مقدمہ
موضوع کا تعارف اور ضرورت
الحمد للہ رب العا لمین الصلاۃ والسلام علیٰ خاتم الا نبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین، اما بعد:
اسلام نے ہمیں مکمل نظام حیات دیا ہے اور زندگی کے ہر پہلو پر ہماری راہنمائی کرتا ہے اور اسلام کی یہی خصوصیت اس کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے دنیا میں رہتے ہوئے انسان عموما عقائدعبادات ،خاندانی نظام ، معاشی نظام، سیاسی نظام ،اور عدالتی نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ تمام نظام باہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور خاندان معاشرے کی بنیاد ہے اور اگر خاندان صحیح اصولوں پر استوار ہے تو معاشرہ بھی ایک مستحکم معاشرہ ہوتا ہے ۔
اسکے ساتھ ساتھ مل جل کر رہنا انسان کی فطرتی ضرورت ہے اور اس وجہ سے ہر ایک فرد معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور ایک وسیع تر معاشرے میں اس کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے اور پورا معاشرہ افراد کے باہمی میل جول اور اشتراک وتعاون پر قائم ہے ۔
کوئی فرد بھی معاشرے میں دوسرے کے مفاد کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی من ومرضی نہیں کرسکتا ، مرد اور عورت کا جنسی تعلق درحقیقت انسانی تمدن کے سنگ بنیاد ہے اور کوئی عورت یا مرد اس قانون کے دائرے سے خارج نہیں ہوسکتا جو اس تعلق کو منضبط کرنے کے لیے بنایا گیا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر جوان ہے تو خود اس کو ایک شریک زندگی سے واسطہ پڑے گا چونکہ انسان کی تمدنی زندگی کا آغاز عقد ازدواج سے ہوتا ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ان میں ایک صورت اس رشتے کی ہے جس میں متعاقدین اولیاء کی مرضی کے بغیر اپنی مرضی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں لیکن اس طرح کی شادی پر ہمارے معاشرے میں رد عمل افراط وتفریط کا ہوتا ہے زیر تحریر مقالے میں اس طرح کی شادی کی حیثیت میں اسلام پاکستانی قوانین کی روشنی میں واضح کرنا مقصود ہے ۔
مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ھیکہ ہمارے معاشرے میں نکاح کے لئے لڑکی کی اجازت اور رضامندی رائے نہیں لی جاتی اور اگر لی بھی جاتی ھے تو وہ بس ایک رسم کے طور پر جوکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔تو وہ مظلوم بچاری والدین کے عزت کی خاطر دل پہ پتھر باندھ کراتنی بڑی قربانی قبول کر لیتی ہےکیونکہ وہ ایک ایسے سماج کی بیٹی ہے جہاں اسے اولیاء کے خلاف اعتراض کرنےکا کوئی حق نہیں ہوتا۔پھراس قسم کی انجام پانے والی شادیاں کچھ عرصے کے اندر ہی بڑے المیے کا شکار ہوجاتی ہیں۔
اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اپنی اس تحریری مقالے کا عنوان ‘‘عدالتی نکاح کے بڑھتے رجحانات فقہی اور سماجی پہلواور عدالتی فیصلوں کا جائزہ’’ کا انتخاب کیا ہے ، اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ میری چھوٹی سی اس کاوش کو اپنے بارگاہ میں قبول فرمائےگا ۔۔۔۔۔۔اور اسکے ساتھ ساتھ دعا گو ہوں کہ اسکو ہمارے ملک کیلئے اصلاح کا ذریعہ بنائے ۔۔۔۔۔آمین۔
والسلام
دعاگو ۔۔۔۔
احمد علی منصوری
سابقہ کام کاجائزہ:
عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت اور معاشرے پر اسکے اثرات ‘ڈاکٹرجانس خان’
مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں ‘حافظ صلاح الدین یوسف ’
پسند کی شادی اسلام اور قانون ‘ظفر علی راجہ’
شادیاں ناکام کیوں ‘شیخ ابو یاسر’
لو میرج اور اسکے نقصانات ‘مریم خنساء’
نکاح میں ولی کی حیثیت ‘ام منیب’
عدالتی نکاح کی شرعی حیثیت اور معاشرے پر اسکے اثرات ‘ڈاکٹرجانس خان’
بنیادی سوال:
عدالتی نکاح کی شرعی اور قانونی حیثیت کیاہےاور اسکے معاشرے پرکیا اثرات پڑتےہیں اور عدالتی نکاح میں ولی کی رضامندی کی حیثیت کیا ہے؟
منہج تحقیق:
قرآن وحدیث اور فقہاء کی آراء اسکے ساتھ پاکستان کے قوانین کی روشنی میں شرعی حکم ۔
خاکہ تحقیق:
یہ تحریری مقالہ تین ابواب پر مشتمل ہے ۔
پہلے باب کے اندر پاکستان میں عدالت کے ذریعے نکاح کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور انکی وجوہات بیان کی گئی ہیں ،دوسرے باب میں عدالتی نکاح کے معاشرے پر کیا اثرات پڑتے ہیں اسپر روشنی ڈالی گئی ہے،اور تیسرے باب میں فقہی و سماجی پہلو پربات ہوئی ہے جوکہ خصوصا ولایت اجبار پر بات کی گئی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی قوانین و فقہی آراء کابھی جائزہ لیا گیا ہے ۔
باب اول:پاکستان میں عدالت کےذریعے نکاح کےرجحانات ‘‘وجوھات’’
• پسند کی شادی کے بڑھتے ہوئے رجحانات
پسندکی شادی اوراسلامی نقطہ نظر
محبت ایک فطر ی عمل ہے اور اسلام فطرت کا ترجمان ہے اس لحاظ سے محبت کا اسلام سے گہرا تعلق ہے۔
ارشاد باری تعالی ٰہے کہ : فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُم ” اس الله نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی”
اس کی تاکید نبی ﷺنے بھی ان الفاظ میں فرمائی ہے:
حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّهِ الْخُرَاسَانِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَصَافَحُوا يَذْهَبْ الْغِلُّ وَتَهَادَوْا تَحَابُّوا وَتَذْهَبْ الشَّحْنَاءُ
انسانی فطرت میں مخالف کی طرف قلبی جھکاؤ ودیعت رکھ دیا گیاہے ۔ناجائز راستوں کا قلع قمع کرتے ہوئے اسلام نے مرد وعورت کے درمیان نکاح کا پاکیزہ رشتہ باقی رکھا،اور شادی وبیاہ کے معاملات میں ان کی رضا اور پسند کو بھی اہم قراردیا ہے ۔
ارشاد ربانی ہےکہ : فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً
‘‘تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دودو تین تین چارچارسے نکاح کرلو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو۔’’
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ: عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ»، قَالَ: فَخَطَبْتُ جَارِيَةً فَكُنْتُ أَتَخَبَّأُ لَهَا حَتَّى رَأَيْتُ مِنْهَا مَا دَعَانِي إِلَى نِكَاحِهَا وَتَزَوُّجِهَا فَتَزَوَّجْتُهَا
(رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت سے پیغام نکاح دے تو اگر ممکن ہو تو کو دیکھ لے اس کے بعد نکاح کرے حضرت جابر ؓفرماتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام نکاح دیا اور میں نے اس کو چھپ کر دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس میں وہ چیز پائی جو نکاح پر رغبت کا سبب بنی پھر میں نے اس سے نکاح کرلیا )۔
اسلئےمحبت فطری عمل ہونے کے ساتھ اسلام کا مطالبہ بھی ہے ۔ علاوہ ازیں اسلام ہمیں محبت کرنے اور اس کو ترقی دینےکے ایسے مواقع بھی فراہم کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔جیسے اخوت ، بھائی چارہ ، ایثاروقربانی وغیرہ۔
اپنے بچو ں کی شادیاں کروانا والدین کے فرائض میں شامل ہے ،اور لڑکیون کی شادی کا فر ض تو خصوصی حیثیت رکھتا ہے ۔۔۔اور صرف اسلام ہی نہیں تمام مذاھب اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔
لیکن شادی سے پہلے محبت کے نام پر عصیان اور بے حیائی و فحاشی میں مبتلاہونا اور غلط راستے اختیار کرنا اسلام اس چیز سے روکتا ہے اور اگر ہم محبت کو کتنا ہی پاکیزہ کہیں لیکن اس راہ میں شیطان پوری طرح اپنا جال بچھائے بیٹھا رہتا ہے جس سے بچنا ممکن نہیں، اس لئے اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔
محبت کی ابتداء بڑی شاندار اور ُ پرلذت ہوتی ہے اور انجام انتہائی کرب ناک اور پریشان کن ہوتا ہے کیونکہ لڑکا اور لڑکی کی یہ محبت صرف شکل وصورت یا ایک دوسرے کی ظاہری وبناوٹی عادات سے ہوتی ہے جو پہلی نظر میں مشاہدے میں آتی ہیں، اکثر محبت کی شادی کرنے والے خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور شادی کے بعد جب خوابوں کی دنیا سے نکلتے ہیں تب حقیقی زندگی بڑا تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ویسے بھی محبت اندھی ہوتی ہے ۔ اس لئے محبت کرنے والے اپنے آئیڈیل کو بےعیب دیکھتے ہیں‘ اس کی کمزوریوں اور خامیوں کو نہیں دیکھتے۔ جب شادی ہو جاتی ہے تب یہ کمزوریاں اور خامیاںسامنے آنا شروع ہو تی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عفو اور درگزر کو نہیں دیکھتے۔ جب شادی ہو جاتی ہے تب یہ کمزوریاں اور خامیاںسامنے آنا شروع ہو تی ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عفو اور درگزر مقابلہ کرناضروری ہے تاکہ رشتے قائم رہیں۔
اب ایک ایسا حکم جو اسلام نے دیا ہو جس کے نتائج بھی خوش کن ہوں اور اس کے ذریعے راحت و سکون اور نرمی کی فضا قائم ہو کیا اسکی وجہ سے بے حیائی ختم ہو سکتی ہے؟
لیکن افسوس ہےکہ ہما ری شوشل میڈیا نے ’ پیار‘ محبت یا loveجیسے پاکیزہ انسانی جذبے کو لڑکا اور لڑکی یا مرد اور عورت کی بے راہ روی، بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ایک دنیاوی اور معاشرتی قبیح عمل بنا دیاہے اور اس عمل کی تمام تر برائیوں کے باوجود پرنٹ و الکٹرونک اور سوشل میڈیا کی یلغار کی وجہ کر محبت کرنے والے ‘ محبت پرمر مٹنے والے اور محبت کی شادیا ں کرنے والوں کی تعداد اب روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔
محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اورلڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گزرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔
والدین کی ذمیداری
اس لئے والدین کو چا ئیے کہ اولاد کی اچھی تربیت کریں دین سے جوڑیں رکھیں اور ان پر نظر رکھنی چائیے تاکہ ہر اس چیز سے انکو روکا جائے جو اسکو برائی کی طرف لے جا سکتی ہو اور یہ والدین پر فر ض ہے کیونکہ الله سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
’’ اے ایمان والو! اپنے آپ اوراپنے گھر والوں کواس )جہنم کی( آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں ، جس پرسخت دل اور مضبوط فرشتے مقرر ہيں جنہیں الله تعالی جوحکم دے وہ اس کی نافرمانی نہيں کرتے اورجو انہيں حکم دیا جائے وہ اسے بجا لاتے ہیں ‘‘۔
اور اسکے ساتھ نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ
ألا إن كلكم راع و كلكم مسئول عن رعيته فالأمير راع على الناس و هو مسؤل عن رعيته و الرجل راع على أهل بيته و هو مسؤل عن رعيته و امرأة الرجل راعية على بيت بعلها وولده و هي مسئوله عنهم و عبد الرجل راع على مال سيده و هو مسئول عنه ألا كلكم راع و كلكم مسئول عن رعيته
’’ خبردار تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا ، جو لوگوں پر امیر مقررہے وہ حاکم ہے اوراسے اس کی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا ، اور مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے وہ ان کا بارہ میں جواب دہ ہے ، اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد پر حاکم ہے وہ ان کے بارہ میں جواب دہ ہے ، اور غلام اپنےمالک کے مال پر حاکم ہے اسے اس کے بارہ میں جواب دینا ہوگا ، خبردار تم میں سے ہر ا یک حاکم ہے اور تم میں سے ہرایک اپنی رعایا کے بارہ میں جواب دہ ہے ‘‘
والدین پورے گھر کے نگران ہوتے ہین اسلئے والدین کی ذمیداری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بچپن سے ہی ایسی تربیت کریں کہ انکو یہ نوبت نہ دیکھنی پڑے ۔
• مخلوط خاندانی نظام
خالق کائنات نے مرد اور عورت کو ازدواجی تعلق میں منسلک کر کے ایک بہت ہی خوبصورت اور اہم رشتہ عطا کیا ہے،شادی کے بعد معاشرے میں ایک نئےخاندان کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ اسلامی معاشرے میں ’’خاندان‘‘ کو بنیادی مقام حاصل ہے۔ اسے معاشرے کی اکائی سمجھا جاتا ہے۔ ’’گھر‘‘ کی حیثیت ایک ادارے کی سی ہوتی ہے۔ ایک ایسا تربیتی ادارہ جہاں سے عمدہ سوچ کے حامل الله کے سپاہیوں کی کھیپ تیار ہو کر شعبہ ہائے زندگی میں بکھرنی ہوتی ہے۔ قدرت نے اگر مرد کو اس ادارے کا سربراہ بنایا ہے تو عورت کو منیجنگ ڈائریکٹر کی ذمہ داری سونپ دی ،اگر خاندان کے تمام افراد کو اپنی اپنی حدود کا علم ہو تو مشترکہ خاندانی نظام ایک دوسرے کے لیے بہت مضبوط سہارا ہوتاہے۔ لیکن اگر اپنی حدود کا علم نہ ہو تو مروجہ نظام میاں اور بیوی کے اہم ترین رشتے کے تقدس کو پامال کرنے کی وجہ بن جاتا ہے۔ جب سسرال میں ہر فرد بالخصوص ساس اور سسر خود کو حاکم کل تصور کرنے لگتے ہیں اور ٓانے والی بہو کے سیاہ و سفید کے مالک بننے کی کوشش کرنے لگتے ہیں تو فطری طور پر بہو کے اندر نفسیاتی ردعمل پیدا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف سسرال والوں کے ساتھ بلکہ شوہر اور بیوی کے تعلقات بھی کشیدگی اختیار کرنے لگتے ہیں۔ اس کھینچا تانی میں دبانے سے وقتی طور پر تو گھر کا ماحول ُ پرسکون معلوم ہوتاہے مگر یہ زیادہ ترشوہر بے چارہ مظلوم ہوتا ہے۔ والدین کا ادب و احترام ایک رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بیوی کوناجائز اور غیرفطری دبا ٔ و راکھ میں دبی چنگاری جیسا ہوتا ہے، جو ٓاہستہ ٓاہستہ الا ٔ و کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ٓاخر ایک دن یہ ٓاتش دو خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس نظام کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس کشمکش میں سب سے زیادہ عورت پستی کا شکارہو جاتی ہےہے، کیونکہ عمومً ا سسرال والے اور دیگر اسے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ جو بھی ہو جائے تو نے سہنا ہے، برداشت کرنا ہے اور خاموش رہنا ہے اور اپنے والدین کو اس کی خبر بھی نہیں ہونے دینی اب وہ معصوم سہہ سہہ کر، گھٹ گھٹ کر نفسیاتی مریض بن جاتی ہے۔
یہ حقیقت بھی ماننی پڑے گی کہ ٓاج سسرال میں وہ ظلم تو نہیں ہوتے جو قدیم ہندوستانی روایتوں کی وجہ سے ہماری ثقافت کا ایک اٹل حصہ بن گئے تھے۔ لیکن بہرحال ان کے گہرے اثرات ٓاج بھی باقی ہیں۔ یہ اثرات ٓاج کی تعلیم یافتہ، خود شناس اور اپنے حقوق سے ٓاگاہ بہو خوشی خوشی برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ اوروہ مروجہ نظام سے باغی دکھائی دیتی ہے۔
یہ سمجھ نہیں ٓاتا کہ شادی کے بعد دو خاندانوں کو جوڑے رکھنے کی ساری ذمہ داری عورت پر ہی کیوں ڈال دی جاتی ہے؟ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟یہ سمجھ میں نہیں ٓاتا کہ شادی کے بعد سسرال والے ٓانے والی عورت کے ہر کام اٹھنے،بیٹھنے، سونے، چلنے پھرنے پر نکتہ چینی کرنے کو فرض عین کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ظلم نہیں؟اس کے جواب میں اگر وہ کچھ بول دے تو اسے بدتمیز کہا جاتا ہےاور اس کی تربیت میں کمی کا اعلا ِ ن عام کر کے اس کے والدین کی دل شکنی اور توہین کی جاتی ہے۔ کیا یہ سارا نظام قابل تحسین ہے؟
ایک عورت جس کی زندگی کامقصد بچوں کی بہترین انداز میں تربیت کرنا ہوتا ہے، ایسے ماحول میں اچھی تربیت نہیں کر سکتی۔ یہ بے جا تنقیدانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے اور عورت کےاستحصال کا باعث ہے۔ اس سے بچوں کی تربیت میں خلل ہوتا ہے، لیکن وقت بدلا اور مسلسل بدل رہا ہے۔۔۔ اب ایساکچھ نہیں رہا ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ روزنامہ’ ایکسپریس ‘کی ایک رپورٹ بتارہی ہے کہ پاکستان میں کورٹ میرج کے رجحان میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ یومیہ 50سے زائد ’پریمی جوڑے‘ لومیرج یا پسند کی شادی کے لئے سٹی کورٹ سے رجوع کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سماجی مسائل اور شعور نہ رکھنے کے باعث لڑکیاں گھروں سے فرار ہوکر شادی کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ ا ن لڑکیوں میں سب سے زیادہ تعداد فیکٹری ورکرز کی ہے جو اپنی مرضی سے شادی کرکے زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں جبکہ اندورن ملک وٹے سٹے کی شادی، کاری اور ونی قرار دی گئی خواتین بھی پسندکی شادی کوترجیح دے رہی ہیں۔
اسلام میں شادی کے لئے لڑکی کی مرضی معلوم کرنا دینی فریضہ ہے مگر بسااوقات والدین یا خاندانی برزگوں کی اپنی مرضی آڑے آجاتی ہے جس کے سب لڑکیوں کویاتو گھر سے بھاگنا پڑتا ہے یا پھر وہ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ تبدیل ہورہا ہے لڑکیوں میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی جسارت آتی جارہی ہے۔
