نکاح میں ولی کی اجازت شرعی اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ایک تجزیہ

مقالہ نگار: عدیل الیاس

|

نگرانِ مقالہ: مولانا ڈاکٹر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن

|

|

مقدمہ

موضوع کا تعارف،اہمیت اور پسِ منظر
الحمدللہ رب العالمین الصلوٰۃ والسلام علیٰ سید الانبیاء والمرسلین وعلیٰ اٰلہ واصحابہ اجمعین، اما بعد
تمام حمد و ثناء اس ذات برتر وبالا، علیم و خبیر کی جس نے انسان کو سوچنے ، سمجھنے اور فہم و ادراک کی صلاحیتوں سے نوازا، اللہ تعالیٰ کی رحمتیں وبرکتیں ہو ں رحمت للعالمین پر آپ کے آل و اصحاب ؓ پر ۔ اللہم صل علیٰ سیدنا ومولانا محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ ۔
رب العالمین نے اپنی بندگی کے لئے حضرت آدم ؑ کو تخلیق کیا ۔ پھر اپنے ہاتھوں سے پیدا کردہ اس مخلوق کی نسل کو برقرار رکھنے کے لئے ان کی پسلی سے ان کے جوڑ حضرت حوّاؑ کو پیدا کیا ۔یوں ان دونوں کے ذریعے نسلِ انسانی پھیلتی گئی۔ ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً﴾ لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد وعورت دنیا میں پھیلادیے۔
اسلام نے ہمیں مکمل ایک نظامِ حیات دیا ہے۔زندگی کے ہر پہلو سےمتعلق ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ اسلام کی یہی خصوصیت اس کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو عموماً عقا ئد ، عبادات، خاندانی نظام، معاشرتی نظام، معاشی نظام ، سیاسی نظام اور عدالتی نظام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تمام نظام باہم ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں۔ معاشرہ اگر ایک عمارت ہے تو خاندان اس کی بنیاد ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو گی تو عمارت کی مضبوطی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسی طرح اگر خاندان کا ادراہ مضبوط ہے اور صحیح بنیادوں اور أصولوں پر استوار ہے تو اس کے بنیاد پر قائم معاشرہ ایک مستحکم معاشرہ ہو گا۔مستحکم معاشرہ سے ایک پُر امن قوم پروان چڑھے گی۔ آج مغرب میں خاندان کا ادارہ تباہی کے دھانے تک پہنچ چکا ہے اور اس کے بنیادی وجہ یہی ہے کہ خاندان کو صحیح بنیادو ں پر استوار کرنے کی بجائے اسےاپنے افکار و فلسفوں پر قائم کیا گیا ہے۔اس پس منظر میں پوری دنیا کے لیے بالعموم اور اسلامی معاشروں کے لیے بالخصوص اس بات کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ دنیا کو خاندانی نظام کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے تاکہ بھٹکتی دنیا کی کشتی کو کسی کنارے لگایا جا سکے۔ اسلامی معاشرے جس طرح مغرب کی تقلید میں دوڑے چلے جا رہے ہیں ، ان کی بھی صحیح راستے کی طرف رہنمائی ایک بنیادی شرعی فریضہ ہے۔
رحمت للعالمین ﷺ خصوصا مظلوم ومقہور وں کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے تھے ۔ نبی اکرم ﷺ جس دور میں دنیاکے اندر تشریف لائے تھے اس وقت عورت ذات سے مظلوم کوئی اور نہ تھا، اسے زندہ در گور کیا جاتا ، اسے ملکیت اور جائداد تصور کیا جاتا ، بازاروں میں اس کی بولی لگائی جاتی،خریدوفروخت کی جاتی، حتیٰ کہ آزاد ہونے کے باوجود وہ خود اپنا نکاح کرسکتی تھی اور نہ رشتہ کے قبول ورد کرنے میں اس کی رائے کا کوئی عمل دخل تھا۔
نبی مہربان ﷺ نے عورت کو عزت واحترام کا مقام دیا ، میراث میں حقدار بنایا ، جب کہ نکاح کو ایک معاہدہ قرار دیا جس میں عورت
مرد کی ملکیت نہیں بلکہ وہ دونوں معاہدے کے دوفریق اور زندگی کے ہمسفر ہیں ۔
اس دور کو ترقی یافتہ دورکا نام دیاجاتاہے ۔یورپ جو خودکو حقوق نسواں کا علمبردار کہلاتا ہے۔کیا وہاں عورت کی اتنی عزت ہے ، جواسلام نے ایک عورت کو دی ہے؟یقینا آپ کے پاس اس کا جواب ‘‘نہیں ’’میں ہوگا۔وہاں عورت دو کوڑی کے عوض بازار کی زینت بنادی جاتی ہے۔یہ ایک ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جو خود کومہذب سمجھتا ہے۔ بہرحال ان کی تہذیب ان تک ہی محدود رہے یہی اچھا ہے۔لیکن راقم یہاں اس معاشرے کی بات کرےگا جس کے ہم باسی ہیں ۔کیا ہمارے مسلم معاشرے میں عورت کو عزت واحترام کا مقام دیا جاتا ہے ، اور کیا ایک ماں ، بیوی ،بہن اور بیٹی کے حقوق ان کو دیے جاتے ہیں ؟ہمارامعاشرہ بالخصوص دیہی علاقوں کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی کہ عورت کو عمومًا دو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے۔ ایک حقِ وراثت اور دوسرا انتخاب ِ زوج کا حق۔چوں کہ مؤخر الذکر راقم کا موضوع ہے۔ لہذا مختصرا ً اس پر بحث کرکے مقدمہ کو اختتام کی طرف لے جاؤں گا۔
انتہائی افسوس ہے کہ ہمارےسماج میں نکاح کے لئے لڑکی کی اجازت اور مرضی پوچھی نہیں جاتی اگر ان سے اجازت لی بھی جاتی ہے تو وہ بس ایک رسم کہ طور پہ جو نہ ہونے کے برابر ہے۔وہ والدین کی عزت کی خاطر اتنی بڑی قربانی دل پہ پتھر رکھ کر قبول کرلیتی ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ لڑکی کو سوائے قبول کرنے کہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔کیوں کہ وہ ایک ایسے سماج کی بیٹی ہےجہاں اسے باپ دادا کے خلاف اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ پھر اس قسم کی انجام پانے والی شادیاں بڑے المیے سے دوچار ہوتی ہیں ۔ لیکن ایک دوسری انتہا بھی ہے جس سے صرف ِنظر کرنا یقیناً زیادتی ہوگی ۔آئے روز مختلف ذرائع سے ہم تک یہ بات پہنچتی ہے کہ ‘‘لڑکی نے گھر سے بھاگ کر نکاح کرلیا’’ اور پھر ایسی حرکتوں کا انجام ِبد تو آنا ہی تھا۔گھر سے بھاگ کر جانے والی حوا کی بیٹی ابنِ آدم کے فریب کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ اور شریف گھرانے کی بیٹی حوس و درندگی کا نشانہ بننے کے لئے غیر محفوظ ہاتھوں میں چلی جاتی ہے۔اگر والدین اور معاشرہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو پھر یہ ناسور پھیلتا چلا جائے گا ، وہ دن دور نہیں جب گھروں سے عزت کے جنازے نکلے گے۔(نعوذ باللہ من ذالک)
اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ۔کیا ہمارا معاشرہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے؟کیا ہماری عدالتیں اپنے فرائض ملکی آئین وقانون کے مطابق ادا کررہی ہیں ؟آئیے ذرا اس مقا لہ کا مطالعہ کرتے ہیں ۔

