مقدمہ
موضوع کا تعارف ،اہمیت وضرورت:
الحمد للہ الذی خلق الانسان فی احسن تقویم،والصلاۃ والسلام علیٰ سید المرسلین ،وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین،وعلیٰ من تبعھم من المعلمین والمتعلمین الیٰ یوم الدین۔
اما بعد۔
سماج اور معاشرے میں طبیب اور ڈاکٹر کا ہونا نہایت ضروری ہے ،حالات اور احوال کے لحاظ سے بھی اطباء کی اہمیت اور ضرورت بہت ہی بڑھ جاتی ہے،اگر اطباء کی ضرورت کی تکمیل نہ کی جائے تو لوگون کی زندگیوں پر خطرات کے بادل منڈلانے لگیں،اسی مخلوق کے ساتھ شفقت اور ان سے حرج اور مشقت کے ازالہ کیلئے شریعت نے علم طب سیکھنے کی اجازت دی ہے۔امام نووی ؒ کہتے ہیں: وَأَمَّا الْعُلُومُ الْعَقْلِيَّةُ، فَمِنْهَا مَا هُوَ فَرْضُ كِفَايَةٍ، كَالطِّبِّ وَالْحِسَابِ الْمُحْتَاجِ إِلَيْهِ
طب کی اسی اہمیت کے پیش نظر مسلمان اطباء کی ضرورت اور اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے،تاکہ میدان طب میں بھی ہم صرف غیر مسلم اطباء پر اعتماد اورتکیہ کئے نہ رہیں،چونکہ اپنے امراض کے سلسلے میں انکی جانب رجوع سے بہت سارے دینی اوع دنیوی نقصانات ہوسکتے ہیں ۔
خصوصا علم طب میں اس وقت آپریشن عمل جراحی کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے،کیونکہ اس وقت جنگوں،حادثات کی کثرت،کمپنیوں اور وسائل نقل وحمل کی شکل میں انسانوں کو بے شمار زخموں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔اسی طرح آج کل کے دور میں نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں اور نئی نئی بیماریاں وجود میں آرہی ہیں کہ جن کا علاج آپریشن کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے اسکے علاوہ ان کا کوئی اور علاج ممکن نہیں۔
اور آج کل جو ڈاکٹری اور سرجری کی موجودہ ترقیات نے معالجات میں بہت سی نئی نئی صورتیں پیدا کی ہیں ان سے جہاں بہت سے طبی فوائد حاصل ہوئے ہیں،اسکے ساتھ بہت سے مسائل حلال وحرام کے متعلق پیدا ہوگئے ہیں،مثلا ایسے ایسے آپریشن جن میں بعض ضروری ہوتے ہیں اور بعض غیر ضروری ہوتے ہیں،جیسے اعضاء کی پیوند کاری،ایک انسان کا خون دوسرے انسان کے بدن میں داخل کرنا ،ضبط تولید کی مختلف صورتیں،مختلف اقسام کے چیکپ وغیرہ۔۔۔۔
اب ظاہر ہےکہ قرآن وسنت میں ان مخصوص جدید صورتوں کے صریح احکام تو مذکور نہیں ہوسکتے،کیونکہ یہ صورتیں قرون اولی میں موجود نہ تھیں ،لیکن قرآن کریم اور شریعت مطھرہ کا کمال یہ ہے کہ ان کے مقرر کردہ اصول وقواعد میں غور وفکر سے کام لیا جائے تو ہر نئی صورت کا حکم اس میں موجود نظر آتا ہے۔
الحمد للہ علماء حق نے اس پر بھی توجہ فرمائی ،اور معالجہ کی نئی صورتوں کے احکام شریعت کے مقرر کردہ اصول وقواعد کی روشنی میں بیان فرمائے،عربی زبان میں اس موضوع پہ علماء کے باقاعدہ رسائل بھی ہیں اور مقالے بھی ،البتہ اردو زبان میں اس سے متعلق زیادہ مواد نہیں ، لھذا ضروری تھا کہ اس موضوع پہ لکھا جائے ،تو اس مقالے میں شریعت مطھرہ کے اصول وضوابط کی روشنی میں اور قدیم وجدید فقہاء کی آراء کی روشنی میں آپریشن کی مختلف اقسام اور ان کے شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں ۔
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ اپنی بارگاہ میں اس کاوش کو قبول فرمائے ،اور اس میں اگر کوئی کمی کوتاہی ہوگئی ہو تو معاف فرمائے آمین۔
سابقہ کام کا جائزہ:
سرجری اور آپریشن کے شرعی احکام۔مولانا اقبال حسین صابری۔
احکام الجراحۃ الطبیۃ والآثار المترتبۃ علیھا۔محمد بن محمد المختار شنقیطی۔
جدید طبی مسائل۔مفتی ابو بکر جابر قاسمی ،مفتی رفیع الدین قاسمی۔
بنیادی سوال:
آپریشن کی کتنی صورتیں ہیں اور کیا وہ سب صورتیں جائز ہیں یا ان میں ناجائز صورتیں بھی ہیں؟
آپریشن کیوں کی جاتی ہے اسکی جائز صورتیں کون سی ہیں اور ناجائز کون سی ہیں ؟
منہج تحقیق:
اس کے اندر قرآن وسنت کے اصول وقواعد کی روشنی میں اور قدیم وجدید فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ آپریشن کی کون سی قسمیں جائز ہیں اور کون سی ناجائز اور جو جائز ہیں انکے جائز ہونے کے کیا دلائل ہیں اور جو ناجائز ہیں تو کن وجوہات کی بناء پر۔
خاکہ تحقیق:
یہ مقالہ دو ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں آپریشن کی تعریف ،آپریشن کا تاریخی پس منظر ، آپریشن کی مشروعیت اور آپریشن کی شرائط ہیں۔دوسرے باب میں آپریشن کی مختلف اقسام ان کا تعارف اور انکا شرعی حکم ، خلاصہ بحث ،سفارشات ہیں ۔جبکہ سب سے آخر میں مصادر ومراجع کا ذکر ہوگا۔
باب اول:تمہیدمباحث
فصل اول: آپریشن کی تعریف اوراس کی ابتداء
مبحث اول: آپریشن کی تعریف
لغوی معنی:
آپریشن کو عربی میں جراحۃ کہتے ہیں،جو کہ جرح سے نکلا ہے جسکا معنی ہے زخم دینا ،گوشت کا چیرنا،المنجد فی اللغۃ والاعلام میں لکھا ہے ‘‘ شق بعض بدنہ’’ (بدن کے کسی حصے کو چیرنا)اور اس زخم کی دواء کرنے والے کو جراح کہا جاتا ہے ،انگریزی میں اسکے لئے سرجری اور اسکی دواء کرنے والے کو سرجن کہا جاتا ہے۔
اصطلاحی معنی:
آپریشن ایک طبی طریقہ ہے جسکے ذریعے کسی جاندار کے جسم کو چیر پھاڑ کر اسکے اندر مخصوص بیماری کو معلوم کیا جاتا ہے اور پھر اس مرض کا علاج کیا جاتا ہے۔
مبحث دوم: آپریشن کی ابتداء
دور حاضر میں فن جراحت (سرجری) نے بے حد ترقی کی ،نازک سے نازک آپریشن ہورہے ہیں ،لیکن ان کا سہرا مغرب کے سر نہیں ہوسکتا ،بلکہ یہ تو مسلمانوں کی ابتداء کی ترقی ہے،اور اسکا سہرا اسلام کے سر ہے،جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مریض کی عیادت کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تشریف لے گئے ،وہاں ایک شخص کی کمر میں پھوڑے کا ورم تھا اور اس میں پیپ پڑچکی تھی ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس میں تیر سے شگاف کرنے کا حکم دیا ،میں نے اسی وقت شگاف کردیا ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں موجود تھے۔
اس سے پتہ چلا کہ حضرت علی جراحت (آپریشن) کے بڑے ماہر تھے ،تب ہی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ کام لیا ،اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی سے فن جراحت (آپریشن) کے ماہرین موجود تھے ،ابن رمثۃ تمیمی یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپریشن میں متخصص اور ماہر تھے، ‘‘وابن رمثۃ التمیمی وکان فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متخصصا فی الجراحۃ بارعا فیھا’’ .
