آزاد کشمیر میں تجہیزو تکفین سے متعلق رائج رسومات و بدعات کا شرعی جائزہ

مقالہ نگار: قاضی بلال احمد طور

|

نگرانِ مقالہ: مولانا ڈاکٹر عصمت اللہ

|

|

مقدمہ

 تعارف،اہمیت اور پسِ منظر
الحمد لله على نعمه الظاهرة والباطنة، قديما وحديثا. والصلاة والسلام على نبيه ورسوله محمد وآله وصحبه الذين ساروا في نصرة دينه سيرا حثيثا، وعلى أتباعهم الذين ورثوا علمهم، والعلماء ورثة الأنبياء أكرم بهم وارثا وموروثا.
تمام تر حمدوثنا باری کائنات کے لئے ہیں جو خالق ارض و سما مالک کون و مکاں ہے کہ اُس نے ہمیں انسان اور پھر مسلمان بنایا اور مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی امت میں پیدا کیا ۔ اس رب کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔کیونکہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کو شمار کرنا ناممکن ہے۔ ان تعد نعمت اللہ لا تحصوھا، اور ہماری طاقت سے باہر ہےکہ ہم اس کی نعمتوں کو شمار کر سکیں ۔اگر دنیا جہاں کی تمام مخلوقات اللہ رب العزت کی نعمتوں کا شمار کرنے لگ جائے تو بھی ان کا شمار نہیں کر سکتی۔اور تمام تر درود و سلام نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفٰی ﷺ پر کہ جن کے آنے سے تمام تاریکیاں اُجالے میں بدل گئی۔اور جنہوں نے ہمیں زندگی گزارنے کے راہنما اصول مہیا کیے ۔ یہ کروڑوں درود و سلام کا سلسلہ تا قیامت جاری و ساری رہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اس میں نہ تو زیادتی کی گنجائش ہے اور نہ ہی کمی کی ۔ نبی اکرم ﷺ کے بعد دین مکمل ہو گیا اور اب اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی کی گنجائش نہیں ہے۔اللہ رب العزت کا بنایا ہوا قانونِ فطرت تمام موجودات میں جاری و ساری ہے۔زمین و آسماں میں موجود سب حیوانات ،جمادات و نباتات سب اس کے اس قانون میں جھکڑے ہوئے ہیں ۔اور کسی کو اس میں ترمیم و تنسیح کا اختیار نہیں ہے۔کیونکہ اللہ تعالٰی کاسورۃ المائدہ میں ارشاد ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۔ اس آیت سے دین کا کامل اور اکمل ہونا ثابت ہوتا ہے۔دین کے علم کا اساسی سرچشمہ قرآن مجید ہے، اور عمل کا سرچشمہ اسوہ حَسَنہ ہے جس کی حامل رحمت دو جہاں سرورِ کائنات محمد مصطفٰی ﷺکی ذاتِ گرامی ہے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ، ،لہذا کتاب و سنت میں اس دین کے تمام علمی اور عملی پہلو موجود ہیں ۔اس کے بعد کسی نئی چیز کی ایجاد و اختراح یا اس میں رسم و رواج کی آمیزش اورملاوٹ کی قطعی گنجائش نہیں بچتی ہے۔ورنہ دین میں جب نئی چیزیں آئیں گی تو اس سے دین کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔اور بدعات کا راستہ ہموار ہو گا۔بدعت کی نحوست ،سنت کے نور سے محروم کر دیتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:جب کوئی قوم بدعت ایجاد کر لیتی ہے تو اس کی مثل اس قوم سے سنت اُٹھا لی جاتی ہے، اس لئے چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنا ہی بہتر ہے بہ نسبت نئی نئی بدعات ایجاد کرنے سے۔ لِأَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ” مَا أَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِنْ السُّنَّة مِثْلُهَا ؛ فَتَمَسُّكٌ بِسَنَةِ خَيْرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَةٍ “۔
نبی اکرم ﷺ کے بعد دین مکمل ہو گیا اور اب اس میں کسی قسم کی کمی اور زیادتی کی گنجائش نہیں ہے۔ اب کوئی شخص دین میں کسی نئی چیز کا اضافہ کرتا ہے جس کی تعلیم رسول اللہ ﷺ نے نہیں دی تو گویا وہ اس چیز کا دعویٰ کر رہا ہے کہ دین نامکمل ہے(نعوذ باللہ ) اور میری ترمیم کا محتاج ہے۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نےبدعت کو ضلالت اور گمرائی فرمایا ہے۔ٍآج کل کی تقریبات میں طرح طرح کی رسومات کی قید لگائی جاتی ہے معلوم نہیں کہ یہ کہاں سے آئی ہیں ؟ لیکن اگر ان سے منع کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ :‘‘نئے نئے مولوی آئے ہیں جو ہمیں دین سکھا رہے ہیں ۔کیا ہمارے باپ دادا گمرہ تھے ۔’’ آج کل اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ ان رسومات میں اس طرح پابند ہو چکے ہیں کہ فرض اور واجب کے قضا ہونے کا اتنا غم نہیں ہوتا جتنا اگر ذرا سی بھی کسی رسم میں کوئی کمی کے رہ جانے پر پریشان ہوتے ہیں ۔ اور ان کی تکمیل کے لئے مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دین و دنیا دونوں سے دور ہو جاتے ہیں مگر ان رسومات کو اپنے مقرر مدت میں ہی ادا کرتے ہیں ۔ ان کا رواج عام ہے اس لئے اس کی برائی بھی دل میں برائے نام ہے۔ بلکہ بعض کام کو باعثِ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں ۔اور چونکہ اس کا انجام دنیا اور آخرت دونوں میں ناکامی کا سبب ہے اس لئے اس پر مطلع کرنا لازمی تھا ۔اس لئے اس تحقیق کا موضوع ‘‘ آزاد کشمیر میں تجہیزو تکفین سے متعلق رائج رسومات و بدعات کا شرعی جائزہ’’ رکھا گیا ہے۔
• بنیادی سوال:
آزاد کشمیر میں تجہیزو تکفین سے متعلق رائج رسومات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ان رسومات کا شرعیت میں کیامقام ہے؟
 سابقہ کام کا جائزہ
رسومات کے حولے سے مختلف لوگوں نے کام کیا ہے اور اسی طرح جنازے میں ہونے والی رسومات کے بارے میں مختلف کُتب میں مختصراً لکھا گیا ہے۔ لیکن ان میں زیادہ تفصیلات درج نہیں ہیں۔وہ کتب یہ ہیں۔
رسمِ مرگ (عبدالکریم اثری )
جنازے کے مسائل (فضل الرحمٰن بن محمد)
بدعت کا انسائیکلوپیڈیا۔ (مولانا محمد آصف)
احکامِ میت۔ (مولانا ڈاکٹر عبدالحئ ؒ)
مسائل میت ۔(مولانا محمد رفعت قاسمی)
بدعات اور ان کا شرعی پوسٹمارٹم۔(علامہ شیخ احمد بن حجر،قاضی دوحہ قطر)
لیکن خاص کشمیر کی رسومات کے بارے میں کوئی کتاب بھی میسر نہیں ہو سکی ۔اسی وجہ سے اس موضوع پر تحقیق کرنا شروع کی ہے۔
• منہج تحقیق :
اس تحقیقی مقالہ کا منہج بیانیہ ہو گا، جس میں آیاتِ قرآنی، احادیث ، اقوال صحابہ کا ذکر کیا جائے گا۔
اورمختلف علماء اور فقہاء کی آراء بیان کی جائیں گی۔
اس بارے میں مختلف فتاویٰ جات۔

• خاکہ تحقیق:
اس مقالہ کے پانچ ابواب ہیں ۔پہلے باب میں رسومات اور بدعاتکے بارے میں تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔جبکہ دوسرے باب میں آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین سے قبل کی رسومات و بدعات کے متعلق بحث کی گئی ہے ۔ تیسرے باب میں آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین کے دوران کی رسومات و بدعات کا ذکر کیا ہے اور چوتھے باب میں آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین کے بعد کی رسومات و بدعات کا ذکر کیا ہے ۔اسی طرح پانچویں باب میں شرعی طریقہ تجہیز و تکفین کے بارے میں لکھا ہے۔ آخر میں خلاصہ تحقیق اور سفارشات وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اور پھر فہرست آیات و احادیث اور مصادر و مراجع ذکر کئے ہیں ۔

باب اول

رسومات اور بدعات کی تعریفات و اقسام

فصل اول :رسوم کی تعریف
رسم کے لغوی معنیٰ :
رَسْم : ر س م ، رَسْم {رَسْم عربی زبان کا لفظ ہے۔جوعربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے اسم مشتق ہے۔ اردو میں اصل معنی اورساخت کے ساتھ داخل ہوا۔ سب سے پہلے 1635ء میں “سب رس” میں مستعمل ملتا ہے۔
صیغہ :اسم نکرہ (مؤنث – واحد)
اس کی جمع رسمیں ہے۔ {رَس + میں (ی مجہول)}
جمع استثنائی رسوم اور رسومات ہے۔ رَسُوم {رَسُوم} رَسُومات {رَسُو + مات}
جمع غیر ندائی: رَسْموں {رَس + موں (و مجہول)}
رسم کیا ہے؟
رسم کے معنیٰ ریت، رواج، دستور اور مروجہ طور طریقےکے ہیں ۔ اُردو زبان لشکری ہونے کی وجہ سے اس میں عربی کے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں ، اسی لیے اُردو زبان میں منتقل ہونے کے بعد یہ الفاظ آئین ،قانون ، عادت اور چال چلن کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح اس کے اور بھی مختلف معنیٰ ہیں جیسا کہ: ‘‘ طور، طریقہ، روش، قاعدہ ،اصول،ربط، میل جول، تعلق، نقش، نشان، رقم، تحریر، نوشت،تنخواہ، مشاہرہ اور وظیفہ وغیرہ’’ بھی رسم کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ۔
رسم کی جمع رسوم ہے اور یہ لفظ عام معاملات کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے ، خواہ وہ اچھے معاملات ہوں یا برے۔ اردو زبان میں بُرے رواجوں کو رسوم کہتے ہیں مگر عربی زبان میں یہ لفظ عام ہے، اچھے اور بُرے دونوں رواجوں کو شامل ہے ۔
مترادفات:
ریت، رِواج، چَلَن، دَسْتُور، قاعِدَہ، اُصُول، نَقْش، تَحْرِیر، تَنْخَواہ، مُعاوَضَہ، ڈھال، دھَرْم، رَہَن، تَقْرِیب، آن،وغیرہ بھی اس کے مترادف الفاظ ہیں ۔
رسم کےاصطلاحی معنیٰ :
اصطلاحی معنوں کے لحاظ سےرسم کا اطلاق ارتفاقات ‘‘مفید تدبیر ’’پر کیا جاتا ہے۔یعنی لوگوں میں جو طور طریق رائج ہیں وہی ارتفاقات ہیں ۔
فقہاء اور اصولین کی اصطلاح میں لفظ‘‘ رسم’’ الگ حیثیت کے ساتھ ذکر نہیں ہے بلکہ ‘‘عادت ’’ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
منطق میں رسم سے مرادکسی چیز کی عرضیات کے ساتھ تعریف کرنا رسم کہلاتا ہے ۔
تصوف میں رسم کہتے ہیں خلق اور صفات کو اس لیے کہ رسوم، آثار کو کہتے ہیں اور تمامی ماسویٰ اللہ آثار حق ہیں کہ جو ناشی ہیں افعال حق سے ۔
رسم کی تعریف :
رسم سے مراد کسی جگہ کے طور طریقے ہیں جو وہاں پر رائج ہیں اور جس پر وہاں کے رہنے والے عمل کرتے ہیں ۔

فصل دوم :رسومات کی شرعی حیثیت
رسم و رواج اس وقت شرعی حیثیت کا حامل ہو گا جب اسے کسی معاشرے میں ضروری خیال کر کے اسکی پابندی کی جاتی ہو اور وہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہو۔ تاہم معاشرے کے کسی ایک طبقے، پیشے یاکسی خاندان ، فردیا غالب تہذیب کو تحفظ دینے کی خاطرکسی طرح کا رسم و رواج قابل قبول نہ ہوگا جیسے برہمن کی بالادستی عرف و رواج کے باوجودخلاف شریعت ہوگی ۔
شیخ محمد بن الحسین الجزانی:
مسلمان مبلغین و کارکنان اسلام کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ مقامی و علاقائی رسوم کے معاملے میں تحمل کا رویہ اختیار کریں اگرچہ وہ رواج ان (کی عمومی روایات )کے لئے اجنبی ہی ہوں۔چناچہ حلال رسوم و رواج اور بدعات کی تفریق کا علم ہوناان پر لازم ہوجاتا ہے۔ یہاں ہم چند وضاحتیں پیش کریں گے جنکی روشنی میں اس تفریق کا طریقہ کار وضع ہو سکے گا۔
اسلامی قانون کا ایک عمومی اصول یہ ہے کہ ثقافتی اور عمومی رسوم جائز ہیں۔
اس اصول کے مطابق یہ اجازت تمام رواج کیلئے قائم رہے گی الا یہ کہ کوئی دوسری صورت درپیش ہوجائے۔اس دوسری صورت میں بھی کسی رسم کو گناہ یا ناجائز قرار دینے سے پہلے ثبوت دینا ہوگا۔اگر کچھ ثقافتی معمولات ایسی باتوں سے منسلک ہیں جو پہلے ہی سے اسلام میں گناہ قرار دیے جاچکے ہیں تو اس صورت میں وہ معمولات بجائے خودناجائزہونگے۔مثلا مردوں کا سونا اور ریشم پہننا یاایسے مروجہ دستور جو کسی حرام کی طرف راستہ پیدا کرتے ہوں۔ البتہ ایسے کسی ثبوت کی عدم موجودگی میں جو ایک چیز کو واضح طور پر حرام ٹھہراتا ہو،تمام رسوم ورواج کو جائز تصور کیا جائے گا۔
واضح رہے یہ اصول ان تمام روایات کیلئے ہیں جو رسوم ِعبادات سے متعلق نہیں ہیں!
عبادات سے متعلق معاملات البتہ اس کھلی اجازت کے حکم کے تحت نہیں آتے۔ بلکہ اس اصول کے عین بر عکس عبادات کیلئے مخصوص تمام اعمال ناجائز ہونگے الا یہ کہ قرآن وحدیث کی کسی نص سے ان کا جائز ہوناثابت ہوتا ہو۔
جو معاملات کھلی اجازت والے اصول کے دائرہ کار میں آتے ہیں ان میں گھر یلو بندوبست ،سواری کے انتظام،لباس کے انداز،خوراک و طعام،شادی بیاہ کے رسوم اورمعاہدوں سے متعلق قوانین شامل ہیں۔
رِواج ا ور بدعات کے درمیان فرق کیسے معلوم ہو؟ بہت سے ایسے معمولات لوگ اس لئے انجام دیتے ہیں تاکہ اللہ عز و جل کی خوشنودی حاصل کرسکیں،تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مروجہ معمولات ناجائز بدعات کے زُمرے میں آتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عبادت کا وسیع تر مفہوم بطور ”اللہ کو خوش کرنے کے لئے اچھے اعمال کرنا “ اور عبادت کے مخصوص مراسِم و آدابِ پرستش کے مابین امتیاز کو ملحوظ رکھیں۔
عام معمولات عوام الناس کی عقلی توجیہات و تدبیرات کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں، انسانی فہم اور عادات جن کا اہم جزو ہوتے ہیں۔ ان سب میں اچھے اعمال کرنے کے کل عام طریقے آجاتے ہیں۔ جیسے صدقات دینے کیلئے جدید دور کی کرنسی استعمال کرنا یا بچت کی خاطر آس پڑوس کے احباب کو ایک ہی گاڑی میں( مسجد وغیرہ)لانے لے جانے کا انتظام کرنا، یہ سب بدعات نہ ہوں گی۔
دوسری طرف عبادات کیلئے مخصوص اعمال،جیسے نماز کی حرکات و سکنات، اوقاتِ ادائیگی ، تعدادِ رکعات،روزہ کونسے مہینے میں رکھا جائے،حج کے ارکان اور مقامِ حج وغیرہ محض انسانی عقل سے حاصل نہیں کئے جاسکتے ۔ ان کے لئے صرف وحی سے ہی ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے۔
چناچہ ہمارے سامنے مندرجہ ذیل لائحہ عمل واضح ہوجاتا ہے؛
1۔ اگر کوئی روزمرہ کے کام اللہ سبحانہ و تعالی کی خوشنودی کی خاطر ادا کئے جائیں، تو یہ عبادت کے وسیع تر مفہوم کے تحت آئیں گے، مخصوص عبادت کی تعریف میں البتہ نہیں۔ یہ وہ اعمال ہیں جو اگر نیک اور خالص نیت سے (مستندطور کی) اچھائی کیلئے کئے جائیں تو ثواب بھی حاصل ہوگا۔ اس میں ہر وہ عمل شامل ہوگا جس سے نیکی کرنے میں مدد ملتی ہو۔
2۔ ایسی کوئی رسم جو مخصوص عبادات کے اعمال سے مشابہت رکھتی ہو، (ناجائزہوگی اور) بدعت کے درجے میں آئے گی!مثلابظاہر کسی جائز عبادت کیلئے ازخودایام مخصوص کردینایا مذہبی جشن (دو عیدوں کے علاوہ)اختراع کرنا۔ اس زمرے میں ایسے تمام اعمال آتے ہیں جن کا اسلامی رسوم کے قوانین سے بالواسطہ تعلق بنتا ہویا ایسے اعمال جن کی مشابہت دور جاہلیت کی رسوم ورواج سے ہوتی ہو۔چناچہ میت پر باقاعدہ ماتم کی رسم بدعت ہوگی۔اسی طرح مذہبیت میں انتہا پسندی بھی اسی درجے میں آئے گی مثلا رہبانیت اختیار کرنا ۔ بالطبع معمولی اعمال جو عبادت سے کسی طور مخصوص نہیں حلال اورجائز ہیں الا یہ کہ کتاب وسنت کی کوئی نص ان کو خصوصی طور پر ناجائز ثابت کرتی ہو۔

فصل سوم : بدعت کی تعریف و اقسام
بدعت کی لغوی تعریف:
بدعت کے لغوی معنٰی کوئی شے ایجاد کرنا یا بنانا ہے۔
بدعت کی اصطلاحی تعریف:
ہر وہ طریقہ جو نبی اکرم ﷺ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ؒ اور تبع تابعین کے دور میں نہ ہو اس کو ثواب سمجھ کر کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں ۔
بدعت کی مختلف تعریفات:
در محتار میں لکھا ہے کہ: ھی اعتقادخلاف المعروف عن الرسول ﷺ لا بمعاندۃ بل بنوع شبھۃ ۔
ترجمہ: جو چیز رسول اللہ ﷺ سے معروف و منقول ہے اس سے خلاف کا اعتقاد رکھنا ،ضد و عناد کی بنیاد پر نہیں بلکہ کسی شبہ کی بنا پر۔
اور علامہ شامی ؒنے علامہ شمسی ؒ سے بدعت کی تعریف ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ ما احدث علی خلاف الحق المتلقی عن رسول اللہ ﷺ من علمٍ او عملٍ او حال بنوع شبھۃ واستحسان ،وجعل دینا قویما وصراطاً مستقیماً ۔
ترجمہ: جو علم ،عمل یا حال اس حق کے خلاف ایجاد کیا جائے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے، کسی قسم کے شبہ یا استحسان کی بنا پر اور پھر اسی کو دینِ قویم اور صراطِ مستقیم بنا لیا جائے، وہ بدعت ہے۔
هُوَ زِيَادَةٌ فِي الدِّينِ أَوْنُقْصَانٌ مِنْهُ ۔ ترجمہ: دین میں کمی پیشی کو بدعت کہتے ہیں ۔
بدر الدین عینی بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : والبدعة في الأصل أحداث أمر لم يكن في زمن رسول الله ۔ بدعت دراصل کسی ایسی چیز کو وجود میں لانا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نہیں تھی۔
امام بغوی نے شرح السنہ میں بدعت کی تعریف اس طرح کی ہے: أحداث ما لم يكن في عهد رسول الله ۔ یعنی ‘‘وہ طریقہ ایجاد کرنا جو رسول اللہ کے دور میں نہ ہو’’۔
لہذا بدعت سے مراد : ہر وہ طریقہ جو نبی اکرم ﷺ ، صحابہ کرام ؓ ، تابعین ؒ اور تبع تابعین کے دور میں مرّوج نہ ہو اس کودینی عمل سمجھ کر یا ثواب سمجھ کر کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں ۔
بدعت کی اقسام:
فقہاء نے بدعت کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔
1) بدعت اصلی
2) بدعت اعتقادی
3) بدعت شرعیہ
4) بدعت اضافی
5) بدعت عملی
6) بدعت لغویہ
بدعت اصلی (حقیقی)
جس کا وجود آپ ﷺ کے زمانے میں سرے سے ہی نہ ہو ۔جیسے برسی منانا ،عرس کرنا ،میلاد کے جلوس اور قوالی وغیرہ۔
بدعت اعتقادی
بدعت اعتقادی سے مراد ایسےعقائد و نظریات جو آنحضرتﷺ، صحابہ اور تابعین کےخلاف ہوں ۔
بدعت شرعیہ:
بدعت شرعیہ یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کو دین میں داخل کر لیا جائے جس کا کتاب و سنت ،اجماعِ امت اور قیاس ِمجتہد سے کوئی ثبوت نہ ہو۔
بدعت اضافی (وصفی)
جو کام اصلاً تو کسی شرعی دلیل سے ثابت ہو ،لیکن اس کے ساتھ یسے اوصاف یا کیفیات کا اضافہ کر دیا جائے جس کی وجہ سے وہ نا جائز ہو جائے۔مشلاً آذان اصلاً تو ثابت ہے لیکن نماز جنازہ کے لئے یا تدفین کے بعد قبر پر آذان دینا بدعت ہے۔
بدعت عملی
بدعت عملی یہ ہے کہ کسی عقیدے میں تو تبدیلی نہ ہو لیکن بعض اعمال ایسے اختیار کئے جائیں جو سلف صالحین سے منقول نہیں۔
بدعت لغویہ:
بدعت لغویہ ایسی بدعت جن کا وجود آنحضرت ﷺ کے زمانے میں نہیں تھا ، جیسے ہر زمانے کی ایجادات ۔ان میں سے بعض اشیاء مباح ہیں جیسے ہوائی جہازکا سفر کرنا وغیرہ ۔ بعض حرام ، بعض واجب اور کچھ مکروہ ہیں ۔