سابقہ کام کا جائزہ
1۔پسند کی شادی ، اسلام اور قانون(مصنف:ظفر علی راجا)
2۔مفرور لڑکیوں کا نکاح اور ہماری عدالتیں (مصنف:حافظ صلاح الدین یوسف )
3۔ولایت ِ نکاح ، اسلامی نقطہءنظر (فقہ اکیڈمی)
بنیادی سوالات
1۔ نکاح بغیر اذن ِولی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2۔ نکاح بغیر اذن ِولی میں ولی کو ولایت ِ اجبار کا حق کب حاصل ہوگا؟
3۔پسند کے نکاح سے متعلق عدالتی قانون کیا کہتا ہے؟
4۔ پسند کے نکاح سے سماجی اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں؟
منہج ِتحقیق
1۔قرآن وسنت اورفقہاء کی آراء کی روشنی میں شرعی حکم۔
خاکہ تحقیق:۔
یہ مقالہ چھ ابواب اور پندرہ فصول پر مشتمل ہے، بابِ اول:تمہیدی مباحث میں دو فصلیں ہیں فصل اول: نکا ح کا مفہوم وتعارف اور فصل دوم : اسلام میں نکاح کے مقاصد،باب دوم:ولایت ِنکاح چار فصلیں ہیں،فصل اول:لفظ ولایت کی لغوی تحقیق،فصل دوم: اسلام میں ولایت کا تصور،فصل سوم: ولایت کی اقسام،فصل چہارم: اولیاء کی ترتیب، باب سوم:ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کی صورتیں،اس باب کو پانچ فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے، فصل اول: بالغہ ثیبہ،فصل دوم: بالغہ باکرہ، فصل سوم : نابالغہ ثیبہ،فصل چہارم: نابالغہ باکرہ، فصل پنجم:ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے معاشرے پر اثرات ،باب چہارم:عدالتی فیصلو ں کی روشنی میں ولی کی اجازت اور اختیار،فصل اول: صائمہ روپڑی کا کیس اور عدالتی فیصلہ، باب پنجم:ولی کی اجازت کے بغیر شادی ،ملکی قانون اور فقہی آراء،فصل اول: اسلام کی نظر میں پسند کا نکاح،فصل دوم: فتاوی ٰ ،باب ششم: نتائجِ تحقیق،فصل اول:راجح قول
اظہار تشکّر:۔
اس ضمن میں سب سے پہلے تو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ہدیہ تشکر پیش کرتا ہوں کہ جس کی بے پایا عنایتوں ہی سے اس تحقیقی کام کی تکمیل ممکن ہوسکی۔
معززومکرم أستادِمحترم کا شکریہ بھی واجب ہے کہ انہوں نے دوران تحقیق علمی راہنمائی فرمائی۔اس سلسلہ میں راقم استاد محترم مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمٰن(اسسٹنٹ پروفیسر شریعہ اکیڈمی)کا انتہائی مشکور ہے کہ جن کی نگرانی اور ان کی شفقت و توجہ سے راقم اس مقالہ کو پایۂ تکمیل پہنچانے کے قابل ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمر میں برکت عطا فرمائے۔آ مین

باب اول : تمہیدی مباحث

نکاح کی لغوی تعریف:۔
حروف اصلی کے اعتبار سے اس کا مادہ ‘‘ن،ک،ح’’ہے۔
لغت میں ‘‘نکاح ’’کے معنیٰ دو چیزوں کے انضمام اور جمع کرنے کے ہیں ‘‘عَنْ الْكُوفِيِّينَ أَنَّهُ الْجَمْعُ وَالضَّمُّ۔‘‘
ضم یضم (نصر ینصر) جمع کرنا ۔ ساتھ ملانا۔ ‘‘وتَناكَحَتِ الأَشجارُ: انضمّ بعضها إِلى بعضٍ’’.
‘‘یعنی درخت ایک دوسرے میں ضم ہوگئے ’’۔
اسی طرح لغت میں مرد وعورت کے زوجی تعلق کو بھی نکاح کہا گیا ہے۔ اور خود عقد نکاح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن نکاح کے معنیٰ حقیقی میں اختلاف ہے۔
‘‘وقال الأَعشى في نَكَحَ بمعنى تزوج۔۔۔۔ وقوله عز وجل ‘‘الزاني لا ينكح إلا زانية أَو مشركة والزانية لا ينكحها إِلا زانٍ أَو مشرك’’ تأْويله لا يتزوج الزاني إِلا زانية وكذلك الزانية لا يتزوجها إِلا زان’’ ۔ أعشی کے ہاں نکح سے مراد عقد ہے۔۔۔ جس طرح قرآن میں ہےکہ ‘‘زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ ۔ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یامشرک مرد’’۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ زانی مرد نکاح نہ کرے سوائے زانیہ کے یا مشرکہ کے، اور اسی طرح زانیہ عورت سے نکاح نہ کرے سوائے زانی یا مشرک مرد کے ۔
‘‘قال الأَزهري أَصل النكاح في كلام العرب الوطء وقيل للتزوّج نكاح’’ ۔ أزہری کہتے ہیں کلامِ عرب میں نکاح کی اصل معنیٰ وطی ہے، ایک اور قول کے مطابق اس کی معنیٰ عقدِ نکاح ہے۔
فقہی تعریف :۔
‘‘عِنْدَ الْفُقَهَاءِ (عَقْدٌ يُفِيدُ مِلْكَ الْمُتْعَةِ) أَيْ حِلَّ اسْتِمْتَاعِ الرَّجُلِ مِنْ امْرَأَةٍ لَمْ يَمْنَعْ مِنْ نِكَاحِهَا مَانِعٌ شَرْعِيٌّ ‘‘۔فقہاء کے ہاں عقد ملکِ متعہ کا فائدہ دیتا ہے یعنی جب نکاح میں کوئی مانع شرعی نہ ہو توعورت سے فائدہ حاصل کرنا مرد کے لئے حلال ہے۔
نکاح کا تعارف:۔
معاشرتی روایات کو خاطر میں لاتے ہوئے ایک دوسرے کی پسند ورغبت کے ساتھ فریقین (مرد وعورت ) کے درمیان بلاشرکت غیر ، مستقل ایسا زوجی تعلق جس کا مقصد جسمانی راحت وسکون اور منفعت ہو۔
اس کے علاوہ وہ صورتیں جو یورپ میں رائج الوقت ہیں ، مرد وعورت کا ایک وقت میں ایک سے زائد لوگوں کے ساتھ بغیر کسی قید وبند کے جسمانی تعلق قائم کرنا یا ہم جنس سے اس طرح کا کوئی تعلق روا رکھنا ناجائز اور حرام ہے ۔ یہ نہ صرف گناہ ہے بلکہ معاشرتی اعتبار سے ایک گھناؤنا جرم اور بے غیرتی وپستی کا مظہر ہے ۔
اسلام نے عقد نکاح کو ایک معاہدہ قرار دیا ہے،جو دو افراد نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان طے پاتا ہے ۔ قران ِ مجید نے اس عقد کو
‘‘میثاق غلیظ ’’ کا نام دیا ہے۔ ﴿مِيثَاقًا غَلِيظًا﴾ جس کا مطلب مضبوط عہد یا وعدہ کے ہیں۔ عہد کو وفا کرنے کی شریعت نے تلقین کی ہے ۔ جب کہ عہد شکنی خلاف ِاولی ٰ اور ایک قبیح عمل ہے۔
اسلام میں نکاح ، جماع اور حصول اولاد بھی ایک اہم عبادت ہے۔ ‘‘عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “فِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ”. قَالُوا: يَا رَسُولَ أَيَأْتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ، وَيَكُونُ لَهُ فِيهِ أَجْرٌ؟. فَقَالَ: “أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي الْحَرَامِ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهِ وِزْرٌ، فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ، كَانَ لَهُ أَجْرٌ” حضرت ابوذر ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا بیوی سے جماع کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں صدقہ شمار ہوتا ہے ۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا جب ہم میں سے کوئی بتقاضائے شہوت جماع کرتا ہے تو اس میں بھی اجر ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیا ل ہے کہ اگر کوئی شخص حرام طریقے سے اپنی خواہش پوری کرے گا تو اس پہ وہ گنہگار ہے کہ نہیں ؟ اسی طرح اگر وہ حرام کے بجائے حلال راستہ اختیار کرے گا تو اس میں اسے ثواب ملے گا۔
دین ِ اسلام نے دیگر عبادات کی طرح نکاح سے متعلق ہر قدم پر رہنمائی فرمائی ہے۔اور دین ِ متین کی بنیادی و امتیازی خصوصیت بھی یہی ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو پر ایمان والوں کوایسی راہ دیکھائی کہ اب ان کوکسی دوسری تہذیب کی ضرورت نہیں ۔
اسلام میں نکاح کے مقاصد :۔
اسلام کی نظر میں نکاح محض انسانی خواہشات وجذبات کی تسکین کا نام نہیں ، بلکہ جس طرح انسان کی بہت ساری فطری و خلقی ضروریات ہیں بس اسی طرح نکاح بھی ان ضروریات میں ایک اہم انسانی ضرورت ہے۔جبکہ ضرورت کے ساتھ ایک مقصد بقاءِ انسانی بھی ہے۔ اسلام میں نکاح سے مقصود عفت وپاکدامنی، تسکین وطمانیت قلب اور افزائش ِ نسل ہیں ۔﴿وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً﴾ ‘‘اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیداکردی ’’۔
اس آیت کی تفسیر میں امام سید مودودی ؒ رقمطراز ہیں :
‘‘یعنی یہ انتظام ألل ٹَپ نہیں ہوگیا ہے بلکہ بنانے والے نے بالارادہ اِس غَرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے ، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوکر ہی سکون واطمنان حاصل کریں ۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا ، اور دوسری طرف انسانی تہذیب وتمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈزائنوں کے ساتھ پیدا کردی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو اُن کے باہمی اتصال ووابستگی کے بغیر مبدّل بہ سکون نہیں ہوسکتا ، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی ، لیکن کسی تہذیب و تمدن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام انواعِ حیوانی کے برعکس نوعِ انسانی میں تہذیب وتمدن کے رُونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ مانگ ، وہ پیاس ، اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سُکون میسّر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کر نہ رہیں ۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا ۔
بیوی اور اولاداللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہیں ، پھرنیک اور صالح بیوی اور اولاد تو ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔طلب
کرنے کے لئے دعا بھی سکھلادی۔: ﴿ربَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ﴾ ‘‘اے ہمارے رب ، ہمیں اپنی
بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے’’۔
نکاح کا اولین مقصد عزت و عصمت کی حفاظت ہے۔حدیث مبارکہ میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ‘‘فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ’’ ‘‘نکاح نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے’’۔نکاح کو نصف ِدین بھی اسی لئےکہا جاتا ہے کہ اس کے بعد انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے اور زنا جیسےگناہ ِکبیرہ سے بچا رہتا ہے۔ اسلام نے نہ تو جنسی لذت کو اصل مقصد ِ حیات قرار دیا ہے اور نہ ہی اس فطری جذبہ کو شرِ محض قراردیا ہے۔اسی طرح اسلام میں افزائشِ نسل بھی نکاح کے مقاصد میں سے ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کی ترغیب دی ہے۔ ابو داؤد کی حدیث ہے۔‘‘فقال: ‘‘زَوَجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّى مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ’’ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو ، کیوں کہ ‘‘بروز قیامت ’’میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا ’’۔