حکیم جالینوس کی خدمات:
فن جراحت اور طب کا فن یونان والوں نے اہل مصر سے سیکھا ،حکیم جالینوس نے علم طب مدرسہ اسکندریہ میں جاکر سیکھا ،اس وقت مصر میں فن جراحت کے ماہرین موجود تھے،حتی کہ مدرسہ اسکندریہ اس زمانے میں میڈیکل کالج بن گیا تھا ،جہاں پر بے شمار اطباء اور سرجن موجود تھے۔
حکیم جالینوس ۱۳۱ء تا ۲۰۰ء کا نام طب میں نہایت معزز اور ممتاز ہے،اس نے کئی مردہ بندروں ،کئی دیگر حیوانات ،ایک مردہ ہاتھی اور کئی ایک مردہ انسانی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔نظام عصبی کی تشریح میں اس نے خصوصیت سے بہت تحقیقات کیں ،چنانچہ دماغی بطون کے اندر چند ایک باریک وریدیں اب تک اسی کے نام سے مشہور ہیں۔
حکیم جالینوس سب سے پہلا شخص ہے جس نے افعال الاعضاء کو طب کے دوسرے شعبوں سے علیحدہ کیا اور مستقل مضمون قرار دے کر منافع الاعضاء پر جالینیوسی کتاب لکھی اور تشخیص امراض کو امتحانی افعال الاعضاء (ایکس پیری منٹل فزیالوجی) پر منحصر کیا، غرضیکہ وہ ایک جدت پسند عالم تشریح ومنافع الاعضاء اور ایک قابل اور نامور سرجن تھا۔
مسلمانوں کے دور ترقیات میں ابو القاسم زھراوی،ابن زھر،زکریا رازی اور علاء الدین ایرانی اور دیگر کئی ایک نامور حکیم گزرے ہیں جو فن جراحت (آپریشن) سے بخوبی واقف تھے۔
زہراوی کی خدمات وایجادات:
زہراوی پہلے سرجن ہیں جنہوں نے آپریشن کیا ہے ،ایک دفعہ انہوں نے ایک آنکھ والے آدمی کے موتیا بند کا نازک آپریشن کیا۔
الزہراوی نے علاج بالکی یعنی زخموں کو جلانے یا داغنے ،مثانے کی پتھری کو توڑنے اور آپریشن کے ذریعے اسکو نکالنے ،آنکھوں اور دانتوں کی سرجری،قطع اعضاء اور پٹی باندھنے کے عملی طریقے بیان کیے،نیز انہوں نے ٹوٹی ہوئی ھڈی کو جوڑنے اور توٹی ہوئی چینی کی ھڈی کو آپریشن سے الگ کرنے کے طریقوں کی وضاحت کی۔
زہراوی پہلے شخص ہیں جنہوں نے جراحی آلات کے ذریعے وضع حمل کرنے کا طریقہ ایجاد کیا ،جسے آج (walcher position) کہتے ہیں ،انہوں نے کٹی ہوئی شریانوں کا خون بند کرنے کیلئے انہیں باندھنے اور ھڈیوں کو جوڑنے کے بعد ان پر پلستر چڑھانے کے طریقے بتائے۔اسی طرح زخموں کو ٹانکے کیلئے موزوں دھاگوں اور تانتوں کا استعمال کرنا بھی انہی کی اختراع ہے۔
مزید براں آپریشن سے پہلے مریض کو مسکن دوائی(بے ہوشی والی دوائی) کھلانا بھی زہراوی ہی کی ایجاد ہے،الزہراوی نے آلات جراحی کی ساخت پر بھی توجہ دی ،وہ جراحی میں درکار آلات اپنی نگرانی میں تیار کرواتے تھے ،یہ آلات اعلیٰ قسم کے فولاد سے تیار کیے جاتے تھے ، انہوں نے اپنی کتاب میں تقریبا دو سو ایسے آلات کی تصویریں دی ہیں ،جو عمل جراحی میں درکار ہوتے ہیں۔ان میں سے اکثر آلات انہوں نے خود ایجاد کیے،سرجری میں آج بھی انہیں استعمال کیا جاتا ہے،ابو القاسم الزہراوی نے جراحی کے اصول وقواعد وضع کرکےاسے فن کی شکل عطاء کی،یہی وجہ ہے کہ انہیں سرجری (آپریشن) کا موجد مانا جاتا ہے،مغرب کے اہل قلم اکثر اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ قرون وسطیٰ کے اس مسلم سائنسدان نے سرجری(آپریشن) کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
الزہرا وی کے اثرات کا اعتراف فضلائے یورپ و امریکہ نے بھی کیا ،کستاولی لی بان کا بیان ہے کہ البقامس کا نام یورپ میں پندرہویں صدی میں پہنچا لیکن اس نے اس وقت بڑی شہرت حاصل کی۔
ہالر کہتا ہے کہ ان کل جراحوں کا جو چودھویں صدی کے بعد گزرے ہیں اسی کی تصنیفات پر دارومدار تھا ،ول دوران کا کہنا ہے کہ ابو القاسم زہراوی خلیفہ عبدالرحمٰن کے طبیب ،عیسائی دنیا میں ابو الکاسس کے نام سے سرفراز ہوئے،وہ عظیم ترین مسلم سرجن تھے،ان کی ضخیم کتاب ‘‘التصرف’’میں سرجری پر تین فصلیں شامل ہیں ،جن کا لاطینی ترجمہ کئی صدیوں تک معیاری نصاب بنا رہا ۔
مقصد یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ فن طب میں اہل اسلام کا کوئی حصہ نہیں ہے۔بلکہ مسلمانوں میں بڑے بڑے طبیب (ڈاکٹر) گزرے ہیں ،جو طب کے ہر شعبے میں ماہر تھے۔
فصل دوم: مشروعیت آپریشن اوراسکی شرائط
مبحث اول: آپریشن کی مشروعیت
قرآن وسنت اور اجماع ایک مسلمان سے اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی جان کی حفاطت کرے اور اسے ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے کیونکہ حفظ جان مقاصد شرعیہ میں سے ہے اور آپریشن کے ذریعے اگر انسان اپنی جان کو کسی ضرر سے محفوظ کرسکتا ہے تو یہ اس پر لازم ہے ۔عقل بھی اسی بات کو تسلیم کرتی ہے ۔
آپریشن کے ثبوت کے دلائل ۔
(۱) قرآن مجید سے:
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا
ترجمہ:اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ‘‘جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی’’۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف وتوصیف کی ہے جو کسی انسان کی جان کو ہلاکت اور بربادی سے بچاتا ہے ۔جبکہ انسان کو موت یا بربادی سے بچانے کی بہت ساری صورتیں ہوتی ہیں جیسے پانی میں ڈوبتے ہوئے کو بچانا یا آگ میں جلتے ہوئے کو آگ سے بچانا وغیرہ اور سرجری(آپریشن) بھی ان میں سے ایک ہے جس کے ذریعے انسانوں کو موت وہلاکت سے بچایا جاتا ہے چونکہ بہت سارے امراض ایسے ہوتے ہیں جن کا علاج سرجری (آپریشن) کے ذریعے ہی سے ہوتا ہے اور اگر سرجری (آپریشن) نہ کی جائے تو وہ مرض بڑھ کر انسان کی موت وہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔
لہذا جو ڈاکٹر کسی مریض کا سرجری (آپریشن) کے ذریعے علاج کرتا ہے اور اس شخص کو اللہ کے حکم سے اس سرجری کے ذریعے شفاء مل جاتی ہے تو یہ ڈاکٹر بھی اس آیت کے مصداق بن جاتا ہے۔
(۲) سنت سے :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے :‘‘أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فِي رَأْسِهِ’’
نبی ﷺ نے اپنے سر مبارک میں پچھنا لگایا۔
أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: عَادَ المُقَنَّعَ ثُمَّ قَالَ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى تَحْتَجِمَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ فِيهِ شِفَاءً»
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما نے مقنع کی عیادت کی پھر فرمایا :میں اسکے پچھنا لگانے تک یہاں سے نہیں جاؤں گا اسلئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس میں شفاء ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :‘‘ان النبی ﷺ قال: إِنَّ أَمْثَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الحِجَامَةُ، وَالقُسْطُ البَحْرِيّ
ترجمہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بہترین علاج جسے تم اختیار کرتے ہو وہ حجامہ لگوانا ہے،اور سمندری جڑی بوٹیوں سے علاج کرانا ہے۔
ان احادیث میں حجامہ لگانے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس سے دواء اور علاج کے صحیح ہونے کا بتایا گیا ہے اور انہی احادیث سے حجامہ کی مشروعیت اور جواز معلوم ہوتا ہے جبکہ حجامہ میں جسم کے کسی خاص اور معین جگہ کو چیرکر فاسد خون کو چوسا اور نکالا جاتا ہے پھر بھی حدیث میں اسکی اجازت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی بدن کو چیر پھاڑ کر اس میں سے ہر اس چیز کو نکالا جا سکتا ہے جو انسان کی زندگی کی بقاء کیلئےخطرہ ہو یا ہلاکت کا سبب بن سکتی ہو پھر چاہے وہ خون ہو یا کسی عضو کا خراب ہونا ہو تو بہرصورت اس خون کو نکالا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو اس عضو کو بھی کاٹا جا سکتا ہےیا کوئی ورم ہو تو اسکو بھی کاٹا جا سکتا ہے۔اور موجودہ دور کے سرجری( آپریشن) کی نوعیت بھی اسی طرح کی ہوتی ہے بلکہ آپریشن اسکی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔
عَنْ جَابِرٍ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِلَى أُبَىِّ بْنِ كَعْبٍ طَبِيبًا فَقَطَعَ مِنْهُ عِرْقًا ثُمَّ كَوَاهُ عَلَيْهِ
یہاں پر بھی رسول اللہ ﷺ نے خود ایک طبیب کے اس فعل کو برقرار رکھا جس میں طبیب نے ایک رگ بھی کاٹی اور اسکو داغا بھی اور اس سے آپ ﷺ نے منع بھی نہیں کیا اور آج کل کے جدید دور میں بھی رگوں کو کاٹ کر ہی علاج کیا جاتا ہے جب کوئی رگ بند ہوجاتی ہے یا اسکو نکالنے کی ضرورت پیش آتی ہےتو اسکو کاٹا جاتا ہے جبکہ یہ موجودہ دور کے سرجری(آپریشن) کی ہی ایک شکل ہے۔
عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: «كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْقِي وَنُدَاوِي الجَرْحَى
اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے صحابیات کو زخمیوں کے علاج کیلئے مقرر کیا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالت میں بھی زخمیوں کا علاج یعنی آپریشن جائز ہے اور حالت جنگ میں بھی کیونکہ ان دونوں صورتوں میں انسانی جان کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: ” لَمَّا كُسِرَتْ بَيْضَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِهِ، وَأُدْمِيَ وَجْهُهُ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ، وَكَانَ عَلِيٌّ يَخْتَلِفُ بِالْمَاءِ فِي المِجَنِّ، وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَغْسِلُهُ، فَلَمَّا رَأَتِ الدَّمَ يَزِيدُ عَلَى المَاءِ كَثْرَةً، عَمَدَتْ إِلَى حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهَا وَأَلْصَقَتْهَا عَلَى جُرْحِهِ، فَرَقَأَ الدَّمُ
اس حدیث میں بھی حضور ﷺ کے غزوہ احد میں زخمی ہونے کا ذکر ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ ﷺ کے چہرہ انور سے خون دھونے لگیں جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ دیکھا کہ پانی کی وجہ سے خون مزید بڑھتا جا رہا ہے تو انہوں نے ایک حصیر چٹائی کو جلایا اور اس سے جو راکھ بنی اسکو رسول اللہ ﷺ کے زخم پر لگایا‘‘ عَمَدَتْ إِلَى حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهَا وَأَلْصَقَتْهَا عَلَى جُرْحِهِ، فَرَقَأَ الدَّمُ’’ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل سے خون رک گیا اور آپﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس طرح کے خون کے روکنے کے عمل کو جائز رکھا ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح جسم کے بیرونی اعضاء پر خون کو روکنا جائز ہے اسی طرح جسم کے اندرونی خون یا کسی اور چیز جس کے بڑھنے سے انسان کی ہلاکت کا اندیشہ ہو اسکو سرجری(آپریشن) سے روکنا جائز ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الآبَاطِ “
اس حدیث میں جو ختنہ کا ذکر ہے یہ ختنہ بھی سرجری (آپریشن) کی ایک قسم ہے جسکو شریعت نے مشروع کیا ہے اور امور فطرت میں سے قرار دیا ہے۔اور اس سے بھی سرجری(آپریشن) کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ، فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ»
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النبيِّ – صلى الله عليه وسلم – قالَ: “ما أَنزَلَ الله دَاءً إلا أَنزَلَ لَهُ شِفَاءً”.