فصل چہارم : بدعت کی شرعی حیثیت
بدعت، آیاتِ قرآنی کی روشنی میں:
بدعتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں :ومن یبتغ غیر الاسلام ِ دیناً فلن یقبل منہ ۔
ترجمہ : جو کوئی اسلام کو چھوڑ کر کسی اور نہج اور طریقے کو اختیار کرے گا تو یہ چیز اس سے قبول نہیں کی جائے گی۔
بدعت، احادیث ِنبویﷺ کی روشنی میں:
احادیث میں کثرت سے بدعت اوراس کے ایجاد کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔

  1. صحیح بخاری کی حدیث ہے جس میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی ،یا کوئی ایسا عمل کیا جو نبی اکرم ﷺ کے حکم سے ثابت نہیں ہے وہ مردود ہے۔ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ» ۔
    ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی ،یا کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے حکم سے ثابت نہیں ہے وہ مردود ہے۔
  2. ایک خطبہ میں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :بد ترین امور وہ کام ہیں جو لوگ اپنی طرف سے کر لیں ،اور ہر نئی چیز بدعت ہے ، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ فَإِنَّ شَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا ، وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ۔
  3. ایک جگہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :خبردار بدعت کے کاموں سے بچ کے رہنا۔ أَلاَ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ ۔
  4. نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی حرمت کو پیش نظر رکھ کر فرمایا کہ : یہاں سے درخت نہ کاٹے جائیں ، اور نہ ہی کوئی نئی بدعت ایجاد کی جائے،جس نے کسی بدعت کو جنم دیا اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی اور تمام انسانیت کی لعنت ہو۔ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: المَدِينَةُ حَرَمٌ مِنْ كَذَا إِلَى كَذَا، لاَ يُقْطَعُ شَجَرُهَا، وَلاَ يُحْدَثُ فِيهَا حَدَثٌ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ “
  5. اسی طرح ایک حدیث میں بدعتی کو ٹھکانہ(پناہ ) دینے والے پر بھی لعنت کی گئی ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کی کوئی فرض اور نفل نماز قبول نہیں ہو گی،اور نہ اس کی کوئی سفارش قبول ہو گی اور نہ اسکی طرف سے فدیہ قبول ہو گا۔ اس حوالہ سے سنن ابن ماجہ میں ہے کہ :بدعتی نہ صرف خود اپنے عمل کے گناہ کا مستحق ہو گا بلکہ جتنے لوگ بھی اس کی پیروی کریں گے یا اس بدعت کو اپنائیں گے ان کی سزا اس کو بھی ہو گی جس نے اس کو ایجاد کیا ، اور کرنے والے سے اسکی سزا کم نہ ہو گی۔ عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:« مَنْ سَنَّ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا، لَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا »
    بدعت فقہاء کی نظر میں
    محدثین کے نذدیک بدعتی شخص کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ : والبدعۃ اصلھا ما احدث علیٰ غیر مثال سابق وتطلق فی الشرع فی مقابل السنّۃ فتکون مذموم ۔
    بدعت اصل میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بغیر کسی سابق مثال اور نمونے کے ایجاد کی گئی ہو ۔اور شریعت میں بدعت کا اطلاق سنت کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔لہذا وہ مذموم ہو گئی۔
    بعض فقہا کے نذدیک بدعتی شخص کے پیچے نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
    حضرت امام حسن بصری ؒفرمایا کرتے تھے کہ :بدعتی کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا نہ رکھو یہ دل کو بیمار کرتا ہے ۔ وعن الحسن لا تجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك ۔
    حضرت ابو قلابہ ؒفرماتے ہیں کہ :بدعتی مباح الدم ہے۔ وعن ابي قلابة ما ابتدع رجل بدعة الا استحل السيف ۔
    حضرت امام اوزاعی ؒ کا قول ہے کہ بدعتی سے گفتگو بھی نہ کرو ، نہ ہی اس سے بحث کرو ، وہ تمہارے دل میں فتنے کے بیج بو دے گا۔ وعن الأوزاعي قال لا تكلموا صاحب بدعة من جدل فيورث قلوبكم من فتنته ۔
    بدعت کے نقصانات:
    دین کو سب سےزیادہ نقصان پہنچانے والی چیز بدعات ہیں ،کیونکہ ان کو نیکی اور ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے اوربدعتی اس کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ جب دین میں نئی چیزیں آئیں گی تو اس سے دین کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا،اور بدعات کا راستہ ہموار ہو گا۔بدعت کی نحوست ،سنت کے نور سے محروم کر دیتی ہے۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:جب کوئی قوم بدعت ایجاد کر لیتی ہے تو اس کی مثل اس قوم سے سنت اُٹھا لی جاتی ہے، اس لئے چھوٹی سے چھوٹی سنت پر عمل کرنا ہی بہتر ہے بہ نسبت نئی نئی بدعات ایجاد کرنے سے۔ لِأَنَّ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ” مَا أَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَةً إِلَّا رُفِعَ مِنْ السُّنَّة مِثْلُهَا ؛ فَتَمَسُّكٌ بِسَنَةِ خَيْرٌ مِنْ إِحْدَاثِ بِدْعَةٍ “
    حضرت امام حسن بصری ؒفرمایا کرتے تھے کہ :بدعتی کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا نہ رکھو یہ دل کو بیمار کرتا ہے ۔ وعن الحسن لا تجالس صاحب بدعة فإنه يمرض قلبك ۔
    حضرت ابو قلابہ ؒفرماتے ہیں کہ :بدعتی مباح الدم ہے۔ وعن ابي قلابة ما ابتدع رجل بدعة الا استحل السيف ۔
    حضرت امام اوزاعی ؒ کا قول ہے کہ بدعتی سے گفتگو بھی نہ کرو ، نہ ہی اس سے بحث کرو ، وہ تمہارے دل میں فتنے کے بیج بو دے گا۔ وعن الأوزاعي قال لا تكلموا صاحب بدعة من جدل فيورث قلوبكم من فتنته ۔

باب دوم:

آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین سے قبل کی رسومات وبدعات

فصل اول :میت کو غسل دینے سے قبل کی رسومات

روح نکلنے سے قبل کے وقت کو نزع کی حالت کہتے ہیں ۔ یہ وقت بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو اس تکلیف سے محفوظ رکھے۔آمین!
جب مرنے والا نزع کی حالت میں ہوتا ہے اس وقت اس کے پاس گھر کے لوگ شور شرابا شروع کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کو سخت تکلیف ہوتی ہے ۔اوراس وقت دیگر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں کہ اس مرنے والے کا دھیان اس شور کی طرف لگ جاتا ہے ۔جبکہ اس وقت خاموشی اختیار کرنا لازمی ہے اور اس کے پاس سورۃ یاسین کی تلاوت کرنی چاہیے تاکہ اس کی روح آسانی سے پرواز ہو، اورنرمی کے ساتھ کلمہ (لا الہٰ الا اللہ)کی تلقین کی جائے تا کہ اس کا زبان سے جاری ہونے والا آخری لفظ کلمہ شھادت ہو۔اور اس کا خاتمہ ایمان کی حالت میں ہو۔اور پھر اس کا چہرہ قبلہ رخ کر دیا جائے۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ:۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ »
ترجمہ: حضرت معاذبن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
اور نبی اکرم ﷺ نے مرنے والے کے پاس تلقین کا حکم دیا ہے۔ارشاد گرامی ﷺ ہےکہ:۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ »۔
ترجمہ:۔ حضرت ابو ہریرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے مرنے والے کو لاالہ الااللہ کیتلقین کرو۔
تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ مریض کے پاس اُونچی آواز میں کلمہ شہادت پڑھا جائے،تا کہ وہ بھی سن کر پڑھ لے۔ اس کو کلمہ پڑھنے کا نہ کہا جائے ،ایسا نہ ہو کہ وہ موت کی سختی کی وجہ سے اس کا انکار کر دے ۔کیوں کہ اس حالت میں مریض بہت سخت تکلیف ہوتا ہے۔
ایک رسم یہ ہے کہ جب میت کے بارے میں یہ تسلی ہو جائے کہ اس کی روح پرواز کر گئی ہے ،اس کے بعد میت کو گھر کے کسی بڑے کمرے یا صحن میں رکھا جاتا ہے۔ اور اس کے پاس محلے کی خواتین وغیرہ جمع ہوتی ہیں ،جن کا کام اس میت کے پاس زور زور سے رونا اور پیٹنا ہے۔ اگر کوئی عورت نہ روئے تو بعد میں اس کے بارے میں یہ (کمنٹس ) کہا جاتا ہے کہ اس کو تو کوئی غم نہیں ہوا ،دیکھو وہ تو روہی نہیں رہی تھی ۔ اور اگر کوئی صحیح روئے تو اس کے بارے میں اچھا خیال کیا جاتا ہے کہ اس کو بہت دکھ ہوا ہے وغیرہ۔ اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ تھک نہ جائیں بعد میں دیگر خواتین بھی آ کر اسی طرح کی حرکات کرتی ہیں ، جس سے وہاں کا سارا ماحول خراب ہوتا ہے۔
اس موقع پر ان کو چاہیے کہ وہ صبر کریں اور اہل خانہ کو بھی صبر کی تلقین کریں نہ کے خود ان سے زیادہ رونا دھونا شروع کر دیں ۔ اس موقہ پر صبر کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔

تجہیز و تکفین میں تاخیر کرنا
ان خرافات کی وجہ سے تجہیز و تکفین کے عمل میں تاخیر آتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے تجہیز و تکفین میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جب کوئی مسلمان شخص فوت ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ ادا کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور تاخیر نہیں کرنی چاہئے،اور جب جنازہ پڑھ لیا جائے تو اسے جلدی جلدی دفن کر دینا چاہئے۔ اور ان دونوں امور کے بارے میں حدیث سے ثابت ہے:
نبی کریم ﷺنے سیدنا علی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: «ثَلاثٌ لا تُؤَخِّرْهَا : الصَّلاةُ إِذَا حَانَتْ , وَالْجَنَازةُ إِذَا حَضَرَتْ , وَالأَيِّمُ وَإِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا »
ترجمہ :۔ تین چیزوں کو لیٹ نہ کرنا:نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے،جنازہ کو جب وہ آ جائےاور لڑکی کی شادی کو جب اس کا کوئی کفو مل جائے۔
حکم شریعت یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:
سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: «أَسْرِعُوا بِالجَنَازَةِ، فَإنْ تَكُ صَالِحَةً، فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا إلَيْهِ، وَإنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ .»
ترجمہ :۔ تم جنازہ کے ساتھ جلدی کرو، کیونکہ اگر تو وہ نیک آدمی ہے تو جہاں تم اسے لے کر جا رہے ہو وہ جگہ اس کے لئے ایک بہترین جگہ ہے، اور اگر وہ نیک نہیں ہے تو اٹھائی ہوئی شر کو جلدی سے اپنے کندھوں سے اتار دو۔
لہذا ان سے بچنا لازم ہے۔تا کہ میت کی تجہیز و تکفین میں تاخیر واقع نہ ہو۔

فصل دوم :میت کو غسل دینے سے متعلق رسومات
1) غسل دیتے وقت میت کا ستر دیکھنا
جب غسل دینے کا وقت آتا ہے اس وقت میت کو غسل دینے کے لئے گھر کا کوئی آدمی تیار نہیں ہوتا ،کیونکہ ان کو اس کا طریقہ ہی نہیں آتا جس کی وجہ سے بعض اوقات ایسا آدمی غسل دیتا ہے جس کو غسل کا طریقہ نہیں آتا ،یا میت کو غسل دینے کے لئے امام صاحب کو بلایا جاتا ہے ، اور پھر امام صاحب میت کو غسل دیتے ہیں ،یا کوئی اور آدمی جس کو غسل کا طریقہ آتا ہو وہ غسل دیتا ہے،اور اس کی رقم وصول کرتے ہیں ۔
میت کو غسل دینا فرض کفایہ ہے۔ اور اگر ایک آدمی کے علاوہ کسی کو طریقہ نہ آتا ہو تو اس وقت اس شخص پر واجب ہے کہ وہ میت کو غسل دے۔ اور اس صورت میں غسل دینے کی رقم وصول کرنا درست نہیں ہے۔ زیادہ بہتر اس میں یہی ہے کہ میت کو ورثاء میں سے کوئی غسل دے۔ اوراس کی اجرت نہ لے۔ احادیث میں میت کو غسل دینے کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔
غسل دیتے وقت ایک چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ کچھ لوگ میت کو استنجاء کراتے وقت یا غسل دیتے وقت بلا ضرورت میت کا ستر دیکھتے ہیں،یا اس کو برائے راست ہاتھ لگاتے ہیں ۔مردے کے ستر کو ڈھکنا واجب ہے ۔لہذا کسی کے لئے بھی یہ حلال نہیں ہے کہ وہ میت کے ستر کو دیکھے۔اور اسی طرح غسال کے لئے واجب ہے کہ اس کے ستر کو نہ چھوے ،بلکہ ہاتھ پر کپڑا وغیرہ لپیٹ کر اس کو استنجا ء کروائے۔کیونکہ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے،لہذا اس سے بچنا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالٰی نے اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ : قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۔
ترجمہ:۔ اے نبی ﷺ مومنوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
یہاں پر مؤمنین کو نظروں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔لہذا غسل دیتے وقت میت کا ستر نہ دیکھنا بھی نظروں کی حفاظت میں آتا ہے۔اور نبی اکرم ﷺنے مرد کو مرد کا ستراور عورت کوعورت کا ستر دیکھنے سے منع فرمایا۔
چنانچہ ارشاد گرامیﷺ ہے :۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ، »
ترجمہ:۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ:کوئی مرد کسی مرد کا ستر نہ دیکھےاور کوئی عورت کسی عورت کا ستر نہ دیکھے۔
یہاں پر مرد کو مرد کے ستر اور عورت کو عورت کے ستر دیکھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مردیا عورت کسی کا ستر نہ دیکھے اگرچہ وہ میت ہی کیوں نہ ہو۔
لہذا غسل دیتے وقت میت کا ستر ڈھکا ہوا ہونا چاہیے ۔ستر کی مقدار ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔اس حصے پر کوئی موٹی چادر یا موٹا کپڑا ڈال دیا جائے تا کہ ستر ڈھک جائے۔

2) سرمہ لگانا اور سر اور داڑھی میں کنگھی
اسی طرح ایک رسم یہ ہے کہ جب میت کو غسل دے دیا جاتا ہے تب میت کی آنکھوں میں سرمہ لگایا جاتا ہے ۔ اور سراور داڑھی کے بالوں میں کنگھی کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر ناخن ،زیرناف بال اور بغلوں کے بال بڑھے ہوئے ہوں تو ان کو بھی کاٹا جاتا ہے ۔ اور مونچھوں کے بال بھی مونڈے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا مکروہ ہے۔
جس حالت میں اس کی وفات ہوئی ہے اسی حالت میں اس کی تدفین کی جائے۔ میت کے بالوں میں نہ ہی کنگھی کی جائے اور اس کے ناخن اور بال بھی نہ کاٹے جائیں ،ہاں اگر کوئی ناخن خود ہی ٹوٹ جائے تو اس کو علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
حاشیہ ابن عابدین میں ہے کہ: وَلَا يُسَرَّحُ شَعْرُهُ أَيْ يُكْرَهُ تَحْرِيمًا وَلَا يُقَصُّ ظُفْرُهُ إلَّا الْمَكْسُورُ وَلَا شَعْرُهُ وفی الشامی عن الْقُنْيَةِ مِنْ أَنَّ التَّزْيِينَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَالِامْتِشَاطَ وَقَطْعَ الشَّعْرِ لَا يَجُوزُ نَهْرٌ، فَلَوْ قُطِعَ ظُفْرُهُ أَوْ شَعْرُهُ أُدْرِجَ مَعَهُ فِي الْكَفَنِ ۔
ترجمہ:۔ اس کے بالوں میں کنگھی بھی نہ کی جائے کیونکہ یہ مکروہ تحریمی ہے، اور اس کے ناخن بھی نہ کاٹے جائیں اِلّایہ کہ کوئی ناخن خود ہی ٹوٹ جائےاور بال بھی نہ کاٹے جائیں ، شامی میں قنیہ سے روایت ہے کہ میت کی موت کے بعد تزئین ، کنگھی کرنا اور بال کاٹنا جائز نہیں ہے۔ پس اگر اس کے ناخن یا بال کاٹ لیے جائیں تو اس کے کفن میں اس کے ساتھ رکھ دیئے جائیں۔

فصل سوم : کفن سے متعلق
میت کےترکہ میں سےسب سے پہلے تجہیز و تکفین پر خرچ کیا جائے۔اور کفن کاکپڑا سفید ہو تو یہ زیادہ بہتر ہے اورپسندیدہ ہے۔میت کو اس کی حیثیت کے مطابق کفن دیا جائے۔نہ زیادہ مہنگا ہو کہ جس میں اسراف ہو، اور نہ ہی زیادہ گھٹیا کہ جس سے میت تحقیر و تذلیل ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے میت کو اچھا کفن دینے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُحَسِّنْ كَفَنَهُ »
ترجمہ : نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا : جب تم میں کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اسے اچھا کفن دے۔
لہذا میت کواچھا کفن دیا جائے جو نہ تو زیادہ مہنگا ہو اور نہ ہی گھٹیا کفن دیا جائے بلکہ درمیانہ ہو۔
1) کفن سے کپڑا بچا کر جائے نماز بنانا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ کفن سے کچھ کپڑا بچا کر رکھ لیتے ہیں ،جس کو بعد جائےنماز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس پرامام نمازِجنازہ پڑھاتا ہے۔ کفن سے کپڑا بچا کر اس کی جائے نماز بنانا درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ کفن کا حصہ ہے۔اور نہ ہی اس کو کفن کا حصہ سمجھا جائے۔کیونکہ احادیث اور فقہ کی کُتب میں کفن کی جو صراحت بیان ہوئی ہے اس میں جائے نماز کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ۔
الدر المختار میں ہے کہ:۔ ویسن فی الکفن ازار و قمیص و لفافۃ ۔۔۔۔الخ ۔
ترجمہ:۔ کفن میں ازار قمیص اور لفافہ مسنون ہے۔
اس لئے اس کو میت کے ترکہ سے خریدنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس سے بھی وارثین کے حق میں بھی تلفی ہو گی اور فضول خرچی بھی ۔ لہذا اس کپڑے کو میت کے مال سے نہ خریدا جائے ۔
2) کفن دینے کے بعد
کفن دینے کے بعدچارپائی پر گدا وغیرہ رکہا جاتا ہے اور میت کے اوُپر کمبل یا رضائی وغیرہ بھی رکھی جاتی ہے تا کہ میت کو سردی نہ لگے۔ کفن دینے کے بعدچارپائی پر گدایا چٹائی وغیرہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ صرف کفن کے ساتھ اُٹھا کر چارپائی پر رکھ دینا ہی کافی ہے۔ لیکن اگر اشد ضرورت ہو تو تب جو چیز میسر ہو اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور بعد میں اس کو ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اور اسی طرح جنازے کے اُو پر ایک چادر بچھائی جاتی ہے جس پر کلمہ شھادت، چاروں قل ، آیت الکرسی اور قرآنی آیات وغیرہ لکھی ہوتی ہیں ۔ اور اس کو میت پر ڈالنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ وہی چادر ہوتی ہے جس کوبعد تدفین ِمیت قبر وغیرہ پر بھی ڈالا جاتا ہے ۔ اور درباروں پر بھی اسی چادر کو ڈالا جاتا ہے۔ جو اس کے ادب و احترام کے خلاف بھی ہے اور اس سے قرآنی آیات کی بے حرمتی بھی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا استعمال بھی درست نہیں ہے۔ علامہ ابن عابدین ؒ اس کو مکروہ فرماتے ہیں:۔ تُكْرَهُ السُّتُورُ عَلَى الْقُبُورِ ۔
مردوں سے زیادہ زندہ لوگ اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ لہذا ان پر چادریں چڑھانے سے بہتر ہے کہ اُن لوگوں کو اسی رقم سے کپڑے لے کر دے دیے جائیں جو کپڑےخریدنے کی طاقت نہیں رکھتے، اور عید کے موقہ پر بھی پرانے کپڑے استعمال کرتے ہیں ۔ غریب لوگ اس سے زیادہ اس کے مستحق ہیں بنسبت ان کے۔ البتہ عام سفید رنگ کی چادرجو پاک بھی ہووہ ڈالی جا سکتی ہے ۔ لیکن سفید چادر نہ ہو تو جو چادر میسر ہو چاہےکسی بھی رنگ کی ہو اس کو ڈال دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
3) کفن پر پھولوں والی چادر ڈالنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ بعض لوگ میت پر کفن کے اُوپر پھولوں والی چادر یا پھول ڈالتے ہیں جو کہ بدعت ہے ۔ کہیں سے بھی میت کےکفن پر پھول ڈالنا ثابت نہیں ہے۔ یہ ناجائز عمل ہے اس سے بچنا لازمی ہے ۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے دور میں، خلفائے راشدینؓ کے دور میں ،صحابہ کرام ؓ کے دور میں اور تابعین ؒکے دور میں یہ طریقہ نہیں تھا حتٰی کہ تبع تابعینؒ کے دور میں اور آئمہ اربعہ ؒکے دور میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اگر اس کا کوئی ثواب ہوتا تو یہ لوگ اس کام کو لازمی کرتے یا اس کا حکم صادر فرماتے۔


