مقدمہ
الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی نبینامحمدصلی اللہ علیہ وسلم ۔امابعد
اللہ رب العزت نے انسانوں کے لیے دین فطرت یعنی اسلام کوپسند کیاہے ،اسلام ہی وہ مذہب ہے جوانسانی فطرت کے قریب تر ہے ،اسلام پرعمل پیراہوکرہی انسان سکھ اور چین کی زندگی گزارسکتاہے ۔اسلام کی پوری تشریح ہمیں قرآن وحدیث میں واضح اور صاف انداز سےملتی ہے ،نظام معاشرت ہویا نظام معیشت ہرپ ایک کے کے متعلق اسلام نے وہ رہنمااصول بتاہے ہیں جن پرعمل کرکےانسان امن اور سکون کی زندگی گزار سکتاہے ،لیکن جب انسان قرآن وحدیث کوچھوڑ کرخود کےبنائے ہوئے قوانین اور اپنےآباءواجداد کےرسم ورواج پرچلنے لگتاہے تووہ نہ صرف اللہ کےاحکامات کوتوڑ نےوالاہے بلکہ خوداسکی زندگی بھی مشکلات کاشکارہوتی ہے اس سے معاشرے کاامن اور چین بھی برباد ہوجاتاہے،احکامات ا لٰہی کوچھوڑ کراپنےآباء واجداد کےرسومات پرچلنےوالے کی مثال اُس پیاسے کی ہے جولق ودق صحرامیں سیراب کوپانی سمجھ کراِدھراُدھر پھٹکتارہتاہے ،ہرچمکنے والی چیزکووہ پانی سمجھ کراس کےپیچھے بھاگ تاہے مگر ظاہری چمک دراصل اس کی انکھوں کادھوکاہوتاہےجس کاانجام آخرکار موت ہی ہے،اسی طرح جوآدمی رسومات کی ظاہری چمک دھمک کودیکھ کراس کے پیچھے چلتاہے وہ داراصل اندھیراہوتاہے اُس کاانجام بھی بالآخر خسرالدنیاو الآخرہے ،
اس کی ایک چشم کشااورواضح مثال اسلام سےقبل عرب کامعاشرہ ہے جورسومات کے دلدل میں پھنساہواتھا،آباءواجداد کےنقش قدم پرچلتے ہوئےوہ انسانیت کی تمام حدیں پارکرچکاتھا وہاں کے لوگ رسومات کی ایک ایسی وادی میں بس تے تھے جہاں ظلم وستم اور قتل وغارت کابسیراتھا،جہاں بنت حوا کےساتھ جانوروں جیساسلوک ہوتاتھا،لڑکی کی پیدائش کی خبرسن کرپیشانی پر بل پڑجاتے تھے ،اپنی ہی لخت جگر کومنوں مٹی تلے دفن کیاجاتاتھا،عورت کوترکہ سمجھ کرمیراث میں تقسیم کیاجاتاتھا،مگراللہ رب العزت نے اپنے پیارےنبی محمدمصطفی ﷺ کومبعوث فرمایاجس نے عرب کے اس معاشرےکوامن گہوارابنایا،عورتوں کومردوں کےبرابر حقوق دیے،بیوی کومرد کےلیے لباس ،بیٹی کووالدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ، بہن کوبھائی کی عزت اورماں کےقدموں تلےجنت رکھ دی ،جوں جوں قرآن اترتاگیاعرب سےایک ایک ہوکہ رسومات مٹ تی گئیں ،یہاں تک کہ عرب کامعاشرہ ان رسومات سے پاک صاف ہوا،مگرافسوس سےکہناپڑتاہے کہ پاکستان کےمشرق میں واقع خیبرپختون خواہ کاآخری ضلع کوہستان میں اور بعض پختون علاقوں میں اب بھی اکثر رسوامات جوعرب معاشرے میں تھیں اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں ،آج بھی کوہستان میں بیٹی کی پیدائش پر غم منایاجاتاہے ،بیوہ کوآج بھی کوہستانی قوم اپنی میراث سمجھتی ہے ،عورت کوآج بھی میراث میں حصہ نہیں دیاجاتاہے،آج بھی کوہستانی عورت مظلوم و مقہور ہے ،اپنےبچوں کےساتھ بات کرناآج بھی وہاں معیوب سمجھاجاتاہے ،ان رسومات کولوگ آج بھی اپنی غیرت و حمیت اورثقافت کاحصہ سمجھتےہیں ،اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ ان لوگوں کوان رسومات کی قباحتوں سےاگاہ کی کیاجائے ،قرآن وحدیث کی روشنی میں ان رسومات کاحکم مرتب کیاجائے ،میں نےاسی لیے اپنےمقالے کےلیے اس موضوع کاانتخاب کیاہےتاکہ ،فلیونذروقومھم،،،،،کافریضہ بھی اداہواور لوگوں کوان رسوامات کی حقیقت اور حکم کاادراک ہوسکے۔
رسم ،رواج ،عادت کی لغوی اور اصطلاحی تحقیق
رسم کی لغوی تحقیق :
’’رَسمٌ‘‘عربی زبانکالفظ اورباب نصرینصرسے مصدرکاصیغہ ہے ،اس کی جمع’’رُسُومٌٌاور أرسُمٌ ‘‘آتی ہے ،عربی زبان میں رسم مندرجہ ذیل معنوں میں استعمال ہوتاہے ۔نقشہ ،تصویر،نشان ،ڈیزائن ،طوروطریقہ،ٹیکس ،محصول ،فیس
اردو زبان میں رسم کامعنی دستور ،قاعدہ اور ریت کے آتاہے ، مروجہ طور وطریقہ کوبھی رسم اس لیے کہاجاتاہے کہ لوگ اس رسم کواپنے لیے قاعدہ اور دستور سمجھتے ہیں ۔
رواج کی لغوی تحقیق:
’’رِوَاج ‘‘باب نصرینصر سے عربی زبان کامصدرہے ،اس کامعنی ہے رواج پانا،عام ہونا،پھیلنا،جیساکہ عربی میں کہاجاتاہے :’’راج الخبر‘‘خبرپھیل گئی ۔
اردو زبان میٖں رواج کامعنی ریت ،رسم ،قاعدہ ،قانون ،ضابطہ اورمروج کے آتاہے، مروجہ طوروطریقہ کوبھی رواج اس لیے کہتے ہیں کہ لوگ اس رواج کوقاعدہ اور قانون سمجھتےہیں ،
عادت کی لغوی تحقیق:
’’عادت ‘‘بھی باب نصرینصر سے مصدرکاصیغہ ہے اس کامعنی لوٹنے یادبارہ کرنے کے آتاہے ،لوگوں میں جوچیزمروج ہوتی ہے اس کوباربار کرتےہیں اس لیے اس کوعادت کہاجاتاہے۔
اردوزبان میں عادت کامعنی خو،خصلت ،خاصیت ،دستور،طریقہ اور ریت کے ہیں
رسم وروا ج اور عادت کی اصطلاحی تعریف
عربی زبان میں رسم اور رواج کے الفاظ الگ طور پراستعمال نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ عادت کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ،فقہااور اصولیین بھی رسم اور رواج کے الفاظ کوعادت کے معنی میں ہی استعمال کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہواکہ رسم و رواج اور عادت میں اگرچہ لغوی اعتبار سے فرق ہے مگر مصداق اور اصطلاح کے اعتبار سے یہ تینوں الفاظ مترادف ہیں ، لہٰذاعادت کی جواصطلاحی تعریف ہوگی رسم ورواج کی بھی وہی تعریف ہوگی ۔
عادت کی اصطلاحی تعریف :
فقہاءاور اصولیین نے عادت کی مختلف تعریفات کی ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
پہلی تعریف : ’’العادۃ: عبارۃ عمایستقر فی النفوس من الامورالمتکررۃ المقبولۃ عندالطباع السلیمۃ ‘‘
عادت ایسی کیفیت ہے جوکسی عمل کے باربار دہرانے سے نفس میں مرتکز ہوجائے اور سلیم الفطرت طبیعتوں کے لیے قبول ہو
عادت کی دوسری تعریف :
’’العادۃ: مااستمرالناس علیہ علی حکم المعقول وعادواالیہ مرۃ بعدأخری ‘‘
عادت ایسے معقولی حکم کانام ہے جس پر لوگ مداومت اختیارکریں اور اس کوبار بار دہرائیں
عادت کی تیسری تعریف :
’’العادۃ ھی الامرالمتکررمن غیرعلاقۃ عقلیۃ ‘‘ کسی عقلی تعلق کے بغیرباربار پیش آنے والے امرکانام عادت ہے
رسم ورواج کی اصطلاحی تعریف:
اوپرذکرکی گئی عادت کی اصطلاحی تعریفات میں غوروفکرکے بعد رسم ورواج کی تعریف یہ معلوم ہوتی ہے :
کسی بھی معاشرے میں جاری ایساقول وفعل جواُس معاشرے کے افراد بغیرکسی عقلی تقاضے کےباربار کریں اس کورسم ورواج کہتےہیں۔
رسم ورواج کی قسمیں
حکم کے اعتبار سے رسم کی دوقسمیں ہیں :1۔رسم صحیح ،2:رسم فاسد
رسم صحیح کی تعریف:
’’مالایخالف نصامن نصوص الشرعیۃ ،ولایفوت مصلحۃ معتبرۃ ،ولایجلب مفسدۃ راجحۃ ‘‘ ‘‘رسم صحیح اس رسم کوکہتےہیں جونص شرعی کےمخالف نہ ہو اور نہ ہی اس سےکوئی مصلحت فوت ہوتی ہو اور نہ ہی وہ کسی واضح مفسدہ کوپھلانے والاہو۔
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی لکھتےہیں :
رسم صحیح اس قولی یافعلی رواج کوکہتےہیں جس کے قبول کرلینے سے کوئی نص معطل یابالکلیہ محروم نہ ہوتی ہو اور وہ رواج شریعت کے مسلمہ عمومی قواعد کے خلاف بھی نہ ہو مثلاکوہستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی جلدی کرنے کی رسم ہے جوکہ قابل ستائش اور اچھی رسم ہے،اس کورسم صحیح کہاجائے گا۔
رسم فاسد کی تعریف :
’’ ماکان مخالفالنص الشارعاو یجلب ضررااویدفع مصلحۃ‘‘ ،
رسم فاسد اس رسم کوکہتےہیں جوشارع کے نص کے خلاف ہویااس رسم پرعمل کرنے سے ضرر لاحق ہونے کااندیشہ ہو،یاکوئی مصلحت اس سے فوت ہوتی ہو۔
یعنی ایسارواج اگر اس کوقبول کیاجائے توکسی نص پرعمل فوت ہوجائے یاوہ رواج شریعت کے تسلیم شدہ اصول وقواعد سےمتصادم ہو اس کورسم فاسد کہتے ہیں ۔ مثلا کوہستان میں ایک رسم ہے جب کوئی مرد فوت ہوجاتاہے تو اس کے بھائی اور برادری والے متوفی کی بیوہ کواپنی میراث سمجھتےہیں ،اس سےنکاح کرنےکواپناحق سمجھتےہیں ،یہ رسم قرآن کے واضح حکم کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کاحکم ہے،’’ یاایھاالذین امنوالایحل لکم ان ترثواالنسآء کرھا‘‘ اے ایمان والو یہ بات تمھارے لیے حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کےمالک بن بیٹھو‘‘اس جیسی رسومات کورسم فاسد کہتےہیں۔
کوہستان میں خواتین سے متعلق رسومات کاتفصیلی جائزہ
’’سُوْرَہْ‘‘کی رسم
رسم نمبرایک:
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت:
ویسے تو کوہستانی معاشرے میں صنف نازک پررسم ورواج کے نام سے طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں،مگر سورہ سب زیادہ دردناک رسم ہے ،یہ رسم انسانیت کے نام پردھبہ ہے ،اِس رسم کی بھینٹ چڑھنےوالی لڑکی کی زندگی جہنم زار بن جاتی ہے۔
اِس رسم کی عملی صورت یہ ہے کہ کوہستانی معاشرے میں جب ایک قبیلے کاآدمی دوسرے قبیلے کے کسی شخص کوقتل کردیتاہے ،توخون اور قتل کے عوض میں قاتل کے قبیلے والےمقتول کے رشتہ داروں کو صلح میں لڑکیاں دیتےہیں ،اس کوکوہستانی زبان میں ’’سُوْرَہ ‘‘کہاجاتاہے ۔جب یہ رسم شروع ہوئی توابتدأ میں ایک لڑکی دی جاتی تھی ،مگر رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہوتاگیا،اب اس وقت اکثر علاقوں میں ایک قتل کے عوض تین لڑکیاں او رپانچ لاکھ روپے دے جاتے ہیں ،یہ لڑکیاں جب شادی کے بعداپنے شوہر وں کے گھرجابستی ہیں تو عموماًوہ گھراُن کے لیے سکھ اور چین کے بجائے غم اور بےسکونی کامسکن بن جاتاہے ،مقتول کے گھروالےاِن لڑکیوں کوقاتل سمجھتی ہیں ، کسی نہ کسی بہانے اِن مظلوم اور بے قصور لڑکیوں پراپناغصہ اتارنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں،اگر بالفرض میاں بیوی میں چپقلش کی وجہ سے ساتھ رہناممکن نہ ہواور بات طلاق اور علیحدگی تک پہنچ جائے تب بھی اِن لڑکیوں کے شوہراس لیے طلاق نہیں دیتے کہ یہ لڑکیاں خون بہامیں آئی ہیں ۔اگر کسی لڑکی کاخاوند فوت ہوجائے تو اس لڑکی کودوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی جاتی کہ یہ لڑکی دیت میں ملی ہے وہ لوگ اس لڑکی کوگویااپنی مملوکہ پراپرٹی اور خود کواس کامالک سمجھتےہیں ۔
سورہ کی حرمت قرآن سے :
قرآنی اصول ہے جوآدمی زیاتی کرتاہے اُس کی سزااُسی کودی جائےگی ،کسی کے گناہوں کابوجھ کسی ناکردہ پرنہیں ڈالاجائےگا ،قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ،
’’ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ‘‘
اور جوکوئی شخص کوئی کمائی کرتاہے ،اس کانفع نقصان کسی اور پرنہیں ،خود اسی پرپڑتاہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والاکسی اور کابوجھ نہیں اٹھائے گا
اس آیت میں اللہ کریم نے واضح انداز میں فرمایاکہ آدمی جوکچھ کرتاہے اس کانفع نقصان اسی پرہوگا،یہ نہیں ہوگاکہ کرے کوئی اور بھرے کوئی ،جبکہ سورہ کی رسم میں قتل مرد کرتا ہےاور اس کی سزاعورت کودی جاتی ہے ،اسلا م سے قبل عرب معاشرے میں بھی اسی طرح کارواج تھا،باپ کی سزابیٹے کواور بیٹے کی سزاباپ کودی جاتی تھی یہ آیت اِس رسم کے رد میں نازل ہوئی ،چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں :
’’وقيل: إنها نزلت ردا على العرب في الجاهلية من مؤاخذة الرجل بأبيه وبابنه وبجريرة حليفه.قلت: ويحتمل أن يكون المراد بهذه الآية في الآخرة، وكذلك التي قبلها، فأما التي في الدنيا فقد يؤاخذ فيها بعضهم بجرم بعض‘‘
اورکہاگیاہےکہ:یہ آیت عرب کے اُس رسم کے رد میں نازل ہوئی جس میں ایک شخص کواس کے باپ ،بیٹے اور حلیف کےجرم میں پکڑاجاتاتھا،میں کہتاہوں : یہ بھی احتمال ہے کہ اس آیت سے آخرت اورآخرت سے قبل یعنی دنیامراد ہو،پس دنیامیں اس سے مراد یہ ہےکہ بعض لوگوں کوبعض کے جرم میں پکڑاجاتاتھا
علامہ قرطبی کی اس عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ عرب میں بھی یہ رواج تھاکہ ایک کی سزادوسرے کودی جاتی تھی،اللہ نے اس رواج کورد کردیاکہ نہ دنیامیں ایساکرناجائز ہے اور نہ ہی اخرت میں یہ ہوگاکہ ایک کی سزادوسرے کودی جائے چونکہ سورہ میں بھی مردکے گناہوں کی سزاعورت کودی جاتی ہے اس لیے یہ بھی جائزنہ ہوگا۔
سورہ کی حرمت احادیث سے:
’’عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ،لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض ولا يؤخذ الرجل بجريرة أبيه ولا بجريرة أخيه ‘‘
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے وہ فرماتےہیں کہ:آپﷺ نے فرمایا،تم لوٹ کردوبارہ کافرنہ ہوجاناکہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگواور کسی شخص کواس کے باپ یابھائی کی جنایت کی سزانہیں دی جائےگی