باب دوم: ولایت ِ نکاح

ولایت کی معنی ٰ:۔
حروف اصلی کے اعتبار سے اس کا مادہ ‘و،ل،ی’’ہے۔. ولی جمع ا ولیاء ہے ۔ ولایت (واو کے فتحہ کے ساتھ )کا معنیٰ محبت ونصرت کے ہیں ۔
اس کی متعدد معانی ہیں۔1۔نگران “هُوَ وَلِيُّهُ” : مَنْ يَتَوَلَّى أَمْرَهُ. “وَلِيّْيَتِيمِ”
2۔مدد گار،حلیف”مِنْ أَوْلِيَائِهِ” : مِنْ أَنْصَارِهِ، مِنْ حُلَفَائِهِ.
3۔ اطاعت گزار “الْمُؤْمِنُ وَلِيُّ اللَّهِ” : مُطِيعٌ.
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارکہ ہے:وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ۔ اور جو اللہ ،اس کے رسول اور اہلِ ایمان کو دوست بناتے ہیں(تو وہ اللہ کی پارٹی ہیں) اور اللہ ہی کی پارٹی ہے جو غالب رہنے والی ہے۔ وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۔ اور مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
ابنِ بازؒنے کہتے ہیں : وَكُلٌّ مَنْ وَلِيَ أَمْرَ آخَرَ فَهُوَ وَلِيُّهُ. وَمِنْهُ وَلِيُّ الْيَتِيمِ وَوَلِيُّ الْقَتِيل وَوَلِيُّ الْمَرْأَةِ، وَهُوَ الْقَائِمُ بِهِمْ وَالْمُتَصَرِّفُ فِي أَمْرِهِمْ. وَوَالِي الْبَلَدِ: وَهُوَ نَاظِرُ أُمُورِ أَهْلِهِ الَّذِي يَلِي الْقَوْمَ بِالتَّدْبِيرِ وَالأْمْرِ وَالنَّهْيِ جو شخص کسی دوسرے کے امور کا ذمہ دار ہو وہ اس کا ولی ہے۔ اسی معنیٰ میں مقتول کا ولی ، یتیم کا ولی اور عورت کا ولی ہے ، یہ وہ شخص ہے جو ان کے امور کو انجام دے ، ان کے امور میں تصرف کرے ، ملک کا والی اہل ِ شہر کے امور کا نگران ہے جو انتظام کرنے اورامر و نہی میں قوم کا ذمہ دار ہوتاہے ۔
فقہاء کی اصطلاح میں :
علامہ شامیؒ فرماتے ہیں :وَالْوَلَايَةُ تَنْفِيذُ الْقَوْلِ عَلَى الْغَيْرِ تثبت بأربع : قرابۃ وملک وولاء وأمامۃ ۔ ولایت سے مراد ہے کہ کسی بات کو دوسرے شخص پر نافذ کردیا جائے۔
وہبہ زحیلی کہتے ہیں:القدرة على مباشرة التصرف من غيرتوقف على إجازة أحد . وہ اختیارات جن کے حصول کے بعد آدمی کو تصرفات و معاملات کی انجام دہی میں کسی کی اجازت باقی نہ رہے۔
اسلام میں ولایت کا تصور:۔
نکاح میں سرپرست کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ ایسا رشتہ زیادہ دیرپا اور مستحکم ثابت ہوگا۔لہذا اس رشتہ کی مضبوط بنیاد رکھنے کے لیے اسلام نے اولیاء کی رائے کے ساتھ ساتھ عاقل بالغ لڑکی کی مرضی کو بھی اہمیت دی ہے۔پھر عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اور اولیاء کی رائے اور مرضی سےطے پانے والا عقد کمزور اور غلط ازدواجی تعلق کے قیام کو کم کردیتا ہے۔
نکاح کے مسئلہ میں لڑکی کے ولی کا منصب نہایت ہی ذمہ دارانہ ہے اور یہ بات ظاہر اور واضح ہے کہ جب بھی کہیں ذمہ داریاں ہوتی ہیں تو اس کے مقابل حقوق بھی ہوتے ہیں ۔لہذا اس معاملہ میں ولی پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جوکہ لڑکی کے حقوق سے وابستہ ہیں کہ وہ اس کا نکاح کفو میں کریں ، بچی کی بہتری کو مد نظر رکھ کر کریں ۔ان حقوق کے تحفظ کی تمام تر ذمہ داریاں اولیاء پر بطور فرض عائد ہوتی ہیں۔اگر لڑکی کے اولیاء اپنی ذمہ داریاں کماحقہ شریعت اسلام کے مطابق پوری کرتے ہیں تو پھر وہ اس نتیجہ میں لڑکی کی اجازت ورضامندی سے نکاح کرادیں۔
ولایت کی اقسام:۔
احناف کے ہا ں ولایت کی تین اقسام ہیں ۔ ولایت على النفس، ولایت على المال، نفس اور مال میں ولایت ۔
1۔ولایت ِنفس:۔شخصی اور ذاتی ضرورتوں سے قاصر وعاجزکے حالات کی طرف توجہ کرنا ،مثلاً نکاح،تعلیم وتربیت،علاج وغیرہ۔
2۔ولایت ِ مال:۔مالی تصرفات سے عاجز وقاصر کے حالات کی تدبیر کر نا۔
3۔ولایت علی النفس والمال:۔شخصی اور مالی ضرورتوں کو شامل ہے۔
جب کہ مالکیہ کے ہاںولایت کی دو اقسام ہیں ۔1،خاص 2۔عام
نکاح کے سلسلہ میں زیر بحث ولایت علی النفس ہواکرتی ہے۔
ولایت فی النفس :۔
تمام فقہاء کے ہاں ولایت فی النفس کی دو قسمیں ہیں۔ ولایت ِ اجبار ۔ولایت ِ اختیار ،لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ ولایت اجبار کن لوگوں کو حاصل ہے۔
احناف کےہاں ولایت ِ اجبار چار لوگوں کو حاصل ہے۔ ولی ، مالک، امام ، قریبی رشتہ دار ۔
جب کہ مالکیہ کےہاں ولایت ِاجبار دو لوگوں کے لئے ثابت ہوتی ہے۔والد ۔والد کی غیر موجودگی میں وصی ۔
فقہ شافعی کے مطابق ولایتِ اجبار صرف باپ کو حاصل ہے ۔
اولیاء کی ترتیب:۔
اولیاء میں بھی ولایت ان کو حاصل ہے۔ جو عاقل ، بالغ ،آزاد اور مسلمان ہوں ۔لہذا پاگل و مجنون ولی کو بالغ لڑکی ہو یا نابالغ بچی ہو دونوں پر ولایت نہ ہوگی ، نابالغ ولی کو بالغ ونابالغ ولی پر ، اسی طرح غلام ولی کو آزاد لڑکی پر اور غیر مسلم کو مسلمان لڑکی پر ولایت حاصل نہ ہوگی۔اسی طرح احناف کے علاوہ باقی ائمہ مرد کی شرط بھی عائد کرتے ہیں ۔
احناف کے ہاں ولایت سے مراد ولایت ِ اجبار ہے ۔عصبات کی ترتیب ولایت ِ نکاح میں میراث والی ترتیب کی طرح ہے، قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور والا محروم ہوگا ۔ یعنی ولایت رشتہ داروں میں الاقرب فالاقرب کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔
ترتیب کچھ اس طرح ہے، بنوۃ ، أبوۃ ،أخوۃ ،عمومۃ ،معتق ، امام وحاکم۔
1۔بنوۃ : بیٹا اور اس کے بعد پوتا اور ایسے ہی بالترتیب نیچے تک ۔
2۔أبوۃ : باپ اور اس کے بعد دادا اور اسی ترتیب سے اوپر تک ۔
3۔أخوۃ : حقیقی بھائی اور باپ شریک بھائی (علاّتی بھائی)ان کے بعد اُن کے بیٹے اور اسی ترتیب سے نیچے تک ۔
4۔عمومۃ : حقیقی چچا اور علاّتی چچا اُن کے ان کے بیٹے اور اسی ترتیب سے نیچےتک ۔
5۔معتق : آزاد کرنے والا پھر اس کے وعصبہ نسبی ۔(مذکورہ صورت اس دورمیں نہیں )
6۔امام وحاکم : وقت کی حکومت یاپھر قاضی وجج وغیرہ ۔
اسی طرح احناف ہاںوصی چھوٹے بچے اور بچی کا نکاح نہیں کراسکتا ، اگرچہ باپ نے اس کونکاح کی وصیت کی ہو۔قریب کے ولی کی موجودگی میں دور کے ولی نے مولیٰ علیہ کا عقدنکاح کیا تو وہ نکاح ولی قریب کی اجازت پر موقوف ہوگا۔لیکن شرط ہے کہ ولی قریب عاقل وبالغ ہو ورنہ دور کے ولی کا کیا ہوا نکاح نافذ ہوجائے گا۔اگر عصبات نہ ہوں تو ولایت ِ نکاح ذوی الارحام کی طرف منتقل ہوجائے گی ۔اور ان کو بھی ولایت الأقرب فالأقرب کی بنیاد پر حاصل ہوگی ۔
جب کہ مالکیہ ہاں کے ترتیب میں کچھ فرق ہے، دادا کوباپ کے بعد نہیں بلکہ بھائی کے بعد ولایت کا حق ہوگا۔اُن کے ہاں ولی مجبر فقط باپ ہے، دادا اس میں شامل نہیں ۔ الابْن ثمَّ ابْنه وَإِن سفل ثمَّ الْأَب ثمَّ الْأَخ ثمَّ ابْنه ثمَّ الْجد ثمَّ الْعم ثمَّ ابْنه وَقيل الْأَب أولى من الابْن ۔
1۔بنوۃ : بیٹا اور اس کے بعد پوتا اور ایسے ہی بالترتیب نیچے تک ۔
2۔ ألاب :باپ ۔
3۔أخوۃ :حقیقی بھائی ان کے بعد اُن کے بیٹے اور اسی ترتیب سے نیچے تک ۔
4۔ألجد :دادا۔
5۔عمومۃ : حقیقی چچا ان کے بیٹے اور اسی ترتیب سے نیچےتک۔
اورأئمہ ثلاثہ کے برخلاف شوافع کے نزدیک بیٹے کو ولایتِ انکاح کاحق حاصل نہیں ہے۔ فقہ شافعی کے مطابق ولایت میں اولیاء کی ترتیب اس طرح ہوگی۔:الأبوة، الأخوة، العمومة، ثم المعتق ثم السلطان، أي الأب، ثم الجد أبو الأب، ثم أبوه وإن علا، ثم الأخ الشقيق ثم الأخ لأب، ثم ابن الأخ الشقيق ثم ابن الأخ لأب وإن سفل، ثم العم، ثم سائر العصبة من القرابة كالإرث۔
1۔أبوۃ : باپ اور اس کے بعد دادا اور اسی ترتیب سے اوپر تک ۔
2۔أخوۃ : حقیقی بھائی اور باپ شریک بھائی (علاّتی بھائی)ان کے بعد اُن کے بیٹے اور اسی ترتیب سے نیچے تک ۔
3۔عمومۃ : حقیقی چچا ۔
4۔وہ تمام قریبی رشتہ دار جو میراث میں عصبہ بنتے ہیں۔
5۔معتق : آزاد کرنے والا پھر اس کے وعصبہ نسبی ۔(مذکورہ صورت اس دورمیں نہیں )
6۔سلطان : وقت کی حکومت یاپھر قاضی وجج وغیرہ ۔
جمہورنے بیٹے کی ولایت میں ابنِ ابی سلمہؓ کی روایت کردہ حدیث کو استدلال کے طور پر پیش کیا ہےجس میں مذکور ہے کہ جب آپﷺ
نے اُمّ سلمہ ؓ کو نکاح کا پیغام بھیجا تو جواب میں ام سلمہؓ نے چند معروضات حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیں حضور ﷺ نے ان کا
حل پیش کیا اور پھر حضرت اُمّ سلمہ ؓ نےاپنے بیٹے حضرت عمرؓ سے فرمایا : قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَوَّجَهُ۔
جمہور کے مذکورہ استدلال کے جواب میں شوافع یہ توجیہات پیش کرتے ہیں۔
1۔نبی اکرمﷺ کا نکاح کسی ولی کا محتاج نہیں تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کا اس طرح ان سے پوچھنا ان کے لئے اچھا اور مناسب سمجھا۔
2۔حضرت عمر بن ابی سلمہؓ ہجرت کے دوسرےسال حبشہ میں پیدا ہوئے جبکہ حضورﷺ کا نکاح ام سلمہؓ سے 4ہجری کو ہوا۔
حنابلہ کے ہاں اولیاء کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔الأبوة، ثم البنوة، ثم الأخوة، ثم العمومة، ثم المعتق، ثم عصبته، ثم السلطان۔
1۔ أبوۃ:باپ اور اس کے بعد دادا اور اسی ترتیب سے اوپر تک ۔ باپ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں آزاد عورت کا نکاح کرنے میں زیادہ حقدار ہے اس لئے کہ باقیوں کے مقابلے میں ان کے اندر کمال شفقت و ہمدردی ہوتی ہے۔اور دادا ولایت میں باپ کی طرح ہے اس لئے بیٹے کے مقابلے میں وہ مقدم ہوگا۔
2۔بنوۃ : بیٹا اور اس کے بعد پوتا اور ایسے ہی بالترتیب نیچے تک ۔ باپ دادا کے بعد بیٹا ولایت کا حقدار ہوگا۔
3۔ أخوۃ : حقیقی بھائی اور باپ شریک بھائی (علاّتی بھائی)ان کے بعد اُن کے بیٹے اور اسی ترتیب سے نیچے تک۔
4۔ عمومہ : چچا پھر چچا کی اولاد اور پھر اسی ترتیب سے نیچے تک ۔
5۔ معتق : آزاد کرنے والا پھر اس کے بعد اس معتق کے قریبی عصبہ ۔
6۔ سلطان : وقت کی حکومت یاپھر قاضی وجج وغیرہ ۔ مند رجہ بالا اولیاء کے موجود نہ ہونے پر سلطان کو ولایت حاصل ہوگی۔حضرت عائشہ کی روایت کردہ حدیث ہے۔ [فإن السلطان ولي من لا ولي له] سلطان اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
خلاصہ : احناف اور مالکیہ کے ہاں بیٹا ولایت میں باپ اور دادا سے مقدم ہوگا ۔ جب کہ حنابلہ اس ترتیب میں باپ دادا کو مقدم رکھتے ہیں ۔ اور شوافع سرے سے ہی بیٹے کو ولایت کا حق نہیں دیتے ۔