فصل چہارم :قبر سے متعلق
1) قبر کے لئے جگہ خریدنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ بعض لوگ قبر کے لیے اپنی زمین میں جگہ ہونے کے باوجود ایسی جگہ دیکھتے ہیں جہاں بہت بڑا قبرستان ہو۔ یا وہاں کوئی بڑی شخصیت کا مزار ہو،ان کی اس خواہش کی تکمیل میں بہت سارا مال ضائع ہوتا ہے جس پر کسی اور کا حق ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کو وہ جگہ بہت ذیادہ قیمت پر خریدنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے وارثین کا مال ضائع ہوتا ہے، اور فضول کاموں میں خرچ ہوتا ہے ۔ اور وارثین میں یتیم بچے بھی ہوسکتے ہیں جن کے مال میں اسراف کرنا ممنوع ہے، اور شریعت میں اس سے منع کیا ہے۔ اوراسی طرح یتیم بچہ کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تیئس مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے جن میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، اُن کے اموال کی حفاظت اور اُن کی نگہداشت کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنے والے، ان کے حقوق و مال غصب کرنے والے پر وعید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرً ۔
ترجمہ :۔ ’’بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے ‘‘
اسی طرح دیگر مقامات پر فرمایا : وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُواْ مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُواْ عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللّهَ وَلْيَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًاO إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ۔
ترجمہ :۔’’اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکرمند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اﷲ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئےo بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے’’
” وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْيَتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۔
ترجمہ :۔’’اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘
مندرجہ بالا وعید کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میت کے مال میں بے جا اسراف کرنے والا عذاب کا مستحق ہوگا۔لہذا بہتر یہی ہے کہ میت کو میسر قبرستان میں ہی دفن کیا جائے اور بلا ضرورت اس کی قبر کے لئے جگہ نہ خریدی جائے۔ لیکن جگہ نہ ہونے کی صورت میں قبر کی جگہ خرید کر بنائی جا سکتی ہے۔جیسا کہ آجکل بڑے شہروں میں جگہ کی قلت کی وجہ سے ایک ہی مرکزی قبرستان ہوتا ہے جس میں جگہ خریدنی پڑتی ہے ۔ یہ رقم میت کے ترکہ سے لی جا سکتی ہے۔ البتہ کوئی عزیز بھی اس کی قیمت ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
2) گورگن کا زائد پیسے وصول کرنا
اس غمی کے موقعہ پر ایک یہ بہت عجیب طریقہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی گورگن کے پاس جاتا ہے، تو وہ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قبر کی کھدائی کی بہت زیادہ قیمت مانگتا ہے ۔ اس کے برعکس عام حالت میں وہی لوگ اُس سے آدھی قیمت پر بھی مزدوری کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ مصیبت کے وقت کسی کو لوٹنا درست نہیں ہے۔
3) قبر کے پتھر اور سیمنٹ وغیرہ مہنگے ریٹ پر خریدنا
اس کے علاوہ جس شخص کو قبر کے پتھر ،سیمنٹ اور ریت وغیرہ کی خریداری کے لئے جس کو بھیجا جاتا ہے وہ بہت مہنگے ریٹ پر ان اشیاء کو خریدتا ہے،ہالانکہ کم ریٹ پر بھی آسانی سے مل جاتے ہیں ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ آخری وقت میں تو اس کے کام آئے اسی ہی کا تو ہے۔ جبکہ اس سے مال میں فضول خرچی ہوتی ہے اور اسلام میں فضول خرچی کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے۔ اسلام ہر شعبہ زندگی میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔ خوشی غمی کے موقع پر بے جا اسراف سب فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعاً حرام ہیں اور جن کی مذمت ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعددآیات و احادیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔ فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔
قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ .
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا.
فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایسے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا۔ إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ۔
اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔
اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا : وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا .
ترجمہ :۔ اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔
یہ سب باتیں فضول خرچی کے زمرے میں آتے ہیں جو قطعاً حرام ہیں اور جن کی مذمت ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعددآیات و احادیث مبارکہ سے بھی ملتی ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔اور اس کے ساتھ قبر کو سیمنٹ وغیرہ سے پکی کرنا بھی درست نہیں ہے اس سے نبی اکرم ﷺ نے سختی سے منع کیا ہے۔اس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے‘‘تکفین کے بعد کی رسومات’’ کے باب میں تفصیلاً بیان ہو گی۔
4) خریدار کا اصل سے زائد ریٹ لگانا
میت کے گھر والے کسی شخص کو کفن دفن کی اشیاء کی خریداری کے لئے کہہ دیتے ہیں جو ضرورت کا سامان لے آتا ہے کیونکہ وہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ گھر والے شدید غم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ دوڑ دوپ کرنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ اور اس کی بعد میں یا اُسی وقت رقم اس کو دے دی جاتی ہے ۔ بسا اوقات وہ شخص جس قیمت پر اس نے اشیاء خریدی یا لائی ہیں ان سے زیادہ رقم کا بل بنوا کر لے آتا ہے اور زیادہ قیمت وصول کرتا ہے۔
ایک واقعہ
یہاں ایک واقعہ عرض کرتا چلوں کہ : راقم الحروف کا ایک دوست ہے ۔ جو مین بازار مظفر آباد میں الیکٹریشن کی دکان پر کام کرتا ہے۔ جس نے بتایا کہ میرے ایک عزیز کی وفات کے موقع پر ایک شخص کو سامانِ تجہیز و تکفین(ریت ،سیمنٹ،پتھر اور کفن وغیرہ) کے لئے بھیجا جب تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گے اور مہمان وغیرہ چلے گے تو اس کو بلایا کہ اس نے پریشانی کے وقت مدد کی اب اُس کو اس کی ادائیگی کی جائے۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا کہ تم بتاؤ کہ اس وقت تمہارے کتنے پیسے لگے تھے ،اس نے بل دیا جس کے مطابق اس کو پیسوں کی ادائیگی (پیمنٹ ) کر دی گئی۔ لیکن چند دن بعد جب ہم نے قبر کو پختہ کرنے کے لئے سامان لایا تو اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ اس کی لگائی ہوئی قیمت تو بہت زیادہ تھی۔ جبکہ ابھی تو یہ اس سے بہت کم ریٹ پر مل رہی ہے،بلکہ آدھی قیمت پر وہی سامان مل رہا ہے۔ یا تو اس کو مہنگا سامان ملا، یا اس نے اپنے سے زیادہ ریٹ کا بل بنوایا ۔یہاں یہ بات کہ اس شخص نے اس غمی کے موقع پر بھی ان کو لوٹنے سے نہیں باز رہا۔وہ کہنے لگا کہ ہمیں تو بہت افسوس ہوا کہ اس نے ہمیں اس موقعہ پر چونا لگایا لیکن گھر والوں نے منع کر دیا کہ اب اُس شخص سے اِس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی ۔جس کی وجہ سے ہم خاموش ہو گے۔
فصل پنجم:میت پرنوحہ اور رونے سے متعلق رسومات
1) میت سے لپٹ کر رونا اور نوحہ کرنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ جب میت کو غسل اور کفن دے کر واپس لایا جاتا ہے اس وقت میت کے پاس خواتین جمع ہو کر اس سے لپٹ کر رونا دھونا شروع کر دیتی ہیں ،اور اُونچی اُونچی آوازمیں روتی ہیں جس کی آواز باہر دور تک جاتی ہے۔ اور مرد اس کی آواز سن رہے ہوتے ہیں۔ اور رونے کے ساتھ نوحہ خوانی کرتی ہیں اور ایک ہی لہر میں گاتی ہیں۔ مجھے کس کے پاس چھوڑ کر چلے گئے ہو، ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہوئی ہے، ابھی تو تم نے دنیا ہی کہاں دیکھی تھی، وغیرہ ذالک ۔ اور اسی طرح اس میت کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں چیخ و پکار کے ساتھ جس کی وجہ سے ان کی آوازیں جن کی آوازوں کےبارے میں یہ حکم ہے کہ پست رکھو اور یہ اتنی اُونچی ہوتی ہیں کہ ان کی یہ آوازیں مردوں کے کانوں تک بھی پہنچتی ہیں ۔
اسلام میں میت پر چیخنا چلانا اور نوحہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ موت برحق ہے وہ کسی بھی وقت آسکتی ہے ۔ موت پر جزع فزع کرنا ،چیخنا ،چلانا اور نوحہ خوانی کرنا اس کے عذاب کا سبب ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا :اہل خانہ کی آہ و بکاہ کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «المَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ» تَابَعَهُ عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ،حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، وَقَالَ آدَمُ: عَنْ شُعْبَةَ: «المَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الحَيِّ عَلَيْهِ »
ترجمہ:۔حضرت عبداللہ ابن عمر ؓاپنے والد ؓ سے روایت کرتے ہیں ،وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :نوحہ کرنے کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔آدم شعبہؓ سے فرماتے ہیں کہ: میت کو زندوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
اسی حدیث کو صحیح مسلم میں بھی روایت کیا گیا ہے۔عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ .
ترجمہ: حضرت عمر ؓنبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :نوحہ کرنے کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔
اگر مرنے والے نے ان کو وصیت کی کہ میرے بعد رونا ، یا اس کو معلوم ہے کہ بعد میں یہ لوگ میت سے لپٹ کر روئیں گے اس کے باوجود اس نے ان کو جان بوجھ کر منع نہ کیا تو اس صورت میں ان کے رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جائےگا۔
اسی وجہ سے حالت غم میں میت پر رونا ،چیخنا ،چلانا یا ماتم کرنا منع ہے۔چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الخُدُودَ، وَشَقَّ الجُيُوبَ، وَدَعَا بِدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ »
ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘جس نے (حالت غم) میں اپنا چہرہ پیٹا ،دامن پھاڑا اور جاہلیت کی باتیں کیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔’’
البتہ میت پر خاموشی سے آنسو بہانا یا رونا جائز ہے ۔ کیونکہ غمگین ہونا اور آنکھوں سے آنسو بہ جانا فطری چیز ہے ،اس پر قابو پانا مشکل ہے۔جب ابراہیم کی وفات پر نبی ﷺ کی آنکھوں سے آنسو آئے تو عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ بھی بے صبرے ہو رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ بے صبری نہیں بلکہ رحمت ہے:۔
قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ العَيْنَ تَدْمَعُ، وَالقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلاَ نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ »
ترجمہ :۔ نبی ﷺنے فرمایا :آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پروردیگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم !ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۔
میت پر رونے کے بجائےصبر کرنا اجرکا باعث ۔حدیث میں ہے کہ جس کے دو یا تین بچے فوت ہو جائیں اور صبر کریں تو اس کا بدلہ جنت ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ لِنِسْوَةٍ مِنَ الأَنْصَارِ : لاَ يَمُوتُ لإِحْدَاكُنَّ ثَلاَثَةٌ مِنَ الْوَلَدِ فَتَحْتَسِبَهُ ، إِلاَّ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ : أَوِ اثْنَيْنِ يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ؟ قَالَ : أَوِ اثْنَيْنِ .
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے انصار کی عورتوں سے فرمایا :تم میں سے جس کے تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ اللہ کی رضا کے لئے صبر کرئے تو وہ جنت میں جائے گی ۔ ایک عورت نے عرض کی :یا رسول اللہ ﷺ ! اگر دو بچے مریں تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اگر دو بچے مریں تب بھی یہی ثواب ہے ۔
یہاں تک کہ کسی بھی عزیز کی وفات پر صبر کرنے کا بدلہ بھی جنت رکھا ہے۔حدیث قدسی ہے کہ:۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: مَا لِعَبْدِي المُؤْمِنِ عِنْدِي جَزَاءٌ، إِذَا قَبَضْتُ صَفِيَّهُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا ثُمَّ احْتَسَبَهُ، إِلَّا الجَنَّةُ “
ترجمہ :۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے اس مومن بندے کا جس کی میں کوئی عزیز چیز دنیا سے اُٹھا لوں اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کر لے تو میرے پاس اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
لہذا میت پر چینخنا اور چلا کر رونا ممنوع ہے۔ اور میت پر رونے کی وجہ سے اس کو عذاب دیا جاتا ہے ۔ اب کیا کوئی شخص یہ چاہے گا کہ اس کے کسی عزیز کو عذاب میں مبتلا کیا جائے۔ہر گز نہیں کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا۔تو پھر ایسے اعمال کیوں کئے جاتے ہیں جو کسی کے عذاب کا سبب بنیں ۔لہذا ان سے بچنا بھی ضروری اور لازمی ہے۔
2) گریبان چاک کرنا اور سینہ پیٹنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کے پاس خواتین روتے وقت بعض اوقات اپنے کپڑے اور دامن وغیرہ پھاڑ دیتی ہے ۔ایک تو یہ زمانہ جاہلیت کہ رسم ہے اور دوسرا اس سے اس کا ستر بھی ظاہر ہوتا ہے جس کا چھپانا اس کے لئے لازمی ہے۔کیونکہ اس وقت وہاں پر غیر محرم مرد بھی موجود ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ایسے لوگوں کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کے وہ ہم میں سے نہیں ۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ، أَوْ شَقَّ الْجُيُوبَ، أَوْ دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ .
ترجمہ:۔حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘‘جس نے (حالت غم) میں اپنا چہرہ پیٹا ،دامن پھاڑا اور جاہلیت کی باتیں کیں وہ ہم میں سے نہیں ہے۔’’
لہذا اس سے بھی بچنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے اور جو یہ کام کریں ان کو بھی روکنا ہماری ذمعداری ہے۔ کیونکہ برائی کو روکنا لازم ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ : جب تم میں سے کوئی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اور اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کو چاہیے کہ وہ زبان سے اس کو روکے اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل میں وہ اس برائی کو برا جانے اور اس کو نبی ﷺ نے ایمان کی کمزور ترین حالت قرار دیا ہے۔ یعنی وہ کمزور ایمان والا شخص ہے جو برائی کو برا نہیں جانتا یا سمجھتا۔

فصل ششم:میت کا دیدار اور اس کے پاس نعت خوانی کرنا
1) دیدارِ میت
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کو خواتین کے درمیان رکھ دیا جاتا ہے اور پھر تمام خواتین اس کا دیدار کرتی ہیں۔ اس میں غیر محرم خواتین بھی شامل ہوتی ہیں۔
یہ کہ آج کل ہمارے معاشرے میں ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ جب بھی کوئی فوت ہو جائے خاص طور پر کوئی نوجوان لڑکا یا لڑکی تو اس کی تصاویریں بنائی جاتی ہیں اور پھر تصویرکو پورے سوشل میڈیا (فیس بک ، وٹس ایپ اور ٹیوٹر وغیرہ) پر (اپلوڈ کیا ) ڈالا جاتا ہے۔اور اخبارات وغیرہ میں بھی چھاپہ جاتا ہے جہاں پر وہ گھومتی ہے، دوستوں اور پھر غیروں میں! کہ یہ میری/میرا کلاس فیلو،دوست ،عزیز یا رشتہ دار کا انتقال ہو گیا ہے۔ دعا کی التجا کے ساتھ تصویر ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔ ایک طرف لڑکی کا جنازہ اٹھ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف نامحرموں تک اسکی تصویر پہنچ چکی ہوتی ہے۔
اس سے میت کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اور پھر اللہ کے پیارے حبیب محمد مصطفٰی ﷺ نے تصویر لینے سے منع کیا ہے،اور تصویر لینے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ : عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّهُ اشْتَرَى غُلاَمًا حَجَّامًا، فَقَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الدَّمِ، وَثَمَنِ الكَلْبِ، وَكَسْبِ البَغِيِّ، وَلَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَالوَاشِمَةَ وَالمُسْتَوْشِمَةَ وَالمُصَوِّرَ »
ترجمہ:۔ عون بن ابی جحیفہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک غلام خریدا جو حجامہ لگاتا تھا۔ پھر فرمایا نبی ﷺ نے خون نکالنے کی اجرت، کتے کی اجرت اور رنڈی کی کمائی کھانے سے منع فرمایاہے اور آپ نے سود لینے والے، دینے والے، گودنے والی، گدوانے والی اور تصویر (صورت) بنانے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
اس معاملے میں بھی پرہیز کریں کیونکہ اس سے ایک تو نبی مہربان ﷺ نے منع فرمایا ہے اور دوسرا اس سے میت کی تصویر پر غیر محرموں کی نظرپڑتی ہے۔
2) خواتین کا مرد میت کا چہرہ دیکھنا اور مردوں کا خواتین میت کو دیکھنا
میت کے دیدار کے لئے وہ خواتین بھی آتی ہیں جن سے زندگی کی حالت میں پردے کا حکم ہے آخری دیدار کو لازمی سمجھتی ہیں ۔اس موقع پر اکثر خواتین شوق سے آتی ہیں اور اس طرح بن ٹھن کے آتی ہیں ایسے لگتا ہے جیسے کسی جنازے میں نہیں بلکہ کسی شادی کی تقریب میں آئی ہوئی ہوں۔ اس کے علاوہ اکثر گھر کی خواتین بھی بناؤ سنگھار بھی کرتی ہیں کہ مہمانوں کے سامنے اچھی لگیں ،یعنی اب جنازے کو بھی انہوں نے فیشن بنا لیا ہے۔
اسی طرح دیہات میں اکثر پردے کو بھی لازمی نہیں سمجھا جاتا ۔ اسی وجہ سے جنازے کے موقع پر بھی مرد حضرات غیر محرم عورت کی میت کا دیدار بھی کرتے ہیں ۔جبکہ شریعت میں غیر محرم سے پردہ کا حکم ہے۔
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ مَيْمُونَةُ، فَأَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَذَلِكَ بَعْدَ أَنْ أُمِرْنَا بِالْحِجَابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «احْتَجِبَا مِنْهُ»، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَيْسَ أَعْمَى لَا يُبْصِرُنَا، وَلَا يَعْرِفُنَا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا ، أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ »
ترجمہ:۔ حضرت امّ سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھی ، آپﷺ کے پاس امّ المؤمنین میمونہ ؓ بھی تھی کہ اتنے میں امّ مکتوم آئے، یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہو چکنے کے بعد کا ہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا :تم دونوں اس سے پردہ کرو، تو ہم نے کہا : اے اللہ کے رسولﷺ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں ؟ ہ تو وہ ہم کو دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا : کیا تم بھی اندھی ہو؟ کیا تم انہیں نہیں دیکھتی ہو؟۔
اسی حدیث سےدلیل لیتے ہوئے مفتی عزیز الرحمٰن فتاوی دارالعلوم دیو بند میں لکھتے ہیں :غیر محرم عورتوں کو جیسا کہ زندگی میں اجنبی مرد کا چہرہ دیکھنا ممنوع ہے مرنے کے بعد بھی ممنوع ہے۔ فی حدیث ابن ام مکتوم أَفَعَمْيَاوَانِ أَنْتُمَا أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ ۔
لہذا کسی بھی صورت میں ان کا غیر محرم میت کو دیکھنا درست نہیں ہے چاہے مرد ہو یا عورت ہو۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ میت کا صرف چہرہ ہی دیکھا جائے اور بدن کے بقیہ حصہ پر پردہ ہو۔
عورت ، عورت (میت) کا چہرہ دیکھ سکتی ہے ،اور مردوں میں محارم کا ، اسی طرح مرد ،مرد(میت) کا چہرہ دیکھ سکتا ہےاور عورتوں میں محرمات کا،لیکن اجنبی اور غیر محرم میت کا چہرہ دیکھنا منع ہے۔ لیکن اگر کوئی بہت بوڑھی عورت ہو تو اس کا چہرہ سبھی لوگ دیکھ سکتے ہیں ،لیکن بہتر یہی ہے کہ اس کا چہرہ بھی نہ دیکھا جائے۔اور جس عورت نے میت کا چہرہ نہیں دیکھا اور میت کو قبرستان لے کر چلے گئے ہیں اب وہاں جا کر میت کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہئے۔
سنت یہ ہے کہ انسان جب فوت ہو جائے تو چہرے سمیت اس کے سارے جسم کو ڈھانپ دیا جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ان رسول الله صلي الله عليه وسلم حين توفي سجي ببرد حبرة ۔
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات فرما گئے تو آپ کے جسد اطہر کو ایک (یمنی) چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔”
صحابہ کرام میں بھی یہی امر معروف تھا اور یہ عہد نبوی کے عمل ہی کا تسلسل تھا، امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ “اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ میت کو ڈھانپ دیا جائے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کی حفاظت کی جائے اور اس کی صورت میں اگر کوئی تبدیلی رونما ہو تو اسے آنکھوں سے اوجھل رکھا جائے اور میت کا جن کپڑوں میں انتقال ہوا ہو انہیں اتارنے کے بعد اسے ڈھانپا جائے تاکہ اس کپڑوں کی وجہ سے اس کے جسم میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔”
اس سے معلوم ہوا کہ زیادہ دیرتک میت کا چہرہ کھلا رکھنا تاکہ لوگ اس کا دیدار کر سکیں، تو یہ اسلامی طریقے اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔اگر میت کے گھر والے تجہیز و تدفین میں تاخیر کئے بغیر اس کا چہرہ کھلا رکھ کر دیکھنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: لما قتل ابي جعلت اكشف الثوب عن اجهه ابكي وينهوني عنه والنبي صلي الله عليه وسلم لا ينهاني ۔
“جب میرے والد شہید ہوگئے تو میں ان کے چہرے سے کپڑے کو ہٹاتا اور روتا تھا، لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقبل عثمان بن مظعون وهو ميت حتي رايت الدموع تسيل ۔
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حضرت عثمان بن معظون کو بوسہ دے رہے تھے جب کہ وہ فوت ہو چکے تھے اور میں آپ کے آنسو بہتے ہوئے بھی دیکھے۔”
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ سیدھے وہاں تشریف لے آئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میت پاک دھاری دار (یمنی) چادر سے ڈھانپ کر رکھی ہوئی تھی، انہوں نے چہرہ اقدس سے کپڑا ہٹایا اور جھک کر بوسہ دیا اور پھر رونے لگے اور فرمایا: بابي انت وامي يا نبي الله‘ لا يجمع الله عليك موتتين ۔
“اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں فرمائے گا۔”
ثانیا: جب یقین ہو جائے کہ موت واقع ہو چکی ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ تجہیز میں جلدی کی جائے، کیونکہ اس طرح میت میں کوئی تبدیلی بھی رونما ہو گی کہ لوگ اس سے نفرت کریں۔ سنن ابی داود میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اني لا اري طلحة الا قد حدث فيه الموت‘ فاذنوني به وعجلوا‘ فانه لا ينبغي لجيفة مسلم ان تجسس بين ظهراني اهله ۔
“میں دیکھ رہا ہوں کہ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ پر موت طاری ہو چکی ہے، لہذا جب وہ وفات پا جائیں تو مجھے اس کی اطلاع کر دینا اور ان کی تیاری میں جلدی کرنا، کیونکہ مسلمان کی میت کو اس کے گھر والوں کے پاس زیادہ دیر تک نہیں رکھنا چاہیے۔”
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا مات احدكم فلا تحبسوه واسرعوا به الي قبره ۔
“جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو پھر اسے زیادہ دیر تک نہ روکو بلکہ اسے جلد اس کی قبر میں پہنچا دو۔”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسرعوا بالجنازة‘ فان تك صالحه‘ فخير تقدمونها اليه‘ وان تك سوي ذلك‘ فشر تضعونه عن رقابكم ۔
“جنازے میں جلدی کرو! اس لیے کہ اگر میت نیک ہے تو تم اسے خیروبھلائی کی طرف لے جاتے ہو اور اگر وہ نیک نہیں ہے تو برائی کو جلد اپنے کندھوں سے اتار پھینکتے ہو۔”
اس حدیث میں یہ بھی تلقین کی گئی ہے کہ تجہیز و تدفین میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ میت کو جلد خیر و بھلائی کی طرف لے جایا جائے یا جلد اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے، وہاں اس قدر انتظار جائز ہے کہ وہ لوگ جمع ہو جائیں جو جنازہ پڑھیں، اسے الوداع کریں اور اس کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کریں، بشرطیکہ انتظار کی وجہ سے تاخیر نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت ایک یا ایک سے زیادہ دنوں تک میت کے دفن میں تاخیر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے لہذا ان لوگوں کو نصیحت کرنی چاہیے جو تجہیز و تدفین میں تاخیر کرتے اور لوگوں کے دیدار کے لیے میت کے منہ کو کھلا رکھتے ہیں اور انہیں بتانا چاہیے کہ ان مسائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا طریقہ کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس طرح سمجھانے سے اللہ تعالیٰ انہیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمادے۔
3) میت کے پاس اُونچی آواز میں ذکر اور کلمہ شہادت پڑھنا اور لوگوں کو کہنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ خواتین میت کے پاس کلمہ شہادت اور درود شریف اور ذکر و اذکار کرتی ہیں اور اس کو لازمی سمجھتی ہیں کہ اس سے میت کی روح کو سکون پہنچتا ہے ۔ یہ عمل بھی درست نہیں ہے اور نہ ہی کہیں سے ثابت ہے ۔ بلکہ یہ عمل بھی بدعت ہے اس سے بچنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
4) خواتین کا اُونچی آواز میں نعتیں پڑھنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ خواتین میت کے پاس ذکر کے علاوہ نعتیں بھی پڑھتی ہیں اور کچھ اشعار بھی پڑھتی ہیں جن میں میت کی تعریفاتی الفاظ ہوتے ہیں ۔ ظاہری طور پر تو یہ اچھا لگتا ہے ۔مگر اس کا ثبوت کہیں سےبھی نہیں ملتا۔
اسی طرح یہ آوازیں اتنی اُنچی ہوتی ہیں کہ غیر مردوں تک پہنچتی ہیں ۔جو کہ غیر مناسب ہے اور شریعتِ اسلامی کے احکامات کی نافرمانی ہے۔
لہذا اس کو لازمی جزو بنا لینا بدعت ہے ۔جس کو ختم کرنا ہم پر لازمی ہے۔