یہ دونوں احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کے لئے علاج متعین کیا ہے تو جب ہر مرض کا علاج موجود ہے تو انسان کو چاہیے کہ تجربے اور عرف وعادت سے جس مرض کا علاج اور دوائی معلوم ہو تو اسے استعمال کرے ۔چونکہ بہت ساری بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا علاج سرجری (آپریشن) کے بغیر ممکن نہیں ہے اور اللہ جل جلالہ سرجری (آپریشن) کے ذریعے ہی مریض کو اس مرض سے شفاء دیتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت سرجری(آپریشن) کے ذریعے بھی علاج معالجہ کرنا جائز ہے ۔
عن أسامة بن شريك قال : أتيت النبي صلى الله عليه و سلم وأصحابه كأنما على رءوسهم الطير فسلمت ثم قعدت فجاء الأعراب من ههنا وههنا فقالوا يارسول الله أنتداوى ؟ فقال ” تداووا فإن الله تعالى لم يضع داء إلا وضع له دواء غير داء واحد الهرم ” .
اس حدیث میں نبی ﷺ نے صحابہ اور اعرابیوں کو جب انہوں نے تداوی اور علاج کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے انکو علاج کے جواز اور ندب کے بارے میں لفظ‘‘ تداووا’’کے ساتھ بتایا ہے جب کہ یہ لفظ جڑی بوٹیوں اور سرجری(آپریشن) کے بارے میں عام ہے اس سے معلوم ہوا کہ دونوں طریقوں سے علاج کرانا جائز ہے۔
اجماع سے:
یہ بات تو واضع ہے کہ موجودہ سرجری(آپریشن) کی کامل ومکمل اور ترقی یافتہ شکل گزشتہ ادوار میں نہیں ملتی،البتہ اسکی قبیل کے کچھ نمونے اس دور میں بھی موجود تھے ،مثلا۔رگوں کا کاٹنا،پچھنا لگانا،اعضاء کا کاٹنا وغیرہ،اور اس قسم کی سرجری(آپریشن) کا اسلاف نے انکار بھی نہیں کیا اور نہ ہی اسکو غلط باور کرایا ہے؛ بلکہ اسکے جواز اور اباحت کی بات کہی ہے اس لئے کہ اس پر بہت سارے مصالح مرتب ہوتے ہیں۔
چنانچہ امام ابوالولید محمد بن احمد بن رشد(الجد)کہتے ہیں:‘‘لا اختلاف فيما أعلمه في أن التداوي بما عدا الكي من الحجامة، وقطع العروق، وأخذ الدواء مباح في الشريعة غير محظور’’
اس بارے میں مجھے کسی اختلاف کا پتہ نہیں ہے کہ داغنے کے علاوہ پچھنا لگانا ،رگوں کا کاٹنا اور دوا وعلاج کرنا شریعت میں مباح اور جائز ہے ،ممنوع نہیں ہے۔
سرجری (آپریشن) کے جواز پر سلف کا جو اجماع ہے اسکی تاکید اس واقعے سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عروہ بن زبیر بن عوام کے بارے میں احمد بن عبداللہ اصفھانی نے اپنی کتاب حلیۃ الاولیاء میں امام زھری سے روایت کیا ہے :‘‘ عن الزهري قال وقعت في رجل عروة الأكلة قال فصعدت في ساقه فبعث الوليد إليه الأطباء فقالوا ليس لها دواء إلا القطع قال فقطعت فما تضور وجهه’’ ۔
ترجمہ:معمر زھری سے روایت کرتے ہیں کہ:عروہ بن زبیر کے پیر میں پھوڑا ہوگیا جو اسکی پنڈلی تک پہنچ گیا تو ولید نے اسکی طرف ڈاکٹروں کو بھیجا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کو کاٹنے کے علاوہ اسکا کوئی اور علاج نہیں ہے ،زھری فرماتے ہیں کہ:اسکو کاٹ دیا گیا اور عروہ کہ چہرے پر کوئی ناگواری بھی نہیں تھی۔
اب یہ واقعہ عروہ بن زبیر کے ساتھ پیش آیا تھا جو خود بڑے معروف اور نیک امام تھے اور اس زمانے میں یہ واقعہ بہت مشھور بھی ہوا لیکن پھر بھی کسی اہل علم نے اس پر جرح نہیں کی بلکہ انہوں نے اس واقعے کو اپنی کتب میں بطور جواز کے پیش کیا ہے ۔اور بلاد اسلامیہ میں سرجری(آپریشن) کے مختلف طریقے مروج تھے اور مسلمان اطباء نے اس پر مستقل کتابیں بھی لکھیں جن میں محمد بن زکریا الرازی کی کتاب‘‘کتاب الحاوی’’ہے اور زہراوی کی ‘‘التصریف لمن عجز عن التالیف’’ہے اسی طرح محمد علی القریلانی کی کتاب‘‘الاسقام والابرام فی علاج الجراحات والاورام’’ہے۔اور ان پر کسی نے بھی جرح نہیں کی اگر ناجائز ہوتا تو کوئی اسکی حرمت پر لکھتا ۔
جب کہ شریعت نے مشقت اور تکلیف کے دفع کرنے اور بندے سے تکلیف دور کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے اور بندوں کیلئے سہولت اور آسانی پیدا کی ہے ،
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
‘‘ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ’’
‘‘يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا’’
اور امام شاطبی ؒفرماتے ہیں کہ:‘‘فَلَا يَمْتَنِعُ قَصْدُ الطَّبِيبِ لِسَقْيِ الدَّوَاءِ الْمُرِّ، وَقَطْعِ الْأَعْضَاءِ المتآكلة، وقلع الأضراس الوجعة، وبط الجراحات وَأَنْ يَحْمِيَ الْمَرِيضَ مَا يَشْتَهِيهِ، وَإِنْ كَانَ يَلْزَمُ مِنْهُ إِذَايَةُ الْمَرِيضِ؛ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ إِنَّمَا هو الْمَصْلَحَةُ الَّتِي هِيَ أَعْظَمُ وَأَشَدُّ فِي الْمُرَاعَاةِ مِنْ مَفْسَدَةِ الْإِيذَاءِ الَّتِي هِيَ بِطْرِيقِ اللُّزُومِ، وَهَذَا شَأْنُ الشَّرِيعَةِ أَبَدًا’’
(طبیب کو کڑوی دوا پلانے ،اورخارش زدہ ہاتھ کو کاٹنے،اور تکلیف دہ دانت اکھاڑنے اور زخموں کو چیرنے سے نہیں روکا جائے گا ،اور وہ بیمار کو خواہش کے مطابق کھانے سے بھی روک سکتا ہے اگرچہ مریض کو اس سے تکلیف ہو اس لئے کہ یہاں جو مصلحت پیش نظر ہے وہ اس تکلیف کے مفسدہ سے بڑھ کر ہے)۔
مبحث دوم: آپریشن کی شرائط
شریعت اسلامیہ نے علم طب سیکھنے، سکھانے اور اسکے اطلاق کو نہ صرف مباح بلکہ مصالحہ عظیمہ ومنافع جلیلہ یعنی صحت کی حفاظت اور امراض کے ضرر سے بدن کو بچانے کی بناء پر فرض کفایہ قرار دیا ہے۔
اعضاء انسانی کی چیر پھاڑ کرنا ناجائز و حرام ہے ،البتہ بوقت ضرورت علماء کرام نے میڈیکل سرجری (آپریشن) کرنے کی اجازت دی ہے۔
میڈیکل سرجری چونکہ بسا اوقات مریض کی موت وہلاکت کا سبب بن جاتی ہے ،یا کسی عضو کے تلف ہونے کا سبب بن جاتی ہے اسلئے فقہاء کرام نے اسکی مشروعیت و جواز کیلئے آٹھ شرائط بیان کی ہیں،
(۱) سرجری مشروع اور جائز ہو یعنی جو آپریشن کیا جا رہا ہے وہ شرعا جائز بھی ہو اسلام میں اسکے کرنے کی اجازت بھی ہو۔
(۲) مریض سرجری کا محتاج بھی ہو،یعنی واقعتا اسکے لئے سرجری ضروری بھی ہو۔
(۳) مریض آپریشن کی اجازت بھی دے ،بغیر اجازت کے آپریشن کرنا جائز نہیں۔
(۴) سرجن اور اسکے معاون ومددگار ڈاکٹرز میں اہلیت کاملہ بھی موجود ہو ،یعنی ڈاکٹر خود سرجن ہو اور اسکے ممد ومعاون بھی ایسے ہوں جو اس سے پہلے آپریشن کرچکے ہوں اور سند یافتہ بھی ہوں۔
(۵) سرجن کو سرجری کی کامیابی کا غالب گمان بھی ہو۔
(۶) سرجری کا ایسا متبادل نہ ہو جو ضرر میں اس سے خفیف ہو،یعنی اسکے علاوہ نقصان میں کم درجے کا علاج موجود نہ ہو۔
