فصلِ اوّل:قتل بہ جذبۂ رحم کی تعریف
تعریف:
وہ مریض جوکسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہوجس کی وجہ سےشدید تکلیف سے دوچار ہواوراس کے زندہ رہنےکی کوئی توقع نہ ہو یاوہ بچےجوپیدائشی طورپر غیرمعمولی حدتک معذورہوں،ان کی زندگی محض ایک طرح کابوجھ ہو،جذبۂ رحم کی نیت سے ایسے مریضوں اور بچوں کی زندگی کومصنوعی طریقہ سے ختم کر دینا تاکہ وہ اس تکلیف سے آزاد ہوجائیں اور آسانی سے ان پرموت طاری ہوجائے،اسی عمل کوقتل بہ جذبۂ رحم کہاجاتاہے۔علم طب کی اصطلاح میں اس عمل کو Euthanasiaکہاجاتاہے، جوکہ Euاورthanasiaکامجوعہ ہے،یہ دونوں الفاظ یونانی زبان کےہیں ،Eu‘‘اچھا’’ ‘‘رحم ’’اور‘‘آسانی’’کی معنی میں استعمال ہوتاہےاور thanasia‘‘موت’’اور‘‘قتل’’کی معنی میں استعمال ہوتاہے۔ لغتاََEuthanasiaکامطلب اچھی موت،آسان موت یاترحم دلانہ قتل بنتاہے۔
اس ضمن میں انسائکلوپیڈیابریٹانیکاکےمقالہ نگارنےبھی یہی موقف اختیارکیاہے:
Euthanasia, also Mercy Killing, act or practice of painlessly putting to death persons suffering from painful and incurable diseases or incapacitating physical disorders.
یوتھنیزیا،نیز قتل رحم ایک ایسااقدام یاعمل جس سےاذیت ناک اورلاعلاج مرض یالاچاری پرمبنی جسمانی بگاڑسےدوچارمریض کوبےآزارموت ماردیناہے۔
قتل رحم کومیڈیکل کی زبان میں ‘‘یوتھنیزیا’’ کہاجاتاہےلیکن اس مخصوص عمل کےلیےدوسرے الفاظ بھی استعمال کئےجاتےہیں جن کایہاں ذکرکرناضروری ہےتاکہ جب بھی اورجہاں بھی یہ الفاظ استعمال ہوں تومذکورہ عمل کی شناخت ممکن ہوسکے۔
عربی میں اس کو ‘‘الموت الرحیم/القتل بدافع الرحمۃ/القتل بدافع الشفقۃ/القتل الرحمۃ/یا القتل الرحیم ’’بھی کہاجاتاہے۔اردومیں اسی عمل کوقتل بہ جذبۂرحم/قتل بدافع شفقت /رحم دلانہ قتل کہتےہیں۔
اورانگریزی میں اس کےلئے:
Pulling the Plug/Assisted Suicide/Putting to Death /Mercy killing/Good Deathکےالفاظ استعمال کیےجاتےہیں۔
دیکھاجائےتوجذبۂ رحم کی نیت سے کسی انسان کوقتل کرنا ایک نیا مسئلہ ہے لیکن بہت اہمیت کاحامل ہے،اگرچہ ابھی اس سے کم لوگ واقف ہیں تاہم بتدریج معاشرےمیں اپنی جڑیں مضبوط کرتاجارہاہے،جب کہ اس مسئلہ میں شامل لفظ ‘‘قتل’’خود اس بات کوواضح کرتاہےکہ ایک سنجیدہ اوربااخلاق ومہذب آدمی کسی انسان کے قتل کو کبھی بھی اچھاتصورنہیں کرےگا،چہ جائےکہ ہمدردی کےجذبۂ سے ہی کسی کوماراجائے۔
فصلِ دوم:قتل بہ جذبۂ رحم کےاقسام
عام طورسے قتل بہ جذبۂ رحم (Euthanasia/ Mercy killing)کودواعتبار سےتقسیم کیا جاتاہے،ان دوکی پھر مزید اقسام ہیں :
اقسام بااعتبارخواہش وعدم خواہش
اس تقسیم میں قتل بہ جذبۂ رحم سےمتعلق دوطرح کےاقسام شامل ہیں ایک جن میں مریض کی رضااورخواہش شامل ہوتی ہےاوردوسرے وہ جن میں مریض کی رضااور خواہش شامل نہیں ہوتی ہے۔اس مناسبت سےقتل بہ جذبۂ رحم کی مندرجہ ذیل تین اقسام شامل ہیں:
اول:رضاکارانہ قتل بہ جذبۂ رحم EuthanasiaVoluntary
قتل بہ جذبۂ رحم کی اس قسم میں مریض متعدد وجوہات کی بناپرخودکوموت کےلئےڈاکٹروں کےسامنےپیش کردیتاہے۔اس قسم میں موت کی خواہش یامطالبہ مریض کی طرف سے کیاجاتاہے ،اس لئےترحم کی نیت سےکیاجانےوالا وہ قتل جس میں مریض کی رغبت اور رضامندی شامل ہواسےاردومیں رضاکارانہ قتل اورانگلش میں Voluntary کہتےہیں۔مریض کی رضامندی معلوم کرنےکی تین صورتیں ہوسکتی ہیں :
(1)۔مریض خودمطالبہ کرے:مثلا کبھی لاعلاج مرض اور ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلامریض از خود زبانی یاتحریری صورت میں یہ مطالبہ کرتاہے کہ اسے مناسب طریقےسے قبل از وقت موت کی امان میں پہنچادیاجائے۔
(2) ڈاکٹرمریض کومشورہ دے:اس صورت میں فیصلہ خود مریض کاہوتاہےالبتہ معالج اُس کو اور اُس کے ورثاءکوتکلیف میں دیکھ کر مریض کو مشورہ دیتاہے کہ اگرآپ کی اجازت ہو تومیں آپ کو کسی طرح ماردیتاہوں تاکہ آپ اس تکلیف سے آزاد ہوجائیں۔اور پھر مریض کے اجازت دینےپرڈاکٹراُسے ماردیتاہے۔
(3) مریض اور ورثاء باہمی مشاورت کےبعد یوتھنیزیاکا فیصلہ کریں:
لاعلاج اور مہلک مرض میں مبتلا مریض کے ورثاء ازخود یاطبیب کے مشورہ پر مریض سے اجازت لیتےہیں تاکہ اسے تکلیف دہ زندگی سے نجات دلادی جائے اورپھر مریض کی اجازت پرہی اُسے کسی طرح ماردیاجاتاہے۔اس صورت میں بھی زندگی اور موت کا فیصلہ خودمریض کرتاہے۔
دوم:غیررضاکارانہ قتل بہ جذبۂ رحم Involuntary Euthanasia
قتل بہ جذبۂ رحم کی اس قسم میں ڈاکٹرکاکام ہوتاہے،یعنی جب ڈاکٹریہ سمجھتاہےکہ اس مریض کی یہ بیماری ختم نہیں ہوگی،اب یہ شخص لاعلاج ہوچکاہےاور اس کی طبیعت دن بدن بگڑتی جارہی ہے جس کی وجہ سے اس کی تکلیف میں بھی اضافہ ہورہاہے، اس لئےڈاکٹر اسےیوتھنیزیاکےتحت ماردیتاہے۔اصل میں غیررضاکارانہ یوتھنیزیا میں مریض کی رضامندی شامل نہیں ہوتی ہے،بلکہ کبھی اس کی رائے معلوم کئے بغیر ہی اسے موت کی آغوش میں پہنچادیاجاتاہے ،اور یہ کام ڈاکٹر مریض کے اقرباء کوبتائے بغیر ہی کردیتاہے اور کبھی اقرباء کے مشورہ سے کرتاہے،لیکن مریض نہ تو اس کی اجازت دیتاہے اور نہ ہی اس کی رضا شامل حال ہوتی ہے بلکہ اس کی مرضی کے خلاف یہ کام کیاجاتاہے۔
سوم:نادانستہ قتل بہ جذبۂ رحم Non. Voluntary Euthanasia
اِسےقتل بہ جذبۂ رحم کےبجائےصرف قتل کہناہی مناسب ہوگاکیونکہ بسااوقات ایساہوتاہےکہ لاعلاج اورناقابل برداشت تکلیف میں مبتلاشخص اس حالت میں نہیں ہوتاکہ وہ اپنی زندگی اور موت کافیصلہ خود کرسکے، مثلا مریض بچہ ہے جو حیات اور موت سےناآشناہے،یا مریض ایساہے کہ کافی عرصہ سے بےہوشی کےعالم میں پڑا ہے،توڈاکٹر کسی کوبتائےبغیر مریض کوماردیتاہے،بلکہ اس صورت میں مریض کی تسلی بخش حالت اورموت کےلئےاس کی عدم خواہش کوپس پشت ڈال کر دانستا اس کی زندگی کاخاتمہ کردیاجاتاہے۔
اقسام بااعتبارعمل
قتل بہ جذبۂرحم کوبروےکارلانے یاانجام دینے کے لحاظ سےمندرجہ ذیل دواقسام ہیں:
اول:فعال قتل بہ جذبۂ رحم ۔Active Euthanasia/Positive Euthanasia
فعال یاایکٹیویوتھینیزیایہ ہےکہ ڈاکٹرمریض کوموت تک پہنچانےکےلئےکوئی عملی تدبیراختیارکرتاہےمثلاکینسرکامریض جوشدیدتکلیف میں مبتلاہو یاکافی عرصہ سےبےہوشی میں پڑاہوامریض جس کےبارےمیں ڈاکٹرکاخیال ہوکہ اس کی زندگی کی اب کوئی امیدنہیں ہے،ایسےمریض کودردکم کردینےوالی ادویہ زیادہ مقدارمیں دی جاتی ہیں جس سےمریض کی سانس رک جاتی ہے۔ اسی طرح کبھی ایسامریض جس کےسرمیں شدید چوٹ لگی ہویاتیزبخارکی وجہ سے نمونیہ کاشکارہوگیا،ڈاکٹروں کےمطابق اس کےصحت یاب ہونےکابظاہرکوئی امکان نہ ہو یامصنوعی تدابیرسےاس کی سانس کوجاری رکھاگیاہو،اگریہ آلات ہٹائےجائیں تومریض کی سانس کاآنابندہوجائےگا۔ایسی حالت میں ان آلات کوہٹانا(تاکہ مریض مکمل طورپرمرجائے)یوتھینیزیاکی ایک قسم ہے۔
دوم:غیر فعا ل قتل بہ جذبۂ رحم ۔Passive Euthanasia/Negative Euthanasia
غیرفعال قتل یاپیسویوتھینیزیاکامطلب یہ ہےکہ مریض کی جان لینےکےلئےکوئی عملی تدبیرنہ کی جائےبلکہ اس کوزندہ رکھنےکےلئےجوضروری علاج کیاجاناچاہیےوہ روک دیاجائےیاجوادویہ دی جاتی ہیں وہ بندکی جائیں ،تاکہ مریض مرجائے۔اس قتل کی بنیاد پھر(جذبۂ رحم )قراردیاجاتاہے،کیوں کہ اصل مقصد مریض اور اس کےاعزاء کوجوتکلیف لاحق ہے اس سےانہیں نجات دلاناہوتاہے۔یہاں پر یہ معلوم ہوناضروری ہے کہ آخریہ کام کیوں کیاجاتاہے،اس لئے آنےوالی فصل میں وہ اسباب بیان کئےگئےہیں جن کی بناپر یوتھنیزیاکےتحت مریض کوہلاک کیاجاتاہے۔
قتلِ رحم کی مندرجہ بالا اقسا م اور طریقوں کو جمع کیا جائے تو حتمی طور پر ہمارے سامنے درج ذیل اقسام آتی ہیں جن کی تفصیل انشاءاللہ آگےآئےگی،یہاں پربطورتفہیم صرف نقشہ پیش کیاگیاہےتاکہ اقسام اچھی طرح سمجھ میں آجائیں:
1رضا کارانہ قتل بہ جذبۂ رحم + فعال قتل بہ جذبۂ رحم =رضا کارانہ فعال قتل بہ جذبۂ رحم ٍActiveVoluntary
Euthanasia
2رضا کارانہ قتل بہ جذبۂ رحم + غیر فعا ل قتل بہ جذبۂ رحم = رضا کارانہ غیر فعا ل قتل بہ جذبۂ رحم Passive Voluntary Euthanasia
3غیر رضا کارانہ قتل بہ جذبۂ رحم +فعال قتل بہ جذبۂ رحم = غیر رضا کارانہ فعال قتل بہ جذبۂ رحم ActiveInvoluntary
Euthanasia
4غیررضا کارانہ قتل بہ جذبۂ رحم + غیرفعال قتل بہ جذبۂ رحم = غیررضا کارانہ غیرفعال قتل بہ جذبۂ رحم PassiveInvoluntary
Euthanasia
فصل سوم:قتل بہ جذبۂ رحم کوبروئےکارلانےکےاسباب
قتل بہ جذبۂ رحم کوبروئےکارلانےکےاسباب کچھ بھی ہوسکتےہیں مثلا علاج کرانےکی تکالیف اورخرچہ سےبچنا،مریض کےمال ودولت پرجلد سےجلد قبضہ کرنےکےلئے اسےیوتھینیزیاکےتحت ماردینا وغیرہ، لیکن بنیادی طورپرجواسباب معلوم ہوتےہیں، جن کےتحت یوتھینزیاکوبروےکارلاجاتاہے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
معاشی تنگی اورمفلسی،علاج کافائدہ نہ ہو،بطورہمدردی مریض کومارینا۔یہ سب وہ اسباب ہیں جن کی بناپرکسی مریض کوماردیاجاتاہےیاوہ خودکوماردیتاہے۔
(1)معاشی تنگی اورمفلسی:
زمانہ قدیم میں نہ توامراض زیادہ ہوتےتھےاورنہ ہی علاج اتنےمہنگےہوتےتھےکہ لوگ علاج نہ کراسکیں،لیکن عصرحاضر میں جس طرح امراض کی بھیانک صورتیں اورشکلیں رونما ہورہی ہیں اسی طرح جدید طبی تحقیقات کادائرہ بھی وسیع ہوتاجارہاہے،ہرمرض کاعلاج مختلف طریقوں سےایجادکیاجاتاہے،لیکن بعض امراض ایسےہیں کہ علاج کےمہنگےہونےکی وجہ سےجن کاعلاج کرناکسی عام انسان کےبس کی بات نہیں،مثلادماغی موت کہ جس کی وجہ سےانسان مثل مردہ ہوجاتاہےاورکسی مصنوعی آلہ کےذریعےاس کی سانس کوجاری رکھاجاتاہے،اب اس میں تکلیف تونہیں ہوتی لیکن اس آلہ کےلگانےمیں بہت خرچہ ہوتاہے،اسی طرح بعض انجکشنز اورگولیاں ایسی ہوتی ہیں ،جن کااستعمال کرناضروری ہوتاہےلیکن وہ بہت مہنگی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے لاعلاج مرض میں مبتلامریض اپناعلاج نہیں کراسکتا،جبکہ اس کی تکلیف بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے،اس لئے وہ زندگی سےمایوس ہوجاتاہےاور ڈاکٹرسے موت کی اپیل کرتاہےکہ اس کی زندگی کی تارکاٹ دی جائے تاکہ وہ اِن تکالیف سےبھی آزادہوجائےاور اپنےخاندان پربھی بوجھ نہ بنے،لہٰذاڈاکٹراُسےیوتھنیزیاکےتحت ماردیتاہے۔اور اس طرح معاشی تنگی اور مفلسی یوتھنیزیاکاسبب بنتی ہے۔
(2)علاج کرنےکافائدہ نہ ہو:
بسااقات یہ ہوتاہےکہ مریض کی معاشی حیثیت توبہترہوتی ہے لیکن وہ ایک ایسےمرض میں مبتلاہوتاہےیاوہ مرض اس درجہ کوپہنچ جاتاہےکہ اس کاعلاج کرنے سےمریض کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا،نہ مرض ختم ہوتاہےاور نہ ہی تکلیف کم ہوتی ہے،بلکہ مثل مردہ پڑارہتاہے،مثلا ریڑھ کی ہڈی کسی طرح ناکارہ ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اس آدمی کی ٹانگیں شل ہوگئی ہیں،علاج چل رہاہے مگر بظاہر کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے،تو ایسی صورت میں مریض خود یا اس کے ورثاء یا ڈاکٹر کسی طرح موت دینے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اسے یوتھینیزیا کا نام دیا جاتا ہے۔
(3)بطورہمدردی مریض کوماردینا:
کبھی یہ ہوتاہے کہ مہلک اورموذی مرض میں مبتلاشخص شدید تکلیف کی وجہ سےتڑپتارہتاہے،اور اس کی حالت اتنی خراب ہوتی ہےکہ خود سےکوئی بھی کام نہیں کرسکتا،حتٰی کہ قضاء حاجت کےلئےبھی کسی دوسرے کےسہارےکامحتاج ہوتاہے۔اس کواس تکلیف میں دیکھ کر ورثاء یاڈاکٹرکواس پرترس آتاہے ،اوراس کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی ،اس لئےجذبۂ شفقت کےتحت اسےماردینےکافیصلہ کیاجاتاہے تاکہ وہ ان تکالیف سےآزاد ہوجائے۔اوراس عمل کوبروئےکارلانےکےلئےکچھ تدابیراختیار کی جاتی ہیں ،جوکہ مختصراً ذیل میں بیان کی گئی ہیں ۔
