں دولہے اور دلہن کا شادی کے لیے تیا ر ہونا مستحب ہے،چنانچہ حضرت عائشہ کی رخصتی کے موقع پر انصار کی کچھ عورتوں نے آپؓ کا بناؤ اور سینگار کرکے آپؓ کو تیا ر کیا تھا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:‘‘میرا نکاح نبی کریمﷺ سے چھ سال کی عمر میں مکہ میں ہوا تھا،اس کے بعد جب ہم مدینہ میں آئے تو میرے بال بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے تھے پھر جب میرے بال نکل کر کندھوں تک آگئے توایک دن میں اپنی سہیلیوں کےساتھ کھیل رہی تھی کہ میری والدہ ام رومان نے مجھے بلایا اور مجھے انصار کی چند عورتوں کے حوالہ کردیا پھر انہوں نے میرا بناؤ اور سینگار کیا اور پھر مجھے رخصت کیا گیا۔’’
اور اسی طرح حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے نکاح کے موقع پر کپڑوں کو زرد چیز لگائی تھی،چناچہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں:
‘‘أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهِ أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ’’
(حضرت عبد الرحمٰن بن عوف نبی کریم ﷺ کے پاس آئے تو ان پر زردی کے نشان تھے نبی کریم ﷺ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے انصار کی کسی عورت سے شادی کی ہے۔)
مہندی لگانا صرف دلہن کے لیے ہی نہیں ہر عورت کے لیے جائز ہے ،علامہ ابن عابدین کہتے ہیں:
‘‘ولا بأس به للنساء’’
(عورتوں کے لیے مہندی لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔)
البتہ مردوں اور بچوں کے لیے مہندی لگانے کو مکروہ کہا ہے:
‘‘ويكره للإنسان أن يخضب يديه ورجليه وكذا الصبي’’
(مردوں اور بچوں کے لیے ہاتھوں اور پاؤں پر مہندی لگانا مکروہ ہے۔)
عورتوں کے لیے فی نفسہ مہندی لگانا جائز ہے چاہے وہ شادی کے موقع پر ہو یاکسی اور موقع پر،البتہ جو آج کل صرف مہندی کی رسم پر لاکھوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں وہ نا جائز ہے، کیونکہ اس میں فضول مال کا ضیاع ہے اور قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے،اللہ تعالٰی فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا﴾
(فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نافرمان ہے۔)
امام قرطبی نے امام شافعی سے اس آیت کی تشریح نقل کی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:
‘‘وَالتَّبْذِيرُ إِنْفَاقُ الْمَالِ فِي غَيْرِ حَقِّهِ، وَلَا تَبْذِيرَ فِي عَمَلِ الْخَيْرِ’’
(تبذیر ’’ کا معنیٰ ہے مال کو ایسی جگہ خرچ کرنا جہاں اس کو خرچ نہیں کرنا چاہیے اور عمل خیر میں خرچ کرنا فضول خرچی نہیں ہے۔)
مہندی کی اس رسم میں دوسرے غلط کاموں کے ساتھ مرد وزن کا اختلاط بھی عروج پر ہوتا ہے جہاں عورتیں نامحرموں کے سامنے بے پردہ گھومتی اورناچتی ہیں ،جبکہ دین اسلام میں ایسا کرنا حرام ہے قرآن مجید میں ہے:
﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔﴾
( اور وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر وہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے جسم کو چادر سے چھپا کے رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر۔۔۔۔ (اس کے بعد ان کا ذکر ہے جن کے سامنے بغیر حجاب کے آنا جائز ہے۔)
دوسرے علاقوں کی طرح سندھ میں بھی مہندی کی رسم میں بے حیائی اورفحاشی کا ایسا عنصر شامل ہوگیا ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رہا،جبکہ اسلام میں تو اس بات کی قطعی اجازت نہیں ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کو عام کیا جائے بلکہ اسلام کی تو یہ خصوصیت ہے کہ وہ برائی کی طرف لے جانے والے اسباب کا بھی سد باب کرتا ہے،قرآن مجید میں ہے:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾
(فحاشی کے قریب بھی نہ جاؤ چاہے وہ ظاہری ہو یا باطنی ہو۔)
عورتوں کا کام ہی گھروں میں رہنا اورگھر کے کام سنبھالنا ہے اسلام ان کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ باہر جاکر برائی اور بے حیائی کو فروغ دیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى﴾
( اور اپنے گھروں میں رہو اور دور جاہلیت کی طرح زیب و زینت اختیار نہ کرو۔)
حدیث شریف میں ایسی عورتوں کو زانیہ سے مشابہت دی گئی ہے جو خوشبو لگا کر غیر مردوں کے سامنے گزرتی ہیں تاکہ وہ ان کی خوشبو کو محسوس کرکے ان کی طرف مائل ہوں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
‘‘ وَالمَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا يَعْنِي زَانِيَةً’’
(جو عورت غیر مردوں کے سامنے خوشبو لگا کر گزرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو کو محسوس کریں تووہ زانیہ ہے۔)
اسلام تو اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی عورت مسجد میں اس حال میں آئے کہ اس کو خوشبو لگی ہوئی ہوچنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا ’’
(جب تم میں سے کوئی عورت مسجد میں آئے تو وہ خوشبو نہ لگائے۔)
دور جدید میں اس رسم نے ایک اور انگڑائی لی ہے جس کو عام زبان میں ‘‘مہندی لے جانا’’ بھی کہا جاسکتا ہے،اس میں یہ ہوتا ہے کہ نہ لڑکے والے دلہن کو مہندی لگاتے ہیں اور نہ ہی لڑکی والے دولہے کو بلکہ محض ا س رسم کی ادائیگی کے لیے طرفین سے ایک دوسرے کے لیے مہندی لائی جاتی ہے اور دلہن اور دولہے کے ہاتھ پر پتہ یا اس جیسی کوئی چیز رکھ دی جاتی ہے اور اس پر مہندی لگاکے یہ رسم پوری کی جاتی ہے اور مہندی بھی اتنی زیادہ لائی جاتی ہے کہ پورا محلہ بھی اگر مہندی لگائے تو وہ ختم نہ ہو،یہ تو محض فضول خرچی ہے قرآن وحدیث میں جگہ جگہ فضول خرچی کرنے سے منع کیا گیا ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿لَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾
(فضول خرچی نہ کرو اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔)
جو امیر لوگ ہیں ان کے ہاں تو یہ رسم اور بھی نیا رخ اختیار کر گئی ہے وہ تو فضول خرچی کی انتہاء کو پہنچ گئے ہیں ان کے ہاں مہندی پتے کے بجائے پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں پر لگائی جاتی ہے ،اس کامقصد اور کچھ نہیں محض دکھاوا ہے جبکہ حدیث شریف ہے کہ قیامت کے دن یہ سوال بھی پوچھا جائے کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
‘‘لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ القِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ’’
(قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے اس کے مال کے بارے میں سوال نہ کیا جائے کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔)
شریعت اسلامی میں کوئی بھی کام دکھاوے کے لیے کرنا مذموم سمجھا گیا ہے ،نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
‘‘مَنْ صَلَّى يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ،وَمَنْ تَصَدَّقَ يُرَائِي فَقَدْ أَشْرَكَ’’
(جس نے نماز دکھاوے کے لیے پڑھی یا صدقہ دکھاوے کے لیے دیا تو اس نے شرک کیا۔)
فتاویٰ
1۔‘‘ھذا العمل بھذہ الکیفیۃ لایجوز’’ (یہ رسم اس کیفیت میں ناجائز ہے۔)