باب سوم:

آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین کے دوران کی رسومات و بدعات

فصل اول :گھر سے جنازہ نکالتے وقت دعا کرنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کو گھر سے جب جنازہ گاہ کی طرف لایا جاتا ہے تب میت کو اُٹھانے سے قبل بلند آواز سے دعا کی جاتی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ سب لوگ ایک بار سورۃ فاتحہ ،تین بار قل شریف (سورۃ الاخلاص) اول آخر درود شریف پڑھ کر میت کی روح کو ایصال ثواب کرو ۔ اس کے بعد ہاتھ اُٹھا کر اجتماعی دعا کی جاتی ہے۔ یہ رسم تقریباً آزاد کشمیر کے تمام علاقوں میں پائی جاتی ہے۔
گھر سے جنازہ نکالتے وقت دعا کرنا یہ کہیں سے ثابت نہیں ہےجس کی وجہ سے یہ بدعت کے زمرے میں آتی ہے۔ لہذا اس کو بھی ترک کرنا لازمی ہے۔ باقی تفصیل(ان شاء اللہ) آئندہ اسی باب کی فصل ششم میں ذکر کی جائے گی ۔
فصل دوم :جنازہ نکلتے وقت خواتین کا واویلا کرنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ بعض خواتین میت کے گھر سے نکلتے وقت زور زور سے رونا اور پیٹنا شروع کر دیتی ہیں ۔ یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس موقعہ پر ان کو صبر کرنا چاہیے اور میت کی آخرت کی منازل کی آسانی کی دعا کرنی چاہیے۔ ان کے اس شور شرابے کی وجہ سے میت کو تکلیف ہوتی ہے اور اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔جس کی تفصیل گزشتہ باب میں گزر چکی ہے۔
فصل سوم : جنازے کے آگے قرآن لے کر چلنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ جنازے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید بھی لیکر جایا جاتا ہے۔جسے ایک شخص جنازے کے آگے لے کر چلتا ہے۔اور بعد میں اسی قرآن پر کچھ رقم رکھ کر حیلہ کیا جاتا ہے ۔ جس میں میت کے سابقہ چھوٹی ہوئی عبادات کا کفارہ دیا جاتا ہے۔حیلہ اسقاط کی تفصیل ان شاء اللہ آگے تفصیل کے ساتھ آئے گی ۔

فصل چہارم :قدم نکالنے کی رسم
1) چالیس قدم نکالنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ میت کو گھر سے نکالتے وقت چالیس (40) قدم گنے جاتے ہیں ۔ قدم گننے کو قدم نکالنا بھی کہتے ہیں ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو گھر سے نکالتے وقت چار آدمی جنازے کی چارپائی کو چاروں کونوں سے اُٹھا کر چلتے ہیں ۔جب دس قدم پورے ہو جاتے ہیں تب وہ چاروں آدمی اپنی جگہ تبدیل کر کے دوسرے سرے کو اُٹھا لیتے ہیں ۔جب ان کے دس قدم پورے ہو جاتے ہیں تب پھر دوبارہ اپنی جگہ تبدیل کر دیتے ہیں یہاں تک کہ چالیس قدم پورے ہو جاتے ہیں ۔اور وہ چاروں آدمی خود بخود اپنی پہلی جگہ پر واپس آجاتے ہیں ۔

2) قدم نکالتے وقت گھر کے صحن یا چھت پر گھومنا
قدم نکالتے وقت گھر کے صحن یا چھت پر چالیس قدم گنے جاتے ہیں۔ اورقدم گنتے وقت گھر کی چھت یا صحن میں چاروں طرف جنازے کو لے کر گھومتے ہیں ۔جب قدم مکمل ہو جاتے ہیں تو پھر جنازے کو زمین پر رکھ دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے جنازے میں تاخیر واقع ہوتی ہے ۔جبکہ نبی اکرم ﷺ نے جنازے میں تاخیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
3) قدم نکالنے کے بعد دعا کرنا
اسی طرح جب چالیس قدم پورے ہو جاتے ہیں تب جنازے کو نیچے رکھا جاتا ہے اور پھر دعا کی جاتی ہے۔اس سارے عمل سے ایک تو جنازےمیں تاخیر واقع ہوتی ہے ،اور دوسرا یہ بھی بدعت کہ زمرے میں آتی ہے ۔کیوں کہ قرونِ اولیٰ میں اس کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ۔اور نہ ہی کسی امام سے یہ ثابت ہے۔
لہذا جو کام نبیﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم نے نہیں کیا ، نہ اسے جائز سمجھا، نہ افضل تو ہم کیسے ایسے کام جائزاور افضل بنا سکتے ہیں ۔  
فصل پنجم :جنازہ گاہ میں لاتے ہوے جہراً کلمہ شہادت اور ذکر کرنا
1) جنازہ گاہ میں لاتے ہوے ذکر کرنا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ جنازہ اُٹھاتے ہوے یا اس کو جنازہ گاہ تک یا قبرستان تک لاتے ہوئے اجتماعی طورکلمہ شہادت ، درود شریف ، نعتیں، قصیدہ بردہ شریف اور فکر آخرت کے اشعار وغیرہ پڑھے جاتے ہیں اور اس پرلوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے۔
اجتماعی طور پر کلمہ شہادت یا کچھ اور پڑھنا جیسا کہ نعتیں، قصیدہ بردہ شریف اور فکر آخرت کے اشعار وغیرہ پڑھنا درست نہیں اور نہ ہی یہ نبی اکرم ﷺ اور آٓپﷺ کے صحابہ کرام ؓسے اور نہ ہی آئمہ کرام سے ثابت ہے ۔یہ دین میں اضافہ ہے جو کہ درست نہیں ہے،اور ناپسندیدہ عمل ہے۔اس کو ترک کرنا لازمی ہے۔ لیکن اگر کوئی انفرادی طور پر اس کو پڑھتا ہے تو اس پر ثواب کی اُمید رکھی جا سکتی ہے۔لیکن اجتماعی طور پر بلند آواز سےپڑھنا اور اس پر لوگوں کو مجبور کرنا درست نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ ہے کہ جب آپ ﷺ جنازے کے ساتھ تشریف لے جاتے تو آپ ﷺ سے نہ کلمہ طیبہ کا ورد سُنا جاتا نہ قرآن مجید کی تلاوت اور نہ ہی اور کچھ۔ اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے جنازے کے ساتھ اجتماعی طور پر کلمہ طیبہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپﷺ سے تو یہ مروی ہے۔ کہ:۔ لاتتبع الجنازۃ بصوتٍ ولا ناراً ۔ ترجمہ: ‘‘جنازے کے ساتھ آواز بلند ہو نہ جنازے کےساتھ آگ کو لے جایا جائے۔’’
حضرت قیس بن عباد (تابعی،حضرت علی کے اصحاب میں سے) فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت صحابہ کرام جنازے،ذکر اور جنگ کے وقت آواز پست رکھنا مستحب سمجھتے تھے ۔’’
شیخ عبدالعزیز بن باز ؒاپنےفتاویٰ ‘‘فتاویٰ ابن باز’’ میں ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : جنازے کے ساتھ آواز کو بلند کرنا خواہ قرات کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ،مستحب نہیں ہے۔ائمہ اربعہؒ کا بھی یہی مذہب ہے اور صحابہ کرام ؓ، تابعین وسلف سے بھی یہی منقول ہے، کسی نے بھی اس مسئلہ کی مخالفت نہیں کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حدیث و آثار کاعلم جاننے والوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خیر القرون میں اس کا کوئی رواج نہ تھا ۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بلند آواز سے جنازوں کے ساتھ کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت پڑھنا ایک قبیح بدعت ہے،اسی طرح اس موقعہ پر لوگوں کا یہ کہنا کہ : بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھو یا اللہ کا زکر کرو یا قصیدہ بردہ شریف وغیرہ پڑھو یہ سب بدعت ہے۔
اسی طرح جو یہ طریقہ رائج ہو چکا ہے کہ جنازہ کو کندھا دیتے وقت بآواز بلند کہا جاتا ‘‘کلمہ شہادت’’ہے ۔اس کا بھی کوئی ثبوت نبی ﷺ اور آپ کےصحابہ کرامؓ اور شریعت اسلامیہ میں نہیں ملتا اور نہ ہی جنازے کے ساتھ نعت گوئی کا کہیں تذکرہ ملتا ہے۔
امام نوووی ؒ کتاب الاذکارمیں فرماتے ہیں کہ:۔ واعلم أن الصوابَ المختارَ ما كان عليه السلفُ رضي الله عنهم السكوتُ في حال السير مع الجنازة فلا يُرفع صوتٌ بقراءة ولا ذكر ولا غير ذلك .
ترجمہ :۔ ‘‘جان لیجئے کہ صحیح اور مختار بات اور جس پر سلف صالحین ؒ تھے وہ یہ ہے کہ جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے خاموشی ہو۔ جنازے کے ساتھ نہ قراۃ کے ذریعےآواز بلند کی جائے اور نہ ہی ذکر وغیرہ کے ساتھ۔’’
اور آگے فرماتے ہیں کہ ‘‘کثرت کے ساتھ جو لوگ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، ان سے دھوکہ مت کھائیے۔ ابو علی فضیل بن عیاض نے فرمایا :ہدایت کے راستوں کو لازم تھام سالکین کی قلت تجھے نقصان نہیں دے گی اور گمرائی کے راستوں سے بچئیے اور ہلاک ہونے والوں کی کثرت سے دھوکہ نہ کھائیے ’’
اورسنن کبری بیقہی سے ہم نے وہ روایت نقل کی ہے جو ہمارے قول کا تقاضہ کرتی ہے ( یعنی اوپر قیس بن عباد والی روایت جس میں با ۤواز بلند کرنے کی کراہت منقول ہے )
جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم نے نہیں کیا ، نہ اسے جائز سمجھا نہ افضل تو ہم کیسے ایسے کام جائز افضل بنا سکتے ہیں۔
2) ذکر نہ کرنے والے کو ملامت کرنا
اور پھراسی طرح ذکر نہ کرنے والے کو ملامت بھی کیا جاتا ہے کہ تم کیوں خاموش ہو اور پڑھتے کیوں نہیں ہو۔ یہ بھی درست نہیں کہ کسی کو ایسے کام پر ملامت کیا جائے جو درست نہیں ہے اور اس کا اہتمام کرنا بھی درست نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ سے ایسا کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں بلکہ جنازہ کے ساتھ آواز بلند کرنا ناجائز ہے اور اس کی کراہت منقول ہے۔ سیدنا قیس بن عباد ؓ سے مروی ہے کہ : کان اصحاب النبی ﷺ یکرھون رفع الصوت عند الجنائز ۔‘‘ صحابہ کرام ؓ جنازوں کے پاس آواز بلند کرنا ناپسند تھا۔’’
ان احادیث سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ جنازہ کے ساتھ آواز بلند کرنا منع ہے اور اس پر اصرار کرنا بھی درست نہیں اور نہ پڑھنے والے کو ملامت کرنا بھی درست نہیں کیوں کہ یہ عمل خود مشروع نہیں ہے تو اس کی طرف بلانا کیسے باعث اجر ہو گا۔
امام نووی رحمۃ اللہ کی اس صراحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنازہ کے ساتھ ذکر اذکار یا قرأت وغیرہ کی آواز بلند کرنے کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا ۔ جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم نے نہیں کیا ، نہ اسے جائز سمجھا نہ افضل تو ہم کیسے ایسے کام جائز افضل بنا سکتے ہیں۔