قتل بہ جذبۂ رحم کوبروئےکارلانےکی عملی تدابیر
قتل بہ جذبۂ رحم کوبروےکارلانےکےلئےحالات کی مناسبت سے مختلف طریقےاورتدابیراختیارکی جاتی ہیں،مثلا: دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر جسمانی یا ذہنی طور پر معذور یا جسمانی طور پر بیمار افراد کو نازیوں نے “ٹی فور” یا “رحمانہ قتل” کے پروگرام کے تحت نشانہ بنایا۔ان بدقسمت مریضوں کو جرمنی اور آسٹرلیا کے چھ اداروں میں منتقل کردیا گیا جہاں انہيں خاص طور پر تعمیر کردہ گیس چیمبروں میں قتل کیا جاتا تھا۔ معذور اور چھوٹے بچوں کو بھی دوائیوں کی خطرناک مقدار دے کر یا بھوکا رکھ کر ہلاک کیا گیا۔
اسی طرح کبھی ناقابل علاج مریض کو زہریلی گولیوں،زہر کے ٹیکے،زہریلی انجکشنزاورزہریلی مشروباتیاادویات کی عد م فراہمی کے ذریعے موت کےراستہ پر روانہ کیا جاتا ہے۔جبکہ سانس چلانے کےمصنوعی آلات کوہٹانابھی قتل بہ جذبۂ رحم کی ایک عملی صورت ہے،جیساکہ وینٹیلیٹرپرموجودمریض سے وینٹیلیٹرہٹالیاجاتاہے تاکہ وہ جلد مرجائے۔
یہاں پرایک سوال پیداہوتاہےکہ مذکورہ بالااسباب کی شرعی حیثیت کیاہےاورکیاان اسباب کی بناپرقتل بہ جذ بہ رحم کسی صورت میں جائز ہوسکتاہے؟اسوال کاجواب باب سوم میں قتل بہ جذبۂ رحم کےاقسام کےحکم کےساتھ ساتھ بیان کیاجائےگا۔
فصل ِچہارم:قتل بہ جذبۂ رحم کا تاریخی پسِ منظر
جاہلیت میں انسانیت کاتصور:
شریعت محمدیﷺ سے پہلے والی شریعتوں میں بھی انسانیت کی قدر ومنزلت بیان کی گئی تھی ، ان میں بھی انسانیت کے تقدس کوپامال کرنےسےمنع فرمایاگیاتھا،اس لئےان شریعتوں کےپیروکار انسان کومقدس اور محترم سمجھتےتھے،ناحق کسی انسان کےقتل کو اس وقت بھی براتصورکیاجاتاتھالیکن جیسےجیسے شرائع ماقبلنا تحریف وتدلیس کاشکارہوتی گئیں ،ان کی تعلیمات مٹتی گئیں ،اُس معاشرےمیں دیگرخرافات کےساتھ ساتھ انسانیت کی فضیلت اور اہمیت اس کااکرام بھی ختم ہوتاگیا،عقیدہ کی خرابی کےساتھ ساتھ اخلاقی اعتبارسےبھی وہ معاشرہ بگڑچکاتھا۔اس معاشرےمیں ماں باپ کااحترام نہیں رہاتھا ،بھائی بہن کی تمیز نہ تھی،چھوٹےبڑےکاخیال نہیں کیاجاتاتھا،انسانوں کےساتھ جانوروں جیساسلوک کیاجاتاتھا۔اُس زمانہ میں وہی انسان محترم ومعززہوتاتھا جوقبیلہ کےلئےکچھ کرسکتاتھا،جوجنگجوہوتا اور سب سے زیادہ مال غنیمت جمع کرسکتاتھا،جواقدامی اور دفاعی لڑائیوں میں اپنےقبیلہ کےساتھ کھڑاہوسکتاتھا۔غرض یہ کہ جوآدمی ہروقت ہر قسم کی قربانی اور مشقت برداشت کرنے کےلیےتیارہتاتھا،وہی اس زمانہ میں محترم اورہمدردی کامستحق ٹھرتاتھا۔جبکہ معذوراور کمزور انسان جو نہ لڑسکتےتھےاور نہ کماسکتےتھے ان کوحقارت کی نظرسےدیکھاجاتاتھا،انہیں معاشرےکابیکاراورذلیل فردتصورکیاجاتا،قبیلہ اورخاندان کےلیےبےعزتی اور بوجھ سمجھاجاتاتھا۔بسااوقات اِن حالات کامقابلہ کرتےکرتے کچھ لوگ خودکشی بھی کرلیتےتھے۔
علامہ عبدالمحسن بن محمدالعیوف لکھتےہیں:
‘‘أما إذا لم تمكن الاستفادة منه، أو خشي ضرره عليهم فكانوا يقتلونه‘‘
‘‘یعنی جب ان سے کسی قسم کافائدہ حاصل نہ ہوتاتھا،یاان سےکسی نقصان کااندیشہ ہوتا تو وہ لوگ ان کوقتل کردیتےتھے۔’’
لیکن جب اسلام آیاتواس نے انسان کواشرف المخلوقات کادرجہ دیااورحفظ جان کومقاصد شرعیہ میں شامل کیا۔حفظ نفس کے بارےمیں اللہ تعالیٰ فرماتےہیں کہ:
‘‘وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً … وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا’’
‘‘کسی مومن کایہ کام نہیں ہےکہ دوسرے مومن کوقتل کرے،الایہ کہ اس سے چوک ہوجائے….. رہاوہ شخص جوکسی مومن کوجان بوجھ کرقتل کرے تواس کی جزاجہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہےگا۔اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اوراللہ نے اس کےلیے سخت عذاب مہیاکررکہاہے۔’’
عبداللہ ابن عمروؓ بیان کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِم “
‘‘اللہ تعالی کےنزدیک دنیاکازوال اوراس کی بربادی کسی مسلمان کوناحق قتل کرنےسےزیادہ حقیراور آسان ہے۔’’
اسی طرح اللہ پاک نے انسان کی اپنی جان کی حفاظت کےبارےمیں فرمایا:
’’وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا‘‘
‘‘اور اپنے آپ کوقتل نہ کرو یقیناً مان لو کہ اللہ تمہارےاوپر مہربان ہے۔’’
اسی طرح کسی دوسرےکی جان کی حفاظت کےبارےمیں فرمایا:
’’وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ‘‘
‘‘اور کسی جان کوجسےاللہ نے محترم ٹھرایاہے ہلاک نہ کرومگرحق کےساتھ۔’’
اس طرح اسلام نے انسان کوپھرسے اس کا مقام ومرتبہ دیا،اسے اپنی پہچان دی۔پھر اسپر کچھ ذمہ داریاں عائدکیں لیکن جوں ہی انسان نے ترقی کرناشروع کی،اپنی ذمہ داریاں اور اپنا مقام ومرتبہ بھولتاچلاگیا جس کےنتیجہ میں مغربی تہذیب اور یورپ کے اخلاقی بہران نےجنم لیا،اب پھرسےانسان جاہلیت کی طرف لوٹنےلگاہے کیونکہ مغرب نےتہذیب وتمدن اوراخلاقیات کوتباہ وبرباد کردیاہے،کسی انسان کی خدمت یااس کےساتھ کسی قسم کے تعاون کاتوتصور ہی ختم ہوگیاہے،بوڑھےماں باپ کی دیکھ بھال کرنا اولاد پرلازم نہیں،گھرسےنکال کرحکومت کےرحم وکرم پررکھاجائے مغرب نےہی اس کاتصوردیاہے، بیمار اورمعذوروں کی تیمارداری کرنا ان کی خدمت کرنا مغرب میں کوئی معنی نہیں رکھتا،بلکہ ایسےمعذور اور مریض جوکسی دوسرےکےمحتاج ہوں انہیں دردسر اوراپنی آزادی میں رکاوٹ سمجھاجاتاہے اس لئے انہیں کسی طرح اپنےراستےسے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے،پچھلےکچھ سالوں سے ترحم کی نیت سے قتل یعنی قتل بہ جذبۂ رحم کی اصطلاح استعمال کی جارہی ہے۔
اس کےبارے میں پروفیسر ڈاکٹر عمرکاسولے لکھتےہیں کہ:
‘‘اس عمل کوقدیم یونان اور روما میں مقبولیت حاصل تھی ’’۔
علامہ عبدالمحسن بن محمدالعیوف ایک یونانی فلاسفر افلاطون کےبارےمیں لکھتےہیں کہ افلاطون نے اپنی کتاب الجمہوریہ میں لکھاہے:
‘‘يجب تقديم كل عناية للمواطنين الأصحاء جسماً وعقلاً , أما الذين تنقصهم سلامة الأجسام فيجب أن يتركوا للموت ۔’’
‘‘جسمانی اور عقلی لحاظ سے صحت مند شہری کاخیال رکھنالازم ہے باقی جن کےجسم میں کوئی نقص ہے انہیں اسی حال میں چھوڑدیاجائے تاکہ مرجائیں’’۔یہاں سے ہی اس تصور(قتل بہ جذبۂ رحم )نےجنم لیاہے اور پھیلاہے۔
تیرویں صدی میں ایک انگریز فلاسفرفرانک باکون آئے سب سے پہلےقتل بہ جذبۂ رحم کی اصطلاح اس نے استعمال کی تھی ان کاخیال؛ یہ تھاکہ مریض کی صحت کودوبارہ فعال کرنا اور اس کی تکلیف کوکم کرناڈاکٹر پر لازم ہے لیکن جب مریض کی صحت یاب ہونےسے ڈاکٹرمایوس ہوجائےتو اس وقت اس پریہ لازم ہےکہ مریض کواچھی اور آسان موت دیدے۔ یہاں سے یہ اصطلاح عام ہوئی اور قتل بہ جذبۂ رحم کاتصور پھیلنے لگا۔
ڈاکٹرمحمدشمیم اخترقاسمی کےمطابق 1828ء میں امریکا کےایک شہر نیویارمیں قتل بہ جذبۂ رحم کےخلاف پہلاقانون منظورکیاگیا۔
پھر1870ءمیں samuel Williamsکےنام سےایک صاحب آئے اس نے افیون(morphine)اور شدید دردکوختم کرنےوالی ایک خاص دوا(analgesic) کےاستعمال کرنےکامشورہ دیا،تاکہ جلد اوربغیرکسی تکلیف کےمعذور اور بامشقت بیماری میں مبتلا شخص کی موت واقع ہوجائےاس کےبعد پھرسے امریکامیں رحم دلانہ قتل کامسئلہ اُبھرااورموضوع بحث بنارہا، یہاں تک کہ 1885ءمیں امریکاکی ایک میڈیکل تنظیم نے (uthanasia)یعنی قتل بہ جذبۂرحم میں تعاون اور تکلیف کوزائل کرنے والی تیز ادویہ کی مخالفت کی تھی ، کیونکہ ان ادویہ کااصل مقصد لاعلاج مرض میں مبتلامریض اور معذور آدمی کوماردیناتھا۔تب سے اس مسئلہ پر بحث ہوتی رہی کچھ لوگ اس کی حمایت میں تھے توکچھ اس کی مخالفت کررہےتھےاور یہ سلسلہ اس طرح چلتارہا، یہاں تک بیسویں صدی کاآغاز ہوا۔ اس وقت یہ مسئلہ عام ہوچکاتھااورپوری مغرب میں زیربحث تھا، جرمنی کی پارلیمنٹ نے1903ء میں قتل بہ جذبۂ رحم کی تردید کی تھی
اسی طرح 1905ءمیں امریکاکے شہر اوہایو میں قتل بہ جذبۂ رحم کےجواز کےلیےایک مسودہ قانون تیار کیاگیا مگروہ بھی ناکام ہوا ۔ اس کے ایک سال بعد 1906ءمیں امریکا کےاسی شہراوہایومیں کم ازکم چار افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی،اس کمیٹی کا یہ کام تھاکہ لاعلاج مریض اور شفا سےمایوس شخص کے مارنے کوجائز قراردینےکےلئے کوئی قانونی شق تیار کرے لیکن اس بار بھی یہ کوشش ناکام ہوگئی
اس کےبعد1913ءمیں برطانیہ کی پارلیمنٹ نےدوبارہ اس قانونی مسودہ کوردکردیا،جس کےبعد قتل بہ جذبۂ رحم کےمؤیدین نےشدید احتجاج شروع کئے ،انہوں نے اپنےموقف کوثابت کرنے اوراس کوجائز کرنےکےلئے ہرممکن کوشش کرتےرہے
اس کوشش کی ایک نظیرThe permitting destruction of life not worthly of life کےنام سے ایک کتاب بھی ہے جو دوماہرین تعلیم کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے ان میں سےایک مصنف Aifred hoche جو ایم ڈی اور یونیورسٹی آاف فرائیبرگ میں Psychiatryکےپروفیسر کےعہدہ پرفائز تھےاوردوسرےkari Bindingقانون کےپروفیسرجویونیورسٹی آف لیپزگ سےوابستہ تھے۔اس کتاب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہےکہ جومریض اپنی فطری موت سے قبل مرناچاہتاہے،اسے ماہر اطباکےصکاح ومشورہ کےبعد محتاط طریقہ سےماردینےمیں کوئی مضائقہ نہیں ، 1920ء میں اس کتاب کی اشاعت کےبعد یوتھینزیا کوبڑی پذیرائی ملی۔
اکتوبر 1939میں ہٹلر نے معذور افراد کے قتل کی اجازت دے دی:
ایڈولف ہٹلر نے “رحمانہ قتل” کے پروگرام کی شروعات کی اجازت دی – یہ ان جرمنوں کے باقاعدہ طور پر قتل کا نام تھا جنہيں نازی “زندگی رہنےکے ناقابل” سمجھتے تھے۔ اس حکم کا اطلاق جنگ کے آغاز کی تاریخ (یعنی یکم ستمبر1939) سے کیا گیا۔ شروع میں ہسپتالوں کے ڈاکٹروں اور عملے کو ہدایت کی گئی کہ وہ مریضوں کو نظر انداز کریں۔ یوں مریض بھوک اور بیماریوں سے مرجاتے تھے۔ اس کے بعد “کنسلٹینٹ” ہسپتالوں میں جاتے تھے اور فیصلہ کرتے تھے کہ کونسے افراد کو ماردیا جائے۔ ان مریضوں کو جرمنی عظمیٰ میں “یوتھینیزیا” کے مراکز میں بھیجا جاتا تھا جہاں انہيں زہریلے ٹیکوں کے ذریعے یا گیس چیمبروں میں قتل کیا جاتا تھا۔
پھر1941 تک اس خفیہ “قتل بہ جذبہ رحم” کے پروگرام کے متعلق جرمنی میں لوگوں کو عام طور پر خبر ہوگئی۔ موئنسٹر کے بشپ کلیمنز اوگسٹ گراف وان گالن نے 3 اگست 1941 کو ایک عوامی خطبے میں قتل کے ان اقدامات کی مذمت کی۔ دوسری نمایاں عوامی شخصیات اور کلیسوں نے بھی قتل کے ان اقدامات پر اعتراض کیا۔
پھر24 اگست 1941
ہٹلر نے سرکاری طور پر “قتل بہ جذبہ رحم” کے پروگرام کو ختم کرنے کا حکم جاری کردیا
عوام کی بڑھتی ہوئی تنقید نے ایڈولف ہٹلر کو پروگرام ختم کرنے کے احکامات جاری کرنے پر مجبور کر دیا۔ مختلف “قتل بہ جذ بہ رحم” کے مراکز میں گیس چیمبروں کو توڑ دیا گيا۔ اس وقت تک تقریباً ستر ہزار جرمن اور آسٹرین ذہنی یا جسمانی طور پر معذور مریضوں کو قتل کیا جا چکا تھا۔۔ اگرچہ “قتل بہ جذبہ رحم” کا پروگرام سرکاری طور پر ختم ہوگیا تھا، پھربھی انفرادی سطح پر جسمانی یا ذہنی طور پر معذور افراد کا قتل خفیہ طور پر جاری رکھا گیا۔
قتل بہ جذبۂرحم کےمتعلق مثبت اورمنفی سوچ رکھنےوالی تنظیمیں اور ان کاکردار:
بیسویں صدی عیسوی کوقتل بہ جذبۂرحم کےحوالےسے منفرد مقام حاصل ہےاس عہدمیں قتل بہ جذبۂرحم کےمثبت اورمنفی پہلوؤں پربڑی شد ومد سے غوروفکرکیاگیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اس عہد میں کئی ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جنہوں نے رحم دلانہ قتل سےمتعلق مسائل کوعوام کےسامنےآشکارکیا ان میں کچھ قتل بہ جذبۂ رحم کوقانونا جائز قراردینے پرتلی ہوئی تھیں اور کچھ اسے ناجائز ثابت کرنے کےلیےکوشاں تھیں مثلاً:
1935ءمیں لندن کےڈاکٹروں کےایک گروپ نے اس کےلیےقانونی جواز حاصل کرنےکی پہل کی اور اس کےلیےایک تنظیم بنائی جوVoluntry Euthanasia lwgislation societyکےنام سےجانی جاتی ہے۔ اس کےتین سال بعد1938ءمیں ایک دوسری تنظیم National society for the legalization of Euthanasiaکےنام سےوجود میں آئی یہ بھی قتل بہ جذبۂ رحم کوجائزقراردیےجانےکےحق میں تھی، پھر1980ءمیں ایک بین الاقوامی تنظیم World federation f Right to Die societyکےنام سےقائم ہوئی یہ رضاکارانہ Euthanasia کی طرف داری اورحمایت میں تھی۔
قتل بہ جذبۂ رحم کی چند مثالیں :
(1) 1823ءمیں ایک باپ نےاپنی تین معصوم بچوں کوغرق کردیاتھا اس جذبۂ اورخیال سےکہ وہ جلدی جنت میں پہنچ جائیں گے،بعدمیں اسے گرفتار کرلیاگیا،اس نوعیت کا یہ پہلاکیس تھاجوامریکن قُضاء کےسامنے پیش کیاگیاتھا۔
(2) 1912ء میں ایک فرانسی وکیل نے اپنی بیوی کو اس لئےقتل کردیاکہ اس کےسرمیں کوئی (عارضہ)مرض لاحق ہوگیاتھا جس کی وجہ سے اس کی بیوی سخت تکلیف کا شکارتھی ۔ان تکالیف سے آزاد ہوجائےگی۔
(3) اسی طرح 1917ءمیں ایک امریکی ڈاکٹر کواس تہمت سےبری قراردیاگیاتھاکہ وہ ایک غیرکامل خلقت بچہ کی زندگی نہیں بچاسکا۔
(4) پھر1920ء میں ایک امریکی شخص نے اپنی بیوی کواس کےمطالبہ پر زہردےکرقتل کردیا،اس کی بیوی کسی ناقابل شفامرض میں مبتلاتھی۔
(5) اسی طرح1925ءمیں ایک فرانسی لڑکی نےاپنےہونےوالےشوہرکویوتھینزیا کےتحت قتل کردیا،کیوں کہ وہ کنسر کےمرض میں مبتلاتھا۔
(6) 1935ءمیںHarold Blazerگرفتارکیےگئے،اس جرم میں کہ اس نےاپنی بیٹی کو یوتھینزیا کےذریعہ ماردیاتھا،کیوں کہ وہCerebral Spinal Meningitis کےعارضہ میں پچھلے30سالوں سے مبتلاتھی،تفتیش کےبعدHarold Blazerکواس جرم سےبری کردیاگیا۔
(7) 1986ء میں ایک ڈاکٹرJoseph Hassmanپریہ فرد جرم عائد کی گئی کہ اس نےاپنی ساس کی زندگی ختم کرنےکےلیےمہلک دوا کابندوبست کیاتھا،اس وقت کےقانون کےمطابق اس کےلئےدوسال قید کی سزاتجوز کی گئی تھی۔
(8) 1999ءمیںDr.Jack Kevorkianکوقیدکیاگیا،کیوں کہ اس نےرضاکارانہ یوتھینزیا کےذریعہ ایک 52سالہ Thomas Youkکوقبل ازوقت ماردیاتھا،جوکسی مہلک بیماری میں مبتلاتھا۔اس لئےاسے 1999ءسے2008ءتک آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی،اس کےساتھ ساتھ Dr.Jack Kevorkianکےبارےمیں یہ گمان بھی کیاجاتاتھاکہ اس نے130مریضوں کویوتھینزیاکےذریعہ موت کی آغوش میں پہنچایاہےاور اس عمل کوانجام دینےکےلئےاس نےزہریلاانجکشن استعمال کیاتھا۔
میرےجائزےکےمطابق قتل بہ جذبۂ رحم کاتصور مثبت اور منفی فکرکےساتھ مغربی ممالک میں بتدریج پروان چڑھتارہاہے،خصوصاً1980ء کےقریب کےزمانہ سےکئی لوگوں نےاس کی حمایت میں آوازیں بلند کی ہیں ،اورسب سے زیادہ Derek Humphry نےترحم دلانہ قتل کی حمایت کی ہےاور زوردیاہے۔
کہاجاتاہےکہ Derek Humphryکی بیوی 1980ءسےکچھ عرصہ پہلے کینسرکی بیماری میں مبتلاہوگئی،جسے ڈاکٹروں نےلاعلاج قراردےدیاتھا،اس بیماری کی وجہ سےہروقت وہ تڑپتی رہتی تھی،لیکن جب تکلیف بڑھ گئی اور براداشت کرنے کی ہمت نی رہی ،تواس کی بیوی نے اپنی مرضی سے ایک معاہدہ کےتحت اپنی جان مناسب تدبیرکےذریعہ ختم کرنےکی اجازت دےدی،پھرزہریلی شراب پلاکراسےماردیاگیا اس طرح وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیےاس تکلیف دہ مرض سے آزادہوگئی۔اس حادثہ کا Derek Humphryپرخاصااثرپڑا،بیوی کےانتقال کےکچھ دن بعد اس نے دوسری شادی کرلی اور پھر دونوں میاں بیوی مل کر جگہ جگہ یوتھینزیاکی ترجمانی اورحمایت کرنےلگے،اس موضوع پرDerek Humphryنے کئی کتابیں بھی تصنیف کیں جن کی وجہ سےعوام میں اس کی مقبولیت بڑھ گئی اورکئی لوگ اس کی کتابیں پڑھ کرقتل بہ جذبۂ رحم کےمتعلق Derek Humphryکی حمایت کرنےلگے۔اس کےبعدDerek Humphryنے Hemlock Society بھی قائم کی جہاں لاعلاج اورضعیف العمرمریضوں کےلیےیوتھینزیاپرعمل کرنےکی ترغیب دی جاتی ہےاوراس پرعمل کرنےکےطریقےبتائےجاتےہیں۔اس سےاس کامدعایہ ہےکہ جولوگ لاعلاج بیماری کی وجہ سےھاسپٹلز میں موت وحیات کی کش مکش میں مبتلاہیں اور جوبرائےنام زندہ ہیں ،وہ اس کےذریعہ اپنی جان ختم کرکےمرض کی سخت تکلیف سے ہمیشہ کےلیےنجات پاجائیں۔
باب دوم:قتل بہ جذبۂ رحم ملکی قوانین اورمذاہب عالم میں
فصل اول:مختلف ممالک کےقوانین میں قتل بہ جذبۂ رحم
فصل دوم:قتل بہ جذبۂ رحم مختلف مذاہب عالم میں
فصل اول:مختلف ممالک کےقوانین میں قتل بہ جذبۂ رحم
یورپین ممالک میں قتل بہ جذبہ رحم کوعام کرنےاورلوگوں میں مقبول بنانےکےلیےمسلسل جدوجہدکی گئی ہےاوراس کوقانونی طورپرجائزبنانےکےلیےماحولبنایاگیا۔ اس مقصدکوپانےکےلیےمختلف ممالک میں غیرسرکاری تنظیمیں،طبی عملہ اوروکلاءکی جماعتوں نےجگہ جگہ اوروقفےوقفےسےکانفرنسوں،جلسوں،جلوسوں اورمباحثوں کابازارگرم کیا،چجائےکہ بیسویں صدی عیسوی کےاواخر میں انہیں کامیابی ملی اوربعض ممالک میں قتل بہ جذبہ رحم کوسرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اورانمیں رضاکارانہ یوتھینیزیاکی اجازت دی گئی۔ اسی طرح بعض ایسےممالک بھی ہیں کہ جس میں کسی آدمی کےساتھ موت (خودکشی) میں تعاون کی اجازت ہےاوربعض ایسےبھی ممالک ہیں جن میں مرنےوالےکےساتھ تعاون کرنابھی جرم سمجھاجاتاہے ۔
مختلف ممالک کےقوانین میں یوتھینیزیاکی تازہ صورتحال :
(1)۔ بیلجیئمBelgium.
بیلجیئم میں 28مئی 2002ءکی دہائی میں لاعلاج امراض کےشکارہونےوالےمریضوں کوان کی اوران کےلواحقین کی اجازت سےانتہائی نرمی کیساتھ موت کی نیندسلانےکی قانونی طورپراجازت دی جاچکی ہے۔ The Belgian paeliament legalized euthanasia on 28 may 2002 2010ءکےایک سروےکےمطابق اِس سےدوچارہونےوالےزیادہ ترنوجوان مرداورکینسرکےمریض ہیں،جن کی اموات زیادہ تران کےگھروں میں ہوتی ہیں۔تاہم اُس وقت اِس قانون کےتحت بچوں کوقتل کرنےکی اجازت نہ تھی ۔ لیکن ابیلجیئم کی پارلیمنٹ نےایسےبیماربچوں کےلیےقتل بہ جذبہ رحم کی اجازت دی ہے،جوطبی اعتبارسےانتہائی تکلیف کی کیفیت میں مبتلا ہیں اورموت کی آغوش کی طرف جارہےہیں۔ بیلجیئم میں منظورکیےگئےاسقانون کےتحت صرف ایسےبچےکےلیےیوتھینیزیاکی درخواست دائرکرائی جاسکتی ہے،جس کی طبی حالت انتہائی نازک اورمخدوش ہواوراس کےزندہ بچنےکی کوئی امیدنہ ہو۔ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہوگاکہ اس کی موت جلدواقع ہونےکاشدیداندیشہ ہو،اِس عمل کی فیصلہ سازی کےلیےڈاکٹرزاوروالدین اسی طرح ماہرنفسیات کامتفق ہونابھی ضروری ہوگا۔ بیلجیئم کےچرچرہنماؤں نےاس قانون کی مخالفت کی ہےاوراسےغیراخلاقی قراردیاہے۔اسی طرح بعض ماہرین امراض نےبھی اس قانون کےخلاف ایک خط لکھاہےاس میں انہوں نےکہاہےکہ اس قانون کی فوری کوئی ضرورت نہیں ہےکیونکہ جدیدادویات سےدرد میں کمی ممکن ہے۔لیکن رائےعامہ کےجائزے میں اس قانون کےلیےبڑےپیمانےپرحمایت دیکھنے میں آئی ہےجس میں اکثریت کیتھولک افردکی تھی۔
(2)۔ فرانسFrance.
فرنسی پارلیمنٹ نےایک قانون کی منظوری دی ہےجس کےتحت ایسےمریض جن کےتندرست ہونےکی امیدباقی نہیں رہی ہے،وہ مزیدعلاج ومعالجہ کراوانےیاڈاکٹروں پربوجھ بننےکےبجائےاپنی زندگی کےخاتمہ کافیصلہ خودکرسکتےہیں۔ اس قانون کےتحت ڈاکٹرحضرات جب یہ سمجھیں کہ مریض کےلیےادویات مؤثرنہیں رہی ہیں اورکسی ذریعےسےمریض کومحض مصنوعی طریقہ سےزندہ رکھاجارہاہویارکھاجاسکتاہے،تووہ میڈیکل امدادبندکرسکتےہیں۔ اس قانون کےتحت انتہائی علیل یاناقابل برداشت تکلیف یامصیبت کےشکارمریض علاج بندکرنےکی درخواست کرنےکاحق رکھتےہیں،اس کےبعدڈاکٹروں کومیڈیکل ٹیم کےمشورہ کےبعدمریض کی خواہشات اورامنگوں کوپوراکرناپڑےگا۔ جومریض مستقل طورپرکومہ یابےہوشی کی حالت میں ہیں اورٹیکنیکل طورپرمردہ بھی ہیں،توایسےمریضوں کےلواحقین علاج بندکرنےاورمریض کوان تمام دکھوں سےنجات دلانےکی درخواست دائرکرسکتےہیں۔ حکومت کاکہناہےکہ یہ قانون یوتھینیزیاسےمختلف ہےاسمیں ڈاکٹروں کوعملی طورپرمریض کی زندگی کاخاتمہ کرنےکی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
(3)۔آسٹریلیاAustralia.
وفاقی سطح پرآسٹریلیا میں یوتھینیزیاغیرقانونی ہے،البتہ آسٹریلیاکےاندرکچھ ریاستوں نےاس معاملےپرقانون سازی کی ہے،یہ آسٹریلیاکےشمالی علاقوںمیں 1995ءسے1997ءتک ایک مدت کےقانونی تھا،بعدمیں اسےمنسوخ کردیاگیا۔ پھر20ستمبر2017ءکووکٹوریہ کی پارلیمنٹ میں مرنےکےلیےمریض کی مددکرنےکےحواسےایک بل پیش کیاگیا،جسےپارلیمنٹ نےمنظورکیا۔اس کےبعد29نومبر2017ءکووکٹوریہ کی قانون سازکونسل میں ترمیم کےساتھ پارلیمنٹ کےذریعےمنظورہونےوالےبل کومنظورکیاگیاتھا،جوکہ 2019ءکےوسط میں اثراندازہوگا۔
(4)۔بھارتIndia.
ہندوستان میں ’ارونا ‘نامی نرس۴۲سال سےکومہ کی حالت میں رہ کردنیاسےگزرگئی،وہ مظلوم ایک وحشیانہ حملہ کی وجہ سےاس حالت کوپہنچ گئی تھی؛چنانچہ سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی کہ اس کےلئے ’’رحم دلانہ ہلاکت‘‘کی اجازت دی جائے،اورمئی۲۰۱۱ءمیں عدالت کافیصلہ آیاکہ ’’فعال یوتھینیزیا‘‘ایک غیرقانونی عمل ہے،جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی،
فیصلہ کی تفصیل سےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ غیرفعال یوتھینیزیاکےبارے میں عدالت نرم گوشہ رکھتی ہے،اوراس کارجحان ہےکہ اس کی اجازت ہونی چاہئے،سپریم کورٹ کےاس فیصلہ کےبعدسےاصحاب دانش،طبی اخلاقیات کےماہرین اورسماجی تنظیموں کےدرمیان بحث چھڑگئی تھی کہ اس عمل کوجائزہوناچاہئےیانہیں؟لیکن۹مارچ۲۰۱۸ءکواپنےسابقہ موقف کےبالکل برعکس سپریم کورٹ نےقتل بہ جذبہ ٔرحم کی اجازت دےدی،چیف جسٹس دیپک مشراکےزیرصدارت پانچ ججوں کی آئینی بینچ نےیہ فیصلہ دیاہے،جس کاخلاصہ یہ ہےکہ اگرکوئی مریض کسی پیچیدہ اورمہلک بیماری میں مبتلاہونےکی وجہ سےشدیدتکلیف واذیت کاشکارہوتومریض کی خواہش پراس کےرشتہ داروں کےکہنےپریاڈاکٹرازخودفیصلہ کرکےمریض کوہمیشہ کےلئےموت کی نیندسُلاسکتاہے۔
اس حوالےسےروزنامہ امت راولپنڈی، میں بھی یہ خبرشایع ہوئی تھی کہ بھارتی سپریم کورٹ نےلاعلاج مریضوں کواپنےلئےموت چننےاوراس حوالےسےوصیت کرنےکی اجازت دےدی ہے،طبی اصطلاح میں ‘‘بالراست موت’’ کہلانےوالےعمل کی اجازت چیف جسٹس دیپک مشراکی سربراہی میں 5رکنی بینچ نےدی،تاہم پارلیمنٹ سےقانون سازی کےبعدہی یہ حکم نافذالعمل ہوسکےگا۔فیصلےکےمطابق بالراست موت کےلیےصرف زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلامریض اہل ہونگے،جن کےصحت یاب ہونےکی کوئی امیدنہ ہو ۔ سپریم کورٹ نےبالراست موت کےلیےمیڈیکل بورڈسےرجوع کرنالازمی قراردیاہے،جس کی تصدیق کےبعدبالراست موت کامرحلہ طےکیاجائےگا۔ وہ مریض جووصیت نہ کرسکےہوں اورطویل کومہ میں جاچکےہوں،ان کےلواحقین عدالت سےمریض کےلیےبالراست موت کی اجازت لےسکتےہیں،تاہم اجازت دینایانہ دیناعدالت اورمیڈیکل بورڈکی مشترکہ صوابدیدپرہوگا۔ بھارتی سپریم کورٹ نےبالراست موت کافیصلہ ایک غیرسرکاری تنظیم کی دائرپٹیشن کی سماعت کےبعدسنایاہے۔ این جی اونے پٹیشن دائرکی تھی کہ وہ شدیدبیماراورلاعلاج مریض جوہوش وحواس میں نہیں،ان کےلواحقین کواجازت دی جائےکہ وہ ( مریض کےلیے) بالراست موت کی درخواست دےسکیں۔
(5)۔ پاکستانPakistan.
