مقدمہ
• موضوع کا تعارف:
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي شَرَحَ قُلُوبَ الْعَارِفِينَ بِنُورِ هِدَايَتِهِ، وَزَيَّنَهَا بِالْإِيمَانِ وَمَا أَلْهَمَهَا مِنْ حِكْمَتِهِ، أَحْمَدُهُ حَمْدَ عَارِفٍ لِعَظَمَتِهِ مُقِرٍّ بِوَحْدَانِيِّتِهِ، وَعَلَى مَنْ خَتَمَ بِهِ الرِّسَالَةَ أَفْضَلَ صَلَاتِهِ وَتَحِيَّتِهِ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى الْمَخْصُوصِ بِإِظْهَارِ مِلَّتِهِ عَلَى الْمِلَلِ كُلِّهَا وَدَوَامِ شَرِيعَتِهِ إلَى آخِرِ الدَّهْرِ وَنِهَايَتِهِ، وَعَلَى آلِهِ الْكِرَامِ وَجَمِيعِ صَحَابَتِهِ وَعَلَى التَّابِعِينَ لَهُمْ إلَى يَوْمِ الدِّينِ بِإِحْيَاءِ سُنَّتِهِ.
امابعد:
اللہ تبارک وتعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمارے لئے دین فطرت یعنی اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو انسانی فطرت کے قریب تر ہے، دینِ اسلام پر عمل پیرا ہوکر ہی انسان سکھ اور چین کی زندگی گزار سکتا ہے۔نظامِ معاشرت ہو یا معیشت ہر ایک کے متعلق اسلام نے ایسے رہنماء اصول سکھائے ہیں جن پر عمل کرکے انسان امن و سلامتی اور سکون کی زندگی گزار سکتا ہے۔
اللہ رب العزت نے جہاں صحت و تندرستی کی نعمت سے نوازا ہے وہیں امراض و اسقام اور ان کے ساتھ ساتھ علاج و دواء کا سلسلہ بھی پیدا فرمایا ہے۔بچہ ہو یا جوان یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، مالدار ہو یا غریب، طاقتور ہو یا کمزور کوئی بھی مرض کی گرفت سے باہر نہیں۔ بیماری انسان کو عجز و ناچاری کی یاد دلاتی ہے، اور بندے کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ وہی رب کریم ہے کہ جس کے حکم سے بیماری آتی ہے اور وہی صحت و شفاء بھی عطاء فرماتا ہے۔
جس طرح ہوا، پانی اور غذا انسان کے لئے بہت اہم ضرورت ہیں، اسی طرح دواء بھی ایک اہم حاجت ہے۔دنیا میں جو بیماری بھی ظاہر ہوگی اس کا علاج بھی اسی دنیا موجود ہے، یہ طب اور معالجہ کے ماہرین و محققین پر منحصر ہے کہ وہ مرض کے علاج تک پہنچ پاتے ہیں یا نہیں۔بہت سی ایسی بیماریاں جنہیں لاعلاج سمجھا جاتا تھا آج ان کا علاج دریافت ہوچکا ہے، اور آج کی بہت سی لاعلاج سمجھی جانے والی بیماریاں مستقبل میں قابل علاج ہوجائیں گی۔
بلاشبہ وہ لوگ جنہیں کوئی مرض لاحق ہوجائے ڈاکٹرز کی طرف رجوع کرتے ہیں جو علم طب میں مہارت رکھتے ہیں اور علاج معالجہ کا تجربہ رکھتے ہیں، اور چونکہ انسان خطاء کا پُتلا اور کمزور ہے لہذا اطباء حضرات بھی دوران علاج غلطی و کوتاہی کرسکتے ہیں۔ تو کیا ڈاکٹرز کی دوران علاج غلطی کے ارتکاب کرنے پر اس پر کوئی سزا یا ضمان ہوگا یا نہیں۔اس بات کی تصریح کے لئے باقاعدہ طور پر تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عالم انسانیت میں قیمتی جان کے نقصان کا کوئی خوف و اندیشہ نہ ہو، اور مریض کا علاج کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا جائے۔
• موضوع کی اہمیت و ضرورت:
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ڈاکٹر حضرات سے دورانِ علاج کسی قسم کی کوتاہی سرزد ہو سکتی ہے اور اس سے مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے اور کسی عضو کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، کیا اس صورت میں ڈاکٹر پر کوئی ضمان ہوگا یا نہیں۔ لہذا اس بات کا جاننا نہایت ضروری ہے کہ علاج و معالجہ کے شرعی احکام کیا ہیں، طبیب کا معیار مطلوب کیا ہونا چاہئے، اسی طرح ڈاکٹر اگر دوران علاج کوتاہی کرے تو اس پر کیا ضمان ہوگا، ضمان کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں اور ان کے کیا احکام ہیں۔
ان سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس موضوع کی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر اسے مقالہ کے لئے موضوع بحث منتخب کیا گیا ہے۔تاکہ اطباء حضرات اور عوام الناس علاج معالجہ کے شرعی احکام اور دوران علاج کوتاہی پر اس کے ضمان کا شرعی حکم جان سکیں اور پھر ڈاکٹرز علاج کرتے ہوئے احتیاط سے کام کریں،اور لاعلم ڈاکٹرز کسی خطرناک مرض کے علاج سے پرہیز کریں۔
• بنیادی سوال:
o کیا دوران علاج ڈاکٹر کے کوتاہی کرنے پر اس پر ضمان ہے؟
• فرضیۂ تحقیق:
o ڈاکٹر نے علاج کرتے ہوئےغفلت اور کم علمی کی بنیاد پر غلطی کی تو اس پر ضمان لازم آئیگا۔
• سابقہ کام کا جائزہ:
دوران علاج کوتاہی کی صورت میں ڈاکٹر پر ضمان کے حوالے سے علماء کرام نے چند کتب و مقالہ جات لکھے ہیں ۔جوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) ضمان الطبیب از دکتور محمد جبر الألفی، نشر: شبکۃ الألوکۃ
(۲) الخطأ الطبی الجراحی از خدیجہ غنبازی، جامعۃ الشہید حمّہ لخضر۔الوادی
(۳) أخطاء الأطباء بین الفقہ والقانون، دکتور محمد سلامہ الشلش، جامعۃ القدس المفتوحۃ۔فلسطین
اس کے علاوہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی شائع شدہ کتاب ‘‘جدید فقہی مباحث’’ میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مفتی جمیل احمد نذیری نےطبی اخلاقیات میں اس بحث کا تذکرہ کیا ہے۔
• منہجِ تحقیق:
تحقیقی جائزہ
بیانیہ منہجِ تحقیق
• خاکۂ تحقیق:
یہ مقالہ ‘‘ایک مقدمہ، دو ابواب، چھ فصلوں اور خاتمہ’’ پرمشتمل ہے ۔
• مقدمہ
اہمیت وضرورت
سابقہ کام کا جائزہ
فرضیۂ تحقیق
منہج تحقیق
• باب الاول؛۔
فصل اول: طبیب اور طب کی تعریف
فصل دوم: طبیب کی اقسام ومطلوبہ علمی معیار
فصل سوم: طبیب کی ذمہ داری اور تداوی کا حکم
• باب الثانی؛۔
فصل اول: ضمان کی لغوی واصطلاحی تعریف اور اسباب
فصل دوم: کوتاہی کی نوعیت اور اسباب
فصل سوم: کوتاہی پر ضمان کی صورتیں اور ان کے شرعی احکام
• خاتمہ
نتائج
خلاصہ بحث
فہارس
مصادر و مراجع
فصل ِاول: طبیب اور طب کی تعریف
• طبیب کی لغوی تعریف:
حروف اصلی ‘‘ط ب ب’’ ہیں۔
اہل لغت کے نزدیک ‘طبیب’ کا لفظ ان پر بولا جاتا ہے:۔
o أنه العالم بالطب، علمِ طب کو جاننے والا ہو۔
o هو الذي يعالج المرضى، مریضوں کا علاج معالجہ کرنے والا۔
o هو الذي يعرف العلة ودواءها وكيفية المداواة، طبی معاملات میں مہارت رکھنے والا ہو ۔
• طبیب کی اصطلاحی تعریف:
علامہ ابن قیم جوزیہؒ نے طبیب کی یہ تعریف کی ہے:
اَلطَّبِيبُ: هُوَ الَّذِي يُفَرِّقُ مَا يَضُرُّ بِالْإِنْسَانِ جَمْعُهُ، أَوْ يَجْمَعُ فِيهِ مَا يضره تفرقه، وينقص مِنْهُ مَا يَضُرُّهُ زِيَادَتُهُ، أَوْ يَزِيدُ فِيهِ مَا يَضُرُّهُ نَقْصُهُ، فَيَجْلِبُ الصِّحَّةَ الْمَفْقُودَةَ، أَوْ يَحْفَظُهَا بِالشَّكْلِ وَالشَّبَهِ، وَيَدْفَعُ الْعِلَّةَ الْمَوْجُودَةَ بِالضِّدِّ وَالنَّقِيضِ، وَيُخْرِجُهَا، أَوْ يَدْفَعُهَا بِمَا يَمْنَعُ مِنْ حُصُولِهَا بِالْحِمْيَةِ ۔
وہ شخص جو انسانی جسم سے ان چیزوں کو علیحدہ کردے جن کے جمع ہونے سے جسم میں نقصان ہوتا ہے، یا ان چیزوں کو جسم میں یکجا کردے جن کے متفرق ہونے سے جسم کو ضرر پہنچتا ہے، یا ان اشیاء کو کم کردے جن کی زیادتی سے جسم یں بے اعتدالی آتی ہے، یا ان چیزوں کو زیادہ کردے جن کی کمی کی وجہ سے انسانی جسم میں ضرر پیدا ہوتا ہے، تاکہ انسان کو اس کی مطلوبہ تندرستی حاصل ہوجائے، یا وہ انسان کے جسم واعضاء کی با ترتیب حفاظت کرے، اور وہ موجودہ بیماری کو اس کی ضد اور مقابل اشیاء و تدابیر سے ختم کردے، یا پرہیز و احتیاط سے اس بیماری کو دور سے دور کردے۔
• طب کے لغوی معنیٰ:
o الْمُدَاوَاةُ، علاج کرنا
o يَسْتَوْصِفُ الأَْدْوِيَة، دوا تجویز کرنا
o عِلاجُ الجِسْمِ والنَّفْس، جسمانی و روحانی علاج ۔
• طب کی اصطلاحی تعریف:
طب کی مختلف اصطلاحی تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں۔
o هو علم يعرف منه أحوال بدن الإنسان من جهة ما يعرض لها من صحة وفساد، أو يحفظ به حاصل الصحة، ويسترد زائلها ۔