اس حدیث میں واضح طورپرفرمایاکہ ایک شخص کے کیے کی سزادوسرے کونہیں دی جائیگی لیکن کوہستان میں موجود سورہ کی رسم میں باپ ،بھائی یا چاچاکی کارستانیوں کی سزاایک بیٹی ،بہن اور بھتیجی کودی جاتی ہے ،جوکہ سراسر ظلم ،ناانصافی اور بربریت ہے ۔
دوسری حدیث:
اسلام میں صلح کی بڑی اہمیت ہے دومسلمانوں میں صلح کرانایقیناً اجروثواب کاکام ہے مگرایسی صلح جس میں حلال چیز حرام قراردیاجائے یاحرام چیزکوحلال قراردیاجائے جائزنہیں ہے ،حدیث مبارکہ ہے :
’’ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:الصلح جائز بين المسلمين،إلا صلحا حرم حلالا،أو أحل حراما، والمسلمون على شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:صلح مسلمانوں کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جوکسی حلال کوحرام کردے یاکسی حرام کوحلال کردے۔اورمسلمان اپنی شرطوں کے پابندہیں ،سوائے ایسی شرطوں کے جوکسی حلال کوحرام کردے یاکسی حرام کوحلال کردے۔
اس حدیث کی رشنی میں اگر سُورہ کے نتیجے میں ہونے والی صلح کودیکھیں تواِس صلح کا عدم جواز ہونامعلوم ہوتاہے ،اس لیےکہ اس صلح میں لڑکیوں کی شرط رکھی جاتی ہے یہ شرط رکھناہی حرام ہے ،کیونکہ ایک آذاد عورت کوبطوردیت کے دیاجاتاہےجوکہ ناجائزہے ،لہذا یہ صلح بھی ناجائزہوگی۔
حرمت سُورہ پر فقہی دلیل۔
فقہی اصول ہے ،جوچیز بیع میں عوض نہیں بن سکتی وہ چیز صلح میں بھی عوض نہیں بن سکتی ،علامہ کاسانی لکھتےہیں ’’فَمَا لَا يَصْلُحُ عِوَضًا فِي الْبِيَاعَاتِ لَا يَصْلُحُ بَدَلَ الصُّلْحِ، وَكَذَا إذَا صَالَحَ عَلَى عَبْدٍ، فَإِذَا هُوَ حُرٌّ؛ لَا يَصِحُّ الصُّلْحُ’’
جوچیز بیع میں عوض نہیں بن سکتی وہ چیز صلح کابدل بھی نہیں بن سکتی اسی طرح جب کوئی صلح کرلیے اس شرط پرکہ عوض میں غلام دیگااور وہ آذاد نکل آیاتویہ صلح جائز نہیں ہے ۔
اگرکوہستان میں موجود سورہ کی رسم کواس فقہی اصول کی روشنی میں پَرکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ یہ ناجائز رسم ہے ،شرعایہ صلح ہی جائزنہیں ہے۔کیونکہ جولڑکیاں صلح میں بطور عوض کے دی جاتی ہیں وہ آذاد ہوتی ہیں ،اور آذاد عورت چونکہ بیع میں عوض نہیں بن سکتی ،اس لیےان کو صلح میں بطور بدلِ صلح کے دینابھی جائزنہیں ہوگا۔
دوسری دلیل
فقہی اصول ہے:’’ كل ما يصلح أن يكون صداقا في النكاح يصلح أن يكون عوضا في الصلح عن القصاص‘‘ ہروہ چیز جونکاح میں مہربن سکتی ہے وہ قصاص میں عوض بھی بن سکتی ہے ۔
اِس فقہی اصول سےمعلوم ہوتاہے کہ قصاص میں اگرصلح کی جائے توبد ل صلح وہی چیز بن سکتی ہے جونکاح میں مہربننے کے قابل ہو ،یعنی مال متقوم ہواب دیکھاجائے توسورہ میں جولڑکیاں دی جاتی ہیں وہ آذاد ہوتی ہیں اور مال متقوم بھی نہیں ہیں ،ان کونکاح میں مہربھی نہیں بنایاجاسکتاہے ،لہذا ان کوقصاص میں عوض بنانابھی درست نہ ہوگا،اس سے ثابت ہواکہ کوہستان میں جولڑکیاں صلح میں دی جاتی ہیں اور سورہ کی جورسم ہمارے ہاں مروج ہے وہ جائز نہیں ہے ۔
سورہ کے سماجی اور معاشرتی نقصانات:
• جولڑکیاںسورہ میں دی جاتیں ہیں وہ ہمیشہ ظلم وستم کاشکاررہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ لڑکیاں احساس کم تری میں مبتلاہوجاتی ہیں ۔
• عموماسورہ میں دی جانے والی لڑکیاں خاندان میں عمررسیدہ ،ان پڑھ اور جاہل قسم کے مردوں کے نکاح میں دی جاتی ہیں ،عمرکے تفاوت اور ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے میاں بیوی میں اَن بَن رہتی ہے اور محبتوں کایہ رشتہ نفرت اور عداوت میں بدل جاتاہے ۔
• ایسی لڑکیوں کومقتول کے ورثاء اپنی ملکیت سمجھتے ہیں ،چنانچہ خاوند کے فوت ہوجانے کے بعد بھی ان کوآزاد نہیں کیاجاتا۔
• ایسی لڑکیاں تنگ آکر ہمیشہ اپنے والد اور بھائیوں کوبددعائیں دیتی رہتیں ہیں ،جس سے اُن کے خاندانی نظام میں دراڑیں پڑجاتی ہیں ۔
اس ساری بحث سے معلوم ہواکہ سورہ کی رسم حرام اور ناجائزہے ۔
اہم سوال
اگر سورہ کی رسم ناجائزہے تو جولڑکیاں سورہ میں دی جاتی ہیں کیاان کا نکاح منعقد ہوجائےگا؟اگر وہ لڑکی نابالغ تھی باپ داد نے سورہ کے رسم کے تحت کسی کے نکاح میں دے دیاتوکیایہ نکاح منعقد ہوجائےگا؟ کیابلوغت کے بعدان کوخیار بلوغ حاصل ہوگا؟ یہ چنداہم سوالات ہیں جوکہ حل طلب ہیں ،ان سوالات کے جوابات سے پہلے مسئلہ ’’سوءالاختیار‘‘ کاسمجھناضروری ہے لہذ ایہاں سوء لاختیار کی وضاحت کی جارہی ہے تاکہ بات بالکل واضح ہوسکے۔
سوءالاختیارکامطلب
شریعت نے ولی کواجازت دی ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کانکاح کسی مناسب جگہ کردیں ، لیکن اگربچی یابچے کارشتہ طے کرتےہوئےولی بچے کی مصلحت سے زیادہ اپنے مفاد اور مطلب کومقدم کرے اوراُس نکاح میں ولی کی ذاتی لالچ شامل ہوتواِس کوسوءالاختیارکہتے ہیں ۔
سوءالاختیار کب ثابت ہوگا؟
سوءالاختیار کب ثابت ہوگا،کیااس کےثبوت کےلیےولی کامعروف بسوء اختیارہوناضروری ہے؟ اورکیامعروف ہونے کامطلب یہ ہے کہ پہلے ایک دفعہ اس طرح کاواقعہ اس سے ثابت ہواہو ؟
اس بارے میں فقہاء کی دوآراء ہیں ،علامہ شامی کی عبارت سے بظاہریہ معلوم ہوتاہے کہ سوءاختیار کےثبوت کےلیےپہلے ایک دفعہ اس ولی کی طر ف سےاختیارکاغلط استعمال ہونےکاواقعہ ضروری ہے ۔علامہ شامی لکھتے ہیں :
’’ والحاصل أن المانع هو كون الأب مشهورا بسوء الاختيار قبل العقد فإذا لم يكن مشهورا بذلك ثم زوج بنته من فاسق صح وإن تحقق بذلك أنه سيىء الاختيار واشتهر به عند الناس فلو زوج بنتا أخرى من فاسق لم يصح الثاني لأنه كان مشهورا بسوء الاختيار قبله بخلاف العقد الأول لعدم وجود المانع قبله‘‘
حاصل یہ ہے کہ عقدسے پہلے باپ کامشہور بسوء الاختیارہونایہ مانع ہے نکاح کے انعقاد میں ،پس اگروہ پہلے مشہور نہ تھاپھراس نے اپنی بیٹی کانکاح کسی فاسق سے کردیاتو یہ صحیح ہوگا،اگراس واقعے سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ سیء الاختیار ہے اور لوگ یہ بات جان لیں ،پھریہ آدمی اپنی دوسری بیٹی کانکاح کسی فاسق سے کردےتویہ دوسرانکاح صحیح نہ ہوگا،اس لیے کہ اب وہ دوسرے نکاح سے پہلے ہی سوء اختیار کے ساتھ مشہور ہوچکاہے ۔بخلاف عقد اول کے ( وہ صحیح ہوگا) اس لیے کہ اس وقت مانع موجود نہ تھا
علامہ شامی کی اس عبارت سےبظاہریہ معلوم ہوتاہے کہ سوءالاختیارکےثبوت اور تحقق کے لیے ولی کا مشہوراور معروف ہوناضروری ہے،اور یہ معروف تب ہوگاجب اس ولی سے اپنے اختیارات کےغلط استعمال کرنے کاواقعہ ایک دفعہ پہلے ہواہو،علامہ شامی کاکہناہے اگرولی نے پہلی دفعہ کسی فاسق سے لڑکی کانکاح کردیا ،اس نکاح میں ولی نے اپنے اختیار کوغلط استعمال کیاہےتب بھی یہ نکاح منعقد ہوجائیے گاکیونکہ یہ نکاح کراتے ہوئے وہ مشہور بسوءالاختیارنہ تھا،اگریہی ولی اپنی دوسری لڑکی کانکاح کسی جگہ کراتاہے تویہ درست نہ ہوگاکیونکہ اب وہ معرروف بسوء الاختیارہوچکاہے ،اختیارات کاغلط استعمال وہ پہلے ایک دفعہ کرچکاہے۔
اکثرفقہاء کاکہناہے کہ ولی کامشہور ہوناضروری نہیں ہے اور نہ ہی پہلے ایک دفعہ اس سے واقعے کاظہور ضروی ہے ،یہی وجہ ہے کہ مفتی شفیع ؒ نے علامہ شامی کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے ۔
یہ تشریح جمہورفقہاء کی تصریحات سےمختلف ہونے کی وجہ سے محل نظرہے۔
فتاوی ھندیہ کی عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ سوءالاختیار کاعلم اور معلوم ہوناہی کافی ہے مشہوراور معروف ہونااورولی کی طرف سے ایک واقعہ کاپہلے ظہورضروری نہیں ہے ۔فتاوی ہندیہ میں ہے ۔
’’ إذا عرف ذلك منه فالنكاح باطل إجماعا‘‘ اگرولی کی طرف سے سوءالاختیارمعلوم ہوجائے تو نکاح باطل ہوگا
یہاں ’’عَرِفَ‘‘ کاصیغہ آیاہے جس کامعنی ہے جاننا،معلوم ہونا،اس سے معلوم ہوتاہے کہ ولی کی طرف سے سوءالاختیارکامعلوم ہوناہی کافی ، اس کامشہور ہونااور اس طرح کاایک واقعہ کاپہلے ہوناضروری نہیں ہے ۔یہاں چندجدیدفتاوی نقل کیےجاتے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اگرولی نے لڑکی کےمفاد سے ہٹ کراپنے مفاد اورذاتی لالچ کوزیادہ ملحوظ خاطررکھاہے ،تویہ اُس کے سوءاختیارکےلیے کافی ہے :
مفتی شفیع ؒ لکھتےہیں: جب واضح طور پریہ ثابت ہوجائےکہ باپ نے اس نکاح میں لڑکی کے مصالح پرنظرکئے بغیرکسی لالچ یااپنے مفادکے لیے کردیاہے توباپ کاسوءاختیار معروف و غیرمشتبہ ہوگیا
مفتی رشیداحمدؒ لدھیانوی لکھتے ہیں :
بطلان نکاح کی علت عدم النظرکاتیقن ہے جس کےلیے سوءالاختیار کامحض تحقق و تیقن کافی ہے معروف بسوءالاختیار کواس میں منحصرکرناکہ باپ پہلے بھی کوئی عقد کرچکاہونہ کہیں منقول ہے نہ معقول
فقہ اکیڈمی انڈیانے اپنے فیصلے میں لکھاہے:
جس لڑکی کانکاح باپ دادانے نابالغی میں کردیاہووہ نکاح لازم ہے الّایہ کہ وہ لڑکی اس وجہ سے نکاح کوپسندنہ کرےکہ باپ دادانے اس کانکاح کسی لالچ میں آکریالاپرواہی سے کام لے کریابدتدبیری کے ساتھ کردیاہے ،یاولی اعلانیہ فاسق ہے تو اس کوقاضی کے ذریعے حق تفریق حاصل ہے ۔
خلاصہ بحث:
اوپرذکرکیے گئے فقہاءکے اقوال اور آراء سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سوءالاختیارکے ثبوت کے لیے پہلے سےکسی معاملے میں اس کاتحقق اور پایاجاناضروری نہیں ہے ،بلکہ جس نکاح میں ولی کی ذاتی طمع اور لالچ ثابت ہوجائے اور ولی کے طرزعمل سے یہ بات واضح ہوکہ اس نے لڑکی کے مفاد کاخیال نہیں رکھا،یہی طرزعمل اس کے معرو ف بسوء الاختیارکے لیے کافی ہے ،اب کوہستان میں جولڑکیاںسورہ کی رسم میں صلح کے طور پردی جاتی ہیں ،اس میں سوء الاختیار کاپایاجانااظہرمن الشمس ہے کیونکہ اس میں ولی صرف اپنی جان بچانے کےلیے لڑکی کوڈھال کے طور پراستعمال کرتاہے ،وہ نہ لڑکی کے مفاد کودیکھتاہے نہ کُف کواور نہ عمرمیں برابری کو،لہذاسورہ کی رسم میں سوء الاختیارکےپائے جانےمیں کوئی شک نہیں ہے،اب سوال ہوگاکہ جب سورہ میں سوءالاختیار پایاگیاتوکیاان لڑکیوں کانکاح منعقد ہوگاجواس رسم کاشکار ہوتی ہیں ،یامنعقدنہیں ہوگا۔اس میں فقہاء کی دوآراءپائی جاتیں ہیں ۔
پہلی رائے یہ ہے کہ سوءالاختیار کے ثبوت کے بعدولی کاکیاہوانکاح منعقد ہی نہیں ہوگا،جیساکہ اوپرمسئلہ سوءالاختیار کے ذیل میں جوعبارتیں ذکرکی گئی ہیں ،ان میں اور دیگر فقہاء کی عبارت میں جو مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان سے ظاہرہوتاہے،اکثرفقہاء نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں ،فالنکاح باطل’’لم یصح عقدہ ‘‘فالعقد باطل علی الصحیح ‘‘اور لایجوز عقدہ ‘‘ان الفاظ سےمعلوم ہوتاہے کہ جب سوءلاختیار ثابت ہوجائے تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا،مفتی رشید احمد لدھیانوی کی رائے بھی یہی ہے ۔لیکن مفتی شفیع ؒ کی رائے یہ ہے کہ اس صورت میں نکاح منعقدہوجائےگالیکن لڑکی کوخیارفسخ حاصل ہوگا،
مفتی صاحب جواہرالفقہ میں لکھتے ہیں:
’’صورت مسئولہ کاصحیح جواب میرے نزیک یہ ہے کہ اس صورت میں لڑکی کو بوقت بلوغ خیارفسخ حاصل ہوگا،وہ شرعی قاضی یامسلمان حاکم مجاز کی عدالت میں دعویٰ کرے‘‘
راجح قول:
اس مسئلہ میں اگر کوہستانی معاشرے کوسامنے رکھتے ہوئے سداًلذرائع کے طورپرعدم انعقاد کافتوی دینازیادہ مناسب معلوم ہوتاہے تاکہ لوگوں کواس رسم کی دلدل سے نکالاجائے اور لوگوں کے دلوں میں اس رسم کی قباحت اور شناعت بیٹھ سکے ،مفتی خالدسیف اللہ رحمانی صاحب کی رائے بھی یہی معلوم ہوتی ہے وہ لکھتےہیں :
’’ ولی کے بارےمیں پہلے سے تونکاح یاکسی اور معاملے میں اختیارات کے غلط استعمال کاتجربہ سامنے نہ آیاہولیکن خود یہ نکاح اس کی کھلی ہوئی نادانی یابددیانتی کامظہرہو،فقہی جزئیات سے اندازہ ہوتاہے کہ ایسانکاح امام یوسف ؒ اورامام محمدؒکے نزدیک جائزنہیں ہے ،اورامام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جائزہے ۔خیال ہوتاہے فی زمانہ یہی نقطہ نظرقرین صواب ہے کیونکہ جب کسی شخص کاسوءاختیار اس کے عمل ہی سے ظاہر ہوتومحض گمان شفقت کواس پرترجیح نہیں دی جاسکتی‘‘
لڑکی کی پیدائش پرغم منانا
رسم نمبردو:
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت :
کوہستانی معاشرے میں ایک عجیب رسم ہے ،جب کسی گھرمیں لڑکی پیداہوتی ہے تووہاں خوشی کے بجائے غم اورحزن کااظہارکیاجاتاہے ،خاص کرکسی عورت کے مسلسل دویاتین لڑکیاں پیداہوں تواس گھرمیں ماتم کاساسماں ہوتاہے ،گھرکی عورتیں رونے لگ جاتی ہیں ،اس بچی کی ماں کومنحوس سمجھاجاتاہے ، اسعورت کے ساتھ ایسارویہ رکھاجاتاہے جیسے سارقصور اس عورت کاہو ،پورے گھرمیں ایساماحول پیداکیاجاتاہے کہ وہ عورت اپنے آپ کوقصوروارسمجھنے لگتی ہے ،لڑکی کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے نہ عقیہ کااہتمام کیاجاتاہے،اور نہ ہی عزیز وأقرباء کومدعوکیاجاتاہے،لیکن اسی گھرمیں اگر لڑکے کی پیدائش ہوجائے تومسرت اور خوشی کااہتمام کیاجاتاہے ،عزیزو اقارب اوررشتہ داروں کواکھٹاکیاجاتاہے ،جانور ذبح کرکے محلے والوں کومدعوکیاجاتاہے ،گھرمیں عید کاساسماں ہوتاہے ،چھوٹے بچوں سے لیکربڑوں تک سب خوشی سے چُھوم اٹھتےہیں ،مگریہ سب کچھ لڑکی کی پیدائش پرنہیں ہوتاہے،حالانکہ لڑکی اور لڑکے کاانتخاب اللہ کاکام ہے وہ جسے چاہتاہے لڑکی دیتاہے اور جس کوچاہتاہے لڑکادیتاہے ،اس میں انسان کاکوئی کارنامہ اور کردار نہیں ہوتاہے ۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ:
اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بھی یہی رواج تھا،عرب کے باسیوں کوبھی لڑکیوں کی پیدائش سےچِڑتھی،لڑکی کی پیدائش کی خبرسن کراُن کی پیشانی پربل پڑجاتےتھے،قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اُن کے اِس رسم کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ۔يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ‘‘
اوران میں سےکسی کوبیٹی (پیدائش)کی خوشخبری دی جاتی ہےتواس کاچہرہ سیاہ پڑجاتاہےاوروہ دل ہی دل میں کڑھتارہتاہے،اس بُری خبرکی وجہ سے لوگوں سے چھپاچھپاپھرتاہے،سوچتاہےکہ بیٹی کواپنےپاس رکھ کرذلیل ہوتارہےیااسے زمین میں گاڑھ دے کیسے برے فیصلے ہیں جووہ کرتے ہیں
اس آیت کی تفسیرمیں علامہ طبری لکھتےہیں،
’’وهذا صنيع مشركي العرب،أخبرهم الله تعالى ذكره بخبث صنيعهم فأما المؤمن فهو حقيق أن يرضى بما قسم الله له، وقضاء الله خير من قضاء المرء لنفسه‘‘
مشرکین مکہ کی یہ عادت تھی(لڑکیوں کی پیدائش کوعارسمجھنا)اللہ تعالی نے اُن کی اس بری عادت کاذکرکیا،اورمؤمن تواللہ کےتقسیم پرراضی ہوتاہے،انسان کےلیےاللہ کافیصلہ بہترہے اس کااپنے لیے خود فیصلہ کرنے سے
اس سےمعلوم ہواکہ مشرکین مکہ بھی اس قبیح رسم کاشکارتھے وہ بھی لڑکی کی پیدائش پرخوشی کے بجائے غم مناتے تھے ،آج کوہستانی معاشرے میں بھی وہی رسم موجود ہے ،کوہستان والے آج بھی لڑکی کی پیدائش پرغم مناتےہیں حالانکہ اسلام نے توبیٹی کورحمت قراردیاہے،بیٹیوں کی صحیح پرورش کرنے والوں کوجنت کی خوشخبری دی ہے،جس طرح بیٹے کی پیدائش پراسلام نےعقیقہ مسنون قرار دیاہے اسی طرح بیٹی کی پیدائش پربھی عقیقہ کرنے کو مسنون کہاہے ۔خودہمارےپیارے نبی محمدمصطفی ﷺ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھاسے کس قدرمحبت فرماتے تھے اس کااندازہ آپ ﷺ کے اس فرمان سے لگایاجاسکتاہے،آپﷺ نے حضرت فاطمہ کواپنے دل کاٹکڑاقراردیااور لڑکیوں کی پرورش پرآپ ﷺ نے جہنم سے حفاظت کی خوشخبری سنائی ہے ۔
لڑکیوں کی پرورش کی فضیلت:
’’عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من ابتلي بشيء من البنات فصبر عليهن كن له حجابا من النار‘‘
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں :جوشخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہواپھران کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پرصبرکرے،تویہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی
دوسری حدیث:
’’عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من عال جاريتين دخلت أنا وهو الجنة كهاتينوأشار بأصبعيه‘‘
’’حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا،جس نے دولڑکیوں کی کفالت کی تومیں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہونگےاور آپﷺ نے کیفیت بتانے کے لیےاپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا‘‘
خلاصہ بحث:
ان احادیث اور اس طرح کی اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ لڑکیوں کی پرورش کی بڑی فضیلت ہے،وہ بیٹیاں جن کوہم بوجھ سمجھتے ہیں ،جن کی پیدائش پرہم مغموم ہوجاتے ہیں ،جن کی پیدائش کی خبرسن کرہم غصے سے لال پیلے ہوجاتے ہیں ،جن کو ہم رحمت کے بجائے زحمت سمجھتے ہیں کل قیامت کے دن یہی بیٹیاں ہمارے لیے جہنم کے آگئے ڈھال بن جائیں گی،جب روز محشر جنت اورجہنم کافیصلہ ہوگااس وقت آپ ﷺ کی رفاقت اورساتھ ان لوگوں کو نصیب ہوگا جواپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں ،ان کے نان نفقے کاخیال رکھتے ہیں اور ان کواپنے اوپربوجھ نہیں سمجھتے ہیں ، اس لیے بیٹیوں کوبوجھ نہیں سمجھناچاہیے بلکہ ان کواپنے لیے اللہ کی رحمت اور نعمت سمجھ کران کوبخوشی قبول کرکے ان کی اچھی تربیت اور تعلیم کی طرف توجہ دیناچاہیے،کوہستانی معاشرے میں مروج یہ رسم وہی ہے جومشرکین مکہ میں تھی جس کواسلام نے ختم کیاہے اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس رسم کوچھوڑ دیں ۔
وٹہ سٹہ کی شرعی حیثیت
رسم نمبر3
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت:
وٹہ سٹہ کامطلب یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی دوسرے کواس شرط پردےکہ دوسراشخص بدلے میں اپنی بیٹی یابہن کارشتہ اس سے یااس کے بیٹے سے کرواےگا،اس میں ہرلڑکی کامہربھی مقرر کیاجاتاہے اس کوکوہستانی زبان میں’’ بَدْلِیْ ‘‘ اردومیں وٹہ سٹہ کہاجاتاہے۔کوہستان میں اس کی مختلف صورتیں مروج ہیں ،اگردونوں طرف کی لڑکیاں عمرمیں برابر ہوں تو دونوں میں بدلی کردی جاتی ہےلیکن اگر ایک طرف لڑکی بڑی ہواور دوسری طرف لڑکی چھوٹی ہوتو اس بڑی لڑکی کے عوض دولڑکیاں دی جاتی ہیں ،کبھی کبھی توتین تین لڑکیاں ایک کے بدلے میں دی جاتی ہیں ،کبھی ایسابھی ہوتاہے اگر ایک لڑکی بڑی ہواور دوسری طرف کی لڑکی چھوٹی ہوتو بدلے میں لاکھ دولاکھ روپے بھی دےجاتے ہیں ،ان تمام صورتوں میں معاملات طے کرتے وقت مہر کاذکرکہیں بھی نہیں ہوتا البتہ نکاح پڑھاتے وقت رسماًخانہ پری کے طور پر مہر کاذکرکیاجاتاہے ،نتیجے کے اعتبار سے بھی ان لڑکیوں کوایک دوسرے کے بدلے میں ہی تصورکیاجاتاہے یہی وجہ ہے اگر ایک لڑکی کوگھرمیں ڈانٹ پڑتی ہے تواس کے بدلے میں دوسر ی لڑکی کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیاجاتاہے،یہاں تک اگرایک کوطلاق ہوجائے تواس کے بدلے میں جولڑکی دی گئی ہے اسےبھی طلاق دی جاتی ہے ۔
وٹہ سٹہ کاشرعی حکم :
یہاں پرایک اہم سوال ہوتاہے کیانکاح شغار اور وٹہ سٹہ میں کوئی فرق ہے یادونوں ایک چیز ہیں ،اس سوال کوحل کرنے سے پہلے نکاح شغار کی وضاحت ضروری ہے ،
نکاح شغار
شغار کالغوی معنی ’’ خالی ،جس میں کوئی چیز نہ ہو‘‘ اور نکاح شغار کوشغار اسی لیے کہتے ہیں کہ اس میں جن لڑکیوں کانکاح کیاجاتاہے وہ مہرسے خالی ہوتی
ہیں
نکاح شغار کی اصطلاحی تعریف خود حدیث میں آئی ہے ۔’’ قال حدثني نافع عن عبد الله رضي الله عنه،أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن الشغار . قلت لنافع ما الشغار ؟ قال ينكح ابنة الرجل وينكحه ابنته بغير صداق وينكح أخت الرجل وينكحه أخته بغير صداق‘‘ ’’عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغارسے منع فرمایاہے ،میں نے نافع سے پوچھاشغارکیاہے ؟انہوں نے کہاکہ کوئی شخص بغیرمہرکسی کی بیٹی سے نکاح کرتاہے اوراپنی بیٹی سے اس کانکاح بغیرمہرکے کراتاہے ‘‘
دوسری حدیث
’’عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه و سلم نهى عن الشغار . والشغار أن يزوج الرجل ابنتہ علی ان یزوجہ الاخربنتہ لیس بینھماصداق‘‘
رسول اللہ ﷺ نے منع کیاہے شغار سے اور شغار ایک آدمی اپنی بیٹی کانکاح دوسر ے سے اس شرط پرکرائے کہ دوسر آدمی اپنی بیٹی کانکاح اس سے کرواے گا،اور ان دونوں کامہر نہ ہوگا
اس حدیث سے میں غوروفکرکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ نکاح شغارمیں دوچیزیں ہوتی ہیں ،
1۔۔۔۔ایک طرف سے لڑکی اس شرط پردی جاتی ہے کہ دوسری طرف سے بھی اسے لڑکی دی جائے،یعنی ایک کانکاح مشروط ہوتاہے دوسرے کے نکاح پر۔
2۔۔۔۔دوسری چیز یہ ہے کہ نکاح شغارمیں مہر مقررنہیں ہوتاہے ،مہرکے بغیرنکاح کیاجاتاہے ۔
کیانکاح شغار اور وٹہ سٹہ میں فرق ہے ؟
اگر ہم وٹہ سٹہ اور نکاح شغار کاموازنہ کریں تونکاح شغار کی جو تعریف حدیث میں آئی ہے اس کاپہلاحصہ ’’ والشغار أن يزوج الرجل ابنتہ علی ان یزوجہ الاخربنتہ‘‘ وٹہ سٹہ پرصادق آتاہے،کیونکہ جس طر ح نکاح شغارمیں یہ شرط رکھی جاتی ہے تم اپنی بیٹی کانکاح مجھ سے کرادو میں بھی اپنی بیٹی تمیں دوں گا یہی شرط وٹہ سٹہ میں بھی لگائی جاتی ہے ،حدیث کادوسراحصہ ہے‘‘لیس بینھماصداق‘‘حدیث کایہ حصہ وٹہ سٹہ پرصادق نہیں آتاکیونکہ وٹہ سٹہ میں رسماًمہرمقررکی جاتی ہے ،معلوم ہواکہ نکاح شغار کی تعریف کلی طور پروٹہ سٹہ پرصادق نہیں آتی ،اس لیے ہم حکماًاس کونکاح شغار نہیں کہ سکتے ہیں ،لیکن نتیجہ اور انجام کے اعتبار سے یہ شغارہی کی طرح ہے ، یہی وجہ ہے علامہ شامی نے لکھاہے کہ مہرمقررکرنے کے بعد بھی اس میں کراہت رہتی ہے ۔
علامہ شامی لکھتے ہیں :
’’ أنه إذا حمل النهي على معنى الفساد فكونه غير منهي الآن أي بعد إيجاب مهر المثل مسلم وإن حمل على معنى الكراهة فالنهي باق فافهم‘‘ ’’اگر نہی کو فساد کے معنی پرمحمول کیاجائے تومہرمثل لازم کرنے کے بعداب یہ (نکاح شغار) غیرمنہی عنہ ہوگااور اگر اس کوکراہت کے معنی پرمحمول کریں گے تو نہی اب باقی ہوگی،اس کوسمجھو‘‘
علامہ شامی اس عبارت میں کہتے ہیں کہ حدیث میں نکاح شغار کی جونہی آئی ہےاگر اس نہی سے فساد نکاح مراد ہوتومہرمثل مقررہونے کے بعد اب یہ نہی باقی نہیں رہی تونکاح درست ہوگا،لیکن اگر اس نہی کو کراہت کے معنی پرمحمول کریں تومہرمقرر کرنے کے بعدبھی کراہت باقی رہے گی،یعنی دولڑکیوں کاجب ایک دوسرے کے بدلے میں نکاح کیاجارہاہواگرچہ بعد میں ان کامہرمقررکربھی دیاجائے پھربھی اس نکاح میں کراہت باقی رہے گی ، علامہ شامی کی اس عبارت سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ کوہستان میں جووٹہ سٹہ کانکاح ہے اس میں اگرچہ مہر مقرر کیاجاتاہے مگر کراہت اب بھی باقی رہے گی۔جدیدفتاوی سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہےچنانچہ مفتی محمودؒ لکھتے ہیں۔
’’تبادلے کے نکاح سے احادیث میں ممانعت وارد ہوئی ہے ،اگرچہ ایسے نکاح ہوجاتے ہیں مگربسااوقات ان میں بڑے مفاسد مضمرہوتے ہیں۔لڑکیوں کے تبادلے والے نکاح سے احتراز کریں‘‘
مفتی مصباح الرحمن یوسفی لکھتے ہیں
’’ یہ رسم آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے ،دولڑکیوں کانکاح اس طرح ہوتاہے کہ کہ درحقیقت ایک دوسرے کے بدلے میں بیاہی جاتی ہیں ،بظاہررسمی طور پرحق مہرکاذکرہوتاہے ‘‘
خلا صہ بحث ونتائج
وٹہ سٹہ اگرچہ حکمانکاح کے شغار میں داخل نہیں ہے لیکن یہ کراہت سے خالی بھی نہیں ہے ،اس کے فوائدکم اورنقصانات زیادہ ہیں ۔
اس رسم کی کراہت کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں ۔
• عموماوٹہ سٹہ میں لڑکی کاخیال نہیں رکھاجاتا،مرد اپنامقصد حل ہوتادیکھ کرلڑکی دے دیتے ہیں وہ لڑکی ساری عمرمشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔
• وٹہ سٹہ میں اگرایک لڑکی کے نشوز کی وجہ سے اسے طلاق مل جائے تواس کے بدلے میں جولڑکی دی گئی ہے اسے بھی طلاق دی جاتی ہے جس سے ایک ہنستابستاگھر اجڑجاتاہے
• اگرایک لڑکی کواس کے کرتوت کی وجہ سے ڈانٹ پڑجائے توردعمل کے طورپر دوسری لڑکی جو بے قصور ہوتی ہے اسےبھی ڈانٹ پڑتی ہے ،جس کی وجہ سے گھرمیں ناچاقی اور چپقلش کی سی فضابن جاتی ہے ۔
• لوگوں کے طرزعمل سے معلوم ہوتاہے کہ لوگ اس کوبیع ہی سمجھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ایک لڑکی کے عوض دد،تین لڑکیاں دی جاتی ہیں،اگر بدلے میں لڑکی نہ دے توکہاجاتاہے اس نے فی سبیل اللہ لڑکی دی ہے کچھ بھی نہیں لیا، اس سے معلوم ہوتاہے کہ لوگ اس کو بیع اور نکاح بالعوض ہی سمجھتےہیں ،
لہذہ بہتریہ ہے کہ وٹہ سٹہ سے بچاجائے۔
بالغ لڑکیوں کاان کے رضامندی کے بغیرشادی کرنا
رسم نمبر4
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت :
کوہستانی معاشرے میں نکاح کے معاملے میں لڑکی کی رائے اور اجازت کی بالکل اہمیت نہیں ہے باپ ،دادا،بھائی اور چاچااپنی مرضی سے جہاں چاہےرشتہ طے کردیتےہیں ،اگر لڑکی کویہ رشتہ پسندنہ ہوتب بھی وہ کچھ کہ نہیں سکتی ہے ،اس کے منہ پررسومات اور خود ساختہ شرم وحیاکے تالے لگے ہوتے ہیں ،خبرملتے ہی وہ چیختی چلاتی ہے مگر باپ اور بھائیوں کی عزت کاخیال اور برادری کے طعنوں کے ڈرسے وہ خاموش رہتی ہے ،مَن ہی مَن میں اس کادم گھٹ رہاہوتاہے،کوہستانی معاشرے میں باپ ،دادااور بھائی کافیصلہ آخری سمجھاجاتاہے وہ جہاں چاہیں جس کوچاہیں رشتہ دے سکتے ہیں،عموماًباپ اپنی بیٹی کے بدلے اپنے بیٹے یابھائی کے لئےرشتہ ڈھونتاس لیے جب دوسری طر ف سے لڑکی اچھی مل رہی ہواورانکامقصد حل ہورہاہوتو اپنی بیٹی کے مستقبل کاخیال رکھے بغیربے سوچ اور فکروہ رشتہ کردیتے ہیں ۔
اسی طرح کوہستانی معاشرے میں لڑکی خود اپنے لیے رشتہ پسندنہیں کرسکتی اور نہ ہی اس بارے میں اپنی رائے بیان کرسکتی ہے ۔
نکاح ایک مقدس رشتہ :
نکاح ایک مقدس رشتہ ہے ،اس کے ذریعے دوجسم ایک جان بن جاتے ہیں،میاں بیوی کارشتہ ایک منٹ ،گھنٹہ یامہینے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں نے ساری زندگی ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے ،یہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں ،ایک خوشگوار اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ نکاح کرتے ہوئے باہمی مشاورت سے نکاح کیاجائے،اگرلڑکی بالغ ہے توشادی سے پہلےان کی مرضی اور رائے معلوم کی جائے ،اسی طرح لڑکے والوں کوبھی لڑکے سےمشورہ کرکے رشتہ طے کرناچاہیے ،اکثرہوتایہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے سے پوچھے بنا رشتہ طے کیاجاتاہےاور شادی کے بعدپتہ چلتاہے کہ ان دونوں کے مزاج میں فرق ہے اور دونوں میں زہنی ہم آہنگی نہیں ہے ،نکاح کے بعد لڑکی کی ساری زندگی یوں ہی دکھوں میں گزرجاتی ہے یابات طلاق تک پہنچ جاتی ہے جس سے دونوں خاندانوں میں نفرت اور عداوت کانہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوجاتاہے،اسی لیے شریعت اسلامی نے بالغ لڑکی کواختیاردیاہے کہ وہ اپنے لیے خود جیون کاانتخاب کرے۔
یہاں پرمندجہ ذیل سوالات حل طلب ہیں۔
• کیاعاقل بالغ لڑکی کانکاح اس کی رضامندی کے بغیرکرناجائزہے؟
• اگرعاقل بالغ لڑکی خود اپنانکاح کرتی ہے تواس کاکیاہوانکاح منعقد ہوگایانہیں ؟
ان دوسوالات کے جوابات سے پہلے ولایت کی مختصر بحث بیان کی جاتی ہے تاکہ بات کاسمجھناآسان ہوسکے۔
۔نوٹ۔ولایت کی تفصیلی بحث کتب فقہ میں موجود ہے اس لیے یہاں تفصیل بیان کرناتحصیل حاصل ہوگا،یہاں صرف احناف کےنقطہ نظرکی روشنی میں ولایت کی مختصربحث بیان کی جائےگی ۔
ولایت کی لغوی واصطلاحی تشریح
ولایت کی لغوی واصطلاحی تحقیق:
ولایت مصدرکاصیغہ ہےاس کالغوی معنی والی ہونا،متصرف ہونا،مددکرنا ہے۔
اصطلاح میں ولایت کہتےہیں ’’تنفیذالقول علی الغیر‘‘ ’’کسی دوسرے پراپنی بات نافذکرنا‘‘
ولایت کی قسمیں :
ولایت کی ابتداًدوقسمیں ہیں ،ولایت فی النفس ۔ولایت فی المال ۔نفس پرولایت سے مراد ولایت نکاح ہے ،ولایت نکاح کے دودرجے ہیں ۔ولایت اجبار اور ولایت ندب
ولایت اجبار :
ولایت اجبار سے مراد ایسااختیار جودوسرے کی اجازت پرموقوف نہ ہو۔ولایت اجبارباپ اورداداکو نابالغ اور مجنون پرحاصل ہوتاہے ۔
ولایت ندب:
ولایت ندب سے مراد ایسی ولایت جودوسرے کی رضامندی پرموقوف ہو،یہ ولایت ولی کواپنے عاقل بالغ بچوں پرحاصل ہوتی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے ولی کونابالغ پرولایت اجبار حاصل ہے وہ لڑکی کی اجازت کے بغیراس کانکاح کراسکتا ہیں ،لیکن اگر لڑکی بالغ ہوتو پھرولی کوولایت اجبار حاصل نہ ہوگا بلکہ ولایت ندب حاصل ہوگا ،اب ان کاکیاہوانکاح لڑکی کی اجازت پرموقوف ہوگا۔اس تفصیل کے بعد اب سوال کےجواب کی طرف آتے ہیں ۔
کیالڑکی اپنانکاح خود کرسکتی ہے؟
احناف کے نزیک عاقلہ بالغہ لڑکی اپنانکاح خود کرسکتی ہے ،عاقلہ بالغہ لڑکی کاکیاہوانکاح نافذ ہوجائےگا،لیکن شرط یہ ہے کہ یہ نکاح کُف میں کیاہو ،اگر لڑکی نے نکاح غیرکُف میں کیاتو کیانکاح منعقد ہوگایانہیں اس میں امام صاحب ؒسے دوآرامنقول ہیں ۔ایک قول یہ ہے کہ نکاح منعقد ہوجائےگامگراولیاء کوفسخ نکاح کااختیار حاصل ہوگاوہ قاضی کی عدالت میں جاکرنکاح فسخ کرواسکتے ہیں، ا مام صاحب کی دوسری روایت امام حسن ؒسے منقول ہے کہ غیرکُف میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔
درالمختارمیں ہے:’’وَلَهُأَيْ لِلْوَلِيِّ الِاعْتِرَاضُ فِي غَيْرِ الْكُفْءِفَيَفْسَخُهُ الْقَاضِي وَيُفْتَى فِي غَيْرِ الْكُفْءِ،بِعَدَمِ جَوَازِهِ أَصْلًا وَهُوَ الْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى لِفَسَادِ الزَّمَانِ‘‘
ولی کوغیرکف میں اعتراض کاحق حاصل ہے ،پس قاضی نکاح فسخ کردے۔اور فساد زمانہ کی وجہ سے غیرکفو میں نکاح کے عدم جواز کافتوی ٰ دیاجائے گا۔یہی مختار اور راجح ہے فتوی کے لیے
اس عبارت کے نیچے علامہ شامی نے شمس الائمہ کاقول نقل کیاہے۔’’قال شمس الائمہھذااقرب الی الاحتیاط‘‘شمس الائمہ فرماتے ہیں یہ رائے (عدم انعقاد )زیادہ قریب ہے احتیاط کے ۔
ابن نجیم ؒ نے بھی بحرالرائق میں اسی رائے کوترجیح دی ہے۔’’والمختارللفتوی فی زمانناروایۃ الحسن‘‘
ان عبارت سےمفتی بہ قول یہ معلوم ہوتاہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیرغیرکف میں نکاح کرے تومنعقد ہی نہیں ہوگا،اگرعاقلہ بالغہ لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیرکُف میں نکاح کرتی ہے تواحناف کے نزدیک منعقدہوجائےگالیکن ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ولی کی اجازت کے بغیرعورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا،ائمہ ثلاثہ کے دلائل فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں اس لیے ان کویہاں نہیں دہرایاجائےگا،چونکہ کوہستان میں سارے لوگ فقہ حنفی کے ہی پیروکارہیں اس لیے صرف فقہ حنفی کی روشنی میں اس مسئلے کے دلائل اور وضاحت کی جائےگی۔
احناف کے دلائل:
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ‘‘
’’پھراگرشوہر(تیسری)طلاق دیدےتووہ (مطلقہ عورت)اس کے لئےاس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہرسے نکاح نہ کرے ،ہاں اگر وہ (دوسراشوہربھی)اسے طلاق دےدے توان دونوں پرکوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیانکاح کرکے)دوبارہ واپس آجائیں،بشرطیکہ انہیں یہ غالب گمان ہوکہ اب وہ اللہ کے حددودقائم رکھیں گےاور یہ سب اللہ کے حدود ہیں جووہ ان لوگوں کے لیے واضح کررہاہے جوسمجھ رکھتے ہوں‘‘
اس آیت میں ’’تنکح ‘‘مؤنث کاصیغہ استعمال ہواہے اس میں نکاح کی اضافت عورت کی طرف ہوئی ہے یہ وہ عورت نکاح کرے تومعلوم ہواکہ عورت خود اپنانکاح کرسکتی ہے ۔
دوسری دلیل:
عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:الأيم أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأذن في نفسها، وإذنها صماتها‘‘
’’ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ،آپﷺ نے فرمایا،ثیبہ عورت اپنے آپ پراپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے‘‘
اس حدیث میں کہاگیاکہ ثیبہ عورت اپنے نفس اور نکاح کی زیادہ حقدار ہے ولی سے ،اس سے معلوم ہواکہ عورت خود اپنانکاح کرسکتی ہے ۔
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں ۔
’’وینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ برضاھاوان لم یعقدعلیھاولی ‘‘
آذاد عاقلہ لڑکی کانکاح منعقد ہوجائے گااس کی رضامندی سے اگر چہ ولی عقد قبول نہ کرے۔
بحرالرئق میں ہے :
’’نفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلاولیلأنھاتصرفت فی خالص حقھاوھی من اھلہ لکونھاعاقلۃ بالغۃ‘‘
آذاد مکلف عورت کانکاح ولی کے بغیرمنعقد ہوجائے گا،اس لیے کہ اس نے اپنے حق میں تصرف کیاہے اور وہ عاقل ،بالغ ہونے کی وجہ سے اس تصرف کی اہل بھی ہے ۔
درالمختارمیں ہے :’’فنفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلارضاولی ‘‘
آذاد اور مکلف عورت کانکاح بغیرولی کی رضامندی کے نافذ ہوجائے گا۔
ان عبارات سے معلوم ہواکہ بالغ عاقل لڑکی خود اپنانکاح کرسکتی ہے اگرچہ ولی اس پرراضی نہ ہوشریعت نے ان کویہ حق دیاہےلیکن ہمارے کوہستانی معاشرے میں لڑکی اگرخود سے شادی کرتی ہے یااپنے لیے کوئی لڑکاپسندکرتی ہے ،اسے مجرم اور چور کہ کرقتل کردیاجاتاہے۔
کیاعاقل ،بالغ لڑکی کی اجازت کے بغیرولی نکاح کراسکتاہے :
ولی کے لیے یہ جائزنہیں ہے کہ عاقلہ بالغہ کانکاح اس کی اجازت کےبغیرخود کردے،اگرولی نے ایساکیاتو لڑکی کواختیارحاصل ہے کہ اس نکاح کوفسخ کردے ،آپ ﷺ کے دور میں ایک واقعہ پیش آیاتھاجس میں لڑکی کوفسخ کااختیاردیاتھا۔
’’عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: ” إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ، لِيَرْفَعَ بِي خَسِيسَتَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ: قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ إِلَى الْآبَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ ‘‘
ایک نوجوان عورت نبی ﷺ کے پاس آئی عرض کیا:میرے والد نے میرانکاح اپنے بھتیجے سے کردیاہے ،تاکہ میری وجہ سے اس کی ذلت ختم ہوجائے،نبی کریم ﷺ نے اس لڑکی کواختیاردے دیاتواس نے کہا:میرے والد نے جوکیامیں نے اسے مان لیالیکن میرامقصد یہ تھاکہ عورتوں کویہ معلوم ہوجائے کہ ان کے باپوں کوان پر (جبراً نکاح کردینے) کااختیار نہیں پہنچتاہے۔
اس حدیث سے ہوتاہے کہ والدجوکہ بیٹی کاسب سے قریبی ولی ہے اس کوبھی اختیارنہیں ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیرکہیں اس کانکاح کرادے ،کیونکہ یہ عورت آپ ﷺ کے پاس شکایت لیکرگئی اور آپﷺ نے اس کواختیار دیاکہ نکاح رد کرسکتی ہے ،اورپھراس عورت کی یہ بات کہ میں صرف یہ بات ثابت کرناچاہتی تھی کہ والدین کویہ اختیارنہیں کہ وہ جبراًان کانکاح کہیں کردے اور آپ ﷺ کایہ بات سننے کے بعد خاموش رہناگویااس عورت کی بات کی تصدیق ہے ،کوہستان والوں کواس حدیث میں غور وفکرکرناچاہیے ،آپ ﷺ کی ان تعلیمات پرعمل کرناچاہیے ،مفتی کفایت اللہ صاحب نے بھی یہی بات لکھی ہے :
کسی عاقلہ بالغہ کانکاح اس کی اجازت کے بغیرجائزنہیں ہے،اگراس کی اجازت کے بغیراس کانکاح باپ نے کسی جگہ کردیاتونکاح اس کی اجازت پرموقوف رہے گا۔
خلاصہ بحث ونتائج:
اس ساری بحث سے دوباتیں معلوم ہوتی ہیں ،ایک یہ کہ کہ ولی کوعاقلہ بالغہ پرولایت ندب حاصل ہے ولایت اجبارنہیں ،اس لیے لڑکی کی اجازت کے بغیراس کاکیاہوانکاح لڑکی کی اجازت پرموقوف ہوگا،دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عاقل بالغ لڑکی خود اپنانکاح کرسکتی ہے اور یہ نکاح ولی کی اجازت اور رضاپرموقوف نہیں ہے ،لیکن بہتریہ ہے کہ نکاح باہم مشورے سے ہو،لڑکی کوچاہیے کہ وہ اولیاء کے تجربے اور رائے کاخیال رکھے اور اولیاء کوچاہیے کہ وہ اپنافیصلہ مسلط کرنے کے بجائے لڑکی سے صلاح اور مشورہ کرکے اس کی رضامندی معلوم کرے ،جب باہم مشورہ سے رشتے طے ہوں گے تووہ دیرپااور اچھے ہونگے ،ہمارے کوہستانی معاشرے میں زیادتی اور ناانصافی والدین کی طرف سے ہوتی ہے وہ بچی سے بلکل مشورہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی رائے معلوم کرتےہیں ،یہ طریقہ نہ صر ف اسلام کے بنیادی قوانین کے خلاف ہے بلکہ انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے ،اس لیے ہمیں اپنے رویوں اور طریقوں میں غور کرناچاہیے اور روایتی جدراہٹ اور غیرت کے گردن کوشریعت محمدی ﷺکے سامنے جھکادیناچاہیے ۔
مہرسے متعلق رسومات
رسم نمبر5
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورتیں :
کوہستانی معاشرے میں مہرکےمتعلق دوطرح کے طرز عمل پائے جاتے ہیں ،ایک یہ کہ والدین اور اولیاء مہرکے نام پرلڑکے والوں سے پیسے وصول کرتے ہیں جس کوکوہستانی زبان میں ’’ژَپْ‘‘کہاجاتاہے ،یہ رقم لاکھوں میں ہوتی ہے اس رقم کو لڑکی کے اولیاء اپنی ملکیت اورحق سمجھ کرخودہی ہڈپ کرجاتے ہیں،اس رقم میں سے لڑکی کوکچھ نہیں دیتے البتہ بعض لوگ ان پیسوں میں سے کچھ رقم سے لڑکی کے لیے جہیز کاسامان خریدتے ہیں،لڑکی کی رخصتی اس وقت تک نہیں کی جاتی جب تک لڑکے والے یہ رقم اد نہیں کرتے ۔مہرسے متعلق کوہستان میں دوسراطرزعمل یہ ہے کہ شوہرکے زمہجومہرلازم ہوتی ہےعموماً شوہر اس کواد انہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اس کواداکرنالازم سمجھتے ہیں ۔میں نے خود کئی بڑی عمرکے لوگوں سے مہرکے اداکرنے کے متعلق پوچھا انہوں نے اس بات کااظہارکیاکہ ہم نے ابھی تک مہرادانہیں کی اور نہ ہی اداکرنے کے بارے میں سوچاہے۔