پاکستان میں کسی بھی انسان کاکسی بھی صورت میں مارنا غیرقانونی ہے،اسی طرح پاکستانی ڈاکٹروں نےبھی بہت سختی کےساتھ یوتھینیزیااوراس طرح کی دوسری اموات کی مخالفت کی ہےکہ قتل بہ جذبہ رحم کےبرخلاف مریضوں اوراس کےخاندانوں کوسماجی تعاون اورعلاج ومعالجہ مہیا کرنےپرزوردیاہے ۔
(6)۔ فن لینڈfinland.
یہاں فعال یوتھینیزیاغیرقانونی ہے،تاہم غیرفعال یوتھینیزیاکوقانوناًجوازحاصل ہے
Active euthanasia is not legal in finland. Passive euthanasia however is legal
(7)۔ناروےNorway.
فیال حال ناروے میں یوتھینیزیاایک غیرقانونی عمل ہے،اس لئےاگرکوئی شخص کسی بیماریاورشدیدتکلیف میں مبتلامریض کی زندگی کوختم کرنے میں تعاون کرتاہےتواُسےکم سےکم سزادی جاتی ہے۔
Euthanasia remains illegal, though a Caregiver may receive a reduced punishment for taking the life of someone who consents to it.
(8)۔لگسمبرگ.Luxembourg.
فروری 2008ءکولگسمبرگ کی پارلیمنٹ میں اس کےمتعلق ایک بل سماعت ہوئی،جس میں59 میں سے30ارکان پارلیمنٹ نےیوتھینیزیاکےحق میں ووٹ دیا۔جس کےنتیجہ میں یہ بل پاس ہوگیا۔ پھر 19 مارچ2009ءسےیہاں پریوتھینیزیاکوقانوناًجائزقراردیاگیا۔اس قانون کی منظوری کےبعدیہ فیصلہ کیاگیاکہ لاعلاج مریض کواپنی طویل زندگی کےخاتمےکااختیارہوگا ۔ اس شرط کےساتھ کہ دوماہرڈاکٹروں نےاس کی بیماری کولاعلاج قراردیاہواوراس کی بقائےحیات کوختم کرنےکامشورہ دیاہو۔
(9)۔ لیتویاLatvia.
یہاں پریوتھینیزیاغیرقانونی ہے۔ اگرڈاکٹرکسی مریض کےبارے میں یہ سمجھتاہےکہ اس کی بیماری لاعلاج ہےاوروہ اسک اعلاج ترک کرناچاہتاہے،تواُسےعلاج نہ کرنےکی اجازت ہے۔
Euthanasia is not legal in Latvia . However a doctor may refuse further treatment of a patient it they believe it is the best course of action.
(10)۔لیتھوانیاLithuania.
یہاں پربھی یوتھینیزیاقانوناًجائزنہیں،تاہم 2016ءمیں خودموت اختیارکرنےکےحق میں ایک قانونی مسودہ تیارکیاگیاتھا۔
Euthanasia is not legal in Lithuania .However as of 2016 a draft of a law about right to die has been produced.
(11)۔ ترکیTurkey.
ترکی میں یوتھینیزیاحرام ہے۔ اسی طرح اگرکوئی آدمی خودکشی کےلیےدوسرےکی مددکرتاہےیااس کی حوصلہ افرزائی کرتاہے،یعنی اُسےمشورہ وغیرہ دیتاہےتوآرٹیکل 84 کےتحت اسےسخت سےسخت سزادیجائےگی۔ اورفعال یوتھینیزیا میں اسےعمرقیدکی سزادیجائےگی۔
(12)۔اسرائیلisrael.
اسرائیل کےپینل قانون (penal law)کےمطابق کسی انسان کومارنا،یااس کی مدتِ حیات کوکم کرنےکےلیےتدابیراختیارکرناغیرقانونی ہے۔ اسی طرحاسرائیل اوریہودی قانون میں ایکٹیویوتھینیزیاممنوع ہے،جبکہ پیسویوتھینیزیایہودی قانون کےتحت ممنوع ہےاوراسرائیلی قانون اس کی اجازت دیتاہے۔
(13)۔ جاپانJapan۔
جاپان میں حکومت کی طرف سےقتل بہ جذبہ رحم کےجوازیاعدم جوازسےمتعلق کوئی واضح قانون موجودنہیں ہےاورنہ ہی وہاں کی سپریم کورٹ نےاس معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ صادرکیاہے۔ لیکن یہاں کی (Local court) نچلی کورٹ میں یوتھینیزیاسےمتعلق دوکیس درج کئےگئےتھے۔ایک 1962ءمیںNagoyaمیں،اوردوسرا 1995ءمیںTokai universityمیں ایک واقع کےبعددرج کیاگیا۔پہلےکیس کاتعلق پیسویوتھینیزیاسےہےاوردوسرےکاایکٹیویوتھینیزیاسےہے۔ اُن دونوں مقدمات کےفیصلےکےلیےایک قانونی فریم تیارکیاگیا،اس فریم میں ایک ایسی شق قائم کی گئی جس کےذریعےغیرفعال اورفعال قتل بہ جذبہ رحم دونوں کی چندشرائط کےساتھ قانونی طورپراجازت دےدیگئی ہے۔
شرائط حسب ذیل ہیں:
غیرفعال قتل بہ جذبہ رحم کیس کےمتعلق تین شرائط مقررکی گئیں: (1)۔ آدمی ناقابل علاج مرض میں مبتلاہواوراس کےصحت یاب ہونےکابھی امکان نہ ہو۔ (2)۔علاج روکنےکےلیےخودمریض واضح اجازت دے،یااس سےاجازت لی جائے ۔ (3)۔ اگرمریض کی رضامندی معلوم کرناممکن نہ ہوتواس صورت میں مریض کےخاندان والوںکی تحریری صورت میں اجازت ہونی چاہیے۔
فعال قتل بہ جذبہ رحم کےلیےاِن چارشرائط کوپوراکرناضروری ہے: (1)۔مریض جسمانی طورپرناقابل برداشت تکلیف میں مبتلاہو۔ (2)۔ایسی بیماری میں مبتلاہوجس کاحل صرف موت ہی ہواورجلدی مرنےکاامکان بھی ہو۔ (3)۔مریض کی اپنی اجازت ضروری ہے،اس کےخاندان والوں کی اجازت کافی نہیں ہوگی۔ (4)۔
the physician must have (ineffectively) exhausted all other measures of pain relief .
فصل دوم:قتل بہ جذبۂرحم مختلف مذاہب عالم میں
الہٰمی مذاہب
یہودیت:انسان کواللہ تعالی نے بطور اشرف المخلوقات پیداکیاہے ،اس لیےاس کی جان ، مال ، اور عزت وآبرو کی حفاظت بھی لازمی فرمائی ہے۔ نبی کریم ﷺ سے پہلے جتنےبھی انبیاء علیھم السلام گزرےہیں تمام نےنفس انسانی کی حفاظت اور اس کی قدر کرنےکی تعلیم دی ہے، اسی طرح اگرکوئی آدمی اس محترم نفس کو ضایع کرتاہےتو اسے جرم کےمطابق وہ سزادی جاتی تھی جو اللہ پاک نے مقرر کی ہوتی تھی۔
یہودیوں کےپاس حضرت موسیٰ علیہ السلام بھیجےگئےتھے اور انہیں تورات کےنام سے مکتوب ایک کتاب دی گئی تھی، اس کتاب میں اس طرح کی تعلیمات موجود تھیں کہ جن سے انسانیت کی فضیلت اور اس کا محترم ہونا ثابت ہوتاہے۔ مثلاً کتاب مقدس میں لکھاہواہےکہ:
‘‘ اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پرپیداکیا’’
‘‘یہ آدم کانسب نامہ ہے،جس دن خدانےآدم کوپیداکیاتواسےاُسےاپنی شبیہ پربنایا۔ نر اور ناری انکوپیداکیاااور انکوبرکت دی اور جس روز وہ خلق ہوئے انکانام آدم رکھا’’
اسی طرح قرآن ہمیں بتاتاہےکہ یہودیوں پر بھی قتل نفس حرام قراردیاگیاتھا۔ فرمان باری تعالی ہے:
’’وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ‘‘
‘‘اور ہم نےلکھ دیاتھاان پر اس(تورات) میں کہ جا کےبدے جان اور آنکھ کےبدلےآنکھ اور ناک کےبدلے ناک اور کان کےبدلے کان اور دانت کےبدلےدانت، اسی طرح زخموں کابھی قصاص لیاجائےگا، اور جولوگ اللہ کی اتاری ہوئی شریعت کےمطابق فیصلےنہیں کرتے وہی تو ظالم ہیں۔’’
نیز یہ بات بھی ہےکہ اللہ تعالی کےمنتخب کردہ انبیاء اور رسول جنہیں اللہ پاک نے مختلف اوقات اور زمانوں میں مختلف قوموں کی طرف بھیجاتھا۔ ان میں سے کئے ایسے انبیاء ایسےتھےکہ جن کی عمریں سینکڑوں سال ہوئی تھیں۔ مثلاً : حضرت آدم علیہ السلام کی عمر کےحوالےسےکتاب مقدس میں لکھاہواہے کہ : نوسو تیس برس تھی۔
‘‘اور آدم کی کل عمر نوسو تیس برس کی ہوئی تب وہ مرا’’
اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کےبارےمیں قرآن بتاتا ہےکہ انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھےنوسوسال دین کی تبلیغ کی ،پھر اس کی قوم پر عذاب آیا، صرف اہل ایمان کو اللہ تعالی نے بچالیاتھا ،باقی سب اس عذاب میں ہلاک ہوگئے۔
اللہ تعالی فرماتےہیں کہ:
’’وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ‘‘
‘‘ ہم نے نوح (علیہ السلام )کواس کی قوم کی طرف بھیجا اور پچاس کم ایک ہزار برس ان کےدرمیان رہا، آخر کار ان لوگوں کو طوفان نےآگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔’’
حضرت نوح علیہ السلام کی یہ عمر عذاب سے پہلےکی ہے جبکہ وہ اس کےبعد بھی کافی عرصہ رہے اور دعوت الی اللہ کام کرتےرہےہیں، ان کی کل عمر تقریباً ایک ہزار سال سے زیادہ تھی۔ اس دوران انہیں اپنی قوم کی طرف سے کئی مشکلات پیش آئیں ،لیکن انہوں نے برداشت کیا اور اپنی مشن کو جاری رکھا، مشکلات اور تکالیف کی وجہ سے نہ موت کی تمنا کی ہے اور نہ ہی اس طرح کی کوئی کوشش کی ہے۔
اسی طرح دوسرے انبیاء علیھم السلام کی اعمار مبارک بھی طویل تھیں اور زندگی میں انہیں بھی کئی مشکلات اور مصائب کا سامنہ کرنا پڑاتھا ، انہیں بھی ان کی قوموں کی طرف سے مختلف طریقوں سے تکلیف دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے ہاتھ سے موت کےلیے اقدام نہ کئے۔ بلکہ انہوں نے اپنےعمل سے اس بات کوثابت کیاکہ موت وحیات مالک صرف اور صرف اللہ پاک ہی ہیں ۔
اس سے معلوم ہوتاہےکہ یہودیت میں قتل نفس بغیر حق اور قتل بہ جذ بہ رحم دونوں حرام ہیں۔
نصرانیت:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوئی نیادین اور نئی شریعت نہیں لائےتھے بلکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو نافذ کرنےآئے تھے، انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےحوالےسے ایسے اقوال موجود ہیں جن میں انہوں نے خود کو موسوی شریعت کا پیروکار ظاہرکیاہے۔اس سے معلوم ہوتاہےکہ انجیل بنیادی تعلیمات بھی وہی ہیں جو تورات کی ہیں،اس لیےانجیل ان تعلیمات کی بنیاد پر نہ صرف قتل بہ جذبہ رحم کی نکیر ثابت ہوتی ہے بلکہ جذبہ رحم کے تحت کسی کو قتل کرنا بھی ممنوع پاتاہے اور قاتل سزا کامستحق ٹھرتاہے۔ مثلاً انجیل مقدس میں لکھاہواہےکہ:
‘‘تم سُن چکےہوکہ اگلوں سےکھاگیاتھاکہ خون نہ کرنااور جو کوئی خون کرےگا وہ عدالت کی سزاکےلائق ہوگا’’
اسی طرح دوسری جگہ پرلکھاہواہےکہ:
‘‘توحکموں کوتوجانتاہے۔زنانہ کر۔ خون نہ کر۔چوری نہ کر۔جھوٹی گواہی نہ دے۔اپنےباپ کی اورماں کی عزت کر’’
اسلام:قتل بہ جذبۂرحم خودکشی کی ایک قسم ہےجبکہ خودکشی کرنااسلام میں قطعاً حرام ہے،خواہ وہ کسی پریشانی کی وجہ سے کی جائےیاناقابل برداشت تکلیف سے آزادی حاصل کرنےکی نیت سے ،اللہ پاک کےہاں یہ فعل انتہائی ناپسنداوردائمی عذاب کےمستحق ٹھرانےوالاعمل ہے،کئی اسباب کےپیش نظرجولوگ اپنےآپ کوقتل کرتےہیںاللہ پاک نےاُنہیں اس جرم کےارتکاب سےروکاہے،منع فرمایاہے۔
اللہ پاک فرماتےہیں:
’’وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا‘‘
‘‘اوراپنےآپ کوقتل نہ کرو یقین مان لوکہ اللہ تم پرمہربان ہے’’۔
جبکہ معاشی تنگی اورمفلسی کی بناپرجولوگ اپنی اولاد کوقتل کرتےہیں اللہ پاک نےاُنہیں بھی اسےمنع کیاہےکہ رزق کےفقدان کےڈرسے اپنی اولاد کوقتل نہ کرو، کیوں کہ رزق کاذمہ اللہ پاک نے اپنے اُوپر لیاہواہے۔ اللہ رب العزت فرماتےہیں کہ:
’’وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ‘‘ ۔
‘‘اور اپنی اولاد کومفلسی کےڈرسے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی زق دیتےہیں اور ان کوبھی دیں گے’’۔
اسی طرح احادیث کےمطالعےسےبھی معلوم ہوتاہےکہ کوئی شخص وقتی آزمائش اورتکلیف سےبچنےکےلئےخودکشی کاراستہ اختیارکرتاہےتووہ مرنےکےبعدبھی اس مخصوص طریقہ کی تکلیف اورعذاب میں مبتلا رہتاہےجسےوہ مرنےکےلئےاختیارکرتاہے۔ مثلاً ایک حدیث میں حضرت ابوھریرہ ؓ فرماتےہیں کہ:
’’ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَتَوَجَّأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ شَرِبَ سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَحَسَّاهُ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تَرَدَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَهُوَ يَتَرَدَّى فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا‘‘
‘‘رسول اللہ صلی علیہ وسلم نےفرمایا:جس نےاپنےآپ کولوہے(کے ہتھیار)سےقتل کیاتو وہ ہتھیاراس کےہاتھ میں ہوگا وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئےجہنم کی آگ میں رہےگا،اسےاپنےپیٹ میں گھونپتارہےگا۔جس نےزہرپی کرخودکشی کی وہ ہمیشہ کےلیےجہنم کی آگ میں اس سےگھونٹ پیتارہےگااور جس نےاپنےآپ کوپہاڑسےگرکرخودکشی کی، وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیےجہنم کی آگ میں پہاڑسےگرتارہےگا۔’’