وہ علم جس سے انسان کے بدن کے احوال اس زاویے سے معلوم ہوں کہ انسانی صحت کے لئے کیا درست ہے اور کیا مضر ہے۔ یا انسانی بدن کے احوال اس لئے جان لیے جائیں کہ انسانی صحت کی حفاظت کی جائے اور اس کو خراب ہونے سے بچایا جائے، علم طب کہلاتا ہے۔
o هو علم يبحث فيه عن بدن الإنسان، من جهة ما يصح ويمرض لحفظ الصحة وإزالة ۔
طب وہ علم ہے کہ جس میں انسان کے بدن کے بارے میں بحث کی جائے، اس جہت سے کہ صحت کی حفاظت کے لئے کیا درست اور کیا مضر ہے۔
o علم، وفن يُعنى بدراسة الأمراض، ومعالجتها، والوقاية منها ۔
علم طب وہ علم و فن ہے جس میں بیمایوں، ان کے علاج اور ان سے بچنے کے طریقوں کو سیکھا جائے۔
فصلِ ثانی: طبیب کی اقسام و معیارِ مطلوب
دوا اور علاج کی ضرورت ہر شخص کو ہوتی ہے، جس کے لئے آدمی کو معالج کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔ معالج بھی مختلف طرح کے ہوتے ہیں اور بلاشبہ ان کا طریقۂ علاج بھی مختلف ہوتا ہے۔لہذا یہ جاننا انتہائی لازم ہے کہ معالج کی کتنی اور کونسی اقسام ہے، کس قسم کے معالج کی کوتاہی پر ضمان ہے اور کس قسم پر ضمان یا تاوان نہیں۔چونکہ طبیب کی کوتاہی کے نتیجے میں انسان کے اعضاء کے تلف ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہذا اعضاء کے نقصان کے اعتبار سے طبیب کی اقسام کا جاننا ضروری ہے۔
اعضاء کے نقصان کے اعتبار سے طبیب کی پانچ قسمیں ہیں جو کہ شرعی حکم کے ساتھ ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں ۔
(۱): طَبِيبٌ حَاذِقٌ أَعْطَى الصَّنْعَةَ حَقَّهَا وَلَمْ تَجْنِ يَدُهُ، فَتَوَلَّدَ مِنْ فِعْلِهِ الْمَأْذُونِ فِيهِ مِنْ جِهَةِ الشَّارِعِ وَمِنْ جِهَةِ مَنْ يَطِبُّهُ تَلَفُ الْعُضْوِ أَوِ النَّفْسِ، أَوْ ذَهَابُ صِفَةٍ، فَهَذَا لَا ضَمَانَ عَلَيْهِ اتِّفَاقًا، فَإِنَّهَا سِرَايَةُ مَأْذُونٍ فِيه۔
طبیب ماہر، جو صنعت طب سے پوری طرح باخبر ہو، اس کے طبی کام بے داغ ہوں۔ ایسے طبیب کو قانونی اور شرعی طور پر علاج کرنے کی اجازت ہے۔اب جس کا وہ علاج کر رہا ہے اتفاقاً اس کا کوئی عضو، کوئی صفت یا بذات خود ضائع ہوجائے تو اس طبیب پر بالاتفاق کوئی ضمان نہیں ہوگا، کیونکہ یہ نقصان زخموں کی ریزش ہے جس کی اجازت دی گئی ہے۔
(۲): طَبِيبٌ جَاهِلٌ بَاشَرَتْ يَدُهُ مَنْ يَطِبُّهُ، فَتَلِفَ بِهِ، فَهَذَا إِنْ عَلِمَ الْمَجْنِيُّ عَلَيْهِ أَنَّهُ جَاهِلٌ لَا عِلْمَ لَهُ، وَأَذِنَ لَهُ فِي طِبِّهِ لَمْ يَضْمَنْ، وَإِنْ ظَنَّ الْمَرِيضُ أَنَّهُ طَبِيبٌ، وَأَذِنَ لَهُ فِي طَبِّهِ لِأَجْلِ مَعْرِفَتِهِ، ضَمِنَ الطَّبِيبُ مَا جَنَتْ يَدُهُ۔
ایسا طبیب جو فنِ طب سے لا علم ہو، اس کے باوجود علاج کرے، ایسے شخص سے اگر نقصان ہوجائے تو دیکھا جائے گا کہ مریض نے اس کے ناآشنا ہونے کا علم رکھتے ہوئے اس سے علاج کے لئے رجوع کیا جس کے نتیجے میں عضو یا جانی نقصان ہوگیا تو طبیب ضامن نہیں ہوگا۔ لیکن اگر مریض نے ماہر طبیب سمجھ کر اس سے علاج کرایا اور اس کا نسخہ استعمال کیا جس سے نقصان ہوگیا تو طبیب ضامن کہلائے گا۔
(۳): طَبِيبٌ حَاذِقٌ، أَذِنَ لَهُ وَأَعْطَى الصَّنْعَةَ حَقَّهَا، لَكِنَّهُ أَخْطَأَتْ يَدُهُ، وَتَعَدَّتْ إِلَى عُضْوٍ صَحِيحٍ فَأَتْلَفَهُ، مِثْلَ أَنْ سَبَقَتْ يَدُ الْخَاتِنِ إِلَى الْكَمَرَةِ، فَهَذَا يَضْمَنُ لِأَنَّهَا جِنَايَةُ خَطَأٍ۔
طبیب ماہر ہو اور اسے علاج کرنے کی بھی مکمل اجازت ہو، اور اسے فنِ طب میں بھی پوری دسترس ہو لیکن اس سے غلطی ہوجائے جس کا اثر مریض کے کسی تندرست عضو تک پہنچ گیا اور اسے تلف کردیا،جیسے ختنہ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ سبقت کرکے غلطی سے صفن تک پہنچ جائے، تو طبیب پر ضمان لازم آئے گا۔
(۴): الطَّبِيبُ الْحَاذِقُ الْمَاهِرُ بِصَنَاعَتِهِ، اجْتَهَدَ فَوَصَفَ لِلْمَرِيضِ دَوَاءً فَأَخْطَأَ فِي اجْتِهَادِهِ، فَقَتَلَهُ، فَهَذَا يُخَرَّجُ عَلَى رِوَايَتَيْنِ: إِحْدَاهُمَا: أَنَّ دِيَةَ الْمَرِيضِ فِي بَيْتِ الْمَالِ. وَالثَّانِيَةُ: أَنَّهَا عَلَى عَاقِلَةِ الطَّبِيبِ۔
طبیب ماہر ہو اور اپنے فن میں یکتا ہو۔ اس نے اپنی فہم و فراست کے مطابق مریض کو نسخہ تجویز کرکے دیا، مریض نے نسخے کے مطابق دوا استعمال کی مگر معالج کا خیال درست ثابت نہ ہوا جس کے نتیجے میں مریض وفات پا گیا، اس سلسلے میں دو روایتیں ہیں: ایک یہ کہ مریض کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی، دوسری یہ کہ طبیب کی آمدنی سے دیت دی جائے گی۔
(۵): طَبِيبٌ حَاذِقٌ أَعْطَى الصَّنْعَةَ حَقَّهَا، فَقَطَعَ سِلْعَةً مِنْ رَجُلٍ أَوْ صَبِيٍّ أَوْ مَجْنُونٍ بِغَيْرِ إِذْنِهِ، أَوْ إِذْنِ وَلِيِّهِ، أَوْ خَتَنَ صَبِيًّا بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهِ فَتَلِفَ، فَقَالَ أَصْحَابُنَا: يَضْمَنُ، لِأَنَّهُ تَوَلَّدَ مِنْ فِعْلٍ غَيْرِ مَأْذُونٍ فِيهِ، وَإِنْ أَذِنَ لَهُ الْبَالِغُ، أَوْ وَلِيُّ الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ۔
طبیب ماہرِ فن ہو اور صنعت طب سے مکمل باخبر ہو۔ اس نے کسی مرد، بچے یا پاگل شخص کا اس کی یا اس کے ولی کی اجازت کے بغیر آپریشن کردے جس سے اس سے عضو کو نقصان پہنچ جائے تو بلا اجازت علاج کرنے کی وجہ سے طبیب پر ضمان ہوگا۔اگر طبیب بالغ مریض کی اجازت، بچے یا مجنون کے ولی کی اجازت سے علاج کرے تو وہ ضامن نہیں ہوگا۔
• طبیب کا معیارِ مطلوب:
طبیب کی اقسام کے بعد طبیب کے مطلوبہ علمی معیار کا فہم و ادراک حاصل کرنا بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ علاج معالجہ کا سیکھنا فرض کفایہ ہے، اور مسلمانوں کے ملک میں فنِ طب کے اصول سے واقف لوگوں کا کثرت سے ہونا واجب ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کا علاج کرنا اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس آیت کے زمرے میں آتا ہے: ‘‘وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا’’ (اور جس نے ایک جان کو بچالیا تو گویا اس نے تمام انسانیت کو بچایا)۔ اور اس حدیث نبویﷺ میں داخل ہے: ‘‘مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ’’ (تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہئے کی وہ نفع پہنچائے)۔ گویا کہ طبیب اگر مسلمان بھائیوں کا علاج نیکی کی نیت سے کرے، انسانیت اور مسلمانوں کی بقاء اور انہیں نفع پہنچانے کی غرض سے کرے تو بلاشبہ وہ طبیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر طبیب فنِ طب کے اصولوں سے ناواقف ہو یا اس کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو اور اپنے آپ کو معالج کہلواتا ہو اور لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے علاج معالجہ کرتا ہو تو وہ دنیا میں بھی عوام الناس کے آگے ضامن ہوگا، آخرت میں باری تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوگا اور عذاب الٰہی کا مستحق ٹہرے گا۔ نبی کریمﷺ کا فرمان اقدس ہے: ‘‘مَنْ تَطَبَّبَ، وَلَا يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ، فَهُوَ ضَامِنٌ’’ (جس نے علاج کیا اور وہ فنِ طب کا علم نہ رکھتا ہو، وہ ضامن ہوگا)۔ لہذا طبیب کو چاہئے کہ فن طب سے مکمل باخبر ہو اور مہارت حاصل کرے تاکہ کسی بھی قسم کی طبی کوتاہی سے بچنا ممکن ہو۔
علامہ ابن قیم الجوزیہؒ نے اپنی کتاب‘‘الطب النبویﷺ’’ میں لکھا ہے کہ ماہر اور بہترین طبیب وہ ہے جو علاج کرتے ہوئے بیس(۲۰) باتوں کا خیال رکھے، جوکہ مندرجہ ذیل مکتوب ہیں۔
۱۔ مریض کی نوعیت کی تشخیص و تعیین، کہ بیماری کس قسم کی ہے۔
۲۔ اسبابِ مرض کی جانچ پڑتال، کہ بیماری کا سبب ا ور علت فاعلہ کیا ہے؟جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہوئی ہے۔
۳۔ مریض کی قوت و استعداد، کہ مرض کا مقابلہ کرنے کی اس میں صلاحیت و قوت ہے یا نہیں۔
۴۔ مریض کے بدن کا طبعی مزاج کیا ہے۔