اس تصویر کا دوسرا اور تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی تک پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی کو اکثریت’ آوارگی‘ خیال کرتی ہیں خصوصًا دیہی علاقوں میں ’ لڑکی کی اپنی پسند‘کوئی معنی نہیں رکھتی۔ والدین کا نظریہ آج بھی یہی ہے کہ’ اولادکے لئے والدین سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا‘۔
ہمارےمعاشرے کی اس تبدیلی کا ذمے دار کہیں پڑوسی ممالک کی فلموں کی قرار دیاجارہا ہے تو کہیں موبائل فون کا بے دریغ استعمال اس کا قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے ۔کچھ تو ’کو ایجوکشن ‘ کو بھی اس کا ذمے دار ٹھہرارہے ہیں تو کچھ حالیہ برسوں میں آزاد ہونے والے میڈیا کو اس کی’بنیادی جڑ‘ قرار دے رہے ہیں۔ وجہ چاہے جوبھی ہو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں پسند کی شادی کرنے والوں کی شرح میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا ہے ، لیکن عہدِ حاضر میں کچھ لوگوں کے یہاں مشترکہ خاندانی نظام کو بہتر تسلیم کیا جاتا ہے ،خصوصاً برِ صغیر میں الگ الگ گھروں میں رہنےکو مغربی تہذیب کے مشابہ قراردیا جاتا ہے ، مگر کیاواقعی یہ نظام صحیح ہے ؟ اسلام اس کے بارے میں کیا تعلیم دیتا ہے اور اس میں کیا فوائد و نقصانات ہیں ؟ اس پر عموماً توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام سے مراد وہ گھر ہے جہاں ساس ،سسر ،بیٹے ،بیٹیاں اور بہویں وغیرہ ایک ساتھ رہتے ہوں ۔ یہ اس لحاظ سے یقینا اچھا ہے کہ اس سے خاندانیروایات کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے ۔لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوا کرتے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس کے نقصانات زیادہ اور فوائد کم ہیں۔
یہ نظام نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے خلاف بھی ہے اسی لئے محمدﷺ نے اپنی تمام بیویوں کو الگ الگ مکان دیا تھا ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاجوآپ صلى الله عليه وسلم کی سب سے چہیتی بیٹی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ جو آپ ﷺ کو بہت عزیز تھے،انہیں بھی ہزار چاہت کے باوجود شادی کے بعد الگ مکان دیا۔
مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا مسلم معاشرے کو کرنا پڑ رہا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں جس کے نہایت بھیانک اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔بے پردگی اور نامحرم سے اختلاط : اسلام نے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کی ہے ۔ان میں سے ایک پردہ اور نامحرم سے اختلاط کو روکنا بھی ہے ،ہمارے یہاںپردے کا جا و بے جاتصور عورتوں اور لڑکیوں کو تعلیم اور نوکری سے روکنا، زبردستی شادی کرانا اور اجنبیوں سے پردہ کرانامحض ہے ۔لیکن نامحرم قریبی رشتےداروں،دیور ،جیٹھ ، کزنس،اور دوستوں وغیرہ سے پردہ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام میں اس طرح کے رشتہ دار عموماً ساتھ رہا کرتے ہیں ۔ ایکلڑکے کا پورا خاندان اس کے لئے تو محرم ہے لیکن اس کی بیوی کے لئے اسی خاندان کے زیادہ تر لوگ نامحرم ہیں ، اب اگر بیوی سارے وقت پردے میں رہے تو خود اسکو مشکل ہو گی اور سسرال والے بھی ناراض ہوجائیں گے کہ دلہن نامعقول لگتی ہے گھلتی ملتی نہیں ہے مغرور ہے یاملّانی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
اس لئے کسی انسان کو حق نہیں کہ بیوی کو ایسے گھر میں رہنے پر مجبور کرے جہاں غیر محرم رہتے ہوں چاہے وہ اس کے کزنس یا بھتیجے بھانجے ہی کیوں نہ ہوں۔حدیثِ نبوی ہے رسول ﷺنےفرمایا :
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ» فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ؟ قَالَ: «الحَمْوُ المَوْتُ»
(اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا : یا رسول اللہ حمو کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نےفرمایا کہ حمو تو موت ہے)۔
توشوہر کےرشتے داروں سے خلوت نشینی ،اجنبیوں کے ساتھ بے پردگی سے کہیں زیادہ اندیشہ ناک ہے اور اسی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام میں خطرہ بڑھ جاتا ہے تو اسلئے مشترکہ خاندانی نظام میں ) نجی معلومات کی حفاظتی ( پرائیویسی کے ان اصولوں کو اپنانا بہت ہی مشکل ہوتاہے جس کی ہمیں قرآن و حدیث تعلیم دیتاہے کہ۔۔۔اللہ تعالی ارشادِ ر ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
(اے ایمان والو ! تمہارے غلام اور وہ لڑکے جو حدِ بلوغ کو نہیں پہنچے ہوں ، تین وقت میں تم سے ) تخلیہ میں آنے کی ( اجازت حاصل کر لیں۔ایک نمازِ فجر سے پہلے ، دوسرے ظہر کے وقت جب تم آرام کے لئے کپڑے اتار لیتے ہو اور عشاء کے بعد، تین وقت تمہارے پردے کے ہیں ان کے علاوہ تم پر کوئی الزام ہے نہ ہی ان پر۔)
جب کہ مشترکہ خاندانی نظام میں صورتِ حال عموماً یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی کمرے میں میاں بیوی ، بچے اور بسا اوقات دوسرے لوگ بھی رہتے اور سوتے ہیں ۔ جس کےنتیجے میں کتنے مسائل کھڑے ہوتے ہیں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں شوہر اور بیوی کوزیادہ ملنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔شرم و حیاکی وجہ سےنمازیں قضا ہو جایا کرتی ہیں ،اگر الگ گھر یا کمرے ہوں تو ان تمام مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔
اور اس نظام کےسبب مسلم سماج وسوسائٹی میں ہزاروں مسائل اٹھ کھڑے ہوگئے ہیں ان میں سے چند اہم مسائل اور ان کا تدارک پیش کیاجاتاہے۔
باہمی سوچ کا مختلف ہونا:
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے اور سب کو الگ الگ مقاصد اور صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ مشترکہ خاندانی نظام میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ سب کا مقصد ایک ہو اور سب کی پسند ایک ہو ؟ہر کوئی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق کھانا پینا ،اٹھنا بیٹھنا چاہتا ہے اور یہاں اس کا بنیادی حق ہے ۔اب اگر اس کو اپنا بنیادی حق ہی نہ ملے تو کیسے گھر میں سکون اور خوشی میسر ہوسکتی ہے؟ایک گھر میں بیس پچیس افراد ہوں اور کئی بہویں مل کرساس کی نگرانی میں کھانا پکاتی، صفائی کرتی ہوںاوراگر کسی نے کام کرنے میں ذرہ برابر بھی سستی کی، یا بحسنِ خوبی انجام نہ دے سکی مجبوراًیاکسلاًتو اس کی اور اس کے خاوند کی خیر نہیں یعنی اس کو ہر وقت لعن وطعن کیا جاتا ہے کیا مجال کہ بیٹا یا بہو منہ کھول سکیں اس کا عموماً نتیجہ یہ ہو تا ہے کہدلوں میں کینہ و بغض بھرجاتا ہے پھر ایک دوسرے پر اعتراضات،لعن طعن اورتنقیدیں کی جاتی ہیں اور اگر کسی کے اندر کوئی کمی پائی جاتی ہے تو اسےموضوع بحث بنا کر اس قدر رسوا کیا جاتا ہے کہ جیسے اسے معاشرے میں جینے کا حق ہی نہیں ،اور وہ بے چاری معاشرے میں منہ دکھانے کے لائق ہی نہیں ان تماموجوہات کی بنا پر گھر کا سکون درہم برہم ہوجاتا ہے۔
گھریلو کام کاج کا مسئلہ :
ہمارے یہاں ایک بڑے طبقہ میں لڑکوں کی شادی ہی اس غرض سے کی جاتی ہے کہ کوئی گھر چلانے والی آجائے ،سب کی خدمت کرے،ساس سسر کا دھیان رکھے۔اب اگر بہو تعلیم حاصل کرنا چاہے یا کوئی کتاب ہی پڑھنے لگے تو گھر میں طوفان برپا ہو جاتا ہے ۔آج کا دور کمپیوٹر ،انٹرنیٹ کا دور ہے ۔گھر کےتمام افرادکمپیوٹر چلا سکتے ہیں، حتیٰ کہ بچے بچیاں اس پر گیم کھیل سکتے ہیں، مگر بہو صرف کمپیوٹر صاف کرنے کے لئے ہوتی ہے۔بہو کو ساس سسر کی خدمت کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔ مگر خدمت و اطاعت کا بنیادی حکم ماں باپ اور شوہر کے لئے ہے نہ کہ ساس سسر کے لئے۔اگر بہو پر ساس سسرکی خدمت واجب ہے تو وہ بالواسطہ واجب ہے یعنی شوہر کو خوش کرنے کے لئے اس کے ماں پاپ کی خدمت کرنا اس بات سے قطعاً انکار نہیں انکار غیر معتدل اور یکطرفہ رویے کا ہے۔ ان کی خدمت کے لئے بیٹے ہوا کرتے ہیں مگر انھیں بہوؤں سے ہی خدمت کرانے کا شوق ہوتا ہے۔یہ تو تب ہی ممکن ہوگا جب ساس سسر بہو کو بیٹی کا درجہ دیں اور کسی خدمت کی توقع نہ کریں۔کیوں کہ اولاد سے تو کوئی زیادتی نہیں کرتا ہے اور نہ ہی امید رکھتا ہے کہ بیٹے، بیٹیاں خدمت کے لئے ایک ٹانگ پرکھڑے رہیں۔جب بہو کو بیٹی کا درجہ ملے گا تو وہ بھی بے لوث محبت کے ساتھ ساس سسر کو والدین کا درجہ دے گی ا ور خوشی خوشی خدمت کرے گی۔
خاندان کا ایک ذات پر منحصر رہنا :
عموماًمشترکہ خاندانی نظام میں ایک کمانے والا ہوتا ہے اور دس بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑنے والے ہوتے ہیں۔ان گھروں میں ایسےافراد ہوتے ہیں جو کام کر سکتے ہیں مگر کرنا نہیں چاہتے۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔یہاں پر ایک بات اور سمجھ میں ا ٓتی ہے کہ معاشرےمیں جو ا ٓج غربت پھیلی ہوئی ہے اس کی تمام وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ بیٹھ کر کھانا پسند کرتے ہیں کمانا پسند نہیں کرتے ۔ ایسے خاندانوںمیں ایک عجیب و غریب مفروضہ ہوتا ہے کہ کسی بے کار آدمی کی شادی کر دو تو وہ خود ہی سیٹ ہو جائے گا لیکن اگر اس میں ناکامی ملی تو خاندان کے دوسرے لوگوںکو اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ مرد اگر بیوی کو روٹی ، کپڑا اور مکان مہیا نہ کر سکے تو اسے شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ارشادِ ربانی ہے :
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ
اور چاہیے کہ بچے رہیں ) پاکدامن رہیں ( وہ جو کہ نکاح ) مقدور ( نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل سے غنی کر دیں۔
بچوں پر منفی اثرات :
ان تمام باتوں کا بچوں پر بھی نمایا ں اثر ہوتا ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت صحیح ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی ہے کیوں کہ جب ایک ہی گھر میں مختلف سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں تو بچے کشمکش کا شکار ہو جاتےہیں کہ کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط؟ جس سے ان کی خود اعتمادی کا خاتمہ ہو جاتا ہےاور آگے کی زندگی میں ان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس طرح کے خاندانی نظام میں بچے ،بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات زیادہ ہوتے ہیں اور اس میں قریبی رشتے داروں کا ہی ہاتھ ہوا کرتا ہے جو ان کے درمیان رہا کرتے ہیں کیوں کہ بچے، بچیاں اجنبی لوگوں کے مقابلے صرف مانوس لوگوں سے گھلتے ملتےہیں ۔ ماں باپ ساتھ رہنے والوں پر اندھا اعتماد کرکے بچے بچیوں کو ان کے پاس چھوڑ دیا کرتے ہیں جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا پڑتا ہے۔
اسلام نے ان سب وجوہات کی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام کی حوصلہ افضائی کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کی ہے، اور آسان طرزِ زندگی اپنانے پر زور دیا ہے اور ایساتب ہی ممکن ہے جب خاندان چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں رہے چاہے یہ حجرہ ) فلیٹ ( کی شکل ہی میں کیوں نہ ہو جیسا کہ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات کو الگ الگ حجروں میں رہائش دی تھی۔
اسکے علاوہ اور بھی مسئلے پیدا ہوتے ہیں جس طرح۔۔۔ ساس و سسر کی خدمت کا مسئلہ، ساس وبہو کے تنازعات، دیور و بھابھی کا رنگین فسانہ، غیرمحرم سے بے پردگی، فیملی ممبرس اور رشتہ داروں کے درمیان ناچاقی، مالی نظام کی گربڑی،والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات)نتیجہ میں اولاد کی نافرمانی ملتی ہے)، اولاد کی ترقی میں رکاوٹ،صالح معاشرہ کی تشکیل میں رخنہ، سماج پر برے اثرات)طلاق،غیبت،بے پردگی،خیانت،تنازع،استہزاء،عدم تعاون وغیرہ( کا سبب رئیسی ان جیسے ہزاروں مسائل نے مسلمانوں کے عائلی نظام کو نہ صرف درہم برہم کررکھاہےبلکہ صالح معاشرے کی بساط ہی الٹ دی ہے ۔
اسلام میں اس نظام کی نظیر نہیں ملتی ، اس لئے اسلامی روسے خاندانی اشتراکی نظام چلانے میں ہی عائلی مسائل کا حل ، خاندان کے ہرفرد کی بھلائی اور ان سب کی ترقی کا رازمضمر ہے ۔۔۔ قرآن و حدیث ہماری اسطرح رہنمائی کرتے ہیں کہ پردے سے متعلق سارے نصوص اس پہ دلالت کرتے ہیں کہ ہمارا گھریلو نظام الگ الگ ہوتاکہ جہاں خواتین کی عفت وعصمت محفوظ رہے وہیں گھرمیں اخوت سےلیکر عدل وانصاف تک کی میزان قائم رہے۔
الله کا فرمان ہےکہ : وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
اسکےساتھ ساتھ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ» فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الحَمْوَ؟ قَالَ: «الحَمْوُ المَوْتُ»
ترجمہ : اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول الله حمو)دیور( کے بارے میں آپ ﷺ کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ حمو)دیور(تو موت ہے۔
نبی ﷺ کی متعدد ازواج مطہرات تھی جنہیں ایک چولہے پہ جمع کیاجاسکتا تھاکیونکہ ان سب کا شوہر ایک ہی تھا پھر بھی سب کا رہن سہن ،اکل وشرب اورسازوسامان الگ الگ تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اسلام میں مشترکہ خاندانی نظام کا تصور ہوتا تو گھریلو اعتبار سے سب کے الگ الگ حقوق کا بیان موجود ہوتا جبکہ ہم دیکھتے ہیں اسلام میں ساس،سسر،بہو،نند،دیور، بھابھی ، جیٹھ وغیرہ کے حقوق کاالگ سے ذکر نہیں ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ جوائنٹ فیملی کے کچھ فوائد بھی ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس نظام کی پرزور وکالت کی ہے مگر اس کے نقصانات فوائد پہ غالب ہیں۔
• مخلوط نظام تعلیم
پس منظر
مخلوط نظام تعلیم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے یہ دور حاضر کے اہل مغرب کی ایجاد ہے،دنیا کی قدیم تہذیبوں کے حامل ترقی یافتہ قوموں میں بھی مخلوط تعلیم کا رواج نہیں ملتا، تاریخ کے ہر دور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ نظام تعلیم رائج تھا،’’تاریخ انسانی میں مغربی تہذیب کا دور وہ جدید دور ہے جس میں پہلی بار مخلوط تعلیم کو ملک کے نظام تعلیم کے ایک لازمی اور مستقل جز کی حیثیت سے اختیارکیا گیا ہے، یونانی بہت ترقی یافتہ تھے ، لیکن ان کے پاس مخلوط تعلیم کا کوئی تصور نہیں تھا، چین کا نظام تعلیم ہر دور میں ترقی یافتہ رہا، لیکن مخلوط تعلیم کا کوئی سراغ ان کی تاریخ میں بھی نہیں ملتا حتی کہ مغربی تہذیب کے اولین دور میں بھی اس کا کوئی مستقل وجود نہیں تھا، مخلوط تعلیم کی ابتدا ایک مستقل نظام کی حیثیت سے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ہوئی، تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب انسانی کے تقریبا سب ہی ادوارمینیونان وروم کی تہذیبوں میں او رخود مغرب میں اٹھارہویں صدی کے اواخر تک عورتوں اور مردوں کی تقسیم کار موجود رہی ہے، معاشی، سیاسی اور فکری میدانوں میں رہنمائی مردوں کا کام تھامے گھر داری اور بچوں کی پروش عورتوں کا کام‘‘۔
الله تعال ٰ ی نے تخلیقی طور پر عورتوں اور مردوں کے درمیان صلاحیتوں کے اعتبار سے فرق رکھا ہے،جس کا تقاضہ یہ ہے کہ دونوں کا دائرہ کار ا لگ الگ ہو ،لیکن صنعتی انقلاب کے بعد جب سرمایہ داروں کے لئے زیادہ سے زیادہ عملہ کی ضرورت ہوئی تو کم از کم معاوضہ میں زیادہ کام کروانے کے لئے خواتین کو آزادئ نسواں کے پر فریب دام میں پھانس کر انھیں مردوں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کیا گیا،انسانی معاشرے میں جب مردوخواتین میں سے ہر ایک کا دائرہ کار الگ الگ ہے اور دونوں کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں تو دونوں کا نظام تعلیم بھی علیحدہ ہونا چاہیے۔
اسلام اور مخلوط نظام تعلیم
اسلام دین علم ومعرفت ہے، جو قدم قدم پر انسان کو تعلیم کی تلقین کرتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کو الله تعالی نے علم الاسماء سے سرفراز فرماکر انہیں بھی تسلیم کرتا ہے، اسلام جس طرح مردوں کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیتاہے، اسی طرح تعلیم کو حاصل کرنا مردوعورت دونوں پر فرض کیا گیاہے۔
اس بارے میں آپ ﷺ فرمان ہے کہ :
طلب العلم فريضة على كل مسلم و إن طالب العلم يستغفر له كل شيء حتى الحيتان في البحر
ایک اور حدیث میں ہے کہ: «مَا مِنْ خَارِجٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ إِلَّا وَضَعَتْ لَهُ الْمَلَائِكَةُ أَجْنِحَتَهَا رِضَاءً بِمَا يَصْنَعُ»
وَقَالَ الْحَسَنُ: مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ يُرِيدُ بِهِ مَا عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ خَيْرًا لَهُ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ.