اللہ پاک نےیہ زندگی دی ہے اس لئےیہ اللہ پاک کی امانت ہے،اس کی حفاظت کرناہرانسان پرفرض ہے، خودکشی کرکےاپنی زندگی کی کاخاتمہ کرنےوالاانساناپنی زندگی کی تمام نیکیوں کےثمرات ،اپنی تمام عبادات کےاجروثواب سے محروم ہوجاتاہےاورجہنم کامستحق ٹھرتاہے،اس کی زندگی بہرکےاعمال صالحہ ضایعہ ہوجاتےہیں،ایک مجاہد جواللہ کی راہ میں اپنامال اپنی عزت وآبرو لُٹادیتاہے،اپنی جان کی بازی لگاتاہے،اپنی بہادری کےجوہردکہاتاہے،یہ عمل اللہ پاک کوانتہائی پسندہے،لیکن اگریہی مجاہد اللہ پاک کی راہ میں میدان جہادمیں لڑتےلڑتےشدید زخمی ہوجاتاہے اور ان زخموں کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی جوناقابل برداشت ہوتی ہے،اس تکلیف کوبرداشت نہ کرسکنےکی بناپر اگریہ مجاہدبھی اپنےآپ کوخودکشی کرتاہے، ایسا بندہ مجاہد نہیں کہلائےگا،اہل جنت کےبجائےاہل جہنم میں شمارہوگا۔
حضرت ابوھریرہؓ فرماتےہیں کہ:
’’شَهِدْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَقَالَ لِرَجُلٍ مِمَّنْ يُدْعَى بِالْإِسْلَامِ: «هَذَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ»، فَلَمَّا حَضَرْنَا الْقِتَالَ قَاتَلَ الرَّجُلُ قِتَالًا شَدِيدًا، فَأَصَابَتْهُ جِرَاحَةٌ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، الرَّجُلُ الَّذي قُلْتَ لَهُ آنِفًا: «إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ» فَإِنَّهُ قَاتَلَ الْيَوْمَ قِتَالًا شَدِيدًا، وَقَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِلَى النَّارِ»، فَكَادَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَرْتَابَ، فَبَيْنَمَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ إِذْ قِيلَ: إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ، وَلَكِنَّ بِهِ جِرَاحًا شَدِيدًا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ اللَّيْلِ لَمْ يَصْبِرْ عَلَى الْجِرَاحِ، فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: «اللهُ أَكْبُرُ، أَشْهَدُ أَنِّي عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ‘‘
‘‘ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ جنگ حنین میں شرک تھے۔آپ ﷺ نےمسلمانوں کےلشکرمیں ایک مسلمان شخص کےبارےمیں فرمایا یہ اہل جہنم میں سےہے،جب لڑائی کاوقت آیاتووہ خوب لڑااور زخمی ہوگیا، لوگوں نےکہایارسول اللہﷺ آپنےجس شخص کےبارےمیں فرمایاکہ وہ جہنمی ہے، وہ آج خوب لڑااور مرگیا پھرآپﷺ نےفرمایا:وہ جہنم میں چلاگیا۔ بعض مسلمانوں کواس میں شک تھا اتنےمیں ایک خبرآئی کہ وہ مرانہیں بلکہ سخت زخمی ہواہے، جب رات ہوئی اور زخموں کی وجہ سے تکلیف بھی بڑھ گئی،جوکہ اس شخص کی برداشت سے باہرتھی،اس لئےاس نے خود کومار دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ خبرپہنچی توآپﷺ نےفرمایا: اللہ بہت بڑاہے اورمیں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ میں(محمدﷺ)اللہ کابندہ اور اس کارسول ہوں’’۔
اب چونکہ آپﷺ آخری نبی اور رسول ہیں،اور ان کی شریعت ابدی اور تاقیات انسانیت کےلئےذریعہ رشد وراپنمائی ہے،اس میں تمام مخلوقات کےحقوق بالخصوص انسانی زندگی کےبارےمیں اصولی احکام صادرفرمادئےگئےہیں،جن کی اصل روح اورحِکمات کومدنظررکھاجائے، توانسانیت سےمتعلق کسی بھی معاملہ کےتمام پہلو اوراس کےاقسام کاشرعی حکم اوران کی شرعی حیثیت معلوم کرناقطعاً مشکلل نہیں،بلکہ ضروری ہے،اس لئے اگلےباب میں قتل بہ جذبۂرحم کی تمام اقسام کاالگ الگ جائزہ لیاگیاہےکہ آیایہ شریعت اسلامیہ کی روح اوراس کےاصول وضوابط کےخلاف یاان سےمتصادم تونہیں ہیں؟۔
غیرالہٰمی مذاہب
(1)۔ہندودھرم:ہندودھرم میں قتل بہ جذبہ رحم سےمتعلق دونقطۂ نظرپائےجاتےہیں۔ ایک یہ ہےکہ اگرکوئی شخص کسی مہلک اورناقابل علاج مرض میں مبتلاہےتواسےموت کےآغوش میں پہنچادیاجائے،ایسےہرشخص کےلیےیہ عمل مستحسن ہوگا۔ اس حوالےسےدوسرانقطۂ نظریہ ہےکہ اگرکوئی شخص دکھ بھری زندگی گزاررہاہےاوروہ خودکومارکراس دکھ دردبھری زندگی سےنجات حاصل کرناچاہتاہےتواس عمل میں کسی کومزاحمت نہیں کرنی چاہیے،اوراگرکوئی اس طرح کرتاہےتوگویاوہ اس کی دوسری زندگی (یعنی آواگون۔ مرکرپھرجنم لینا) کیخلاف ورزی کرتاہے،اورجب تک یہ شخص زندہ رہےگااورجوبھی گناہ کرےگاتواس کاذمہ داروہی شخص ہوگاجواس کی موت میں مانع ہواہے۔ہندوؤں کی کتاب وید میں لکھاہےکہ انسان کی زندگی میں اس کےدوبھروسہ منددوست ہوتے ہیں جوہمیشہ اس کےساتھ رہتےہیں،ایک ’’گیان ‘‘یعنی علم،جوکہ ضروری ہوتاہے،دوسرا ’’مرتیو‘‘یعنی موت جوکہ کبھی بھی آسکتاہےاوراسےٹالانہیں جاسکتاہے ۔ اس لیےقبل ازوقت کسی کوموت تک پہنچادیناگناہ نہیں ہے۔
(2)۔بدھ مذہب:بدھ مذہب کی تعلیمات کی اساس رحم دلی اورشفقت پرہےاس لیےیہاں پرقتل بہ جذبہ رحم کوجوزحاصل ہےاس لئےکہ ایک شخص سخت تکلیف میں مبتلاہے ۔ تاہم یہ بات درست نہیں ہےکہ زندگی کوفناکیاجائےاگرچہ اس کامقصدکچھ دوسراہی ہو۔ ’ تھیراوادا‘بدھ ازم کےمطابق ایک شخص روزانہ یہ عہدکرتاہےکہ میں پرہیزکروں گاکسی دوسرے کی جان کوفناکرنےسے،خاص طورپربھکشوؤں میں تویہ نظریہ زیادہ ہی عام ہے۔ چناچہ ( پتی موکھا) میں کہاگیاہےکہ:کسی بھکشوکےلیےیہ بات درست نہیں ہےکہ وہ جان بوجھ کرزندگی کوخت مکرے،یااپنےلیےکسی قاتل کوتلاش کرےجواسےجان سےماردے،یاموت کےفائدےبتائے،یادوسرےکومرنےپراکسائے۔ میرےبھائیو ! یہ مفلسی اورتکلیف سےبھری زندگی کس کام کی؟ایسی زندگی سےموت بہترہے،یااس طرح کےخیالات جوتمہارےدماغ میں ہیں،یاجومقاصدتمہارےذہن میں ہیں،وہ مختلف طریقوں سےموت سےفائدہ اٹھانےیامرنےکےلیےاکساتےہیں۔
(3)۔جین مذہب:جین مذہب کےآخری ’تری تھنکر‘ مہاویروردھمان نےاپنےپیروکار(شراوک) کواجازت دی ہےکہ وہ زندگی کواپنی مرضی سےختم کردے،اگریہ محسوس کرےکہ وہ اپنی ریاضت کی اس منزل کوپہنچ گیاہےجہاں سےوہ نجات پانےکےقریب ہے۔ کیونکہ زندگی سےنجات پاناہی مذہب کابنیادی مقصدہے۔
(4)۔سکھ مذہب:سکھ مذہب کی تعلیمات کےمطابق زندگی کوغیرمعمولی اہمیت حاصل ہے،کیونکہ یہ عطیۂخداوندی ہے،۔ اس لیےان کی اکثریت قتل بہ جذبہ رحم سےاختلاف رکھتی ہے۔ انکایہ بھی یقین ہےکہ زندگی اورموتک اوقت متعین ہےاوراس کااختیارخداکےپاس ہے ۔ سکھوں کےمذہبی راہنما (گرو) نےخودکشی کاسرےسےانکارکیاہےوہ اسےخداکےمنصوبہ اورعمل میں دخل سمجھتےہیں،اگرکوئی شخص کسی پریشانی اورتکلیف میں مبتلاہوتاہےتویہ لوگ اسےاس کےعمل کانتیجہ سمجھتےہیں۔ اس لیےانسان کوچاہیےکہ بغیرکسی چوںوچرااورگلہ وشکواہ کےاس کوجھیل نےاوربرداشت کرنےکےلیےتیاررہے۔ یہاں اس بات کی بھی تعلیم ملتی ہےکہ ہمیں اپنی زندگی کواس طرح ذمہ دارانہ طریقےسےبسرکرناچاہیےکہ اس سےزیادہ سےزیادہ فائدہ حاصل ہو۔
باب سوم:قتل بہ جذبۂ رحم کی اقسام کاشرعی جائزہ
فصل اول:رضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂرحم
فصل دوم:رضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذبۂرحم
فصل سوم:غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂرحم
فصل چہارم:غیررضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذذبہ رحم
(علاج کی شرعی حیثیت ، ترک علاج کی اجازت دینے کامسئلہ)
فصل اول: رضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂرحم
اس سےمرادقتل بہ جذبۂرحم کی وہ قسم ہےجس میں کوئی مریض بذات خودمرنےکافیصلہ کرتاہےاور اس مقصدکےلئےکوئی عملی تدبیر اختیار کرتاہے،مثلاً زہرکاانجکشن لگوانا،دردکم کرنےوالی دوا کازیادہ مقدارمیں استعمال کرنا وغیرہ، اسلام کی بنیادی اوراصولی تعلیمات سےایسےعمل کی توثیق کاتوکوئی ثبوت نہیں ملتا،لیکن اس کی مذمت ونکیرکےضمن میں قرآن وحدیث سے مضبوط دلائل حاصل ہوتےہیں جن سےثابت ہوجاتاہےکہ اسلام میں ایسےعمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ زندگی اورموت کااختیاراللہ رب العزت نےاپنی قدرت کاملہ تک ہی محدود رکہاہے لہٰذاکس انسان کوکتنی زندگی عطا فرمانی ہےاورکب اس کی موت کاوقت مقررکرناہے یہ عمل خالق ہی کی مرضی ومنشاءپرمنحصرہے ،کسی انسان کااس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
اللہ رب العزت فرماتےہیں:
’’وَلَكُمْ فِى الْاَرْضِ مُسْـتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ‘‘
‘‘اور تمہارے لیے اب زمین میں ٹھکانا ہے اور نفع اٹھانا ہے ایک خاص وقت تک’’۔
ایک دوسری جگہ پرفرماتےہیں:
’’فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُهُمْ لَا يَسْـتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا يَسْتَقْدِمُوْنَ‘‘
‘‘پھر جب ان کا وہ مقررہ وقت آ جائے گا تونہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے، نہ آگے کی طرف سرک سکیں گے’’۔
اللہ پاک اپنےبندوں پرانتہائی رحم کرنےوالا اورمہربان ہے،وہ کسی پربھی اس کی طاقت سےزیادہ ذمہ داری اورآزمائش نہیں کرتا اورنہی کسی کو استطاعت سےزیادہ تکلیف میں مبتلاکرتاہے: فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا‘‘ ۔‘‘اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سےبڑھ کر ذمہ داری کابوجہ نہیں ڈالتا’’
بلکہ اللہ پاک اپنےبندوں پرمہربان اور شفیق ہے ،وہ اپنےبندوں کےلئےمشکلات نہیں ،آسانیاں پیداکرتاہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
’’يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‘‘
‘‘اللہ تمہارےساتھ نرمی (آسانی)کرناچاہتاہے،سختی(دشواری)کرنانہیں چاہتا’’
ایک ماں اپنےبچےسے کتنی محبت کرتی ہے جس کا اندازہ نہیں،وہ اپنےے بچےکی ذراسی تکلیف کی وجہ سے بےقراراوربےچین ہوجاتی ہے۔ جبکہ اللہ رب العزت اپنےبندوں سے سترماوں سےبھی زیادہ پیارکرتاہے، ایسی شفیق ذات سےکیسےامیدکی جاسکتی ہےکہ وہ اپنےبندوں کوشدیدتکلیف میں بےآسرا اور بےسہاراچھوڑ دیگا،اس لئےبیماری یا دیگر تکالیف کوتقدیر سمجھ کر صبرکرناچاہیے،صبر کاپھل ہمیشہ اچھاہی ہوتاہہے،اور جولوگ صبر کاراستہ اختیارکرتےہیں یہ تکالیف ان کےلئےباعث مغفرت بنتی ہیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
’’قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ المُسْلِمَ إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا عَنْهُ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا‘‘
‘‘رسول اللہ صلی علیہ وسم نےفرمایا:مومن کوجوبھی تکلیف پہنچتی ہےیہاں تک کہ کانٹابھی چبھتاہےتواللہ تعالی اس کی ان تکالیف کواس کےگناہوں کاکفارہ بنادیتاہے۔’’
اسی طرح موت کی تمنانہ کرنےاور آزمائشات اور تکالیف کوبرداشت کرنےوالےمسلمانوں کوبشارت دی گئی ہےکہ یہ اذیتیں اور پریشانیاں تمہاری نیکیوں میں اضافےاوربخشش کاباعث بن جاتی ہیں۔ حضرت ابوھریرہؓ فرماتےہیں کہ میں نےآپ علیہ الصلاۃ والسلام کوفرماتےہوئےسُنا:آپﷺ فرمارہےتھےکہ:
’’وَلاَ يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ المَوْتَ: إِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَزْدَادَ خَيْرًا، وَإِمَّا مُسِيئًا فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعْتِبَ‘‘
‘‘تم میں سےکوئی بھی موت کی تمنانہ کرےاگروہ نیکوکارہےتوشاید یہ(تکالیف)اس کی نیکی میں اضافےکاذریعہ بنےاوراگربدکارہےتوشایداس کےلیےمغفرتکاسب بنے’’۔