2۔مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے یہ بھی دور جاہلیت کی یادگار ہے ،اس سے اجتناب کرنا چاہیے ،مہندی لگانا تو جائز ہے،لیکن اس کے لیے تقریبات منعقد کرنا اور لوگوں کو دعوت دینا ،جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا شوخ رنگ اور بھرکیلے لباس پہن کر بے محابا ایک دوسرے کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی کا طریقہ ہے اور شریعت کی رو سے ناجائز ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک مہندی لگانے کا تعلق ہے تو مردوں کے لیے مہندی لگانا مکروہ ہے،لہٰذا مردوں کے لیے مہندی اور اس کی رسم سے اجتناب ضروری ہے ،البتہ عورتوں کے لیے اس کے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ان کے لیے مہندی لگانا مستحب ہے ،لیکن اس کے لیے محفلیں منعقد کرنا،لوگوں کا ہجوم ہونا اور ناچ گانے کا اہتمام کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے،اسلام میں ایسی فضول رسموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے،البتہ اگر صرف مہندی کی یہ رسم انفرادی طور پر کی جائے مثلاً :ہر ایک عورت انفرادی طور پر خو دیا کسی اور سے مہندی لگوائے اورا س میں فضول خرچی ناچ گانے یا مردوں سے اخلاط جیسی کوئی برائی شامل نہ ہو تو پھر یہ جائز ہے ۔
• مایوں بٹھانا
عملی شکل
شادی سے چند دن پہلے لڑکے والے گھر کی عورتیں دلہن کے گھر جاتی ہیں اور مایوں بٹھانے کی رسم ادا کرتی ہیں،ایک کمرے کے کونے میں دلہن کے لیے قالین یا چارپائی پر ایک لال رنگ کی چادر ڈال دی جاتی ہے اور اس پر دلہن کو بٹھایا جاتا ہے اور اس کے بعد دلہن کو رخصتی تک کوئی کام نہیں کرتی ،اس کے ساتھ ایک عورت اس کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کی جاتی ہے،اس دوران دلہن کسی ضروری کام کے علاوہ اس کمرے سے باہر نہیں نکلتی،اس دنوں میں اس کے لیے لڑکے والوں کے گھر سے گھی ،آٹا ،میوہ جات،تیل ،مصری اور کھانے پینے کی اور چیزیں وافر مقدار میں بھیجی جاتی ہیں،رخصتی ہونے تک یہ اس کمرے میں قید رہتی ہے تاکہ اس کو نظر بد نہ لگ جائے ،اس رسم کو سندھ میں ‘‘ونواہ’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
شرعی حکم
دور نبوت میں ایسی رسموں کا کوئی وجود نہیں تھا ،اُس دور میں نکاح اتنی سادگی سے ہوتے تھے کہ قریبی رشتے داروں کے سوا کسی اور کو بھی اطلاع نہیں دی جاتی تھی یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کو بھی پتہ نہیں ہوتا تھا،چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے:
‘‘عَنْ جَابِرٍقَالَ : تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً فِي عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَقِيتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا جَابِرُ تَزَوَّجْتَ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ : بِكْرٌ ، أَمْ ثَيِّبٌ ؟ قُلْتُ : ثَيِّبٌ ’’
(حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے عہد رسالت میں شادی کی ،جب میری ملاقات نبی کریمﷺ سے ہوئی تو آپﷺ نے مجھ سے کہا:اے جابر! کیا تم نے شادی کی ہے؟ تو میں نے کہا:ہاں،پھر آپﷺ نے پوچھا کنواری یا شوہر دیدہ؟ میں نے کہا شوہر دیدہ۔)
برصغیر میں ہندؤں کے ساتھ رہنے سے یہ رسمیں مسلمانوں میں سرایت کرگئیں،ان رسموں کا شریعت اسلامی کوئی وجود نہیں ۔
شادی سے پہلے سات روز تک عورت کو گھر کے کسی ایک کونے میں چاہے سردی ہو یا گرمی قید کرنا غیر منطقی ہی نہیں بلکہ توہم پرستی اور عورت کو تکلیف میں ڈالنے کے مترادف ہے ،دین اسلام میں نکاح جیسی عظیم سنت میں ایسی تکلیفوں کا کوئی جواز نہیں ہے ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مَؤُونَةً’’
(سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے جس میں تکلیف کم ہو۔)
اسلام نے نکاح کے متعلق ایسا سادہ اور بے تکلف تصور پیش کیا ہے جس میں امیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کس کو کسی مشقت اور تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی کی آپﷺ سے شادی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے،حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :
‘‘میں کسی کام مشغول تھی مجھے میری والدہ نے بلایا اور کہا کہ نہالو میں نے نہانے کے بعد کپڑے تبدیل کیے اس کے بعد میری والدہ نے مجھے کچھ عورتوں کے حوالہ کیا انہوں نے مجھے جلدی سے تیار کیا اور اس کے بعد میری رخصتی ہوگئی۔’’
ایسی شادی جس کے بارے میں صبح کو بھی کسی کو معلوم نہیں تھا کہ شام کو رخصتی ہونے والی ہے ،اس کے برعکس ہماری شادیاں جن میں اتنی رسمیں کی جاتی ہیں جن کی ابتداء شادی سے ایک ماہ پہلے ہوجاتی ہے ،ایسی رسموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ رسم ہندؤں سے ہمارے پاس آئی ہیں،مولانا محمد علی لکھتے ہیں:
‘‘شادی سے چند دن پہلے گھر کی عورتیں دلہن کو گھر کے ایک کونے میں محبوس کردیتی ہیں جسے ‘‘مایوں بٹھانا’’ کہا جاتا ہے جوکہ خالص ہندوانہ رسم ہے،لڑکی کو کام کاج حتی کہ گھر والوں سے بول چال تک سے منع کردیا جاتا ہے تا وقتیکہ اس کی شادی ہوجائے ،اسلام میں اس رسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔’’
عورت کو شادی سے پہلے محض اس وجہ سے کمرے میں قید کرنا تاکہ اس کو نظر بد سے بچایا جائے یہ توہم پرستی اور جہالت ہے،اسلام میں ایسی توہم پرستی اور ایسی بدفالی ناجائز ہی نہیں بلکہ اس کو ناپسند بھی کیا گیا ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
‘‘كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ الْفَأْلُ الْحَسَنُ، وَيَكْرَهُ الطِّيَرَةَ’’
(نبی کریمﷺ کو اچھی فال پسند تھی اور بد فالی ناپسند تھی۔)
رسموں میں اتنی زیادہ فضول خرچی بڑھ گئی ہے کہ کوئی اپنی اولاد کی شادی کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اور ان رسموں میں سے ایک رسم مایوں بٹھا نا بھی ہے، جس میں دلہن کے لیے دولہے کے گھر سے اتنی کثیر تعداد میں میوہ جات اور کھانے پینے کی اشیاء آتی ہیں ہیں کہ شادی میں شریک لوگ پیٹ بھر کر بھی کھائیں تب بھی وہ ختم نہ ہوں،جبکہ شریعت اسلامی میں کسی کا مال بغیر کسی شرعی سبب کے لینا یا استعمال کرنا ممنوع اور ناجائز ہے ،علامہ ابن عابدین ؒفرماتے ہیں:
‘‘لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی’’
(کسی مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کامال بغیر کسی سبب شرعی کے لے لے۔)
علامہ ابن نجیم ؒ نے ایسے مال کو رشوت قرار دیا ہے،فرماتے ہیں:
‘‘ولو اخذ اھل المرأۃ عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لانّہ رشوۃ’’
(اگر عورت کے خاندان والوں نے نے رخصتی کے وقت کوئی چیز دولہے والوں سے لی ہے تو پھر شوہر کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ چیز واپس لے لے کیوں کہ یہ رشوت ہے۔)
لڑکی کو اس طرح کسی کمرے تک محدود رکھ کر آزادی سلب کرنا اس کو تکلیف دینے کے مترادف ہے جو اسلام میں جائز نہیں ہے اور یہ ایذائے مسلم کے زمرے میں آتی ہے جس کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ’’
(مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔)
فتاویٰ