۵۔ مریض کی بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والا غیر طبعی مزاج۔
۶۔ مریض کی عمر کیا ہے؟
۷۔ مریض کی عادت کیا ہے؟
۸۔ مریض کے مرض کے وقت موسم کیسا ہے؟ اور کونسا موسم مریض کے لئے سازگار ہے؟
۹۔ مریض کی قیام گاہ اور اس کی آب و ہوا کیسی ہے؟
۱۰۔ مرض کے وقت کس رخ اور کس انداز کی ہوا چل رہی ہے؟
۱۱۔ مرض کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی دوا کی مخالف دوا کا خیال اور رعایت۔
۱۲۔ مریض کو استعمال کرائی جانے والی دوا کی قوت اور درجہ کا خیال، دوا اور مریض کی قوت مرض کا موازنہ۔
۱۳۔ طبیب کے علاج کا مقصد صرف اس علتِ مرض کس ازالہ نہ ہو بلکہ دوسرے کسی شدید مرض سے بچنے کا بھی پورا اطمینان ہو۔ اگر مرض کے علاج سے کسی دوسرے خطرناک مرض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس بیماری کے علاج کو چھوڑ دیا جائے اور کمزور و ہلکا کرنے کی کوشش کی جائے۔
۱۴۔ مریض کا علاج آسان سے آسان طریقوں سے کرنا چاہئے۔ پہلے غذا کے ذریعے علاج کی کوشش کرنی چاہئے، اگر غذا سے کام نہ چلے تو دوا کا استعمال کرایا جائے۔ اسی طرح مرکبات ادویات کی طرف اس وقت تک رخ نہ کیا جائے جب تک مفرد دواؤں سے کام چلتا رہے۔
۱۵۔ بیماری پر غور کرے کہ یہ قابلِ علاج ہے بھی یا نہیں۔ اگر قابل علاج ہے تو غور و فکر اور تدبر سے علاج کرے، مرض کے مادہ کو کمزور کرے اور مریض کی قوت بڑھائے۔
۱۶۔ مرض کو جاننے سے پہلے اس کے علاج کی کوشش نہ کرے بلکہ پہلے اس کی نوعیت معلوم کرے اس کے بعد علاج کرے۔
۱۷۔ معالج کو دل کے امراض اور روح کی بیماریوں اور ان کی دواؤں سے پوری طرح واقفیت ہونی چاہئے، یہی بدن کے علاج کے لئے بنیادی شئ ہے۔ جو طبیب دل اور روح کی بیماریوں اور ان کے علاج سے مکمل واقف ہوگا درحقیقت وہی کامل طبیب ہے، وگرنہ وہ بحیثیت طبیب نیم حکیم کہلائے گا۔
۱۸۔ مریض کی خیر خواہی، اس کے ساتھ شفقت اور نرم گفتاری سے کام لینا چاہئے، جیسا کہ بچوں کے ساتھ کام لیا جاتا ہے۔
۱۹۔ طبعی اور الٰہی کے مختلف علاجوں میں سے ہر ایک علاج سے کام لینا چاہئے، مریض کے خیالات کو بھی مرکوز کرنا ضروری ہے۔اس لئے کہ مریض کے خیالات سے مرض کے ازالہ میں دوا سے کہیں زیادہ تاثیر ہوتی ہے۔
۲۰۔ ہر طبیب کا آئیڈیل یہ ہے کہ وہ علاج اور تدبیر کے دوران ان چھ باتوں کا خیال رکھے:۔
۱: موجودہ صحت کی حفاظت کرنا۔ ۲: فوت شدہ صحت و قوت کی امکانی حد تک بازیابی کرانا۔
۳: اہم فساد کے پیشِ نظر ادنیٰ فساد کا خیال کرنا۔ ۴: حسبِ امکان مرض کا ازالہ کرنا۔
۵: ادنیٰ مصلحت کے پیشِ نظر اعلیٰ مصلحت کو ضائع نہ ہونے دینا۔ ۶: حسبِ امکان مرض کو میں تخفیف کرنا۔
انہی چھ باتوں پر ہی علاج کا دار و مدار ہے، جو ان اصولوں کی رعایت نہیں کرتا اور ان ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتا وہ طبیب نہیں ہے ۔
فصل ثالث: طبیب کی ذمہ داریاں اور تداوی کا حکم
• مقام اور ذمہ داریاں:
طبیب ہمارے معاشرے کا وہ محسن طبقہ ہے جوصحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے ان محسنوں کا شریعت میں مقام کیا ہے اور ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ اس بات کو شرعی نقطہ نظر سے جاننا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
کسی بھی معاشرے میں ڈاکٹر اور معالج کی خاص اہمیت ہے ، اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں ایسا وجود عطا کیا ہے جس میں خوبیوں اورصلاحیتوں کے ساتھ ساتھ خامیوں اور مجبوریوں کی آمیزش بھی پائی جاتی ہے ، انسان کی طاقت و قوت کا حال یہ ہے کہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور طاقتور سے طاقتور ترین مخلوق بھی انسان کی قوتِ تسخیر کی اسیر ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی کمزوری اور ناطاقتی کا حال یہ ہے کہ معمولی کیڑے مکوڑے بھی اسے نقصان پہنچاسکتے ہیں ، ایک بالشت کا سانپ بھی اس کی جان لے سکتا ہے اور بیماریاں اسے آسانی سے پچھاڑ سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں زہر کے ساتھ ساتھ اس کا تریاق بھی پیدا فرمایا ہے اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ اس کا علاج بھی، رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : ‘‘تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ دَوَاءً، غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ’’ ۔
(علاج کراؤ، بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے سوائے بڑھاپے کے ہر مرض کا علاج پیدا فرمایا ہے)
اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اﷲتعالیٰ کی دی ہوئی عقل اور تجربہ کی قوت کو استعمال کرتے ہوئے دواؤں کو دریافت کرے۔ اس کام کو میڈیکل سائنٹسٹ اور ڈاکٹرز انجام دیتے ہیں ، اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی خدمت کے پہلو سے ان کی خدمات نہایت اہم ہیں۔ بھوکے کو کھانا کھلانا ، محتاج کو کپڑے پہنانا ، معذور کے کام میں ہاتھ بٹانا اور ضرورت مند کی حاجت پوری کرنا یہ سب مخلوق کی خدمت ہے ، لیکن انسان سب سے زیادہ خدمت کا محتاج اس وقت ہوتا ہے جب وہ مریض ہو ، بیماری انسان کو اس مقام پر پہنچادیتی ہے کہ کھانا موجود ہونے کے باوجود وہ کھانہیں سکتا ، ہاتھ پاؤں سلامت ہیں ، لیکن وہ ایک قدم چل نہیں سکتا اور تیمارداری اور مددگاروں کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے ، اسی لئے رسول اﷲﷺ نے مریض کی عیادت اور تیمار داری کو بے حد اجر کا باعث قرار دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : ‘‘عَائِدُ الْمَرِيضِ فِي مَخْرَفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَرْجِعَ’’ ۔ (جب تک ایک شخص مریض کی عیادت میں رہتا ہے گویا وہ جنت کے باغ میں ہے)، اس طرح ڈاکٹر گویا اپنی ڈیوٹی کے پورے وقت اس حدیث کا مصداق ہوتا ہے۔
فن طب کی اسی اہمیت کی وجہ سےامام شافعیؒ فرماتے ہیں: ‘‘العلم علمان: علم الأديان الفقه، وعلم الأبدان الطب’’ ۔ (اصل علم دو ہی ہیں : فقہ ، تاکہ زندگی گذارنے کا طریقہ معلوم ہو اور طب، تاکہ جسم انسانی کی اصلاح ہوسکے )۔
اسی طرح فقیہ ابو اللیث سمرقندی لکھتے ہیں: ‘‘لَا يَنْبَغِي لِلْعَاقِلِ أَنْ يَنْزِلَ بَلَدًا لَيْسَ فِيهَا خَمْسَةٌ: سُلْطَانٌ قَاهِرٌ، وَقَاضٍ عَادِلٌ، وَسُوقٌ قَائِمٌ، وَنَهْرٌ جَارٍ، وَطَبِيبٌ حَاذِقٌ’’ ۔
یعنی عقلمند آدمی کو ایسے شہر میں پڑاؤ نہیں ڈالنا چاہئے جہاں پانچ چیزیں نہ ہوں۔
۱: با اختیار بادشاہ، ۲: عادل قاضی، ۳: کامیاب بازار،
۴: جاری رہنے والی نہر، ۵: دانا طبیب۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ گروہ انسانیت کا سب سے بڑا محسن ہے اور اس نسبت سے ان کی توقیر و تکریم سماج کا فريضہ ہے ، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ علاج سے جلدی فائدہ نہیں ہوا، یا مریض کی موت واقع ہوگئی تو لوگ ڈاکٹر سے اُلجھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اس کی جان کے پیچھے پڑجاتے ہیں ، یہ غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے ، اس لئے کہ علاج تو انسان کے اختیار میں ہے ، لیکن صحت و شفا خدا کی مشیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔
‘‘وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ’’ (اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ ہی شفاء دیتا ہے)۔