اسکے ساتھ ہی نبی ﷺنے خواتین کی تعلیم کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ،،
( اگر کسی کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرے، اور اسے اچھی تہذیب سکھائے، پھر اسے آزاد کرے، اور اس کی شادی کردے تو اس کے لئے دہرا اجرہے)
آپﷺ کے دور میں آ پ ﷺ نےتو خواتین کی تعلیم کےلئے مستقل ایک دن مقرر فرمایاتھا روایت میں آتا ہے کہ بعض عورتوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ آ ؐ پ کے پاس ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے، لٰہذا آپ ہماری تعلیم کےلئے الگ سے ایک دن مقرر کیجئے،تو آپﷺ نے خواتین کی گذارش قبول فرمائی اور ان کے لئے ایک دن مقرر فرمایا، اس دن آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے اور انھیں وعظ ونصیحت فرماتے تھےکسی دن اگر آپ کے لئے جانا ممکن نہ ہوتا تو صحابہ میں سے کسی کو مامور فرماتے تھے۔
چنانچہ حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺجب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ہم انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں جمع فرمایا ا ور ہمارے پاس حضرت عمرؓکو نصیحت کے لئے روانہ فرمایا، حضرت عمؓر تشریف لائے اور دروازے پر کھڑے ہوکر سلام کیا، ہم نے سلام کا جواب دیا، پھر آپ نے فرمایا: رسول ﷺکے قاصد کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں، چنانچہ حضرت عمؓرکے ذریعہ ہم کو معلوم ہوا کہ نبیﷺوسلم نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم جوان اور حیض والی خواتین کو بھی عیدگاہ لے جائیں اور یہ کہ ہم پر جمعہ فرض نہیں ہے ۔
اسکے ساتھ جب کسی کام سے سماج میں بے حیائی اور بد چلنی عام ہونے کا خدشہ ہو نیز فحاشی وعریانیت، حیا کش طریقوں اور طرز عمل سے فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو اسلام مذکورہ قسموں کی ایمان کش اعمال کا بائکاٹ کرتا ہے۔ ان سے پیدا ہونے والے مفاسد اور فتنوں کے انسداد اور سدباب کے لیے معقول اور مصلحت آمیز قانون نافذ کرتا ہے۔ انہی میں سے ایک عظیم فتنہ مخلوط تعلیمی نظام ہے۔ اس کے سلبی پہلوؤں اور منفی سرگرمیوں کے پیش نظر اسلام نے صراحتا حرام قرار دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اختلاط کے باعث آنے والی نسلیں خراب ہو کر غیر اخلاقیات کو مزید بڑھا وا دینے کا باعث ہوں گیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے ایک ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے ذہنی وفکری تناو، ڈپریشن اور جسمانی اضطرابات پیدا ہونے کے ساتھ حصول تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی حرمت سے متعلق قرآن وحدیث کی نصوص مندرجہ ذیل ہیں۔
الله تعالى کا فرمان ہےکہ: وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
”جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمھارے اور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے“
ابن کثیر رحمہ الله مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جیسے الله تعالى نے تمھیں عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے روکا ہے، اسی طرح ان کی طرف کلی طور پردیکھنے سے منع کیا ہے۔ اگر تمھیں کوئی ضرورت پیش آجائے تو ان کو دیکھے بغیر پردے کے پیچھے سے طلب کرلیا کرو۔
اسلام میں تعلیم سے روکا نہیں گیا،البتہ اسلام تعلیم کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جو صنف نازک کو اس کی نسوانیت سے محروم کرکے حیا باختہ اور آوارہ بنادے، اسلام مرد وزن کے بے حجابانہ اختلاط کو انسانی معاشرہ کے لئے تباہ کن قرار دیتا ہے، اس سے شرم وحیاء کا جنازہ نکلتا ہے، بدکاری اور بے حیائی کی راہ ہموارہوتی ہے، اسلام مردوخواتین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، چنانچہ سورہ نور میں مردو خواتین میں سے ہر ایک کو الگ الگ خطاب کرکے نگاہیں نیچے رکھنے کی تاکید کی گئی، نیز سورۃ الاحزاب میں خواتین کو حجاب کی تاکید کی گئی اور بے پردہ بن سنور کر باہر نکلنے سے منع کیا گیا، اسلام عفت وپاکدامنی کےتحفظ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور ہر اس طرز عمل پر روک لگاتا ہے جس سے انسانی معاشرے میں بے حیائی در آتی ہو، اس لئے اسلام نہ صرف مخلوط نظام تعلیم کاقائل نہیں ہے بلکہ اسے انسانی معاشرہ کے لئے قاتل قرار دیتا ہے۔
تعلیمی نقصانات
کو ایجوکیشن کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس سے معیار تعلیم بلند ہوتا ہے، لڑکے اور لڑکیوں کے باہمی اختلاط سے دوریاں ختم ہوجاتی ہیں،اوریکسانیت پیدا ہونے سے تعلیم کا عمل آسان ہوجاتا ہے، لیکن کو ایجوکیشن کے حامی اس حقیقت کو فراموش کر جاتے ہیں کہ ایسے باہمی اختلاط سے طلبہ وطالبات تعلیم سے دور ہوجاتے ہیں اور تعلیم کے بجائے جنسی اختلاط فروغ پانے لگتا ہے، خود مغربی ملکوں میں کئے گئے سروے نتائج بتاتے ہیں کہ مخلوط نظام تعلیم تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے بجائے پستی کا سبب بن رہا ہے، چند سال قبل فرانس کی ایک سرکاری رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس کے اہم نکات یوں تھے:
15سال کی ریسرچ سروے رپورٹس کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مخلوط تعلیمی ادارے صنف نازک کے لئے در اصل شگار گاہیں ہیں،ان تعلیمی اداروں کےماحول اور مردوخواتین کے لئے آزادانہ اختلاط کے زیادہ مواقع سے جنسی تشدد کے واقعات میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، مخلوط تعلیمی اداروں کے ماحول نے تعلیمی گراف کو ناقابل تلافی نقصان پہونچا یا ہے، طلبہ کی تعلیم زیادہ متاثر ہوئی ہے اور ان کے فیل ہونے کی شرح میں کئی گنااضافہ ہوا ہے،فرانس کی وزار ِ ت تعلیم نے طلبہ وطالبات کے لئے قائم شدہ ہاٹ لائنس کے حوالے سے بتایا کہ سال 2000ء میں گیارہ لاکھ شکایات موصول ہوئیں جن میں سے چار ہزار جنسی تشدد کی شکایات تھیں جبکہ فقرہ بازی، چھیڑ چھاڑ اور موبائل فون کے ذریعہ ہراساں کرنے کی شکایات ہزاروں میں ہیں اور اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسلام نے مسئلہ سمجھنے اورسلجھانے میں زیادہ مہارت کا ثبوت دیا ہے۔
مردوخواتین کے لئے علیحدہ اسکول کی افادیت کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ اب خود مغرب میں سنگل سیکس اسکول خوب فروغ پارہے ہیں، دنیا کے بیشترترقی یافتہ ممالک جویکسانیت اور اختلاط کو اپنی تہذیب کا حصہ مانتے ہیں، وہ سنگل سیکس اسکول کے حمایتی نظر آرہے ہیں، آسٹریلیا میں 55فیصد لڑکے اور 54فیصد لڑکیاں الگ الگ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، بنگلہ دیش میں یونیورسٹی کے علاوہ تقریبا تمام ادارے غیر مخلوط ہیں، کنیڈا میں بھی غیر مخلوط اسکولوں کی تعداد زیادہ ہے، متحدہ عرب امارات میں بیشتر پرائیویٹ اسکول غیر مخلوط ہیں، انگلینڈ اور امریکہ بھی غیر مخلوط اسکولوں کے قیام کے حق میں نظر آتے ہیں،اسرائیل جیسے ملک میں مذہبی اسکولوں کو مخلوط نظام سے علیحدہ رکھا گیا ہے، انگلینڈ میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھنے والےبچوں کے مقابلہ میں الگ الگ اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں خصوصا بچیوں کا رزلٹ زیادہ بہترہوتا ہے، مغرب میں غیر مخلوط تعلیمی اداروں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، علیحدہ اسکولوں میں داخلہ لینے والی طالبات کی تعداد مخلوط اسکولوں سے رجوع ہونے والی طالبات کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہے، دونوں قسم کے اسکولوں کے نتائج سامنے آئے تو یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ پہلی پچاس پوزیشنوں میں سے 48پوزیشن سنگل سیکس اسکولوں کے طلبہ وطالبات نے لی،جبکہ صرف دو پوزیشن کو ایجوکیشن والے اداروں کے حق میں آئے۔
صحت پر اثرات
مخلوط نظام تعلیم کا سب سے خطرناک اثر طلبہ وطالبات کی صحت پر پڑتا ہے،لڑکے اور لڑکوں کو چھ تا آٹھ گھنٹے اکھٹے بٹھانا در اصل انھیں جنسی کشمکش میں مبتلا کرنا ہے، جس کے صحت ونفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، روزنامہ منصف میں اس حوالہ سے ایک چشم کشا تحقیق شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اجنبی خاتون مرد کا اختلاط ذہنی دباؤ کے ہارمونس میں اضافہ کا سبب بنتا ہے، ایک خوبصورت اجنبی خاتون صرف پانچ منٹ میں کسی مرد میں ذہنی دباؤ پیدا کرنےوالے عوامل کی سطح میں اضافہ کرسکتی ہے جو مرد کے قلب کے لئے مضر ثابت ہوسکتی ہے ،اسپین کی یونیورسٹی آف ویلنسیا کے محققین نے اس بات کا پتہ چلایا ہےکہ اس سے مرد کے کولیسٹرالسطح میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،محققین نے اپنے جائزہ کے دائرہ کار میں تجربہ کے لئے 84مرد طلبہ کو شامل کیا جن میں کسی ا جنبی عورت کے ساتھ تنہا چھوڑنے سے قبل اور اس کے بعد ان کے کولیسٹرال سطحوں کی پیمائش کی گئی تھی جس سے صاف فرق واضح ہوا۔
مخلوط تعلیمی نظام بلاشبہ ہمارے معاشرے کے لیے بہت بڑی لعنت ہے۔ مخلوط تعلیمی نظام کے چاہے ہزاروں فائدے ہوں مگر اس کی ایک قباحت ہی اس کی تمام خوبیوں پر پانی پھیرتی ہے اور وہ ہے عورت کی عصمت، عفت اور حیا کی ارزانی۔ بحیثیت مسلمان ہماری تہذیب تو ہمیں اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ عورت ننگے سر، بغیر پردہ کے گھر سے باہر نکلے، کجا یہ کہ عمر کے اس دور میں جب نسوانی جذبات اپنے عروج پر ہوتے ہیں، وہ نوجوان لڑکوں کےدرمیان بیٹھ کر تعلیم حاصل کرے، اور بےتکلفی سے ٓازادانہ میل جول رکھے، اور وہ بھی اس حالت میں کہ ایسے حیاسوز ملبوسات زیب تن ہوں، کہ ایک عابد و زاہد، شب زندہ دار بھی اگر اتفاقیہ دیکھ لے تو ایک بار ضرور ٹھٹک کر رہ جائے۔ جب یہ توبہ شکن قربتیں جو چند دنوں میں رنگ لاتی ہیں تو فحاشی کے سینکڑوں باب کھلتے اوررومان کے ان گنت افسانے جنم لیتے ہیں جو کسی قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
مخلوظ تعلیمی نظام کے حوالے سے بے شمار دلیلیں سیکولرازم کے خواہش مند ماہرین تعلیم بیان کرتے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ایسے تعلیمی نظام سےلڑکوں اور لڑکیوں میں مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے، جو ان کے لیے حصول تعلیم میں لگن کا باعث بنتی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہےکہ: ’’جب کوئی مردکسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔اب اگر موجودہ دور کے کالجز اور یونیورسٹیوں کے ماحول کا جائزہ لیا جائے تو کالجز اور یونیورسٹیوں کے ہر کونے میں نوجوان جوڑے مسکراتے اور اٹھکیلیاں کرتےنظر ٓاتے ہیں، اکثر و بیشتر انہوں نے ہاتھوں میں ہاتھ بھی ڈالے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان خوب مقابلے کی فضا پیدا ہو رہی ہوتی ہے، اب وہ فضا رومان لڑانے کی ہو یابےحیا حرکات کی ہو، مقابلہ ضرور ہو رہا ہوتا ہے۔
مخلوط تعلیمی نطام کے حوالے سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ تعلیم صرف مختلف کتابوں کو پڑھ کر امتحان پاس کر لینے کا ہی نام نہیں بلکہ افراد کے کردار کی نشوونما اور زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تجربات حاصل کرنے کا نام ہے، اس لیے تعلیمی اداروں میں گھر جیسا یعنی ’’ بھائی بہن‘‘ کی طرح کا ماحول بہت ضروری ہے جو صرف مخلوظ تعلیم ہی فراہم کرتی ہے ۔ اوراس نظام کی سب سے اہم دلیل یہ بنتی ہے جو اکثر بیان کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ اس تعلیمی نظام کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں ہریالی رہتی ہے، تقریبات میں رنگینی ہوتی ہے، اساتذہ اور طلبہ کا پڑھائی میں دل بھی لگا رہتا ہے۔ اب اگر اس نظام کو ختم کر دیا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں رہ ہی کیا جاتا ہے؟