1۔مایوں بٹھانے کی رسم کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے،ممکن ہے جس شخص نے یہ رسم ایجاد کی ہے اس کا مقصد یہ ہو کہ لڑکی کو تنہا بیٹھنے ،کم بولنے بلکہ نہ بولنے کی عادت ہو جائے اور اسے سسرال جاکر پریشانی نہ ہو،بہر حال اس کو ضروری سمجھنا اور محارم ِ شرعی تک کا پردہ کرا دینا بے ہودہ بات ہے اور اگر یہ غور کیا جائے تو یہ رسم لڑکی کے حق میں‘‘قید تنہائی’’بلکہ زندہ درگور کرنے سے کم نہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس رسم میں ایسی خرافات نہیں ہونی چاہئیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے باقی جہاں تک لڑکی کو شادی سے پہلے کام کاج چھڑا کر آرام کرنے کا موقع دینے کی بات ہے تو اس میں شرعاً کو قباحت نہیں ہے ،بلکہ اس میں تو کئی خوبیاں ہیں مثلاً:لڑکی کا کام کاج چھوڑ کر اپنے جسم کی صفائی اور خوبصورتی پر توجہ دے گی تاکہ خاوند کی نگاہ میں اس کا اچھا تاثر ہو،لیکن اس دوران گھریلو کام کو ناجائز سمجھنا ، لڑکی کو کمرے تک محدود رکھنا ،گھر کے باقی افراد سے بات چیت نہ کرنا اور اگر یہ رسم ادا نہ ہو تو بدفالی ہونے کا اعتقاد رکھنا یہ سراسر اسلام کے طرز عمل اور تعلیمات کے خلاف ہے ،اس لیے ایسے سب کاموں سے بچنا چاہیے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
• نیوتہ(دعوت ولیمہ میں شریک مہمانوں سے رقم لینا)
عملی شکل
یہ رسم دوسرے صوبوں کی بنسبت سندھ کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے،جس جگہ شادی کا ولیمہ کیا جاتا ہے اس کے دروازے پر ایک ایسے شخص کو بٹھایا جاتا ہے جو لکھنا پڑھنا جانتا ہو اس کو ایک کاپی دی جاتی ہے وہ اس میں نیوتہ دینےوالے کا نام ،رقم اور سکونت تفصیل سے لکھتا ہے،یہاں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ جتنی رقم یہ ان کو دیکر آئے تھے وہ بھی کم سے کم اتنی رقم ضرور دیں اُس سے کم رقم کسی بھی صورت میں وصول نہیں کی جاتی،لیکن اگر کسی نے اس سے کم رقم دی تو پھر اس سے ناراضگی اور قطع تعلقی ہوجاتی ہے اور بول چال بند ہوجاتی ہے، اور اس کو لکھنے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ جتنی رقم دیکر جارہے ہیں ہم بھی ان کو اتنی رقم دیکر آئیں۔
شرعی حکم
دعوت ولیمہ یا شادی کے دوسرے اخراجات میں اگر دوست و احباب یا اہل خاندان تعاون کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ شریعت میں پسندیدہ عمل ہے،چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
‘‘عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ :تَزَوَّجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،قَالَ : فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا،فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ ، فَقَالَتْ : يَا أَنَسُ، اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَقُلْ:بَعَثَتْ بِهَذَا إِلَيْكَ أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلاَمَ ، وَتَقُولُ : إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللهِ ، قَالَ : فَذَهَبْتُ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ:إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلاَمَ ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللهِ ، فَقَالَ : ضَعْهُ ، ثُمَّ قَالَ: اذْهَبْ،فَادْعُ لِي فُلاَنًا وَفُلاَنًا وَفُلاَنًا’’
(حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے جب شادی کی تو تب میری والدہ نے مالیدہ تیار کیا اور وہ ایک برتن میں ڈال کر مجھ سے کہا:اےانس!اس کو نبی کریمﷺ کے پاس لے کر جاؤ اور آپﷺ کو کہو یہ میری ماں نے بھیجا ہے وہ آپ کو سلام کہہ رہی تھیں اور یہ بھی کہنا کہ یہ ہماری طرف سے چھوٹا سا ہدیہ ہے پیش خدمت ہے،پھر میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اسی طرح ہی کیا جو میری امی نے بتایا تھا،اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا:اس کو رکھو اور فلاں،فلاں کو بلاؤ۔)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت ولیمہ میں کسی سے تعاون کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ یہ مستحسن ہے۔
لیکن آج کل ہمارے ہاں جو رسم چل پڑی ہے جس کو نیوتہ کہا جاتا ہے اس کو تعاون نہیں کہا جاسکتا کیونکہ تعاون میں کسی قسم کا کوئی حساب نہیں رکھا جاتا جس کو جتنی استطاعت ہوتی ہے وہ اتنا ہی تعاون کرتا ہے ،جبکہ نیوتہ میں یہ ہوتا ہے کہ اس رقم کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا ہے اور دینے والےکے ہاں دعوت ہونے کی صورت میں دی ہوئی رقم کے برابر یا اس سے زیادہ لینے کارواج ہوتا ہے اس سے کم کسی بھی صور ت میں قبول نہیں کیا جاتا ،اس لحاظ سے کسی بھی صورت میں یہ تعاون نہیں ہوسکتا،کیونکہ تعاون کی صورت میں جتنا بھی دیا جائے اس کو قبول کیا جاتا ہے اس میں زیادہ یا کمی کی طلب نہیں کی جاتی،یہاں اس کی صورت قرض کی بن رہی ہے کیونکہ یہاں ایک شخص قرض دیتا ہے اور جب اس کی کوئی دعوت ہوتی ہے وہ اس قرض کو واپس لیتا ہے ،اس رقم کے قرض ہونے کی صورت میں متعدد خرابیاں پائی جاتی ہیں:
1۔نیوتہ میں بلا ضرورت قرض لیا جاتا ہے جبکہ علماء نے بلا ضرورت قرض لینے سے منع فرمایا ہے ،امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
‘‘اتفق العلماء علی النھی عن السؤال اذا لم تکن ضرورۃ’’
(علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بغیر ضرورت کے قرض لینا جائز نہیں ہے۔)
2۔مقروض کے لیے ضروری ہے کہ ادائیگی پر قادر ہوتے ہی اپنے ذمہ سے اس بوجھ کو اتار دے ،جب نیوتہ میں مخصوص موقع سے پہلے اگرچہ وہ قادر ہو پھر بھی واپس نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ مخصوص موقع نہ آجائے،اس خاص موقع کے علاہ اگر وہ ادا کرتا ہے تو قرض کی ادائیگی نہیں ہوگی ،چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرض لیا جب ان کے پاس پیسے آگئے تو آپﷺ قرض ادا کردیا۔
‘‘عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ،قَالَ: اسْتَقْرَضَ مِنِّي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ أَلْفًا، فَجَاءَهُ مَالٌ فَدَفَعَهُ إِلَيَّ’’
(حضرت عبد اللہ بن ربیعہ ؓ سے روایت ہے کہ:نبی کریمﷺ نے مجھ سے چالیس ہزار درہم قرض لیے ،جب آپﷺ کے پاس مال آگیا تو آپﷺ نے میری رقم واپس کی ۔)
3۔قرض کی واپسی کے بارے میں یہی حکم ہے کہ اگر مقروض تنگدست ہے تو اس کو مہلت دی جائے چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:
‘‘مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ، فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ’’
(جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن کی تکلیفوں سے نجات دے وہ کسی قرض دار کو مہلت دے۔)
جب کہ مروجہ نیوتہ میں ادائیگی کا خاص وقت مقرر ہے یعنی دینے والے کے ہاں جب ایسی کوئی تقریب ہو تو اس کے دیے ہوئے اس قرض کو واپس کرے ،لیکن کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے لیکن پھر بھی ان سے نیوتہ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور پھر مجبوراً کسی سوال کرکے یا سودی قرض لے کر یہ نیوتہ ادا کیا جاتا ہے جو کہ شریعت اسلامی کی تعلیمات کے متضاد ہے ۔
4۔اکثر جگہوں پر یہ بات مشروط کی جاتی ہے کہ دی گئی رقم سے زیادہ رقم لی جائے ،اگر ان کو کم یا برابر دیا جاتا ہے تو اس کو برا سمجھتے ہیں اور لینے میں عیب محسوس کرتے ہیں،اگر یہ لوگ ان کو زیادہ رقم دیتے ہیں تو یہ سود میں داخل ہوگی کیونکہ علماء نے ہر اس قرض کو سود قرار دیا ہے جس میں نفع کا حصول ہو،
‘‘كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا حَرَامٌ’’