باب سوم :ولی کا حقِ ولایت اور اس کی صورتیں

ولایتِ اجبار کے حوالے سے ائمہ اربعہ کا اختلاف ہے۔ احناف کے نزدیک ولایت اجبار کی علّت صغر ہے ،یعنی یوں سمجھ لیں کہ اگر بچی نابالغ ہے  پھر چاہے وہ ثیّبہ ہو یا کنواری ہو  ولی کو اس پر ولایت حاصل ہوگی جب کہ بالغہ ثیّبہ اور بالغہ باکرہ  پرولی کو ولایت اجبار نہیں۔ مالکیہ او رحنابلہ کے نزدیک ولایت کی علت کنوارہ پن اور صغر دونوں ہیں ۔اس کی صورت یوں ہوگی کہ لڑکی بالغہ اور ثیّبہ  ہو اس  پر ولی کو ولایت نہیں ہوگی۔ باقی بالغہ باکرہ ،نابالغہ باکرہ  اور نابالغہ ثیّبہ ان سب پر ولی کو ولایت ِ اجبار حاصل ہوگی۔شوافع کے نزدیک ولایتِ اجبار کی علّت کنوارہ پن ہے، اس کی صورت یہ بنتی ہے کہ لڑکی نابالغ  ثیّبہ ہو اور  اسی طرح بالغ ثیّبہ  ان دو نوں پر ولی کو ولایت حاصل نہ ہو گی۔جبکہ نابالغ کنواری اور بالغ کنواری دونوں پر ولی کو ولایت حاصل ہوگی ۔