مہرلازم کرنے کامقصد:
اسلام نے میاں بیوی کےرشتے کوباعزت رشتہ قرار دیاہے اور یہ رشتہ نکاح کے ذریعے منعقد ہوجاتاہے،نکاح ہوجانے کے بعد ایک عورت اپناسب کچھ چھوڑ چھاڑکرنیےگھرمیں نیے لوگوں میں جابستی ہے ،وہ شوہرکے لیے اپنی ماں ،باپ اور بہن بھائی سب کوالوداع کہتی ہے،اسی لیے شریعت نے اس کی دلجوئی کے لیے شوہرپرمہرمقررکیاہے اور یہ حکم دیاہےجب بیوی شوہرکے گھرآجائے توشوہر بطورتحفہ اس کومہراداکرے جس سے اس کےدل کابوج ہلکاہوجائے گا،اسی طر ح مہرکاایک مقصد یہ ہے کہ شوہربیوی کومفت کامال نہ سمجھے کہ جب چاہیے رکھے اور جب چاہیے چھوڑدے ،جب شوہر عورت کے بدلے مہر کی صورت میں خطیررقم اد اکرےگاتواس کوہلکانہیں سمجھے گاجب اس کےذہن میں یہ بات ہوگی کہ یہ مفت نہیں ملی بلکہ اس کے بدلے میں اس نے رقم ادا کی ہےتواس کوطلاق دینے سے بھی باز رہے گااور اس کے دل میں اس رشتے کی قدربھی ہوگی کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے وہ مفت کی چیز کی قدرنہیں کرتاہے۔
مہرکاوجوب قرآن سے :
سورۃ النساءمیں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔’’وآتوا النساء صدقاتهن نحلة فإن طبن لكم عن شيء منه نفسا فكلوه هنيئا مريئا‘‘
’’اور عورتوں کواُن کے مہرخوشی سے دیاکروہاں اگروہ خود اس کاکچھ حصہ خوش دلی سے چھوڑدیں تواسے خوشگواری اور مزے سے کھاو‘‘
علامہ قرطبیؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:’’ هذه الآية تدل على وجوب الصداق للمرأة،وهو مجمع عليه‘‘ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ عورت کامہرواجب ہے اور اس مسئلہ پراجماع اور اتفاق ہے۔
اس آیت سے معلوم ہواکہ مہرخاوندپرلازم ہے ، اس کااداکرناخاوندپرقرض کی طرح واجب ہے ،یہاں تک کہ فقہانے لکھاہے اگر خاوندفوت ہوجائے اور اس نے مہراد نہیں کی تھی تو خاوند کے ترکہ سے مہراد اکی جائے گی ،اگر خاوند اور بیوی دونوں اس حال میں فوت ہوجائیں کہ شوہر نے مہراد انہیں کی تھی تولڑکی کے ورثامطالبہ کریں گے کہ ترکہ میں سے مہراد اکیاجائے،چنانچہ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں
’’ وإذا مات الزوجان وقد سمى لها مهرا فلورثتها أن يأخذوا ذلك من ميراث الزوج‘‘
اگر میاں بیوی دونوں فوت ہوگئے اور ان کے لیےمہرمقرر تھاتوورثاکویہ حق حاصل ہے کہ شوہرکی میراث سے یہ مہروصول کریں۔صاحب ہدایہ نے دوسری جگہ لکھاہے ’’ المهر واجب شرعا‘‘کہ مہرشرعاًواجب ہے ،
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب مہرکے وجوب کے بارےمیں لکھتے ہیں :بیوی کامہر اس طرح واجب جیسے کہ دین ۔
مولانایوسف لدھانوی لکھتے ہیں : عورتوں کامہرشوہرکے ذمے قرض ہے بس اگر شوہرکوئی چیز چھوڑکرمرے اس سے یہ قر ض اداکیاجائے گا۔
خلاصہ بحث اورنتائج
مذکورہ بالہ قرآن کی آیت اور فقہاکی ان عبارتوں سے معلوم ہواکہ مہرخاوند پرواجب ہے ،مہر اس طرح لازم ہے جس طرح قرض لازم ہوتاہے اس لیے اس کااداکرناخاوندپرضروری ہے ،ہمارے کوہستانی معاشرے میں شوہرمہرادانہیں کرتے ہیں ،ان کے ہاں مہرکی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ،حالانکہ جس طرح قرض اداکرنالازم ہے اسی طرح مہرکااداکرنابھی لازم ہے ،اس لیے علماء کی زمداری بنتی ہے کہ لوگوں کواس سے آگاہ کریں ،مہرکی اہمیت اور وجوب کاحکم لوگوں کے سامنے بیان کریں ۔
ژپ یعنی مہرسے زیادہ رقم لینے کاحکم :
کوہستانی معاشرے میں ایک رسم جودن بدن بڑھتی جاری ہے کہ لوگ مہرسےہٹ کرزائد پیسے لڑکے والوں پرمقررکرتے ہیں جس کوکوہستانی معاشرے میں’’ژپ‘‘ کہاجاتاہےجوعموماً لاکھوں میں ہوتی ہے،یہ رقم لڑکی کاباپ ،بھائی یاچچاخود کھاتےہیں،اس میں لڑکی کوکچھ بھی نہیں دیاجاتاہے۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ:
اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بھی یہی رواج عام تھا ، لڑکی کے اولیاء مہرکے نام سے رقم وصول کرکے خود کھاتے تھےسورۃ النساء میں اللہ رب العزت نے اس رسم کی رد میں فرمایاہے :’’’’فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ‘‘
چنانچہ جن عورتوں سے (نکاح کرکے) تم نے لطف اٹھایاہوان کوان کاوہ مہراداکروجومقررکیاگیاہو۔
اس آیت کے شان نزول میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
’’وقيل: الخطاب للأولياء، قاله أبو صالح. وكان الولي يأخذ مهر المرأة ولا يعطيها شيئا، فنهوا عن ذلك وأمروا أن يدفعوا ذلك إليهن ‘‘ ’’اور کہاگیاہے کہ یہ خطاب اولیاء کوہے ،ابوصالح کہتے ہیں کہ ولی عورت کامہرلے لیتاتھےاور اس کوکچھ بھی نہیں دیتے،ایساکرنے سے ان کومنع کیاگیااور ان کویہ حکم دیاگیاکہ یہ مہران کودے دو‘‘
فقہانے لکھاہے کہ کہ لڑکی والوں کالڑکے والوں سےمہرسے زائد رقم وصول کرنا رشوت میں آتاہے اس لیے یہ رقم لیناحرام ہے ،علامہ شامی ؒ لکھتے ہیں:
’’ ومن السحت ما يأخذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه حتى لو كان بطلبه يرجع الختن به‘‘
یہ بات رشوت میں شامل ہے کہ لڑکی والے اپنی بیٹی کی وجہ سے لڑکے والوں سے رقم لیں اگرچہ لڑکے والےخوشی اور طیب نفس سےوہ رقم اداکریں ،اگر اس کامطالبہ کرکے لیاہوتولڑکے والے واپسی کامطالبہ کرسکتےہیں ۔
دوسری جگہ لکھاہے :’’اخذاھل المرأۃ شیأ عندالتسلیم فلزوج ان یستردہ لانہ رشوۃ ‘‘
رخصتی کے وقت لڑکی والوں کا پیسے لینارشوت ہے پس خاوند کے لیے جائزہے کہ اس کوواپس طلب کرے کیونکہ یہ رشوت ہے۔
فتاوی حقانیہ میں لکھاہے :
شادی سے پہلے لڑکی کے والدین یادوسرے اولیاءکے لیے حق مہرکے علاوہ لڑکے سے نقدی یاجنس کی شکل میں کچھ لیناحرام اور ناجائزہے ۔
اس رسم کے متعلق مولانایوسف لدھیانویؒ ایک سوال کےجواب میں لکھتے ہیں:
آپ کے قبیلے کی جورسم لکھی ہے کہ چالیس ہزارسے لیکرایک لاکھ روپے تک رقم وصول کرتے ہیں یہ مہرنہیں بلکہ نہایت قبیح جاہلانہ رسم ہے اور اس کی نوعیت پردہ فروشی کی ہے ۔
خلاصہ بحث ونتائج:
اس ساری بحث سے معلوم ہواکہ کوہستان میں موجود یہ رسم ایک ظالمانہ اور جاہلانہ رسم ہے ،اپنی بیٹی اور بہن کے عوض پیسے کھانا ان کونیلام کرنے کے مترادف ہے ،اس کوپردہ فروشی کہیں تو بے جانہ ہوگا،لڑکیوں کے عوض وصول کی جانے والی اس رقم کوعلامہ شامی نے رشوت کہاہے اور رشوت کے گناہ اور سزاکااندازہ اس حدیث سے لگایاجاسکتاہے’’ الراشی والمرتشی کلاھمافی النار‘‘کہ رشوت دینے والااور رشوت لینے والادونوں آگ میں ہونگے ،
کوہستان میں موجود علماء کی یہ زمداری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کواس رسم کی قباحت سے آگاہ کریں ،لوگوں کوسمجھائیں تاکہ پردہ فروشی کی یہ رسم ختم ہوسکے۔
تعلیم نسواں:
کوہستان میں تعلیم نسواں کی عملی صورت حال:
کوہستانی معاشرے میں بچیوں کوتعلیم دینے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے ،عصری تعلیم تودرکنارقاعدہ ، قرآن مجید اور اسلام کے بنیادی تصوارات سے ہی عورتیں ناواقف ہوتی ہیں،خود ہماری کئی قریبی رشتہ دار عورتوں کودیکھاجن کوقرآن مجید ناظرہپڑھنا نہیں آتاہے،کوہستانی معاشرے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ لڑکیوں کولکھناپڑھنانہیں سکھاناچاہیے کیونکہ اس سے ان میں بگاڑپیداہوگااور یہ تعلیم بےحیائی اورفحاشی کاسبب ہے اس لیے لڑکیوں کولکھنے کی تعلیم دیناجائز نہیں ہے ۔
اب یہاں بنیادی سوال ہوتاہے ،
کیا لڑکیوں کوتعلیم دیناجائزہےنہیں ہے؟
لڑکیوں کوکتابت کی تعلیم دیناجائز ہے یانہیں ؟
کیالڑکیوں کے لیے عصری تعلیم حاصل کرناجائزہے؟
لڑکیوں کوتعلیم دینے کاحکم
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید کی تعلیم اور روزمرہ کےپیش آمدہ مسائل کی تعلیم دیناماں باپ پرلازم ہے اوریہ لڑکی کابنیادی حق ہے، اتناعلم سیکھاناکہ کہ وہ حلال حرام کوجان سکیں ، اسلام کےمبادیات کا علم لڑکیوں کے لیے ضروری ہے ،لیکن کیالڑکیوں کوعصری تعلیم دینایاان کوکتابت کی تعلیم دیناجائزہے یانہیں یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو حل طلب ہیں ۔
لڑکیوں کوکتابت کی تعلیم دینے کاحکم:
لڑکیوں کوکتابت کی تعلیم دیناجائزہےیانہیں اس بارے میں دوآراء پائی جاتی ہیں بعض حضرات کہتے ہیں کہ لڑکیوں کوکتابت سیکھاناجائز نہیں ہے ،جبکہ جمہور کہتے ہیں لڑکیوں کے لیے کتابت کی تعلیم جائزہے ،جوحضرات عدم جواز کے قائل ہیں ان کی بنیادی دلیل حدیث مبارکہ ہے:
’’ عن عبد الله بن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تسكنوا نساءكم الغرف، ولا تعلموهن الكتابة‘‘ ’’ابن مسعودؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایااپنی عورتوں کوبالاخانوں میں مت بیٹھاواور نہ ہی ان کوکتابت سیکھاو‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کوکتابت کی تعلیم دیناجائزنہیں ہے ،لیکن یہ حدیث موضوعی اور منگھڑت ہے،مولاناگوہررحمن ؒ نے اس حدیث کی تخریج اور توضیح میں لکھاہے :
’’یہ حدیث مستدرک حاکم بھی میں نقل کیاہے مگراس کوشمس الدین ذھبی نے موضوعی اورمن گھڑت کہاہے،یہ حدیث صحیح ابن حبان میں بھی نقل ہوئی ہے لیکن اس کی سند میں محمدبن ابراہیم شامی آیاہے جوواضعین حدیث میں سے ہے ‘‘
اس سے معلوم ہواکہ حدیث موضوعی ہے اس سے استدلال کرنادرست نہیں ہے۔
مجوزین کے دلائل
پہلی دلیل۔
اللہ رب لعزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں ’’الَّذِى عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ‘‘ ’’جس نے قلم سے تعلیم دی‘‘اس آیت کی تفسیرمیں محمدعلی الصابونی لکھتے ہیں :’’ أي الذي علَّم الخطَّ والكتابة بالقلم‘‘ ۔یعنی اللہ وہ ذات ہے جس نے قلم کے ذریعےخط وکتابت کی تعلیم دی۔اس آیت سے پہلے اللہ رب العزت نے فرمایاکہ میں نے انسان کووہ کچھ سیکھایاجس کااسے علم نہ تھا،اس کے بعد ذریعہ علم کاذکرکیاکہ قلم کے ذریعے سے یہ تعلیم دی ،قلم کے ذریعے تعلیم کامطلب یہ ہے کہ انسان کوخط اور کتابت سیکھایا،اب انسان میں مرد اور عورت دونوں داخل ہیں ،یہ کیسے ہوسکتاہے کہ قلم اور کتابت جواللہ کی بہت بڑی نعمت ہے وہ صرف مردوں کے لیے جائزہواور عورت کے لیے جائزنہ ہو۔چنانچہ علامہ طبری نے ا س آیت کی تشریح میں لکھاہے ۔’وَقِيْلَ معناهُ الذي علَّمَ الناسَ علمَ الكتابةَ بالقلمِوهو نعمةٌ عظيمة ولولاَ القلمُ لضاعتِ الحقوقُ ودُرسَت العلومُ واختلَّتْ أمُورُالمعايشِ‘‘
اورکہاگیاہے اللہ وہ ذات ہے جس نے لوگوں کوکتابت کی تعلیم دی اور یہ ایک بڑی نعمت ہے اگر قلم نہ ہوتاتوحقوق ضائع ہوجاتے اور علوم کی تدریس اور امور معایش میں خلل آجاتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ قلم وکتابت ایک بڑی نعمت اور علوم کامحافظ ہے لہذااس سے جس طرح مرد استفادہ کرسکتے ہیں اسی طرح عورت بھی استفادہ کرسکتی ہے۔
دوسری دلیل
’’عَنِ الشِّفَاءِ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ دَخَلَ عَلَىَّ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلموَأَنَا عِنْدَ حَفْصَةَ فَقَالَ لِىأَلاَ تُعَلِّمِينَ هَذِهِ رُقْيَةَ النَّمْلَةِ كَمَا عَلَّمْتِيهَا الْكِتَابَةَ‘‘
شفاء بنت عبداللہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں میں ام المؤمنین حفصہ ؓ کے پا س تھی ،توآپ ﷺ نے مجھ سے فرمایانملہ کادم اس کوکیوں نہیں لکھادیتی جیسے تم نے اس کولکھناسکھایاہے‘‘اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت حفصہؓ کتابت کافن شفاء بنت عبداللہ سے سیکھ چکی تھی اور آپ ﷺ کے علم میں بھی یہ بات تھی پھربھی آپ ﷺ نے اس پرجرح نہیں کی ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کے لیے کتابت کافن سیکھاناجائزہے ،ملاعلی قاری ؒ نے اس حدیث کی تشریح میں خطابی کاقول نقل کیاہے ’’ قال الخطابي: فيه دليل على أن تعلم النساء الكتابة غير مكروه‘‘ ۔
مولانایوسف لدھیانوی نے آپ کے مسائل اور ان کے حل میں سہانیوری ؒ کی یہ عبارت نقل کی ہے’’فیہ دلیل علی جوازالتعلیم النساءالکتابۃ واماحدیث لاتعلموھن الکتابۃ محمول علی من یخشی فی تعلیمھاالفساد‘‘اس حدیث میں عورتوں کوکتابت کی تعلیم کے جواز کی دلیل ہے اور وہ حدیث جس میں عورتوں کوکتابت سیکھانے سے منع کیاہے وہ محمول ہے ان عورتوں پرجن میں تعلیم کتابت کے ذریعے فساد آنے کاخطرہ ہو‘‘