(ہر وہ قرض جس میں نفع شامل ہو وہ حرام ہے۔)
چنانچہ نیوتہ میں بھی رقم کم دی جاتی ہے اور جب لی جاتی ہے تو زیادہ ہوتی ہے جوکہ ناجائز اور غیر شرعی ہے۔
دیکھا جائے تو یہ رسم عقلاً بھی درست نہیں کیونکہ شادی بیاہ خوشی کے مواقع ہیں اور ان خوشی کے مواقع میں صاحب تقریب اظہار مسرت کے طور پر دعوت کا اہتما م کرتا ہے اب اس پر مسرت موقع پر اس کاعوض وصول کرنا عقل سلیم کے نزدیک بھی باعث عار ہے۔
مفتی شفیع عثمانی لکھتے ہیں:
﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ﴾
(اس آیت میں ایک بری رسم کی اصلاح کی گئی ہے جو عام خاندانوں اور اہل قرابت میں چلتی ہے وہ یہ کہ عام طور پر کنبہ رشتہ کے لوگ جو کچھ دوسرے کو دیتے ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے وقت میں کچھ دے گا بلکہ رسمی طور پر کچھ زیادہ دے گا،خصوصاً نکاح اور شادی وغیرہ کی تقریبات میں جو کچھ دیا جاتا ہے اس کی یہی حیثیت ہوتی ہے جس کو عرف میں نیوتہ کہتے ہیں ۔ہدیہ اور ہبہ دینے والے کو اس پر نظر رکھنا کہ اس کا بدلہ ملے گا تو یہ ایک مذموم حرکت ہے جس کو اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔)
فتاویٰ
1۔نیوتہ کی رسم شریعت میں درست نہیں ہے اور یہ کئی برائیوں کا مجموعہ ہے ،اس لیے واپس لینے کی نیت سے ہرگز نہ دیا جائے ،جو کچھ دینا ہے ہدیہ کی نیت سے دے دیا جائے۔
2۔اگر یہ بطور اعانت ہے اور ریاکاری ،نام ونمود وغیرہ کچھ نہ ہو تو شرعاً درست بلکہ مستحسن ہے اور بسا اوقات برادری کے زور یا رسوائی کے خوف سے دیا جاتا ہے بلکہ اگر پاس نہ ہو تو قرض یا سودی قرض لے کر دیا جاتا ہے ،اس لیے یہ ناجائز ہے اور اگر بطور قرض دیا جاتا ہے تو اس میں بھی بہت سی مفاسد ہیں۔
خلاصہ یہ ہے یہ صورت نیوتہ کی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں بہت سی مفاسد پائی جاتی ہیں ،لیکن اگر یہ مفاسد نہ ہوں محض تعاون ،ھدیہ یا مالی مدد مقصود ہو اور واپس لینے کی نیت بھی نہ ہو محض اس کے ساتھ اظہار ہمدردی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی شرعی ممانعت ہے۔
• موسیقی او ر گانا بجانا
عملی شکل
گانے بجانے کا رواج سندھ کی شادیوں دن بدن بڑھ رہا ہے اب تو یہ شادی کا جزو لازم بن گیا ہے ،یہ رسم مایوں بٹھانے کے بعد سے لے کر شادی کے ختم ہونے تک چلتی ہے اس کے لیے باقاعدہ گانا بجانے کے لیے لائوڈ اسپیکر اور ایکوسائونڈ منگوائے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ اس کے لیے پیشہ اور گانے بجانے والے بلائے جاتے ہیں جو دن رات گانا بجانے میں مشغول رہتے ہیں ،ان کا آواز صرف شادی کے گھر تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس آواز سے پورا محلہ گونجتا ہے ۔
شرعی حکم
گانے بجانے کا رواج ہماری شادیوں کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے،اس کے بغیر شادی کو نا مکمل اور ناقص تصور کیا جاتا ہے،موسیقی جائز ہے یا ناجائز اس میں دو طرح کی راے پائی جاتی ہیں :
1۔جائز ہے 2۔جائز نہیں ہے۔
جو لوگ شادی بیاہ میں موسیقی کے جواز کے قائل ہیں وہ مندرجہ ذیل روایت کو بطور قوی دلیل کے اس کی تائید میں پیش کرتے ہیں:
‘‘عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ: أَنْكَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:أَهْدَيْتُمْ الْفَتَاةَ؟قَالُوا: نَعَمْ. قَالَ:أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي؟قَالَتْ: لَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ:أَتَيْنَاكُمْ أَتَيْنَاكُمْ … فَحَيَّانَا وَحَيَّاكُمْ’’
(حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ:حضرت عائشہؓ نے انصار میں سے ایک عزیزہ کا نکاح کیا،اس موقع پر نبی ﷺ وہاں تشریف لائے اور دریافت کیا:کیا تم نے لڑکی کو رخصت کردیا؟لوگوں نے کہا:ہاں،آپﷺ نے فرمایا:کیا اس کے ساتھ کوئی گانا بجانے والا بھی بھیجا ہے ،حضرت عائشہؓ نے کہا:نہیں،تو پھر آپﷺ نے فرمایا:انصار گانے کو پسند کرتے ہیں یہ بہتر ہوتا کہ ان کے ساتھ کسی گانے والے کو بھیجتے جو یہ گیت گاتا:
ہم تمہارے پاس آئے ہیں، ہم تمہارے پاس آئے ہیں،ہم بھی سلامت رہیں تم بھی سلامت رہو۔)
مذکورہ حدیث میں شادی بیاہ کے موقع پر گیت گانے کا مطلقاً ذکر ہے اس میں یہ بات وضاحت کے ساتھ یا اشارتاً مذکور نہیں ہے کہ ایسی محفلوں میں بےحیائی اور فحاشی والے گیت گائے جائیں یا اجنبی عورتوں اور اس فن کی ماہر مغنیات کو بھی اس محفل میں مدعو کیا جائے ،بلکہ اس حدیث میں جو گیت کے الفاظ ہیں اس میں ایک دوسرے کے لیے سلامتی کی دعا کا ذکر ہے اور دوسری بات یہ کہ گیت گانے والیوں سے مراد بچیاں ہیں نہ کہ نوجوان عورتیں اور پیشہ ور مغنیات، جیساکہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے:
‘‘عَنْ خَالِدِ بن ذَكْوَانَ، قَالَ: قَالَتِ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حِينَ بُنِيَ عَلَيَّ،فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ لَنَا، يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ، إِذْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ:دَعِي هَذِهِ، وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ’’
(خالد بن ذکوان سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:ربیع بنت معوذ فرماتی ہیں :جب میری رخصتی ہوئی تو نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے ،اس وقت ہماری بچیاں دف بجا رہی تھیں اور بدر میں شہید ہونے والے آباء کو اشعار کی صورت میں گا رہی تھیں ،ان میں سے ایک بچی نے کہا:اس وقت ہمارے درمیان وہ نبی موجود ہیں جنہیں آنے والے دنوں کی باتیں بھی معلوم ہیں اس پر نبی ﷺ نے کہا کہ یہ نہ کہو وہی کہو جو پہلے کہہ رہی تھیں۔)
اس حدیث میں اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ گیت گانے والی بچیاں تھیں اور یہ بھی بات بھی سامنے آگئی کہ وہ اس میں موسیقی کا اور آلہ استعمال نہیں کر رہی تھیں بلکہ وہ دف کے ساتھ گارہی تھیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی ﷺ نے ایسے اشعار سے منع کیاہے جن میں غلط عقائد کا تصور دیا جارہا ہو۔
شادیوں میں ڈھول ،باجہ ،بانسری اور طبلہ وغیرہ کا بجانا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ یہ بھی موجودہ دور میں موسیقی کی ایک نئی شکل ہے اور موسیقی کا غلط ہونا قرآن وحدیث میں واضح اور صراحتاً مذکور ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ﴾
( اور بعض لوگ وہ ہیں جو لغو باتیں خریدتیں ہیں تاکہ لوگوں کو بغیر علم کے اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اس (راہ ہدایت) کو مذاق بنالیں ،ایسے لوگوں کے لیے رسواکن عذاب ہے۔)
موسیقی اور گانا بجانا بھی ایسی چیزوں میں شامل ہے جو لوگوں کو دین سے غافل کردیتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے بھی ‘‘لھو الحدیث’’ سے گانا اور موسیقی مراد لی ہے :
‘‘جب حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لھو الحدیث سے کیا مراد ہے تو انہوں نے کہا :‘‘ اللہ کی قسم!اس سے مراد گانا مراد ہے۔’’
حدیث شریف میں ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
‘‘لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ’’
(میری امت سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا،ریشمی لباس،شراب اور گانے بجانے(موسیقی) کو حلال ٹھرائیں گے۔)