ایک دوسری روایت ایسی بھی ملتی ہےجس میں مطلق موت کی تمنااورخواہش کرنےسےمنع فرمایاگیاہے۔
حضرت انسؓ فرماتےہیں کہ نبی کریمﷺ نےفرمایا:
’’ لَا، يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ ‘‘ ۔
‘‘ تم میں سےکوئی موت کی تمنا(خواہش)نہ کرے’’
دوسری جانب ایسےشخص کوجہنم کی وعیدسنائی گئی ہےجووقتی اورعارضی تکلیف سےگھبراکراپنی جان پرظلم کرتے ہوئے خودکوموت کی گھاٹ اتاردیتاہےاورخداکےفیصلوں کواپنےہاتھ میں لیتاہے۔
نبی کریمﷺ فرماتےہیں کہ:
’’ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ بِهِ جُرْحٌ، فَجَزِعَ، فَأَخَذَ سِكِّينًا فَحَزَّ بِهَا يَدَهُ، فَمَا رَقَأَ الدَّمُ حَتَّى مَاتَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: بَادَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ، حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الجَنَّةَ ‘‘
‘‘ پچھلےزمانےمیں ایکشخص کےہاتھ میں زخم ہوگیاتھااوراس سےاس کوبڑی تکلیف تھی،آخراس نےچھری سےاپناہاتھ کاٹ لیااس کانتیجہ یہ ہواکہ خون بنےلگااوراسی سےوہ مرگیا، پھراللہ تعالی نےفرمایاکہ میرےبندےنےخود میرےپاس آنےمیں جلدی کی اس لئےمیں نےبھی جنت کواس پرحرام کردیاہے’’۔
فصل دوم: رضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذبۂرحم
قتل بہ جذبۂرحم کی اس صورت میں اگرچہ مریض ناامیدی اورمایوسی کےعالم میں خودکشی کےلئےکسی دوا یازہر وغیرہ کااستعمال نہیں کرتا،لیکن علاج سےاحتراض اورضروری ادویہ سےاجتناب کرتاہے تاکہ بروقت علاج نہ ہونےکہ وجہ سےوہ مرجائےاوراس پرخودکشی کاالزام بھی نہ لگے، لیکن قرآن مجید کی درج ذیل آیت مبارکہ سےیہ اصول اخذ ہوتاہےکہ اللہ تعالی نےدانستًا ایساحیلہ بہانہ کرنےسےبھی منع فرمایاہےجس کالازمی نتیجہ ہلاکت کی صورت میں ہی رونماہو۔ فرمان باری تعالی ہے:
’’وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ‘‘
‘‘اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو’’
اس آیت کےتحت نفس وجان کی حفاظت ایک ماموربہ امرثابت ہوتاہے،اورحفاظتِ نفس کےجمیع اسباب و وسائل کااپنی وسعت کےمطابق فراہم کرناہرانسان پرلازم ہے اس لئےشرعاً یہ بھی جائز نہیں ہوسکتاکہ وسعت کےہوتےہوئےکوئی آدمی ترک علاج کرکےموت کودعوت دے۔
دوسری یہ بات بھی ہےکہ تمام اعمال کادارو مدار نیت پرہوتاہے،حضرت عمرفرماتےہیں کہ میں نےآپ علیہ السلام کویہ فرماتےہوئےسُناکہ:
’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘
‘‘تمام اعمال کادارومدار نیتوں پرہوتاہے۔’’
اس لئےاگرچہ اس صورت میں موت کےلئےکوئی عملی صورت اختیارنہیں کی جارہی،محض ترک علاج کیاجارہاہےلیکن یہ ترک علاج ایک توموت کاسبب بن رہاہےدوسرااس کامقصد اور نیت بھی یہی ہےکہ اس اذیت اورتکلیف دہ زندگی سےآزادی مل جائے۔ اس لئے اس مقصد کےپیش نظر علاج کاچھوڑناجائزنہیں ،بلکہ حدیث مبارکہ میں علاج کےظاہری اسباب کوچھوڑنےکی مذمت اورشفا کےلیےدواکےاستعمال کی ترغیب دی گئی ہے۔
حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں کہ: کچھ اعرابیوں نےآپ ﷺ سےکہا:
’’يَا رَسُولَ اللهِ، أَلاَ نَتَدَاوَى؟ قَالَ: نَعَمْ، يَا عِبَادَ اللهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلاَّ وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، أَوْ قَالَ: دَوَاءً إِلاَّ دَاءً وَاحِدًا قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا هُوَ؟ قَالَ: الهَرَمُ ‘‘
‘‘یارسول اللہ کیاہم علاج نہ کرائیں؟۔اس پر۔آپﷺ نے فرمایا: اےاللہ کےبندوعلاج کروایاکرو(دوا استعمال کرو)کیوں کہ اللہ تعالیٰ نےکوئی ایسی بیماری پیدا نہیں فرمائی جس کی شفاء(دوا۔علاج)پیدانہ کی ہو،سوائےایک بیماری کے۔لوگوں نےدریافت کیا یارسول اللہﷺ وہ کونسی بیماری ہے،آپﷺ نےفرمایا بڑھاپا ’’۔
لہٰذاشریعت اسلامیہ میں جان بوجھ کر یاغفلت کی بناپرعلاج نہ کراناجائز نہیں اورایسی صورت حال میں مریض کےاردگردبسنےوالےافرادپرذمہ داری عائدہوتی ہےکہ اگرکسی وجہ سےمریض علاج میں تغافل برت رہاہو تواس وجہ کودور کرنےکی کوشش کریں اور انسانی جان بچانےمیں اپناکرداراداکریں، کیوں کہ انسانی جان اللہ رب العٰلمین کی ہےاوراس کی حفاظت انسان کافریضہ ہے، محض غفلت کی وجہ سےعلاج نہ کرانا درست بات نہیں اوراگر علاج نہ کرنے کی نیت یہ ہوکہ موت آجائےیامریض جلدی ہلاک ہوجائے تویہ عمل ناجائز ہوگا،کیوں کہ ایک تومریض نےعملاً ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس پر قتل النفس کااطلاق ہو،دوسرایہ کہ اس سے نیت ہی یہ کی جارہی ہےکہ مریض خود ہلاک ہوجائے۔لہٰذا یہ عمل ناجاےزہوگا۔ معالج کاہی نہیں بلکہ انسانیت کےناطےایک عام انسان کابھی فرض ہےکہ دوسروں کوحتی الامکان موت اورہلاکت سےبچائےاور ان کی مدد کرے،تاکہ وہ اپناعلاج کراسکیں۔
اب چونکہ اسلام ایک فطری دین ہےاس لئےانسانی فطرت کوملحوظ خاطررکہتےہوئے اسلام میں عبادات میں بھی انسان کےساتھ نرمی کی گئی ہے،جبکہ قرآن مجید میں عبادات کوجنوں اور انسانوں کی تخلیق(پیدائش)کاباعث قراردیاگیاہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ‘‘
‘‘میں نےجن اور انسانوں کواس کےسوا کسی کام کےلیےپیدا نہیں کیاہےکہ وہ میری بندگی کریں۔’’
عبادات جیسےمعاملےمیں اللہ پاک نےانسان کےساتھ جتنی نرمی برتی ہےاس سےمعلوم ہوتاہےکہکسی بھی صورت میں انسانی جان کوتکلیف نہ دی جائےاور نہی ہلاک ہونےدیاجائے۔ الاشباہ والنظائرمیں تحریرہےکہ:
’’وَلَا يَجُوزُ لِلْإِنْسَانِ الرِّيَاضَةُ بِتَقْلِيلِ الْأَكْلِ حَتَّى يَضْعُفَ عَنْ أَدَاءِ الْعِبَادَةِ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { نَفْسُك مَطِيَّتُك فَأَرْفِقْ بِهَا } وَمِنْ الرِّفْقِ أَنْ لَا يُؤْذِيَهَا وَلَا يُجِيعَهَا ‘‘
‘‘ انسان کےلئےجائزنہیں کہ تقلیل غذا کےذریعےریاضت(ورزش)کرے،یہاں تک کہ عبادت کی ادائگی سےمعذورہوجائے،اس لئےرسول اللہ ﷺکافرماہے:تمہاری جان تمہاری سواری ہے پس اس کےساتھ نرمی برتو اور نرمی یہ ہےکہ انسان اسے نہ تکلیف پہنچائےاور نہ اسے بوکھارکھے’’۔
اللہ رب العزت کےنزدیک انسان کی جان اتنی اہم اورقدر ومنزلت کی حامل ہےکہ حفظ جان کومقاصدشرعیہ میں سےایک مقصد قراردےدیاگیاہے،اور ایک انسان کی جان کےتحفظ کی خاطراللہ پاک نےاپنےاحکام میں اس قدرنرمی رکھی ہےکہ اضطراری حالت میں بقدرضرورت حرام سےبھی استفادہ نہ صرف جائز بلکہ ضروری قراردیاگیاہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتےہیں کہ:
’’يَجِبُ أَكْلُ الْمَيْتَةِ عِنْدَ الضَّرُورَةِ فَإِنَّهُ وَاجِبٌ عِنْد الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَجُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ ‘‘
ائمہ اربع اورجمہورعلماء کےنزدیک حالت اضطرار میں مردارکاکھاناواجب ہے۔
ایک دوسری جگہ پر لکھاہےکہ:
’’وَيَجِبُ أَكْلُهَا عِنْدَ الضَّرُورَةِ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَجُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ . قَالَ مَسْرُوقٌ : مَنْ اُضْطُرَّ فَلَمْ يَأْكُلْ حَتَّى مَاتَ دَخَلَ النَّارَ . وَذَلِكَ لِأَنَّهُ أَعَانَ عَلَى قَتْلِ نَفْسِهِ بِتَرْكِ مَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ مِنْ الْأَكْلِ الْمُبَاحِ لَهُ فِي هَذِهِ الْحَالِ فَصَارَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ ‘‘
‘‘ائمہ اربع اورجمہورعلماء کےنزدیک ضرورت کےوقت مردارکاکھاناواجب ہے اور مسروق فرماتےہیں کہ جومردارکےکھانےپرمضطرہو اور نہ کہائے ، یہاں تک کہ مرجائے تووہ جہنم میں داخل ہوگا، اور یہ اس لئےکہ اس نے اپنےآپ کومارنےمیں مددکی ہےاس چیزکےترک کرنےسے جواس کےلئےمباح ہوچکی تھی اوراس کواستعمال کرنےکی طاقت بھی تھی۔اب گویاکہ یہ اپنےآپ کوقتل کرنےکےمترادف ہے۔’’
لیکن بعض علماء کی رائے ہےکہ مریض کودوا چھوڑدینےیااستعمال نہ کرنےسےمتعلق روکانہیں جاسکتا،کیوں کہ علاج کراناایک مباح کام ہے فرض یاواجب نہیں ہے۔ اس لئےاگرکوئی شخص کسی مہلک بیماری میں مبتلاہےاوروہ اپناعلاج نہیں کراناچاہتا ہےیا ترک تداوی کرتاہے، تواسےنہیں روکاجائےگا۔
فتاویٰ ہندیۃ میں لکھاہواہےکہ:
وَإِنْ قِيلَ لَا يَنْجُو أَصْلًا لَا يُدَاوَى بَلْ يُتْرَكُ كَذَا في الظَّهِيرِيَّةِ ‘‘
‘‘ اگریہ کہاجائےکہ مریض کاعلاج کسی بھی صورت میں ناممکن ہےتوعلاج چھوڑدیاجائےگا،الظھیریۃ میں بھی اسی طرح ہے۔’’
لیکن اگردیکھاجائےتوتھوڑےسےفرق کےساتھ یہاں پردوچیزیں معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک ترکِ علاج۔ جس کامطلب ہے علاج چھوڑدینا،علاج نہ کروانا۔دوسری کف۔ اس کامطلب ہے کہ کسی چیز کےاستعمال کاچھوڑدینا،یاکسی چیز کےاستعمال سےبازرہنا۔
اب علاج نہ کرانےکےتوکئےاسباب اوروجوہات ہوسکتی ہیں جن کی تفصیل انشاءاللہ آگےآئےگی،لیکن کف ایک مثبت عمل ہے اوراگر فقہی اصول ’’الاموربمقاصدھا ‘‘کومدنظررکھاجائےتوعلاج میں کف کامطلب یہ ہوگاکہ زندگی ختم ہوجائے،جس سےیہ معلوم ہوتاہےکہ انسان زندگی کے تحفظ کےفریضہ سےجوکہ اس پرواجب ہے،دست بردارہوناچاہتاہے جوکہ خلاف شریعت ہے۔ہرانسان کی زندگی خواہ معذورشخص کی ہو ،طاقت ورکی ہو یا انتہائی نشیط لوگوں کی ہو،اللہ پاک کےہاں سب محترم ہیں ، ان کی قیمت ان کااب واحترام برابرہے۔لہٰذا یوتھینیزیا کی کوئی بھی قسم اور صورت ہو ، اس کااستعمال جائز نہیں ہوگا۔
فصل سوم:غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂرحم
غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂرحم سےمراد ہےکہ مریض کی مرضی اور خواہش کےبغیر کسی عملی تدبیر سےمریض کوموت کےگھاٹ اُتاردیاجائےاب چونکہ یہ کام کوئی دوسراکرتاہےاورمریض کی رضامندی بھی شامل حال نہیں ہوتی ہے اس لئے یہ عمل سراسرظلم اور ناحق قتل ہوگا، جسےقرآن پاک میں تمام انسانوں کاقتل قراردیاگیاہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
’’ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا‘‘
‘‘جس کسی نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر کسی قتل کے قصاص کے یا بغیر زمین میں فساد پھیلانے (کے جرم کی سزا) کے گویا اس نے تمام انسانوں کو
قتل کردیا ’’
البتہ بعض صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں اللہ پاک نےخود کسی انسان کوقتل کرنےکاحکم دیاہے پھرچاہےوہ انسان مسلمان ہویا غیرمسلم(مرتد)ہو۔ فرمان باری تعالی ہے:
’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى‘‘
‘‘اےلوگوجوایمان لائےہو،تمہارےلئےقتل کےمقدموں میںقصاص کاحکم لکھ دیاگیاہے۔آزادآدمی نےقتل کیاہو توآزادہی سےبدلہ لیاجائے،غلام قاتل ہوتوغلام ہی قتل کیاجائےاورعورت اس جرم کی مرتکب ہوتو اس عورت ہی سےقصاص لیاجائے۔’’
اس کی وجہ یہ ہےکہ ایساانسان جواللہ رب العٰلمین کاباغی اور انسانیت کےلئےنقصان کاباعث بن جاتاہے۔ اس لئےایسےلوگوں کےبارےمیں اللہ پاک فرماتےہیں کہ:
’’إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ‘‘
‘‘جولوگ اللہ اور اس کےرسول سےلڑتےہیں اورزمین میں اس لئےتگ ودو کرتےپھرتےہیں کہ فسادبرپاکریں،ان کی سزایہ ہےکہ قتل کئےجائیں،یاسولی پرچڑھائےجائیں،یاان کےہاتھ اورپاؤں مخالف سمتوں سےکاٹ ڈالےجائیں،یاوہ جلاوطن کردئےجائیں۔یہ ذلت اوررسوائی توان کےلئےدنیامیں ہےاور آخرت میں ان کےلئےبڑی سزاہے۔’’.