مفتی کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں:
لڑکیوں کوکتابت کی تعلیم دینے کے بارے میں فقہاکااختلاف ہے بعض فقہاسداًلذرائع منع کرتے ہیں لیکن صحیح یہ ہے کہ جائزہے ۔
ان عباارت سے معلوم ہواکہ عورتوں کوکتابت کی تعلیم دیناجائز ہے ،اب یہاں سوال رہ جاتاہے کہ کیالڑکیوں کوعصری تعلیم دیناجائزہے یانہیں ؟
لڑکیوں کے لیے عصری تعلیم کاحکم :
لڑکیوں کےلیے عصری تعلیم حاصل کرناجائزہے یانہیں اس میں بھی معاصرفقہاکی دوآراء پائی جاتی ہیں ۔بعض حضرات عدم جواز کے قائل ہیں مفتی رشیداحمدلدھیای ؒ کی یہی رائے ہے ،اکثرحضرات کے ہاں عصری تعلیم جائزہے مگراس کے لیے شرائط ہیں ۔
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں پربھی تعلیم کادروازہ کھلارکھاہے ،اس لیے ایسے عصری علوم جونافع ہوں ،اگرشرعی حدود کی رعایت کے ساتھ مسلمان لڑکیاں حاصل کریں توکچھ حرج نہیں ہے،خاص کرمیڈیکل کی تعلیم تولڑکیوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب کی بھی یہی رائے ہےوہ لکھتے ہیں :
جہاں تک خواتین کے طبی تعلیم حاصل حاصل کرنے کاتعلق ہے وہ شرعانہ صرف جائزہے بلکہ فرض کفایہ ہے ۔
مولانایوسف لدھیانوی ؒ لکھتے ہیں:
اگرخواتین ان علوم کوباپردہ حاصل کریں توکوئی حرج نہیں ہے ،تعلیم کے دوران یاملازمت کے دوران نامحرم سے اختلاط نہ ہو۔
فقہاکی ان عبارات سے معلوم ہوتاہے کہ لڑکیوں کے لیے عصری تعلیم حاصل کرناجائزہے،مگر اس کے لیے کچھ شرائط ہیں جوکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
• دوران تعلیم بے پردگی نہ ہو
• غیرمحرم کے ساتھ خلوت نہ ہو۔
• فتنہ کے موقعے سے بچنے کااہتمام ہو۔
• ایساعلم نہ ہوجوشرعاناجائزہو۔
• ایسی تعلیم نہ ہوجوعورت کی فطری صلاحیت اور دائرہ کارکے مغائرہو۔
• وہ تعلیم ولی کی اجازت سے ہو۔
کیاپاکستان میں ان شرئط کاوجود ممکن ہے ؟
اگرپاکستان میں دیکھاجائے تعلیمی ادارے دوطرح کے ہیں،مخلوط اور غیرمخلوط ادارے ،غیرمخلوط ادارے پراویٹ بھی ہیں اور سرکاری اداروں میں بھی لڑکیوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے ہیں موجود ہیں جہاں غیرمخلوط تعلیم دی جاتی ہے اور اساتذہ بھی عورتیں ہی ہوتی ہیں ،البتہ راستےمیں آنے جانے کامناسب بندوبست اور ولی کی نگرانی کی ضرورت ہے ،
جہاں تک میڈیکل کے تعلیمی ادارے ہیں وہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہے اور فتنہ فساد کاخطرہ زیادہ ہے اس لیے ان اداروں سے دور ہی رہناچاہیے ،ہاں جہاں عورتوں کے لیے الگ میڈیکل کالج ہووہاں پرلڑکیاں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔
خلاصہ بحث ونتائج :
اپنے بچوں کودینی تعلیم دینا،ان کوقرآن مجید اور بنیادی اسلامی احکامات کی تعلیم دینایہ ماں باپ پرضروری ہے اور عصری تعلیم دینابھی بہتراور جائزہے لہذاکوہستان میں موجود یہ رسم کہ بچیوں کوتعلیم سے دوررکھنادرست نہیں ہے ،آج کل بچیوں کے لیے الگ مدرسے بن چکے ہیں جوہرجگہ مفت تعلیم دیتے ہیں ،اس لیے کوہستان میں موجود لوگوں کوچاہیے کہ ان میں اپنی بچیوں کوداخل کرائیں اور ان کی تعلیم وتربیت کاانتظام کریں۔
غیرت کے نام پرقتل
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت:
کوہستانی معاشرے میں جب کسی عورت پراجنبی مرد سے تعلقات قائم کرنے کاشبہ ہوجائے تواُن دونوں کوقتل کردیاجاتاہے ،کوہستانی زبان میں اس کو’’چُوْر ‘‘کہتے ہیں ،پھریہ چور دوطرح کے ہوتے ہیں ۔اگر لڑکی اور لڑکے کوایک ساتھ دیکھ لیاجائے تواس کومکمل چورقراردے کرقتل کردیاجاتاہے ،اگرلڑکی والے لڑکے کوقتل کرنے کے بعد لڑکی کوبھی ماردیں تب دشمنی نہیں کی جاتی اور نہ ہی سرکاری سطح پرکیس داخل کیاجاتاہے ،لیکن اگر لڑکی والے لڑکے کوتوقتل کردیں مگر اس کے بدلے لڑکی کوقتل نہ کریں تو مقتول کے ورثاء کی طرف سے مزاحمت کی جاتی ہے اور یوں دونوں گھرانوں میں دشمنی شروع ہوجاتی ہے ۔
چورکی دوسری قسم یہ ہےجب کوئی مرد کسی عورت کوبالمشافہ گالی دیتاہے یااس کی چادرکھینچ لیتاہے یاکوئی مرد کسی کے گھرمیں گھس جاتاہے تواس کو’’کَنْڈرَے چور‘‘ کہتے ہیں اس طرح کے مجرم کوبعض علاقوں میں زخمی کیاجاتاہے اور بعض علاقوں میں اس کوبھی قتل کردیاجاتاہے،چونکہ موجودہ چندسالوں میں یہ واقعات بہت زیادہ ہورہے ہیں اس لیے ضرورت اس امرکی ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کی شرعی حیثیت کوآشکارہ کیاجائے ،کوہستان میں موجود اس رسم اور شرعی نقطہ نظرکاتقابلی جائزہ لیاجائے ۔
غیرت کی لغوی واصطلاحی تعریف:
غیرت باب نصرینصرسے مصدرکاصیغہ ہے اس کامعنی ہے غیرت کرنا۔یا مردکاعورت پراور عورت کامرد پرغیرت کھانا،جیساکہ عربی میں کہاجاتاہے ’’غارفلان من فلان علی امرأتہ‘‘کہ فلاں نے فلاں پرغیرت کی اپنی بیوی کی وجہ سے ۔
غیرت کی اصطلاحی تعریف:
علامہ عینی ؒ نے غیرت کی تعریف لکھی ہے :
’’معنى الغيرة تغير القلب وهيجان الغضب بسبب المشاركة في الاختصاص من أحد الزوجين بالآخر ‘‘ ’’غیرت کامعنی دل کابدل جانااور غصے کاجوش مارناایسی چیز میں شرکت کی وجہ سے جوزوجین میں سے ایک کادوسرے کے ساتھ خاص ہو‘‘
علامہ عینیؒ نے غیرت کی تعریف میں قاضی عیاض کاقول نقل کیاہے :
’’وقال عياض: الغيرة مشتقة من تغير القلب وهيجان الغضب بسبب المشاركة فيما به الاختصاص، وأشد ما يكون ذلك بين الزوجين‘‘
’’غیرت دل کی کیفیت کی تبدیلی اورغصہ کے باعث ہیجانی حالت ہونے کوکہتے ہیں جس کاسبب کسی ایسی چیز میں شرکت ہوتاہے جس کوآدمی اپنے ساتھ خاص سمجھتاہے اور یہ کیفیت زوجین میں شدید ترہوتی ہے ‘‘
مولاناسلیم اللہ خان صاحب نے کشف الباری میں غیرت کی تعریف یوں کی ہے :
غیرت اس طبعی نارضگی کوکہاجاتاہے جوکسی ایسی چیز کی وجہ سے انسان کولاحق ہو جس میں انسان شرکت کوپسند نہیں کرتاہے ۔
اسلام میں غیرت مطلوب عمل ہے :
اسلام میں غیرت مطلوب عمل ہے یہی وجہ ہے بے غیرت آدمی کودیوث کہاجاتاہے اور دیوث کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آیاہے :
’’ عن سالم بن عبد الله عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثة لا ينظر الله عز و جل إليهم يوم القيامة العاق لوالديه والمرأة المترجلة والديوث‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا: تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ رب العزت قیامت کے دن دیکھنابھی گوارہ نہیں کرے گا،ماں باپ کانافرمان،مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت ،اور بے غیرت شخص۔
اسلام میں غیرت کی مشروعیت کی حکمت بیان کرتے ہوئے امام غزالی لکھتے ہیں :
’’وانماشرعت الغیرۃ لحفظ الانساب وھومن مقاصد الشریعۃ ولوتسامح الناس بذلک لاختلطت الانساب لذاقیل کل امۃ وضعت الغیرۃ فی رجالھاوضعت الصیانۃ فی نسائھا‘‘
غیرت نسب کی حفاظت کے لیے مشروع کی گئی ہے اور یہ حفاظت نسب مقاصدشرعیۃ میں سے ہے ،اگر لوگ اس میں تساہل کریں توانساب خلط ملط ہوجائیں گے ،اسی وجہ سے کہاگیاہے ہروہ امت جس کے مردوں سے غیرت اٹھالی گئی ان کی عورتوں سے پاک دامنی بھی اٹھ گئی۔
اس سے معلوم ہواکہ غیرت اسلام میں مطلوب عمل ہے اور یہ مقاصد شرعیہ میں سے ہے ،لیکن غیرت سے وہ غیرت مراد ہے جس کواسلام نے غیرت کہاہو، اپنے آباء واجداد کے بناے ہوئے غیرت کے اصول جومقاصدشرعیہ کے خلاف ہوں وہ اسلامی نہیں ہیں ۔
غیرت کے نام پرقتل اور اسلامی نقطہ نظر:
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اسلام میں انسان کے قتل کے جوازکےتین اسباب ہیں جوکہ حدیث میں بیان ہوئے ہیں ۔
’’عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” لا يحل دم امرئ مسلم، يشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث: الثيب الزاني، والنفس بالنفس، والتارك لدينه المفارق للجماعة‘‘
آپ ﷺ نے فرمایاکسی کلمہ گومسلمان کاخون حلال نہیں ہے مگر تین وجوہات سے شادی شدہ زانی ،اور کسی نفس کے بدلے میں تیسرا وہ جس نے دین کوچھوڑکرجماعت سے الگ ہوگیاہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمان کاقتل تین وجوہ سے جائزہے ایک تو اگر اس نے کسی کوقتل کیاہے تو قصاصااس کوبھی قتل کیاجائے گا،اسی طرح جوآدمی دین کوچھوڑکرمردتد ہوجائے اس کوبھی قتل کیاجائے گا اوروہ آدمی جوشادی شدہ ہے پھربھی زناکاارتکاب کرتاہے اس کوبھی قتل کیاجائے گا۔
اسلام میں زانی کی سزا:
اسلام نے زانی محصن اور غیرمحصن کی الگ الگ سزامقرر کی ہے ،اگر زناکرنے والا غیرشادی شدہ ہوتو اس کو سوکوڑے مارے جائیں گے ،قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں :
’’الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ‘‘ ’’زناکرنے والی عورت اور زناکرنے والے مرد دونوں کوسوسوکوڑے لگاؤ‘‘
اس آیت میں غیرشادی شدہ مرد اور عورت اگر زناکرے توان کاحکم بیان ہواہے کہ ان کوسوسو کوڑے مارے جائیں ۔
شادی شدہ مرد اور عورت اگر زناکریں تو ان کی سزارجم یعنی سنگسار کرناہے رسول اللہ ﷺ نے خود رجم کاحکم جاری کیااور آپ ﷺ کے حکم سے ہی رجم کاحکم نافذ کیاگیا،بخاری شریف میں روایت ہے :’’ يعني الرجم للثيب والجلد للبكر‘‘کہ رجم ثیبہ یعنی شادی شدہ کے لیے اور کوڑے غیرشادی شدہ کے لیے ہے ‘‘
دوسری حدیث اوپرگزرچکی ہے کہ مسلمان کاخون تین وجوہات کے علاوہ کسی اور وجہ سے جائزنہیں ہے ان میں ایک وجہ شادی شدہ آدمی کازناکرناہے ،حضرت عمرفاروق ؓ نے فرمایا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال عمر لقد خشيت أن يطول بالناس زمان حتى يقول قائل لا نجد الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة أنزلها الله ألا وإن الرجم حق على من زنى وقد أحصن ،ألا وقد رجم رسول الله صلى الله عليه و سلم ورجمنا بعده‘‘
’’عمرؓ نےکہامیں ڈرتااہوں کہ کہیں زیادہ وقت گزرجائے اور کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ کتاب اللہ میں تورجم کاحکم ہمیں کہیں نہیں ملتااور اسی طرح وہ اللہ کے مقررکے گئے فرض کوچھوڑکرگمراہ ہوجائےگا،آگاہ ہوجاوکہ رجم کاحکم اس شخص کے لیے فرض ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے باوجود زناکیاہوخبردار رسول اللہ ﷺ نے رجم کیااور ان کے بعد ہم نے بھی رجم کیاہے ۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہواکہ شادی شدہ مرداورعورت اگر زناکاارتکاب کریں تو ان کی سزارجم ہی ہے ،
فتاوی ھندیہ میں محصن کی شرائط بیان کی گئی ہیں کہ شادی شدہ کورجم کی سزاتب دی جائی گی جب مندرجہ ذیل شرائط ان میں پائی جائیں۔
’’ وَإِحْصَانُ الرَّجْمِ أَنْ يَكُونَ حُرًّا عَاقِلًا بَالِغًا مُسْلِمًا قَدْ تَزَوَّجَ مِنْ امْرَأَةٍ حُرَّةٍ نِكَاحًا صَحِيحًا وَدَخَلَ بِهَا ‘‘
محصن ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ آذاد،عاقل ،بالغ اور مسلمان ہواور اس نے آذاد عورت سے نکاح صحیح کیاہوعورت سے مباشرت بھی کرچکاہو۔
یعنی رجم محصن کوکیاجائے گااور محصن وہ ہوتاہے جس کے اندر مندرجہ بالہ شرائط پائی جائیں ۔
اہم سوال ۔
کیاحالت زنامیں قتل کرنے والے کوقصاصاقتل کیاجائے گا۔؟
سابقہ بحث سے معلوم ہواکہ شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزارجم اور قتل ہے ،قاضی اور عدالت کے حکم پراس کورجم کیاجائے گالوگوں کوخود قانون ہاتھ میں لیکرقتل کرنے کی اجازت نہیں ہے ،لیکن اگر کسی شخص نے غیرت میں آکر بیوی یاکسی اور عزیزہ کوقتل کردیاتوکیااس قاتل کوقصاصاًقتل کیاجائے گایانہیں ؟
فقہانے لکھاہے اگر کوئی آدمی اپنے غصہ پرقابونہ پاسکااور غیرت میں آکراس نے قتل کردیاتواب اس قاتل کوعدالت میں یہ ثابت کرناپڑے گاکہ میں نے جس کوقتل کیاہے واقعی مجرم تھااور میں نے اس کوغیرمناسب حالت میں دیکھاہے ،اگر اس آدمی نے گواہوں کے ذریعے ثابت کیاتواس سے قصاص ساقط ہوجائے گالیکن اگر وہ یہ ثابت نہ کرسکاتو اب اس پرقصاص لازم ہوگا۔
علامہ عینی لکھتے ہیں :
’’ اختلف العلماء فيمن قتل رجلا وزعم أنه وجده قد زنا بامرأته، فقال جمهورهم: لا يقتل بل يلزمه القصاص إلا أن تقوم بذلك بينة أو تعترف به ورثة القتيل، والبينة أربعة من عدول الرجال يشهدون على نفس الزنا ويكون القتيل محصنا، وأما فيما بينه وبين الله تعالى فإن كان صادقا فلا شيء عليه، وقال بعض الشافعية: يجب على كل من قتل زانيا محصنا القصاص‘‘ .