اس حدیث میں موسیقی اور دوسری چیزوں کی حرمت بیان ہوئی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی پیش گوئی کی گئی ہے کہ امت مسلمہ میں کچھ لوگ ان مذکورہ حرام چیزوں کا نام بدل کر انہیں اپنی طور پر حلال کرلیں گے،لیکن اصل میں وہ حرام ہونگی ۔
ایک اور حدیث میں ہے:
‘‘عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:فِي هَذِهِ الأُمَّةِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَتَى ذَاكَ؟ قَالَ: إِذَا ظَهَرَتِ المَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الخُمُورُ’’
(حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس امت کے لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ زمین میں دھنسے جائیں گے اور ان کے چہرے مسخ کردیے جائیں گے،ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ!یہ کب ہوگا؟آپ ﷺ نے فرمایا:جب گانا بجانا اور شراب پینا عام ہوجائے گا۔)
مذکورہ حدیث میں اس امت پر عذاب آنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس امت میں گانا بجانا عام ہوجائے گا اور ہم دیکھ رہیں کہ ہماری شادیوں میں اس کا رواج عام ہوگیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں موسیقی اورگانا بجانا حرام ہے ،پھر چاہے وہ شادی اور منگنی میں ہو یا کسی اور محفل میں ہو یہ کسی بھی طور پر اور کسی بھی محفل میں جائز نہیں ہے:
‘‘ودلت المسألة على أن الملاهي كلها حرام حتى التغني’’
(حقیقت مسئلہ یہ ہے کہ لہو و لعب سب حرام ہیں حتی کہ موسیقی اور گانا بجانا بھی حرام ہے۔)
البتہ احادیث شریف میں نکاح اور شادی کے وقت دف بجانے کی اجازت کا ذکر ملتا ہے ،چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
‘‘أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ،وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ’’
(نکاح کا اعلان کرو اور اس میں دف بجاؤ۔)
حدیث شریف میں دف بجانے سے مقصود یہ ہے اس کے ذریعے نکاح کا اعلان کیا جائے ،پہلے دور میں چونکہ جائز طریقوں میں صرف دف ہوتا تھا تو آپﷺ نے اس کے ذریعے نکاح کا اعلان کرنے کا حکم دیا ،آج کے دور میں چونکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں جن کے ذریعے نکاح کا اعلان کیا جاسکتا ہے لہذا اس کی ضرورت باقی نہیں رہی،دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح کی اجازت بہت سے مفسدات کا دروازہ کھول دیتی ہے اس لیے بعض فقہا نے از راہِ احتیاط دف کے استعمال کو بھی منع فرمایا ہے،چنانچہ علامہ خالد سیف اللہ رحمانی فرماتے ہیں کہ نکاح کے وقت بھی دف بجانے سے احتیاط کیا جائے کیونکہ اس سے بہت سے مفاسد کا دروزاہ کھل جاتا ہے۔
فتاویٰ
۔شادی کے موقع پر اعلان کی غرض سے ‘‘دف ’’بجانے کی اجازت ہے اور چھوٹی بچیاں غیر مکلف ہیں وہ اگر بچکانہ گیت گائیں تو انہیں روکا نہیں جائے گا،مگر جوان عورتوں کا گیت گانا حرام ہے۔
2۔باجا یا باجے سے ہم آواز گانا یا ایسا گانا جو مفسد اخلاق مضامین پر مشتمل ہو ،قطعاً جائز نہیں ،رسول اللہﷺ نے نہایت سختی کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے اور فقہا نے بالقصد اس کو سننے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔
3۔نکاح یا کسی اور تقریب کے موقع پر باجا وغیرہ بجوانا نا جائز ہے۔
لہذا خلاصہ یہ ہے:
1۔شادی کے موقع پر دف بجانا اور اس کے ساتھ قومی گیت گانا جو اخلاقی اور اعتقادی لحاظ سے صحیح ہوں جائز ہے لیکن حتی الامکان دف سے بھی اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ مفاسد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
2۔گیت کہنے والی بچیاں ہوں ،اگر عورتیں گا رہیں ہیں تو ان کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ان کا آواز غیر محرم نہ سن سکیں ،بحالت دیگر یہ بھی ناجائز ہے۔
3۔یہ کام محدود پیمانے تک ہو،اس کی وجہ سے پڑوسیوں یا دیگر لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
4۔شادی کے موقع پر رقص اور موسیقی کی مجلسیں منعقد کرنا حرام ہے اس سے اجتناب کیا جائے۔
5۔ایسے اشعار جو غلط عقائد پر مبنی ہوں ،کفار سے مشابہت رکھتے ہوں یا وہ کفار کا شعار ہوں ایسے اشعار کہنا بھی جائز نہیں ہیں۔
6۔موسیقی اور گانا بجانے کی کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
• کسی شخص کو دولہے کا ‘‘آنر’’مقرر کرنا
عملی شکل
‘‘آنر’’ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو شخص نکاح سے پہلے سے لے کر نکاح کی رسومات کے ختم ہونے تک دولہے کے ساتھ رہتا ہے اور یہ شخص دولہے کی ضروریات مثلاً کھنا ،پینا،رہائش اور اس کا بناؤ اور سینگار یہاں تک کہ اس کے جوتوں وغیرہ کا بھی خیال رکھتا ہے،رخصتی کے وقت لڑکی والے اس سے برا برتاؤ کرتے ہیں اور اس کو بے عزت کیا جاتا ہے اور اس کو یہ سب کچھ سہنا پڑتا ہے حتی کہ اس کے ساتھ مختلف قسم کی حرکات کی جاتی ہیں لیکن چونکہ یہ دولہے کا خیال رکھنے والا ہوتا ہے اس لیے یہ خاموش رہتا ہے اور شادی کی رسومات کے ختم ہونے کے بعد اس کو چند جوڑے اور جوتے وغیر ہ لڑکے والوں کی طرف سے ملتے ہیں۔
شرعی حکم
اسلامی معاشرہ میں نکاح ایسی سادہ تقریب تھی کہ اس کے لیے کسی محنت اور زیادہ مال کی ضرورت نہیں تھی،امتداد زمانہ کے ساتھ یہ اس قدر تکلفات سے بھرپور اور بد اخلاقی کا گھوارہ بنتی چلی گئی ،حتٰی کہ اس میں ایسے رسوم وراج داخل ہوگئے خصوصاً ایسے رسوم و رواج جن کا نکاح کی تقریب اور اس کے متعلقات سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی وہ سادہ شکل ہمیں نظر نہیں آتی جو دور رسالت اور عہد صحابہؓ میں تھی ،وہ تقریب جس کو نبی ﷺ نے اپنی سنت قرار دیا ہے اس میں ایسے خرافات شامل ہوگئے ہیں جو آپﷺ کی تعلیمات کے بالکل مخالف ہیں چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:
‘‘النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي’’
(نکاح میری سنت ہے ،جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔)
نکاح کا طریقہ نبوت سے پہلے بھی تھا اور زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ عقد کرتے تھےپھر آپﷺ نے یہ کیوں فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے جب کہ آپ ﷺ سے پہلے سے یہ عمل جاری تھا ؟ آپ ﷺ کا اس سے مطلب یہی تھا کہ نکاح ہے جس طریقے پر میں نے کیا ہے اسی طریقے پر تم لوگ بھی نکاح کرو اور جو میرے طریقے کے مطابق نکاح نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں،جس کا مطلب یہی کہ جو رسومات آپ ﷺ کی تعلیمات کے مخالف ہیں اگر کوئی ان کو کرتا ہے تو بھی آپﷺ کی مخالفت کرتا ہے اور اس میں ‘‘آنر بنانے ’’ کی رسم بھی شامل ہے کیونکہ اس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی آپﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے نکاحوں میں اس ذکر ملتا ہے،چنانچہ حدیث میں ہے:
‘‘جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ لَكَ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيهَا، قَالَ:قَدْ زَوَّجْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ’’
(ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ!میں نے خود کو آپ کے حوالے کریا ہے(یعنی میں آپ سے نکاح کرنا چاہتی ہوں)،تو وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اس نے کہا:اس کی شادی مجھ سے کروادو ،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اس کی شادی اس شخص سے کروادی اور اس کی مہر قرآن کی تعلیم مقرر کی۔)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کے دور میں نکاح کتنا سادہ اور بے تکلف تھا اس میں کسی قسم کی رسومات شامل نہیں تھیں اگر ‘‘آنر بنانے’’ کی رسم ہوتی تو آپﷺ اس کانکا ح کروانے سے پہلے اس شخص کو کہتے کہ کوئی آدمی ڈھونڈ کے آؤ جو تہارا ‘‘آنر ’’ بنے پھر آپ کا نکاح ہوگا،لیکن ایسا نہیں تھا ،آپﷺ نے ان کے درمیان ایجاب و قبول کروایا اور مہر طے کرکے ان کا نکاح کروادیا، لہذا یہ رسم اسلامی تعلیمات کے برعکس اور ناجائز ہے۔
اس رسم میں یہ بھی ہوتاہے کہ ‘‘آنر’’ کو کم تر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے اور اس کو بے عزت سمجھا جاتا ہے جوبد اخلاقیات اور انسانیت کی توہین کے زمرے میں آتا ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:
‘‘الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ، لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يَخْذُلُهُ ، وَلاَ يَحْقِرُهُ’’
(ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور اس کو بے عزت نہیں کرتا اور اس کوکم تر نہیں سمجھتا۔)
حدیث شریف میں مسلما ن کو کم تر اور حقیر سمجھنے اور اس پر ظلم کرنے کو واضح طور پر ممنوع کہا گیا ہے اور اس کے برعکس شادیوں میں ایسی رسم کو فخر اور خوشی سمجھ کر کیا جاتا ہے ،جوکہ اسلامی تعلیمات اور آپ ﷺ کی سنت کے مخالف ہے اور ناجائز ہے۔
اس رسم میں سب سے بڑی جو برائی ہے وہ یہ ہے کہ جو آدمی آنر بنتا ہے اس کو لڑکے یا لڑکی والوں کے گھر عورتوں کے پاس آنے جانے اور ان سے بات کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی جب اکثر عورتیں ان میں بے پردہ ہوتی ہیں،حالانکہ شریعت اسلامی میں عورت کاغیر محرم کے سامنے بغیر پردہ کے آنا جائز نہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ﴾
(اورمسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں ، اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کےجوظاہر ہے ، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ، اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، یاایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔)
عورت کے لیےجائز نہيں کہ وہ ان مذکورہ اشخاص کے علاوہ کسی اور مرد کے سامنے پردہ نہ کرے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ ان سب سے پردہ کرے اوراپنے سر چہرہ اورباقی بدن وغیرہ کوچھپائے کیونکہ یہ اس کے غیرمحرم ہيں ۔
ایک اور آیت میں ہے:
﴿يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ﴾
(اے نبیﷺاپنی بیویوں اورصاحبزادیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں ڈال لیا کریں ۔)
اسلام نے کسی بھی عورت کو چاہے وہ امہات المؤمنین ہی کیوں نہ ہوں ان کو باپردہ رہنے کا حکم دیا ہے کسی عورت کو بھی محرموں کے علاوہ بغیر پردہ کے سامنے آنے کی اجازت نہیں دی ہے لہذا عورت کا پردہ کرنا لازم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ رسم جائز نہیں ہے کیونکہ اس کے اندر بہت سی ایسی خرافات ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں جیساکہ کسی مسلمان کو حقیر سمجھنا اس کو کم تر سمجھنا ،عورتوں کا بغیر پردے کے محرم کے سامنے آنا وغیرہ نیز یہ بھی ہے کہ اس رسم کا ثبوت کہیں بھی نہیں ملتا لہذا اس رسم سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
• دروازہ کھولنے کے پیسے لینا
عملی شکل
نکاح کے بعد جب رخصتی کا وقت آتا ہے تو دولہے کی چند رشتے دار عورتیں لڑکی کو لینے کے لیے جاتی ہیں ،لیکن جب وہ دلہن کے کمرے والے دروازے پر پہنچتی ہیں تو وہ دروازہ بند ہوتا ہے اور دروازے کے اندر سے ایک عورت کھڑی ہوتی ہے جو ان سے دروازہ کھولنے کے پیسے مانگتی ہے اور پیسے ملنے سے پہلے درواز نہیں کھولتی اور جب پیسے دیے جاتے ہیں تو پھر دروازہ کھولا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد دلہن کی رخصتی ہوتی ہے۔
شرعی حکم
رخصتی کے وقت لڑکی والوں کا کسی بھی صورت میں لڑکے والوں سے پیسہ لینا حرام ہے ،اس کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے ،سوائے مہر اور ولیمہ کی دعوت کے لڑکے والوں پر کچھ لازم نہیں ہے ،اگر لڑکے والے دے بھی دیتے ہیں تب بھی وہ واپس لینے کا حق رکھتے ہیں،چنانچہ حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
‘‘اخذ اھل المرأۃ شیئاًعند التسليم فللزوج الاسترداد قائما أو هالكا لأنه رشوة’’
(رخصتی کے وقت لڑکی والوں نے اگر کچھ لیا ہے تو شوہر کو اسے واپس لینے کا حق ہے چاہے وہ چیز ان کے پاس موجود ہو یا ضایع ہوگئی ہو کیونکہ یہ بھی رشوت ہے۔)
یعنی رخصتی کے وقت لی ہوئی ہر چیز رشوت ہے اور شوہر اس چیز کو واپس لینے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ چیز ان کے پاس اس وقت موجود ہو یا انہوں کہیں خرچ کی ہو یا وہ ان سے ضایع ہوگئی ہو ہر صورت میں شوہر اپنی دی ہوئی چیز واپس لینے کا حقدار ہے،لیکن اگر وہ واپس نہیں دیتے تو گویا انہوں نے رشوت لے کر لڑکی کی شادی کروائی ہو ،جبکہ اسلام میں رشوت حرام اور ناجائز ہے ،نبی کریمﷺ نے رشوت لینے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے،حدیث شریف میں ہے:
‘‘عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلى الله عَلَيهِ وَسَلمَ الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي’’
(حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:نبی کریمﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے ولے دونوں پر لعنت کی ہے۔)
یہی نہیں علامہ ابن عابدین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر داماد بخوشی یہ رقم دیتا ہےتو پھر بھی یہ ناجائز اور حرام ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں:
‘‘ومن السحت ما يأخذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه ’’
(خسر داماد سے اپنی بیٹی کی وجہ سے جو کچھ بھی لیتا ہے اگرچہ داماد بخوشی ہی کیوں نہ دے رہا ہو پھر بھی یہ حرام ہے ۔)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
‘‘وَلَوْ أَنْفَقَ على طَمَعٍ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا فَلَہ أن يَرْجِعَ زَوَّجَتْ نَفْسَهَا منه أو لم تُزَوِّجْ لِأَنَّهَا رِشْوَةٌ ’’
(کسی شخص نے کسی عورت پر اس لالچ میں خرچ کیا کہ وہ اس سے شاد ی کرے ،اس صورت میں وہ اپنا مال واپس لینے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ عورت اس اسے شادی کرے یہ نہ کرے کیوں کہ یہ رشوت ہے۔)
اسلام میں تو ایسے مال کو بھی رشست قرار دیا گیا ہے جو برضا خوشی خرچ کیا جارہا ہے ،جبکہ مذکورہ رسم میں تو مانگ کر اور مجبور کرکے لیا جاتا ہے جوکہ رشوت سے بڑا گناہ ہے ،نبی ﷺ نے کسی شخص کا مال بغیر اس کی خوشی اور چاہت کے لینے کو بھی ظلم کا نام دیا ہے اور اس کو حرام کہا ہے چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:
‘‘الا لا تظلموا الالا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه’’
(خبردار!تم کسی پر ظلم نہ کرو،خبردار!کسی مسلمان شخص کا مال حلال نہیں ہوسکتا مگر وہ خوش دلی سے راضی ہوجائے۔)