معالج کو زندگی بچانے کا مکلف قرار دینا اس پر اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔جو شخص جس مقام کا حامل ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ، اس لئے ڈاکٹر اور معالج حضرات کو اپنی ذمہ داریوں پر بھی توجہ دینی چاہئے ، ڈاکٹر کا بنیادی فريضہ یہ ہے کہ وہ اس پیشہ میں خدمت کے پہلو کو مقدم رکھے ، ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ مریضوں کا مفت علاج کریں اور اپنے گھر سے دوائیں لاکر کھلادیں ، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس پیشہ کو محض تجارت اور بزنس نہ بنادیا جائے اور اجرت کے ساتھ ساتھ اجر کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا جائے ، اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تعلیم اور علاج نے ایک زبردست کاروبار کی صورت اختیار کرلی ہے اور معاشی کشش کی وجہ سے بہت سے ہوٹل ، اسپتال میں تبدیل ہوگئے ہیں ، ڈاکٹروں کی فیس مریض کے لئے ناقابل برداشت بوجھ بن گئی ہے ، پھر فیس کے سلسلے میں بھی ایک نئی روایت یہ قائم ہورہی ہے کہ مریض جتنی بار مشورے کے لئے جائے ہر بار فیس ادا کرے۔
اس طرح بعض اوقات ہر ہفتہ ڈاکٹرز فیس وصول کرلیتے ہیں ، پھر آمدنی کے بالواسطہ ذرائع بھی پیدا کرلئے گئے ہیں ، دوائیں لکھی جاتی ہیں اور مخصوص و متعین دوکانوں سے دوا خریدنے کو کہا جاتا ہے ، تاکہ ان سے کمیشن مل سکے ، مریض پر بوجھ ڈالنے اور اپنی جیب بھرنے کے لئے ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دوائیں پہلے لکھی گئی تھیں ابھی وہ ختم بھی نہیں ہوئی کہ دوا تبدیل کردی جاتی ہے اور اسی فارمولہ کی دوسری دوا ، جس کا نام کمپنی بدل جانے کی وجہ سے بدلا ہوا ہوتا ہے ، لکھ دی جاتی ہے ، بیچارے مریض کو ڈاکٹر صاحب کی اس ہوشیاری کی خبر بھی نہیں ہوتی۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جتنی دوا مطلوب ہے اس سے زیادہ لکھ دی گئی اور چند دنوں میں نسخہ بدل دیا گیا اور زائد دوائیں بیکار ہوگئیں ، یہ بھی ہوتا ہے کہ نقلی دوائیں یا ایسی دوائیں جن کی مدت ختم ہوچکی ہے ، دی جاتی ہیں اور معیاری دواؤں کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
امراض کے ٹیسٹ کا معاملہ تو سب سے اہم ہے ، بے مقصد ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں ، مریض نے اگر کسی دوسرے ڈاکٹر سے ٹیسٹ کرایا ہو تو چاہے وہ رپورٹ دن ، دو دن پہلے ہی کی کیوں نہ ہو ، لیکن نیا ڈاکٹر پھر سے پورے ٹیسٹ کراتا ہے اور یہ بھی ضروری قرار دیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے جس پیتھالوجسٹ کا مشورہ دیا ہے اسی کے یہاں ٹیسٹ کرایا جائے۔
ان اقدامات میں مخلصانہ جستجو و تحقیق کا جذبہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے ، اکثر اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ کمانا اور اپنی جیب بھرنا ہوتا ہے ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر یا کسی خاص اسپتال کو مریض ریفر (Refer) کرتا ہے۔
یہ تمام صورتیں اگر مریض کی بھلائی کے جذبہ سے ہوں تب ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، لیکن افسوس کہ ان سب کا مقصد کمیشن کھانا ہوتاہے۔ دواؤں پر کمیشن ، ٹیسٹ پر کمیشن، مریض کے بھیجنے پر کمیشن اور جہاں جہاں ممکن ہو وہاں سے کمیشن کاحصول ، ان کمیشنوں اوران کی بڑھتی ہوئی شرحوں نے مریض کی کمر توڑ دی ہے اور غریب لوگوں کے لئے اسپتال جانے کا تصور بھی ایک بوجھ ہوتا ہے ، یہ کمیشن فقہی اعتبار سے رشوت ہے ، اس کا لینا حرام ہے اور اس میں واسطہ بننا بھی حرام ہے۔
حکومت کی طرف سے اس بات پر پابندی ہے کہ سرکاری ہاسپٹلوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر الگ سے اپنے نرسنگ ہوم چلائیں ، لیکن جسے خدا کا خوف نہ ہو اس کے قدم کون تھام سکتا ہے ؟
چنانچہ عام طورپر سرکاری ڈاکٹرز بھی فرضی ناموں سے نرسنگ ہوم چلاتے ہیں ، جو مریض سرکاری ہاسپٹل میں آتا ہے ، اسے بے توجہی سے دیکھتے ہیں اور صراحتاً یا اشارتاً انہیں نرسنگ ہوم میں آنے کی دعوت دی جاتی ہے ، یا عملی طورپر انہیں اس پر مجبور کردیا جاتاہے؛ تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ پیسے ہتھیائے جاسکیں اس عمل میں جھوٹ بھی ہے اور دھوکہ بھی اور بعض دفعہ پریکٹس نہ کرنے کا الاؤنس بھی دیا جاتا ہے، لہٰذا اب اس کے باوجود پیسے لے کر پرائیوٹ پریکٹس حرام طریقہ پر مال حاصل کرنے کی مجرمانہ کوشش بھی ہے۔
اسی طرح ایک نئی صورتِ حال یہ ہے کہ جن امراض کا علاج دواؤں کے ذریعہ ممکن ہے ، ان میں بھی آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے ، تاکہ علاج گراں بار ہو اور مریض کی یہ گرانی معالج کے لئے کمائی کا باعث ہے ، خاص کر ولادت کے کیس میں کثرت سے اس طرح کی بات پیش آتی ہے اور آپریشن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ زچگی کرائی جاتی ہے اور حکومت بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے ، کیونکہ یہ بالواسطہ فیملی پلاننگ کو بروئے کار لانا ہے۔اسی طرح مریض کی موت کے باوجود اسے مصنوعی آلۂ تنفس پر رکھا جاتا ہے ، تاکہ بل بڑھتا رہے ، یہ کس درجہ ناشائستہ طریقہ ہے۔
ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ آپریشن کی میز پر پیٹ چیرنے کے بعد ڈاکٹر کی طرف سے نیا مطالبہ سامنے آتا ہے اور مریض اوراس کے متعلقین اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں ، یہ تمام صورتیں شرعاً ناجائز اور گناہ ہیں ، اور اکثر صورتوں میں آمدنی بھی حرام ہے ، افسوس کہ بہت سے دیندار لوگ بھی اپنی لا علمی کی وجہ سے ان گناہوں میں مبتلا ہیں ، ڈاکٹر کے لئے صرف اس کی تنخواہ اور پرائیویٹ علاج کی صورت میں اس کی فیس ، نیز مریض کو اس نے جو دوائیں دی ہیں ، ان کی معروف اور مروجہ قیمت ہی جائز ہے۔
معالج کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنے فن کو باضابطہ طورپر پڑھا ہو ، محض چند سنی سنائی باتو ں پر علاج شروع کردینا درست نہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ‘‘مَنْ تَطَبَّبَ، وَلَا يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ، فَهُوَ ضَامِنٌ’’ (جس نے علاج کیا اور وہ فنِ طب کا علم نہ رکھتا ہو، وہ ضامن ہوگا)۔
ناواقف طبیب سے مراد وہ شخص ہے جس میں بیماری اور اس کی دوا کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو ، دواؤں کے اثرات سے واقف نہ ہو ، نیز دوائیں دے دیتا ہواور اس کے ری ایکشن کو روکنے والی دواؤں کا علم نہ رکھتا ہو۔ ‘‘ذلك بأن يسقي المتطبب الناس دواء مهلكاً، أو لا يقدر على إزالة ضرر دواء اشتد تأثيره على المرضى’’ ۔لہٰذا ایسے ناواقف طبیب کی کوتاہیاں قابل ضمان ہوں گی اور ان کو سزا دی جائے گی ، یہ سزا جسمانی سرزنش بھی ہوسکتی ہے ، قید بھی اور خوں بہا بھی۔
افسوس کہ آج کل علاج کی ایسی سنگین کوتاہیاں سامنے آتی ہیں کہ بعض دفعہ تو سرجن قینچی اور چھری بھی مریض کے جسم میں بھول جاتا ہے ، ایسے غفلت شعار ڈاکٹر انسانیت کے خادم نہیں ہادم ہیں اور وہ سماج کے لئے رحمت کے بجائے زحمت ہیں ، غرض کہ طب و علاج کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور معالج انسانی خدمت کے اعتبار سے سب سے اہم ذمہ داری انجام دیتا ہے ، وہ اپنے پیشے میں اُجرت کے ساتھ ساتھ اجر اوردنیا کے نفع کے ساتھ ساتھ آخرت کے نفع کو بھی پاسکتا ہے ، بشرطیکہ وہ اس پیشہ کو محض تجارت کے طورپر اختیار نہ کرے ، بلکہ اس میں خدمت کے پہلو کو بھی ملحوظ رکھے اور جھوٹ ، دھوکہ اور حرام طریقہ پر کسب ِمعاش سے اپنے دامن کو بچائے۔
• تداوی کا حکم:
تداوی کا معنیٰ ہے علاج کرانا، دوا لینا، اور شریعتِ اسلامی میں علاج معالجہ کراناجائز ہے۔حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘إنَّ الله عزّ وجلّ أنْزَلَ الدَّاءَ والدَّواء، وجَعَلَ لِكُل داءٍ دَوَاءً، فَتَداووا، ولا تَدَاووا بحرَام’’ ۔ (اللہ تعالیٰ نے مرض اور علاج دونوں نازل کئے ہیں، ہر مرض کی دوا رکھی ہے،اس لئے علاج کراؤ، البتہ حرام چیز سے علاج نہ کراؤ)۔