مخلوظ تعلیمی نظام سم قاتل ہے، مگر اس کا مطلب قطعَا یہ نہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم ضروری نہیں۔ اسلام نے عورت اور مرد دونوں کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔عورتوں کی تعلیم بہت ضروری ہے لیکن خالصتَا اسلامی نقطہ نظر سے کیونکہ اولاد کی تربیت اور کردار سازی میں بھی سب سے اہم کردار عورت کا ہوتا ہے۔ ماضی میں مسلم خواتین نے اسلامی دائرہ کار میں رہ کر نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔ علم و فضل میں اپنا مقام پیدا کیا ہے اور اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی روشن مثالیں قائم کی ہیں، امام ابوحنیفہؒ، امام شافع ؒ ی، امام مال ؒ ک، امام احمد بن حنبل، سلطان صلاح الدین ایوب ؒ ی، شاہ ولی اللهؒ، علامہ اقبا ؒ ل وغیرہ اس کی نمایاں دلیل ہیں ۔مخلوط تعلیمی نظام میں خواہشات نفس کی تسکین، ٓانکھیں سینکنا، ملاقات کے مواقع، پیار کی کہانیاں، شادی کے عہد و پیما ن اہم حصہ ہیں، یہ مخلوط تعلیمی نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ ٓاج اس پائے کے لوگ پیدا نہیں ہو رہے اور نہ ہی اس تعلیمی نظام سے اس طرح کی کوئی امید کی جاسکتی ہے۔
اخلاقی بگاڑ کا فروغ
مخلوط تعلیم کا سب سے برا اثر نئی نسل کے اخلاق پر پڑرہا ہے،کو ایجوکیشن کے رواج نے بچوں کے اخلاق کی مٹی پلید کردی ہے، شرم وحیاء جو انسان کا سب سےقیمتی زیور ہے رخصت ہوتا جارہا ہے، قریب البلوغ کا زمانہ جذبات میں ہیجان کا دور ہوتا ہے اس عرصہ میں نوخیز اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ مل بیٹھنااور بے حجابانہ میل وجول شہوانی جذبات کو بھڑکاکر ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر لڑکیوں کا مختصرلباس میں بن سنور کر آنا جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے،کسی نے بجا کہا کہ آج آزادانہ اختلاط اس حد کو پہونچ چکا ہے کہ تعلیم وتحقیق کے راستے سے شیطانیت رقص کررہی ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس قدرجنسی بے راہ روی کا ماحول ہے کہ ایک آدمی شرم کے مارے پانی پانی ہوجاتا ہے، مغربی اباحیت پسندی کے ماحول میں یونیورسٹیوں کے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرےسے اس قدر بے تکلف اور قریب ہوجاتے ہیں کہ سارے فاصلوں کو ختم کرکے گناہوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں، لڑکوں اور لڑکیوں کو پورے آٹھ گھنٹے ایک ساتھ بٹھانا در اصل انھیں جنسی اشتعال دلانا ہے جس سے جنسی بے راہ روی اور نفسیاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے، زنا بدکاری اور ہم جنس پرستی کو فروغ ملتا ہےاسکولوں میں اخلاقی بگاڑ اور جنسی انارکی کہاں تک پہونچ چکی ہے اس کا اندازہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں رونما ہونے والے واقعات اور وہاں کی صورت حال سےکیاجاسکتا ہے، ورجینیا کے ایک چھوٹے سے لڑکیوں کے اسکول کے بارے میں خود وہاں کی طالبات کا کہنا ہے کہ ہے 75سے 85فیصد تک کی لڑکیاں جنسی تعلقات قائم کرچکی ہوتی ہیں، اسکولوں اور کالجوں تک میں جنسی تعلقات اتنے عام ہیں کہ چھ سات ماہ بعد وارث کے آجانے پر تعجب کی ایک انگلی بھی نہیں اٹھتی، ہر چھ میں سے ایک دلہن پہلے سے حاملہ ہوتی ہے، ایک اندازے کے مطابق سراکوز یونیورسٹی کی 6ہزار طالبات میں اوسطا 400سالانہ حاملہ ہوتی ہیں۔
جب طلبہ کی ہوس پرستی انتہا کو پہونچ جاتی ہے تو وہ اپنی ساتھی طالبات کے ساتھ جنسی تشدد کربیٹھنے سے تک نہیں چوکتے، چنانچہ مغربی ملکوں میں طالباتکے ساتھ جنسی تشدد عام بات ہے، امریکہ کے ایک معروف ادارے ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز نے حال ہی میں ایک سروے کرایا جس کے مطابق امریکہ میں ایک چوتھائی )یعنی ہر چار میں سے ایک طالبہ( طالبات یونیورسٹی کیمپس میں جنسی حملوں او رغلط طرز عمل کا شکار ہوتی ہیں، یہ سروے امریکہ کی 27 اعلی یونیورسٹیوں بشمول ہارورڈ یونیورسٹی میں کروایا گیا جس میں تقریبا دیڑھ لاکھ طالبات سے جنسی حملے اور زیادتی کے متعلق ان کے تجربات کے بارے میں پوچھاگیا، مجموعی طور پر 7,11طالبات نے بتایا کہ انھیں جبری طور پر جنسی حملے کے تجربے سے گذرنا پڑا، یہ اس معاشرہ کی حالت ہے جہاں بغیر شادی کے جنسی تعلقات رکھنے کو قانونی اور اخلاقی طور پر برا نہیں جانا جاتا ہے، جہاں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے، دور نہیں خود ہمارے ملک کی صورت حال کچھ کم ابترنہیں چلتی بسوں میں عصمت ریزی کے واقعات ، آخر کس ماحول کی دین ہے؟ راجدھانی دہلی میں عصمت ریزی کے واقعات اس کثرت سے پیش آنے لگے کہ لوگوں نے اسے جرائم کی راجدھانی کا نام دیا، ملک کی مشہور جامعہ جے این یو کی ایک 25سالہ پی ایچ ڈی طالبہ نے بتایا کہ اس کے ساتھ اس کے ایک ہم جماعت اسکالر نےشادی کے حیلے سے متعدد بار اس کی آبرو ریزی کی، کہا جاتا ہے کہ 21فیصدی طلبہ وطالبات کے درمیان ناجائز تعلقات کا ہونا ایک عام سی بات ہے۔
خاندانی نظام کی تباہی
کسی بھی خاندان کی تشکیل میں عورت کا کلیدی رول ہوتا ہے،عورت اگر خاتون خانہ بن کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہے تو خاندان کوغیر معمولی استحکامحاصل ہوتا ہے، عورت ،بیوی، ماں اور بیٹی کی حیثیت سے گھر کی زینت ہے، لیکن مخلوط نظام تعلیم نے اس کو اس کے دائرہ کار سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ معاشی دوڑ میں شامل کردیا ، جس سے بتدریج عورت، بچوں کی تربیت اور گھریلو امور کی انجام دہی کو اپنے لئے بوجھ سمجھنے لگی، صنف نازک کے اس رجحان نےکی بندھنوں سے آزاد رہ کر شہوت رانی کی جو راہ نکالی جارہی ہے اس نے تو خاندانی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا، علاوہ ازیں مخلوط تعلیم کے نتیجہ میں شادی انسانی وجود ہی پر سوالیہ نشان لگادیا، جیسا کہ سطور بالا میں اشارہ کیا گیا مغربی ملکوں میں بغیر شادی کے جوڑوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے، مانع حمل دواؤںکا کثرت سے استعمال اسقاط حمل، نیز حرام اولاد کی ولادت پر انھیں کوڑے دان کی نذر کرنا،کیا یہ سب کچھ خاندانی نظام کی بربادی کی علامات نہیں؟ دوران تعلیم مختلف جوانوں کے ساتھ مٹرگشتی کرنے والی لڑکیاں جب ازدواجی بندھن میں بندھ جاتی ہیں تو انھیں کسی صورت تسکین ملتی نظر نہیں آتی ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بالآخر خلع کا راستہ اپناتی ہیں یا پھر شوہر طلاق دے دیتا ہے۔
مغربی معاشروں میں طلاق کے واقعات اپنی آخری حدوں کو چھور ہے ہیں، وہی خاتون مستحکم خاندان کی بنیاد رکھ سکتی ہے، جس نے بچپن سے عفت وپاکدامنی اور شرم وحیاء کی زندگی گذاری ہو اور مخلوط نظام تعلیم شرم وحیاء کو کھرچ کر نکال دیتا ہے، محبت کی شادیوں کی کثرت جس میں دین وایمان کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی، مخلوط نظام تعلیم ہی کی دین ہے، کتنی ہی مسلمان لڑکیاں ہیں جنہوں نے اپنے ہندو ساتھیوں سے شادیاں رچالیں اور اپنے ماں باپ کے ساتھ دین ومذہب کے لئے کلنک کا دھبہ بن گئیں، ایسی محبت کی شادیوں کا انجام طلاق کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
• دین اسلام سے دوری
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہےاور اسے خلافت ونیابت سے سرفراز فرمایا ، عقل وشعور کی لازول نعمت سے مالامال کیا لیکن انسان اپنی مادی اور سائنسی ترقی کے باوجود آج بے چین ومضطرب نظر آتا ہے اس کا کیاسبب ہے ؟
قرآن حکیم آسمانی کتاب ہے جو خالق کائنات نے اس مقدس رسول صلى الله ﷺکے ذریعے دنیا کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی جو خود بھی ہر قسم کی خامی سے پاک ہے اوراس پاک کتاب میں ہمارے تمام مسائل کا حل ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہےکہ : أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
(خبردار ! اللہ کاذکر دلوں کا چین ہے )معلوم ہوا کہ سکون اور اطمینان تو اللہ کے ذکر میں ہے لیکن اس ذکرسے غفلت ہی کی وجہ سے ہمیں اطمینان اور چین نہیں مل پارہا ہے ،یہ دنیا اس کا تمام سازو سامان ، زیب وزینت سب فانی ہیں یہاں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک روز واپس جانا ہے ، یہ ناپائیدار دنیا اس قابل نہیں کہ اس میں جی لگایا جائے اوراس کی محبت میں اپنے خدا کو ہی بھول جائیں ۔
نبی ﷺ کا ارشاد پاک ہےکہ : اس شخص پر انتہائی تعجب ہے جو جنت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول میں سرگرم رہے ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی ﷺہےکہ: إن المؤمن لا يحرز دينه إلا حفرته.
اسلئے قرآن میں اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے کہ: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
’’ جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن بھی ہو تو ہم اسے )دنیا( میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور)آخرت میں( ُان کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ )جنت( دیں گے‘‘
مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ
اوررسول ﷺ کا فرمان ہے کہ : « إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَةٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ »
(جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے، ١۔صدقہ جاریہ ٢۔علم جس سے نفع حاصل کیا جائے ٣۔صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرے)۔
دراصل اولاد ہمارے پاس الله کی ایک بہت بڑی نعمت ہےاور اس کی صحیح نہج پر تربیت کرنا ہمارا دینی فرض بھی ہے اوراولاد کی پرورش کرنا صبر آزما مرحلہ بھی ہے،ویسے تو یہ ہر دور میں مشکل رہا ہے مگر آج کےپر فتن حالات میں کچھ زیادہ ہی مشکل ترین ہے اس لئے کہ معاشرہ برائی کا آماجگاہ بن چکا ہےاسلئےآج دنیاوی تعلیم ہی ترقی کا اصل پیمانہ بن گیاہےاخلاقی معیار بے معنی ہو گئے ہیں اسی لئے ہم اپنے اردگرد مادیت پرستی، خود غرضی، نفسانی خواہشات، اجارہ داری اور نفرتوں کا ماحول کو پروان چڑھتے دیکھ رہےہیں جس نے پوری دنیا کی فضا کو متاثر کر دیا ہے ۔۔۔ دراصل ہم نے دین اور دنیا کو دو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا ہےاس وجہ سے ہماری ترجیحات کا مرکز اور محور دنیا ہو چکی ہےاور ہم اس سےباہر نکلنا نہیں چاہتے آخر اس کا حل کیا ہے؟
اس صورت حال کا حل یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات کو الله کے ساتھ پھر سے مضبوط کریں اوروالدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اولاد کے لیے سچائی امانت استقامت اور اس کے علاوہ خوبیوں میں نمونہ بنیں اور جس چیز کے کرنے کا انہیں حکم دیں اورخود بھی اس پر عمل کریں۔ والدین پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین سے واقف کرائے جب ان کی اولاد سات سال کی عمر کو پہنچ جائےانھیں نماز کا حکم دیں جیسا کہ ابوداود کی روایت ہے کہ:
« مُرُوا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِى الْمَضَاجِعِ »
(جب بچے سات سال کی عمر کوپہنچے تو نماز کا حکم دو اور اگر یہ بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائے اور نماز نہ پڑھے تو انہیں مارواور ان بچوں کے بستر سے الگ کردو)۔
اولاد کی اچھی تربیت نہ صرف انسان کے مرنے کے بعد کام آتی ہے بلکہ یہ وہ امتحان ہے جس کا نتیجہ اکثر والدین زندگی میں بھی خود بھگتتے نظر آتے ہیں، اگر تربیت اچھی کی ہو گی تو والدین کی آخری زندگی سکون سے گذرتی ہے ورنہ دربدر بھٹکتے نظر آتے ہیں، گھرتو بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہےاور والدین ان کے پہلے استاد ہوتےہیں اسکے علاوہ بچوں کی شخصیت تشکیل میں گھر کا بڑا رول ہوتا ہے، بچپن ، بچوں کی زندگی کا نہایت نازک دور ہوتا ہے ، اس دور میں والدین نہایت غورو فکر ، توجہ اور دلچسپی کے ساتھ بچوں سے پیش آنا چاہیے اور بچوں کی ترقی میں اپنے ماحول کا بڑا اثرہوتا ہے جوکہ بچوں کی صلاحیت اور ذہانت کے موافق ماحول اور موقع نہ ملنے پر وہ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ غلط ہی راستہ اختیار کر لیتے ہیں جسکا نتیجہ آگے چل کر والدین کو ہی دیکھنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے والدین کی عزت اس معاشرے میں مٹی میں مل جاتی ہے اسکے بعد والدین سوچتے ہیں ہم نے اپنی اولاد کو دین سے دور کیوں رکھا کاش کہ اچھی تربیت دیتے اسوقت افسوسں کے سوا کچھ نہیں رہتا۔
اسکے علاوہ ہمارے معاشرے میں بگاڑ اور خرابی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے عورت اور مرد کے نکاح کو ‘ مشکل ترین بنا دیا ہے ہمارے نبیﷺ نے تو ہماری اسطرح رہنمائی فرمائی ہے کہ آپﷺ نے حضرت علی ؓ کو فرمایا کہ :
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: يَا عَلِيُّ، ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْهَا: الصَّلاَةُ إِذَا آنَتْ، وَالجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا.