فصل ششم : نمازِ جنازہ کے بعد دعا کو لازمی سمجھنا
نمازِجنازہ کے فوراً بعد امام صاحب آواز لگاتے ہیں کہ سب لوگ ایک بار سورۃ فاتحہ ،تین بار قل شریف (سورۃ الاخلاص ) اول آخر درود شریف پڑھ کر میت کی روح کو ایصال ثواب کرو ۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی جاتی ہے اور سب لوگ آمین کہتے ہیں۔ اور پھر اسکے بعد حیلہ اسقاط کیا جاتا ہے ،جس کے بعد پھر دوبارہ دعا کی جاتی ہے اور آخر میں تدفین کے بعد پھر دعا کی جاتی ہے۔ بعض لوگوں كا كہنا ہے كہ يہ عادت بدعت ہے اس سے چھٹكارا اور خلاصى ضرورى ہے، ليكن بعض لوگ اس پر پابندى سے عمل كرتے ہيں اور چھوڑنا نہيں چاہتے۔
ظاہر يہى ہوتا ہے كہ نماز جنازہ سے قبل يا فورا بعد اجتماعى دعا كى عادت ، يعنى ايك شخص دعا كرے اور دوسرے آمين كہيں ۔ سنت كى بجائے بدعت كے زيادہ قريب ہے، اس كے بدعت ہونے كے كئى ايك دلائل ہيں: کیونکہ نہ تو ايسا نبى كريم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہى كسى صحابى ؓ سے اور نہ ہى اہل علم ميں سے كسى نے يہ عمل كيا، اور جو ايسا ہو تو اس ميں اصل توقف ہے تا كہ كہيں گناہ اور بدعت ميں نہ پڑ جائے اور دين ميں زيادتى كا باعث نہ بن جائے۔ اس كو اس سے بھى تقويت ملتى ہے كہ نماز جنازہ تو مشروع ہى ميت كى دعا كے ليے ہوا ہے۔ اس ليے نماز جنازہ سے قبل يا اس كے بعد دعا كى زيادتى كرنا نماز جنازہ ميں زيادتى ہے، اور يہ جائز نہيں، جس طرح فرضى نماز سے قبل يا بعد ركوع يا سجود كى ايجاد كرنا جائز نہيں ہے تو نماز جنازہ كى حالت بھى اسى طرح ہے۔ سنت نبويہ ﷺ سے ثابت ہے كہ نماز جنازہ ميں ميت كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ زيادہ سے زيادہ دعا كى جائے جس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا: “جب تم نماز جنازہ ادا كرو تو ميت كے ليے پورے اخلاص كے ساتھ دعا كرو ۔
اور ابو ابراہيم الاشھلى اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں انہوں نے فرمايا: “جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جنازہ پڑھاتے تو آپ يہ دعا پڑھا كرتے تھے: “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا ، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا ، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا ، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا . اے اللہ ہمارے زندہ اور ہمارے فوت شدگان، اور ہمارے حاضر اور ہمارے غائب، اور ہمارے چھوٹے اور ہمارے بڑے، اور ہمارے مردوں اور ہمارى عورتوں كو بخش دے۔
اور يزيد بن عبد اللہ بن ركانہ بن مطلب بيان كرتے ہيں كہ: ” جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز جنازہ پڑھاتے تو آپ يہ دعا كرتے: ” اللهم عبدك وابن أمتك ، احتاج إلى رحمتك ، وأنت غني عن عذابه ، إن كان محسنا فزد في إحسانه ، وإن كان مسيئا فتجاوز عنه .
اے اللہ يہ تيرا غلام اور تيرى بندى كا بيٹا تيرى رحمت كا محتاج ہے، اور تو اسے عذاب دينے سے غنى ہے، اگر تو يہ اچھا اور نيك تھا تو اس كى نيكيوں ميں اضافہ فرما اور اگر يہ گنہگار تھا تو اس كے گناہوں سے درگزر فرما۔
يہ احاديث نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نماز جنازہ ميں ميت كے ليے دعا كا كس طرح وصف بيان كر رہى ہيں، نہ تو نماز جنازہ سے قبل اور نہ ہى نماز جنازہ كے فورا بعد دعا كا ثبوت ملتا ہے.
کتب فقہ میں لکھا ہے کہ :نمازِجنازہ دعا ہے واسطے میت کے لہذا اور کوئی دعا بعد نمازِجنازہ کے مشروع نہیں ہے۔ شامی میں ہے : فقد صرحوا عن اخرھم بان صلوٰۃالجنازۃ ھی الدعا للمیت ۔ الخ وفی خلاصۃ الفتاویٰ لا یقوم بالدعاء بعد صلوٰۃ الجنازۃ وفی المشکٰوۃ ولا یدعو للمیت بعد صلٰوۃ الجنازۃ ۔ لانہ یشبہ الزیادۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ۔ پس معلوم ہوا کہ میت کے جنازہ کے بعد اور کچھ دعا نہ کرئے کہ صلوٰۃ جنازہ خود دعا للمیت ہے ۔
نمازِ جنازہ کےفوراً بعد اجتماعی دعا کرنا، دور نبوی ﷺ ، دور خلافتِ راشدہ میں اور دور تابعین میں کہیں بھی ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح نمازِجنازہ کے بعد ٹھرنا بھی درست نہیں ہے فقہاء احناف نے جنازے کی نماز کے بعد دعا مانگنے سے منع کیا ہے۔ کیوں کہ اس سے تکفین میں بھی تاخیر آتی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جنازے کے فوراً بعد میت کی تدفین کر دینی چاہیے۔
ولا یقوم بالدعا بعد صلاۃ الجنازۃ ۔
ترجمہ : نمازِ جنازہ کے بعد دعا کے لئے نہ ٹھرا جائے۔
لا یدعوا بعد التسلیم من صلوٰۃ الجنازۃ ۔
ترجمہ : نمازِ جنازہ میں سلام کے بعد دعا نہ کی جائے۔
لا یدعوا للمیت بعد صلوٰۃ الجنازۃلانہ یشبہ الزیادۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ۔
ترجمہ : نمازِ جنازہ کے بعد دعا نہ کی جائے۔کیوں کہ یہ نمازِ جنازہ میں زیادتی کی طرح ہے۔
اسی طرح اس کے علاوہ چالیس قدم کی تکمیل پر ،نمازِ جنازہ کے بعد ، حیلہ اسقاط کے بعد ، تدفین کے دوران دعا کی جاتی ہے۔اس كے بعد نماز جنازہ پڑھائى جاتى ہے۔ پھراسی طرح نماز جنازہ كے بعد يا قبل اجتماعى دعا ميں دو خرابياں پائى جاتى ہيں:
پہلى خرابى:سنت پر عمل سے كوتاہى، كيونكہ جو نماز جنازہ سے قبل دعا ميں مشغول ہو گا تو وہ نماز جنازہ ميں دعا كرتے وقت كوتاہى كريگا، اور جو شخص نماز جنازہ كے بعد دعا كا انتظار كريگا تو وہ نماز جنازہ ميں دعا مانگنے ميں جلدى كريگا، اس كى عادت اپنانے والا شخص آج ايسے ہى كر رہا ہے، كہ ابھى نماز جنازہ كى پہلى تكبير ہى ہوتى ہے اور اس كے فورا بعد دوسرى اور تيسرى كہہ دى جاتى ہے تا كہ سلام پھيرى جا سكے، اور ميت كے ليے چند ايك دعائيہ كلمات ہى كہے جاتے ہيں اگر اس كے ساتھ صدق دل اور حاضر عقل نہ ہو تو ان كا كوئى فائدہ نہيں ہوتا. اور يہ بالكل حسان بن عطيہ رحمہ اللہ كے قول كے مصداق ہے: ” جو قوم بھى اپنے دين ميں كوئى بدعت ايجاد كر ليتى ہے تو اللہ تعالى اس طرح كى سنت اس سے اٹھا ليتا ہے، پھر قيامت تك وہ ان ميں واپس نہيں كرتا “
دوسرى خرابى:اس سے مشقت حاصل ہوتى ہے، لوگ ميت كو دفن كرنے كے ليے بہت لمبا وقت انتظار كرتے ہيں، اور ميت كے ليے دفن كے بعد اس كے ليے بخشش طلب كرنا، اور پھر اہل ميت كى حالت كا خيال كرنا، لہذا نماز جنازہ سے قبل يا بعد دعا كے ليے اكٹھے ہونا ان سب امور كے ساتھ ظاہرا مشقت پائى جاتى ہے.
عز بن عبد السلام كہتے ہيں: “اگر يہ كہا جائے كہ: نماز جنازہ تكرار كے ساتھ ادا كرنا كيوں واجب نہيں كيا گيا حتى كہ قبوليت كا گمان غالب ہو جائے ؟
ہم كہتے ہيں: تكرار سے نہيں ہو گا كيونكہ تكرار ميں مشقت ہے، اور اس ميں غلبہ ظن كا كوئى ضابطہ اور اصول نہيں ۔
آخر ميں يہ ہے كہ: بدعات كے باب ميں قاعدہ اور اصول وہى ہے جو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ كا قول ہے:
‘‘ سنت نبويہ پر اقتصار كرنا بدعات كى كوشش سے بہتر ہے ۔
لہذا اگر لوگ ثابت شدہ سنت پر عمل كرينگے تو يہ بہتر ہے كہ كسى ايسے معاملہ ميں كوشش كى جائے جس كى بنا پر بدعات ميں پڑھنے كا خدشہ ہو، اور يہ عظيم كلمہ ہے جو سنت اور بدعت كے موضوع كى حقيقت كو سمجھنے كے ليے كافى ہے.
سعودی عرب کی مستقل كميٹى ‘‘اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء’’كا ايك فتوى ہے جس ميں نماز جنازہ كے بعد دعا كرنے كى ممانعت كى گئى ہے ۔ كيونكہ بعض ممالك ميں نماز كے بعد دعا كى عادت ہے ۔ اس طرح نماز جنازہ سے قبل كى دعا ميں قياس كيا جا سكتا ہے:
سوال:نماز جنازہ كے بعد متصل اجتماعى دعا ميں اختلاف پايا جاتا ہے كچھ لوگ اسے بدعت قرار ديتے ہيں كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے ثابت نہيں، اور فقھاء نے اس كے عدم جواز كى صراحت كى ہے، اور ايك گروہ اس كو مستحب اور سنت قرار ديتا ہے يہ بتائيں كہ حق پر كون ہے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” دعا عبادات ميں سے ايك عبادت ہے، اور عبادات توقيف پر مبنى ہيں، اس ليے كسى بھى شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ ايسى عبادت كرے جو اللہ نے مشروع نہيں كى، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں كہ نماز جنازہ سے فارغ ہو كر صحابہ كرام كے ساتھ مل كر دعا مانگى ہو. بلكہ يہ ثابت ہے كہ جب دفن كے بعد قبر برابر كر لى جاتى تو آپ فرماتے: ” اپنے بھائى كے ليے بخشش اور ثابت قدمى كى دعا كرو كيونكہ اس وقت اس سے سوال كيا جا رہا ہے “.
اوپر جو بيان ہوا ہے اس سے واضح ہوا كہ نماز جنازہ سے فارغ ہو كر اجتماعى دعا كرنا جائز نہيں، بلكہ يہ بدعت ہے .
آخر ميں ايك تنبيہ يہ ہے كہ نماز جنازہ سے قبل يا بعد ميں اجتماعى دعا كى عادت بنانا ممنوع ہے، كيونكہ يہ عبادت ميں ظاہرى طور پر زيادتى ہے، ليكن كسى انفرادى شخص كى نماز سے قبل يا بعد يا دفن كے دوران دعا كرنے ميں كوئى حرج اور گناہ نہيں، بلكہ اميد ہے كہ اللہ تعالى اس كى دعا قبول كرے گا اور اس كى شفارش قبول ہو.
شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں: “نماز جنازہ كى سلام كے بعد ميت كے ليے دعا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ يہ دعا اجتماعى شكل ميں نہ ہو كيونكہ ايسا كرنا بدعت ہے ۔
فصل ہفتم : حیلہ اسقاط
1) حیلہ سے کیا مراد ہے؟
حیلہ کا مادہ ‘‘ح،و،ل ’’ ہے۔لغوی معنی مہارت ، حسن تدبیر ،چال اور سازش کے ہیں ۔
اصطلاحی معنی حسن تدبیر کے ذریعہ گناہ اور حرام سے بچنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا جائے اسے ‘‘حیلہ ’’ کہتے ہیں۔
2) حیلہ اسقاط کیا ہے؟
حیلہ اسقاط سے مراد میت کی طرف سے اس کی زندگی میں رہ جانے والی عبادات فرائض (نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج) ،کفارات ، نذرو نیاز اور صدقات جو اس نے اپنی زندگی میں ادا نہ کئے یا نہ کر سکا ان کا کفارہ ادا کرنے کے لئے ایک شکل ہے۔ حیلہ اسقاط سے مقصود یہ ہے کہ مسلمان میت سے احکام خداوندی کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں ہوئیں، ان کوتاہیوں کے ازالہ کے لیے کوئی شرعی حیلہ کیا جائے تاکہ میت کو فائدہ ہو اور غرباء کی مدد۔
3) حیلہ اسقاط کے مختلف طریقے
اس کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ جنازہ کےفوراً بعد دعا کر کہ چند حقدار لوگوں کوجو صاحبِ نصاب نہیں ہوتے ان کو دائرے کی شکل میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ کچھ رقم یا کوئی قیمتی چیز قرآن مجید کے ساتھ اکھٹی کر کے امام صاحب کو دی جاتی ہے اور وہ کچھ مخصوص کلمات پڑھ کر اپنے ساتھ کھڑے ایک شخص کو دیتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کو قبول کیا اور جو امام صاحب نے کہا وہی میں بھی کہتا ہوں اور پھر وہ دوسرے کو دیتا ہے،پھر وہ تیسرے کو دیتا ہے۔ اسی طرح آگے آگے دیتے جاتے ہیں اور اس کے تین چکر لگاتے ہیں ۔ہر ایک جب وہ نسخہ قرآن اور اس پر رکھی رقم لیتا ہے وہ بھی یہی کلمات کہتا ہے کہ میں نے اس کو قبول کیا اور میں بھی وہی کہتا ہوں جو امام صاحب یا مولوی صاحب نے کہی ہے یہ کہہ کر آگے چلا دیا جاتا ہے۔اسی طرح پھر قرآن مجید واپس میت کے گھر والوں کے پاس یا اگر مسجد سے آیا ہو تو مسجد میںواپس رکھ دیا جاتا ہے اور وہ رقم امام صاحب کی جیب میں چلی جاتی ہے جو قرآن کے اُوپر رکھی ہوتی ہے ۔اگرچہ امام صاحب صاحبِ نصاب ہی کیوں نہ ہوں۔اب امام صاحب کی مرضی وہ رقم ساری خود رکھیں یا کسی غریب کو دے دیں یا اگر وارثین خود مستحق ہیں ان کو دے دیں ۔ اور اس کا ثواب مرنے والےکی روح کو بھیجتے ہیں۔
اسی طرح کسی جگہ ایک شخص ہاتھ میں قرآن لے کر پورے دائرے میں سب لوگوں کے پاس گھماتا ہے اور پھر وہ لوگ باری باری جس کے پاس پہنچتا ہے قرآن اپنے ہاتھ میں لیکر اس کو چومتا ہے اور پھر اس کو واپس کر دیتا ہے۔اسی طرح پورے دائرے میں اس کو گھمایا جاتا ہے آخر میں امام کے پاس آتا ہے وہ ہاتھ میں پکڑ کردعائیہ کلمات پڑھتا ہے جس کا ذکر آگے ہے۔اور پھر اگلے چکر کے لئے قرآن کو گھما دیا جاتا ہے۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کے قرآن کو درمیان میں رکھ دیا جاتا ہے یا ایک شخص اس کو لیکر کھڑا ہو جاتا ہے اور لوگ آ کر اس کو پکڑ کر کے چومتے ہیں اور آنکھوں سے لگاتے ہیں۔باقی وہی طریقہ ہے جو اُوپر گزر چکا ہے۔
4) حیلہ میں صاحب ثروت لوگوں کا شامل ہونا
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اس دائرے میں غریب اور فقیر لوگ ہی کھڑے ہوتے ہیں جو صدقات کےمستحق ہیں لیکن بہت سے مواقع پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اس دائرے میں امیر جن پر صدقات نہیں لگتےوہ بھی کھڑے ہوتے ہیں اور غریب بھی کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور اس دائرے میں کھڑے لوگوں میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں اور یہ تک بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا حکم ہے ۔اس کو کیا کرنا ہے،اور کس طرح کرنا ہے ۔اس کا طریقہ کیا ہے۔بس جہاں لوگ اکھٹے ہوئے وہ بھی چلے گئے کہ شاید اس میں کوئی خاص چیز ہو۔
5) حیلہ اسقاط کی دعا
حیلہ اسقاط کے وقت جو دعا ئیہ کلمات پڑھے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:۔ کل حق من حقوق اللہ تعالیٰ من الفرائض والواجبات والکفارات والمنزورات والحج والزکوٰۃ والصدقۃ الفظر وردالسلام و جواب العطس مما لزمت علی ذمۃ ھذہ المیت من وقت البلوغ الی وقت الوفات بعضھا ادیٰ فی حال حیاتہ وبعضھا لم یؤد، الآن عاجز عن ادائھابسبب الموت فاعطیتک ھذا لمصحف الشریف مع النقودات فی حیلۃ الاسقاط رجاءمن اللہ تعالٰی ان یغفرلہ۔
یہ وہ کلمات ہیں جو حیلہ کے دوران پڑھے جاتے ہیں ۔
ان کلمات کا حوالہ مجھے کافی ڈھونڈنے کے بعد بھی کہیں سے بھی نہیں ملے ۔اب اللہ جانے یہ کہاں سے آئے اور ان کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔جن صاحب نے یہ کلمات بتائےان کا حیلہ کرنے کابہت پُرانا تجربہ ہے۔ لیکن ان کو بھی اس کا حوالہ یاد نہیں تھا یا پھر معلوم نہیں تھا ۔اللہ ہی بہتر جانے ۔اور انہوں نے کہا کہ میں یہ تلاش کر کے آپ کو دوں گا مگر کئی دفعہ رابطہ کرنے کے باوجود آج ،کل کرتے رہے مگر اس کی دلیل میسر نہ ہو سکی۔
6) حیلہ اسقاط کی دلیل
حیلہ اسقاط کے جواز پر جو دلیلیں دی جاتی ہیں وہ یہ ہیں ۔
(1 پہلی دلیل: ۔
حضرت ایوب علیہ السلام جب اپنی بیوی سے ناراض ہو گئے اور انہوں نے اپنی اپنی اطاعت گذار اورنقناعت شعار بیوی کے بارے میں قسم اٹھا لی کہ میں اسے سو ضربیں ضرور لگاؤں گا۔ لیکن جب غصہ اترا تو پریشان ہو گئے کہ کیا کیا جائے نہ ماروں تو قسم ٹوٹنی ہے، ماروں تو اس اللہ والی کا کوئی قصور نہیں۔ اب قسم کیسے پوری ہو؟ تب اللہ تعالی نےیہ تدبیر بتائی کہ آپ تنکوں کا گھٹا ہاتھ میں لیں اور اس سے ایک مار دیں تا کہ قسم بھی پوری ہو جائے اور اس نیک بندی کو ایذاء بھی نہ ہو۔
اسی واقعہ کو سورۃ ‘‘ص ’’ میں اس طرح بیان کیاگیا ہے۔: وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ.
ترجمہ :۔ (اے ایوب!) تم اپنے ہاتھ میں (سَو) تنکوں کی جھاڑو پکڑ لو اور (اپنی قسم پوری کرنے کے لئے) اس سے (ایک بار اپنی زوجہ کو) مارو اور قسم نہ توڑو، بے شک ہم نے اسے ثابت قدم پایا، (ایّوب علیہ السلام) کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ (ہماری طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا۔
(2 دوسری دلیل: ۔
یوسف علیہ السلام نےعرصہ دراز کی فراقت کے بعد اپنے حقیقی چھوٹے بھائی بنیامین کوجب وہ سوتیلے بھائیوں کے ساتھ غلہ لینے پہنچے تھے اپنے پاس روکنا چاہا تو سوچا بھائی رکاوٹ ڈالیں گے۔ ابھی اپنی شخصیت کے اظہار کی اجازت نہ تھی۔ اور روکنے کے لئے کوئی قانونی جواز بھی نہیں تھا۔چنانچہ انہوں نے ایک تدبیر کے تحت نوکروں سے فرماکر شاہی پیمانہ چھوٹے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا۔ پھر ملکی قانون کے مطابق اعلان فرما دیا کہ جس کے پاس یہ پیمانہ پایا جائے گا اس کو روک دیا جائے گا۔ پھر نوکروں نے کہا اے اہل قافلہ تم چور ہو۔ برادران یوسف نے اس کا برا منایا تو سرکاری اہل کاروں نے ان کے سامان کی تلاشی لی۔ بنیامین کے سامان سے شاہی پیمانہ برآمد ہو گیا۔ اہل کارواں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کو (بظاہر) چور قرار دے کر یوسف علیہ السلام کی منشاء کے مطابق بنیامین کو روک لیا۔ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کے اس فعل پر اعتراض وارد ہوتا تھا۔
اللہ تعالی نے اپنے نبی کو کسی الزام سے بچانے کے لیے اس تمام کاروائی کی نسبت اپنی طرف کر دی فرمایا: فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ .
ترجمہ :۔ پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کےتھیلے سے پہلے ان کے تھیلے کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کے تھیلے سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں آیات پر بار بار غور کریں، قرآن وسنت سے بعینہ یہ صورت مسئلہ ثابت ہوتی تو اسے فرض یا واجب کہتے۔ عمل کرنے والے اسےخود ایک حیلہ شرعی کہتے ہیں ۔
ان کی یہ دلیل درست نہیں ہے۔کیونکہ یہ دلیل اس وقت درست ہوتی جب نبی آخر الزماں ﷺ کی بعثت ہوئی تو انہوں نے اس پر کم از کم ایک دفعہ ضرور عمل کیا ہوتا یا اس کا حکم دیا ہوتا۔ کیونکہ یہ آیات تو ان پر ہی اُتری تھی تو پھر وہ اس پر لازمی عمل کرتے۔
اللہ تعالیٰ نیتوں کا واقف ہے ،وہاں حیلہ کسی کام کا نہیں ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ :حقوق مالیہ تو ادائے حقوق سے ہی ادا ہو سکتے ہیں ،اور حقوق ِ بدنیہ جیسے نماز ،روزہ ، تواگرہر نماز اور ہر روزہ کے بدلے نصف صاع گہیوں اور ایک صاع جوّ ادا کرنے سے امیدِ ادا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ باقی رہا یہ اسقاط ِمروّجہ محض لغو اور بے حودہ حیلہ ہے ۔اور اس کا خیر قرون میں کچھ اثر نہیں ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔

7) حیلہ اسقاط کا حکم
اسقاط میت تین وجہوں سے ناجائز ہے۔ اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خیر القرون میں یعنی صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں اسقاط کا نام و نشان نہ تھا۔ حالانکہ ہمیشہ اس زمانہ میں اموات ہوتے تھے مگر باوجود اس کے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے نہ صحابہ سے نہ تابعین سے نہ تبع تابعین سے نہ آئمہ دین سے۔ اگر اس طریق سے گناہ معاف ہوتے ہیں تو کیا اُن کو گناہ کی معافی کی ضرورت نہ تھی۔ یا وہ میت کے خیر خواہ نہ تھے، یا ان کو نیک کاموں کا شوق نہ تھا۔ جب یہ سب باتیں تھیں بلکہ ہم سے بڑھ کر وہ ایسی باتوں کا خیال رکھتے تھے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ خیر القرون میں اس کا ثبوت نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسقاط سے میت کے گناہ ختم نہیں ہوتے اور جب میت کے گناہ معاف نہ ہوئے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ من کذب علیّ متعمداً فلیتبوا مقعدہٗ من النار ۔
ترجمہ :۔ یعنی جو مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنائے۔‘‘
دوسری وجہ یہ کہ جس کام کی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ضرورت ہو اور اس کے کرنے سے کوئی مانع بھی نہ ہو، پھر اس کو کوئی کرے تو وہ قطعی بدعت ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔’’ ترجمہ :۔ یعنی جو ہمارے دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔
اور ایک روایت ہے کہ ایسا شخص لعنتی ہے۔ بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام دین میں مردود ہے۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو پس اسقاط کرنے والوں کو چاہیے کہ یا تو خیر القرون سے اس کا ثبوت دیں یا خدا سے ڈریں اور ایسے کاموں سے باز آئیں جو بجائے ثواب کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ ان اللّٰہ لا ینظر الی صوّرکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا۔ لیکن تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دو بات قدر رکھتی ہے، جو دل سے ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اسقاط میں جب قرآن مجید پھرایا جاتا ہے تو دل سے میت بخشنے کی نہیں ہوتی، کیوں کہ اگر چکر پورا نہ ہوا اور درمیان میں ہی ایک شخص لے کر چلا گیا اور کہے کہ جب مجھے دے دیا گیا ہے تو میری مرضی کسی کو بخشوں یا نہ۔ اسقاط کرنے والے اس کو برا منائیں گے بلکہ کہیں گے کہ اسقاط نہیں ہوا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ بخشا برائے نام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو ایک طرح کا دھوکہ دینا ہے۔ بھلا ایسے عمل سے اللہ خوش ہو گا یا ناراض۔
بمبئی کی طرف بہت لوگوں حیلوں سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ تمام روپوں کی زکوٰۃ نکال کر ایک گھڑے میں ڈال کر اوپر سے گیہوں سے بھر کر فقیر کو دے دیتے ہیں۔ پھر فقیر کو کہتے ہیں کہ تم ان دونوں کا کیا کرو گے۔ روپیہ دو روپیہ سے ہم کو فروخت کر دو۔ فقیر بے چارے کو کیا معلوم کہ دانوں کے نیچے روپے ہیں۔ وہ بیچارہ روپیہ دو روپیہ غنیمت سمجھ کر بڑی خوشی سے فروخت کر دیتا ہے۔ زکوٰۃ دینے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری زکوٰۃ ادا ہو گئی، کیوں کہ ایک مرتبہ فقیر کے سپرد کر دی ہے۔ آگے وہ اپنی خوشی سے جس کو چاہے فروخت کر دے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس دھوکہ سے فقیر تو دھوکہ کھا سکتا ہے۔ مگر علام الغیوب تو دھوکہ نہیں کھا سکتا۔ اب اسقاط کرنے والے بھی خدا کو دھوکہ سے خوش کرنا چاہتے ہیں کہ لفظ بخشش کا بولتے ہیں اور اندر نیت نہیں ہوتی۔ مگر یاد رہے کہ جو خدا سے دھوکہ کرے وہ خود دھوکہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ {یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ} ’’یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اللہ ان کو دھوکہ کا بدلہ دیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس فعل کے سبب سے دھوکے میں ہیں ۔

1) حیلہ کے بعد پھر دعا کرنا
جب حیلہ سے فارغ ہو جاتے ہیں تب ایک دفعہ پھر دعا کی جاتی ہے۔جو کہ کہیں سے بھی ثابت نہیں ہے اور پھر یہ میت کی تدفین میں بھی تاخیر کا سبب بنتی ہے ۔
حکم شریعت یہ ہے کہ میت کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کی جائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا،وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ »
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنازہ میں جلد ی کرو ۔ کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نذدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اُتار تے ہو۔
بعض اہل خانہ کی حاضری کی وجہ سے میت کی تدفین میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، البتہ چند گھنٹے انتظار کیا جا سکتا ہے ورنہ افضل یہی ہے کہ اس کی تدفین جلد عمل میں لائی جائے۔ اہل خانہ اگر تاخیر سے پہنچیں تو ان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھ لیں جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جھاڑو دینے والے اس مرد یا عورت کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی تھی، جسے دفن کر دیا گیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں اطلاع نہیں دی گئی تھی تو آپ نے فرمایا: دُلُّوْنِی عَلٰی قَبْرِهِ » ‘‘مجھے اس کی قبر بتاؤ۔’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو بتایا تو آپﷺ نے اس کی نماز جنازہ اس کی قبرپر جاکر ادافرمائی۔
حیلہ کے بعددعا کرنے کے بارے میں تفصیلاً گزشتہ ابواب میں گزر چکا ہے۔