’’علماکااس آدمی کے بارے میں اختلاف ہے جس نے کسی آدمی کواس گمان پرقتل کیاہو کہ اس شخص کی بیوی کے ساتھ زناکیاتھا،جمہورعلماء کہتے ہیں اس پرقصاص لازم ہوگامگرلازم ہے کہ وہ اس پرگواہ پیش کرے یامقتول کے ورثااس بات کاخود اقرار کریں اور گواہ چارعادل مرد ہوں گے جونفس زناپرگواہی دیں گے اور اس بات پربھی کہ قاتل محصن تھا،ہاں اس قاتل اور اللہ کامعاملہ اگر وہ سچاہے تواس پرکچھ بھی لازم نہ ہوگا۔بعض شافعیہ کہتے ہیں ہروہ آدمی جوخود زانی محصن کوقتل کرے اس پرقصاص لازم ہوگا۔‘‘
حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
’’ یجب القودأی:القصاص بقتل کل محقون الدم علی التأبیدعمداً،کہ قصاص لازم ہوتاہے ایسے آدمی کےعمداً قتل سے جوہمیشہ کے لیے محفوظ الدم ہو،علامہ شامی نے اس کی تشریح میں لکھاہے ۔واحترز به عن مباح الدم كالزاني المحصن والحربي والمرتد والمراد الحقن الكامل‘‘
اس سےاحتراز کیاہے ان سے جن کاخون مباح ہے مثلاً شادی شدہ زانی ،حربی ،مرتد ۔
فتاوی ہندیہ میں لکھاہے :
’’قَالُوا لِكُلِّ مُسْلِمٍ إقَامَةُ التَّعْزِيرِ حَالَ مُبَاشَرَةِ الْمَعْصِيَةِ وَأَمَّا بَعْدَ الْمُبَاشَرَةِ فَلَيْسَ ذَلِكَ لِغَيْرِ الْحَاكِمِ‘‘
ہرمسلمان کوتعزیر کاحق حاصل ہے معصیت کے مباشرت کےدوران اور مباشرت کے بعد جائزنہیں ہے ۔
علامہ وھبہ زحیلی لکھتے ہیں :
’’فلایقتل مسلم ولازمی بالکافرالحربی ولابالمرتدولابالزانی المحصن ولابالذندیق ولابالباغی،لأن ھؤلاءمباح الدم‘‘
مسلمان اور زمی کوکافرحربی ، مرتد،زانی محصن ،زندیق اور باغی کے بدلے میں قتل نہیں کیاجائے گاکیونکہ یہ مباح الدم ہیں ۔
مولاناگوہررحمن ؒ لکھتے ہیں :
اس کی وجہ یہ ہے کہ زناکی حالت میں قتل کرناجائزہے اور قاتل عنداللہ ماخوذ نہ ہوگاباقی رہی دنیاوی سزاتواگر قاضی کے سامنے ثابت ہوگیاکہ قتل کی وجہ یہی تھی توقاتل سے قصاص بھی نہیں لیاجائے گا۔
فتاوی حقانیہ میں لکھاہے :
اگرشوہردوران زنابیوی کوقتل کردے تومجرم نہ ہوگابصورت دیگربیوی کوقتل کرناقابل مواخذہ جرم ہے ۔
خلاصہ بحث :
فقہاکی ان عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کوقتل کردیتاہے اور یہ بات عدالت میں ثابت کردیتاہے کہ واقعی وہ عورت سیاہ کاری میں ملوث تھی ،عدالت کواس کی بات پرصداقت کایقین ہوجائے تو اب اس قاتل سے قصاص ساقط ہوجائے گا،کیونکہ قصاص تب لازم ہوتاہے جب کسی محفوظ الدم آدمی کوقتل کیاجائے اور زانی محصن محفوظ الدم نہیں ہوتاہے جب وہ محفوظ الدم نہ ہواتواب اس کے قتل کرنے سے قصاص لازم نہ ہوگا،لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قاتل عدالت میں چارگواہوں کے ساتھ یہ بات ثابت کردے یامقتول کے ورثاخود اس بات کااقرار کریں کہ واقعی ہمارایہ عزیزاس گناہ میں مبتلاتھا، اگر وہ یہ بات عدالت میں ثابت نہ کرسکاتو اس پرقصاص لازم ہوگی اور قصاصاً اس آدمی کوقتل کردیاجائے گا۔
کوہستان میں موجود قتل غیرت کی رسم اور شرعی حکم کاتقابلی جائزہ :
اوپرذکرکی گئی بحث سے معلوم ہواکہ اسلام میں زناکی سزا رجم اور کوڑے ہیں ،اگر زناکرنے والے شادی شدہ ہوں توان کورجم کیاجائے گا،اگر غیرشادی شدہ ہوں توان کوسوسوکوڑے مارے جائیں گے ،لیکن کوہستان میں شریعت اور اسلام کےبتلائے ہوئے ان اصولوں پرعمل نہیں کیاجاتاہے بلکہ اُن کے اپنی غیرت اور اپنے اصول ہیں جویقیناًشریعت کے اصول اور قانون کے خلاف ہے ،کوہستان کی رسومات مندرجہ ذیل قباحتیں او رخرابیاں پائی جاتی ہیں ۔
- کوہستان میں جب سیاہ کاری کاالزام کسی غیرشادی شدہ پرلگ جائے تواس کوقتل کردیاجاتاہے حالانکہ شریعت میں غیرشاددی شدہ کی سزاسو کوڑے ہیں ،کسی غیرشادی شدہ کوقتل کرنایہ شرعاًجرم ہے ایسے آدمی قصاصاً قتل کیاجائے گااور عنداللہ ایساشخص مجرم ہوتاہے ۔
- کوہستان میں عموماشک کی بنیاد میں قتل کیاجاتاہے ،اگر کسی لڑکایالڑکی کوبات کرتے ہوئے دیکھاجائے تب بھی اس کوقتل کیاجاتاہے ،کتنے ہی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں بچوں کےیاعورتوں کے کہنے پرلوگوں کوقتل کیاگیایاراستے سے گزرتے ہوئے محض شک کی وجہ سے قتل کیاگیا،اسی طرح اگر رات کوکوئی لڑکاکسی گھرکے قریب ماراجائے تو لڑکے والے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں لڑکی کوقتل کردوورنہ دشمنی ہوگی تو لوگ گھرمیں کسی ایک لڑکی کومحض شبہ کی وجہ سےدشمنی سے بچنے کے لیے قتل کردیتے ہیں ،جبکہ شریعت اس کی اجازت نہیں ہے ،شریعت کاحکم یہ ہے کہ زانی اور مزنیہ کواس حالت میں دیکھے جیساکہ سرمہ دانی میں سوئی تب اس کورجم کرنے کاحکم ہے ۔
واقعات:
ہمارے ہاں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں شبہ کی وجہ سے خاوند کوقتل کیاگیا،ایک جگہ خاوند اور بیوی جنگل میں ایک دوسرے سے ملے بچوں نے ان کودیکھ کرشور مچایاتو گھرسے لوگ بندوقیں لیکر نکل پڑے لڑکے نے شرمندگی سے بچنے کے لیے بھاگنے کی کوشش کی پیچھے اس کوگولی ماردی گئی بعد میں دیکھاتو وہ لڑکی کاخاوند نکلا۔اسی طرح ایک جگہ خاوندسفرسے آیااور رات لیٹ گھرپرپہنچا،باقی گھروالوں کوسوتاچھوڑکراپنے کمرے میں گیااور صبح اپنوں کی گولی کانشانہ بن گیا۔
3۔کوہستان میں عموماً بے قصورلڑکیوں کوقتل کیاجاتاہے ،جب کسی گھرمیں لڑکاناجائزطریقے سے گھس تاہے اور یہ پتانہیں ہوتاکہ کس لڑکی سے اس کے تعلقات تھےتوگھرمیں کسی بہو،بھابی یاکسی کمزور لڑکی کومجرم ٹھراکرقتل کیاجاتاہے جوکہ ایک ناجائزاور قابل مذمت عمل ہے ۔
خلاصہ بحث و نتیجہ:
اس بحث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کوہستان میں مروج قتل غیرت کی رسم میں اتنی خرابیاں ہیں کہ ان کوشرعاً درست نہیں کہ سکتے ہیں ،شریعت نے حدزناکےلیے شرائط اس لیے رکھی ہیں تاکہ کسی بے قصورکوسزانہ ملے ،یہ صرف ایک سزانہیں ہوتی بلکہ اس طرح کے واقعات سے دشمنیاں جنم لیتی ہیں ،خاندانوں کے خاندان دشمنی کے بھینٹ چڑجاتے ہیں ،اس سے کسی کی عزت اور ناموس پرہمیشہ کے لیے سیاہ کاری کادھبہ لگ جاتاہے اس لیے شریعت نے اس کےلیے سخت اصول رکھے ہیں تاکہ کوئی آدمی محض اپنے غصے اور ناراضگی کی وجہ سے کسی پرالزام لگاکرقتل نہ کرے ۔
مقامی علماکوچاہیے کہ وہ لوگوں کوان مسائل سے آگاہ کریں ،شریعت کے حکم کوبیان کرنے میں علماکوجھجھک نہیں محسوس کرناچاہیے ،جس کوہمارے لوگ غیرت سمجھتے ہیں اور خودساختہ جوغیرت کے بت ہم لوگوں نے بنائے رکھے ہیں وہ درحقیقت غیرت نہیں ہے ،غیرت وہ ہے جواللہ او راس کے رسول نے ہمیں بتائی ہیں ،ہم سے زیادہ اللہ اور اس کارسول ﷺ غیرت مند ہیں ،اس لیے ہمیں اپنے خود ساختہ قوانین کوچھوڑکراللہ کے بتلائے ہوئے احکام پرچلناچاہیے ۔
بیوہ کواپنی میراث سمجھنا:
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت:
کوہستانی معاشرے میں جب کوئی مرد فوت ہوجاتاہے تواس کی بیوہ کومتوفی کے ورثااپنی میراث سمجھتے ہیں ،متوفی کابھائی یاکوئی قریبی رشتہ دارسے اس کی شادی کرائی جاتی ہے ،اگروہ بیوہ نکاح سے انکارکردے تو اس پرزبردستی کی جاتی ہے زبردستی کے باوجودوہ بیوہ کسی بھی صورت میں نکاح پر راضی نہ ہوتواس پریہ شرط رکھی جاتی ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ شادی نہیں کریگی ساری زندگی اس کویوں ہی بیوہ رہناپڑیگااور سابقہ شوہرکے گھرمیں باقی ماندہ زندگی گزارنی پڑیگی ،وہ بیوہ مظلوم عورت ساری زندگی ایک جاہلانہ رسم کی وجہ سے اکیلی زنددگی گزارنےپرمجبورہوجاتی ہے ۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ :
اسلام سے قبل عرب معاشرے میں بھی یہی رسم عام تھی ،جب کوئی مرد فوت ہوجاتاتووہ لوگ اس کی بیوہ کواپنی میراث سمجھتے تھے ،اس کودوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی،قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس قبیح رسم سے ان کومنع کیا،سورہ النساء میں اللہ فرماتے ہیں ۔
’’لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها ‘‘
’’اے ایمان والو یہ بات تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو‘‘
امام بخاری نے اس آیت کے شان نزول میں ایک روایت نقل کی ہے :
’’عن ابن عباس [يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن] قال كانوا إذا مات الرجل كان أولياؤه أحق بامرأته إن شاء بعضهم تزوجها وإن شاءوا زوجوها وإن شاءوا لم يزوجوها فهم أحق بها من أهلها فنزلت هذه الآية في ذلك‘‘
ابن عباس ؓ سے رایت ہے فرماتے ہیں :جاہلیت میں کسی عورت کاشوہرمرجاتاتو شوہرکے رشتہ داراس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے تھے ،اگر ان میں سے کوئی چاہتاتو اس سے شادی کرلیتایاپھروہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرادیتے ا،اس طرح عورت کے گھروالوں کے مقابلے میں بھی شوہرکے رشتہ دار اس کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے اسی پریہ آیت نازل ہوئی ۔
امام طبری اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
’’إن ذلك ليس من معنى وراثتهن إذا هن مِتن فتركن مالا وإنما ذلك أنهن في الجاهلية كانت إحداهن إذا مات زوجها، كان ابنه أو قريبُه أولى بها من غيره، ومنها بنفسها، إن شاء نكحها، وإن شاء عضلها فمنعها من غيره ولم يزوّجها حتى تموت‘‘
اس آیت کایہ مطلب نہیں ہے کہ جب وہ مرجاتی تھیں تو وہ مال چھوڑجاتی تھیں ،یہ دراصل یہ ہوتاتھاکہ جاہلیت میں جب کسی عورت کاخاوند فوت ہوجاتاتو اس کابیٹایااس کاقریبی رشتہ دار زیادہ حقدار سمجھاجاتابنسبت دوسرے کے اور اس عورت کے اپنے نفس سے بھی وہ زیادہ حقدارسمجھے جاتے تھےاگر وہ چاہتے تواس سے نکاح کرلیتے اگرچاہتے تو اس کوچھوڑدیتے اور کسی دوسرے سے نکاح کرنے سے اس کومنع کرتے ،وہ عورت شادی نہیں کرسکتی تھی یہاں تک کہ وہ مرنہ جائے،پس اللہ نے اس کوحرام قراردیا۔
ان روایات سے معلوم ہواکہ یہ رسم مشرکین مکہ میں بھی موجود تھی ،وہ بھی بیوہ کواپنی میراث سمجھتے تھے،جب کوئی بندہ فوت ہوجاتاتو اس کی بیوہ سے خود نکاح کرتے یااس کوکسی جگہ بھی نکاح کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی ،اس رسم کی قباحت کی وجہ سے اللہ رب العزت نے اس رسم سے منع کرنے کےلیے ’’لایحل‘‘ کاصیغہ استعمال کیااہےجس میں اس گناہ کی شدت اور اس رسم کی حرمت و شناعت کی طرف اشارہ ہے ،چنانچہ مفتی شفیع ؒ نے اسی آیت کی تشریح میں لکھاہے :
ظلم اور فساد کی ممانعت کاعام طریقہ یہ ہے کہ بصیغہ نہی اس سے منع کردیاجائے،لیکن اس جگہ قرآن کریم نے اس عام طریقہ کوچھوڑکرلفظ’’لایحل‘‘سے اس کوبیان فرمایاہے اس میں اس معاملے کی شدت گناہ ہونےکے علاوہ اس طرف بھی اشارہ ہوسکتاہے کہ اگر کسی بالغ عورت سے بغیراس کی رضاو اجازت کے نکاح کربھی لیاتو وہ نکاح شرعاحلال نہیں بلکہ کالعدم ہے ،ایسے نکاح سے مردوذن دونوں کے درمیان میاں بیوی کارشتہ قائم ہوتاہے اور نہ وراثت یانسب کے احکام اس سے متعلق ہوتے ہیں۔
خلاصہ بحث ونتائج:
اس ساری بحث سےمعلوم ہواکہ کوہستان میں موجودیہ رسم ایک جاہلانہ اور فرسودہ رسم ہےیہ رسم دراصل عورت زات پرظلم اور ناانصانی ہے جس کوقرآن کریم نے واضح طور پرحرام قرار دیاہے ،کیونکہ عاقل بالغ لڑ کی کانکاح بغیراس کی رضامندی کے جائزنہیں ہے ،بیوہ عورت عاقل بالغ ہونےکے ساتھ ساتھ شوہردیدہ بھی ہے،تمام ائمہ کااس بات میں اتفاق ہے کہ عاقل بالغ اور شوہردیدہ عورت کانکاح بغیراس کی رضامندی کے کرناجائزنہیں ہے ،اسی طرح اگر وہ بیوہ عورت کسی مرد سے شادی کرناچاہیے توکرسکتی ہے اس کومنع کرنایہ ناجائزہے ،ہمیں غور وفکرکرناچاہیے کہ جس کام سے اللہ رب العزت نےمنع کیاہے اور جس کام کواللہ اور اللہ کے رسول نے حرام کہاہو،جوطریقہ اسلام کانہیں بلکہ مشرکین مکہ کاہے کیاوہ کام کرنایااس رستے پرچلناہمارے لیے جائزہوگا،ہم اس رسم پرچل کراپنی آ خرت بربادنہیں کررہے ؟
متعدد شادیوں کارواج اور عدل کافقدان
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت :
کوہستان میں متعددشادیوں کارواج عام ہے اکثرلوگ دویاتین شادیاں کرتے ہیں ،یقیناً یہ رسم بہت اچھی رسم ہے اور شریعت کی نظرمیں قابل تعریف عمل ہے مگراس کے لیے شرط یہ ہے کہ تمام بیویوں میں عدل وانصاف کا قائم کرے ،کوہستانی معاشرے میں لوگ متعدد شادیاں تو کرتے ہیں مگر ان میں عدل ومساوات نہیں کرتے ،تمام ازواج کوبرابرحقوق نہیں دیتے ہیں ،دوسری شادی کرنے کی صورت میں جب میلان اس کی طرف زیادہ ہوتواس کوہرحالت میں خوش وخرم رکھنے میں لگے رہتے ہیں او رپہلی بیوی کی طر ف بلکل دہان نہیں کیاجاتااور نہ ہی اس کے حقوق کاخیال رکھاجاتاہے ،شب پاشی کے حق سے تو پہلی بیوی کوبلکل محروم کیاجاتاہے ۔
یہاں ایک دوسراپہلوبھی انتہائی افسوس ناک ہے بالفرض اگر پہلی بیوی خاوند پرغالب ہوتو وہ دوسری کے ساتھ خاوند کے تعلقات کوخراب کرنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے ،پہلی بیوی اور اس کے بچے بات بات پرتنگ کرتےہیں اور خاوند نہ چاہتے ہوئے بھی پہلی بیوی کاساتھ دیتاہے ،الغرض دونوں صورتوں میں ظلم کاشکار ایک عورت ہی ہوتی ہے اورگھرمیں انارکی ،نفرت اور بے سکونی کی فضاقائم رہتی ہے۔
متعددشادیوں کاحکم :
اسلام نے چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے کہ ایک آدمی بیک وقت چاربیویاں رکھ سکتاہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے ان میں عدل وانصاف کرنے کایقین ہوتب چار کرے گالیکن اگر مرد کویہ یقین ہوکہ وہ ایک سے زائد شادیاں کرنے کی صورت میں ان میں انصاف نہیں کرسکے گاتواس کے لیے ایک ہی شادی کرنے کاحکم ہے۔قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں :
’’ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ذَلِكَ أَدْنَى أَلَّا تَعُولُوا‘‘
’’اوراگرتمہیں یہ اندیشہ ہوکہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکوگے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے )دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلوجوتمہیں پسندآئیں ،دودوسے ،تین تین سے ،اورچارچار سے ہاں اگرتمہین یہ خطرہ ہوکہ تم ان کے درمیان انصاف نہ کرسکوگے توپھرایک ہی بیوی پراکتفاکرویاان کنیزوں پرجوتمہاری ملکیت میں ہیں۔اس طریقے میں اس بات کازیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلانہیں ہوگے۔‘‘
علامہ قرطبی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں :
’’(فواحدة). فمنع من الزيادة التي تؤدي إلى ترك العدل في القسم وحسن العشرة. وذلك دليل على وجوب ذلك‘‘
’’ایک سے زائد شادی سے منع کیاجب وہ عدل کے ترک کرنے کاموجب ہوتقسیم میں اور حسن معاشرت میں اور یہ دلیل ہے اس بات پرکہ عدل واجب ہے ‘‘
مفتی محمدشفیع ؒ نے معارف القرآن میں اس آیت کے ذیل میں لکھاہے :
’’اس سے معلوم ہواکہ ایک سے زائدنکاح کرنااس صورت میں جائزہے اورمناسب ہے جبکہ شریعت کے مطابق سب بیویوں میں برابری کرسکے اور سب کے حقوق کالحاظ رکھ سکے ۔اگراس پرقدرت نہ ہوتوایک ہی بیوی رکھی جائے ۔۔۔اگریہ احتمال غالب ہوکہ عدل ومساوات قائم نہ رکھ سکوگے توایک سے زائد نکاح پراقدام کرنااپنے آپ کوایک عظیم گناہ میں مبتلاکرنے پراقدام ہے اس سے باز رہناچاہئے ۔‘‘