اسلئے دین سے دوری اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار نہ کرنے کے باعث مرد اور عورت میں ” صبر ” ناپید ہو چکا ہے ۔جس کے باعث ایک طرف عورت ماڈرن ازم کی آڑ میں حیا کی چادر سے نکل کر اپنی فطری جبلتوں کی تسکین میں مصروف ہے تو دوسری طرف مرد اپنی فطری جبلتوں کو غیر فطری طریقوں سے پورا کر کے معاشرے کے لیے خرابی کاباعث بن رہا ہے اسکے اندر کہیں نہ کہیں قصوروار والدین ہی ہیں جو مادیت پرستی کے جال میں الجھ کربچوں کے نکاح میں تاخیر کرتے ہیں کیونکہ اب وہ وقت نہیں رہا جب گھروں میں کھنکتی چوڑیاں اور باورچی خانوںمیں گرتے برتن اس بات کی نشاندہی کرتے تھے کے بیٹی نکاح کے قابل ہو گئی ہے اب تو بیٹی ساری رات نائٹ پیکجز پر غیر لڑکوں سے باتیں کرتی ہےاور صبح اُسکی سوجی ہوئیں آنکھیں اور بستر کی سلوٹیں چیخ چیخ کر کہ رہی ہوتی ہیں کے میرا نکاح کر دو مگر والدین کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کےبیٹی ڈگری مکمل کرنے کے بعد کچھ کما لے تو پھر اس کی شادی کریں گے یا پھر ” مناسب ” رشتے کے انتظار میں بیٹھےرہتے ہیں ۔
اسکے ساتھ ساتھ لڑکوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، جہیز کی لالچ میں اپناےآپ بھی تباہ کرتے ہیں اور اس لعنت کی وجہ سے کئی لڑکیوں کے سر کے بال بھی گھر کی دہلیز پر ہی سفید ہو جاتے ہیں ۔
اللہ تعا لیٰ کا پاک دامن عورتوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
اسلام دینِ فطرت ہے، اگر اسلام نے لڑکالڑکی کے بالغ ہوتے ہی نکاح کا حکم دیا ہے تو اس میں حکمت ہےمگر افسوس ہم نے مادیت پرستی کی ہوس میں آکر اس حکمت کو نظرانداز کر دیا ہے، صحابہ کرام کے دور میں نکاح کس قدر آسان تھا کہ انہیں اگر کسی خاتون سے نکاح کرنا ہوتا تو اسکے گھر رشتہ لے جاتے اور چار لوگوں کی موجودگی میں نکاح کی رسم ادا کر کے خاتون کو گھر لے آتے، اب ذرا سوچیے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، فضول رسومات و خرافات اور ہندوانہ کلچر کی وجہ سے آج اسلامی معاشرےکی سب سے آسان رسم سب سے مشکل بن گئی ہے، ایک ہزار سال ہندووں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اُنکی فضول رسومات ہماری جڑوں میں گھس چکی ہیں، ناچ گانے مخلوط فنکشنز اور بے حیائی کے بعد جس پاک و مقدس رشتے کی بنیاد رکھی جائے گی تو پھر آنے والی نسل بھی ایسی ہی بے حیا پیدا ہوگی۔
اسکے ساتھ جب ہمارے بچیاں بڑی ہوجائیں تو انہیں پردہ کرنے کا سختی سے حکم دیں تاکہ ہماری بچیاں مستقبل میں اسلام کے مطابق کامیاب زندگی گزار سکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ :
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
جب ہم شعوری طور پر الله کے حکم کو مانیں گے تو سوچ کے زاویہ بدلے گی۔ افکار اور نظریات تبدیل ہونگے. اچھے معاشرے کی تشکیل اچھے خاندان سے ہو سکتی ہے۔۔۔اور اس قسم کے بے مہار ميل جول اور روابط و تعلقات کا سدباب کرنے اور اخلاقي حدود کي حفاظت کيلئے اسلام نے خواتين کيلئے حجاب کو معين کياہے۔ خود يہ حجاب خواتين کو ايک قسم کي حفاظت اور امن و سکون عطا کرتا ہے۔ ايک باحجاب مسلمان عورت نہ صرف يہ کہ امن و سکون کا احساس کرتي ہے بلکہ مسلمان مرد بھي آنکھوں اور شہوت کے گناہوںوغيره کي دوري کي وجہ سے راحت و آرام پاتے ہيں۔جہاں بھي حجاب کو خواتين سے لے کر انہيں عرياني و فحاشي )اور بے پردگي سے نزديک کيا جائے تو سب سے پہلے خود خواتين اور اِس کے بعد مردوں اور نوجوانوں سے روحاني اورجسماني آرام و سکون چھين ليا جائے گا۔ اسلام نے معاشرے کے ماحول کو پاکيزه رکھنے اور روحاني و جسماني آرام وسکون کي حفاظت کيلئے حجاب کو واجب کيا ہے تاکہ خواتين معاشرے ميں باآساني اپنے امور کو انجام دے سکيں اور مرداپني ذمہ داريوں اور فرائض سے عہده برآں ہوسکيں اور اللہ تعا لیٰ ہم سب کوپوری زندگی دین اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
باب دوم:عدالتی نکاح کے معاشرے پر اثرات
• کفو کا مسئلہ
کفو کی لغوی معنیٰ ہے برابری، مساوی اور ہمسر، شریعت میں کفو سے مراد ہے کہ وہ مرد اورعورت جن کا آپس میں نکاح کرنا مقصود ہووہ معاشرت اور سوسائٹی کے لحاظ سے ہم مرتبہ اورہم درجہ ہوں،تاکہ انکے آپس میں نکاح کے بعد خوش گوار تعلقات قائم رہیں۔
آپ ﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ:
«تَخَيَّرُوا لِنُطَفِكُمْ، وَانْكِحُوا الْأَكْفَاءَ، وَأَنْكِحُوا إِلَيْهِمْ»
اپنی نطفوں کے لئے (اچھی عورتوں کا )انتخاب کرو اور کفو عورتوں سے نکاح کرو اور کفو مردوں کے نکاح میں دو ۔
اسکے ساتھ ایک اور نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
«أَلَا لَا يُزَوِّجُ النِّسَاءَ إلَّا الْأَوْلِيَاءُ، وَلَا يُزَوَّجْنَ إلَّا مِنْ الْأَكْفَاءِ»
(خبردار عوورتیں اپنا نکاح اولیاء کے بغیر نہ کریں اور نہ ہی اولیاء ان کا نکاح بغیر کفو میں کروائیں)
یعنی دین اسلام نکاح کے معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ نکاح کے بندھن میں آنے والے دونوں افراد ہر لحاظ سے ہمسر ہوں تاکہ نکاح کے بعد انکے آپس میں تعلقات خوش گوار ہوں اور معاشرے کے لئے ایک نمونہ ثابت ہوں ۔۔۔لیکن کفا ءت (برابری) کن چیزوں میں ہونی چائیے ؟
اسمیں ائمہ فقہاء کا اختلاف رہا ہے لیکن امام ابو حنیفہ ؒ کے راجح رائے کے مطابق : الكفاءة تعتبر في خمسة أشياء: الحرية، والنسب، والمال، والدين، وإسلام الآباء.
(برابری میں پانچ چیزوں کا اتبار کیا جائے گا،یعنی کہ دونوں آزاد ہوں،اور نسب میں مساوی ہوں،اور مالی لحاظ سے برابر ہوں،اور دین کے حساب سے ایک ہوں،اور انکے والدین کا اسلام کےحساب سےایک ہوں)
نسب میں برابری کا مطلب یہ ہے کہ لڑکے کا خاندان لڑکی کے خاندان کے برابر ہو، مال میں، یعنی لڑکا لڑکی کے نان و نفقہ پر قادر ہو اور دونوں کی مالی حیثیت میں اتنا زیادہ فرق نہ ہو جو لڑکی کیلئے باعث عار ہو،اوردین دونوں کا اسلام ہو اور اسکے ساتھ ساتھ لڑکادینداری و تقوی میں لڑکی کا ہم پلہ ہو جو شخص دین کا پابند نہ ہو بلکہ بددین ہوتو وہ نیک وپاک دامن عورت کا کفؤ نہیں ہے، اور اسکے ساتھ ساتھ پیشہ اور تعلیم میں بھی لڑکا لڑکی سے کم تر نہ ہو بلکہ دونوں ہمسر ہوں۔
اگر لڑکے اور لڑکی کے درمیان نسب کے اعتبار سے، مال کے اعتبار سے، دِین کے اعتبار سے یا پیشے کے اعتبار سے جوڑ نہ ہو تو والدین کی رضامندی کے بغیر کیا گیا نکاح شرعاً صحیح نہیں ہے، کیونکہ لڑکااور لڑکی ہم پلہ نہیں ہیں دونوں کے درمیان علیحدگی ضروری ہے،لڑکی اور لڑکا اگر علیحدگی پر رضامند نہیں تو لڑکی کے والدین کو شرعاً قانونی و عدالتی کاروائی کرنے کا حق ہے۔ بہرحال لڑکی کی رضامندی پر والدین کی مرضی کے خلاف غیرکفو میں جو نکاح ہوا وہ درست نہیں ہے۔
خود مسلمانوں کے درمیان بھی شریعت یہ چاہتی ہےکہ ازدواجی تعلق ایسے مرد وعورت کے درمیان قائم ہو جن کے درمیان غالب حال کے لحاظ سےمودّت ورحمت کی توقع ہو اور جہاں یہ توقع نہ ہو وہاں رشتہ کرنا مکروہ ھے یہی وجہ ہےکہ نبی ﷺ نے نکاح سے پہلے عورت کو دیکھنے کا حکم دیا ہے کہ:
” إذا خطب أحدكم المرأة فإن استطاع أن ينظر إلى ما يدعوه إلى نكاحها فليفعل “
(جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی المکان اسے دیکھ لینا چاہیے کہ آییا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کو اس عورت سے نکاح کی رغبت دلانے والی ہو )۔
اور یہی وجہ ہےکہ شریعت نکاح کے معاملے میں کفا ءت (برابری)کو ملحوظ رکھنا پسند کرتی ہے اور غیر کف میں نکاح کو مناسب نہیں سمجھتی ،جوعورت اور مرد اپنے اخلاق میں ،اپنی دیندار ی میں ،اپنے خاندان اورانکے طور طریقوں میں ، اپنی معاشرت اور رہن سہن میں ، ایک دوسرے سے مشابہت یا کم از کم قریبی مماثلت رکھتے ہوں،انکے درمیان مودّت ورحمت کا رابطہ پیدا ہونا زیادہ متوقع ہے اور انکے باہمی ازدواج سے یہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں کے خاندان بھی اس رشتہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہو سکیں گے بخلاف اسکے جن کے درمیان یہ مماثلت موجود نہ ہو انکے معاملے میں زیادہ تر اندیشہ یہی ہے کہ وہ گھر کی زندگی میں اور اپنی قلبی وروحی تعلق میں ایک دوسرے دے متصل نہ ہوسکیں گے اور اگر میاں بیوی باہم متصل ہو بھی جائیں تو کم ہی امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں کے خاندان آپس میں مل سکیں
لیکن ہماری ترجیح دین میں ہونی چاہیے اس حوالےسے آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ :
« تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ »
( عورت سے چار بنیادوں پر نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی خاطر ، خاندان کی وجہ سے ،اس کے حُسن کی و جہ سے ، اس کے دین کی خاطر،تمھارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں،تم دین دار عورت کو نکاح میں لاؤ)
ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے،کیفیت یہ ہے کہ نکاح جیسے حلال پاکیزہ اور آسان عمل کو مشکل ترین بنادیا گیاہے اور حرام کے تمام ذرائع آزادانہ چاروں طرف میسر ہیں۔ سرپرست ، والدین ا پنے بچوں کی طرف سے متفکر رہتے ہیں لیکن معاشرے کی اس صورت حال میں کس کا کتنا حصہ ہے اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کے لیے حلال ذرائع خود مشکل بناتے ہیں، ان کو اپنی خود ساختہ رسوم و روایات کا پا بند کرتے ہیں تو حرام ذریعہ اپنی جگہ خود بنا لیتا ہے اور اسی کے راستے ہموار ہوتے ہیں، اس سے بڑا فتنہ اور فساد فی الارض اور کیا ہوگا کہ وہ گنا ہ جس سے صالحیت کی عمارت زمین بوس ہوجائے آسان ہو اور جو بات معاشرے کی پاکیزگی کی ضا من ہے وہ ہماری پسند ناپسند، خاندانی اَنا و وقار کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہو۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور سوچنے کامقام ہے کہ کہیں ہمارے کسی عمل سے حرام کا رستہ آسان تو نہیں ہو ر ہا ہے ۔
• اسلامی اقدار کا مسئلہ
پس انتخاب کرتے وقت مستقبل کا وہ نقشہ ضرور سامنے رہنا چاہیے جس میں آخرت کا خسارہ نہ ہو مستقبل تو لازمی سوچا جاتا ہے لیکن وہ اسی روزمرہ زندگی کے حوالے سے یا اپنے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہوتا ہے، اس مستقبل میں اگر آخرت کا حصہ بھی شامل کرلیں تو انشا ء اللہ اصل نا کامی اور خسارے سے بچ رہیں گے۔
جنت کے حصول کا ایک اہم ذریعہ نیک اور صالح زوجین کے انتخاب سے بھی مشروط ہےقرآن میں مختلف مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
(آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے ، یعنی ا یسے باغ جو اِن کی ابدی قیام گاہ ہوں گےوہ خود بھی ان میں داخل ہوں اور ان کے آبا و اجداد اور ان کی بیویوں اور ا ن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی اُن کے ساتھ وہاں جائیں گے )
ایک اور مقام پراللہ تعالی کا فرمان ہےکہ: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ
‘‘جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ا ن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے اُن کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں ) ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھا ٹا ان کو نہ دیں گے ’’
ان آیا ت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہا ں کامیا بی کا تصور جنت میں داخل ہونے اور آتش جہنم سے نجات سے منسلک ہے، اس لیے نیک زوج کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ ا پنے ا ہل و عیال کو بھی دوزخ سے بچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اور ساتھ ساتھ اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے کہ : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
نبی ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ: « الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ ».
(دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع نیک بیوی ہے )
جہاں دینی قدروں پر سمجھوتا کیا جاتا ہے وہا ں دین دارو ں کو اس وجہ سے مسترد بھی کر دیا جاتا ہے کہ وہ بہت سی دنیا و ی لوازمات میں پیچھے ہوتے ہیں یا ہم پلہ نہیں ہوتے اسلامی معاشرے کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ ایک پاک باز لڑکی کو ایک بے دین اور غلط عقائد کے بارے میں خیالات رکھنے والے مرد کے عقد میں دے دیا جائے جس کی نظر میں اعلیٰ اخلاقی قدروں اور اوصاف کی کوئی وقعت ہی نہ ہو ، اور پھر لڑکی کو فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی مثالیں د ے کر سمجھوتا کرنے کو کہا جائے، یا شوہر کے رنگ میں رنگ کر اپنی آخرت تباہ کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ انتخاب کے عمل میں ترجیح، تقویٰ کو ہونا چاہیے، خدانخواستہ کبھی معاملہ اس کے برعکس ہوجائے تو فرد آسیہ کا کردار بھی ضرور ادا کرے لیکن شادی ہی یہی سوچ کر کی جائے تو یہ اللہ سے مایوسی کا رویہ ہے۔ ایسے میں اپنے اُخروی مستقبل کا ضرور سوچ لینا چاہیے،اسی طرح مرد کے لیے بے دین بیوی کا انتخاب مرد کی دین داری کو متاثر کرتا ہےاورجنت کے حصول کے خواہش مند فرد کا انتخاب حدیث نبوی کے مطابق ہوتا ہے
• عزت کا پامال ہونا
نکاح میں انتخاب کرنے والے فرد کو انتخاب کرتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ پسند ناپسند کا معیار دینی تعلیمات پر مبنی ہے یا اپنی ذاتی رغبتوں اور زمانے کی روایات کے مطابق، انتخاب کرتے وقت اس بات کا بھی ادراک ہونا ضروری ہے کہ یہ انتخاب محض زوجین کا ہی نہیں بلکہ مستقبل کے والدین کا انتخا ب بھی ہے۔ ان کو آگے چل کر امت مسلمہ کے لیے ا یسے افراد کی تربیت کرنے کا فرض ادا کرنا ہے جنھیں خلیفۃ اللہ فی الارض کامنصب سنبھالنا ہے اس سلسلے میں احادیث نبوی جو ہماری رہنمائی کرتی ہیں وہ بہت واضح ہے۔
اس معاملے میں آپﷺ کا فرمان ہے کہ: « تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَلِجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ » (عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہےانکے مال کی وجہ سے اوران کے حسن کی وجہ سے اور حسب نسب کی وجہ سے اور دین کی وجہ سے پس تم دینداری کو اختیار کرو )
ایک اور حدیث ہےحضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لِعِزِّهَا لَمْ يُزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا ذُلًّا , وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِمَالِهَا لَمْ يُزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا فَقْرًا , وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِحُسْنِهَا لَمْ يُزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا دَنَاءَةً , وَمَنْ تَزَوَّجَهَا لَمْ يَتَزَوَّجْهَا إِلَّا لِيَغُضَّ بَصَرَهُ وَيُحْصِنَ فَرْجَهُ أَوْ يَصِلَ رَحِمَهُ بَارَكَ اللَّهُ لَهُ فِيهَا وَبَارَكْ لَهَا فِيهِ
(جس شخص نے کسی عورت سے محض اس کی عزت کی و جہ سے شادی کی، اللہ تعالیٰ اس کو خوب ذلیل کرے گا، جس نے کسی عورت سے اس کے مال کے سبب شادی کی تو اللہ تعالیٰ اسے محتاج بنا دے گا، اور جس نے کسی عورت سے اس مقصد کے لیے شادی کی کہ اس طرح اس کی نگاہ جھکی رہے اور اس کی شرم گا ہ محفوظ رہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عورت کے ذریعے اور عورت کو اس شخص کے ذریعے خیر و برکت سے نواز دے گا)
اسکے باوجود اگر کوئی دنیاداری کو دیکھ کر اور حسن وجمال کے رغبتوں میں آکر والدین سے مشورہ کیے بغیر شادی کربھی لیں تووہ اس معاشرے میں آنے کے قابل نہیں رہتے بلکہ وہ پورے خاندان سے کٹ جاتے ہیں اور اسکے ساتھ انہوں نے اپنے والدین کی عزت کو بھی مٹی میں ملادیتے ہیں اور پورے معاشرے میں سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں چھوڑتےیہاں تک کہ پورے خاندان کوفراموش کر کے چھوڑ دیتے ہیں
لہٰذا انتخاب زوجین کے وقت ایک ا یسا خاندان ضرور چشمِ تصور میں رکھنا چاہیے جو صالحیت کے قرآنی معیارپر پورا اترتا ہو اور جس میں زوجین بحیثیت ما ں باپ کے ا پنے اپنے فرائض و حقوق ادا کر کے نسلِ نو کی اسلامی اصولوں پر تربیت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے کہ : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ
‘‘اے مومنو! ا پنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچاؤجسکا ایندھن لوگ اور پتھر ہونگے ’’ قرآن نجات کا یہ اصول پیش کرتا ہے کہ صرف اپنی ہی فکر نہ کرو بلکہ ا پنے اہل خا نہ کو بھی آتش دوزخ سے نجات دلا ناسرپرست ہی کا فریضہ ہے۔ اس فرض کی ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب والدین کے اپنے دل میں حب الٰہی ، خوف خدا اور ایمان کی کیفیات ہوں جو ان کے معاملات سے بھی جھلکتی ہوں۔ آج کی نوجوان نسل کے کاندھوں پر کل کے مستقبل کے معماروں کی تربیت اور نشوونما کی ذمہ داری ہے۔
حضورﷺ نے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے اسطرح ارشاد فرمایا ہے کہ : «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ»
(اگر تمھارے پاس ایسا شخص (نکاح کا پیغام ) لے کر آئے جس کی دین داری اور اخلاق سے تم خوش ہو تو پھر اس کے ساتھ نکاح کر لو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد بر پا ہوجائے گا)
اسلام نکاح کا پیغام دینے والے مرد و عو رت کے لواحقین کے سامنے جو معیار پیش کرتا ہے وہ مذکورہ احادیث سے واضح ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی کا کل اثاثہ دین ہے۔ سارے معاملات کی بنیاد بھی دین ہے کیونکہ اس کے علاوہ سارے معیار ہماری ذاتی ، نفسی اور رسوم و روایات پر مبنی اور باطل ہوتے ہیں۔ ان کے اثرات و نتائج اور نقصانات کے ہم خود ذمہ دار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے نکاح کرنے والے ہر فرد کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ اس کامعیار پاکیزہ طبیعت ، دین داری اور بہترین ا خلا ق پرہونا ضرور ی ہے نہ کہ ظاہری چمک دمک اور مال و دولت پر یہ دراصل وہ اسلامی معیار عزت ہے جس میں قابل عزت صرف وہی ہے جس کے پاس تقویٰ ہو ۔
ان معاملات کو دینی بنیادوں پر اسی وقت استوار کیا جاسکتا ہے جب فرد اپنی سوچ کو دین کے تقاضوں کے مطابق کر دے اگر رشتوں کی بنیاد بھی اسی آفاقی معیار عزت پر رکھی جائے تو مروجہ روایتی طریقوں کی پیروی جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، خود ہی ختم ہوجائے گی ۔ وہ فرد جو حسنِ صورت اور دنیاوی مرتبہ رکھتا ہو اس کا حصول بہت پُرکشش ہوتا ہے۔ اس معیار پر بھی اسلام نے کوئی قدغن نہیں لگائی کیونکہ اس رشتے کی بنیاد دلی رغبت پر بھی ہوتی ہے لیکن صرف اس کو معیار بنا کر دین کو فہرست کی انتہا پر رکھنا یا اسے غیرضروری حیثیت دے دینا درست نہیں ہے۔اور یہ ہر فرد کا اپناانتخا ب ہے کہ وہ زوجین کے انتخا ب کے وقت مستقبل کی ان چیزوں کو مدنظر رکھتا ہے یاوقتی دل کشی اور آسودگی کے معیارات میں کھو کرتھوڑے فائدے کو اپنا مطمح نظر جان لیتا ہے جس میں ممکن ہے کہ دنیا کی کامیابی ہو لیکن بہت ممکن ہے کہ اس عارضی کامیابی میں جنت کی را ہ کہیں کھو جائے اور کُلی خسارہ اس طرح ہماری جھولی میں آ گرے کہ ہمیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
مشاورت ، اخوت و محبت اور نظم و ضبط کسی بھی گھرانے کو مستحکم کرنے کا سبب ہیں۔ ایسے گھرانے کی تشکیل وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے دل میں حب الٰہی ہو اور ان کی محبت و نفرت ، کسی سے ملنا اور کٹنا صرف اور صرف اللہ رب العالمین کی خوشنودی کے لیے ہو۔
• خاندانی تنازعات
جبکہ اس وقت عدالتی نکاح کے رجحانات بڑھ رہے ہیں اور لڑکیاں چھپ کر اپنا نکاح کرلیتی ہیں یا بعض لوگ ورغلا کر انہیں اپنے نکاح میں لے آتے ہیں ، چاہے یہ نکاح دو گواہ کی موجودگی کی وجہ سے درست ہوجائے ؛ لیکن یہ شریعت کی روح کے خلاف ہے اور مرد و عورت کا یہ تعلق اصول و قانون سے آزاد ہو جیسا کہ جانوروں میں ہے ، ایسی آزادانہ صنفی زندگی سے بچوں کی پیدائش تو ہو سکتی ہے ، لیکن کوئی خاندان وجود میں نہیں آسکتا ، انسان دادیہالی ، نانیہالی ، اور سسرالی قرابت مندیوں کے حصار میں جب اپنی زندگی گذار تا ہے تو اس کے ساتھ دکھ سکھ میں ایک بڑی تعداد شریکِ حیات ہوتی ہے ، یہ شرکت خوشی کو دو بالا اور غم کو ہلکا کرتی ہے ، اس سے انسان کو خاندانی تحفظ حاصل ہوتا ہے ، سماج میں اس کی شناخت اور پہچان بنتی ہے اور ان کے بزرگوں کے کارنامے عملی زندگی میں حوصلہ مندی اورجوشِ عمل کا باعث بنتے ہیں ۔
اب اس نکاح سے زیادہ برا نکاح کون ہوگا ، جس میں باپ تک کو نکاح کی خبر نہ ہو ؟ ایسے نکاح عام طور پر وقتی جذبات کے تحت کیے جاتے ہیں اور اپنے انجام کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ ایسے رشتوں میں نوجوان اور نا تجربہ کار لڑکیاں صورت و شکل ، گفتگو اور اظہارِ محبت سے متاثر ہو کر نکاح پر آمادہ ہوجاتی ہیں اور اسکے بعد وہ پورے خاندان سے کٹ جاتی ہے اور انکا رشتہ داروں کے خوشیوں وغیرہ میں شریک ہونا ناممکن ہوجاتا ہےاور والدین ،خونی اقرباء سے بات وغیرہ کرنا محال ہوجاتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ قبیلوں کی آپس میں غیرت کے نام پر لڑائیاں کئی سال جاری رہتی ہیں جس میں خاندانوں کے خاندان تباہ ہوجاتے ہیں ، اور دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر اس طرح کے نکاح دیرپا ثابت نہیں ہو تے اور وقت کے بعد انکے درمیان خود بھی تنازعات شروع ہوجاتے ہیں جوکہ نہ ختم ہونے والے ہوتے ہیں جنکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاندان ٹوٹ جاتے ہیں اور معاشرہ تباہی کی طرف جا رہا ہوتا ہے ۔
اسلئے تو آپﷺ نے نکاح کو تشہیر کرنے کا حکم دیا ہے اور چھپ کر نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے ۔«أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ نِكَاحِ السِّرِّ»
ایک اور حدیث میں فرمایا کہ: «لَيْسَ فِي الْإِسْلَامِ نِكَاحُ السِّرِّ»
اور چھپ کر نکاح کرنے کو برائی قرار دیا ہے: أَشَرُّ النِّكَاحِ نكاح السِّرُّ.
اور ساتھ ساتھ یوں بھی کہا ہے کہ: «إِنَّ نِكَاحَ السِّرِّ حَرَامٌ»
اس لیے سماج صالح اورنکاح کے مقاصد کے اعتبار سے یہ بات ضروری ہے کہ نکاح میں سرپرست کو بھی اعتماد میں لیا جائے ، خاص کر جو لوگ دینی کاموں سے متعلق ہوں ، ان کے لیے اس کی اہمیت زیاد ہ ہے ، کیوں کہ ولی کی شمولیت کے بغیر نکاح تہمت کا موقع پیدا کرتا ہےاوران کے لیے خاص طور پر مواقع تہمت سے دور رہنا اور اپنے آپ کو شکوک و شبہات کی جگہ سے بچانا بیحد ضروری ہے اسکے ساتھ اس سے بدگمانی اور بے حیائی کی کی راہ کھلتی ہے ۔
عام طور پر شادی کی تیاریاں تو بہت زوروشور سے ہوتی ہیں لیکن شادی کے بعد کی زندگی کی کوئی منصوبہ بندی جس کی بنیاد خالصتاً رضاے الٰہی، یعنی دینی بنیادوں پر ہو نظر انداز ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس سلسلے میں دین دا رگھرانوں کا بھی غیر اسلامی معاملات سے صرفِ نظر کرنا گویا دین داری کو پھر اسی دائرے میں مقید کر دینا ہے جس کا آغا ز کلمہ کے زبانی اقرار سے شروع ہو کر عبادات کے مظاہر پرختم ہوجاتا ہے۔ اگر اس میں اللہ کی حدود اوراسلامی تعلیما ت کا خیال رکھا جائے تو خاندان کی ابتدا اسلامی اصولوں پر ہوگی۔ اسلام ایک مکمل ضا بطۂ حیات ہے۔ وہ زندگی کے ایک ایسے فیصلے کو جس پر انسان کی آدھی سے زیادہ زندگی کے اعمال کا انحصار ہے، نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اسلام میں اس سلسلے میں نہایت واضح رہنمائی ملتی ہے جس پر عمل پیرا ہوا جائے تو وہ مسائل جن کا زمانہ میں بہت سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑ ر ہا ہے شاید بچ جائیں ۔
باب سوم:فقہی و سماجی پہلو
• ولایت اجبار
شریعت میں ولایت کا مفہوم
‘‘کسی کو دوسرے کے عقد نکاح کا اختیار حاصل ہونا ’’
علامہ زھیلی فر ماتے ہیں کہ: القدرۃ علی مباشرۃ التصرف من غیر توقف علی اجازۃ احد
(وہ اختیارات جن کے حصول کے بعد آدمی کو تصرفات ومعاملات کی انجام دہی میں کسی کی اجازت باقی نہ رہے )
علامہ شامی فرماتے ہیں کہ: والولاية تنفيذ القول على الغيرتثبت بأربع:قرابة، وملك، وولاء، وإمامة
فقہا ء نے ولایت کی دو صورتیں بیان کی ہیں یں :
۱۔ولایت اجبار : ایسا اختیار جو دوسرے کی رضامندی پر موقوف نہ ہو ۔
تنفیذ القول علی الغیر شاء الغیر ام ابی (یعنی دوسرے پر قول کو نافذ کرنا چاہئے دوسرا یا نہ چاہے )
۲ ۔ولایت استحباب: ایسا اختیار جو دوسرے کی رضامندی پر موقف ہو ۔
قرآن مجید سے ولایت کا ثبوت
اس بارے میں اللہ تعا لی فرماتے ہیں کہ:
وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ
قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ :
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
(مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگار و معاون اور دوست ہیں وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں نمازوں کی پابندی بجا لاتے ہیں زکاۃ ادا کرتے ہیں الله کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر الله تعال ٰ ی بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک الله غلبے والا حکمت والا ہے۔)
اسکے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
)تم سے جو مرد عورت بےنکاح ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہونگیں تو الله تعالی انھیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا الله تعال ٰ ی کشادگی والا علم والا ہے۔(
لیکن اسکے ساتھ اللہ تعالی نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ :
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
(اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وہ ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کروایماندار لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، ایماندار غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور الله جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے وہ اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے)
احادیث سے ثبوت
ليس للنساء من العقد شيء قال لانكاح إلا بولي
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
« أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ « فَإِنْ دَخَلَ بِهَا فَالْمَهْرُ لَهَا بِمَا أَصَابَ مِنْهَا فَإِنْ تَشَاجَرُوا فَالسُّلْطَانُ وَلِىُّ مَنْ لاَ وَلِىَّ لَهُ »
(رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس عورت نے اپنا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ،باطل ہے باطل ہے ،اسکے بعد اگر بیوی سے شوہر نے ازدواجی تعلق قائم کرلیا تو اس کے لئے مہر ہے اور اولیاء کے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو سلطان اسکا ولی ہے جسکا کوئی ولی نہیں)
اسکے ساتھ ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا کہ :
«لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا»
(یعنی عورت عورت کا نکاح نہ کرے اور عورت خود بھی اپنا نکاح نہ کرے کیونکہ زانہ اپنا نکاح خود کرتی ہے )
ان آیات واحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء کے پاس ولایت اجبار کا حق حاصل ہے لیکن انکو بھی چاہئے کہ پہلے اپنی اولاد کے ساتھ مشورہ سے کام لیں تاکہ انکے زندگی کا بندھن کامیاب ہوسکے اور معاشرے مثالی والدین کا کردار ادا کر سکیں ۔
• اسلام میں ولایت اجبار کا تصور
نکاح میں سرپرستی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ ایسا رشتہ کامیاب اور زیادہ مستحکم ثابت ہوگا لہذااس رشتے کی مظبوط بنیاد رکھنے کے لیے اسلام نے اولیاء کی رائے کے ساتھ لڑکی کی رضامندی کو بھی ضروری قرار دیا ہے ،اسلئے نکاح کے مسئلے لڑکی کے ولی کا منصب نہایت ہی ذمہ دارانہ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب بھی کہیں ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو اسکے مقابلے میں حقوق بھی ہوتے ہیں اس وجہ سےولی پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جوکہ لڑکی کے حقوق سے وابستہ ہیں کہ بچی کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اگر لڑکی کے اولیاءاپنی ذمہ داریاں کما حقہ شریعت کے مطابق پوری کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس نتیجہ میں لڑکی کی اجازت ورضامندی سے نکا ح اسکا نکاح کفو میں کرادیں۔
احادیث مبارکہ میں بڑی اہمیت کے ساتھ ولی کی ضرورت کو واضح کیا گیا ہے ، حضر ت ابو موسی اشعری ص سے مروی ہے کہ نکاح بغیر ولی کے نہیں کیا جائے ، “لانكاح إلاّ بولىّ وشاهدَىْ عدل” (نکاح نہیں ہے بغیر شاہدین اور ولی کے )
جمہور کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ بغیر ولی کے نکاح درست ہی نہیں ہوگا ، اور حنفیہ کے نزدیک اس کی مراد یہ ہے کہ ولی کے بغیر نکاح کرنا بہتر نہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ : ” أيما امرأة نكحت بغير إذن مواليها فنكاحها باطل ” ثلاث مرات ” (جس عورت نے اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا ، اس کا نکاح باطل ہے)
جمہور کے نزدیک اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ اس کا نکاح ہی درست نہیں ہوگا ، احناف اس سے مراد لیتے ہیں کہ اس کا نکاح خلاف اولی ہے ، احناف کےاس پیش نظر قرآن مجید کی وہ آیات جن میں خود عورتوں کی طرف نکاح کرنے کی نسبت کی گئی ہے۔
اسکے علاوہ اور ارشاد فرمایا کہ: فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
(پھر اگر اس کو )تیسری بار( طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ بھی طلاق دے دے تو ان دونوں کو میل جول کرلینے میں کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ جان لیں کہ الله کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے ، یہ الله تعالی کی حدود ہیں جنہیں وہ جاننے والوں کے لئے بیان فرما رہا ہے۔)
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
)اور جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب کہ وہ آپس میں دستور کے مطابق رضامند ہوں یہ نصیحت انہیں کی جاتی ہے جنہیں تم میں سے الله تعال ٰ ی پر اور قیامت کے دن پر یقین و ایمان ہو اس میں تمہاری بہترین صفائی اور پاکیزگی ہے الله تعال ٰ ی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(
نیز یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ رسول اللہ ا نے حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو ان کے کسی ولی کے بغیر ، اور حضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے اپنی بھتیجی کا نکاح فرمایا بھائی سے اجازت لیے بغیر ، اس لیے حنفیہ نے بالغ ہونے کے بعد لڑکیوں کو خود اپنے نفس پر مختار قرار دیا ہے ، بہر حال آیات و احادیث کی جو بھی تشریح کی جائے ، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ خاص طور پر لڑکیوں کے نکاح کے سلسلہ میں ولی کی خاص اہمیت ہے اور اس کی رائے نظر انداز کردینا کسی طور پر مناسب نہیں ۔
لیکن افسوس کہ آج کل اس سلسلہ میں افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے ، کچھ لوگ وہ ہیں جو لڑکیوں کو اس کے حق انتخاب ہی سے محروم کردیتے ہیں ، اوربغیر لڑکی کے مشورہ کے اس کا رشتہ طے کردیتے ہیں ؛ حالاں کہ ولی کے لیے ضروری ہے کہ وہ لڑکی کی رضا معلوم کر کے ہی اس کا نکاح کرے ، چنانچہ حضورا نے فرمایا کہ لڑکی بمقابلہ اپنے ولی کے اپنی ذات کی زیادہ حق دار ہے اور کنواری لڑکی سے بھی نکاح کے سلسلہ میں اجازت لی جائے گی ۔ “الأيم أحق بنفسها من وليّها”
چنانچہ احکام کے اعتبار سے فقہاء نے ولایت کی تین قسمیں بیان کی ہیں :
ولایت علی النفس یعنی کسی کی ذات پر ولایت ، اس میں نکاح ، تعلیم ، علاج ، کام میں لگانے و غیرہ کی ذمہ داری آتی ہے ، ولایت علی المال یعنی مالی امور کی ولایت ، اس میں زیر ولایت شخص کے مال کی حفاظت ، اس پر خرچ کرنا ، اس کی سرمایہ کاری اور تفریق و غیر ہ کرنا داخل ہے ، تیسری قسم ہے ولایت علی النفس والمال یعنی جان و مال دونوں کی سر پرستی اور نگرانی ۔
ولایت بنیادی طور پر نابالغ اور لڑکوں اور لڑکیوں پر حاصل ہوتی ہے ؛ کیوں کہ یہ دونوں خود درست فیصلہ کرنے اور اپنے نفع ونقصان کا صحیح اندازہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ، اس لیے اس بات پر فقہاء متفق ہیں کہ نابالغ اور فاتر العقل شخص خود اپنا نکاح نہیں کرسکتا ، اولیاء ہی کو حق ہے کہ اس کا نکاح کریں ، لیکن بالغ ہونے کے بعد بھی مستحسن طریقہ یہ ہے کہ اولیاء کو اعتماد میں لے کر نکاح کیا جائے ، اس لیے کہ وہ اپنے تجربہ اور جہاں بینی کی بنیاد پر جتنا درست فیصلہ کرسکتے ہیں ، خود یہ لڑکے اور لڑکیاں نہیں کرسکتے ، اسی لیے احناف کے نزدیک اختیارات کے اعتبار سے ولایت کے تین درجے ہیں ۔
۱۔ولایتِ الزام ۲۔ولایتِ اجبار ۳۔ولایت ندب
۱۔ ولایتِ الزام :سے مراد یہ ہے کہ ولی کا کیا ہوا نکاح زیر ولایت شخص کے حق میں لازم ہوجائے اور اس کو نکاح رد کرنے کا حق باقی نہیں ہے چنانچہ والد یا داد ا نے اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کردیا تو وہ نکاح لازم ہوگیا ، بشرطیکہ ولی نکاح کرتے وقت نشہ کی حالت میں نہ رہا ہو اور وہ اپنے اختیارات کے غلط استعمال کرنے میں معروف نہ ہو ، لڑکے اور لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد بھی اس نکاح کو رد نہیں کر سکتے ۔
۲۔ولایتِ اجبار: سے مراد یہ ہے کہ زیر ولایت شخص کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کردینا درست ہو ، لیکن یہ اس پر لازم نہ ہو ، بالغ ہونے کے بعد اگر انہیں رشتہ پسند نہ آئے تو وہ اس رشتہ کو رد کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، اس اختیار کو ’ خیارِ بلوغ ‘ کہتے ہیں ، یہ ولایت باپ دادا کے علاوہ دوسرے رشتہ داروں چچا ، بھائی و غیرہ کو حاصل ہوتی ہے ، البتہ اس میں کسی قدر اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک لڑکی کو بھی بالغ ہونے کے بعد اپنی ذات کے بارے میں اختیار حاصل ہو جاتا ہے اور وہ اپنا نکاح کرسکتی ہے ، اور دوسرے فقہاء کے نزدیک بالغ ہونے کے بعد بھی ولی کی وساطت کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا ۔
۳۔ولایتِ ندب :یعنی جن کو خود اپنا نکاح کرنے کا حق حاصل ہے ، لیکن مستحب اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ وہ ولی کی رضامندی ہی سے نکاح کرے ، یہ حکم لڑکوں اور لڑکیوں دونوں ہی کے لیے ہے ، لیکن لڑکیاں چوں کہ اندرونِ خانہ رہتی ہیں ، حالات سے واقف نہیں ہوتیں اور اپنی جذبات کی وجہ سے بعض دفعہ بہت جلد مردوں کے دام میں آجاتی ہیں ، اس لیے عورتوں کے لیے اس کی اہمیت نسبتاً زیادہ ہے ، اسی لیے خواتین کو اس سلسلہ میں زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اسی لیے بعض فقہاء نے یہ رائے قائم کی ہے کہ لڑکیاں بالغ ہونے کے بعد بھی خود اپنا نکاح نہیں کرسکتیں ۔
• ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کی صورتیں
ولایت اجبار کے حوالے سے ائمہ اربعہ اختلاف ہے ۔۔۔احناف کے نزدیک ولایت کی علت صغر ہے یعنی بچی بالغ ہو پھر چا ہے کنواری ہو یا ثیبہ ولی کو ولایت حاصل ہوگی جبکہ بالغہ ثیبہ اور بالغہ باکرہ پر ولی کو ولایت حاصل نہیں ہوگی۔مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک ولایت کی علت کنوارہ پن اور صغر دونوں ہیں یعنی لڑکی بالغہ اور ثیبہ ہو اسپر ولی ولایت حاصل نہیں ہو سکتی باقی بالغہ باکرہ ،نابالغہ باکرہ اور نابالغہ ثیبہ پر ولی کو ولایت حاصل ہوگی ۔ شوافع کے نزدیک ولایت کی علت صرف کنوارہ پن ہے یعنی بالغہ ثیبہ اور نا بالغہ ثیبہ ان پر ولی کو ولایت حاصل نہیں ہوگی لیکن بالغہ کنواری اور نا بالغہ کنواری پر ولی کو ولایت حاصل ہوگی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ دو صورتیں اتفاقی ہیں اور دو صورتیں اختلافی ہیں ۔۔۔اتفاقی صورتیں یہ ہیں بالغہ ثیبہ (شوہر دیدہ) اپنا نکاح خود ولی کی اجازت کے بغیر کرسکتی ہے ،جبکہ نابالغہ باکرہ (کنواری) اپنا نکاح خود ولی کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتی ، اور اختلافی صورتیں یہ ہیں بالغہ باکرہ (کنواری)اور نابالغہ ثیبہ (شوہر دیدہ) کو اپنا نکاح کرنے کا اختیارہے یا نہیں ان دونوں اختلاف ہے ۔
بالغہ ثیبہ:
جمہورفقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر دیدہ بالغہ پر ولی کو ولایت اجبار حاصل نہیں ہے وہ خود اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کر سکتی ہے جوکہ دلیل کے طور پر اس حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ:
«الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْمَرُ، وَإِذْنُهَا سُكُوتُهَا»
ثیبہ(شوہر دیدہ)اپنے معاملے میں ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے۔
بالغہ باکرہ :
احناف کی رائے یہ ہے کہ کنواری عاقلہ بالغہ لڑکی پر ولی کو ولایت اجبار حاصل نہیں ہے وہ دلیل اسطرح دیتے ہیں کہ :
جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: ” إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ، لِيَرْفَعَ بِي خَسِيسَتَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ: قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَى الْآبَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ “
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی نبیﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرے ابو نے اپنے بھائی کے بیٹے سے میرا نکاح کر دیا ہے اور وہ میری وجہ اسکی کمتری کو دور کرنا چاہتا ہے حالانکہ میں اسکو ناپسند کرتی ہوں ، تو نبیﷺ نے اسکو اختیار دیا (کہ وہ نکاح کوفسخ کر سکتی ہیں) اس پر اس نے کہا کہ جو میرے ابو نے میرے ساتھ کیا ہے میں اسے برقرا رکھتی ہوں لیکن میں عورتوں کو بتلانا چاہتی ہوں کہ ہمارے متعلق ہمارے والدین کے پاس کچھ نہیں ہے ۔
ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ جس میں ہے کہ کنواری لڑکی سے اسکے نفس کے بارے میں اجازت لی جائے ،اس سے معلوم ہوا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی پر ولایت اجبار حاصل نہیں بلکہ ولایت ندب حاصل ہے اور وہ اپنا نکاح خود کرے گی وہ نافذ تو ہوگا لیکن اسکا یہ عمل خلاف مستحب ہے۔
وِلَايَةُ نَدْبٍ عَلَى الْمُكَلَّفَةِ وَلَوْ بِكْرًا وَوِلَايَةُ إجْبَارٍ عَلَى الصَّغِيرَةِ وَلَوْ ثَيِّبًا وَمَعْتُوهَةٍ وَمَرْقُوقَةٍ كَمَا أَفَادَهُ بِقَوْلِهِ ( وَهُوَ ) أَيْ الْوَلِيُّ ( شَرْطُ ) صِحَّةِ ( نِكَاحِ صَغِيرٍ وَمَجْنُونٍ وَرَقِيقٍ ) لَا مُكَلَّفَةٍ ( فَنَفَذَ نِكَاحُ حُرَّةٍ مُكَلَّفَةٍ بِلَا ) رِضَا ( وَلِيٍّ ) وَالْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ تَصَرَّفَ فِي مَالِهِ تَصَرَّفَ فِي نَفْسِهِ وَمَا لَا فَلَا
لیکن اگر عاقلہ بالغہ لڑکی نے اپنا نکاح غیر کفو میں کیا تو اولیاء کو اس کا نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہو گا ۔ ابن ہمام ؒ فرماتے ہیں : وَإِذَا زَوَّجَتْ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ فَلِلْأَوْلِيَاءِ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَهُمَا ؛ لِأَنَّهَا أَلْحَقَتْ الْعَارَ بِالْأَوْلِيَاءِ
(دینداری ، حسب ونسب ، آزادی ، مال ودولت ان چیزوں میں میاں وبیوی کے درمیان برابری کو کفو کہتے ہیں ۔) یہ بات ذہن نشین کرتے چلیں کہ احناف کے ہاں بھی لڑکی کا اس صورت میں اپنا کیا ہوا نکاح نافذ ہوگا کہ جب وہ بالغہ کے ساتھ ساتھ عاقلہ بھی ہو ، اس کے اندر رُشد اور سوجھ بوجھ بھی ہو ۔ لیکن اس بالغہ پر ولی کو مطلقا ولایت اجبار حاصل ہے جو مجنونہ ہو اور پاگل ہو ۔ ظاہر روایت کے مطابق وہ نکاح کفو میں کرے یا غیر کفو میں منعقد ہوجائے گا ۔ البتہ اگر غیر کفو میں کیا تو ولی کو اعتراض کا حق ہوگا ۔
شوافع ، مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں کنواری بالغہ اور کنواری نابالٖغہ پر ولی کو ولایت اجبار حاصل ہے ۔ اور ان دونوں کی اجازت ومرضی کے بغیر کیا ہوانکاح نافذ نہیں ہو گا ۔ لیکن ایسا نکاح اس کے والد نے کیا ہو تب نافذ ہوجائیگا ۔حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا ، وَالْبِكْرُ يَسْتَأْذِنُهَا أَبُوهَا فِي نَفْسِهَا ، وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا ، وَرُبَّمَا قَالَ : وَصَمْتُهَا إِقْرَارُهَا.
ثیبہ اپنے نفس پر زیادہ حق رکھتی ہے ولی کے مقابلے میں ، اور کنواری کا نکاح اس کے والد کے ذ مہ ہے ۔
شوافع کے ایک رائے کے مطابق لڑکی سے اجازت نہ لینے کی وجہ کوئی ظاہری دشمنی وعداوت ہو تو اس صورت میں باپ کو ولایت اجبار نہیں پھر لڑکی کی اجازت سے اس نکاح کروایا جائے گا ، مغنی المحتاج کی عبارت ہے کہ: أَمَّا إذَا كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا عَدَاوَةٌ ظَاهِرَةٌ فَلَيْسَ لَهُ تَزْوِيجُهَا إلَّا بِإِذْنِهَا
(اگر ان دونوں کے درمیان کوئی ظاہری عداوت تو ولی کو اس شادی کرنے کا اختیار نہیں سوائے اس کی اجازت کے ۔)
حنابلہ کے نزدیک ولی لڑکی کا نکاح کفو میں کروادیتا ہے تو نکاح نافذ ہوجائے گا مغنی میں ہے کہ : وَإِذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ الْبِكْرَ، فَوَضَعَهَا فِي كَفَاءَةٍ، فَالنِّكَاحُ ثَابِتٌ، وَإِنْ كَرِهَتْ، كَبِيرَةً كَانَتْ أَوْ صَغِيرَةً.