اسی طرح حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتےہیں کہ:
’’ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ‘‘
‘‘ رسول اللہﷺنےفرمایا:کسی مسلمان آدمی کاخون،جویہ گواہی دیتاہوکہ اللہ کےسواء کوئی معبود نہی اورمیں اللہ کارسول ہوں حلال نہیں،سوائےتین انسانوں کے،شادی شدہ زانی،اورجان کےبدلےجان(قصاص میں قتل ہونےوالا)،دین اسلام کوچھوڑنےوالا جوجماعت سےالگ ہونےوالاہو۔’’
یہ وہ تین اسباب ہیں کہ جنکی بناپرکسی انسان کوقتل کیاجاسکتاہے،کیونکہ اللہ پاک نےتوانسان کی جان کومحترم قراردیاہے،لیکن اگران تین اعمال میں سےکسی کاارتکاب کرتاہے،توگویاوہ خوداپنااحترام ختم کرتاہے اورایک ایسامجرم قرارپاتاہے جس کی سزا کم ازکم قتل ہے۔اس لیےمریض کےورثاء پر اس کاعلاج کرنا فرض ہےان کواس کااہتمام کرناچاہیے،اسی طرح ڈاکٹرحضرات کوبھی چاہیےکہ مریض کاصحیح علاج کرنےکی کوشش کریں،اورانسانیت کےساتھ ہمدردی کےجذبہ سےاپنی ذمہ داری ادا کریں۔ باقی شفا دینااللہ پاک کاکام ہےاوراللہ پاک اپنےبندوں سے سب سےزیادہ محبت کرتاہے،وہ اپنےبندوں پرمہربان اورشفیق ہے انشاءاللہ ضروربضرور شفا دے گا۔
لیکن اگر مریض کےورثاءاپنےعزیزکی تکلیف برداشت نہ کرتےہوئےاُسےقتل کردیتےہیں یااس کی تیمارداری سےتنگ آکراسےموت کےگھاٹ اُتاردیتےہیں،تواسلامی نقطہ نظرسے ان کی بھی وہی سزا ہےجوایک قاتل کی ہےاور اس قتلِ ناحق میں شرک تمام افرادجہنم کےمستحق ہونگے۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرمارےہیں کہ آپ ﷺ نےفرمایا:
’’لو أن أهل السماء وأهل الأرض اشتركوا في دم مؤمن؛ لأكبهم الله في النار ‘‘
‘‘اگرزمین اورآسمان کےسارےلوگ کسی ایک مؤمن شخص کےقتل میں شرک ہوں تواللہ سبھی کوجہنم میں ڈالےگا۔’’
اس لئےکسی مریض کےرشتہ دار یااس کےاطباءکویہ بات زیب نہیں دیتی کہ مریض کولاعلاج قرار دےکے یوتھینزیاکےتحت ماردیں،ایساقبیح فعل انجام دیتےوقت انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیےکہ وہ ایک بےگناہ اور بےبس انسان کوقتل کررہےہیں،جس کی شریعت ہرگزاجازت نہیں دیتی۔
فصل چہارم:غیررضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذذبہ رحم
قتل بہ جذبۂرحم کی اس صورت میں نہ تومریض کو مرنےکی خواہش ہوتی ہےاور نہ ہی کوئی عملی تدبیراختیارکی جاتی ہے،بلکہ مریض کی رضااور اس کیےعلم میں لائےبغیردانستا اس کاعلاج ترک کیاجاتاہے،اس ترک علاج کےنتیجہ میں بسااوقات مریض مرجاتاہے، کیونکہ بعض امراض ایسےہوتےہیں کہ ان کاعلاج ایک طویل عرصے تک جاری رکھناپڑتاہےاوراگرعلاج بروقت نہ کیاجائےتوجان کےجانےکاعین امکان ہوتاہے۔
اب یہاں پر سوال یہ پیداہوتاہےکہ خود علاج کی شرعی حیثیت کیاہےاورکیاکسی لاعلاج اورمہلک مرض میں مبتلا ہونےکی صورت میں ترک علاج کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
اس حولےسےسب سےپہلےتویہ بات ذہن میں رہنی چاہیےکہ کوئی بھی بیماری لاعلاج نہیں ہوتی،کیونکہ اللہ تعالی نےانسان کی آزمائش کےلیےایسی بیماریاں ضرور پیداکی ہیں ،لیکن ساتھ ہی ان کاعلاج بھی پیدا فرمادیاہے، کوئی بھی بیماری ایسی نہیں ہے جس کاعلاج پیدانہ کیاگیاہو۔
یہ انسانی عقل اورعلم کی کمی ہےورنہ ہرمرض کاعلاج ممکن ہے،کئی ایسےامراض ہیں کہ جن کےبارےمیں یہ کہاجاتاتھاکہ ان امراض کاعلاج ناممکن ہے،ایسےامراض میں مبتلاشخص مرتوسکتاہےلیکن اس کامرض ختم نہیں ہوگا۔ جبکہ آج کل انہیں امراض کاپوری دنیامیں کامیاب علاج ہورہاہے۔ مثلا کچھ عرصہ قبل انسانی جسم کےناکارہ عضو کاعلاج ناممکن تھا ،لیکن آج کےاطباء کوایک ایسامادہ مل گیاہےکہ جس کےذریعےناکارہ عضو کوبغیرآپریشن کےٹھیک کیاجاسکتاہے۔
اسی طرح کینسرکاعلاج بھی کسی زمانہ میں ناممکن سمجھاجاتاتھا اور اسی وجہ سےجرمنی کےایک طبیب نےاپنی مریضہ کویوتھینیزیاکےتحت قتل کردیاتھا،مگر بعد میں اسی ڈاکٹر نے کنسرکاعلاج دریافت کیا اور آج الحمدللہ پوری دنیامیں کینسر کاعلاج ہورہاہے۔اس لیےکسی بھی مریض کولاعلاج سمجھ کرقتل کردیناحرام ہوگا،کیونکہ اللہ پاک نےایسی کوئی بیماری پیداہی نہیں فرمائی کہ جوناقابل علاج ہو، یہ سراسرانسانی عقل کی کوتاہی اور کم فہمی ہےکہ وہ بیماریوں کےمخصوص علاج تک پہنچنےمیں ناکام رہی ہےاور یہی بات آپﷺ نےمتعدد باراطباء کوبھی سمجھائی ہے:
مثلاً حضرت جابرؓ فرماتےہیں کہ آپﷺ نےفرمایا:
’’لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله عز وجل‘‘
‘‘ ہربیماری کی دواہے،جب کوئی دوابیماری پرٹھیک بٹھادی جاتی ہےتومریض اللہ تعالی کےحکم سےتندرست ہوجاتاہے۔’’
اسی طرح حضرت ابوھریرہؓ فرماتےہیں کہ آپﷺ نےفرمایا:
’’ما أنزل الله داء إلا أنزل له شفاء‘‘
‘‘اللہ تعالی نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کاعلاج نہ اتاراہو۔’’
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سےروایت ہے فرماتےہیں کہ آپﷺ نےفرمایا:
’’ما أنزل الله داء، إلا قد أنزل له شفاء، علمه من علمه، وجهله من جهله‘‘
‘‘اللہ عزوجل نےایسی کوئی بیماری نازل نہیں کی جس کا علاج نازل نہ کیاہو، اب یہ الگ بات ہےکہ کوئی علاج جانتاہے اور کوئی نہیں جانتاہے۔’’
مذکورہ بالاتفصیل اوراحادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہےکہ بیماری چاہےکیسی بھی ہواس کاعلاج ممکن ہے،یہ الگ بات ہےکہ ہماری عقل اس کوسمجھنےاورمعلوم کرنےمیں ناکام اورقاصرہے۔
علاج کی شرعی حیثیت:
ایک مسلمان کایہ عقیدہ ہےکہ اس پرکوئی بھی مصیبت اورپریشانی نازل ہوتی ہے وہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتی ہے،بیماری بھی ایک قسم کی پریشانی ہےلیکن کبھی یہ اللہ پاک کی طرف سےانسا ن کےلیےرحمت ہوتی ہے،اس کےگناہوں کاکفارہ اور نیکیوں میں اضافہ کاسبب بنتی ہے،اسی طرح کبھی بیماری انسان کےلیے آزمائش اور تذکیر ہوتی ہے۔
بےشمارایسی احادیث ملتی ہیں جن میں مرض اورمریض کی فضیلت بیان کی گئی ہے،اسی طرح ایسی حالت میں انسان کوصبر وتحمل کی تلقین کی گئی ہے، اسی بنیاد پر سلف صالحین کےدرمیان اختلاف رہاہےکہ اگرآدمی کسی مرض میں مبتلاہوجاتاہےتواسےعلاج کرواناچاہیے،اس حوالےسے فقہاءسےدوقسم کی آراءملتی ہیں:
اول: جمہور فقہاء فرماتےہیں کہ: علاج مباح ہے،یعنےجائز اورمستحب ہےواجب نہیں ہے ’’ان التداوی مباح وھو قول جمھوراھل العلم من الحنفیۃ،والمالکیۃ،والشافعیۃ،والحنابلۃ‘‘
اس حوالےسےجمہور کاموقف یہ ہےکہ مریض یااس کےلواحقینعلاج کروئیں یانہ کروائیں ان کی مرضی ہے،لیکن افضل اوربہتر یہ ہےکہ علاج نہ کیاجائے۔ اس بیماری کواللہ پاک کی قدرت سمجھ کرصبرکرناچاہیے، اللہ نےیہ بیماری دی ہے وہی اس کودور فرمائےگا،اللہ پاک سےصبراورتحمل کی دعاکرنی چاہیے۔جس طرح ایک حدیث میں آتاہےکہ:
’’هذه المرأة السوداء أتت النبي صلى الله عليه و سلم فقالت إني أصرع وإني أتكشف فادع الله لي قال ( إن شئت صبرت ولك الجنة وإن شئت دعوت الله أن يعافيك ) . فقالت أصبر فقالت إني أتكشف فادع الله أن لا أتكشف فدعا لها‘‘
‘‘ ایک سیاہ عورت نبی کریمﷺ کی خدمت میں آئی اورکہاکہ مجھےمرگی آتی ہےاوراس کی وجہ سےمیراسترکھل جاتاہے۔میرےلیےاللہ سےدعاکیجئے۔ نبی کریمﷺنےفرمایاکہ اگرتوچاہےتوصبرکرتجھےجنت ملےگی اوراگرچزہےتومیں تیرےلیےاللہ سےاس مرض سےنجات کی دعاکردوں۔اس نےعرض کیاکہ میں صبرکروں گی،پھراس نےعرض کیاکہ مرگی کےوقت میراسترکھل جاتاہے۔آپ اللہ سےاس کی دعاکردیں کہ سترنہ کھلاکرے۔نبی کریمﷺ نےاس کےلیےدعافرمائی۔’’
مذکورہ بالا حدیث میں آپ ﷺ نےاس عورت کوصبرکرنےکامشورہ دیاہےاوراختیار دیاہےکہ اگرتوچاہےتومیں تیرےلیےدعاکرتاہوں،اللہ پاک تجھےشفاءفرمائیں گے،ورنہ صبرکرو اللہ پاک تجھےجنت دیں گے،لیکن عورت نےصبرکواختیارکیااورعلاج بالدوا نہ کروایا۔اب اگرعلاج واجب ہوتا تو آپﷺ اسےاختیارنہ دیتےبلکہ اس کےلیےشفاء کی دعاکرتے،اسےعلاج کاحکم کرتے۔
اسی طرح بہت سارے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بھی علاج نہ کرتےتھے،بلکہ اسے اللہ پاک کی تقدیر سمجھ کرصبرکرتےتھے۔اس لیےاگرچہ علاج مباح ہےلیکن جمہور علماء کےنزدیک نہ کرناافضل ہےاور جوعلاج کروائےگا ۔وہ گویا اللہ پاک کی تقدیرسے بھاگتاہے۔
جبکہ بعض شوافع اور حنبلی فقہاء ،اسی طرح کچھ معاصر علماء نےعلاج کروانےکوواجب قراردیاہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ لکھتےہیں کہ:
’’انمااوجب طائفۃ قلیلۃکماقالہ بعض اصحاب الشافعیۃ واحمد ‘‘
درست بات بھی یہی ہےکہ علاج کرواناواجب ہے،کیونکہ ایک توجان اللہ پاک کی امانت ہے،اس کی حفاظت انسان پرفرض ہے۔دوسرا یہ کہ اگروسائل کےاستعمال کرنےاوران سےافادیت حاصل کرنےمیں اللہ تعالی پریقین میں کمی واقع ہوتی ہےتوپھران وسائل کےپیداکرنےکافائدہ اورمقصد کیاہے۔ جبکہ اللہ تعالی فرماتےبھی ہیں کہ:
’’هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا‘‘
‘‘اللہ وہی توہےکہ جس نے تمہارےلیےزمین کی ساری چیزیں پیداکیں۔’’
اس سے معلوم ہوتاہےکہ زمین میں جوکچھ بھی ہےانسان کےلیےپیداکیاگیاہےاوروہ اس سے حدود کےدائرے میں رہتےانسان ان سے فائدہاٹھا سکتاہے۔اسی طرح اگرچہ مرض اللہ تعالی کی طرف سےہوتاہےلیکن وسائل یعنی ادویہ اور علاج بھی تواللہ پاک ہی کےتخلیق کردہ ہیں ۔پھران سےفائدہ کیوں نہ اٹھایاجائے۔اس لیےہرپریشان حال شخص اگربیمار ہوتویوں ہی ہاتھ پرہاتھ رکھ کرنہ بیٹھ جائے،تقدیرکابہانہ بناکرتدبیرکےاختیارسےنہ بھاگے ۔ بلکہ علاج ومعالجہ کرے۔اگربےروزگارہےتوحصول رزق کےلیےسعی اورکوشش کرے،اگراولاد کی نافرمانی سے دوچارہےتواس کی اصلاح کی راہیں اختیارکرے۔ غرض یہ کہ مصائب کودورکرنےکےلیےآدمی اپنےمقدور بہر اسباب وذرائع کی دنیامیں کوشش کرے، البتہ تمام محنت ومجاہدےاور علاج ومعالجہ کےبعد اس کےنتیجہ میں صحت یابی اور رزق میں فراوانی وغیرہ کواللہ تعالی کےحوالہ کردے،کیونکہ تدبیراختیار کرنااللہ تعالی کی تقدیرسے فراری نہیں ہےبلکہ بقول حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ،تدبیر اختیار کرنادراصل اللہ پاک کی تقدیر سے اسی کی تقدیر کی طرف بھاگناہے۔
جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کوتدبیرکےاختیارکرنےپرتقدیرسے فراری کاطعنہ دیاگیا توآپ ؓ نےرمایا:ہم اللہ کی تقدیر سے فراری اختیار نہیں کررہے بلکہ:
’’نفر من قدر الله إلى قدر الله‘‘
‘‘ ہم اللہ پاک کی تقدیرسےاسی کی تقدیر کی طرف سےبھاگ رہےہیں۔’’
دراصل اللہ پرتوکل کی حقیقت بھی یہی ہےکہ اسباب کواختیارکرنےکےبعدتیجہ اللہ تعالی کےحوالہ کیاجائے ،اور اس سے شفاکی امیدکےساتھ ساتھ دعابھی کی جائے۔ایسےمتوکل لوگوں کوہی اللہ تعالی نےاپنامحبوب قراردیاہے۔فرمان باری تعالی ہے:
’’إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ‘‘
‘‘اللہ کووہ لوگ پسند ہیں جواسی کےبہروسےپرکام کرتےہیں۔’’
اس لیےمرض چاہیےکیسابھی ہو علاج کرواناچاہیے،لیکن اس علاج کرنےسے یہ اعتقادنہ ہوناچاہیےکہ لازماًشفاہوجائےگی ۔بلکہ اس عقیدےاوریقین کےساتھ علاج کرواناچاہیےکہ شادینےوالااللہ پاک ہے،دواصرف ایک ذریعہ اورسبب ہےاگراللہ چاہےگاتویہ سبب فائدہ پہنچائےگا۔دوسری بات یہ بھی ہےکہ کوئی مرض ایسانہیں ہےکہ جس کاعلاج پیدانہ کیاگیاہو، ہرمرض کامخصوص علاج ہےجب وہ مخصوص علاج کیاجائےگاتوانشاءاللہ شفابھی ہوگائےگی۔ آپ ﷺ نےبھی یہی نصیحت فرمائی ہے:
’’لكل داء دواء فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله عز وجل‘‘
‘‘ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی دواہے،پس جب وہ دوا دی جائے گی تو اللہ کی اجازت سے بیماری ختم ہوجائےگی۔’’
اس لیےجب مرض انتہائی شدید ہوتوعلاج واجب ہوجاتاہے۔جیساکہ علامہ دکتور موسی البسیط فرماتےہیں کہ:
جب مریض کےمرنےیااس کےکسی عضو کےتلف ہوجانےکاخدشہ ہوتواس صورت میں علاج واجب ہوتاہے،اگرکسی نےعلاج نہ کروایاتو وہ شخص گناہ گارہوگا ’’ویاثم بترکہ‘‘
ترک علاج کی اجازت دینے کامسئلہ :
معاصرعلماء نےقتل بہ جذبۂرحم کی مذکورہ نوع پر عمل درآمد کی اجازت صرف اس صورت میں دی ہے، جب کوئی انسان ہوش میں نہ ہو اوراس کی سانس مصنوعی طریقوں سےبحال رکھی گئی ہو۔ کیونکہ وہ صورت جس میں مشینوں کےذریعےسانس کی آمدورفت باقی رکھی جاتی ہے وہ محض ایک تکلیف اورمصنوعی حیات ہوتی ہے۔ اب اس مصنوعی حیات کی بقاء کےلیےمشین لگاکر سانس کی آمدورفت قائم رکھنےکوشرعاً لازم نہیں قراردیاجاسکتا۔ اس لیے ایسی مشنوں کوہٹالیناجائز ہوگا۔