دروازہ کھولنے کے پیسے لینا بھی واضح طور پر اس حکم میں شامل ہے کیونکہ وہ رضا خوشی سے نہیں دیا جاتا بلکہ وہ مانگنے اورمجبور کرنے کے بعد دیا جاتا ہے اور یہ بھی ہے اگر پیسے نہ دیے جائیں تو رخصتی نہیں ہوتی جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ یہ مجبور کرکے لیا جارہا ہےجوکہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں،کیونکہ اس صور ت میں دینے والا راضی نہیں ہوتا اگر اس سے یہ رقم نہ مانگی جائے تو یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ نہیں دے گا،جس کا مطلب یہ ہورہا ہے کہ اس کی رضا وخوشی اس میں شامل نہیں ہے اوراس کو حدیث میں ظلم اور حرام کہا گیا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب تک کسی شخص پر کسی کا تھوڑا سا بھی حق ہے تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا،آپﷺ نے فرمایا:
‘‘لَا يحل لأحد من أهل الْجنَّة أَن يدْخل الْجنَّة ولأحد قِبَلَهُ مظْلمَة’’
(کوئی بھی حقدار جنت ،جنت میں نہیں جاسکتا جس پر کسی کا کوئی حق باقی ہو۔)
خلاصہ یہ ہے کہ ‘‘دروازہ کھولنے کی رقم لینا چاہے وہ برضا خوشی ہی کیوں نہ دی جارہی ہو وہ ناجائز اور حرام ہے اور یہ رشوت کے زمرے میں آتی ہے ،فقہا کرام کی عبارات سے واضح طور پر اس کے ناجائز ہونے اور حرام ہونے کا پتہ چلتا ہے اور یہ بہرصورت غلط ہے لہذا ایسی رسم کو شادی جیسے مقدس رشتے اور اس کے علاوہ کسی بھی صورت اپنانا شرعاً ناجائز ہے۔
• لڑکی والوں کے گھر آئے مہمانوں کے کھانے کاخرچہ دولہے والوں سے لینا
عملی شکل
سندھ کے اکثر علاقوں میں یہ رواج ہے کہ لڑکی والوں کے گھر جو مہمان آتے ہیں ان کے کھانے کاخرچہ لڑکے والوں سے لیا جاتا ہے،اس کی دو شکلیں ہیں،ایک یہ کہ اگر لڑکی والوں کا گھر قریب ہو تو اکثر دولہے والے ان کے گھر پکا ہوا کھانا بھجوادیتے ہیں ،دوسرےیہ کہ اگر لڑکی والوں کا گھر دور ہو تو وہ کھانے کا انتظام خود کرتے ہیں اور پھر خرچہ لڑکی والوں سے وصول کرتے ہیں اور یہ بھی ہے کہ جب بارات دلہن کے گھر جاتی ہے اور وہاں ان کو کھانا کھلایا جاتا ہے تووہ بھی خرچہ دولہے والوں سے وصول کیا جاتا ہے۔
شرعی حکم
لڑکی والوں کے گھر میں جو کھانا ہوتا ہے وہ اکثر بارات کے موقع پر ہوتا ہے،کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی والوں کےگھر ان کے اعزا و اقربا آجاتے ہیں اور وہ ان کو کھانا کھلاتے ہیں لیکن پھر اس کا خرچہ دولہے والوں سے لیا جاتا ہے ۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کسی کے گھر مہمان ہو تو اس کے لیے کھانا وغیرہ کا انتظام کرنا اور اس کی خدمت کرنا یہ تومہمان نوازی میں آتا ہے جو شریعت میں مطلوب ہے اور اس کی اہمیت قرآن وحدیث میں واضح طور پر ملتی ہے ،آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
‘‘عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ’’
(حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے ۔)
معقول بات بھی یہی ہے کہ کسی کے گھر اگر کوئی مہمان آجائے تو اس کے کھانے کا بندوبست اسےخود کرنا چاہیے ،لیکن ہمارے ہاں یہ رسم بن گئی ہے کہ مہمان کسی اور کا ہو اور اس کی مہمان نوازی اور خاطر تواضع کوئی اور کرے ،مہمان کے کھانے کا انتظام کہیں او ر سے کرنا یا کسی اور سے خرچہ وصول کرکے اس کے کھانے کا بندوبست غیر معقول اور اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔
بارات ہو یا لڑکی والوں کے بلائے ہوئے مہمان ،اگر میزبان صاحب استطاعت ہے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی خود تکریم کرے ،لیکن لڑکے والوں پر جبر کرکے ان سے اپنے ہاں آئے مہمانوں کا خرچہ لینا نا معقول بات بھی ہے اور غیر شرعی طریقے سے کسی کا مال لینا بھی ہے اور دین اسلام میں کسی کامال بغیر کسی شرعی سبب سے کھانے سے منع کیا گیا ہے ،چنانچہ ابن عابدین کہتے ہیں:
‘‘لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی’’
(کسی مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کامال بغیر کسی سبب شرعی کے لے لے۔)
شادی کے موقع پر بھی اگر دیکھا جائے تو لڑکی والے دولہے والوں کو رقم اور خرچہ دینے کے لیے مجبور کرتے ہیں اور ان پر جبر کرکے یہ رقم لیتے ہیں لیکن اگر ان پر جبر نہ کیا جائے بلکہ ان کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ یہ رقم اپنی خوشی سے دیں یا نہ دیں آپ کو اختیا ر ہے تو دولہے والے کسی بھی صور ت یہ رقم دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور اگر وہ راضی نہیں ہیں تو پھر اس صورت میں یہ رقم لینا جائز نہیں ہے کیونکہ کسی پر جبر کرکے رقم لینے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے ،لہذااس کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ۔
دوسرے یہاں یہ بات بھی غور طلب کہ دولہے والوں کا اس کے علاوہ بھی بہت خرچہ ہوجاتا ہے مثلاً دعوت ولیمہ اور مہر وغیرہ تو اگر یہ خرچہ بھی ان کے ذمہ لگایا دیا جائے تو ان پر ظلم ہوگا ،لہذا عقل بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ خرچہ دولہے والوں پر نہیں ہونا چاہیے۔
شریعت میں چونکہ مہمان کی خاطر تواضع مستحب ہے لہذا بارات یا اس کے علاوہ جو مہمان لڑکی والوں کے ہاں آتے ہیں ان کی مہمان نوازی کرنا ان پر واجب ہے اور ان کو استطاعت کے مطابق ان کی مہمان نوازی کرنی چاہیے ،اس مہمان نوازی کا خرچہ دولہے والوں سے لینا نا جائز ہے ،علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں کہ اگر لڑکی والے شادی کے دوران اگر کوئی چیز لڑکے والوں سے لیتے ہیں تو لڑکے والوں کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ وہ اس چیز کو واپس لے لیں اگر وہ واپس نہیں کرتے گویا انہوں نے رشوت لی ہے:
‘‘ولو اخذ اھل المرأۃ عند التسلیم فللزوج أن یستردہ لانّہ رشوۃ’’
(اگر عورت کے خاندان والوں نے نے رخصتی کے وقت کوئی چیز دولہے والوں سے لی ہے تو پھر شوہر کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ چیز واپس لے لے کیوں کہ یہ رشوت ہے۔)
شادی اور نکاح کے موقع پر شوہر پر جو چیز لازم ہےوہ‘‘مہر ’’ہے اس کے سوا کوئی اور چیز دوران نکاح شوہر پر واجب نہیں ہے ،اگر لڑکی والے جبر کرکے شوہر سے مہمانوں کا خرچہ یا کوئی اور چیز لیتے ہیں تو حرام ہے چاہے وہ خرچہ شوہر اپنی رضا و خوشی سے ہی کیوں نہ دے رہا ہو،چنانچہ شامی کہتے ہیں:
‘‘ومن السحت ما يأخذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه ’’
(خسر داماد سے اپنی بیٹی کی وجہ سے جو کچھ بھی لیتا ہے اگرچہ داماد بخوشی ہی کیوں نہ دے رہا ہو پھر بھی یہ حرام ہے ۔)
فتاویٰ
1۔یہ رسم قطعاً ناجائز ہے۔
2۔یہ رقم جو زوج(شوہر) قبل از عقد ا س غرض اور نام سے لیتے ہیں کہ اس سے برات کو اور اعزہ و اقرباکو کھانا دیا جائے ناجائز ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ لڑکی والے دولہے والوں سے کسی بھی صور ت میں اپنے مہمانوں کا خرچہ نہیں لے سکتے چاہے لڑکے والے دینے کے لیے راضی کیوں نہ ہوں،مہمانوں کی حسب استطاعت خاطر تواضع کرنا لڑکی والوں کے ذمہ ہے اگر وہ نہیں کرسکتے تو ان کو چا ہیے کہ وہ زیادہ مہمان نہ بلائیں اور نہ ہی دولہے والوں کو زیادہ بارات لانے کی اجازت دیں۔
خلاصۂ بحث