(۷) سرجری پر مصلحت مرتب ہو۔
(۸) سرجری کی وجہ سے ایسا ضرر (نقصان)لاحق نہ ہو جو موجودہ ضرر اور بیماری سے بڑھ کر ہو ۔
باب دوم: آپریشن کی اقسام اور حکم شرعی
فصل اول: آپریشن کی اقسام
فصل اول: آپریشن کی اقسام
آپریشن (سرجری) کی حکم کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: (۱) جائز آپریشن (۲)ناجائز آپریشن
مبحث اول: اقسام باعتبار حلت
یعنی وہ آپریشن جن کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔
(۱) سرجری (آپریشن) برائے ولادت:
وہ سرجری (آپریشن) جس میں بذریعہ آپریشن بچے کو اسکی ماں کے پیٹ سے نکالا جاتا ہے پھر چاہے بچہ کامل الخلقت ہو یا ناقص الخلقت ہو ۔
ایک حدیث میں اس آپریشن کی پیشن گوئی بھی کی گئی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں ولادت کے وقت عورت کا پیٹ چیرا جائے گا مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو ھریرہ سے مروی ہے:
قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «لَتُؤْخَذَنَّ الْمَرْأَةُ فَلْيُبْقَرَنَّ بَطْنُهَا ثُمَّ لَيُؤْخَذَنَّ مَا فِي الرَّحِمِ فَلْيُنْبَذَنَّ مَخَافَةَ الْوَلَدِ»
ابو ھرہرہ ؓ فرماتے ہیں :‘‘ضرور عورت کو پکڑا جائے گا پھر اسکا پیٹ چاک (آپریشنکے ذریعے) کیا جائے گا اس کے بعد جو کچھ رحم میں ہوگا اسکو لے لیا جائے گا ،لڑکا ہونے کے خوف سے اس کو نکال پھینکا جائے گا ’’۔
اس سرجری (آپریشن) کی دو قسمیں بنتی ہیں
(۱) حالت ضروریہ: وهي الحالة التي يخشى فيها على حياة الأم، أو جنينها، أو هما معًا،یہ وہ حالت ہے جس میں ماں کی ہلاکت کا خوف ہو یا بچے کی ہلاکت کا خوف ہو یا پھر دونوں کی ہلاکت کا خوف ہو ۔
اسکی تین صورتیں ہوسکتی ہیں
(1) جراحة الحمل المنتبذ،بچے کا رحم دانی سے باہر آنا۔
(2) جراحة استخراج الجنين الحي بعد وفاة أمه،رحم میں موجود بچے کو نکالنا۔
(3) الجراحة القيصرية في حال التمزق الرحمي،رحم دانی کے پھٹنے کی حالت میں آپریشن۔
(۱) پہلی صورت میں بچہ رحم کے باہر ایک جھلی میں ہوتا ہے ،وہاں اسکی حیات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی جھلی پھٹ سکتی ہے جس سے بچہ اور ماں دونوں کی موت کا خطرہ ہوتا ہے۔
(۲) دوسری صورت میں بچہ کے پیٹ میں مکمل اور کامل ہونے کے بعد ماں مرجاتی ہے ،ڈاکٹر مردہ ماں کے پیٹ کو چیر کے بچہ کو نکال لیتے ہیں۔
(۳) تیسری صورت میں بچہ کے کامل اور مکمل ہونے کے بعد رحم اس قدر بڑا ہونا شروع ہوتا ہے کہ اسکے پھٹنے اور ماں کے موت سے دوچار ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
یہ تینوں صورتیں جائز اور مشروع ہیں ۔اسلئے کہ یہاں مقصود ایک محترم جان کو بچانا ہوتا ہے اور جان کا بچانا اللہ تعالیٰ کے اس قول کے عموم میں داخل مانا جائے گا ۔ İومَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا﴾ ۔البتہ دوسری سورت میں علماء و فقہاء کا اختلاف ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ حاملہ عورت مرجائے اور پیٹ میں بچہ زندہ ہے تو کیا آپریشن کرکے بچہ کا نکالنا جائز ہے؟
اس کے بارے میں احناف،شوافع اور ظواہر کا مذہب ہے کہ اس بچے کو نکالنے کیلئے اسکی سرجری (آپریشن )کی جائے گی۔
علامہ ابن حزم ظاھری المحلیٰ میں فرماتے ہیں :
‘‘ وَلَوْ مَاتَتْ امْرَأَةٌ حَامِلٌ وَالْوَلَدُ حَيٌّ يَتَحَرَّكُ قَدْ تَجَاوَزَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَإِنَّهُ يُشَقُّ بَطْنُهَا طُولًا وَيُخْرَجُ الْوَلَدُ، لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى:{وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا}وَمَنْ تَرَكَهُ عَمْدًا حَتَّى يَمُوتَ فَهُوَ قَاتِلُ نَفْسٍ’’ ۔
‘‘اور اگر حاملہ عورت مرجائے اور لڑکا حرکت کر رہا ہو اور چھ مہینے سے زائد کا ہوگیا ہو تو اسکے پیٹ کو لمبائی میں پھاڑا جائے گا اور اس بچے کو نکال لیا جائے گا ،اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وجہ سے ‘‘وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا’’اور جو شخص جان بوجھ کر اسکے مرنے تک چھوڑے رکھے تو وہ اسکا قاتل شمار ہوگا’’۔
ابن نجیم اپنی کتاب ‘‘الاشباہ والنظائر ’’ میں امام ابو حنیفہ ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
‘‘وَمِنْهَا : جَوَازُ شَقِّ بَطْنِ الْمَيِّتَةِ ؛ لِإِخْرَاجِ الْوَلَدِ إذَا كَانَتْ تُرْجَى حَيَاتُهُ۔ وَقَدْ أَمَرَ بِهِ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ فَعَاشَ الْوَلَدُ كَمَا فِي الْمُلْتَقَط’’ ۔اور یہاں پر امر کا لفظ وجوب اور ضروری ہونے کو بتلاتا ہے۔
اور علامہ ابن بزاز کردری ؒ اس حوالے سے امام اعظم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ‘‘مناقب الامام الاعظم’’ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور سوال کیا کہ میری بہن فوت ہوگئی ہے اور اس کے پیٹ میں بچہ حرکت کر رہا ہے اب کیا کریں؟
میں نے کہا جاؤ اس کے پیٹ کا آپریشن کرکے بچہ کو نکال لو ،تو اس نے اپنی مردہ بہن کا آپریشن کرکے بچے کو نکال لیا ،سات سال کے بعد وہ شخص میرے پا س آیا اس کے ساتھ ایک لڑکا تھا ،اس نے مجھے کہا کیا آپ اس بچے کو جانتے ہیں ؟میں نے کہا نہیں ،اس نے کہا یہ وہ ہی بچہ ہے جس کی ماں کا آپریشن کرکے بچہ کو نکالنے کا فتویٰ آپ نے دیا تھا تو میں نے اسکی ماں کا آپریشن کرکے کہ اس کو نکالا تھا اور اسکا نام مولیٰ ابی حنیفہ رکھا تھا ۔علامہ ابن بزاز ؒ کی عبارت کچھ اس طرح ہے:
وعن عبدالعزیز ابن خالد قاضی صغانیان وترمذ عن الامام قال اتانی رجل وقال ان اختی ماتت وفی بطنھا ولد یتحرک؟قلت اذھب وشق بطنھا ،واخرج الولد،ففعل،وجاء نی بعد سبع سنین ومعہ غلام ،فقال اتعرف ھذا؟قلت لا،قال ھذا الذی افتیت بشق بطن امہ واخراجہ،فاخرجتہ وسمیتہ بمولیٰ ابی حنیفۃ۔
ابن نجیم مصری البحر الرائق میں لکھتے ہیں:‘‘وَلَمَّا كَانَتْ الْحَرَكَةُ دَلِيلَ الْحَيَاةِ قَالُوا الْحُبْلَى إذَا مَاتَتْ وَفِي بَطْنِهَا وَلَدٌ يَضْطَرِبُ يُشَقُّ بَطْنُهَا وَيُخْرَجُ الْوَلَدُ لَا يَسَعُ إلَّا ذَلِكَ’’
امام محمد بن حسن شیبانی ؒ سے اس مسئلے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:‘‘ امْرَأَةٌ مَاتَتْ وَالْوَلَدُ يَضْطَرِبُ فِي بَطْنِهَا قَالَ مُحَمَّدٌ – رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى – يُشَقُّ بَطْنُهَا وَيُخْرَجُ الْوَلَدُ لَا يَسَعُ إلَّا ذَلِكَ’’ ۔