ولایت سے متعلق دو صورتیں اتفاقی ہیں اور دو صورتیں اختلافی ہیں ۔بالغہ ثیّبہ (بالغہ شوہر دیدہ ) اپنا نکاح خود بغیر ولی کی اجازت کے کر سکتی ہے، اور جبکہ نابالغہ باکرہ(نابالغہ کنواری) اپنا نکاح خود اپنی مرضی سے نہیں کرسکتی ،اگر اس نے کر بھی لیا تو وہ کالعدم شمار ہوگا۔بالغہ باکرہ (بالغہ کنواری) اور نابالغہ ثیّبہ(نابالغہ شوہر دیدہ) کو اپنا نکا ح کرنے کا اختیار ہے یا نہیں ان دو صورتوں میں اختلاف ہے۔
اس میں ایک اور بات نوٹ کرتے چلیں کہ جمہور کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بالغ لڑکے پر ولی کو ولایتِ اجبار حاصل نہیں ۔جبکہ نابالغ بچہ پر ولی کو ولایتِ اجبار کا حق رہتا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔
بالغہ ثیّبہ:۔(شوہر دیدہ /وہ عورت جس کا کنوارہ پن زائل ہو گیا ہو)
لفظ ِ ثیّبہ کی تعریف میں فقہا ء کی مختلف آراء ہیں ۔
احناف کے ہاں وہ عورت جس کے ساتھ شبہ میں یا نکاح فاسد میں وطی ہوئی ہو وہ عورت ثیّبہ (شوہردیدہ)تصوّر کی جائے گی۔فَثَيِّبٌ كَمَوْطُوءَةٍ بِشُبْهَةٍ أَوْ نِكَاحٍ فَاسِدٍ۔ البتہ اس کے علاوہ باقی صورتوں میں(چھلانگ لگانے سے،زیادہ حیض آنے سے یا بڑی عمر تک بغیر نکاح کے رہنے سے) پردہ بکارت زائل ہوجانےکی وجہ سےاس کی بکارت میں کوئی فرق نہ آئے گا ۔
حنابلہ و شوافع کے ہاں جس کا پردہ بکارت حلال وطی(نکاح) سے زائل ہو یا حرام وطی(زنا) سےہو وہ ثیّبہ (شوہر دیدہ ) ہے۔وَالثَّيِّبُ الْمُعْتَبَرُ نُطْقُهَا، هِيَ الْمَوْطُوءَةُ فِي الْقُبُلِ، سَوَاءٌ كَانَ الْوَطْءُ حَلَالًا أَوْ حَرَامًا۔ اور چھلانگ لگانے سے شدّت حیض کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے بکارت زائل ہونے باوجود وہ باکرہ شمار ہوگی۔
جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوہر دیدہ بالغہ پر ولایت ِ اجبار نہیں ۔ ان کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابن عباسؓ ہیں اور امام مسلم نےاس کو صحیح مسلم میں نقل کیا ہے۔ عن ابن عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : «الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا » ثیّبہ(شوہر دیدہ) اپنے معاملے میں ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے ۔
بالغہ باکرہ:۔(کنواری)
کنواری عاقلہ بالغہ لڑکی سےمتعلق حنفیہ کی رائے جمہور سے الگ ہے، اس پرولایتِ اجبار حاصل نہیں ۔احناف کا استدلال ان احادیث سے ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ کنواری لڑکی سے اس کے نفس کے بارے میں اجازت لی جائے ۔ایک اور حدیث میں ہے ۔ کنواری لڑکی سے اس کا باپ اجازت طلب کرے۔ان احادیث سے معلوم ہواکہ کنواری عاقلہ بالغہ لڑکی سےاجازت لینا ضروری ہے ۔چنانچہ مسند احمد میں سیّدہ عائشہ ؓ کی روایت ہے: «عن عائشة قالت جاءت فتاة إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالت : يا رسول الله ان أبي زوجني بن أخيه يرفع بي خسيسته فجعل الأمر إليها قالت فإني قد أجزت ما صنع أبي ولكن أردت ان تعلم النساء ان ليس للآباء من الأمر شيء» حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ، میرے باپ نے اپنے بھائی کے بیٹے سے میرا نکاح کروادیا ہے اور وہ میری وجہ سے اس کی کمتری کو دور کرنا چاہتا ہے ، حالانکہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں، تو حضور ﷺ نے اس کا اختیار لڑکی کو سونپ دیا، اس پر وہ بولی : میرے باپ نے میرے ساتھ جو کیامیں نے اسے بحال رکھا ، لیکن میں عورتوں کو یہ بتلانا چاہتی ہوں کہ ہمارے آباء کے پاس ہمارے متعلق کوئی اختیار نہیں ہے ۔
عاقلہ وبالغہ لڑکی پر ولی کو ولایت ندب حاصل ہے نہ کہ ولایتِ اجبار ۔اس نے جو مال میں تصرف کیا ہے یا اپنا نکاح خود سے کیا ہے وہ نافذ ہو جائے گا۔لیکن اس کا یہ عمل خلاف مستحب ہے۔ شامی کی عبارت ہے : وِلَايَةُ نَدْبٍ عَلَى الْمُكَلَّفَةِ وَلَوْ بِكْرًا۔۔۔۔۔۔۔فَنَفَذَ نِكَاحُ حُرَّةٍ مُكَلَّفَةٍبِلَا رِضَا (وَلِيٍّ) وَالْأَصْلُ أَنَّ كُلَّ مَنْ تَصَرَّفَ فِي مَالِهِ تَصَرَّفَ فِي نَفْسِهِ وَمَا لَا فَلَا۔
لیکن اگر عاقلہ بالغہ لڑکی نے اپنا نکاح غیر کفو میں کیا ہو تو اولیاء کو اس کا نکاح فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ابنِ ہمامؒ فرماتے ہیں: وَإِذَا زَوَّجَتْ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا مِنْ غَيْرِ كُفْءٍ فَلِلْأَوْلِيَاءِ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَهُمَا۔ (دینداری،حسب ونسب ،آزادی، مال ودولت ان چیزوں میں میاں وبیوی کے درمیان برابری کو کفو کہتے ہیں۔) یہ بات ذہن نشین کرتے چلیں کہ احناف کے ہاں بھی لڑکی کا اس صورت میں اپنا کیا ہوا نکاح نافذ ہوگا کہ جب وہ بالغہ کے ساتھ ساتھ عاقلہ بھی ہو ، اس کے اندر رُشد اور سوجھ بوجھ بھی ہو ۔لیکن اس بالغہ پر ولی کو مطلقاًولایت اجبار حاصل ہے جو مجنونہ ہو اور پاگل ہو ۔ ظاہرروایت کے مطابق وہ نکاح کفو میں کرے یا غیر کفو میں منعقد ہوجائے گا ۔البتہ اگر غیر کفو میں کیا ہو تو ولی کو اعتراض کا حق حاصل ہوگا۔
شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے ہاں کنواری بالغہ اور کنواری نابالغہ پر ولی کو ولایت اجبار حاصل ہے۔اور ان دونوں کی اجازت و مرضی کے بغیر کیا ہو ا نکاح نافذ ہوجائے گا۔لیکن ایسا نکاح اس کے والد نے کیا ہو تب نافذ ہوگا۔حضرت ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: «الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَامِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يُزَوِّجُهَا أَبُوهَا» ثیّبہ اپنے نفس پر زیادہ حق رکھتی ہے ولی کے مقابلے میں،اور کنواری کا نکاح اس کے والد کے ذمہ ہے۔
شوافع کی ایک رائے کے مطابق لڑکی سے اجازت نہ لینے کی وجہ کوئی ظاہری دشمنی وعداوت ہو تو اس صورت میں باپ کو ولایت اجبار نہیں پھر لڑکی کی اجازت سے اس کا نکاح کروایا جائے گا۔مغنی المحتاج کی عبارت ہے:أَمَّا إذَا كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا عَدَاوَةٌ ظَاهِرَةٌ فَلَيْسَ لَهُ تَزْوِيجُهَا إلَّا بِإِذْنِهَا۔ اگر ان دونوں کے درمیان کوئی ظاہری عداوت تو ولی کو اس کی شادی کرنے کا اختیار نہیں سوائے اس کی اجازت کے۔
اسی طرح حنابلہ ہاں بھی اگر والد لڑکی کا نکاح کفو میں کرتا ہےتو اسی ہی صورت میں نکاح نافذ ہوگا۔وَإِذَا زَوَّجَ الرَّجُلُ ابْنَتَهُ الْبِكْرَ، فَوَضَعَهَا فِي كَفَاءَةٍ، فَالنِّكَاحُ ثَابِتٌ۔ جب والد نے اپنی باکرہ بچی کا نکاح کفو میں کیا تو نکاح ثابت ہوجائے گا۔
احناف کے ہاں عاقلہ بالغہ لڑکی نے اپنا نکاح کفو میں کیا ہے تو منعقد ہوجائے گا،لیکن اگرغیر کفو میں کیا ہے تو ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔
ائمہ جمہور کے ہاں اس لڑکی کا نکاح سرے سے منعقد ہی نہ ہوگا ۔ دلیل: عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس عورت نے اپنا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا تو اس کا نکاح باطل ہےباطل ہے باطل ہے۔
نابالغہ ثیّبہ و نابالغہ باکرہ:۔
احناف کے نزدیک ولی کو نابالغہ پرولایت اجبار حاصل ہے پھر چاہے وہ باکرہ ہو یا ثیّبہ وَوِلَايَةُ إجْبَارٍ عَلَى الصَّغِيرَةِ وَلَوْ ثَيِّبًا۔
شوافع کے ہاںوَلَيْسَ لَهُ تَزْوِيجُ ثَيِّبٍ إلَّا بِإِذْنِهَا، فَإِنْ كَانَتْ صَغِيرَةً ولی ثیّبہ کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کرسکتا چاہے وہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو،اور نابالغہ باکرہ اور بالغہ باکرہ پرولی کو ولایت اجبار کاحق حاصل ہے الْإِجْبَارِ وَهِيَ (تَزْوِيجُ) ابْنَتِهِ (الْبِكْرِ صَغِيرَةً أَوْ كَبِيرَةً) عَاقِلَةً أَوْ مَجْنُونَةً إنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا عَدَاوَةٌ ظَاهِرَةٌ (بِغَيْرِ إذْنِهَا) لِخَبَرِ الدَّارَقُطْنِيّ: «الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ يُزَوِّجُهَا أَبُوهَا» . وَرِوَايَةِ مُسْلِمٍ: «وَالْبِكْرُ يَسْتَأْمِرُهَا أَبُوهَا» وَلَيْسَ لَهُ تَزْوِيجُ ثَيِّبٍ إلَّا بِإِذْنِهَا، فَإِنْ كَانَتْ صَغِيرَةً لَمْ تُزَوَّجْ حَتَّى تَبْلُغَ۔ والد کوباکرہ لڑکی پر ولایت اجبار کا حق حاصل ہے پھرچاہے وہ بالغہ ہو یا نابالغہ عاقلہ ہو یا مجنونہ اور اجازت نہ لینے کی وجہ کوئی ظاہری عداوت نہ ہو۔دار قطنی کی روایت ہے کہ ثیّبہ ولی کے مقابلے میں اپنے نفس پر زیادہ حقدار ہے،اور باکرہ کا نکاح اس کے والد کے ذمہ ہے۔ اور ولی کو ثیّبہ کے نکاح کا اختیار نہیں سوائے اس کی اجازت کے، اگر وہ صغیرہ ہے تو اس کا نکاح نہ کرے یہاں تک کہ وہ بالغ ہوجائے۔
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سے معاشرے پر اثرات
اسلام نے کچھ حقوق والدین پر عائد کیے ہیں اور اسی طرح اولاد پر بھی والدین کے واسطے حقوق لازم کیے ہیں۔نکاح کے معاملے میں بالغ لڑکے کے مقابلے میں بالغ لڑکی کا اپنی مرضی سے نکاح کے متعلق ہمارے معاشرے میں ایک سخت رجحان پایا جاتا ہے۔
اس پُر فتن دور میں یہ رجحان اور بھی تیزی کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ،میرا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نکاح لڑکی کی اجازت بغیر کیاجائے یا وہ اپنی پسند اور والدین کی رضامندی کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔ بلکہ یہاں میری مراد وہ نکاح ہے جس میں لڑکی کی اپنی پسند تو ہولیکن اس میں والدین کی رضامندی شامل نہ ہو،خاص اس دور میں کہ جب گھر میں ٹی وی بھی رکھی ہو،بچی کے ہاتھ میں ایک عدد موبائیل بھی تھمایاگیا ہو اور مخلوط تعلیمی اداروں میں بچی کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے غرض سے داخلہ کروایا گیا ہو تو وہ کیوں کر والدین کی رضا کو خاطر میں لائے گی، لیکن جب وہ اپنی مرضی کا ہمسفر چننے کا فیصلہ کرتی ہے تو والدین اور معاشرے کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔اس صورت میں میرا یہی مشورہ ہوگا کہ چونکہ اب پانی سر سے گذر چکا ہے، لہذا اس کے سوائے کوئی اور چارہ نہیں کہ اس کی پسند ملحوظ رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔
اس دور میں لڑکی کا گھر سے بھاگ کر نکاح کرنا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔مثلاً لڑکی کا اس کی پسند کے خلاف زبردستی نکاح کروانا جو اسے ناپسند ہو،گھر میں ٹی وی ہو اور اس کی اسکرین پر دن رات محبت و عشق کے مناظر دیکھے جاتے ہوں اور پھر رہی سہی کسر موبائل نے پوری کردی تو اس صورت میں اس کے لئے گھر سےبھاگ کسی آشنا سے نکاح رچانے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔

باب چہارم:عدالتی فیصلو ں کی روشنی میں ولی کی اجازت اور اختیار

2004 PLD سپریم کورٹ 219
کرامت نذیر بھنڈی:۔
یہ فیصلہ کرمنل اپیل نمبر 98۔(1997) بعنوان حافظ عبدالوحید بمقابلہ بیگم عاصمہ جہانگیر اور سول اپیل نمبر 563(1997) بعنوان محمد اقبال بمقابلہ SHO بٹالہ کالونی فیصل آباد کے لئے ہوگا، کیونکہ یہ سب ایک ہی سوال پر مبنی ہیں ۔
بنیادی سوال جو اٹھایا گیا 3 جولائی 1997کے آڈر میں، وہ یہ ہے کہ ‘‘کیا ایک بالغ اور آزاد لڑکی کے لئے ولی کی اجازت لازمی ہے ، اس کی شادی کو جائز قرار دینے کے لئے ۔’’
(2) محمد اقبال سول اپیل نمبر 563(1997) بتاریخ 1996/2/26 شبینہ ظفر سے شادی کی جوکہ ایک بالغ اور آزاد لڑکی ہے۔شبینہ ظفر کے والد ظفر اقبال (جواب کنندہ نمبر 3) نے بظاہر اس شادی کو نہیں مانا اور ان کے خلاف ایک F.I.R درج کرائی نمبر 256 (1996) بتاریخ 1996/2/26، تھانہ بٹالہ کالونی ضلع فیصل آباد ،زیردفعہ10(2) کے تحت زنا(نفاذ حدود)آرڈیننس،VII،1979 اور یہ الزام لگایا کہ محمد اقبال نے ظفر اقبال کی بیٹی شبینہ ظفر کو بہکایا اور ناجائز تعلقات قائم کئے ۔بتاریخ1996/7/7 کوشبینہ ظفر مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوکر دفعہ 164، Cr.p.C، کے تحت بیان دیا کہ وہ اُنیس سال کی ہے۔اور اس نے قانونی طور پر محمد اقبال سے شادی کی ہے۔
(3)بتاریخ 1996/7/10کو شبینہ ظفر نے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن نمبر 11995(1996)کو دائر کی، جس کا متن یہ تھا کہ F.I.R کو ختم کیا جائے کیوں کہ اس نے محمد اقبال سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور کوئی جرم نہیں کیا۔محمد اقبال نے بھی ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن 16561(1996) بتاریخ 1996/9/12دائر کی جس کا متن اور مقصد بھی F.I.Rکو انہی بنیادی نکات کی بنیاد پر ختم کرنا تھا۔ان دونوں درخواستوں کو اکٹھا سنا گیا ،ایک جج پر مشتمل بینچ نے 1996/9/24 پر ان دونوں درخواستوں کو خارج کردیا اور پولیس کو ہدایت کی کہ ان دونوں پر بھر دیاجائے ۔عدالت نےیہ ہدایت اس بنیاد پردی کہ چونکہ ‘‘ولی’’کی اجازت موجود نہ تھی اس بنیاد پر یہ شادی غیر قانونی ہے۔
(4)حافظ عبدالوحید جو صائمہ وحید (بالغ اور آزاد لڑکی ) کے والد کی طرف سے ایک کرمنل اپیل نمبر 98(1997) دائر کی گئی ۔ صائمہ وحید گورنمنٹ کالج برائے خواتین لاہور کی تعلیم یافتہ تھی ۔ اس نے جواب دہندہ نمبر 2 کے ساتھ اپنی مرضی سے 1996/2/26 کو شادی کی جو بظاہردرخواست دہندہ کی اجازت کے بغیر تھی ۔درخواست دہندہ کی طرف شادی کو غیراعلانیہ قراردیا۔1996/3/9 کو اس بات کا پتہ لگنے پر درخواست دہندہ نے جواب دہندہ نمبر 2 کے گھر والوں سے ملاقاتیں کی ۔ پھر یہ دعوہ کیا گیا کہ جواب دہندہ نمبر2 نے اس نکاح نامہ سے دستبرداری کا اظہار کرتے ہوئے صائمہ وحید کو اس شادی کے معاہدہ سے آزاد کردیا ہے۔درخواست دہندہ نے یہ بیان دیا کہ معاملہ ایسا ہی رہا اور 1996/4/9 کو جواب دہندہ نمبر2 اور اس کی بہن نے صائمہ وحید کو گھر چھوڑنے پر اکسایا اور اس پر صائمہ وحید نےادارہ‘‘ دستک’’ میں جواب دہندہ نمبر 1 (جوکہ اس عدالت میں وکیل اور انسانی حقوق کی علمبردار بھی ہیں ) کی مدد سے رہائش اختیار کی ۔ یہ دعوہ کیا گیا کہ ایک پٹیشن دائر کی گئی Habeas Corpus (عدالت کی طرف سے حراست میں رکھے ہوئے فرد کو پیش کیا جائے) کے تحت 393/H (1996) جواب دہندہ نمبر 2 کی طرف سے دعوہٰ کیا کہ اس کی بیوی کو جواب دہندہ نمبر 1 سے چھڑایا جائے۔ اس درخواست کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج پر مشتمل بینچ نے 1996/4/16کو اس بنیاد پر خارج کردیا کہ یہ صاف صاف بری نیّت اور ان حدود سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے جو خاندانی قوانین سے تعلق رکھتی ہیں ۔
اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا اپیل 180/L(1996) اور دو ججوں پر مشتمل بینچ نے فیصلے میں تضاد کیا اور یہ معاملہ فاضل جج صاحبان کی طرف سے چیف جسٹس کو بھیجا گیا تاکہ نیا بینچ ترتیب دیا جائے۔
تین ججوں پر مشتمل Full Bench نے 1997/3/10 کو فیصلہ سنایا کہ یہ شادی جائز ہے ، ولی کی اجازت کے بغیر بھی۔
(6)محمد امتیاز بمقابلہ ۔۔۔۔۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے ان تمام کیسوں میں یہ رائے رکھی ہے کہ ایک آزاد اور بالغ مسلمان لڑکی اپنے ولی اور کسی رشتہ دارسے اجازت لئے بغیر اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہےاور یہ شادی شرعی اور قانونی لحاظ سے جائز ہوگی ۔اس سے پہلے کیس موج علی بمقابلہ سید صفدر حسین شاہ اور بقیہ کے حوالے سے فیصلہ سناتے ہوئے کیا کہ ایک مسلمان لڑکی جو اپنی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اپنی مرضی اور ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرسکتی ہے۔لڑکا لڑکی کی طرف سے کہہ دینا کہ انہوں نے شادی کی ہے، یہ طے کرتا ہے کہ ان دونوں کی شادی ہوگئی ہے۔