اسلام سے قبل دور جاہلیت میں نکاح اور اس کے رسم و رواج کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس معاشرے کے لوگ شادی بیاہ کے معاملے میں افراط وتفریط کا شکار تھے،عورت کو تو کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا،اس کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا،جب وہ عورت بیوی بنتی تھی تو اس کو حقوق نہیں دیے جاتے تھے،اس کا کام صرف شوہر کی خدمت کرنا تھا اس کے سوا اس کی کوئی عزت نہیں تھی۔
اس دور میں شادی بیاہ کے ایسے نازیبا طریقے رائج تھے کہ ان کو نکاح کہنے کے بجائے زنا کہنا زیادہ درست ہے،یہ معاشرہ اولاد کے نسب کے معاملے میں بھی افراط وتفریط کا شکار تھا ،ایک عورت ایک ہی وقت میں کئی مردوں سے تعلقات ہوتے تھے جس کی بنا پر اولاد کا نسب مشکوک ہوجاتا تھااور دوسری طرف وہ پیدائش سے پہلے ہی نکاح کا تعین کرتے تھے جو ان کے درمیان دشمنی اور فساد کا سبب بنتا تھا۔
اس کے برعکس ان میں بعض چیزیں ایسی بھی ملتی ہیں جن کو معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے صحیح کہا جا سکتا ہے ،مثلاً :عورت کو مہر دینا اور نکاح کے بعد ولیمہ کرنا۔
الغرض یہ معاشرہ جہاں برائی کے شکنجے میں گھرا ہوا تھا وہاں ان کے ہاں کچھ اچھائیا ں بھی نظر آتی ہیں لیکن وہ برائی کے مقابلے کچھ نہیں ہیں۔
اسلام کے باقی معاملات کی طرح اسلام کی شادی بیاہ کی تعلیمات بھی سب سے اعلیٰ اور فطرت کے عین مطابق ہیں،اسلام نے عورت کو وہ مقام اور مرتبہ دیا ہے جس کی وہ یقینی طور پر حقدار تھی،اور اس کو وہ تمام حقوق دیے ہیں جو اس کو ہونے چاہییں۔
اسلام نے جسمانی خوبصورتی اور دنیوی جاہ و جلال کے بجائے شادی کے لیے دین داری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے،منگنی کے وقت منگیتر کو ایک نظر دیکھنا اور منگنی ہوجانے کے بعد منگیتر کو دیکھنے پر پابندی،نکاح کا سادہ اور آسان طریقہ اور عورت کے لیے مہر کا وجوب یہ سب قوانینِ اسلامی کے فطرت کے مطابق ہونے کی علامات ہیں۔
اسلام نے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا مگر ضروری نہیں کہ ہر ایک شخص ایک سے زیادہ شادیاں کرے بلکہ ضرورت کے تحت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور تعددِ ازواج کے لیے بھی چار کی حد مقرر کی تاکہ مرد اپنی جان پر بھی ظلم نہ کرے اور نہ ہی اپنی بیویوں پر،تعددِ ازواج کے سلسلے میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کو عدل کے ساتھ مشروط کرکے عورتوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔
یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اسلام نے نکاح کے معاملے کو بہت آسان کرکے پیش کیا کہ مرد یا عورت نکاح کا پیغام بھیجےاور نکاح کی تاریخ مقرر کرکے چند آدمی لڑکی کے گھر جائیں اور وہاں گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھایا جائے اور رعورت کو حق مہر دی جائےاور اگلے دن ولیمہ کیا جائے بس نکاح ہوگیا،مگر ہمارے معاشرے میں اس کو بہت پیچیدہ بنادیا گیا اور ایسی ایسی رسومات کو اس میں شامل کرلیا گیا جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں،یہی وہ رسومات اور خرافات ہیں جن کی وجہ سے لوگ پریشان نظر آتے ہیں،غریب تو غریب امیر بھی شادی کرتے وقت پریشان نظر آتے ہیں،بے حیائی اور فحاشی کے ساتھ ساتھ فضول خرچی بھی ان خرافات کا حصہ بن چکی ہے ،اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں پائی جانی والی رسومات کا موازنہ اگر ہندو معاشرے میں پائی جانی والی رسومات سے کیا جائےتو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر تو ہندوانہ رسومات ہیں،آج بھی اگر نکاح کے معاملے کو اسلام کی تعلیمات کی روح کے مطابق انجام دیا جائے تو اس سے آسان اور کوئی معاملہ نہیں ہے۔
الغرض اسلام کے تمام احکامات آسان اور قابل عمل ہیں اور ان تمام احکامات میں انسانی فطرت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے،اسلام کا ازدواجی نظام باقی نظاموں کی طرح ایک فطرتی نظام ہے جس کو قرآن پاک نے مجملاً اور سنت رسول ﷺ نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔
تجاویز اورسفارشات
• بری رسموں کو ختم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے
مسلمان ہونے کے ناطے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک معاشرے میں زیادہ سے زیادہ دینی تعلیمات کا پرچار کرے اور بری رسموں کو وجود میں آنے سے روکے اور جو رسمیں وجود میں آگئی ہیں ان کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرے۔
• ہرقسم کی رسومات کا شرعی جائزہ لیا جائے
دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمانوں میں جونکاح ،ولادت،موت وغیرہ سے متعلق رسومات ہیں اورجن کے بارے میں حکم لگانا مشکل ہو کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز ان کا شرعی جائزہ لیا جائے اور جو ناجائز ہیں ان کو لوگوں کے لیے واضح کیا جائے تاکہ جن مسلمانوں کو ان رسومات کے شرعی حکم کا پتہ نہیں ان مسلمانوں کو ان رسومات کا شرعی حکم معلوم ہوجائے اور پھر اس حکم کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان پر عمل کریں یا ان سے اجتناب کریں،نیز ان رسومات کو ظاہری طور پر دیکھ کر شرعی حکم نہ لگایا جائے بلکہ ہر پہلو سے جائزہ لےکر پھر ان پر حکم لگایا جائے اور پھر ان کے بارے میں یہ بھی بتایا جائے کہ یہ رسم اگر جائز یا ناجائز ہے تو کلی طور پر ہے یا جزوی طور پر ۔
• جدیدذرئع ابلاغ کے ذریعےان رسومات کے شرعی حکم کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے
رسومات کے شرعی جائزہ پر مختلف رسائل ،جرائد اور اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے طریقوں سے مضامین اور مقالات شایع کیے جائیں تاکہ لوگوں کو رسومات کا شرعی حل بآسانی معلوم ہوسکے،اس لیے کہ ذرائع ابلاغ ہی کے ذریعے لوگوں کو بآسانی اور روزمرہ کی بنیاد پر معلومات ملتی ہے۔
• شرعی متبادل سے آگاہی
اگر کوئی ایسی رسم ہے جس کا کوئی شرعی متبادل موجود ہے یا اس کا کوئی اصلاحی پہلو ہے تو وہ بھی لوگوں کو ضرور بتایا جائے ،تاکہ لوگ برائی کو چھوڑ کر نیکی کی طرف آئیں۔
• بری رسومات کی اصلاح کے لیے قانونی طریقہ اپنایا جائے
بری رسومات کا اثر اس قدر وسیع اور قوی ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے منظم طریقے سے جدو جہد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ جدوجہد اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب قوم کے حالات کو پوری طرح مد نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کے قانونی اور عدالتی وسائل سے کام لیا جائے اور ایسی قانونی شقیں وضع کی جائیں جو ان رسومات کے سد باب میں مددگار ثابت ہوں۔
• بری رسومات کے سد باب میں خواتین سے مدد لینا
رسم و رواج کی اصلاح میں عورتیں بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں ،کیونکہ عورتیں ہی رسموں کی سب سے زیادہ پابندی کرتی ہیں اور ان کا انسدا د بھی وہ بہتر طریقے سے اور مؤثر انداز سے کرسکتی ہیں۔
• ایسےاداروں کا قیام جو معاشرتی اصلاح کا کام کریں
رسم و رواج اور معاشرے کی اصلاح کے لیے ادارے قائم کیے جائیں جو ایسے کارکن پیدا کریں جو غیر اسلامی اثرات کی وجہ سے معاشرے میں جوخرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اور جو غیر شرعی رسمیں اختیار کرلی گئی ہیں ان کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