اس کے پیٹ کو پھاڑا جائے گا اور اس کے بچے کو نکال لیا جائے گا اور کرنا بھی یہی چاہئے۔
اس عبارت کے آخری حصے سے شق اور پھاڑنے کے عمل کا ضروری ہونا معلوم ہوتا ہے۔
اور اس مسئلے کے بارے میں صاحب مغنی المحتاج مذہب شافعی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ‘‘وَيَجِبُ شَقُّ جَوْفِهَا لِإِخْرَاجِهِ قَبْلَ دَفْنِهَا وَبَعْدَهُ’’ ۔
اور ضروری ہے اس بچے کے نکالنے کے لئے اس عورت کے پیٹ کا پھاڑنا اسکو دفن کرنے سے پہلے اور اسکے بعد بھی۔
اور علامہ شمس الدین محمد بن احمد بن شہاب الدین الرملی الشافعی ؒ اس حوالے سے فرماتے ہیں: ‘‘لَوْ دُفِنَتْ امْرَأَةٌ حَامِلٌ بِجَنِينٍ تُرْجَى حَيَاتُهُ بِأَنْ يَكُونَ لَهُ سِتَّةُ أَشْهُرٍ فَأَكْثَرَ فَيُشَقُّ جَوْفُهَا وَيُخْرَجُ إذْ شَقُّهُ لَازِمٌ قَبْلَ دَفْنِهَا أَيْضًا’’ ۔
اگر حاملہ عورت جس کے جنین کے زندہ ہونے کی امید ہو یعنی وہ چھ مہینے یا اس سے زیادہ کا ہو تو اس کے پیٹ کو پھاڑا جائے گا یا اسکے دفن کرنے سے پہلے اسکا پھاڑنا لازم اور ضروری ہے۔
عقلی دلیل:
(۱) قیاس: یہاں مردے کے ایک جزء کو تلف کرکے زندہ کو حیات دی جارہی ہے یہ اس کے مشابہ ہوگیا کہ آدمی کو کبھی مجبورا مردار کے عضو کو کھانے کی ضرورت آجائے تو اس کی اجازت ہے ۔
(۲) یہاں پر دونوں کے حقوق متعارف ہوگئے ،زندہ کے حق کو مقدم کیا جائے گا اس لئے کہ وہ زیادہ قابل احترام ہے ‘‘أَنَّهُ تَعَارَضَ حَقَّاهُمَا، فَقُدِّمَ حَقُّ الْحَيِّ لِكَوْنِ حُرْمَتِهِ أَوْلَى’’ ۔ جب دو مفسدوں میں تعارض ہوجائے تو ان میں بڑے مفسدے کی رعایت کی جائے گی ان میں سے چھوٹے نقصان کا ارتکاب کرتے ہوئے۔
ان عبارتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حاملہ مردار عورت کے پیٹ کا پھاڑنا اور بچے کو نکال لینا جائز ہے اور اگر ڈاکٹر اس عمل سے رکتا ہے تو وہ قاتل متصور ہوگا‘‘ومن تركه عمدًا حتى يموت فهو قاتل نفس’’ ۔
دوسرا قول اسکے عدم جواز کا بھی ملتا ہے لیکن اسکے حوالے سےعلامہ شنقیطی ؒ فرماتے ہیں :
‘‘وهذه الصورة ليست بحديثة بل هي صورة كانت موجودة من القدم وهي محل خلاف بين أهل العلم -رحمهم الله وأنه لا حرج في فعل هذا النوع من الجراحة إنقاذًا لحياة الجنين’’ ۔ اور یہ صورت جدید نہیں بلکہ یہ قدیم زمانہ میں بھی موجود تھی اور اہل علم کے درمیان اسی میں اختلاف رہا ہے،اور اس قسم کی آپریشن میں کوئی قباحت نہیں اس لئے کہ یہ ایک زندہ کو بچانے کی خاطر ہوتی ہے۔
(۲) حالت حاجیہ:
یہ وہ حالت ہے کہ طبعی طور پر بچے کی ولادت متعذر ہونے کی وجہ سے بطریق سرجری(آپریشن) بچہ نکال لیا جاتا ہے،اس طرح نہ کرنے کی صورت میں بچہ یا حاملہ کی ہلاکت کا خوف ہوتا ہے،اس حالت کا حکم ڈاکٹر کی تقدیر رائے پر موقوف ہے،اگر ڈاکٹر کو عورت کے ولادت طبعی کی مشقت برداشت نہ کرنے یا پھر بچہ کو ضرر لاحق ہونے کا غالب گمان ہو تو اس صورت میں بچہ کو بذریعہ آپریشن نکالنا جائز ہے اور اگر ڈاکٹر کا غالب گمان اس کے برعکس ہو تو سرجری کرنا جائز نہیں۔
اور اگر ایسی صورت ہو کہ بغیر آپریشن کے ولادت کی صورت میں ماں کی جان کو تو خطرہ نہ ہو لیکن بغیر آپریشن کے بچہ معذور پیدا ہونے کا خطرہ ہو تب بھی ایسا آپریشن کرنا جائز ہے چنانچہ ایسے بہت سارے کیس ہوئے ہیں جن میں بغیر آپریشن کے ولادت تو ہوجاتی ہے لیکن بچہ ساری عمر کیلئے ذھنی یا جسمانی معذور رہتا ہے اس لئے ایسی صورتحال میں ڈاکٹر کی رائے ہر عمل کرنا بہتر ہے۔
حاملہ عورت جب درد زہ میں مبتلا ہو تو عورت کیلئے یہ وقت بہت ہی زیادہ کربناک ہوتا ہے ،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت بچہ کی پیدائش میں مرجائے وہ عورت شہید ہے۔
اگر حاملہ عورت بچہ کی پیدائش کے وقت ایسی آزمائش میں مبتلا ہوجائے کہ بغیر آپریشن کے اسکی زندگی خطرہ میں پڑجائے اور بچہ کی پیدائش میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو اسکی دو صورتیں بنتی ہیں:
(۱) عورت حاملہ زندہ ہے اور حمل بھی زندہ ہے
(۲)عورت حاملہ زندہ ہے اور اسکا حمل مرگیا ہے
ان دونوں صورتوں میں آپریشن کرنا جائز ہے ،پہلی صورت میں آپریشن کرنا اس لئے جائز ہے کہ ماں اور بچہ دونون کی زندگی آپریشن پر موقوف ہے ،اگر آپریشن نہ ہو تو دونوں یا ان میں سے کسی ایک کی جان کی ہلاکت کا خطرہ ہوگا ،تو ایسی صورت میں شرعا آپریشن کی اجازت ہے اور اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔
دوسری صورت میں آپریشن کرکے مردہ بچہ نکالنا اس لئے جائز ہے کہ عورت کا بچہ اگرچہ مر چکا ہے لیکن عورت تو زندہ ہے اور عورت کی زندگی اس بات پر موقوف ہے کہ اسکا پیٹ چاک کرکے اس کا مردہ بچہ نکال لیا جائے،اس صورت میں اگر آپریشن نہ ہو تو عورت کی جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے،لھذا اس صورت میں بھی آپریشن جائز ہے۔
۲-پوسٹ مارٹم برائے تعلیم (تشریح الاعضاء)
یعنی وہ سرجری (اپٓریشن )جو فن طب میں نظری اور عملی اعتبار سے مہارت حاصل کرنے کیلئے مردہ لاشوں پر بطور پریکٹیکل کی جاتی ہے۔
شریعت میں چونکہ مثلہ اور مردہ جسم کے ساتھ کھلواڑ سے روکا گیاہے جبکہ ڈاکٹرز کو آپریشن اور سرجری سیکھنے کیلئے عملی مشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اسکے جواز اور عدم جواز کے بارے میں دو نقطہ نظر پائے جاتے ہیں :
پہلا نقطۂ نظر :عدم جواز کے قائلین ان میں شیخ محمد بخیت المطیعی،شیخ عربی بو عیاد طبخی،شیخ محمد برھان الدین سنبھلی،شیخ حسن بن علی السقاف اور شیخ محمد بن عبد الوھاب بحیری قابل ذکر ہیں اور علماء دیوبند کا رجحان بھی اسی طرف ہے کہ انسانی لاش کی طبی مشق کیلئے چیر پھاڑ کرنا جائز نہیں۔ ۔
انسانی اعضاء پر طبی مشق کرنا خواہ زندگی کی حالت میں ہو یا مرنے کے بعد دونوں طرح انسان کی بے حرمتی کی وجہ ناجائز ہے ،انسانی لاش کی چیر پھاڑ کرنا انسانی اہانت ہے ،کسی زندہ انسان کے علاج کیلئے مردہ انسان کی قطع و برید جائز نہیں ،نصوص شرعیہ اور فقہی روایات اس پر دال ہیں۔
دلائل:
۱- اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:İوَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ﴾
‘‘اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو محترم ومکرم قرار دیا ہے’’ یہ عزت وتکریم مردہ وزندہ ھر حالت میں ہوگی مردے کے جسم کو چیرنا پھاڑنا انسانیت کی تکریم کے خلاف ہے۔