جبکہ فقہ اکیڈمی انڈیا اوربعض دیگر فقہاء کےفتوے اس کےخلاف ہیں۔ مثلاً:
اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا نےاپنےسولہویں سیمنار(اپریل2007ء) میں یوتھینیزیا کی مذکورہ دواقسام ( غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂرحم اور غیررضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذبۂرحم) کی شرعی حیثیت کےحوالےسےجوفتویٰ صادر فرمایا ۔ وہ حسب ذیل ہے:
شریعت اسلامیہ میں انسانی جان کی بڑی اہمیت ہے اورحتی مقدور اس کی حفاظت خود اس شخص کااور دوسروں کا فریضہ ہے ۔ اس لیے:
1۔ کسی مریض کوشدید تکلیف سے بچانے(نجات دلانے) یا اس کےمتعلقین کو علاج اورتیمارداری کی زحمت سے نجات دلانےکےلیےعمداً ایسی تدبیر اختیار کرنا کہ جس سے اس کی موت واقع ہوجائے ،حرام ہے اور قتل نفس کےحکم ہے۔
2 ۔ ایسےمریض کومہلک دوا تو نہ دیدی جائے مگر قدرت کےباوجود اس کاعلاج ترک کردیاجائے ، تاکہ جلد اس کی موت واقع ہوجائے ، یہ بھیجائز نہیں ہے۔
اسی طرح الطب الکامل لےعنوان سے 23ویں سالانہ بین الاقوامی کانفرنس جوکہ 21فروری تا24فروری سن2000ء میں منعقد ہوئی تھی ، جس میں شیخ الازھر محمدسیدالطنطاوی سےکچھ ڈاکٹروں نےسوال کیاکہ: بعض مریض ایسےہوتےہیں کہ جن کادماغ تومرچکا ہوتاہےلیکن ان کی دل چل رہی ہوتی ہے، جبکہ مریض کےلواحقین علاج کاخرچہ برداشت مہ کرنےکی وجہ سے مریض کوہاسپٹل سے گھرلےجانےکامطالبہ کرتےہیں ۔ لیکن اس طرح کرنےسےمریض کےمرنےکاعین امکان ہوتاہے توکیا انہیں مریض کوگھر لےجا ےکی اجازت دی جاسکتی ہے؟
اطباء کےمذکورہ بالا سوال کےجواب میں شیخ الازہرنےکہا:
اگر ورثاء مریض کواس لیےلےجاناچاتےہیں کہ اب اس کاعلاج نہیں ہوسکتا، یہ اب لاعلاج ہوچکاہے۔ تو یہ ان کےلیےجائز نہیں۔ لیکن اگر وہ علاج کی استطاعت نہ رکھنےکی بنا پر اپنےمریض کاعلاج ترک کرتےہیں اوراسے گھر لےجاناچاہتےہیں ،توپھر اس صورت میں انہیں اس کی اجازت دی جائےگی اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ مجبور ہیں ، علاج کےاخرجات برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے علاج چھوڑرہےہیں۔ ورنہ ان کی نیت مریض کومارنانہیں ہے۔
خلاصۂ بحث
قتل بہ جذبہ رحم سےمرادوہ عمل ہےجس میں کسی لاعلاج اور تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ،ریض کو اذیت سے بچانےکےلیےجذبہ رحم کےتحت قتل کردیاجاتاہےاور اس مقصدکےلیےکبھی دانستًا کوئی عملی تدبیر اختیارکی جاتی ہے اورکبھی ترک علاج کاسہارالیاجاتاہے۔
اس کےبعدقتل بہ جذبہ رحم کی اقسام بیان کی گئی ہیں جن کودواعتبارات سے تقسیم کیاگیاہے۔ ایک اقسام بااعتبار خواہش وعدم خواہش،دوسرا اقسام بااعتبار عمل ۔ پہلی تقسیم میں قتل بہ جذبہ رحم سےمتعلق دوطرح کےاقسام شامل ہیں:ایک جن میں مریض کی رضا اورخواہش شامل ہوتی ہے اور دوسرےوہ اقسام جن میں مریض کی رضا اور خواہش شامل نہیں ہو۔ اس مناسبت سے قتل بہ جذبہ رحم کی یہ تین قسمیں ہیں:(۱)رضاکارانہ قتل بہ جذبہ رحم(۲)غیررضاکارانہ قتل بہ جذبہ رحم (۳)نادانستہ قتل بہ جذبہ رحم۔
دوسری تقسیم میں قتل بہ جذبہ رحم کی دواقسام دی گئی ہیں: (۱) فعال قتل بہ جذبہ رحم ،یعنی کسی مریض کومارنےکےلیےکوئی عملی تدبیر اختیار کی جائے۔(۲) غیرفعال قتل بہ جذبہ رحم،یعنی مریض کومارنےکےلیےکوئی عملی تدبیر اختیارنہ کی جائےبلکہ ضروری ادویات اور علاج کوترک کریاجائے ۔
ان دونوں تقسیمات پرتھوڑاغور کرنےسے قتل بہ جذبہ رحم کی حتمی طورپر چاراقسام ہمارےسامنےآتی ہیں:(۱)رضاکارانہ فعال قتل بہ جذبہ رحم (۲)رضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذبۂ رحم (۳) غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبہ رحم(۴)غیررضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذبہ رحم۔
مذکورہ بالاتمام اقسام کی تفصیل مقالہ میں موجود ہے اختصارکےساتھ خلاصہ کےآخرمیں ہر قسم کاحکم بیان کیاگیاہے۔
اس کےبعدقتل بہ جذبۂ رحم کوبروئےکارلانےکےاسباب کابیان ہے،جس میں یہ بتایاگیاہےکہ: قتل بہ جذبۂ رحم کےبروےکارلانےکے کئی اسباب ہیں،جیساکہ علاج کرانےکی تکلیف اورخرچہ کرنےسےبچنا،مریض کےمال ودولت کاجلدازجلد وارث بننے کی نیت سے مریض کوقتل کرنا وغیرہ ہوسکتاہے ،لیکن مقالہ میں بنیادی طورپریہ تین اسباب بتائےگئےہیں: (۱)معاشی تنگی اورمفلسی (۲) علاج کرنےکافائدہ نہ ہو (۳) بطورہمدردی مریض کوماردینا۔
پھراسی فصل کےتحت مختصرًا قتل بہ جذبۂ رحم کوبروئےکارلانےکی عملی تدابیر بیان کی گئی ہیں، جوکہ جسب ذیل ہیں:
(۱)گیس چیمبر(۲)دواکی خطرناک مقدار (۳)زہریلی گولیاں (۴)زہرکےٹیکے(۵)زہریلی انجکشنز (۶)زہریلی مشروبات (۷)ادوایات کی عدم فراہمی (۸)سانس کوجاری رکھنےوالےمصنوعی آلات ہٹانا۔
پھرتفصیل کےساتھ قتل بہ جذبہ رحم کاتاریخی پس ِمنظربیان کیاگیاہےجس میں یہ بات کی گئی ہے ہےکہ:قتل بہ جذبہ رحم کاتصور بہت ہی پراناہے،لوگ اپنےاپنےمقاصد کےپیش نظراس پرعمل کرتےتھے،لیکن اُس وقت نہ تو یہ تصور اتناعام تھا اور نہی یہ عمل اکثرہواکرتاتھا۔سالوں بعد اس طرح کاکوئی ایک واقعہ پیش آتاتھا، اُس وقت اس عمل کاکوئی مخصوص نام بھی نہیں تھااگرچہ قدیم یونان اور روما میں مقبول بھی تھا۔تیرویں صدی میں ایک انگریز فلاسفر فرانک باکون آئےاور سب سےپہلےاسی نے قتل بہ جذبہ رحم کی اصطلاح استعمال کی ، اس کےبعد سے اس مسئلہ پر یورپین ممالک میں بحث ومباحثہ شروع ہوگیا، اس بحث کےنتیجہ میں کئی ایسی تنظیمیں وجود میں آئیں جوقتل بہ جذبہ رحم کی حمایت کرتی ہیں اور اسے قانونی حیثیت دینے کےلیےتگ ودو کرتی ہیں، اسی طرح کچھ ایسی تنظیمیں بھی وجود میں آئیں ہیں کہ جو اس کےخلاف تھیں۔ اس دوران چونکہ یہ تصور عام ہورہاتھا اور کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کرہےتھے،تو مریض ، پریشان اور کمزورلوگوں نےاس پرعمل کرناشروع کردیا اور کئی اس طرح کےواقعات پیش ہوناشروع ہوگئے۔ جب اس طرح کے واقعات نے زور پکڑا اور اسمبلیوں ،میں اس کےمعلق مختلف بل پیش ہونےلگے،جن کی وجہ سے کئی ممالک میں اس کےمتعلق قانون سازی بھی کی گئی ۔ کچھ ممالک نے قتل بہ جذبہ رحم کی قانونا اجازت دےدی ہے،اسی کچھ ممالک میں آج بھی یہ عمل قانوناً جرم شمار ہوتاہے، اسلامی دنیامیں یہ عمل مطلقاً حرام اور ناجائز قرار پاتاہے ،کسی بھی اسلامی ملک نے قتل بہ جذبہ رحم کی اجازت نہیں دی ہے۔
اسی طرح اگر اس کےمتعلق ملکی قوانین کودیکھیں توپوری دنیامیں قتل بہ جذبہ رحم سےمتعلق تقریباً 29 ممالک میں قانون ساززی کی گئی ہے،ان میں کچھ ممالک میں قتل بہ جذبہ رحم کومطلقاً ناجائز اور قانوناً جرم قراردیاگیاہےاور کچھ نےمطلقاً جائزقراردیاہےاور قانوناً اس کی اجازت دےدی ہے،اسی طرح بعض ممالک میں اس کی بعض صورتوں کی اجازت دی گئی ہے اور بؑض صورتیں قانوناً جرم سمجھی جاتی ہیں،اسی طرح بعض ممالک میں قتل بہ جذبہ رحم کی کچھ صورتیں مشروط طور پرجایز ہیں۔ ان تمام ممالک کی مجموعی فہرست حسب ذیل ہے:
(1)Australia (2)Belgium (3)Canada (4)Colombia (5)Denmark (6)Finland (7)Francr (8)Germany (9)India (10)Ireland (11)Israel (12)Japan (13)Latvia (14)Lithuania (15)Luxembourg (16)Mexico (17)Netherland (18)Newzealand (19)Norway (20)Peru (21)Sothkorea (22)Philippines (23)Switzerland (24)Sweden (25)Turkey (26)Unitedkingdom (27)United States (28)Uruguay (29)Pahistan.
اس مقالہ میں صرف تیرہ ممالک کےقوانین بیان کئےگئےہیں ،ان کی فہرست یہ ہے:
(1)Belgium (2)Francr (3)Australia (4)India (5)Pahistan (6)Finland (7)Norway (8)Luxembourg (9)Latvia (10)Lithuania (11)Turkey (12)Japan.
اسی طرح قتل بہ جذبہ رحم سےمتعلقمذاہب عالم کی دواقسام بیان کی گئی ہیں، ایک الہٰمی مذاہب:اس قسم میں قتل بہ جذبہ رحم یہودیت،نصرانیت اوراسلام کانقطہ نظربیان کیاگیاہے جوکہ تینوں مذاہب میں ناجائزاورحرام قرارپاتاہے۔
دوسراقسم غیرالہٰمی مذاہب پرمشتمل ہے،جس میں ہندودھرم،بدھ مذہب،جین مذہب،سکھ مذہب کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں: ہندودھرم میں قتل بہ جذبہ رحم سےمتعلق دونقطہ نظر پائےجاتےہیں،ایک یہ ہےکہ اگرکوئی شخص کسی مہلک اورناقابل علاج مرض میں مبتلاہےتو اسےموت کےآغوش میں پہنچا دیاجائےگا،ایسےہرشخص کےلیےیہ عمل مستحسن ہوگا۔دوسرانقطہ نظریہ ہےکہ اگرکوئی شخص دکھ بھری زندگی گزاررہاہےاور وہ خود کومارکر اس دکھ و درد سےبھری زندگی سے نجات حاصل کرناچاہتاہےتو اس عمل میں کسی کومزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔
بدھ مذہب میں بھی قتل بہ جذبہ رحم جائز ہے،کیوں کہ اس مذہب کی بنیادہی ہمدردی اورشفقت پرہے۔
جین مذہب میں انسان کواپنی جان ختم کرنےکی اجازت دی گئی ہے،کیوں کہ اس مذہب کااصل مقصد ہی یہ ہےکہ زندگی سےنجات مل جائے۔
سکھ مذہب کی تعلیمات کےمطابق زندگی خداجاعطیہ ہے،اس لیےاس مذہب کےاکثرپیروکار قتل بہ جذبہ رحم سےاختلاف رکھتےہیں، وہ کہتےہیں کہ زندگی اورموت کاوقت مقرر ہےاوراس کااختیارصرف خداکےپاس ہے،اس لیےسکھوں کےمذہبی رہنما(گرو) نےخودکشی کابھی سرےسےانکارکیاہے۔
اس کےبعدقتل بہ جذبہ رحم کی اقسام کاشرعی جائزہ پیش کیاگیاہے،جس میں یہ بتایاگیاہےکہ :
رضاکارانہ فعال قتل بہ جذبہ رحم خودکشی کی ایک قسم اور صورت ہے،جوکہ اسلام میں حرام اورناجائزہے ،اسلام میں ایسے عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے،لہٰذا کسی بھی صورت میں قتل بہ جذبہ رحم کی اس قسم کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂ رحم ،اگرچہ اس صورت میں مریض مرنےکےلیےکوئی عملی تدبیر اختیارنہیں کرتاہے،محض علاج کراناچھوڑ دیتاہے اور نیت یہ ہوتی ہےکہ مرجائے،تو یہ عمل بھی اسلام کی نظرمیں حرام ٹھرتاہے،کیوں کہ حفاظت نفس کےجمیع اسباب ووسائل کا اپنی وسعت اور استطاعت کےمطابق فرہم کرنا ہرانسان پرلازم ہے،اس لیےشرعاً یہ بھی جائز نہیں ہوسکتاکہ استطاعت کےہوتےہوئےکوئی آدمی ترک علاج کرکےموت کودعوت دے۔
غیررضاکارانہ فعال قتل بہ جذبۂ رحم بھی ناجائز اورحرام ہے،کیوں کہ اس میں ایک آدمی دوسرے آدمی کو بغیرکسی جرم اور اس کی مرضی کےاُسےقتل کرتاہےجوکہ سراسرظلم اورقتل بغیرالحق ہے،جس کوتمام انسانیت کاقتل قراردیاگیاہے۔
غیررضاکارانہ غیرفعال قتل بہ جذبۂ رحم ،یعنی وہ قتل جس میں نہ تومریض کومرنےکی خواہش ہوتی ہےاور نہ ہی کوئی عملی تدبیراختیارکی جاتی ہے ، بلکہ مریض کی رضا معلوم کئےبغیرہی اس کاعلاج ترک کردیاجاتاہے،پھر اس ترک علاج کےنتیجہ میں مریض مرجاتاہے۔ اب یہاں پرایک سوال اٹھایاگیاہےجس کےدواجزاء ہیں نمبرایک علاج کی شرعی حیثیت کیاہے؟،دوسرا ترک علاج کی اجازت دی جاسکتی ہےیانہیں؟۔ علاج کی شرعی حیثیت کےبارےمیں دونقطہ نظرپائےجاتےہیں:
ایک جمہورفقہاءکےنزدیک علاج ایک مباح عمل ہے،یعنی جائز اورمستحب عمل ہے واجب نہیں ہے،انسان کی مرضی ہےاگرعلاج کرناچاہےتو کرسکتاہے،اور اگرکوئی نہ کرناچاہے تواس پربھی کوئی گناہ نہیں ہے،بلکہ جمہورکےہاں تو علاج نہ کرنا افضل ہے۔
دوسرے نقطہ نظرکےمطابق علاج واجب ہےیہ رائےبعض شوافع اور حنبلی فقہاء اورکچھ معاصرعلماء کی ہے اور یہی رائے زیادہ مناسب اور درست ہے۔
اسی طرح ترک علاج کی اجازت کےبارےمیں کچھ معاصر علماءکہتےہیں کہ جس مریض کی سانس کومصنوعی آلات کےذریعےجاری رکھاگیاہو توان آلات کوہٹایاجاسکتاہےکیوں کہ یہ مصنوعی حیات ہوتی ہےجس سے محض تکلیف میں اضافہ ہوتاہے،حقیقت میں انسان مرچکاہوتاہے۔ جبکہ اس کےمتعلق فقہ اکیڈمی انڈیاکافتویٰ یہ ہےکہ قدرت کےباوجود ترک علاج کرناجائز نہیں۔ اسی طرح شیخ الازہرکافتویٰ بھی ہےکہ علاج کی استطاعت نہ رکھنےکی بناءپر ترک علاج کی اجازت دی جاسکتی ہے ،لیکن علاج کرنےکی استطاعت ہونےکی صورت میں محض اس وجہ سے علاج چھوڑ ناکہ یہ مریض لاعلاج ہوچکاہے ،یہ جائزنہیں ہوگا۔
سفارشات
• قتل بہ جذبہ رحم سےمتعلق جن ممالک میں قانون سازی کی گئی ہےان کےقوانین کوجمع کیاجائے۔مسلم اقلیتوں کومدنظررکھ کراسلامی نقطہ نظرسےتمام جزئیات کےساتھ جائزہ لیاجائے۔
• قتل بہ جذبہ رحم کےبروےکارلانےکےاسباب کی شرعی حیثیت پرمستقل بحث کی جاسکتی ہے۔
• کسی مریض کومصنوعی طریقہ سےزندہ رکھنےکی صورت میں اس مصنوعی حیات کی حقیقت پر بھی کام ضرورت ہے۔