اسی طرح حضرت اسامہ بن شریکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ‘‘تَدَاوَوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ دَوَاءً، غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ الْهَرَمُ’’ ، (علاج کراؤ، بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے سوائے بڑھاپے کے ہر مرض کا علاج پیدا فرمایا ہے)۔
جمہور علماء فرماتے ہیں کہ علاج کرانا مستحب ہےکیونکہ احادیث مبارکہ میں اس کا حکم آیا ہے اور اس میں مریض کا فائدہ ہے اوراس کی صحت کی حفاظت کا اہم ذریعہ ہے، اسی میں زیادہ توکل علی اللہ ہے اور انسان کا بغیر کھائے پیئے، بغیر کام کیئے، بغیر کمائے اور بغیر علاج کرائے یہ کہنا کہ مجھے اللہ پر توکل ہے، یہ بالکل غلط اور ناجائز ہے۔اور جب مرض کافی زیادہ ہو اور علاج سے صحتمند ہونے کا یقین ہو تو علاج کرانا ضروری ہےکیونکہ پھر علاج کو ترک کرنا مریض اور اس کے اہل و عیال کے لئےپریشانی کا سبب ہوگا، اسی لئے اس کے لئے علاج کرانا اس کی اور اہل و عیال کی مصلحت و بہتری ہوگی، اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحت و شفاء حاصل ہوگی۔
لہذا اگر شرعی و مباح ادویات،قرآن کی قرأت یا دم کے ذریعے علاج کرایا جائے تو جائز و مباح ہے۔کیونکہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین نے بھی مختلف طریقوں سے علاج کرائے تھےاور آپﷺ نے علاج کرانے کا حکم بھی دیا تھا۔
‘‘الباب الثانی’’
فصل اول: ضمان کی تعریف اور اسباب
الإلتزام: کسی شئ کو اپنے اوپر لازم کردینا یا اپنے ذمے لے لینا۔جیسا کہ کہا جاتا ہے: ‘‘ضمنته المال، ضمنت المال’’ یعنی (الزمته المال فالتزمه) کہ میں نے اس پر مال لازم کردیا تو اس نے اپنے ذمے لے لیا۔
۲۔ الکفالۃ: کسی شخص کو ایک چیز کا کفیل یا ضامن بنانا۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ ‘‘ضمنته لشيء ضمانا فهو ضامن وضمين، ضمنته المال’’ یعنی (کفّله بالمال) کہ میں نے اسے مال کا کفیل یا ضامن بنایا۔
۳۔ التغریم: تاوان یا وہ شئ دینا جس کا اداء کرنا لازم ہو۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ‘‘ضمنته الشئ تضميناً’’ یعنی (غرّمته فالتزمه) کہ میں نے اس پر ایک چیز بطور تاوان یا ضمان لازم کردی اور اس نے تسلیم کرلیا ۔
• ضمان کی اصطلاحی تعریفیں حسب ذیل مکتوب ہیں:
۱۔ الضَّمَانَ عِبَارَةٌ عَنْ رَدِّ مِثْلِ الْهَالِكِ إنْ كَانَ مِثْلِيًّا أَوْ قِيمَتِهِ إنْ كَانَ قِيَمِيًّا ۔
اگر ہلاک کرنے والی چیز مثلی ہو تو اس کے مثل کا لوٹانا اور اگر قیمت والی ہو تو اس کی قیمت کا لوٹانا ضمان کہلاتا ہے۔
۲۔ الضَّمَانُ عِبَارَةٌ عَنْ غَرَامَةِ التَّالِفِ ۔
تلف ہونے والی چیز کا تاوان ضمان کہلاتا ہے۔
۳۔ يُقَالُ عَلَى الْتِزَامِ دَيْنٍ أَوْ إحْضَارِ عَيْنٍ أَوْ بَدَنٍ ۔
کفالۃ کو شامل ہونے کے اعتبار سے دَین کی ذمہ داری لینا، یا کسی عین یا بدن کے حاضر کرنے کی ذمہ داری لینا ضمان کہلاتا ہے۔
۴۔ الضَّمَانُ هُوَ إعْطَاءُ مِثْلِ الشَّيْءِ إنْ كَانَ مِنْ الْمِثْلِيَّاتِ وَقِيمَتِهِ إنْ كَانَ مِنْ الْقِيَمِيَّاتِ ۔
کسی چیز کا مثل دینا اگر وہ مثلی ہو، اور اس کی قیمت دینا اگر وہ قیمت والی ہو تو یہ ضمان ہے۔
• اسی طرح فقہاء کی اصطلاح میں ضمان کے چند دیگر معانی بھی ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ يطلق على ضمان المال والتزامه بعقد وغير عقد۔
ضمان اصطلاح میں مال کے ضمان اور اس کے التزام پر بولا جاتا ہے، خواہ وہ عقد کے ذریعے ہوں یا بغیر عقد کے۔
۲۔ يطلق على الضمان على غرامة المتلفات والغصوب والتعييبات والتغييرات الطارئة۔
تلف شدہ اشیاء، غصب کی ہوئی چیزیں، طاری ہونے والے عیوب اور تغیرات کے تاوان پر بھی ضمان کا اطلاق ہوتا ہے۔
۳۔ يطلق على ما يجب بإلزام الشارع بسبب الاعتداءات كالديات والأروش والكفارات وغيرها۔
یعنی کسی جرم کی وجہ سے شارع کے لازم کرنے سے جو شئ لازم ہوجاتی ہے اسے بھی ضمان کہتے ہیں۔ مثلاً: دیت، کفارہ، تاوان وغیرہ ۔
• أسباب الضمان: (ائمۂ اربعہ کے نزدیک ضمان کے اسباب)
اس فصل میں یہ جاننا مقصود ہے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے ضمان لازم آتا ہے، یعنی کہ ایک شئ کامالک اپنی چیز کے تلف ہوجانے کے بعد کن اسباب کی وجہ سے فوری طور پر اپنی چیز کا بدل یا اس کی قیمت کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
ضمان کے اسباب کے بارے میں أئمۂ مجتھدین کی مختلف آراء ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
• احنافؒ کے نزدیک ضمان کے اسباب:
۱۔ غصب: الغصب إزالة يد المالك ظلمًا وقهرًا، وهذا موجود في العقار، فوجب أن يكون به غاصبًا ضامنًا ۔
۲۔ عدوان: لَا يَجِبَ الضَّمَانُ إلَّا عَلَى الْمُتَعَدِّي لِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ‘‘فَلا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّالِمِينَ’’[البقرة: 193]
۳۔ إتلاف و تسبب بالإتلاف: فَلَا شَكَّ أَنَّ الْإِتْلَافَ سَبَبٌ لِوُجُوبِ الضَّمَانِ عِنْدَ اسْتِجْمَاعِ شَرَائِطِ الْوُجُوب ۔
• شافعیہؒ کے نزدیک ضمان کے اسباب:
۱: عقد ۲: إثبات الید
۳: إتلاف ۴: حیلولہ
أَسْبَابُ الضَّمَانِ أَرْبَعَةٌ_ أَحَدُهَا: الْعَقْدُ، الثَّانِي: الْيَدُ مُؤْتَمَنَةً، الثَّالِثُ: الْإِتْلَافُ نَفْسًا، الرَّابِعُ: الْحَيْلُولَةُ ۔
• مالکیہؒ کے نزدیک ضمان کے اسباب:
۱: وضع الید ۲: إتلاف ۳:تسبب للإتلاف
أَسْبَابُ الضَّمَانِ ثَلَاثَةٌ فَمَتَى وُجِدَ وَاحِدٌ مِنْهَا وَجَبَ الضَّمَانُ، وَمَتَى لَمْ يُوجَدْ وَاحِدٌ مِنْهَا لَمْ يَجِبْ الضَّمَانُ.
(أَحَدُهَا) التَّفْوِيتُ مُبَاشَرَةً، (وَثَانِيهَا) التَّسَبُّبُ لِلْإِتْلَافِ، (وَثَالِثُهَا) وَضْعُ الْيَدِ ۔
• حنابلہؒ کے نزدیک ضمان کے اسباب:
۱: عقد ۲: وضع الید ۳: إتلاف
أَسْبَابُ الضَّمَانِ ثَلَاثَةٌ: عَقْدٌ، وَيَدٌ، وَإِتْلَافٌ ۔
فصل ثانی: کوتاہی کی نوعیت اور اسباب
اقسام الخطأ (کوتاہی کی نوعیت):
کوتاہی یا غلطی کو عربی لغت میں ‘خطأ’ کہتے ہیں۔اصطلاح میں خطأ کا معنی یہ ہے کہ آدمی ایک کام کے کرنے کا ارادہ کرے لیکن وہ کام اس کے ارادے کے برخلاف واقع ہوجائے۔ مثال کے طور پر ایک طبیب نے سر درد میں مبتلا مریض کو پیٹ کے درد کی دوائی دے دی تو وہ طبیب خطاکار کہلائے گا، یا مثلاً کسی شکاری نے ہرن شکار کرنے کی غرض سے تیر چلایا لیکن وہ غلطی سے کسی شخص کو جا لگا تو یہ قتل خطأ ہے اور شکاری مخطی کہلائے گا۔
خطأ کی تعریف کے بعد اس کی نوعیت کا جاننا بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ اس بات کا علم ہوجائے کہ کوتاہی کس کس نوعیت کی ہو سکتی ہے اور ان پر شریعت مطھرہ میں کیا احکامات لگائے جاسکتے ہیں۔
قانون کے ماہرین کے نزدیک کوتاہی کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ الخطأ العادي، ۲۔ الخطأ الفني،
• الخطأ العادي (غير المهني):
هو ما يصدر من الطبيب صاحب المهنة عند مزاولته مهنته دون أن يكون لهذا الخطأ علاقة بالأصول الفنية لهذه المهنة، فهو- كما يقال – الخطأ الذي لا يخضع للخلافات الفنية، ولا يتصل بسبب الأصول العلاجية المعترف بها في الفن الطبي.
وہ غلطی جو پیشہ ور طبیب سے اپنے کام کے دوران صادر ہوجائے، اور اس غلطی کا طب کے پیشے اور اس فن کے اصولوں سے کوئی تعلق نہ ہو۔یعنی وہ خطأ فنی اختلاف کے تابع نہ ہو اور علاج معالجہ کےان اصولوں کے اسباب سے متصل نہ ہو جس کا فنِ طب سے کوئی تعلق ہو۔
مطلب یہ ہوا کہ ‘عادی یا غیر پیشہ ورخطأ’ وہ کوتاہی ہے کہ جس کا فنی و پیشہ وری اصولوں سے کوئی تعلق نہ ہو،وہ کوتاہی پیشے و روزگارکے دائرۂ کار اور فنِ طب کے اصولوں میں سے نہ ہو،اور یہ خطأ صرف انسانی رویّہ و طرز عمل سے ان قواعد عامہ کی خلاف ورزی کا سبب و ذریعہ بنتی ہےجن کی اطاعت و پیروی کرنا تمام انسانیت پر لازم کی گئی ۔
• الخطأ الفني (المهني):
فهو يصدر عن الطبيب، ويتعلّق بأعمال مهنته، ويتحدد في حالة مخالفة الطبيب، الأصول و القواعد التي تحكم مهنته.