فصل ہشتم: قبرستان جاتے وقت ذکر کرنا اور کلمہ شہادت کہنا
1) قبرستان جاتے وقت ذکر کرنا اور نعتیں پڑھنا لوگوں کو ذکر نہ کرنے پر ملامت کرنا
اسی طرح کچھ جنازہ قبرستان میں لیکر جاتے ہوئے بھی اُونچی آواز میں نعتیں پڑھتے ہیں ،کلمہ شہادت کہتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں ۔یہ طریقہ بھی بدعت ہے کیوں کہ میت کے ساتھ خاموشی سے چلنے کا حکم ہے جس کی تفصیل گذشتہ ابواب میں کزر چکی ہے۔
2) عورت کا اپنی ما ں یا دیگرمحرم رشتےدارکے جنازے کو اُٹھانے پر اصرار
اسی طرح کچھ خواتین جنازہ قبرستان میں لیکر جاتے ہوئے جنازے کی چارپائی کو اُٹھانے کی کوشش کرتی ہیں ، اور منع کرنے پر ناراض ہوتی ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ایک جنازے میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں جب میت کو تدفین کے لیے لیکر جا رہے تھے تو وہاں ایک عورت آئی جو میت کی چارپائی کو پکڑ کر جنازے کے ساتھ چلنے لگی ۔ جس کو منع کیا اور دور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ساتھ سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اور جب غصہ کیا تو ایک شخص بولا کہ اس کی والدہ ہے منع نہ کرو، لیکن بعد میں اس کو ہٹا دیا۔ ماں کی وفات کا غم بیٹی کو لازمی ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس جدائی میں ایسے کام کرئے جو درست نہیں ہیں۔ اس موقع پر اس کو صبر اور استقامت سے کام لینا چاہیے۔ نہ کہ ہٹ دہرمی سے اب وہ غیر محرموں کے سامنے بھی آ رہی تھی ہالانکہ ان سے پردے کا حکم ہے۔ اور مردوں کی موجودگی میں خواتین کا جنازے کو اُٹھانا بھی درست نہیں ہے۔
3) جنازہ لیکر دوڑ لگا دینا
اسی طرح ایک جگہ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ کچھ لوگ جنازے کو لیکر دوڑ لگا دیتے ہیں ۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ جنازے میں جلدی کرنی چاہیے ۔اور جنازے کوجلدی لیکر چلنے کے بارے میں حکم ہوا ہےاس لئے جلدی چلتے ہیں ۔ان کا اس حدیث سے غلط استدلال ہے۔ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا،وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ »
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنازہ جلد ی لیکرجاؤ ۔ کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نذدیک کر رہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اُتار تے ہو۔
یہاں جلدی کرنے کا ذکر ہے نہ کہ جنازے کو لیکر دوڑنے کا۔لہذا جنازے کو لے کر دوڑنا درست نہیں ہے بلکہ جنازے کو لے کر درمیانی چال سے چلا جائے۔
راقم کا ایک دوست ہے جس کا ذکر گزشتہ بھی گزر چکا ہے وہ ایک جنازے کی روداد سناتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ : میرے ایک عزیز کی وفات ہو گئی ہم اس کے جنازے میں شرکت کے لیے گےجب میت کو گھر سے جنازہ گاہ کی طرف لیکر جا رہے تھے اس وقت انہوں نے بہت تیزی کے ساتھ چلنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے کئی لوگ جو بزرگ تھے وہ اس کے ساتھ نہ پہنچ سکے، ان میں میرے والد محترم بھی تھے جو دمہ کے مریض تھے اور تیز نہیں چل سکتے تھے۔میں خود بھی بڑی مشکل سے ساتھ پہنچا اور انہوں نے جلدی سے نمازِ جنازہ بھی ادا کی جس سے کئی لوگ جو تیز چل نہیں سکتے تھے وہ نمازِ جنازہ سے رہ گئے۔ ہم بھی بڑی مشکل سے نماز کے ساتھ پہنچے۔اور اسی طرح تدفین کے وقت بھی بہت تیزی سے قبر میں میت کو رکھا اور جلدی سے مٹی ڈال کر واپس لوٹ آئے ۔وہ کہتا ہے کہ مجھے ان کا یہ عمل بہت عجیب لگا۔میں کافی دنوں تک اس بارے میں سوچتا رہا لیکن مجھے اس کی وجہ نہیں پتہ چل سکی۔
اب دیکھیں کہ ان کا یہ طریقہ کہ کس طرح میت کو لیکر تیز دوڑ لگاتے ہیں ، جس کی وجہ سےکئی لوگ جنازے کو کندھا دینے سے بھی رہے اور نمازِ جنازہ سے بھی رہ گئے ان کے اس عمل سے ایک تو میت کو تکلیف ہوتی ہے دوسرا اس معاملے میں انہوں نے بہت شدت اختیار کی ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے۔
4) قبر کی دیواریں پکی کرنا
اسى طرح ایک رسم یہ بھی ہے کہ قبر کی اندرونی دیواروں کو مکمل پختہ کر دیتے ہیں اور ان میں بلاک اور سیمنٹ لگا دی جاتی ہے ۔ یہ بھی درست نہیں ہے إلَا یہ کہ زمین کی خرابی کی وجہ سےہو۔باقی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ ابواب میں تفصیلاً بیان کی جائے گی۔
فصل نہم : قبر کے اندر میت اتارنے سے قبل سورۃ البقرۃ ، سورۃ یاسین اور دیگر سورتوں کو پڑھنا
اسی طرح میت کو قبر میں اتارنے سے قبل کچھ علاقوں میں امام یا حافط قبر میں قبلہ رخ ہو کر سورۃ یٰسین اور سورۃ البقرۃ اور دیگر قرآنی سورتیں پڑھتے ہیں ۔یہ طریقہ بھی بدعت ہے۔کیونکہ اس کا ثبوت کہیں بھی نہیں ہے ۔نہ نبی کریم ﷺ کے دور میں اور نہ ہی خلفاء الراشدین کے دور میں اور نہ ہی اس کے بعد آئمہ اربعہ سے کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔

باب چہارم

آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین کے بعد کی رسومات و بدعات

فصل اول : قبر میں اُتارنے کے دوران کی رسومات
1) قبر میں اُتارنے کے بعد میت کا چہرہ دوبارہ کھول کر دیکھنا اور قبر کو دکھانا
اسی طرح تدفین کے دوران کی ایک رسم یہ بھی ہے کہ جب میت کو قبر میں اُتار دیا جاتا ہے تب قبرکے اندر ایک آدمی جا کر میت کے چہرے سے کفن ہٹا کر قبر کو بھی میت کا آخری دیدار کراتے ہیں، اور پھر لوگ قبر کے چاروں طرف کھڑے ہو کر اس کا آخری دیدار کرتے ہیں ۔
اسی طرح بعض لوگ قبر میں میت کو اُتار کر میت کا آخری دیدار کرتے ہیں اور اس دیدار کو لازمی سمجھتے ہیں ۔بلکہ کچھ جگہوں پر باقائدہ آواز لگائی جاتی ہے کہ جس کسی نے میت کا آخری دفعہ دیدار کرنا ہے وہ جلدی سے آ کر دیکھ لیں بعد میں قبر کو بند کر دیا جائے گا۔تب لوگ جوک در جوک جو وہاں قریب موجود ہوتے ہیں وہ آ کر قبر میں میت کا آخری دفعہ دیدار کرتے ہیں اس کے بعد قبر کو بند کر دیتے ہیں اور پھر اس پر مٹی وغیرہ ڈالیے ہیں۔
اس حوالے سے مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ فرماتے ہیں کہ: قبر میں رکھ دینے کے بعد پھر منہ کھول کر دکھانا اچھا نہیں ، بعض اوقات چہرے پر برزخ کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں، ایسی صورت میں لوگوں کو مرحوم کے بارے میں بدگمانی کا موقع ملے گا ۔
لہذا یہ طریقہ بھی درست نہیں ہےکیونکہ قبر کو میت کا چہرہ دکھانا یا دیدار کروانا کہیں سے بھی ثابت نہیں ہے۔
اسی طرح مولانا گوہر رحمان صاحب فرماتے ہیں کہ :میت کو قبر میں اُتارنے کے بعد دوبارہ دیکھنا مکروہ ہے۔ اس سے پہلےدیکھنا مکروہ نہیں ہے اور ضرورت بھی نہیں ہے بلکہ صرف مباح ہے۔
قبر میں اُتارنے کے بعد دیکھنا مکروہ ہونے کی وجہ کے حوالے سے مولانا محمد یوسف لدھیانوی ؒ فرماتے ہیں کہ: قبر میں رکھ دینے کے بعد پھر منہ کھول کر دکھانا اچھا نہیں ، (کیوں کہ )بعض اوقات چہرے پر برزخ کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں، ایسی صورت میں لوگوں کو مرحوم کے بارے میں بدگمانی کا موقع ملے گا ۔
آج کل لوگوں نے جو طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے کہ میت کا منہ دیکھنے کے لئے ایسا اہتمام کرتے ہیں جیسے کوئی لازمی حکم ہو۔ یہ درست نہیں ہے لیکن فی نفسہ دیکھنا جائز ہے۔ اسی طرح شوہر اپنی مردہ بیوی کا منہ دیکھ سکتا ہےاور بیوی اپنے مردہ شوہر کا منہ دیکھ سکتی ہے ۔
بعض جگہوں پر میت کے چہرے کو کئی گھنٹوں تک کھلا چھوڑ دیتے ہیں تا کہ آنے والے دیکھتے رہیں ۔حالانکہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ انسان جب فوت ہو جائے تو چہرے سمیت اس کے سارے جسم کو ڈھانپ کر رکھا جائے جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کو چادر سےڈھانپا گیا تھا۔
دلیل:
چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ان رسول الله صلي الله عليه وسلم حين توفي سجي ببرد حبرة ۔
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات فرما گئے تو آپ کے جسد اطہر کو ایک (یمنی) چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔”
صحابہ کرام میں بھی یہی امر معروف تھا اور یہ عہد نبوی کے عمل ہی کا تسلسل تھا، امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ “اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ میت کو ڈھانپ دیا جائے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کی حفاظت کی جائے اور اس کی صورت میں اگر کوئی تبدیلی رونما ہو تو اسے آنکھوں سے اوجھل رکھا جائے اور میت کا جن کپڑوں میں انتقال ہوا ہو انہیں اتارنے کے بعد اسے ڈھانپا جائے تاکہ اس کپڑوں کی وجہ سے اس کے جسم میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔”
ہاں اگر تجہیز و تکفین میں وقت ہو اور جلدی نہ ہو تو کچھ دیر کے لئے میت کا چہرہ کھلا چھوڑ دے تا کہ میت کو دیکھنے سے لوگ فرست پا جائیں اور بار بار چہرہ کھولنے کی حاجت نہ پڑے تو اس کی گنجائش ہو سکتی ہے۔
کہیں کہیں پر یہ رواج بنا ہوا ہے کہ بار بار میت کا چہرہ وہی لوگ دیکھتے ہیں جو پہلے دیکھ چکے ہوتے ہیں یہ طریقہ درست نہیں ہے ۔
لیکن اگر قبرستان لے جانے کیے بعد اور تدفین سے قبل کوئی دور کے رہنے والے رشتہ دار کے آنے پر اس کو قبرستان میں میت کا چہرہ دکھایا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔جیسا کہ امام بخاری ؒ نے کفنانے کے بعد میت کے پاس جانے پر باب باندھا ہے۔ بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ ۔
2) فصل میت کے سرہانےکچھ پڑھ کر کنکریاں رکھنا
اسی ایک رسم یہ بھی ہے کہ جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے تب اس کےسرہانے پتھر کی کنکریاں دم کر کے یا یہ کہہ لیں کے اس پر کچھ آیاتِ قرآنی وغیرہ پڑھ کر میت کے سرھانے رکھ دی جاتی ہیں ۔یہ رسم مظفرآباد کے گرد ونواع کے دیہاتی علاقوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں یہ اور اس طرح کی دیگر کئی رسمیں پائی جاتی ہیں اور یہاں کے لوگ اس کو لازمی سمجھ کر پورا کرتے ہیں۔اتنی اہمیت فرائض، واجبات اور سنّتوں کی نہیں ہوتی جتنی ان رسومات کے پورا کرنے کی ہوتی ہے۔
اس طریقے کا بھی شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کہیں سے کسی صحابی ،تابعی اور امام سے ثابت ہے۔ لہذا یہ بھی بدعت ہے اس سے بچنا بھی ہماری ذمعداری ہے۔

فصل دوم : قبر میں اُتارنے کے بعد کی رسومات
1) قبر پر پانی چھڑکنا
کچھ لوگ قبر پر پانی چھڑکنا باعث ثواب سمجھتے ہیں اور اس کو میت کے لیے نافع سمجھتے ہیں کہ اس سے میت کو ٹھنڈک ملتی ہے۔ اسی وجہ سے خاص موقع پر جیسا کہ ہرزیارت کے وقت ، جمعرات کی شام کو ،شب ِبرات ، شبِ معراج ، عاشورہ ، ربیع الاول اور عیدین وغیرہ کے موقع پر خصوصی اہتمام کے ساتھ آکر پانی چھڑکتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔کیونکہ پانی ڈالنے کا کوئی وقت متعین نہیں ہے۔
صرف قبر پر تدفین کے بعد پانی چھرکنا ثابت ہے۔ تا کہ اس سےمندرجہ ذیل فوائد حاصل ہو سکیں ۔
• دھول مٹی بیٹھ جائے۔
• ہوا کے جھونکھوں سے قبر محفوظ رہے۔
• میت سے آنے والی بدبو کو روک سکے کیونکہ ہو سکتا ہے کسی درندہ کو یہ محسوس ہو اور وہ میت کو چیر پھاڑ کرئے۔
لیکن اگر مٹی دھنس جائے اور قبر میں میت نظر آنے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں بعد میں بھی مٹی ڈال کر پانی چھڑکا جا سکتا ہے۔
تدفین کے بعد پانی ڈالنا ضروری نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث ملتی ہیں۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا تھا اسی طرح حضرت سعد بن معاذ ؓ کی قبر پر بھی پانی چھڑکا تھا اور حضرت بلال بن رباحؓ نے نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک پر پانی کا چھڑکاؤ کیا تھا۔ ان میں سے ایک حدیث یہاں نقل کی جاتی ہے۔جسے طبرانی نےاپنی کتاب الاوسط میں روایت کیا ہے۔
طبرانی اوسط کی روایت یہ ہے : وعن عائشۃ ان النبی ﷺ رش علی قبر ابنہِ إبراھیم ۔
ترجمہ :حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا۔
اس روایت کے متعلق ہیشمی نے کہا کہ اس کے سارے رجال صحیحین کے ہیں سوائے شیخ طبرانی کے۔اس لیے یہ کہا جائے گا کہ قبر پر پانی چھڑکنا مستحب و مسنون ہے، اس جانب بہت سے اہل علم بھی گئے ہیں ان میں شیخ ابن باز ؒاور شیخ ابن عثیمینؒ بھی ہیں ۔
ان ساری روایتوں کو علامہ البانی ؒ نے ضعیف قرار دیا تھا لیکن بعد میں ایک صحیح روایت ملی تو شیخ نے کہا: ‘‘ قبر پر پانی چھڑکنے سے متعلق بہت سی احادیث ملتی ہیں مگر کوئی بھی علت سے خالی نہیں جیسا کہ میں نے ارواء الغلیل میں بیان کیا۔ پھر میں نے طبرانی اوسط میں ایک حدیث پائی جو قوی سند سے ہے، وہ ہے نبی ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم ؓ کی قبر پر پانی چھڑکا تھا ۔تو میں نے اس حدیث کی تخریج سلسلہ صحیحہ میں کی ۔’’
لیکن اگر کوئی پانی نہ ڈالے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ عقیدہ بھی پایا جاتا ہے کہ قبر پر پانی چھڑکنے سے میت کو فائدہ پہنچتا ہے یا اِس عمل سے اس کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ۔ان کا یہ عقیدہ باطل ہے، اس سے ان کو توبہ کرنی چاہیے۔ اسی طرح کچھ لوگ قبر پر پانی چھڑکنے کے ساتھ اس کی لپائی کرتے ہیں اور اس پرپرندوں کے لئے اس لیے دانہ وغیرہ ڈالتے ہیں تا کہ اس سے میت کو ثواب ملے۔ یہ عمل بھی درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس کا کہیں ثبوت ہے لہذا اس سے بھی اجتناب ضروری ہے۔
2) قبر پر پھول چڑھانا
اسی طرح کچھ لوگ قبر پرپھول چڑھاتے ہیں اگر بتیاں وغیرہ جلاتے ہیں۔ اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس سے میت کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور یہ پھول تسبیح کرتے ہیں جس سے میت کو ثواب ملتا ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے، بدعت ہے اور ہندوؤں سے مشابہت کی وجہ سے حرام بھی ہے۔ قبر پر پھول ڈالنا بھی صحابہ وتابعین کے زمانے میں ثابت نہیں ۔ ہاں حدیث سے اتنا ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو شخصوں کی قبر پر کھجور کی شاخ کے دو حصے کر کے ان قبروں پر رکھی تھی اور یہ فرمایا تھا کہ امید ہے کہ جب تک یہ شاخیں نہ سوکھیں اس وقت تک ان سے عزاب میں کمی واقع ہو جائے۔اسی طرح ان سے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ پھولوں سے عزابِ قبر میں کمی واقع ہوتی ہے تو ان بزرگوں کی قبور کی بنسبت عام لوگوں کی قبروں پر زیادہ ڈلے جاتے نہ کہ اولیاء کی قبور پر ۔ اس سے وہ ان اولیاء کا تقرب حاصل کرنے اور تزئیں حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں جو کہ بدعت ہے ۔ لہذا اس سے بچنا لازمی ہے۔
3) قبر پر روشنی کرنا
اسی طرح ایک رسم یہ ہے کہ میت کی تدفین کے بعد قبر پرچراغاں کرنے کے لئے بلب ،راڈ یا ٹیوب لائٹ وغیرہ لگائی جاتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے قبر پر چراغاں کرنے سے منع کیا ہے۔
امام احمد اور اہل سنن نے زید بن ثابت کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، قبروں پر مسجدیں بنانے والوں پر اور قبروں پر چراغ روشن کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو ۔
لہذا اس عمل کو کرنا کیسے باعث ثواب ہو گا جس کے کرنے والے پر رسول اللہﷺ نے لعنت کی ہو۔
4) قبر پر خیمہ لگانا اور کرائے پر مدرسہ کے بچے یا قاری صاحب کو قبر پر قرآن پڑھنے کے لئے رکھنا
اسی طرح میت کی تدفین کے بعد قبر پر خیمہ لگانے کو بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ خیمہ کم سے کم تقریباً 3 تین دن تک لگا رہتا ہے۔ اور اس کیمپ یا خیمہ میں ایک حافط کو اُجرت پر قرآن خوانى كرنے کے لیے صرف اس لیے رکھا جاتاہے جس کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ اس قبر پر سے قرآن کی آواز آنی چاہیے یعنی قبر پر اُونچی آواز میں قرآن کی تلاوت کرنی ہے ۔ خود چاہےپوری زندگی قرآن کو اُٹھایا ہی نہ ہو اُٹھانا تو دور کی بات چھوا تک بھی نہ ہو گا اور نہ ہی اس کی تلاوت کی ہو اب قبر پر اس کا اہتمام کیا جانا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کو تین وقت کی روٹی اور چاہے مہیا کی جاتی ہے او ر اس نے اس دوران اور کہیں بھی نہیں جانا اور نہ ہی اس کی اجازت ہوتی ہے۔ اس نے دن اور راتیں سب یہیں گزارنی ہوتی ہیں۔
اور یہ اس خيال سے كہ ميت كو اس سے نفع ہو گا،حالانكہ يہ سب بدعات ہيں جن كى كوئى اصل نہيں ہے اور يہ سب رسوم ورواج كى وہ طوق اور زنجيريں ہيں كہ جنہيں اسلام اُتارنے اورتوڑنے آيا تها –
5) قبر کو پختہ بنانا
اسى طرح قبروں پر عمارات تعمير كرنا، نيز اسے مسجد بنانا اور تبرك كى غرض سے اس كى زيارت كرنا، مُردوں كو وسيلہ بنانا اور اس كے علاوہ ديگر شركيہ مقاصد كے لئے وہاں جانا
اسی طرح قبر کو پختہ کرنا ، قبروں پر عمارات تعمير كرنا، نيز اسے مسجد بنانا اور تبرك كى غرض سے اس كى زيارت كرنا، مُردوں كو وسيلہ بنانا اور اس كے علاوہ ديگر شركيہ مقاصد كے لئے وہاں جانا بھی لازمی سمجھا جاتا ہے۔ قبر کو اندر سے بھی بلاک یا پتھروں کی دیوار لگا کراس کو مصالہ سے پلستر کر کے پکا کر دیا جاتا ہے ۔ اور باہر بھی اس کے اُوپر پکے پتھروں کی سلیں رکھ کر ریت اور سیمنٹ کے مصالہ سے بند کر دیا جاتا ہے۔ جیسے تدفین کے بعد قبر سے مردہ نکل کر کہیں بھاگ نہ جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے پکی قبریں بنانے، ان پر لکھنے ، ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا۔
حضرت سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ :
’’نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ‘‘۔
ترجمہ:۔ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پکا کرنے ، ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں قبرپکا کرنا، ان پر عمارتیں تعمیر کرنا اور ان پر بیٹھنا جانا درست نہیں ہے۔ لہذا اس سے اجتناب کرنا لازمی امر ہے۔