(اگر کسی شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح کفو میں کروادیا تو اسکا نکاح درست ہوجائے گا اگرچہ وہ ناپسند کرتی ہو چاہے بڑی ہو یا چھوٹی )
احناف کی رائے یہ ہے کہ اگرعاقلہ بالغہ لڑکی اپنا نکاح کفو میں خود کردیا ہو تو وہ نکاح منعقد ہوجائے گا لیکن اس نے غیر کفو میں کیا ہے تو مسئلہ ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا چا ہے تو وہ فسخ کروا سکتا ہے ،چنانچہ جمہور فقہاء فرماتے ہیں کہ لڑکی کا خود کیا ہوا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا وہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ۔ «أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ»، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ
(اگر کسی عورت نے بغیر ولی کے نکاح کرلیا تو اس کا نکاح باطل ہے ،باطل ہے ، باطل ہے )
نا بالغہ ثیبہ و نابالغہ باکرہ:
احناف کے نزدیک ولی کو ولایت اجبار حاصل ہے پھر چاہے باکرہ ہو یا ثیبہ : وَوِلَايَةُ إجْبَارٍ عَلَى الصَّغِيرَةِ وَلَوْ ثَيِّبًا
شوافع کی رائے ہے کہ ولی ثیبہ کا نکاح اسکی اجازت کے بغیر نہیں کرواسکتا : وليس له تزويج ثيب إلا بإذنها فإن كانت صغيرة لم تز وجوا
اور اس کے ساتھ بالغہ باکرہ اور نابالغہ باکرہ پر ولی کو ولایت اجبار کا حق حاصل ہے :
(وَلِلْأَبِ) وِلَايَةُ الْإِجْبَارِ وَهِيَ (تَزْوِيجُ) ابْنَتِهِ (الْبِكْرِ صَغِيرَةً أَوْ كَبِيرَةً) عَاقِلَةً أَوْ مَجْنُونَةً إنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا عَدَاوَةٌ ظَاهِرَةٌ (بِغَيْرِ إذْنِهَا) لِخَبَرِ الدَّارَقُطْنِيّ: «الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يُزَوِّجُهَا أَبُوهَا» . وَرِوَايَةِ مُسْلِمٍ: «وَالْبِكْرُ يَسْتَأْمِرُهَا أَبُوهَا»
عاقلہ بالغہ لڑکی پر ولی کو ولایت اجبار کا حق حاصل ہے پھر چاہے عاقلہ ہو یا مجنونہ
فقہاء کی آراء
واضح رہے کہ اگر کوئی عورت گھرسے بھاگ کر شادی کرپسند کی شادی کرتی ہے تودیکھا جائےگا کہ وہ نکاح اس نے اپنے ‘‘ کفو’’میں کیا ہے ؟یا غیر کفو میں ؟اگر وہ نکاح ‘‘غیر کفو’’میں ہو تو مفتی بہ قول کے مطابق وہ نکاح صحیح نہ ہوگا۔
امام زیلعی ؒ (م ۷۷۴ھ) لکھتے ہیں :
وعن ابی حنيفة وابی يوسف انه ؛ لايجوز في غير الکفء لان كثيرا من الاشياء لا يمكن دفعه بعدالوقوع واختيار بعض المتاخرين الفتوی بهذه الرواية لفسادالزمان
‘‘امام ابو حنیفۃ اور اما م یوسف ؒ سے روایت ہے کہ غیر کفو میں نکاح جائز نہیں ہے اس لیے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن کا نکاح ہوجانے کے بعد حل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔بعض متاخرین نے زمانےکے فساد کی وجہ سے اسی روایت پر فتویٰ دیا ہے ۔
شیخ ابن نجیم مصری (م ۔ ۹۱۰ھ) لکھتے ہیں :
ان كان الزوج كفوا نفذ نكاحها والا فلم ينعقد اصلا وفی المعراج معزيا الی قاضی خان وغيرہ والمختار للفتوىٰ في زماننا
‘‘ اگر عورت کا شوہر اس کے ہم پلہ ہو تواس کا نکاح ہوجائے گا اگر ایسا نہ ہو تو نکاح منعقد نہیں ہوگامعراج میں قاضی خان اور اس کے علاوہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہے۔اور ہمارے زمانے میں یہی قول پسندیدہ ہے ۔’’
علامہ حصکفی ؒ ( م۱۰۸۸ ھ) لکھتے ہیں :
ويفتی فی غير الکفو بعدم جوازہ وهو المختار للفتوى لفساد الزمان
‘‘ عورت کا غیر کفو میں نکاح کرنا جائز نہیں ہے اور یہی مفتی بہ قول ہے ۔’’
اگر لڑکی کے اولیا اس نکاح سے راضی ہوں تووہ نکاح صحیح ہو گا۔
لیکن اگرگھر سے بھاگ کرکیا ہوا نکاح غیر کفو میں ہو تو اس میں اہل علم کا اختلاف ہے ۔
امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر اہل علم کے نزدیک اس قسم کا نکاح جا ئز ہے ۔
علامہ ابن ر شد مالکی ؒ (م ۵۳۵ ھ) لکھتے ہیں :
وقال ابو حنيفة وزفر والشعبی والزهری :اذا عقدت المراۃ نكاحها بغير ولى كان كفوا جاز
‘‘ اور امام ابوحنیفہؒ ،زفر،شعبیؒ ،زہریؒ نے کہا کہ جب عورت نے اپنا نکاح ولی کی اجازت بغیر نکاح کیا اگر وہ نکاح کفو میں ہوتو و ہ نکاح جائز ہوگا۔’’
مگر جمہور فقہاکے نزدیک یہ نکاح جائز نہیں ہے ۔
امام مالک ؒ کے نزدیک اس قسم کا نکاح جو ولی کی اجاز ت کے بغیر کیا جائے وہ سرے سے منعقدہی نہیں ہوگا۔
علامہ ابن شد ؒ لکھتے ہیں :
فذهب مالك الی انه لا يكون النكاح الا بولی وانها شرط فی الصحة فی رواية اشهب عنه
‘‘ امام مالک ؒ کا مذہب یہ ہےکہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوگانکاح کی صحت کےلیے ولی کی اجازت شرط ہے ۔’’
ابن قدامہ نے جمہور کے نقطہ نظر کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے :
ان النکاح لا یصح الا بولی ولا تملک المرأۃ تزوج نفسہا ولا غیرھا ،ولا توکل غیر ولیھا فی تزویجھا فان فعلت لم یصح النکاح
حنفیہ کے نزدیک عاقلہ بالغہ لڑکی خود اپنا نکاح ولی کے مرضی کے بغیر بی کر لے تو اسکا نکاح منعقد ہوجائے گاالبتہ اسکا یہ عمل خلاف مستحب ہوگا ۔
عن ابی حنیفۃ تجوزمباشرۃ البالغۃ العاقلۃ عقدا نکاحہا ونکاح غیرہا مطلقا الا انہ خلاف المستحب وھو ظاھر المذھب
خلاف مستحب کے لفظ سے ظاھر ہے کہ اسکی وجہ سے لڑکی گنہگار نہیں ہوگی ،البتہ اس طریقہ کار کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی ۔
اور دیگر جمہور فقہاکے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا ۔لیکن اگر کسی عورت نے ایسا کرلیا تو ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔
جمہور فقہاکے مؤقف کو نقل کرتے ہوئے علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ (م ۶۲۰ ھ) لکھتے ہیں :
ذهب سعید ابن مسییب والحسن و عمرا بن عبدالعزیز وجابرابن زید والثوری وابن ابی لیلیٰ وابن شبرمه ابن المبارک وعبيدالله العنبری والشافعی واسحاق وابو عبید وروی عن ابن سیرین والقاسم بن محمد والحسن بن صالح وابی صالح وابی یوسف لايجوز ليا ذلک بغير اذن الولی فان فعلت كان موقوفاً علی اجازته
اور جمہور فقہاکے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح کرنا جائز نہیں ہے اگر اس نے ایسا کیا تو ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔
مندرجہ بالا حوالوں سے معلوم ہوا کہ جمہور فقہا کے نزدیک اولیا کی اجازت کے بغیر عورت کا از خود اپنا نکاح کرنا جائز نہیں ہے اور اسلامی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئےیہ ہے کہ ولی کی رائے یا اسکی اجازت لے لی جائے اور ولی ہی عقد نکاح کو انجام دے تاکہ عورت بے حیائی کی طرف منسوب نہ ہو اور عرف و دستور کے خلاف بھی نہ ہو ۔
نتائج:
ان دلائل پرایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی مسلک بالکل غلط ہے ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دئیے ہیں ؟ یا ایک حکم دوسرا حکم منسوخ کرتا ہے ؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشاء ٹھیک طور پر متحقق ہو سکتا ہے ؟
1 ۔نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیاء عورت اسی بناء پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے ۔
2۔ بالغہ عورت ( باکرہ ہو یا ثیبہ ) کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہو سکتا ، خواہ وہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو ۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضا نہ ہو اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہو سکے ۔
3 ۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہو جائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں اپنے اولیاء کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں ۔ اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے شارع نے اس کے نکاح کیلئے اس کی اپنی مرضی کےساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے ۔ نہ عورت کیلئے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرے اور نہ ولی کیلئے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے ۔
4 ۔اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کردے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا نا منظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے عدالت تحقیق کرے گی کہ یہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں اگر یہ ثابت ہو جائے کہ عورت کو نکاح نامنظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی ۔
5۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اس کا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا ۔ ولی منظور کرلے تو نکاح برقرار رہے گا نامنظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے ، عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض وانکار کی بنیاد کیا ہے ۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہیں کرتا تو یہ نکاح فسخ کیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئ الاختیا ر ٹھہرایا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی ۔
ملکی قوانین :
نکاح اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک وہ بالغہ لڑکی کی اپنی مرضی سے نہ ہو لیکن شافعی اور مالکی مکتبہ فکر کے مطابق اس کی مرضی اس کے ولی کے ذریعے ہو جبکہ حنفی فقہ کے مطابق وہ اپنی مرضی سے ولی کے ذریعے اور اس کے بغیر دونو ں صورتوں میں دے سکتی ہے ۔ اور جبکہ 1997 میں صائمہ وحیدکے نام سے کیس ہواتھا اسی کے مطابق آج تک فیصلہ ہوتا ہوا آرہا ہے جوکہ کیس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔
حافظ عبد الوحید جو صائمہ وحید کے والد کی طرف سے ایک کر منل اپیل نمبر 98 (1997) دائر کی گئی صائمہ وحید گورنمنٹ کالج برائے خواتین لاہور کی تعلیم یافتہ تھی اس نے جواب دہندہ نمبر 2 کے ساتھ اپنی مرضی سے 26 فروری 1996 کو شادی کی جو بظاہر درخواست دہندہ کی اجازت کے بغیر تھی ۔ درخواست دہندہ کی طرف سے شادی کو غیر اعلانیہ قرار دیا ۔ 9 مارچ 1996 کو اس بات کا پتہ لگنے پر درخواست دہندہ نمبر 2 کے گھر والوں سے ملاقاتیں کی ۔ پھر یہ دعویٰ کیا گیا کہ جواب دہندہ نمبر2 نے اس نکاح نامہ سے دست برداری کا اظہار کرتے ہوئے صائمہ وحید کو اس شادی کے معاہدے سے آزاد کر دیا ہے ۔ درخواست دہندہ نے یہ جواب دیا کہ معاملہ ایسا رہا اور 9 اپریل 1996 کو جواب نمبر 2 اور اس کی بہن نے صائمہ وحید کو گھر چھوڑنے پر اکسایا اس پر صائمہ وحید نے ادارہ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍ‘‘ دستک’’ میں جواب نمبر 1 (جو کہ اس عدالت میں وکیل اور انسانی حقوق کی علمبردار بھی ہیں ) کی مدد سے رہائش اختیار کی ۔ یہ دعوی کیا گیا کہ ایک پٹیشن دائر کی گئی Habeas carpus (عدالت کی طرف سے حراست میں رکھے ہوئے شخص کو پیش کیا جائے )کے تحت H / 393 (1996) جواب نمبر 2 کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ اس بیوی کو جواب دہندہ 1 سے چھڑایا جائے ۔ اس درخواست کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل بینچ نے 16 اپریل 1996 کو اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ یہ صاف صاف بری ء النیت اور ان حدود سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے جو خاندانی قوانین سے تعلق رکھتی ہیں ۔
اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا اپیل /L 180 (1996) اور دو ججوں پر مشتمل بینچ نے فیصلے میں تضاد کیا اور یہ معاملہ فاضل جج صاحبان کی طرف سے چیف جسٹس کو بھیجا گیا تاکہ نیا بینچ ترتیب دیا جائے ، اس کے بعد تین ججوں پر مشتمل فل بینچ نے 10 مارچ 1997 کو یہ فیصلہ سنایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی جائز ہے ۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے یہ رائے رکھی ہے کہ ایک آزاد اور مسلمان بالغ لڑکی اپنی ولی یا کسی اور رشتہ دار سے اجازت لیے بغیر اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے ۔ اور یہ شادی شرعی اور قانونی لحاظ سے جائز ہوگی ۔
نتائج :
قرآن مجید کے احکامات ، احادیث رسول اللہ ﷺ اور فقہی آراء اور پاکستانی عدالتوں کے فیصلہ جات کے نتیجے میں ہم یہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ :
1 ۔اسلام میں بالغ لڑکی اپنا نکاح خود کرنے کی مجاز ہے اور اسلام نے اس کو اجازت دے رکھی ہے کیونکہ اسلام کا مقصد مصالح کا حصول اور مفاسد کا سد باب کرنا ہے لیکن اپنے خواہشات کو اسلام کا نام دے کر مرضی کی شادی کرنے پر قتل مقاتلہ کرنا قانونا جرم ہے اور شرعا گناہ ہے ۔
2 ۔ جب اسلام نے بالغ عورتوں کو اپنا نکاح خود کرنے کا حق دیا ہے تو انہیں قتل کرنا اور اس کو اپنی انا کا مسئلہ قرار دینا جائز نہیں ہے ۔ اس حوالے سے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے قانونی حقوق کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے ۔
3۔ علماء کرام اور میڈیا کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگو ں کو قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے قانون کی پاسداری کی ترغیب دیں ۔ اور علماء کرام لوگوں کو اسلام کے بارے میں آگاہی فراہم کرے اور میڈیا قانون کے بارے میں آگاہی فراہم کرے تو بڑی حد تک مثبت پیش رفت ممکن ہے ۔
4 ۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں بالغ لڑکیوں کا یہ حق تسلیم کرکے اس کو قانون کا درجہ دیا ہے اور فقہاء نے بھی عدالتوں کی توثیق کے بعد ولی کے اعتراض کو غیر ضروری قرار دیا ہے اب جب تک یہی عدالتیں ان فیصلوں کو نہیں بدلتیں تو یہ قانون رہے گا اور اس پر عملدآمد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے لیکن اس ضمن میں ان کا کردار قابل تحسین نہیں ہے ۔
5 ۔یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے اکثر ملکوں میں یہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ دین سے بے خبری ہے اور دوسری وجہ قبائلی نظام ہے۔ جس میں لوگ اپنے عام معمولات میں دین کی بجائے رسم ورواج کو دین سے زیادہ اہمیت دے کر ان پر کٹ مرنے کو غیرت اور حمیت کی علامت گردانتے ہیں ۔
6 ۔ اس طرح کے معاملات سے اکثر خاندانوں کے خاندان تباہ ہو جاتے ہیں ۔ اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے مؤثر قانون سازی کی ضرور ت ہے تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ مرضی کی شادی کرنا گناہ ہے نہ کہ جرم ، بلکہ اس پر غلط ردٖ عمل گناہ اور جرم ہے لیکن یہ اس وجہ سے قابل عمل نہیں کہ قانون ساز اداروں کے اکثر اراکین خان ، وڈیرہ ، سردار اور جاگیر دار ہونے کی وجہ سے اس طرح کے لوگوں کی حمایت کرکے اپنے ووٹ بڑھاتے ہیں ۔
7 ۔ ملکی قوانین کے تحت قصاص میں ایف ۔ آٓئی ۔ آر مدعی کی طرف سے درج کیا جاتا ہے جبکہ اس طرح کے بیشتر واقعات میں بالواسطہ ملوث ہوتے ہیں اور بعد میں ان کی معافی سے قاتل بری ہوجاتے ہیں اس حوالے سے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے بیشک اسلام نے ورثاء کو معافی کا اختیار دیا ہے ۔ لیکن ریاستی اختیار کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوئی سزا تو ہونی چاہیے ۔
8 ۔ ایف۔ آئی ۔ آر پولیس درج کرتی ہے اور ریاست کی طرف سے اے پی پی یا پی پی مقدمہ کی پیروی کرتا ہے ، کیونکہ وہ عدلیہ کے ارکان نہیں ہوتے بلکہ ہوم دیپارٹمنٹ کے ماتحت ہوتے ہیں اور سیاسی یا اور قسم کی رسائی کو خارج ازامکان نہیں قرار دیا جاسکتا بعٖض دفعہ پولیس بھی کیس کو صحیح انداز میں ہینڈل نہیں کرتے جس کی وجہ سے متاثرہ فریق انصاف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
9 ۔ عدالتوں میں فیصلے گواہی کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں لیکن مختلف عوامل کی وجہ سے گوہی کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے انصاف نہیں مل پاتا اور مجرم چھوٹ کر آرام کی زندگی گزارتے ہیں ۔
خلاصہ بحث
واضح رہے کہ اولیا کی اجازت کے بغیر گھر سے بھاگ کر کیا ہو ا نکاح شریعت اور معاشرے کی نگاہ میں پسندیدہ نہیں ہےاور ایک قسم کی بے حیائی ہے ،اس لیے کہ شریعت نے جہاں نکاح میں عورت کی پسند اور ناپسند کو ملحوظ رکھا ہے وہاں ساتھ راستہ بھی بتادیا کہ تمام معاملات اولیاء کے ہاتھوںسر انجام ہوں ،اسلام نے جہاں اس بات کی اجازت دی کہ ایک مسلما ن خاتون کا نکاح بلاتمیز رنگ ونسل ،عقل وشکل اور مال وجاہت ہر مسلمان کے ساتھ جائز ہے وہاں اس نے انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ پابندی بھی عائد کی ہے کہ اس عقد سے متاثر ہونے والے اہم ترین افراد کی رضا مندی کے بغیر بےجوڑ نکاح نہ کیا جائے تاکہ اس عقد کے نتیجے میں تلخیوں لڑائی جھگڑوں کا طوفان برپا نہ ہوجائے ،اس لیے کہ جب اولاد جذبات میں آکر کوئی فیصلہ کرلیتی ہےاورخود قدم اٹھاتی ہے تو وہ اس سے قطع نظر کرلیتی ہے کہ ان کے والدین کا بھی ان پر کوئی حق ہے ،جنہوں نے ان کو پالا پوسااور ان کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ حسب توفیق زیور تعلیم اور فن وہنر سے آراستہ کیا ،ان کی رضامندی میں اپنی خوشی کو تلاش کرنےکے بجائے الٹا ان کو مجرموں کی طرح گلی ومحلہ سے منہ چھپاکرنکلنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔کیا ان کی محبتوں وشفقتوں کایہی صلہ ہے ؟
شریعت اسلامیہ اعتدال سے مزین ہے اس کے تمام احکام افراط وتفریط سے پاک انسان کے فطری جذبات وخواہشات کی رعایت کے ساتھ تعدی اور حد سے تجاوز کی ممانعت کے اصول پر دائر ہیں اس لیے جب ایک طرف انسان کو ناجائز شہوت رانی سے سختی سے منع کیا گیا ہے توضروری تھا کہ فطری جذبات وخواہشات کی رعایت سے اس کا کوئی جائز اور صحیح طریقہ بھی بتلایا جائے اسی کا نام قرآن وسنت کی اصطلاح میں نکاح ہے ،اورنکاح کے معاملہ میں شریعت نے مرد وعورت کو پسند اور ناپسند کا پورا اختیار دیا ایک طرف اولیا کو جبر وسختی سے کام لینے سے منع کیا تو دوسری طرف مرد وعورت کو بھی ترغیب دی کہ وہ اولیا کو اعتماد میں لے کر کوئی قدم اٹھائیں ۔تاکہ آپس کے جھگڑوں سے معاشرتی امن وسکون متاثر نہ ہو۔