۲- حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:‘‘أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال ” كسر عظم الميت ككسره حيا’’ ۔
مردے کی ھڈی توڑنا زندہ کے ھڈی توڑنے کے مترادف ہے۔
فیض القدیر میں یہ ہی روایت کچھ اس طرح ہے:
‘‘إن كسر عظم المسلم ميتا ككسره حيا) في الإثم’’
ترجمہ:مردہ انسان کی ھڈی توڑنے میں ایسا گناہ ہے جیسا کہ زندہ انسان کی ھڈی توڑنے میں ہے۔
عقلی طور پر اسکی چار صورتیں بنتی ہیں :
۱-کسی زندہ آدمی کی ھڈی کوئی دوسرا انسان توڑدے۔
۲-ایک زندہ آدمی کسی مردہ انسان کی ھڈی توڑدے۔
۳-آدمی خود اپنی زندگی میں اپنی کسی ھڈی کو توڑدے۔
۴-کوئی آدمی کسی کو اپنے مرنے کے بعد اپنی ھڈی توڑنے کی اجازت دے۔
پہلی دو صورتیں تو حدیث کی صریح نص سے ثابت ہیں کہ جس طرح کسی زندہ انسان کی ھڈی توڑنا معصیت اور گناہ ہے اسی طرح مردہ انسان کی ھڈی توڑنا بھی معصیت اور گناہ ہے۔جبکہ آخری دونوں صورتوں کا معصیت ہونا حدیث مذکورہ کی دلالت النص سے ثابت ہیں۔
۳- عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ کسی مردہ انسان کو مرنے کے بعد ایذاء پہنچانا ایسا ہی ہے جیسا کہ زندگی میں ایذاء پہنچانا :
‘‘عن ابن مسعود قال أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته’’
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ انسانی اعضاء کی قطع وبرید اور اس میں چیر پھاڑ جس طرح اسکی زندگی میں جائز نہیں ،اسی طرح اسکے مرنے کے بعد ناجائز اور حرام ہے،خواہ اسکی رضا سے ہو یا بلا رضا کے،کیونکہ انسانی جسم کا قتل اور اعضاء میں قطع و برید کرنے کا اختیار کسی انسان کو حاصل نہیں جیسا کہ خودکشی کرنے سے متعلق معلوم ہوتا ہے ،کیونکہ یہ تمام افعال تکریم انسانی کے منافی ہیں اور چونکہ مردہ انسان کو اس سے تکلیف ہوتی ہے تو اس قطع و برید میں اعضاء کو الگ کرنے میں اسکو ایک قسم کی اذیت دینا ہے ،اس لئے انسانی لاشون پر طبی تجربات کرنے میں لاشوں کی تکریم و تحریم کو پامال کیا جاتا ہے۔حضرت بریدہ ؓ سے روایت ہے نبی ﷺ جب بھی مجاھدین کو جھاد پر بھیجتے تو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ مقتولین کا مثلہ نہیں کرنا:
‘‘كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْ جَيْشٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَقَالَ: ” اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ، وَفِي سَبِيلِ اللهِ، اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تُمَثِّلُوا’’
۴- میت پر طبی تجربات کرنے سے ایک بڑی خرابی یہ لازم آتی ہے کہ میت اپنے کئی حقوق سے محروم رہتی ہے ،مثلا ایسے میت اپنے کفن دفن غسل اور نماز جنازہ سے محرام رہتے ہیں ،حالانکہ میت کو غسل دینا ،کفن دفن کرنا اسکا جنازہ پڑھنا مسلمانوں پر واجب ہے ،اس لئے میت کی لاش پر طبی تجربات کرنے کی صورت میں ان تمام چیزوں کا چھوڑنا لازم آتا ہے ،ایسے لاش کو نہ تو سنت کے مطابق دفن کیا جاتا ہے اور نہ یہ اسکا جنازہ پڑھایا جاتا ہے۔جبکہ حضرت حصین بن وحوح ؓ سے روایت ہے کہ حضرت طلحہ بن براء ؓ بیمار ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کیلئے تشریف لائے ،انکی حالت نازک دیکھ کر آپ ﷺ نے دوسرے لوگوں سے فرمایا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اسکی موت کا وقت قریب آہی گیا ہے اگر ایسا ہوجائے تو مجھے خبر کی جائے اور اسکی تجہیز وتکفین میں جلدی کی جائے کیونکہ کسی مسلمان کی میت کیلئے مناسب نہیں کہ وہ دیر تک اپنے گھر والوں کے بیچ میں رہے۔
‘‘عن الحُصين بن وَحْوَح أن طلحةَ بن البراء مرضَ، فأتاه النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلم- يعودهُ، فقال: “إني لا أُرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت، فآذِنُوني به وعَجِّلُوا؟ فإنه لا ينبغي لجيفةِ مُسلمٍ أن تُحبس بين ظَهرَاني أهلِه’’
اور صاحب در مختار نے لکھا ہے کہ جنازہ میں اس لئے دیر کرنا کہ زیادہ لوگ آئیں یہ ناجائز ہے:
‘‘ وكره تأخير صلاته ودفنه ليصلي عليه جمع عظيم بعد صلاة الجمعة’’
اسی طرح امام نوویؒ نے شرح المھذب میں لکھا ہے کہ نماز جنازہ پڑھ لینے کے بعد دفن میں تاخیر کرنا بھی مکروہ ہے:
‘‘ إذَا صُلِّيَ عَلَيْهِ فَالسُّنَّةُ أَنْ يُبَادَرَ بِدَفْنِهِ وَلَا يُنْتَظَرُ بِهِ ’’
اور میت پر طبی تجربات کرنے سے ایک خرابی یہ بھی لازم آتی ہے کہ میت اپنے بہت سارے حقوق سے محروم ہوجاتی ہے،بلکہ ایسی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے لاش کو جلادیا جاتا ہے یا اسکی ھڈیوں کو پانی سے صاف کرکے جادوگروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے یا ویسے ہی پھینک دیا جاتا ہے۔
۵-ایک بڑی خرابی انسانی لاشوں پر میڈیکل پریکٹس کرنے میں یہ بھی لازم آتی ہے کہ میڈیکل پریکٹس کرنے والے مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتی ہیں ،اسی طرح لاش مرد کی بھی ہوتی ہے اور عورت کی بھی ہوتی ہے۔جبکہ یہ شرعی مسئلہ ہے جو احادیث سے صراحۃثابت ہے اور فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ ناف سے لیکر گھٹنوں تک کا حصہ مرد کا ستر ہے جس کا چھپانا ھر حال میں لازمی ہے ،اور عورت کا ستر اسکا پورا بدن ہے سواء ہاتھ اور چہرے کے۔بغیر ضرورت مثلا علاج وغیرہ کے کسی بھی مرد یا عورت کی ستر کی طرف دیکھنا ناجائز اور حرام ہے ،اسی طرح کسی کی ستر کو چھونا بھی حرام ہے جبکہ لاش پر طبی تجربے کرنے کی صورت میں غیر کی ستر دیکھنا اور چھونا لازم آتا ہے۔
جس طرح زندہ آدمی کی ستر پر نگاہ ڈالنا ناجائز ہے اسی طرح مردہ کی ستر پر نگاہ ڈالنا بھی ناجائز اور حرام ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
‘‘ أن النبي -صلَّى الله عليه وسلم- قال: “لا تُبْرِز فخذِكَ، ولا تَنْظُرَنَّ إلى فخذِ حيٍ ولا ميتٍ” ’’
ترجمہ:اے علیؓ اپنی ران کسی کےسامنے ظاھر مت کر اور نہ کسی زندہ یا مردہ کی ران کی طرف نظر کر۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے:
‘‘عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْفَخِذُ عَوْرَةٌ»’’
حضور ﷺ نے فرمایا کہ ران ستر ہے ،یعنی اسکا چھپانا ضروری ہے۔۔