6) قبر پر چاردیواری ،گرِل لگانا ، یا گنبد بنانا
اسی طرح قبر کو پختہ کرنے کے علاوہقبر پر چاردیواری ،گرِل اور گنبد بنائے جاتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے۔ احادیث میں قبروں سے گنبد اور قبے گرانے کا حکم ہے۔صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں ابوالہیاج اسدی سے مروی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا کر کہا: کہ میں آپ کو ایسے کام پر مامور کرتا ہوں جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مامور کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ : اے علی ! تمہیں جو بت اور تصویر نظر آئے اسے مٹا دو اور جو اونچی قبر دکھائی دے اسے دیگر قبرووں کے برابر کر دو ۔
آج سے تقریباً نصف صدی پیشتر جب کہ شاہ خالد ؒ کے والد شاہ عبدالعزیز ؒ نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں تھامی تو اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے قبرستانوں میں جو گنبد اور روضے نظر آئے مسمار کر دیئے۔ جسے دیکھ کر قبر پرستوں کے قلوب میں رنج و غم کی لہر دور ہو گئی۔ انہوں نے شاہ پر الزام لگایا کہ انہوں نے اہل بیت، صحابہ کرام اور بزرگان دین کی قبروں کے گنبد اور روضے کو مسمار کر کے بہت برا کام کیا ہے۔ چنانچہ شاہ کے خلاف نازبیہ الفاظ استعمال کیے گئے اور تمام اسلامی ممالک میں کہا گیا کہ شاہ بزرگوں کا بے ادب اور گستاخ ہے۔ شاہ نے جب یہ شور و غوغا سنا تو بڑے بڑے علماء کو مدعو کیا اور ان سے سوال کیا کہ بتاؤ قرآن و سنت کی رو سے میرا قبروں سے گنبد اور قبے گرانا ناجائز ہے ؟ پھر کہا: اگر آپ قرآن و سنت کی روشنی میں قبروں پر گنبد اور روضے بنانا ثابت کر دیں تو میں ان سب کے روضے سونے اور چاندی کے بنانے پر تیار ہوں مگر یہ سن کر تمام لاجواب ہو گئے اور کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔
صحیح مسلم میں سیدنا ثمامہ رضی اللہ عنہ بن شفی کی روایت سے بھی ایسی حدیث مذکور ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر اونچی قبر کو جو شریعت کی مقدار سے زائد ہو گرانا لازمی اور فرض ہے۔
قبروں کو اونچا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس پر گنبد بنایا جائے۔ تو ان باتوں کی بلاشبہ اور یقیناً ممانعت ہے۔ اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے گرانے پر مامور کیا تھا۔
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ :
’’نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ‘‘۔
ترجمہ:۔ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پکا کرنے ، ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے ے منع فرمایا ہے۔
اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ قبر پر عمارت بنانا ممنوع ہے۔ اور منع کا اطلاق قبر کے ارد گرد دیوار بنانے پر بھی صادق ہوتا ہے۔ جیسے اکثر لوگ مردوں کی قبروں کے ارد گرد ایک ہاتھ یا اس سے اونچی دیوار بناتے ہیں کیونکہ یہ تو ناممکن ہے کہ قبر کو مسجد بنایا جائے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد قبر کی وہ متصل جگہ ہے جو اس کے ارد گرد ہوتی ہے جہاں پر دیوار تعمیر کی جاتی ہے۔ اس کا اطلاق گنبدوں، مسجدوں اور بڑے بڑے مزاروں پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ قبر اس کے وسط میں یا ایک جانب ہوتی ہے۔ جسے معمولی سی سوجھ بوجھ ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ بادشاہ نے فلاں شہر یا فلاں بستی پر فصیل بنائی۔ حالانکہ دیوار کی تعمیر شہر کے چاروں طرف ہوتی ہے بستی یا مکان کے ارد گرد ہوتی ہے۔ اب اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ اطراف جہاں پر دیوار تعمیر کی گئی ہے شہر اس کے وسط میں ہو جیسے چھوٹے شہروں، قصبوں اور تنگ مقامات میں ہوتا ہے۔ یا وسط سے کچھ دور ہو جیسے بڑے شہروں اور وسع مقامات میں ہے۔ جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ اس لفظ کا اطلاق مذکورہ بالا معنی پر نہیں ہوتا وہ لغت عرب سے ناواقف ہے اسے اس بات کا علم ہی نہیں کہ اہل عرب اسے اپنی زبان میں کن معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔
کسی قبر پر بھی گنبد اور قبہ بنانا جائز نہیں۔ اہل علم اور اہل فضل کی قبروں پر گنبد اور قبے بنانا کیسے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے جسے ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : “یہ لوگ جب ان میں سے کوئی نیک شخص یا کوئی بزرگ فوت ہو جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے تھے” ۔ اس وجہ سے ان پر لعنت فرمائی اور اپنی امت کو ان کی کاروائی سے ڈرایا کہ انہوں نے اپنے نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد کی حیثیت دے رکھی تھی۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی جو سید البشر ہیں تمام مخلوق سے افضل ہیں۔ خاتم الرسل ہیں اور اللہ کی مخلوق میں سب سے برگزیدہ ہستی ہیں۔ آپ نے اپنی امت کو اپنی قبر کو سجدہ گاہ بنانے یا بت بنانے یا معبد بنانے سے منع فرمایا۔ آپ اپنی امت کے لیے اسوہ حسنہ ہیں۔ اور اہل علم اور اہل فضل کے لیے بھی اسوہ حسنہ ہیں۔ وہ آپ کے افعال اور اقوال کی سختی سے پیروی کرتے رہے۔ وہ امت میں سب سے زیادہ حق دار تھے اور استحقاق رکھتے تھے کہ ان کی پیروی کی جائے۔ مگر امت کے بعض افراد کی اتباع کیسے جائز ہو سکتی ہے حالانکہ ان کے افعال کی اصلاع کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ان کی قبر پر ایسا برا کام کیا جائے۔
بس افضیلت کا اصل مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ آپ کی فضیلت کے مقابلہ میں سب فضیلتیں ہیچ ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ اگر یہ تمام امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر منع ہیں اور آپ کی قبر مبارک پر ایسے امور شنیعہ کرنے والا لعنت کا مستحق ہے تو اس امت کے باقی لوگوں کی قبروں کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے !!!؟
محرمات کو حلال کرنے اور منکرات کو جائز قرار دینے کے لیے فضیلت کو کوئی دخل نہیں۔
قبروں پر گنبد اورقبے بنانے کے مفاسد
یہ یقینی بات ہے کہ لوگوں میں اس اعتقاد کے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے لوگوں کو قبریں اونچا کرنے کی ترغیب دی اور اس کام کو ان کے لیے نہایت خوبصورت دکھلایا اور انہیں ترغیب دی کہ بزرگوں کی قبروں کو غلافوں سے ڈھانپیں اور ان کو چونے گچ بنائیں۔ اور ان پر بیل بوٹے بنائیں۔ اب جاہل آدمی جب کسی قبر کو دیکھتا ہے کہ اس کی عمارت پرگنبد ہے تو اس میں داخل ہوتا ہے۔ اندر جا کر قبر پر خوبصورت پردے ارغلاف دیکھتا ہے اوپر روشنی کرتے ہوئے چراغ بھی اسے نظر آتے ہیں۔ اس کے ارد گرد خوشبو دار انگیٹھیوں کو دیکھتا ہے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر اس کے دل میں صاحب قبر کی تعظیم و تکر یم کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ذہن اس میت کی تعریف بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کے دل اور دماغ پر اس کا خوف اور رعب چھا جاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اس کے دل میں شیطانی عقائد جنم لیتے ہیں مسلمانوں کو قابو میں لانے کے لیے شیطان کا یہ سب سے بڑا ہتھکنڈا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا مضبوط ترین ذریعہ ہے۔ جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کے پاؤں اسلام سے لڑکھڑا نے لگتے ہیں۔ بالآخر نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ صاحب قبر سے ایسی درخواستیں کرنے لگتا ہے کہ جن کو منظور کرنے کی اللہ کے سوا کسی کو قدرت نہیں۔ اس وقت اس کا نام موحدین کی جماعت سے خارج ہو جاتا ہے اور مشرکین کے زمرہ میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
بعض اوقات پہلی مرتبہ قبر کو دیکھتے ہی مرعوب ہو کر شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جب مذکورہ بالاصفت کے مطابق کسی قبر کو دیکھتا ہے تو اس پر سجدہ ریز ہو جاتا ہے اور پہلی ملاقات پر ہی اس کے دل میں یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ لوگوں نے اس مردہ کی قبر کا خاص اہتمام کیا ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے، یہ کوئی اللہ کی بزرگ ہستی یا خدا رسیدہ بندے کی قبر ہے . لوگ اس سے دینی اور دنیاوی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ایسے بزرگوں کی قبروں کو دیکھ کر اپنے آپ کو حقیر تصور کرتا ہے اور اس کی قبر پر جھکتا ہے .
قبروں کو اونچا کرنے کی خرابیاں
قبروں کو اونچا کرنے، چونے گچ بنانے اور خوبصورت و پختہ بنانے میں کئی خرابیاں ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جاہل لوگ مشرکانہ عقائد میں مبتلا ہو کر مصیبت عظمیٰ کے پنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ اور اپنا عمدہ اور بہترین مال ان کی نذر کرتے ہیں۔ اور وہاں پر خرچ کرتے ہیں کیونکہ ان کے نام پر خرچ کر کے ان سے بہت بڑے فائدے اور ثواب کے امیدوار ہوتے ہیں۔ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑی عبادت، مفید اطاعت اور مقبول نیکی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا مدّعا اور مقصود حاصل ہو جاتا ہے جن کو بنی آدم کی اولاد میں شیطان نے اس قبر پر اپنے حپلے چانٹے بنا رکھا ہوتا ہے۔ یہ عجیب و غریب قسم کے کام ہوتے ہیں۔ یہ لوگوں کہ دلوں میں اس کا رعب اور خوف ڈالتے ہیں۔ اور کئی قسم کی کذب و افتراء کی داستانیں جوڑتے ہیں۔ تاکہ انہیں جاہل اور نادان لوگوں کا مال حاصل ہو۔ اس ملعون ذریعہ اور شیطانی وسیلہ سے قبروں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ قبر کے مجاور لوگوں کی دولت ناجائز ذریعے سے اکھٹی کرتے ہیں۔ ان میں سے جو قبروں کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں اگر ان کا قبروں پر وقف کردہ مال کا حساب لگایا جائے تو اس قدر ہو جائے کے مسلمانوں کے ایک بڑے شہر کے باشندگان کی خوراک کے لیے کافی ہو۔ اگر ان کے باطل نذرانوں کو فروحت کیا جائے تو اتنی رقم حاصل ہو جو فقیروں کی ایک بڑی جماعت کے لیے کافی ہو۔ یہ سب کچھ معصیت اور گناہ ہے۔
چنانچہ ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : لا وفاء لنذر فى معصيته ۔
ترجمہ:۔ اللہ کی نافرمانی کی صورت میں کسی نذر کو پورا کرنا جائز نہیں۔
یہ نذر بھی ایسی ہے کیونکہ اس سے رضائے الہیٰ مقصود ہرگز نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ تمام نذریں ایسی ہیں کہ ان کو پورا کرنے والا اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے اور اس کی ناراضگی مول لیتا ہے۔ کیونکہ یہ نذر ماننے والے کے دل میں ایسا اعتناء پیدا کرتی ہے کے جس کے نتیجہ میں وہ مُردوں کو الوہیت کے درجہ پر تصور کرنے لگتا ہے۔ پھر دین کے معاملہ میں اس کے پاؤں میں استقلال نہیں رہتا اور قدم قدم پر لڑکھڑاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنا پیارا مال اور دل پسند مال خرچ کرتا ہے تو شیطان اس کے دل میں اس کی محبت اور تعظیم کا بیج بوتا ہے اور قبر کی تقدیس کا اعتقاد پیدا کرتا ہے۔ صاحب قبر کی تعظیم و تکریم کا جذبہ دل میں ابھارتا ہے۔ اور قبروں پر اس کے اعتقاد میں غلو پیدا کرتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ باطل عقائد میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور اسلام کی طرف واپس نہیں آتا۔ ایسی ذلت و رسوائی سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی شخص ان فریب خوردہ لوگوں سے مطالبہ کرے کہ جو نذرانے وہ قبر پر دے رہے ہیں وہ کسی نیکی اور اطاعت کے کام پر لگائیں تو وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ بلکہ ایسا کرنے کا ان کے دلوں میں خیال نہیں آئے گا۔
غور کیجئے ! شیطان نے ان کو کس قدر بھول بھلیوں میں لگایا ہوا ہے اور گمراہی کے گڑھے میں کیسا گرایا ہے۔ وہ گڑھا ایسا ہے کہ اس میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
کچھ خرابیوں اور مفاسد کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ ان کے علاوہ اور کئی خرابیاں اور مفاسد ہیں جو قبروں کو اونچا کرنے والے اسلام کی چار دیواری سے باہر پھینک دیتی ہیں اور دین کے بلند و بالا ٹیلے سے منہ کے بل نیچے گراتی ہے۔
ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اپنے عمدہ چوپائے اور بہترین مویشی قبر کے پاس لے جا کر ذبح کرتے ہیں۔ اس کی غرض و غایت ان کا قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ نیز وہ امید رکھتے ہیں کہ ان سے کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔ ایسی صورت میں قربانی غیر اللہ کے نام پر ہو گی اور بتوں کی عبادت شمار ہو گی۔ کیونکہ کھڑے کئے ہوئے پتھر (جس کو وثن کہتے ہیں) کے پاس قربانی کرنے اور کسی میت کی قبر کے پاس جا کر قربانی کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ صرف نام بدلنے سے باطل کو حق و صداقت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی حلال و حرام پر کوئی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص شراب کا نام بدل دے اور اسے پئے تو اس کے فعل کو معصیت کے دائرہ سے خارج نہیں کر سکتے بلکہ اسے معصیت ہی شمار کریں گے اور اس کا حکم وہ ہی ہو گا جو شراب پینے والے کا ہو گا اس مسئلہ میں تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
بعض لوگ قبروں پر گنبد اور روضے بنانے کے جواز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا حوالہ دیتے ہیں حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر مبارک پر گنبد بنانے کا ہرگز ہرگز حکم نہیں فرمایا نہ خلفاء راشدین نے ایسا حکم دیا اور نہ تابعین کے زمانے میں کسی نے گنبد خضراء بنایا بلکہ آپ کی رحلت کے چھ سو سال تک کسی نے نہیں بنایا۔ اس کے بعد مصر کے بادشاہ قلاووں صالح نے (جو ملک منصور کے نام سے مشہور تھا) اسے تعمیر کرایا۔ اس نے 278ھ میں اسے تعمیر کرایا۔ اس نے اسے علماء سے فتویٰ لے کر شریعت کے احکام کو ملحوظ خاطر رکھ کر نہیں بنایا تھا بلکہ سرکاری حیثیت سے بنایا تھا۔ لیکن اہل قبور نے اسے شرعی حیثیت دیدی۔ بریں وجہ اس بادشاہ کے اس فعل کو بطور دلیل پیش کرنا بے معنی ہے۔ کیونکہ قابل قبول وہی دلیل ہے جو کتاب و سنت سے ماخوذ ہو۔ ان کے مقابل شریعت کی نظر میں سب دلائل ہیچ اور بے معنی ہیں۔ کسی عالم کی پیروی، خواہ وہ علامہ ہو یا متجر عالم ہو، جائز نہیں جبکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف چلے یا کسی حکم میں خلاف ورزی کرے۔ لیکن غلطی سرزد ہونے کے باوجود وہ اجر کا مستحق ہو گا۔ بشرطیکہ وہ اجتہاد کی شرائط پوری کرے۔ مگر کسی کو اس کی پیروی کرنا جائز نہیں۔
لہذا قبروں کو اونچا کرنا، ان پر گنبد بنانا اور مسجد بنانا ایسے کام ہیں جن کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز حکم نہیں دیا بلکہ ایسے امور سے منع فرمایا ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔

7) قبر پر نام کا کتبہ لگانا
میت کی قبر پر نام کا کتبہ یا قرآنی آیات لکھ کر لگانا درست نہیں ہے۔ اس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ» وَقَالَ: سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جَابِرٍ «وَأَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ »
ترجمہ:۔ سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا اور اس بات سے بھی منع فرمایا) کہ اس (قبر) پر کچھ لکھا جائے
سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ : ’’نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ وان يكتب عليه ۔
ترجمہ:۔ رسول اللہ ﷺ نے قبروں کو پکا کرنے ، ان پر بیٹھنے سے اور ان پر عمارتیں تعمیر کرنے ے منع فرمایا ہے، اور (اس بات سے بھی منع فرمایا) کہ اس (قبر) پر کچھ لکھا جائے
یعنی اس پر کوئی کتبہ لگانے یا عبارت لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ حاکم کہتے ہیں کہ قبر پر کتبہ لگانے کی ممانعت کی حدیث مسلم کی شرط کے مطابق ہے اور یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ کسی قبر کے ارد گرد دیوار بنانا منع ہے۔

فصل سوم : روزآنہ چھوٹےبچوں کو فجر کے بعد قبر پر دعا کے لئے بیجنا مگر خود نہ جانا
اسی طرح ایک رسم یہ بھی اختیار کی جاتی ہے کہ چھوٹے بچوں کو فجر کی نماز کے فوراً بعد قبر پر بھیج دیا جاتا ہے تا کہ وہاں جا کر تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار کریں ۔ اور بچے اپنے والدین کی قبر پر جا کر بیٹھے رہتے ہیں اور ذکر وغیرہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور کھبی کبھار وہیں پر سو جاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو تو کچھ پتہ نہیں ہوتا اور ناسمجھی میں ہوتے ہیں۔ ان پر اتنی سختی کی جاتی ہے کہ وہ مجبور ہو کر گھر والوں کی بے عزتی اور ڈانٹ سے بچنے کی وجہ سے چلے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں ہے کہ کسی صحابی نے ایسا کیا ہو یا اپنے گھر کے کسی بچے کو قبرستان بھیجا ہو۔ لہذا یہ عمل بھی درست نہیں ہے، اس سے گریز کرنا لازم ہے۔

فصل چہارم : جنازے کے فوراً بعد اہلِ میت کی طرف سے کھانے کا بندوبست
اسی طرح ایک یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ جونہی میت کو قبرستان کی طرف لے جایا جاتا ہے اس کے فوراًبعد گھر میں خواتین کے لیے کھانا لگا دیا جاتا ہے اور سب خواتین کو کھاناکھلا کر رخصت کیا جاتا ہے۔اسی طرح نمازِ جنازہ کے فوراً بعد مردوں کے لیے بھی کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے اورنماز کے بعد آواز لگائی جاتی ہے کہ کوئی بھی کھانا کھائے بغیر نہ جائے ۔ جنازے کے بعد تمام لوگ کھانا کھا کر جاتے ہیں۔ کھانا کھائے بغیر کسی کو نہیں جانے دیا جاتا اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے میت کی روح ناراض ہوتی ہے۔یہ غمی کے موقہ پر کھانا بنانا ارر کھا کر جانا دونوں درست نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے میت والے گھر تین دن تک آگ جلانے سے بھی منع کیا ہے۔ اس دوران قریبی ہمسائے اور رشتہ داروں کا کام بنتا ہے کہ وہ اہل خانہ کے لئے تین دن تک کھانے کا بندوبست کریں۔ اور دور سے آئے ہوئے مہمانوں کی رہائش اور ضیافت کا بندوبست کریں۔

فصل پنجم : تیسرے دن سب کی دعوت کرنا(رسم قل)
میت کے گھر چاہے وہ امیر گھرانا ہو یا غریب تیسرے دن ایک عظیم الشان دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کو رسمِ قل کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دن میں مختلف انواع کے کھانے پکتے ہیں اور تعزیت کے لئے آنے والوں کی تواضع کی جاتی ہے اور کسی کو بھی کھانے کے بغیر نہیں جانے دیا جاتا۔اس دن صبح سے لے کر شام تک اس گھر میں تعزیت کرنے کے لئے آنے والوں کا تاندھا بندھا رہتا ہے اور یہ لنگر کا سلسلہ پورا دن جاری و ساری رہتا ہے۔اگر کوئی آدمی اس دن کھانے وغیرہ کا بندو بست نہ کرئے تو لوگ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔اور اس کو کنجوس کہتے ہیں ،کہیں پر لوگ اس کا مزاق بھی اُڑاتے ہیں کہ اس پر پوری زندگی انہوں نے خرچہ کیا آج یہ مرنے کے بعد اتنا نہیں کر سکا کہ (اپنے بھائی یا والد یا جو بھی اس سے رشتہ ہو) اس (میت)کے لیے مہمانوں کی تواضع کر ئے تا کہ اس کو ثواب ملے۔ اور یہ گمان بھی کرتے ہیں کہ تیسرے دن کھلانے سے میت کو زیادہ ثواب ہوتا ہے۔
امیر لوگوں کو تو اس دن کے کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن غریب اس رسم کی چکی میں پستے رہتے ہیں ۔ اوراسی وجہ سے غریب لوگ کسی سےقرض لے کر اس دن کھانے کا بندوبست کرتے ہیں اور پھر کئی عرصہ تک اس کو واپس کرنے میں لگ جاتے ہیں ۔یا پھر گھر کا قیمتی سامان بھی اس کھانے کے لئے فروخت کرنا پڑتا ہے۔
اسى طرح اسراء ، معراج اورہجرتِ نبوى كى مناسبت يا كسى اور دينى مناسبت سے محافل كا انعقاد كرنا ، سوم، چہارم، چہلم وغیرہ سب بدعات ہیں،- شريعت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ہے، اور ان میں سے کسی کانشان و پتہ قرون ثلاثہ میں نہ تھا توبدعات ہوئے، اس سے مسلمانوں کو حذر کرنا بہت ضروری ہے اور اس میں کسی قسم کی شرکت بھی نہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: نیک کاموں میں مدد کرو اور بُرے کاموں پر مدد نہ کرو۔ تعاونوا[1]علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ایک دوسرے کو کا نیکی اور تقوے پر تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو۔
اس کا کھانا، کھانا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی اعانت ہے ، اگرچہ کھانی فی نفسہ حرام نہیں ہے اور امور مذکورہ یعنی سوم و دہم و بستم و چہلم و عرس وغیرہ کے بدعت اور نامشروع ہونے پر یہ حدیث جو صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہے ، دلیل صریح و قوی ہے: من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد ۔ یعنی جو کوئی عمل کرے کہ جس پر ہمارا حکم نہ ہوا ہو وہ مردود ہے پس بموجب اس حدیث کے سارے امو رمذکورہ بالا بدعت و محدث میں داخل ہیں اور نیزآنحضرتﷺ نے فرمایا ہے : شرالامور محدثا تھا۔ خداوند کریم تمام مسلمان بھائیوں کو بدعت سے بچائے۔
اس حوالہ سے فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ میں لکھا ہے کہ: آدمی کے فوت ہونے سے پہلے تقریباً ایک ہفتہ بعد لواحقین اہل محلہ اورگاؤں کے عام لوگوں کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ کھانے کی ایسی مجالس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اس لئے کہ یہ طریقہ کار سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔حدیث میں ہے: «من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد »
ترجمہ : یعنی” جوکوئی دین میں اضا فہ کرتا ہے وہ مردود ہے۔”
یاد رہے سوئم دسواں بیسواں چالیسواں چھ ماہی برسی وغیرہ سب بدعات کے زمرہ میں شامل ہیں۔
”شرح المنہاج” نووی اور حنفی فقہ کی کتابوں میں ہے: ’’ اتخاذ الطعام في اليوم الثالث والسادس والعاشر والعشرين وغيرها بدعة مستقبحة ’’ یعنی مذکورہ امور قبیح بدعت ہیں ۔
اسی طرح ایک اور فتاوی میں ہے کہ : میت کے لیے خواہ مرد ہویا عورت بالغ ہو یا نابالغ سوئم، دسواں، بیسواں، چالیسواں، چھ ماہی برسی وغیرہ رسمیں بدعت ہونے کی وجہ سے ناجائز اور ممنوع ہے۔
اتخاذ الطعام فی الیوم الثابت والسادس والعاشر والعشرین وغیرھا بدعۃ مستقبحۃ کذا فی شرح المنھاج للنووی وکذا فی الکتب الفقہ الحنفیۃ .