اس سے معلوم ہوتاہے کہ ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت تب ہے جب ان میں انصاف کرنے کایقین ہو اگر انصاف کرنےکایقین نہ ہوتو زائد شادیاں کرنااپنے آپ کوگناہ میں مبتلاکرنے اور بڑی ازمائش میں ڈالنے کے سواکچھ نہیں ہے ۔
عدل وانصاف نہ کرنے پروعید:
اگر کوئی آدمی ایک سے زائد شادیاں کرے اور پھران میں عدل وانصاف اور مساوات وبرابری کاخیال نہیں رکھتااس کے لیے حدیث میں سخط وعید آئی ہے :
’’عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط‘‘
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب کسی شخص کے پاس دوبیویاں ہوں اور ان کے درمیان انصاف سے کام نہ لےتو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گاکہ اس کاایک پہلوجھکاہوہوگا‘‘
یعنی جوآدمی دوزوجات میں انصاف نہیں کرتا،ان میں انصاف کاخیال نہیں کرتا،ایک سے اٹھنابیٹھنازیادہ کرتاہے اور دوسری کی طرف توجہ کم دیتا،ایک کے حقوق اداکرتاہے مگردوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی اس کوفکرنہیں ہے تو روز محشر وہ آدمی اللہ کے حضوراس حالت میں پیش ہوگاکہ اس کی ایک جانب جھکی ہوئی ہوگی ،اس کے جسم کاایک پہلواس طرح نیچے کی جانب جھکاہوگا جس طرح فالج زدہ آدمی کاجسم ہوتاہے ،قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس کی پیشی ایک فالج زدہ مریض کی طرح ہوگی ۔
عدل وانصاف کس چیزمیں ضروری ہے :
انسان کودوطرح کے اموروافعال سے واسطہ پڑھتاہے ،بعض امورانسان کے اختیارمیں ہوتے ہیں اور بعض امورغیراختیاری ہوتے ہیں ،جوامور اختیاری ہوتے ہیں ان میں اس میں انسان سے بازپرس ہوگی ایسے امور میں انسان جواب دہ ہے اور جوامورغیراختیاری ہوتے ہیں اس کاحساب کتاب نہیں ہوگا۔
اموراختیاریہ میں نان نفقہ ،شب پاشی کی باری اور حسن معاشرت داخل ہے ،ان چیزوں میں مساوات اور برابری ضروی ہے ،رات کی تقسیم اور نان نفقہ میں اگر عدل نہ کرنے والےکو قیامت کے دن شرمندگی کاسامناکرناپڑیگا۔
وہ امورجوغیراختیاری ہیں مثلاقلبی میلان اور دلی محبت اس میں مساوات ضروری نہیں ہے ،اگر کسی ایک بیوی سےمحبت زیادہ ہواس کی طرف قلبی محبت اور چاہت زیادہ ہ توچونکہ یہ انسان کے اختیارمیں نہیں ہے اس لیے یہ امور قابل گرفت نہیں ہے ۔مگرشرط یہ ہے کہ غیراختیاری اموراس کے اختیاری امورپرغالب نہ آئیں ،محبت اگرچہ کسی ایک سے زیادہ ہومگر ظاہری طورپران میں عدل ومساوات کرے ۔خود آپﷺ بھی حضرت عائشہ ؓ سے محبت زیادہ کرتے تھے مگر حسن معاشرت اور باری کی تقسیم میں انصاف کی مکمل پابندی کرتےتھےایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقسم بين نسائه فيعدل، ويقول:اللهم هذه قسمتي فيما أملك، فلا تلمني فيما تملك ولا أملك‘‘
’’نبی اکرم ﷺ اپنی بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ،اے اللہ:یہ میری تقسیم ہے جس پرمیں قدرت رکھتاہوں لیکن جس کی قدرت تورکھتاہے میں نہیں رکھتااس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ انسان جس چیز کامالک ومختار ہوتاہے اس میں عدل کرناضروری ہے اور جس چیزمیں انسان کواختیارنہیں ہے اس میں اللہ سے معافی طلب کرتارہناچاہیے اور ظاہری عدل میں احتیاط کرناچاہیے ۔
آپ ﷺ کاعدل وانصاف :
نبی کریم ﷺ نے گیارہ شادیاں کی تھی او ررحلت کے وقت ’’نو‘‘ازواج مطہرات حیات تھیں ،ازواج مطہرات میں عدل وانصاف کاخاص خیال رکھتے تھے ،ہرایک کے لیے باری مقررکی تھی ،عصرکے بعد بارباری سب ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے تھے اور ان کی ضروریات اور حاجات کے بارے دریافت کرتے تھے:
’’عن عائشة رضي الله عنها : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا انصرف من العصر دخل على نسائه فيدنو من إحداهن فدخل على حفصة فاحتبس أكثر ما كان يحتبس ‘‘
’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب عصرکی نمازسے واپس ہوتے تو اپنی ازواج کے پاس جاتے تھے ،ہرایک کے پاس جاتے ایک دفعہ حضرت حفصہؓ کے پاس گئے اور باقیوں سے ان کے پاس زیادہ ٹھرگئے ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ ازواج مطہرات میں عدل کااسقدرخیال رکھتے تھے کہ جب آپ ﷺ بیمارہوئے تب بھی باری کاخیال رکھتے اورپوچھتے کہ آج کس گھر میں جانا:
’’عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يسأل في مرضه الذي مات فيه ( أين أنا غدا أين أنا غدا ) . يريد يوم عائشة فأذن له أزواجه يكون حيث شاء فكان في بيت عائشة ‘‘
’’حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اس مرض میں جس میں وہ فوت ہوئے پوچھتے تھے کہ آج میں کہاں ہونگا،آج میں کہاں ہوں گا،آپ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جانے والادن چاہتے تھے تو ازواج مطہرات نے آپ کواجازت دی کہ جہاں چاہیں رہیں ،پس آپ ﷺ حضرت عائشہ کے گھرٹھرگئے ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ ازواج مطہرات میں عدل وانصاف کا بہت خیال رکھتے تھے ،حالت بیماری میں بھی آپ خیال کرتے تھے کہیں عدل میں فرق نہ آئے ۔
خلاصہ بحث اور نتیجہ :
سابقہ ساری بحث سےمعلوم ہواکہ ایک سے زائد نکاح کرناتب جائزہےجب ان میں عدل وامساوات کرنے کایقین ہواگر وہ عدل نہیں کرسکتاتو پھرایک ہی شادی کرے گا،متعددشادیاں کرنے کے باوجود اگرکوئی ان میں عدل نہیں کرتاتو قیامت کے ان اس کوشرمندگی اور رسوائی کاسامناکرناپڑیگا۔کوہستان میں جورسم ہے کہ متعدد شادیاں تو کرتے ہیں مگر ان میں انصاف ،عدل اور برابری کو لازم نہیں سمجھتے ، ازواج میں حسن معاشرت ،شب پاشی اور مساوات نہیں کرتے یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے ،ایسے لوگوں کی قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حالت میں پیشی ہوگی کہ ان کی ایک طرف ایک فالج زدہ مریض کی طرح نیچے جھکی ہوگی ،لہذا ہمیں اپنی زندگی کے تمام معاملات میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کاخیال رکھناپڑیگاتاکہ آخرت کے ذلت سے ہم بچ سکیں ۔
لڑکیوں کومیراث میں حصہ نہ دینا:
کوہستان میں اس رسم کی عملی صورت:
کوہستان میں عورتوں کومیراث میں حصہ نہیں دیاجاتاہے اور نہ ہی میراث میں عورتوں کاحق سمجھاجاتاہے ،جب کوئی آدمی فوت ہوجاتاہے تواس کے بیٹے آپس میں جائداد کی بندربانٹ کردیتے ہیں اپنی بہنوں سے پوچھتے تک نہیں ہیں ،یہاں تک کہ اپنی ماں کوبھی میراث میں حصہ اس لیےنہیں دیتے کہ وہ ایک عورت زاد ہے ،اسی طرح اگر باپ اپنی زندگی میں ہی میراث تقسیم کرتاہے تو وہ اپنی بیٹیوں اور بیوی کواس میں سے حصہ نہیں دیتاہے ،اگر بہن اپنے بھائیوں سے میراث میں حصہ طلب کرے تو اس پربھائی اپنے گھرکے دروازے بندکردیتے ہیں ،اس ظلم کی ایک درناک منظرتب پیش آتاہے جب کوئی مرد فوت ہوجائے ،اس کےبیٹے نہ ہوں صرف بیٹیاں رہ جائیں تومتوفی کے بھائی ساری جائداد خود ہڑپ کرجاتے ہیں ،میت کے بیٹیوں اور اس کی بیوہ کومیراث میں حصہ نہیں دیتے ہیں وہ لڑکیاں بے یارومددگاراپنوں کے ستم وبربریت کاشکار ہوجاتی ہیں ،یہاں تک کہ جائداد کی طرح ان لڑکیوں کوبھی آپس میں تقسیم کردیاجاتاہے۔
اسلام سے قبل عرب معاشرہ:
اسلام سےقبل عرب معاشرے میں بھی یہی رسم عام تھی ،جب کوئی مرد فوت ہوجاتاتو بچوں او رعورتوں کومیراث میں حصہ نہیں دیاجاتاتھا،چنانچہ جب ام کحلۃ کے شوہرفوت ہوئے تو شوہرکے بھائیوں نے اس کی اکلوتی بیٹی اور اس کی بیوہ کومیراث میں حصہ دینے سے انکارکردیا،ام کحلۃ رسول اللہ ﷺ کے دربارمیں حاضرہوئی اور عرض کیا یارسول اللہ:میرے شوہرفوت ہوئے ہیں اور میری یہ بیٹی رہ گئ ہے کیاہمیں میراث نہیں ملے گی ،یارسول اللہ :اس بچے کے چچاکہتے ہیں کہ یہ نہ گھوڑے پرسوار ہوسکتی ہے نہ بوج اٹھاسکتی ہے اور نہ دشمن کامقابلہ کرسکتی ہےلہذااس کومیراث نہیں ملے گی ،ام کحلۃ ؓ کی شکایت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :
’’للرجال نصيب مما ترك الوالدان والأقربون وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والأقربون مما قل منه أو كثر نصيبا مفروضا‘‘
مردوں کےلیے بھی اس مال میں حصہ ہے جووالدین او رقریب ترین رشتہ دار وں نے چھوڑاہواور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑاہوچاہے وہ (ترکہ) تھوڑاہویازیدادہ یہ حصہ (اللہ کی طرف سے )مقررہے ۔
اس آیت کے شان نزول کے بارے میں امام طبری ؒ لکھتے ہیں:
’’قال: كان النساء لا يورَّثن في الجاهلية من الآباء،وكان الكبير يرث، ولا يرث الصغير وإن كان ذكرًا، فقال الله تبارك وتعالى:”للرجال نصيبٌ مما ترك الوالدان والأقربون” إلى قوله:”نصيبًا مفروضًا‘‘
’’زمانہ جاہلیت میں عورتوں کومیراث نہیں دی جاتی تھی اور جوبڑاہوتاتھاوہ وارث بن تاتھاچھوٹے وارث نہیں بن سکتے تھے اگرچہ و ہ مذکرکیوں نہ ہوں ،پس اللہ رب العزت نے فرمایا،عورتوں اوررشتہ داروں دونوں کے لیے والدین کی میراث میں حصہ مقرر ہے ‘‘
اس سےمعلوم ہواکہ عورتوں کومیراث میں حصہ نہ دینایہ مشرکین کی رسم تھی اللہ رب العزت نے ہرایک کے لیے حصہ مقررکردیاہے ۔
مسئلہ میراث کی اہمیت:
اسلامی قوانین وراثت شریعت اسلامی میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ،میراث کے قوانین قرآن وسنت سے ماخوذ ہیں ،میراث کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہےکہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے نماز،روزہ ،زکواۃاور حج کاحکم بیان کیاہے مگران کی تفصیل بیان نہیں کی ہےکہ کس طرح اداکرناہے ،ان کی تفصیل ہمیں سنت رسول اور احادیث مبارکہ میں ملتی ہیں لیکن میراث کامسئلہ اتناہم ہے کہ اللہ رب العزت نے خود قرآن میں اس کی تفصیل بیان کی ہےچنانچہ سورۃ النساء کی آیت نمبرگیارہ(11)،بارہ (12)اور ایک سو چھتر(176)میں باپ ،بیٹا،بیٹی ،خاوند،ماں ،بیوی ،بہن اور بھائی سب کے حصوں کوبیان کیاہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی علم میراث سیکھنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
’’ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ « الْعِلْمُ ثَلاَثَةٌ وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ‘‘
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجن علوم کاسیکھناضروری ہے وہ تین ہیں ،جبکہ دوسرے علوم کاسیکھنافضیلت کے باب میں ہے اور و ہ تین علوم یہ ہیں ،قرآن کی آیات احکام کاسیکھنا،سنت نبوی کاعلم ،تیسرافرائض یعنی وراثت کاعلم جوساراکاساراحق پرمبنی ہے ۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا’’تعلموالفرائض فأنھامن دینکم ‘‘علم میراث کوسیکھوکیونکہ یہ بھی دین میں سے ہے ‘‘
قرآن کی آیت اور ان روایات سے معلوم ہوتاہے کہ میراث کے قوانین کی بہت اہمیت ہے ،قرآن نے تفصیل سے بیان کیاہے اس لیے اس کے اداکرنے میں بھی ہمیں خصوصی خیال رکھناچاہیے ،عورتوں کومیراث نہ دینایہ سراسر ظلم وزیادتی ہے اور اس پرقرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ۔
میراث نہ دینے پروعید:
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں :
’’ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرً‘‘
’’یقین رکھوجولوگ یتیموں کامال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اور انہیں جلدہی ایک دہکتی آگ میں داخل ہوناہوگا‘‘
علامہ قرطبی اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں :
’’ وقال ابن زيد: نزلت في الكفار الذين كانوا لا يورثون النساء ولا الصغار‘‘
’’ابن زیدکہتےہیں کہ یہ آیت ان کفارکے بارے میں نازل ہوئی ہے جوعورتوں اور بچوں کومیراث نہیں دیتے تھے ‘‘
اس آیت کامطلب یہ ہے کہ جولوگ عورتوں اور یتیم بچوں کی میراث کھاتے ہیں ان کواس میں سے حصہ نہیں دیتے ہیں گویاوہ اپنے پیٹ میں آگ پھررہے ہیں ،کل قیامت کے دن میدان محشرمیں ان کے منہ ،کان اور ناک سے آگ نکل رہی ہوگی علامہ طبری نے اپنی تفسیرمیں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھاہے :
’’إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلمًا إنما يأكلون في بطونهم نارًا” قال، إذا قام الرجل يأكل مال اليتيم ظلمًا، يُبعث يوم القيامة ولهبُ النار يخرج من فيه ومن مسامعه ومن أذنيه وأنفه وعينيه، يعرفه من رآه بأكل مال اليتيم‘‘
’’جولوگ ظلم کرتے ہوئے یتیموں کامال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں،مصنف کہتے ہیں جب کوئی آدمی یتیم کامال کھاتاہے ظلماً،قیامت کے دن اس کواس حال میں اٹھایاجائے گاکہ آگ کاشعلہ اس کے منہ ، کان ، ناک،اور آنکھوں سے نکل رہاہوگا،جوبھی اسے دیکھے گااس کوپہچان لیے گاکہ یہ آدمی ہے جویتیم کامال کھاتاتھا‘‘
اس آیت میں کتنی سخت وعید ہے ان لوگوں کےلیے جومیراث کھالیتے ہیں درحقیقت یہ خود ہی اپنے لیے آگ تیارکررہے ہیں ،ایک لمحہ کے لیے سوچاجائے میدان محشرمیں کس قدردردناک اور اذیت ناک سزاکاسامناہوگا، جوآگ وہ دنیامیں اپنے پیٹ میں پال رہاتھاکل یہی آگ اس کے جسم کے مختف حصوں سے نکل رہی ہوگی اور سارے لوگ اس کوپہچان لیں گے کہ یہ وہی شخص ہے جودنیامیں یتیم کامال کھایاکرتاتھا،جولڑکیوں کومیراث نہیں دیتاتھا،جواپنی بہن کی میراث کوساری زندگی آگ کی صورت میں اپنے پیٹ میں ڈالتارہاآج وہی آگ شعلہ بن کراس کے جسم کو بھسم کررہی ہے ،
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایاجوشخص اپنے وارث کومیراث دلانے سے بھاگےقیامت کے دن اللہ تعالی جنت سے اس کی میراث ختم کردے گا‘‘
ہم دنیامیں نیک اعمال اس لیے کرتے ہیں تاکہ قیامت کے دن ہم کامیاب وسرخرو ہوسکیں اور اللہ کی رضامندی کے ذریعے جنت الفردوس میں جگہ پاسکیں ،اب جوآدمی میراث میں عورتوں کوحصہ نہیں دیتاتو جنت سے اس کاحصہ ختم کردیاجائے گا،جنت میں اس کوجومیراث ملنی ہے اس سے وہ آدمی محروم ہوجائے گا۔
خلاصہ بحث :
حاصل کلام یہ ہے کہ میراث کی منصفانہ تقسیم ضروری اور واجب ہے،بہن اور بیٹی کومیراث میں حصہ دیناشرعاًلازم ہے نہ دینے والے کےلیے قرآن میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اس لیے کوہستان میں جورسم موجود ہے اس سے بچناچاہے درحقیقت کوہستانی قوم شریعت محمدی کے بجائے مشرکین مکہ کے نقش قدم پرچل رہی ،اس فرسودہ رسم کوچھوڑکردین محمدی اور اسلام کی مذہب اعتدال پرچلناچاہیے۔
سفارشات
جن رسومات کاذکر ا س مقالے میں کیاگیاہے یقینا یہ غلط رسومات ہیں ،اسلام اور دین محمد یﷺ سے ان کاکوئی واسطہ اورتعلق نہیں ہے ،جن کی تفصیلی بحث اور شرعی معاشرتی نقصانات کاذکرمقالے میں گزرچکاہے ۔یہاں چندسفارشات پیش خدمت ہیں ۔
• علماء کوچاہیے کہ اخلاص کے ساتھ ان رسومات کی قباحت اور شناعت سے لوگوں کوآگاہ کریں ،کیونکہ علاقائی رسومات میں مشقت اور مشکلات زیادہ ہیں ،اس کے مقابلےمیں اسلام طرز زندگی آسان اور سہل ہے ،اگرلوگوں کو اس پیارومحبت سے سمجھایاجائے اور لوگوں کو یہ بات سمجھ آجائے توجلد ہی یہ رسومات ختم ہوجائیں گئے ۔
• رمضان المبارک اور دیگرتقریبات اور دروس قرآن میں ان رسومات کاذکرکریں ۔
• سب سے پہلے خود اپنے عمل سے ان رسومات کوختم کرکے عملی نمونہ پیش کریں ۔
• اپنے عزیز واقارب کوحسب طاقت منع کریں ۔
• علاقائی سطح پرکمیٹیاں بنائیں جس میں علماء اور مقامی لوگ شامل ہوں جو لوگوں کوان رسومات سے منع کریے ۔
• ضرورت پڑھنے پر ان رسومات پر عمل کرنے والوں سے بائکائٹ کیاجائے ۔