باب پنجم:ولی کی اجازت کے بغیر شادی ، فقہی آراء
اسلام کی نظر میں پسند کا نکاح

اسلام کی نظر میں پسند کا نکاح:۔
نکاح سے پہلے مرد کا عورت کو دیکھنا جس سے وہ نکاح کا خواہش مند ہو۔حدیث میں اس کا صراحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَايَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی عورت کو پیغام نکاح دے تو ہوسکے تو وہ اس چیز کو دیکھ لے جو اسے اس سے نکاح کی طرف راغب کررہی ہے۔نکاح میں جس طرح اسلام نے مرد کو پسند کا اختیار دیا ہے اسی طرح عورت کو بھی دیا ہے ،جیساکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت خنساء بنت خذام کا نکاح اس کی مرضی کے خلاف ہواجسے نبی اکرم ﷺ نے فسخ کردیا ۔عَنْ خَنْسَاءَ بِنْتِ خِذَامٍ الأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّ أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهْيَ ثَيِّبٌ فَكَرِهَتْ ذَلِكَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «فَرَدَّ نِكَاحَهُ» خنساء بنت خدام رضی اللہ عنھا سے رویت ہے کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کیا جو اسے ناپسند تھا،وہ نبی اکرمﷺ کےپاس آئیں تو آپﷺ نے اس کے نکاح کو ختم کردیا۔
فتاوی ٰ :۔
علامہ ابن عابدین کا فتویٰ ہے ۔فنفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلا رضا ولی۔۔۔۔ ویفتی فی غیر الکفء بعدم جوازہ أصلاً وھو المختار للفتویٰ لفساد الزمان۔ عاقلہ بالغہ کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہوجائے گا۔۔۔۔ اور غیر کفو میں عدم جواز کا فتویٰ ہے، اور اس فساد کے زمانے میں یہی مختارقول ہے۔
علامہ ابن قدامہ کا فتویٰ: أن النکاح لا یصح إلا بولی،ولا تملیک المرأۃ تزویج نفسھا ولا غیرھا،ولا توکیل غیرولیّھا فی تزویجھا ،فإن فعلت،لم یصح النکاح۔ ولی کی اجازت کے بغیرنکاح صحیح نہ ہوگا،عورت نہ اپنا نکاح کرسکتی ہے نہ کسی اور کا ، اور نہ کوئی اور ولی کے بغیر اس کے نکاح کا وکیل بن سکتا ہے۔اگر اس طرح کیا بھی تو اس کا نکاح درست نہ ہوگا۔
ابو قاسم کا فتویٰ :فَلَا تعقد الْمَرْأَة النِّكَاح على نَفسهَا وَلَا على غَيرهَا بكرا كَانَت أَو ثَيِّبًا أَو دنية رَشِيدَة أَو سَفِيهَة حرَّة أَو أمة أذن لَهَا وَليهَا أَو لم يَأْذَن فَإِن وَقع فسخ قبل الدُّخُول وَبعده۔ عورت کا اپنا کیا ہوا نکاح اور کسی دوسرے کا کیا ہوا نکاح منعقد نہیں ہوگا،باکرہ ہو یا ثیّبہ،عاقلہ ہو یا پاگل،آزاد ہو یا لونڈی، ولی نے اجازت دی ہو یا نہ دی ہو،اگر کیا تو فسخ ہو جائے گا چاہے صحبت کی ہو یا نہ کی ہو۔
أبو محمد الحسين بغوی شافعی کا فتویٰ:والمرأة لا تملك تزويج نفسها۔۔۔ولا ينعقد النكاح بعبارتها. سواء زوجت نفسها أو غيرها بإذن الولي، أو دون إذنه۔ عورت مالک نہیں اپنا نکاح خود کرنے کی۔۔۔چاہے وہ اپنانکاح کرے یا کسی اور کا،ولی کی اجازت
سے یا اس کی اجازت کے بغیر ہو عورت کا کیا ہوا نکاح منعقد نہ ہوگا۔

باب ششم: نتائجِ تحقیق

قابل ترجیح زاویہ نگاہ:۔
زیر نظر مقالہ میں فقہاء کےجو مختلف اقوال زیربحث آئے وہ درج ذیل ہیں:
(1) احناف کے ہاں عاقلہ بالغہ کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہوجائے گا۔۔۔۔ اور غیر کفو میں عدم جواز کا فتویٰ ہے، اور اس فساد کے زمانے میں یہی مختار قول ہے۔
(2)ائمہ ثلاثہ کے عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقدہی نہ ہوگا۔
پہلاگروہ احناف کا ہے جن کےنزدیک لڑکی کا نکاح صرف اس صورت میں منعقد ہوگاجب اس نے کفومیں کیا ہولیکن اس کے غیر کفو میں کیےہوئے نکاح میں وہ بھی عدم جواز کےقائل ہیں۔جب کہ دوسرے گروہ نے ہر صورت میں نکاح کالعدم قراردیا ہے جو اس نے کفو میں کیاہویا غیر کفو میں کیاہو ۔دیکھا جائے تو اول الذکر قول وزنی معلوم ہوتا ہے،کیوں کہ اولیاءکو عموماًاس نکاح پر اعتراض ہوتا ہےجو غیر کفو میں کیا گیا ہوباقی غیر کفومیں تو ان کاعدم جوازپرفتویٰ ہے۔
خلاصۂ بحث:۔
زیر نظر مقالہ چھ ابواب پر مشتمل ہے،جن کے مباحث کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1۔باب اول میں نکاح کامفہوم وتعارف ذکر کرتے ہوئےاسلام میں نکاح کے مقاصد پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
2۔دوسرے باب میں ولایت نکاح پربحث کی گئی ہے۔اس ضمن میں پہلےلفظ ولایت کی لغوی تحقیق کی گئی ہےاورپھر ولایت کی اقسام اور اسی طرح ولایت کاحق کن کوحاصل ہےاورآخرمیں اولیاءکی ترتیب میں فقہاءکےاقوال بیان کیےہیں۔
3۔باب سوم میں بالغہ باکرہ،بالغہ ثیّبہ،نابالغہ باکرہ،نابالغہ ثیّبہ ان میں سے کس پر ولی کو ولایت کا حق حاصل ہےاور کب تک ولی کو اس پر اجبار کا حق حاصل ہوگا،اورکون اپنانکاح ولی کی اجازت کےبغیر کرسکتی ہے،اس فقہاءکےاقوال بیان کیے ہیں۔
4۔باب چہارم میں عدالت کافیصلہ ذکرکیاہے،اس کیس کافیصلہ جوحافظ عبدالوحیدکی طرف سے اس کی بیٹی صائمہ روپڑی جس نے اپنی مرضی سےشادی کی تھی عدالت میں دائر کیا گیا تھا۔
5۔پانچویں باب میں وہ نکاح جو پسند سے کیا گیاہو وہ اسلام کی نظرمیں کیسا ہےاور پھر علماءکےفتاویٰ ذکرکیےہیں۔
6۔آخری باب میں قابل ترجیح قول بیان کیا ہے۔