باب پنجم

شرعی طریقہ تجہیز و تکفین

فصل اول : تجہیز و تکفین
تجہیز و تکفین کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ جب آدمی مرگ نزع کی حالت میں ہو اس وقت اس کے پاس کلمہ کی تلقین کی جائے۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اپنے مرنے والوں کو لا الہٰ الا اللہ کی تلقین کیا کرو ’’
تلقین سے مراد مریض کے پاس کلمہ توحید پڑھا جائے تا کہ وہ بھی اپنی زبان سے کلمہ توحید ادا کرئے کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مرتے وقت لا الہ الااللہ کہا وہ جنت میں جائے گا خواہ اس سے پہلے کتنی ہی سزا ملے ۔
مرنے والے کے حق میں دعا کرے اور اس کے پاس صرف اچھی بات کرے ۔ صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : جب تم کسی مریض یا مرنے والے کے پاس موجود ہو تو صرف اچھی بات کہو ،کیونکہ فرشتے تمہاری بات پر آمین کہتے ہیں ’’۔ اسی طرح مرنے والے کے پاس سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔
اور جب مریض کی روح قبض ہو جائے تو اس کہ آنکھیں بند کر دینی چاہیں ۔کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب روح پرواز کرتی ہے تو نگاہ اس کا پیچھا کرتی ہے۔
اس کے بعد اس کے جسم کو کسی صاف چادر یا کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے ۔ اس کی جگہ کمبل یا رضائی بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ: جب رسول اللہ ﷺ کی روحِ اطہر پرواز کر گئی تو آپ ﷺ کو دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا ۔
جب کے احرام باندھے ہوئے شخص کا سر اور چہرہ نہیں ڈھانپا جائے گا۔کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ ایک آدمی جو میدانِ عرفات میں اپنی سواری سے گر کر فوت ہو گیا تھا اس کے بارے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : اس کا سر اور چہرہ نہ چھپاؤ یہ روزِ قیامت تلبیہ کہتا ہوا اُٹھے گا۔ ان سب کے حوالہ جات گزر چکے ہیں ۔


فصل دوم : غسل کا طریقہ
1) میت کو غسل دینے کا طریقہ
مرنے والا اگر مسلمان ہے تو اسے غسل دینا واجب ہے، لیکن اگر وہ جنگ میں شہید ہوا ہے تو اسے نہ غسل دیا جائے گا اور نہ ہی کفن بلکہ انہیں کپڑوں میں دفن کیا جائے گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے شہداء احد کے ساتھ ایسے ہی کیا تھا۔
میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت پہلے اس کے کپڑے اُتار لیے جائیں اور اس کی شرمگاہ اور ستر کو کسی موٹے کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے گاتا کہ وہ کسی کو نظر نہ آئے۔ اور غسل کے وقت ڈھکا رہے۔
گرم پانی اور اس میں بیری کے پتے استعمال کرنے کے لیے پہلے سے انتظام کر لیا جائے تا کہ بعد میں آسانی رہے۔
غسل دینے والا اب نرمی سے میت کا پیٹ دبائے تاکہ فضلات باہر نکل جائیں اور ہاتھ پہ دستانہ لگاکر اگلے اور پچھلے شرم گاہ کی تیار شدہ بیری والے پانی سے صفائی کرے ۔
اس کے بعد نماز کی طرح وضو کرائے ، دونوں ہتھیلیاں کلائی تک تین بار، منہ اور ناک صاف کرے ۔تین بار چہرہ، تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت، سر اور کان کا مسح پھر دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوئے۔
وضو کراکر بیری والا پانی پہلے سر اور داڑھی پر بہائے پھر دائیں اوربائیں پہلو پر بہائے ۔اس کے بعد پورے بدن پر پانی بہائے۔کم ازکم تین بار جسم پر بہائے تاکہ مکمل طہارت حاصل ہویہ افضل ہے تاہم ایک مرتبہ سر سے پیر تک پورےجسم کادھونا بھی کفایت کرجائے گا۔ ضرورت کے تحت تین سے زائد بار بھی پانی بہاسکتے ہیں ۔ آخری بار غسل دیتے ہوئے کافور بھی ملالے تاکہ بدن خوشبودار ہوجائے اور نجاست کی مہک ختم ہوجائے۔
عورت کو عورت غسل دے گی ، ایک عورت کامکمل بدن ستر ہے مگر عورت کا عورت کے لئےناف سے گھٹنے تک ستر ہے ۔اوپر جس طرح وضو اور غسل کا طریقہ بتلایا گیا ہے ٹھیک اسی طرح عورت میتہ کو غسل دے گی اور آخر میں بالوں کی تین چوٹیاں بنا دے گی۔

2) گلی سڑی یا کٹی پٹی لاش کو غسل دینے کا طریقہ

کبھی کبھی بعض حالات میں لاش کی شکل بگڑ جاتی ہے ، اس میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے اور سڑگل جاتی ہے ۔ ایکسیڈنٹ ہونے سے کبھی لاش اس طرح کٹ جاتی ہے کہ جمع کرنا مشکل ہوجاتاہے ، اسی طرح میت کی سرکاری کاروائی کے باعث زیادہ دن رکھنے پہ سڑ گل جاتی ہے ۔ یا پھر لاش انجان جگہ پہ بہت دن بعد ملی ہو تو اس میں بھی تعفن پیدا ہوجاتا ہے ۔ایسے حالات میں لاش کو غسل دینے کی دو صورتیں ہیں ۔
پہلی صورت : اگر لاش کٹ پٹ گئی ہو تو سارے اعضاء جمع کئے جائیں گے اور انہیں غسل دیا جائے گا۔
دوسری صورت : اور اگر لاش سڑ گل گئی ہو اور غسل دینے کا امکان نہ ہو تو تیمم کیا جائے گا ۔

3) میت کو غسل دینے والا غسل کرئے یا نہیں ؟

میت کو غسل دینے والا غسل کرے گا یا نہیں اس میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اس پر یہاں خلاصہ کے طور پر چند احکام مندرجہ ذیل ہیں۔
افضل عمل : غسل دینے والے کے حق میں افضل یہ ہے کہ وہ غسل کرلے تاکہ استحباب پر عمل بھی ہوجائے اور میت کو غسل دینے ، اسے باربار دیکھنے اور حرکت دینے سے ذہن میں جو فتور پیدا ہوگیا ہے وہ زائل ہوجائے اور تازہ ونشیط ہوجائے ۔
احیتاطی عمل : اگر غسل نہ کرسکے تو کم ازکم وضو کرلےگرچہ انہوں نے پہلے وضو کیا ہو۔ اگر پہلے وضو نہیں کیا تھاتو نماز جنازہ کےلئے وضو تو بہرحال کرنا ہے ۔
جس نے میت کو غسل دیا ہے اسے اپنا کپڑا اتارنے یا صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جب اسے اپنا بدن دھونا ضروری نہیں تو کپڑا بدرجہ اولی نہیں دھونا ہے ۔
جنازہ کی نماز کے لئے کئے گئے وضو سے دوسرے وقت کی نماز پڑھ سکتا ہے کیونکہ اس وضو اور دوسری نماز کے وضو میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
یہ قول ” ومن حملَهُ فليتوضَّأ” (جو میت کو اٹھائے وہ وضو کرے ) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو جو میت کو کندھا دے وہ سب وضو کرے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو میت کو حرکت دے ، ادھر سے ادھر اٹھاکر رکھے ، ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر لے جائے ۔ اور اس میں مذکور وضو نماز جنازہ کے لئے وضو کرنا ہے۔

فصل سوم : کفن دینے کا طریقہ
میت کو کفن دینے کا طریقہ
مرد میت کو تین کپڑوں میں جبکہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے گا۔

نمازِ جنازہ پڑھنے کا طریقہ
کسی بھی مسلمان کے مر جانے پر اس کی نمازِجنازہ پڑھنا اس میت کا حق ہے ۔ جو اس کے لئے مغفرت کا ذریعہ ہے۔اسی لئے اس کو فرض ِکفایہ کہا گیا ہے۔اگر چند لوگ اس کو ادا کر لیں تو سب کی طرف سے یہ ادا ہو جائے گا۔ لیکن اگر کسی نے بھی نہ پڑھی تو سب گنہگار ہوں گے۔ اس کے ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ امام میت کے سینے کے مقابل کھڑا ہو۔ اگر میت بالغ ہو تو اس کی دعائے مغفرت کا ارادہ کرے اور اگر میت نابالغ ہو تو اسے اپنا فرط، اَجر و ذخیر اور شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنانے کا ارادہ کرے۔ نمازِ جنازہ کے لیے وضو ، استقبال قبلہ اور نیت شرائط میں سے ہے۔ صفوں کی ترتیب کے بعد امام صاحب یا جس کے بارے میں وصیت کی گئی ہے وہ نمازِ جنازہ پڑھائے گا۔ نمازِجنازہ میں نو تکبیرات تک کا ثبوت ملتا ہےمگر چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔
تکبیرات جنازہ اور صحابہ کرام:
نماز جنازہ میں چار سے زائد تکبیرات کابھی ثبوت ملتا ہے ، تین تکبیر سے لیکر نو تکبیرات کا ذکر ہے تاہم صحیحین میں پانچ تک کا ذکر ہے ۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: كان زيدٌ يُكبِّرُ على جنائزِنا أربعًا . وإنه كبَّر على جنازةٍ خمسًا . فسألتُه فقال : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُكبِّرُها .
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے جنازوں (کی نماز) میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا کہ ” آپ تو ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ تکبیریں کیوں کہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔
یہ حدیث متعدد کتب احادیث میں مروی ہے مثلا ابوداؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، بیہقی ، مسند طیالسی اور مسند احمد وغیرہ ۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے : دل الإجماع على نسخ هذا الحديث لأن ابن عبد البر وغيره نقلوا الإجماع على أنه لا يكبر اليوم إلا أربعا ، وهذا دليل على أنهم أجمعوا بعد زيد بن أرقم ، والأصح أن الإجماع يصح من الخلاف ۔
ترجمہ: اجما ع اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔
گویا امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک پانچ والی روایت منسوخ ہے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع ہے ۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ چار تکبیرات ہی مشروع ہیں ، ان کی چار وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اکثر صحابہ سے مروی ہے ، ان کی تعداد پانچ تکبیرات بیان کرنے والے صحابہ سے زیادہ ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ صحیحین کی روایت ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ چار تکبیرات پہ اجماع واقع ہوا ہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کا آخری عمل یہی ہے جیساکہ امام حاکم نے مستدرک میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان لفظوں کے ساتھ روایت ذکر کیا ہے(آخر ما كبر رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنائز أربع ) کہ نبی ﷺ نے جنازہ پہ سب سے آخری مرتبہ چار تکبیرات کہیں ۔
صاحب عون المعبود کا رحجان چار تکبرات کی طرف لگتا ہے چنانچہ انہوں نے علی بن جعد کے حوالے سے صحابہ کے کچھ آثار پیش کئے جن سے چار تکبیرات پہ اجماع کا علم ہوتا ہے جیسے کہ بیہقی میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا صحابہ کبھی چار تو کبھی پانچ پر عمل کرتے تو ہم نے چار پہ جمع کردیا۔ بیہقی میں ابووائل رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ نبی ﷺ کے زمانہ میں چار، پانچ ، چھ اور سات تکبیرات کہا کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو جمع کرکے اس اختلاف کی خبر دی اور انہیں چار تکبیرات پہ جمع کردیا۔ابراہیم نخعی کے طریق سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ کرام ابومسعود رضی اللہ عنہ کے گھر جمع ہوئے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع کرلیا ۔
امام ترمذی نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر نبی ﷺ کے اکثر اصحاب کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی میت فضل کے اعتبار سے بڑا ہو تو کیا ان کے جنازہ میں تکبیر ات زائد کہی جاسکتی ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ افضل یہی ہے کہ چار پہ اکتفا کرے جیساکہ اس وقت عمل کیا جاتا ہے اس لئے کہ یہ نبی ﷺ کا آخری عمل ہے ، نجاشی کی بڑی فضیلت ہے پھر بھی نبی ﷺ نے ان کی نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ ہی اکتفا کیا ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جنازہ میں چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پہ صحابہ کرام کا اجماع ہے اس لئے جنازہ میں چار تکبیرات ہی کہی جائیں گی ۔

اس لیے نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں ہی کہی جائیں گی۔ پہلی تکبیر تحریمہ کہے اور رفع یدین کرکے ہاتھ باندھ لے اس کے بعد ثنا سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ. پڑھے ، دوسری تکبیر کے بعد درود ابراہیمی اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. اَللّٰهُمَّ َ بارَکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيْمَ، إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ. پڑھے ، تیسری تکبیر کے بعد میت اور تمام مسلمانوں کے لیے دعائے مغفرت کرے۔ اس میں کئی دعائیں مسنون ہیں جن میں سے کوئی بھی دعا پڑھ سکتا ہے ایک دعا یہ بھی ہے: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ اللھم لا تحرمنا اجرہٗ ولا تضلنا بعدہٗ .
فتاویٰ عالمگيری میں یہ الفاظ ‘‘اللھم لا تحرمنا اجرہٗ ولا تضلنا بعدہٗ ’’ نہیں ہیں ۔
ترجمہ: یا اللہ! تو ہمارے زندوں کو بخش اور ہمارے مردوں کو، اور ہمارے حاضر شخصوں کو اور ہمارے غائب لوگوں کو اور ہمارے چھوٹوں کو اور ہمارے بڑوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ہماری عورتوں کو۔ یا اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو ہم میں سے موت دے تو اس کو ایمان پر موت دے۔‘‘
اگر نابالغ لڑکے کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا .
ترجمہ: ‘‘ اے اللہ! اس بچہ کو ہمارے لیے منزل پر آگے پہنچانے والا بنا، اسے ہمارے لیے باعثِ اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا، اور اسے ہمارے حق میں شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنا’’۔
نابالغ لڑکی کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّ اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً.
ترجمہ: ‘‘ اے اللہ! اس بچی کو ہمارے لیے منزل پر آگے پہنچانے والا بنا، اسے ہمارے لیے باعثِ اجر اور آخرت کا ذخیرہ بنا، اور اسے ہمارے حق میں شفاعت کرنے والا اور مقبولِ شفاعت بنا’’۔
یہ دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِوَالِدَيْنَا وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ.
اے اللہ! تو ہمیں ہمارے والدین اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔
اس کے علاوہ اور جو دعا یاد ہو وہ بھی پڑھ سکتا ہے۔
اور پھر چوتھی تکبیر کے بعد اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ کہتے ہوئے سلام پھیر دے۔

فصل چہارم : تدفین کا طریقہ
نماز جنازہ کے فوراً بعد میت کو قبرستان کی طرف لے جایا جائے ۔ اور وہاں تدفین کے فوراً بعد دعا کی جائے نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا ثابت نہیں ہے،اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
ہرمسلمان کی لاش کو دفن کیا جائے گا حتی کہ کافر کی بھی لاش ملے تو اسے دفن کرنا چاہئے مگر کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں ہے ۔
میت کو قبر میں مرد ہی اتارے گا عورت نہیں ، ہاں عورت کی لاش ہو تو بہتر ہے اسےقبر میں اس کا محرم اتارے اور محرم نہیں تو معمر آدمی اتارے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
شَهِدْنَا بِنْتًا لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ، قال : ورسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ جالسٌ على القبرِ ، قال : فرأيتُ عيناهُ تدمعانِ ، قال : فقال : هل منكم رجلٌ لم يُقَارِفِ الليلةَ . فقال أبو طلحةَ : أنا ، قال : فانْزِلْ . قال : فنزَلَ في قَبْرِهَا .
ترجمہ: ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ آپ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو۔ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔
قبر میں اتارنے کا طریقہ یہ ہے کہ میت کو پیر کی جانب سے اتارے اور اتارتے وقت کہے ” بسم الله وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم”۔
قبرمیں اتارکر میت کو دائیں پہلو پر لٹاکر اس کا چہرہ قبلہ رخ کردیا جائے اور بند کھول دئے جائیں مگر چہرہ نہ کھولا جائے ۔
اب گڑھا بند کرنے کے لئے پہلے کچی اینٹیں ، لکڑی ، بانس ، تخت وغیرہ کا استعمال کیا جائے تاکہ اس کے اوپر سے جب قبر پرمٹی ڈالی جائے تووہ قبر کے اندر نہ گرے ۔
پھر جنازے میں شریک لوگ اپنی لپوں سے دوتین لپیں مٹی قبر پر ڈال دیں اور آخر میں گورکن قبر کو زمین کے برابر یا ایک بالشت کے قریب کوہان نما اونچا کرے اور اس پر پانی جھڑک دے ۔
مٹی دیتے وقت “مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى” پڑهنا حدیث سے ثابت نہیں ہے، ایک حدیث اس قبیل سے آئی ہے مگر اسے البانی صاحب نے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔
لمَّا وُضِعت أمُّ كلثومٍ بنتُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ في القبرِ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ : مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى۔
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم قبرمیں اتاری گئیں تو آپ نے یہ آیت پڑھی: مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى”(ہم نے اسی مٹی سے تم کو پیدا کیا، اسی میں ہم تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ زندہ کرکے اٹھائیں گے۔
میت کو فائدہ پہنچانے کے لئے قبر میں کچھ رکھنا بدعت ہے خواہ تعویذ، چادر، پیر و مرشد کا کپڑا وغیرہ اسی طرح قبر کے اوپر ثواب کی نیت سے پھول مالا ، ٹہنی رکھنا بھی بدعت ہے۔ نیز قبروں کو ایک ہاتھ سے زیادہ اونچا کرنا، اس پر چراغاں کرنا ، چونا گاڑھا کرنا، پختہ کروانا ، کتبے لگانا جائز نہیں ہے البتہ پتھر سے نشان رد کرسکتے ہیں ۔

تدفین کے بعد قبر پر پانی چھڑکنا

میت کی تدفین کے بعد قبر پر پانی ڈالنا مستحب ہے، اس سلسلے میں متعدد احادیث ملتی ہیں ۔ نبی ﷺ نے سعد بن معاذ رضی اللہ کی قبر پر پانی ڈالا، اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر بھی پانی چھڑکا۔ اسی طرح عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہا کی قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم دیا۔ بلال بن رباح نے نبی ﷺ کی قبر پہ پانی چھڑکا تھا۔ اس قسم کی روایات ملتی ہیں ۔ ان ساری روایتوں کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا تھا ،بعد میں ایک صحیح روایت ملی توشیخ نے کہا: قبر پر پانی چھڑکنے سے متعلق بہت احادیث ملتی ہیں مگر کوئی بھی علت سے خالی نہیں جیساکہ میں نے ارواء الغلیل میں بیان کیا ہے ۔ پھر میں نے طبرانی اوسط میں ایک حدیث پائی جو قوی سند سے ہے ،وہ ہے نبی ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا تھا۔ تو میں نے اس حدیث کی تخریج سلسلہ صحیحہ میں کی ۔
طبرانی اوسط کی روایت یہ ہے :
وعن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم رش على قبر ابنه إبراهيم‏ ۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا۔
اسے طبرانی نے اوسط میں روایت کیا ہے۔
اس کی تفصیل گزشتہ ابواب میں گزر چکی ہے۔


فصل پنجم : تعزیت کا طریقہ
میت کے گھر والوں کی تعزیت کرنا سنت ہے۔کیونکہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ مصیبت زدہ شخص کی مزاج پُرسی کرنے والے شخص کو مصیبت پر صبروالے کرنے کی طرح ثواب ملے گا۔چنانچہ ارشادِ نبویﷺ ہے کہ : عَنْ عَبْدِ اللهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ : مَنْ عَزَّى مُصَابًا , فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ .
ترجمہ :۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے مصیبت زدہ کی تعزیت کی (یعنی اس کو تسلی دی اور اس سے ہمدردی کی ) تو اس کو اتنا اجر ملتا ہے جتنا اس مصیبت زدہ کو ملتا ہے۔
اسی طرح دوسری روایت میں آیا ہے کہ : من عزّی ثکلی کسی بَرداً فی الجنۃ ۔
ترجمہ :۔جس نے اس عورت کو حوصلہ دیا جس کا بچہ مر گیا ہو تو اس کو جنت میں ایک خاص قسم کی چادر پہنائی جائے گی۔
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تعزیت کرنا درست ہے ۔ اور سنتِ نبوی ﷺ ہے۔ اور اس سے لواحقین کے غم میں کمی واقع ہوتی ہے ،اور غم ہلکا ہوتا ہے۔فقہا ء احناف نے اس کے لئے مسجد میں یا گھر میں باقائدہ بیھٹنے اور مجلس لگانے کو مکروہ کہا ہے ۔
لیکن تعزیت کے لئے میت کے گھرتین دن سے زائد مجلس قائم کر لینا اور کاروبار وغیرہ چھوڑ دینا یہ بدعت ہے۔ اس وجہ سے کہ تین دن سے زائد تعزیت کے مقصد سے کاروبار بند رکھنا اور گھر میں اجتماع وغیرہ کرنا ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ تحقیق و سفارشات

زیرِ نظر مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے، جن کے مباحث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

  1. پہلے باب میں رسومات اور بدعاتکی تعریفات کرتے ہوئے اس کی اقسام ، قرآنی آیات، احادیث اور فقہاء کی نظر میں اس کی شرعی حیثیت اور حکم بیان کیا گیا ہے، اور اس کے نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے۔
  2. دوسرے باب میں آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین سے قبل کی رسومات و بدعات کے متعلق بحث کی گئی ہے، جس میں وفات کے وقت کی رسومات، وفات کے بعد کی رسومات، غسل دیتے وقت اور اس کے بعد کی رسومات، قبر،کفن، نوحہ کرنا اور میت کے دیدار اور اس کے پاس نعت خوانی کرنے سے متعلق کی رسومات اور بدعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور اس کے نقصانات اور شرعی حکم بیان کیا گیا ہے۔
  3. تیسرے باب میں آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین کے دوران کی رسومات و بدعات کا ذکر کیا ہے، جن میں جنازہ نکالتے وقت کی رسومات جیسے دعا کرنا، خواتین کا واویلا کرنا، جنازے کے آگے قرآن مجید لیکر چلنا اور کلمہ شہادت پڑھنا شامل ہے۔اسی طرح قدم نکالنا،نمازِ جنازہ کے بعد دعا کرنا، حیلہ کرنا اور قبر کے اندر تدفین سے قبل سورت البقرۃ، یاسین اور دیگر سورتیں پڑھنا، وغیرہ کی شرعی حیثیت قرآن وسنت اور فتاویٰ کی روشنی میں بیان کئے گے ہیں۔
  4. چوتھے باب میں آزاد کشمیر میں تجہیزوتکفین کے بعد کی رسومات و بدعات کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں قرآن و احادیث ، قول صحابہ اور آئمہ کی رائے ذکر کی گئی ہے۔
  5. اسی طرح پانچویں باب میں شرعی طریقہ تجہیز و تکفین ذکر کیا گیا ہے، اس میں غسل، کفن اور تدفین کا صحیح طریقہ اور تعزیت کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
  6. آخر میں خلاصہ تحقیق اور سفارشات وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اور پھر فہرست آیات و احادیث اور مصادر و مراجع ذکر کئے ہیں ۔  
    سفارشات
    وقت کی کمی کے باعث تمام رسومات پر تفصیلاً نہیں لکھا جا سکا ابھی بھی کافی چیزیں باقی ہیں ان پر بھی کام کی ضرورت ہے۔
    ایسی رسموں اور ایسے رواجوں کو بالکل ختم کر دینا چاہیےجو شریعت کے مخالف ہیں ۔ اور ایسی رسموں اور ایسے رواجوں کو بھی ختم کر دینا چاہیے جو بُری اور نقصان پہنچانے والی ہیں ۔ اور ایسی رسموں اور ایسے رواجوں کوبھی بالکل ختم کر دینا چاہیے جن کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں ،یا ہو رہی ہیں، اور اصلاح طلب رسموں کی اصلاح کی جائے ۔ اس پر حکومتی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی توجہ دینی چاہیے۔