وہ کوتاہی جو طبیب سے صادر ہو جائے اور اس کے پیشے سے متعلق ہو،اور طبیب کی مخالفت کی صورت میں طبی فن اور پیشے میں فیصلے کے لئے کوئی اصول و قواعد مقرر ہوں۔
یعنی یہ خطأ اصول اور مہارت کے مطابق پیشہ سے متعلق ہے،کہ طبیب علاج کرتے وقت فنِ طب اور پیشہ کے ان اصول و قواعد پر عمل درامد نہ کرے جن کا یہ فن اور پیشہ تقاضہ کرتا ہے، جس کی وجہ سے طبیب کوتاہی کا ارتکاب کردے اور اس پر ضمان لازم آجاتا ہے۔
پھر اس خطأ کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلی صورت یہ ہے کہ وہ طبیب اس پیشے و فن میں مکمل مہارت نہ رکھتا ہو اور طبی آلات کے درست استعمال سے بھی ناواقف ہو، کہ فنِ طب کے آلات کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔
طبیب تنہا خود علاج کرے، یعنی کسی بڑے اسپتال میں اور کسی خاص قسم کے مرض میں مبتلا شخص کا علاج اکیلا طبیب کرے اور علاج کے لئے کسی سینئر اور اچھے معالج کا مشورہ یا مدد حاصل نہ کرے۔
ایک صورت یہ ہے طبیب یا سرجن علاج کرتے ہوئے جلد بازی و بے دھیانی سے کام لیں اور زیادہ مریضوں کو دیکھ کر ہر ایک مریض پر توجہ نہ دے اور انہیں جلدی فارغ کرتا رہے جس کے نتیجہ میں کسی قسم کا نقصان بھی صادر ہو سکتا ہے۔
اس خطأ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ طبیب طب میں کسی فن کا اسپیشلسٹ نہ ہواور اعلی درجہ کا ماہر نہ ہو کہ وہ مریض کے نفع و نقصان سے مکمل واقف نہ ہوسکے۔
مندرجہ بالا اقسامِ خطأ قانون کی نظر میں تھیں،جبکہ شریعت کی روشنی میں کوتاہی کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱: الخطأ في القصد ۲: الخطأ في الفعل ۳: الخطأ في التقدير ۴: الخطأ الفاحش
• الخطأ في القصد:
یہ ہے کہ ایک شخص کسی آدمی کو ماردے اور اس کا گمان یہ ہو کہ وہ مخالف جنگجو ہے یا شکاری آدمی ہےلیکن وہ مسلمان نکل جائے،تو یہ قصداً یا ظنا ً خطأ کہلائے گی۔مثلاً:کوئی طبیب مریض کے ہاتھ میں زخم دیکھے اور اس زخم کے ازالہ کے لئے پورے ہاتھ کو کاٹ دے جبکہ وہ زخم ہاتھ کا انفکشن نہیں تھا۔یہ کوتاہی ا سکی عملی کوتاہی نہیں ہے بلکہ اس کے گمان (ظن) میں یہ کوتاہی تھی جو اس سے صادر ہوگئی۔
• الخطأ في الفعل:
یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام کرنا چاہتا ہے لیکن غلطی سے اس کام کے بجائے دوسرا کام ہوجائے۔یعنی ایک شکاری جانور شکار کرنے کے لئے پستول سے گولی چلائے لیکن وہ غلطی سے کسی انسان کو لگ جائے جس سے وہ مرگیا ہو، تو یہ کوتاہی عملی خطأ کہلائے گی۔مثلاً:طبیب علاج کی غرض سے مریض کا آپریشن کرے لیکن غلطی سے آپریشن کے دوران طبی آلہ جسم میں بھول جائے جس سے مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ کوتاہی طبیب کی عملی کوتاہی ہے جو اس کی بے دھیانی کی وجہ سے واقع ہوئی ہے۔
• الخطأ في التقدير:
اس خطأ کی دو صورتیں ہیں۔
(۱):۔ پہلی صورت یہ ہے کہ طبیب مرض کو پہچاننے کے بعد اس کے لئے دوائی تجویز کرے،پھر اسے یہ اندازہ ہوجائے کہ اس نے وہ دوا تجویز کرنے میں غلطی کی ہےکیونکہ یہ دوا اس مرض کے لئے نہیں ہے۔لیکن مریض نے وہ دوا کھا لی جس سے وہ مر گیا تو یہ تقدیری کوتاہی کی صورت کہلائے گی۔
(۲):۔ اس خطأ کی دوسری صورت یہ ہے کہ طبیب مریض کے جسم کا ایک عضو اسے بیماری کی جڑ سمجھ کر کاٹ لے لیکن پھر اسے یہ بات سمجھ میں آجائے کہ علاج کے لئے اس عضو کو کاٹنے کی ضرورت نہیں تھی۔لیکن طبیب کی تقدیری کوتاہی کی بناء پر مریض اپنے اس عضو سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
• الخطأ الفاحش:
وہ خطأ جو طبی اصولوں کے موافق نہ ہو اور نہ اس فن و علم والوں کے موافق ہو،ڈاکٹر یا سرجن سے یہ خطأ واقع نہ ہو۔جب کوئی معالج اسی طرح علاج کرے جیسے ایک عام متوسط ڈاکٹر علاج کرتا ہےاور اسی عام روش میں وہ غلطی کردے۔ مثلاً:کسی شخص کا حجامہ یا بچہ کا ختنہ کرتے ہو اس سے خطأ ہو جائے جس کے نتیجہ میں وہ عضو کو کھو بیٹھے تو یہ کوتاہی صریح، فاحش اور بڑی خطأ کہلائے گی۔
اسباب الخطأ (کوتاہی کے اسباب):
طبی کوتاہی کے بہت سے اسباب ہیں۔جیسا کہ أطباء یا ان کے معاونین کی جانب سے شخصی تجاوز کرنا،یامقرر کردہ طبی قواعد کی مخالفت کرنا،یا طبیب کا لا علم ہونا۔ذیل میں ان اسباب کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے تاکہ معلوم ہو کہ علاج کے دوران کن اسباب کی وجہ سے کوتاہی صادر ہوتی ہے ۔
• السبب الأول: التعدي الشخصي:
اس سے مراد یہ ہے کہ طبیب آپریشن یا اس جیسا کوئی عمل کرتے ہوئے مریض کو کوئی نقصان پہنچادے جس کے بارے میں وہ طبیب جانتا تھا اور قصد رکھتا تھا۔اسی طرح طبیب یہ دعویٰ کرے کہ مریض کو جو مرض لاحق ہے وہ صرف آپریشن کے ذریعے ہی ختم ہوسکتا ہے،لیکن جب آپریشن کیا تو وہ شخص ہلاک ہوگیاتو وہ ڈاکٹر ذمہ دار کہلائے گا۔اسی طرح طبیب یا اس کا معاون خود کسی غلطی کا ارتکاب کریں گے یا کسی سبب سے ان سے غلطی صادر ہوئی ہوگی۔
قدیم و معروف فقہاء کے نزدیک اس کا قاعدہ یہ ہے،ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں: ‘‘المباشر ضامن، وإن لم يتعمد، والمتسبب لا إلا إذا كان متعمدا’’ ۔
(براہ راست خود خطاکار طبیب ضامن ہے،اگرچہ وہ جان بوجھ کر خطا نہ کرے اور کسی سبب سے خطا کرنے والا ضامن نہیں ہے سوائے یہ کہ وہ جان بوجھ کر مرتکب ہوا ہو)۔
لہذا أطباء کو چاہئے کہ علاج کرتے ہوئے بے پرواہی سے کام نہ لیں اور مریض کی طرف مکمل دھیان رکھیں تاکہ کسی بھی قسم کی طبی کوتاہی سے بچا جاسکے۔ اگر طبیب سے براہ راست یا کسی سبب سے کوئی خطا صادر ہوجائے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ فوراً ماہر طبیب سے مدد حاصل کر کے مریض کی جان و جسم بچائے۔
• السبب الثاني: عدم اتباع الأصول العلمية:
علاج معالجہ اور عملِ طب کے لئے علمی اصول مقرر ہیں جوکہ اس فن کے خاص و اسپیشلٹ ماہرین نے وضع کیے ہیں۔أطباء اور طب کے پیشے سے منسلک تمام لوگوں پر ان اصولوں کی پیروی کرنا بہت ضروری ہے۔ان علمی اصولوں سے نکلنا اور اتباع نہ کرنا مریض کی زندگی اور حالات کے لئے نہایت خطرناک عمل ہے،خاص طور پر آپریشن کرتے ہوئے ان اصولوں کو ترک کرنا نقصان دہ و جان لیوا ہے۔اسی لئے تمام أطباء اور ان کے معاونین پر لازم ہے کہ وہ ہر اس اصول کو اپنالیں جو فنِ طب کے اسپیشلسٹ علماء نے وضع کیے ہیں، خاص طور پر ان اصولوں کو جو کہ جان کو بچائیں اور نقصان کو دور کریں۔
تحقیق فقہ اسلامی نے بہت سے علمی اصولوں کا اہتمام کیا ہے جن میں فنِ طب کے اصول بھی ہیں، یہ اصول اور ان پر عمل بندوں کے لئے رحمت ہیں کیونکہ ان پر عمل کرکے لوگوں کو لاحق ہونے والی بیماریاں اور بخار دور ہوجاتے ہیں، اور لوگوں کی جان کی حفاظت اور اسے ہلاکت سے بچانے کے لئے آپریشن بھی کیا جاتا ہے۔
پس جب أطباء اور ان کے معاونین حضرات اس راستے سے نکل جائیں تو حکم تبدیل ہوجاتا ہے کیونکہ أطباء کا ان اصولوں اور قواعد کی مخالفت کرنے سے سبب تبدیل ہوجاتا ہے۔لہذا اگر طبیب سے اصول و قواعد کو ترک کرنے کی وجہ سے کوئی خطأ صادر ہوجائے یا مریض کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے مخالفت کا سامنا ہو تو اس کی تفصیل تین صورتوں پر موقوف ہے۔
پہلی صورت:
طبیب ماہروباخبر ہو، فنِ طب میں اپنا پورا حق ادا کرتا ہو اوراس کے ہاتھ سے کوئی جنایت نہ ہوئی ہو، ایسے طبیب کو قانونی اور شرعی طور پر اجازت ہے کہ وہ علاج کرے۔ اس صورت میں اگر اس سے دوران علاج کوتاہی صادر ہو جائے جس کے نتیجہ میں مریض کا کوئی عضو تلف ہو جائے، اس کی جان چلی جائے یا کوئی صفت ضائع ہو جائے تو ائمۂ فقہاء کے نزدیک بالاتفاق اس طبیب پر کوئی ضمان نہیں ہوگا ۔
اس کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے مروی یہ حدیث ہے:
‘‘مَنْ تَطَبَّبَ، وَلَا يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ، فَهُوَ ضَامِنٌ’’ (جس نے علاج کیا اور وہ فنِ طب کا علم نہ رکھتا ہو، وہ ضامن ہوگا)۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ وہ جو فن طب سے ناواقف ہو اور خطأ کرے تو وہ ضامن ہوگا اور یہ بات بھی قابل سمجھ ہے کہ وہ طبیب جو فنِ طب سے مکمل واقفیت رکھتا ہو اور خطأ نہ کرتا ہو وہ ضامن نہیں ہوگا۔
دوسری صورت:
طبیب ماہروباخبر ہو، فنِ طب میں اپنا پورا حق ادا کرتا ہو اور اسے قانونی اور شرعی طور پر اجازت ہے کہ وہ علاج کرے لیکن پھر اس سے خطأ ہوجائے اور کوئی نفس یا عضو ضائع ہوجائے تو اس کے دو احکام ہیں:۔
۱۔ طبیب تجاوز کرےیا کمی بیشی کرے یا ایسا کام کرے جو اس کے لئے جائز نہ ہو،مثلاً:دورانِ آپریشن بھرائی کا مواد زائد کردے،
روشنی کی شعائیں ضرورت سے بڑھ کر استعمال کرے، آپریشن کے لئے جگہ غلط جگہ و غلط اوزار سے کاٹے، یا درست وقت کو چھوڑ کر ایسے وقت میں آپریشن کرے جو مریض کے لئے نقصان دہ ہو۔ تو اس صورت میں تمام أئمہ کے نزدیک وہ طبیب بالاتفاق ضامن ہوگا۔
۲۔طبیب علاج کرتے ہوئے تجاوز یا کمی بیشی نہ کرے بلکہ غلطی سے اس کے ہاتھوں نقصان ہوجائے مثلاً:ختنہ کرتے ہوئے زیادہ کٹ لگ جائے، یا ہاتھ پھسلنے کی وجہ سے شریان کٹ جائے، یا دورانِ آپریشن غلطی سے قینچی تیز چل جائےتو اس صورت میں امام مالکؒ کے نزدیک وہ طبیب ضامن نہ ہوگا،کیونکہ وہ عالم بالطب ہے اور اس نے دورانِ علاج کوئی سستی،تجاوز یا کمی بیشی نہیں کی ہے۔
دیگر جمہور فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر طبیب ماہر ہو اور اس سے کوتاہی صادر ہوجائے تو بھی وہ ضامن ہوگا۔
علامہ سرخسیؒ لکھتے ہیں:
‘‘ولو أمر رجلاً أن يختن عبده، أو ابنه فأخطأ فقطع الحشفة كان ضامنا’’ ۔ (کسی شخص کو ختنہ کرنے کا حکم دیا جائے اور اس نے غلطی سے ختنہ کی جگہ زیادہ کاٹ دی تو اس پر ضمان ہوگا)۔
اسی طرح نهاية المحتاج میں ہے کہ:
‘‘ولو أخطأ الطبيب في المعالجة، وحصل منه التلف وجبت الدية على عاقلته’’ ۔ (اگر طبیب نے علاج کے دوران کوتاہی کی جس سے عضو یا نفس ضائے ہوجائے تو اس پر دیتِ عاقلہ لازم ہوگی)۔
لہذا یہ بات واضح و مدلل ہو گئی کہ اگر طبیب سے کوتاہی صادر ہوجائے جس سے نفس یا عضو ضائع ہوجائے تو اس کی یہ کوتاہی معاف نہیں ہوگی بلکہ اس کے بدلے طبیب پر ضمان و دیت لازم ہوگی۔کیونکہ غلطی سے کسی شئ کے تلف یا نقصان ہوجانے سے اس غلطی کا ازالہ بدل یا ضمان کی صورت میں کرنا لازم ہوتا ہے۔اس لئے طبیب کو ہمیشہ پوری طرح دھیان سے اور اصول و ضوابط کی پیروی کرتے ہوئے علاج کرنا چاہئے۔
تیسری صورت:
طبیب ماہر ہو لیکن وہ مریض کی اجازت کے بغیر اس کا علاج کرے۔اس کے دو احکام ہیں جو مندرجہ ذیل مکتوب ہیں:۔
۱۔ اگر طبیب اجرت (فیس) پر علاج کرتا ہو تو اس پر علاج کے لئے مریض کی رضا مندی حاصل کرنا لازم ہے،اور اس کا عاقل بالغ ہونا ضروری ہے، اس صورت میں اگر وہ بغیر اجازت علاج کرے اور نفس یا عضو ضائع کردے تو بالاتفاق اس پر ضمان لازم آئے گا۔
۲۔ اگر طبیب رضاکارانہ طور پر مفت علاج کرتا ہو اور خطأ کا ارتکاب کرلے توبعض فقہاء (جن میں علامہ ابن حزمؒ،ابن قیمؒ اور بعض حنابلہ شامل ہیں) کے ہاں وہ طبیب ضامن نہیں ہوگا،جبکہ جمہور اہلِ علم فقہاء کے نزدیک مکلف یا اس کے ولی کی اجازت کے بغیر علاج کرنے والا بھی کوتاہی کا ضامن ہوگا۔
لہذا اگر طبیب اجرت پر علاج کرتا ہو یا بغیر اجرت کے جمہور أئمہ کے نزدیک اس پر لازم ہے کہ وہ مریض یا اس کے ولی سے اس کے علاج کی اجازت حاصل کرے اور دورانِ علاج ہر قسم کی کوتاہی و نقصان سے بچنے کی کوشش کرتا رہے۔
• السبب الثالث: الجهل الطبي:
اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی انسان علاج معالجہ اور طبی اعمال کرتا رہے اور وہ اس کے کرنے کا اہل نہ ہو،یعنی کلی و جزئی طور پر جاہل ہو۔یہ جہالت ہی ہے جو انسان کو خطرناک گڑھے پر لا کھڑا کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سی کوتاہیاں صادر ہوجاتی ہیں،بعض اوقات انسان اپنے اعضاء سے محروم ہوجاتا ہے اور کبھی نفس دے بیٹھتا ہے۔جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ حدیث مبارکہ میں ہے:‘‘جس نے علاج کیا اور وہ فنِ طب کا علم نہ رکھتا ہو، وہ ضامن ہوگا’’۔اس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص فن طب سے لاعلم ہو اور علاج کرے جس سے مریض کو کوئی نقصان ہو جائے وہ ضامن کہلائے گا،چاہے نقصان جسم کا ہو یا جان کا،ہلاکت ہو یا تلف۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ یہ تین اسباب ہیں جن کی وجہ سے طبی کوتاہی صادر ہوجاتی ہو اور انسان نقصان کا متحمل ہوجاتا ہے، لہذا ہر انسان کو چاہئے کہ اپنے فن میں مکمل مہارت حاصل کرے اور اس فن کے اصول و قواعد کی پیروی کرے اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو کسی بھی نقصان سے بچائے۔
فصل ثالث: کوتاہی پر ضمان کی صورتیں اور ان کے شرعی احکام
ضمان عائد کرنے کے بارے میں قاعدہ یہ ہےکہ:ضرر اور عوض کے مابین ممکن حد تک مکمل مماثلت کی رعایت کی جائے، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ‘‘وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ’’ (اگر تم لوگ بدلہ لینا چاہتے ہوتو انہیں اتنا ہی دکھ پہنچاؤ جتنا تمہیں پہنچایا گیا ہے)۔مثل کے ذریعے اگرچہ عدل و انصاف کا قیام ہوجاتا ہے لیکن اصل یہ ہے کہ ممکن حد تک خود اسی شئ کو واپس کیا جائے جس میں تعدی کی گئی ہو۔
ذیل میں چند ایسی صورتیں بیان کی جارہی ہیں جن میں طبی کوتاہی کی بناء پر ضمان لازم ہوجاتا ہے۔نفس(جان) یا عضو پر واقع ہونے والے ضرر کے نتیجے میں جو بدلہ واجب ہوتا ہے اس کو ضمان الدم یا ضمان النفس کہتے ہیں۔اس کی تین قسمیں ہیں:
۱۔جنایت علی النفس کا ضمان: اس سے مراد یہ ہے کہ معالج سے ایسی کوتاہی سرزد ہوجائے کہ اس سے مریض کی جان چلی جائے یا وہ موت کے مرض میں چلا جائے جس کا علاج ناممکن ہو مثلاً:طبیب سے مریض کی نس کٹ جائے جس سے جسم میں خون کی روانگی متاثر ہوجائے، یا پھر مریض کو ایسی دوا دے دی جو اس کے علاج کے موافق نہ تھی اور مریض اس سے وفات پا جائے تو چاہے طبیب نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہویا غلطی سے یا بھول کر وہ ضامن ہوگا ، فرمان باری تعالیٰ ہے: ‘‘وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ’’ (اور ہم نے ان پر یہ فرض کردیا کہ جان کا بدلہ جان ہے)۔
۲۔اعضاء کی تلفی اور زخموں کا ضمان: یعنی طبیب کوئی ایسا عمل کرلے جس سے کوئی عضو ضائع ہوجائے یا زخم بن جائے تو طبیب پر ضمان لازم ہے۔کیونکہ اس کی سزا بھی قرآن کریم میں مقررر ہے: ‘‘وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ’’ (آنکھ کا بدلہ آنکھ، ناک کا بدلہ ناک،کان کا بدلہ کان،دانت کا بدلہ دانت اور زخم دینے پر بھی قصاص ہے)۔اگر معاف کرنے، صلح یا مماثلت کے دشوار ہونے کی وجہ سے قصاص ناممکن ہو تو ضمان دیت اور تاوان کے ذریعے ہوگا۔
۳۔بچے کی جنایت کا ضمان: یعنی بچہ کی پیدائش کے وقت اسقاط کردیا جائے یا اس کا ختنہ کرتے ہوئے حشفہ سے تجاوز کردیاجائے جس سے اس کی موت واقع ہوجائےتو معالج ضامن ہوگا اور اس پر دیت لازم ہوگی۔
اسی طرح مفتی جمیل احمد نذیروی نے اپنے مقالے میں ضمان کی صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
‘‘پچھنا لگایا یا ختنہ کیا اور نقصان کردیا تو ضامن نہیں ہوگاالاّ یہ کہ اس جگہ سے تجاوز کرے جہاں تک کاٹا یا نشتر کیا جاتا ہے۔
اگر ختنہ کرنے والے نے حشفہ سے تجاوز کیا اور مرگیا تو نصف دیت واجب ہوگی اور اگر نہیں کیا تو پوری دیت واجب ہوگی۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ جب مر گیا تو یہ نقصان دو امر کی وجہ سے ہوا،ایک کی اجازت تھی یعنی کھال کاٹنا، دوسرے کی اجازت نہیں تھی یعنی حشفہ کا قطع کرنا۔ اور جب ٹھیک ہوگیا تو غیر حشفہ کا کاٹنا ماذون تھا وہ گویا ہوا ہی نہیں۔محض غیر ماذون حشفہ کا ٹنا باقی رہا، پس پوری دیت کا ضامن ہوگا۔
سرمہ یا دوا دکھتی آنکھ میں ڈالی گئی اور اس سے آنکھ کی بینائی چلی گئی تو ضامن نہیں ہوگا جیسے ختنہ کرنے والا۔البتہ اگر غلطی کرے گا تو ضامن ہوگا۔پس اگر دو آدمی کہیں کہ یہ اس کا اہل ہے اور دوسرے دو کہیں کہ اہل نہیں اور آنکھ کی روشنی اس کی غلطی کی وجہ سے گئی ہے تو ضامن نہیں ہوگا۔لیکن اگر ایک شخص اسے صحیح کہے اور دو اسے غلط ٹھہرائیں تو غلط ٹھہرانے والوں کی بات مانی جائے گی اور وہ ضامن ہوگا۔
آنکھ کا علاج کرنے والے سے کہا اس شرط کے ساتھ علاج کرو کہ روشنی نہ جائے، اس نے علاج کیا اور روشنی چلی گئی تو بھی ضامن نہیں ہوگا کیونکہ روشنی بچانا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔
دندان ساز سے کہا کہ میرا دانت اکھاڑ دو ،اس نے اکھاڑا تو مریض کہنے لگا کہ تم نے اچھا دانت اکھاڑ دیا جب کہ میں نے اسے اکھاڑنے کو نہیں کہا تھا۔اس نے انکار کیا تو اس صورت میں مریض کی بات مانی جائے گی اور طبیب ضامن کہلائے گا۔لیکن اگر خراب دانت اکھاڑا اور اس کے ساتھ اچھا دانت بھی ٹوٹ گیا تو طبیب ضامن نہیں ہوگا۔
اگر کسی ڈاکٹر نے جان بوجھ کر ایسی دوا دے دی یا ایسا طریقہ اختیار کیا جس سے وہ مریض مرجائے تو اس ڈاکٹر پر قصاص(ضمان) واجب ہوگا۔
کسی نے سوئے ہوئے شخص کی فصد کھولی اور اسے یونہی چھوڑ دیا اور وہ خون بہنے سے مرگیا تو قصاص واجب ہوگا ۔
طبی کوتاہی پر فقہاء کی آراء:
پہلی رائے: ائمہ اربعہؒ کے نزدیک طبیب اگر کوتاہی کرے تو اس پر ضمان لازم ہوگا۔
دوسری رائے: بعض مالکیہ حضرات کہتے ہیں کہ بھول چوک و کوتاہی خطأ طبی سے مستثنیٰ ہے۔ہاتھ پھسل جانے یا بغیر ارادہ کے ہل جانے سے طبیب پر ضمان نہیں آتا۔
امام مالکؒ سے بھی ایک روایت ہے کہ اگر طبیب ماہر و اہل ہو تو وہ ضامن نہ ہوگا ۔
طبی کوتاہی پر کیا ضمان واجب ہوتا ہے؟
1- الدية على العاقلة:
ائمہ و فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر طبیب کی کوتاہی سے کسی شئ کا نقصان یا ضیاع ہوجائے تو اس پر صرف دیت واجب ہوگی، کیونکہ یہ جنایۃِ خطأ کہلائے گی۔اس کی دلیل فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ‘‘وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ ’’ (اور کسی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مومن کو قتل کرے،سوائے اس کے کہ غلطی سے قتل ہوجائے، اور اگر کسی نے غلطی سے مومن بھائی کو قتل کردیا تو اس پر ایک مسلمان غلام آزاد کرنااور مقتول کے اہل و عیال کو دیت مسلمہ ادا کرنا لازم ہے)۔
آیتِ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کی کوتاہی سے مومن بھائی کی جان ضائع ہوجائے تو اس پر صرف دیت واجب ہوگی۔یہ آیت عام ہے اور ہر قسم کی کوتاہی کے نتیجے پر شامل ہے چاہے طبیب کی ہو یا کسی اور کی۔
جمہور فقہاء کے نزدیک ان کو تعزیر یعنی عدالتی سزا دینا درست نہیں ہے کیونکہ یہ قتل کرنا اس کا ارادہ نہیں تھا اور اس کے اختیار سے باہر تھا،لہذا اس پر صرف دیتِ عاقلہ لازم ہوگی ۔
علامہ ابن منذرؒ لکھتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ اگر ختنہ کرنے والے سے غلطی ہوجائے اور اس سے ذکر یا حشفہ کٹ جائے تو اس پر اس کے بدلے دیتِ عاقلہ دینا لازم ہوگی ۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں: ‘‘الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا: أَنَّ الطَّبِيبَ إِذَا خَتَنَ، فَقَطَعَ الْحَشَفَةَ إِنَّ عَلَيْهِ الْعَقْلَ، وَأَنَّ ذَلِكَ مِنَ الْخَطَإِ الَّذِي تَحْمِلُهُ الْعَاقِلَةُ، وَأَنَّ كُلَّ مَا أَخْطَأَ بِهِ الطَّبِيبُ أَوْ تَعَدَّى إِذَا لَمْ يَتَعَمَّدْ ذَلِكَ، فَفِيهِ الْعَقْلُ ’’ (طبیب جب ختنہ کرے اور اس سے حشفہ کٹ جائے تو تو اس پر دیتِ عاقلہ واجب ہے،یہ اس کوتاہی کا نتیجہ ہے جس کا عقل تصور کرتی ہے،اور ہر وہ خطأ جس کا طبیب ارادہ نہ رکھتا ہو اور جان بوجھ کر نہ کرے اس میں دیتِ عاقلہ ہے)۔
لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ بغیر قصد و ارادہ اگر کوتاہی ہوجائے اور اس سے جانی نقصان ہوجائے تو اس پر دیتِ عاقلہ بطور ضمان ادا کرنا لازم ہوگی۔
2- تكاليف العلاج.
جب کوئی طبیب علاج کے دوران کوتاہی کرے اور مریض کو کسی قسم کا نقصان پہنچا دے تو وہ طبیب طبی عقد میں طے شدہ اجرت سے محروم ہوگا، بلکہ اس نے جو کچھ مریض سے لئے وہ بھی مریض کو واپس کردے۔کیونکہ اس نے علاج کے ذریعے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور اس سے بڑھ کر نقصان بھی کردیا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ ’’ (کوئی نقصان و تکلیف قابل قبول نہیں ہے)۔
یہ حدیث شریعت کے عام قواعد میں سے ہے، کیونکہ جو کوئی نقصان پہنچائی اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اسی لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کوتاہی سے نقصان پر ضمان لازم ہوگا۔
فتح المعين میں ہے کہ:‘‘أما غير الماهر فلا يستحق أجرة ويرجع عليه بثمن الأدوية لتقصيره بمباشرته بما ليس له بأهل ’’ (جو طبیب ماہر نہ ہو وہ اجرت کا مستحق نہیں ہے، اس نے علاج و دوا کے لئے جو معاوضہ لیا تھا اس پر وہ واپس کردینا لازم ہے کیونکہ وہ اس کا اہل نہیں ہے)۔
لہذا طبیب کا اجرت لینے کا حق ساقط ہوجائے گا اور اس پر لی ہوئی اجرت واپس لوٹانا لازم ہوجاتا ہے۔
خاتمہ
نتائج و خلاصہ:
جب کوئی طبیب کسی مریض کا علاج کرے تو اسے چاہئے کہ مکمل توجہ اور ذمہ داری کے ساتھ علاج معالجہ کرے، اور مریض کو کسی قسم کی تکلیف میں مبتلا نہ کرے۔جس طرح بھی ممکن ہو مریض کی جان کی حفاظت اور بہتر سے بہتر علاج کی کوشش کرنی چاہئے۔ کسی بھی قسم کی طبی و عملی کوتاہی سے اجتناب کرنا چاہئے۔طبی ماہرین نے عملِ طب کے لئے مختلف اصول و قواعد مقرر کئے ہیں جن پر عمل کرنا اور ان کے مطابق علاج معالجہ کرنا طبیب پر لازم ہے۔لہذا طبیب سے کوتاہی سرزد ہوجانےکی صورت میں شریعت نے اس پر ضمان(تاوان) عائد کیاہے۔جس کی صورتیں ذیل ہیں:
o اگر طبیب علم طب سے پوری طرح واقف نہ ہو، دوران علاج غفلت کرے اور اس سے کوتاہی صادر ہوجائے تو وہ ضامن ہوگا۔
o طبیب ماہر ہو، فن طب سے اچھی طرح واقف ہو لیکن علاج کرتے ہوئے غلطی سے مریض کا تندرست عضو تلف کردیا تو طبیب پر ضمان ہوگا۔
o اسی طرح معالج مریض کی اجازت کے بغیر علاج کرے یا کسی بچے یا مجنون مریض کا علاج اس کے ولی کی اجازت کے بناء کردے اور اس سے کوتاہی صادر ہوجائے ،مریض مرجائے یا کوئی عضو ضائع ہوجائے تو طبیب ضامن کہلائے گا۔
o طبیب علاج کرتے ہوئے جلد بازی کا مظاہرہ کرے ، کسی دوسرے ماہر و سینئر طبیب سے مدد حاصل نہ کرے اور پھر غلطی کر بیٹھے جس سے مریض کانقصان ہوجائے تو وہ طبیب ضمان ہوگا۔
o طبیب اپنے گمان اور اندازے کے مطابق آپریشن کرتے ہوئے مریض کا ہاتھ کاٹ دے ،یا بے دھیانی میں کوئی طبی آلہ جسم میں بھول جائے جس سے مریض مرجائے تو طبیب ضامن ہوگا۔
o اسی طرح کوتاہی کے اسباب میں سے یہ بات اہم ہیں کہ جو طبیب فنِ طب کے اصول و قواعد کی خلاف ورزی کرے، براہ راست غلطی کرے یا علاج معالجہ سے لا علم ہو پھر بھی علاج کرتا پھرے تو وہ طبیب خطأ کا ضامن کہلائے گا۔
o ضمان کی صورتوں میں علماء کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ دوران علاج مریض کی کوتاہی سے مریض کی جان چلی جائے یا وہ مرض الموت میں چلا جائے جس کا علاج ممکن نہ ہو یا اس کا کوئی عضو تلف ہوجائے یا موذی زخم بن جائے، یا بچہ کا ختنہ کرتے ہوئے حشفہ سے تجاوز کردے تو طبیب ضامن ہوگا اور اس پر دیت ادا کرنا لازم ہوگا۔
o اسی طرح آنکھوں کے ڈاکٹر نے آنکھ میں کوئی ایسی دوا ڈالی جس سے اس کی بینائی چلی گئی، یا دندان ساز نے خراب دانت کے بدلے صحیح دانت نکال دیا تو طبیب ضامن ہوگا۔
o طبیب نے مریض کی فصد() کھولی یا رگ کاٹی اور اسے یونہی چھوڑ دیا اور وہ خون بہنے سے وہ مرگیا تو قصاص واجب ہوگا۔
درج بالاصورتوں سے معلوم ہوا کہ طبیب کوذمہ داری سے مریض کاعلاج کرناچاہیے،تاکہ مریض کو مکمل تحفظ مل سکے۔
سفارشات:
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ‘‘طبیب کی کوتاہی پر ضمان، مختلف صورتیں، اور ان کا شرعی حکم’’ کے موضوع پر تحقیقی انداز میں مقالہ لکھا کیا گیا ہے۔ کم علمی اور ناقص فہمی کی وجہ سے اس موضوع کا اچھی طرح اور مکمل احاطہ کرنا نہایت مشکل عمل ہے اس لئے اس موضوع کے کئی پہلوؤں پر اب بھی تحقیق کرنے اور مزید کام کرنے کے ضرورت باقی ہے۔
طبی کوتاہی پر ضمان سے متعلق جن ممالک میں قانون سازی کی گئی ہے، ان قوانین کو جمع کیا جائے۔
کوتاہی کے اسباب کو دیکھتے ہوئے ضمان کی شرعی حیثیت کو ملکی قانون میں رائج کیا جائے۔
ائمہ اربعہ کے نزدیک ضمان کے اسباب کو مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) اور علماء و مفتیان کرام طبی کوتاہی پرضمان سےمتعلق شرعی حیثیت کے مطابق قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ اس ادنیٰ کاوش کو قبول فرمائے اور جو کمی کوتاہی رہ گئی ہے اس سے درگزر فرماکر اس سے بہتر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔(آمین)۔