اگر مرد طلبا مرد کی لاش پر تجربہ کریں تو ان کے لئے ناف سے لیکر گھٹنوں تک کا حصہ کھولنا جائز نہیں ،لیکن اگر لاش عورت کی ہو تو پھر مرد کیلئے اسکا سارا بدن ستر ہے اس لئے عورت کی لاش پر طبی مشق کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔بہرحال مردے کی لاش پر طبی مشق کرنے سے ‘‘النظر الیٰ ستر غیرہ’’کی بڑی خرابی لازم آتی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔
یہاں پر ایک اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات کو تو فقہاء نے اجازت دی ہے کہ وہ بوقت ضرورت مریض کی ستر پر نظر ڈال سکتے ہیں تو یہاں کیوں نظر نہیں ڈال سکتے؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ مریض کے ستر پر نظر ڈالنا جو جائز ہے وہ اس لئے کہ اس وقت اسکی جان بچانا مقصود ہوتا ہے ،جبکہ یہاں پر ایسی کوئی صورت نہیں ہے ،دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہاں ضرورت فی الحال موجود ہوتی ہے جبکہ طبی مشق کی صورت میں فی الحال ضرورت یا اضطراری حالت نہیں ہے اس لئے یہ اشکال غلط اور بے بنیاد ہے۔
دوسرا نقطۂ نظر:کسی شرعی مصلحت کی بناء پر اسکی اجازت ہے ۔اگر اسمیں مسلمانوں کا مفاد ہو ،اسکے ذریعے طبی کالجوں میں علم طب سیکھنے ،اور مردہ اجسام پر بحث اور ریسرچ کی جاتی ہو ،اس سے اعضاء انسانی کی ساخت اور امراض و بیماریوں کی شناخت ہوتی ہو بیماری اور بیماریوں کی جگہوں کی کمی اور نقصانات کا علم ہوتا ہو اور اسکا بہترین علاج کیا جاتا ہو تو جائز ہے۔
دوسرے نقطۂ نظر یعنی (قائلین جواز) مندرجہ ذیل ہیں:
1 – ہیئۃ کبار العلماء بالمملکۃ العربیۃ السعودیۃ
2 – مجمع الفقہ الاسلامی المکہ المکرمہ
3 – لجنۃ الافتاء با لمملکۃ الاردنیۃ الھاشمیۃ
4 – لجنۃ الافتاء بالازھر بمصر
اور وہ حضرات جو انفرادی طور پر اس موقف کے قائل ہیں وہ یہ ہیں:
شیخ یوسف دجوی،شیخ حسنین مخلوف،شیخ ابراھیم یعقوبیؒ،ڈاکٹر محمد سعید رمضان،ڈاکٹر محمد ناظم نسیمی اور ڈاکٹر محمود علی سرطاوی ۔
ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
۱- مردے کے جسم کو بغرض تعلیم ایسے ہی چیرا پھاڑا جاسکتا ہے جیسے کوئی حاملہ عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ اور متحرک ہو تو تمام فتاوی میں اس عورت کے پیٹ کو بائیں جانب سے چیر پھاڑ کر بچہ کو باہر نکالنے کی تصریح ہے ،در مختار میں ہے:
‘‘حَامِلٌ مَاتَتْ وَوَلَدُهَا حَيٌّ يَضْطَرِبُ شُقَّ بَطْنُهَا مِنْ الْأَيْسَرِ وَيُخْرَجُ وَلَدُهَا’’
۲- مردے کے جسم کی بغرض تعلیم چیر پھاڑ کرنا ایسے ہی جائز ہے جیسے مردہ کے جسم میں کوئی چیز متحرک معلوم ہو اور لوگوں کی رائے یہ ہو کہ بچہ متحرک ہے ،چنانچہ فتح القدیر میں ہے:
‘‘ وَفِي التَّجْنِيسِ مِنْ عَلَامَةِ النَّوَازِلِ امْرَأَةٌ حَامِلٌ مَاتَتْ وَاضْطَرَبَ فِي بَطْنِهَا شَيْءٌ وَكَانَ رَأْيُهُمْ أَنَّهُ وَلَدٌ حَيٌّ شُقَّ بَطْنُهَا’’
۲- مردے کے جسم کا بغرض تعلیم چیر پھاڑ کرنا ایسے ہی جائز ہے جیسے مردے کے جسم کو اسکے غصب کردہ مال کے نگلنے کی صورت میں اسکے پیٹ کو پھاڑنا جائز ہے:
‘‘وَلَوْ بَلَعَ مَالَ غَيْرِهِ وَمَاتَ هَلْ يُشَقُّ قَوْلَانِ ، وَالْأَوْلَى نَعَمْ فَتْحٌ’’
‘‘لَوْ بَلَعَ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ وَمَاتَ يَشُقُّ وَأَفَادَ الْبِيرِيُّ عَدَمَ الْخِلَافِ فِي الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ’’
‘‘يجوز تشريح جثة الميت كما يجوز شق بطنه لاستخراج المال المغصوب الذي ابتلعه’’
ان سب کا خلاصہ یہ ہےکہ مردہ نعش کی بحالت ضرورت چیر پھاڑ کرنا جائز ہے ،اور بغرض تعلیم لاشوں کی چیر پھاڑ بھی ایک ضرورت ہی ہے۔
۲- میڈیکل کالجوں میں تعلیمی ضرورت کیلئے لاشوں کی سرجری ،چیر پھاڑ کرنا جائز ہوگا ،اسلئے کہ آئین اسلام کا ضابطہ ہے کہ دو ضرروں میں سے اگر ایک ضرر دوسرے ضرر سے اعظم ہو تو اشد ضرر کا اخف ضرر کے ذریعے ازالہ کیا جائے گا۔
جس کی ایک مثال مردہ عورت کے پیٹ کا بچہ نکالنے کیلئے چیرنا ہے۔
‘‘الاشباہ والنظائر’’ میں ہے:
‘‘ لَوْ كَانَ أَحَدُهُمَا أَعْظَمَ ضَرَرًا مِنْ الْآخَرِ؛ فَإِنَّ الْأَشَدَّ يُزَالُ بِالْأَخَفِّ’’
اور یہ قاعدہ بھی ہے‘‘الضَّرَرُ يُزَالُ‘‘ الضَّرُورَاتُ تُبِيحُ الْمَحْظُورَاتِ’’
پس ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے اس طرح کی چیر پھاڑ (آپریشن)سرجری کرنا جائز ہے۔
مذکورہ مثالوں میں زندہ لوگوں کی مصلحت اور ان کے مفاد کیلئے مردے کی چیر پھاڑ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہی تمام مصلحتیں آپریشن سیکھنے کیلئے اور انسانی جسم کے امراض کی ترتیب کا پتہ لگا کر اسکے مطابق زندہ لوگوں کے علاج کرنے کے پیش نظر ہوتی ہیں۔
البتہ اسکے لئے چند شرائط ہیں :
۱-یہ چیر پھاڑ تب ہوگی جب اس شخص کی موت کا مکمل یقین ہو
۲-اسکی شدید ضرورت بھی ہو
۳-اس شخص نے مرنے ٍسے پہلے یا اسکے اقرباء نے اسکی اجازت دی ہو
۴-مردے کی بے حرمتی اور مثلہ نہ ہو
۵-چیر پھاڑ (پریکٹیکل ) کے بعد اسکے تمام اعضاء کو یکجا کرکے احترام کے ساتھ دفنایا جائے۔
پوسٹ مارٹم کی چند دیگر جائز صورتیں:
(۱) عدالتی پوسٹ مارٹم: یعنی پوسٹ مارٹم کا عدالت حکم دیتی ہے ،اس لئے کہ صحیح مجرم معلوم کیا جائے اور غیر مجرم کو سزا نہ دی جائے،اور اس سے موت کی وجہ اور وقت معلوم ہوجاتا ہے۔
(۲)تشخیصی پوسٹ مارٹم:یعنی کوئی آدمی مرگیا اور پتہ نہیں چلا کہ کس بیماری کا اثر کس عضو پر ہوا جس کی وجہ سے آدمی مرگیا یہ بھی دوسرے مریضوں کے امراض کی تشخیص میں مدد دیتا ہے ۔
پوسٹ مارٹم کی یہ صورتیں بھی جائز اور درست ہیں اس لئے کہ ان میں مسلمانوں کا مفاد ہوتا ہے اور ان سے اعضاء انسانی کی ساخت اور امراض وبیماریوں کی شناخت ہوتی ہے،اسی طرح جنایات اور جرائم کا پتہ لگایا جاتا ہےاور جرم کی شناخت کے ذریعے صاحب حق کو اسکا حق دیا جاتا ہے۔
۳- آپریشن(سرجری) برائے علاج وضرورت شدیدہ:
ایسا آپریشن جو بغرض علاج کیا جاتا ہے ،اگر آپریشن کرنے کی واقعی ضرورت ہو تو بغرض علاج آپریشن کرنا ،کرانا جائز ہے بلکہ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں آپریشن ضروری ہوجاتا ہے ،اگر آپریشن کرنے کی سخت ضرورت ہو ،مثلا مریض کی حالت بیماری کی وجہ سے ایسی خستہ ہوچکی ہو کہ اگر آپریشن نہ کیا جائے تو اس مرض میں مریض کی موت واقع ہوجائے ،تو اس مرض کو دور کرنے اور مریض کی جان بچانے کیلئے سرجری آپریشن کرنا بلا شبہ جائز بلکہ لازم و ضروری ہے،اس سرجری (آپریشن) کو عربی میں ‘‘الجراحۃ العلاجیۃ الضروریۃ’’کہا جاتا ہے۔
مثلا بند شریانوں کا آپریشن سے علاج:
اگر خدانخواستہ آپکو دل کی شریانوں کی بیماری ہے اور وہ اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسے ادویات سے قابو میں نہیں رکھا جاسکتا،یا آپ کے دل کی بائیں مرکزی شریان میں رکاوٹ بڑھ چکی ہے ،یا پھر تینوں شاخیں بند ہوچکی ہیں تو آپکو بائی پاس آپریشن کی ضرورت ہے۔
بائی پاس آپریشن ایک یا ایک سے زیادہ شریانوں کا کیا جاتا ہے ،آپریشن کا مقصد بند شریان کی جگہ نئی پیوند لگانا ہے ،یہ پیوند عموما ٹانگ کی ایک خون کی نالی نکال کر دل کی بیرونی سطح پراس طرح لگایا جاتا ہے کہ اسکا ایک سرا رکاوٹ کے مقام سے پہلے اور دوسرا سرا رکاوٹ کے آگے بند شریان میں داخل کردیا جاتا ہے،اس طرح خون کا بہاؤ رکاوٹ کے مقام کو بائی پاس کرکے آگے دل کے پھٹے میں پہنچنے لگتا ہے۔
پیوندکاری یا بائی پاس آپریشن کیلئے سرجن مریض کی چھاتی کو کاٹ کر چھاتی کھول لیتا ہے،دل کو بجلی کا جھٹکا اور ادویات دے کر عارضی طور پر دھڑکنے اور کام کرنے سے روک لیا جاتا ہے،ایک ھارٹ لیگ مشین اس دوران خون کی سپلائی جسم کے تمام حصوں کو جاری رکھتی ہے،بائی پاس یا شریان کی پیوندکاری میں بند شریان میں رکاوٹ کے مقام کے آگے خون کی رسد بحال کرنے کیلئے ٹانگ سے نکالی ہوئی خون کی نالی کا ایک سرا شریان اعظم یعنی دل کی مرکزی خون کی نالی میں اور دوسرا بند شریان میں رکاوٹ کے مقام کے آگے اسی شریان میں داخل کرکے سی دیا جاتا ہے۔
ایسا آپریشن کرنا بلا شبہ جائز ہے اسکے جواز میں کوئی شک وتردد نہین ہے بلکہ مریض کی جان بچانے کیلئے ایسا آپریشن ضروری ہوجاتا ہے۔
۲-اپنڈکس:
اپنڈکس کا آپریشن کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے اگر آپریشن نہ کیا جائے تو اسکا زہر پورے پیٹ میں پھیل جاتا ہے جس سے انسانی ہلاکت یقینی ہوتی ہے۔
اپنڈیسائیٹس عام طور پر ایمرجنسی کنڈیشن ہے،یہ تمام عمر کے لوگوں کو خصوصا ۱۵ اور ۳۰ سال کی عمر کے جوانوں کو ہوتی ہے،اور یہ کسی بھی وقت ظاہر ہوسکتی ہے ،اور یہ کنڈیشن عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہوتی ہے،یہ کنڈیشن اپنڈکس کے اندرونی راستے کے اندر پاخانے کی خشک رطوبت کی رکاوت سے ہوتی ہے ،اس سے اپنڈکس کے اندر سوزش پیدا ہوتی ہے ،اس سے پتھری بھی بن سکتی ہے خون کا دورہ رک جاتا ہے اور بافتیں مردہ پڑ جاتی ہیں ،اور اگر اپنڈکس پھٹ جائے جائے تو مریض کی حالت خطرے میں ہوتی ہے۔
جب اپنڈکس پھٹ جائے تو مریض کے پیٹ کے اوپر والے حصے کے مرکز میں اچانک سخت درد شروع ہوجاتا ہے اور چند گھنٹوں میں پیٹ کے دائیں طرف نچلے حصے میں منتقل ہوجاتا ہے ،ایسی حالت انتہائی خطرناک ہوتی ہے ، اس وقت مریض کا آپریشن کرکے جان بچانا بلا شبہ جائز اور ضروری ہے ۔
(۲)آپریشن برائے علاج و ضرورت خفیفہ:
وہ بیماری جس میں مریض کی موت کا خوف ہو ،یا اس مرض کی شدت میں اضافے کا خوف ہو تو ایسی بیماری کا ختم کرنے کیلئے جو سرجری(آپریشن) کی جاتی ہے اس کو ‘‘الجراحۃ العلاجیۃ الحاجیۃ’’کہتے ہیں۔
اسکی دو قسمیں ہیں :
۱- ایسی اری جسکی وجہ سے مریض کو سخت ضرر پہنچتا ہو خواہ وہ ضرر دائمی ہو یا وقتی ہو ،جیسے ٹی بی کی صورت میں پھیپھڑوں میں پیپ پڑجائے تو آپریشن کرکے پیپ نکالنا جائز ہے۔
پھیپھڑے:پھیپھڑے سانس کے عمل کے دو اہم اعضاء ہیں ،یہ تعداد میں دو ہوتے ہیں ،دونوں مخروطی شکل کے ہوتے ہیں ،یہ سینے کے جوف میں ایک دائیں طرف اور دوسرا بائیں طرف ہوتا ہے،ان کی رنگت سرخ ہوتی ہے،یہ دل کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
جب ٹی بی کے مریض کے پھیپھڑوں میں پانی یا پیپ پڑجائے تو اس سے مریض کو سخت رتکلیف ہوتی ہے مریض انتہائی ضرر میں مبتلا ہوجاتا ہے ،عموما ایسا مریض کھانا پینا چھور دیتا ہےاور مریض پر دواء کا اثر بھی نہیں ہوتا ،ایسا مریض روز بروز کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ،ڈاکٹر حضرات ایسے مریض کو پانی یا پیپ نکالنے کا مشورہ دیتے ہیں ،اگر پھیپھڑوں میں پانی جمع ہوگیا ہو تو عموما یہ پانی سرجن حضرات سرنج سے نکالتے ہیں ،لیکن اگر پانی گاڑھا ہوجائے یعنی پیپ بن جائے تو پھر یا تو سرجن چھوٹا آپریشن کر کے ٹیوب کے ذریعے پیپ نکالتے ہیں ،لیکن اگر ٹیوب کے ذریعے بھی مکمل صفائی نہ ہو تو سرجن مریض کو آپریشن کا مشورہ دیتے ہیں ،آپریشن سے تقریبا مکمل صفائی ہوجاتی ہے ،پہلے دو طریقے عموما ناکام ہی ہوتے ہیں ،البتہ تیسرا طریقہ کامیاب ذرہعہ علاج ہے،جس سے پیپ مکمل نکل جاتی ہے۔
ایسا آپریشن ضرورت کی وجہ سے جائز ہے عموما یہ آپریشن انتہائی مجبوری کی حالت میں کیا جاتا ہے ،جب دوسری کوئی صورت نہ ہو ،اس لئے شرعا ایسا آپریشن کرنا جائز ہے۔
۲-دوسری قسم:ایسی بیماری جس سے فی الحال اس کا کوئی ضرر نہ ہو لیکن مستقبل میں ضرر کا خوف ہو اور اس خوف کا حدوث متوقع ہو ،شک اور وہم کے درجے میں نہ ہو بایں طور کہ اگر آپرین (سرجری) نہ کی جائے تو یہ مرض اس کے کسی عضو کو لاحق ہوکر اس عضوء کی منفعت کو بالکلیہ ختم کردے۔
فتاویٰ ھندیہ میں ہے:
لَا بَأْسَ بِقَطْعِ الْعُضْوِ إنْ وَقَعَتْ فِيهِ الْآكِلَةُ لِئَلَّا تَسْرِيَ وَلَا بَأْسَ بِشَقِّ الْمَثَانَةِ إذَا كَانَتْ فِيهَا حَصَاةٌ
ترجمہ:اگر کسی عضو میں سڑن پیدا ہوجائے،تو اسکی نشو ونما کو روکنے کیلئے عضو کو کاٹ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ،اور مثانہ میں پتھری ہو تو اسکی آپریشن کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر کسی عضو کو کاٹنے کے بارے میں ماہر معالج کی رائے میں کوئی اور علاج نہ ہو تو وہ وعضو کانے کی گنجائش ہے۔
اب ایک سوال یہ ہے کہ بعض دفعہ بیماری کی وجہ سے مریض کے ہاتھ ٹانگ کاٹنا پڑتے ہیں ،تاکہ یہ بیماری پورے جسم میں سرائیت نہ کرجائے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
اسکا جواب یہ ہے کہ جب ماہر معالج کی رائے میں عضو کاٹنے کے علاوہ کوئی اور علاج نہ ہو تو شرعا اضطراری حالت میں بقدر ضرورت عضو کاٹنے کی گنجائش ہے۔
۴-جراحات صغریٰ برائے علاج ومعالجہ(minor surgery):
ایسی بیماری کا آپریشن کرنا جو نہ ضرورت کے درجے کو پہنچے نہ حاجت کے،یعنی وہ مرض انسان کو نہ موت تک پہنچا سکتا ہو اور نہ ہی اس میں موت کا خوف ہو،لیکن اس مرض کو یونہی چھوڑے رکھنا تکلیف وپریشانی کا سبب بن سکتا ہے ،اور یہ تکلیف وپریشانی متوقع بھی ہو ،جیسے ناک میں زائد گوشت کا بڑھ جانا ،اگر اس زائد گوشت کو نہ نکالا جائے تو یہ بڑھ کر تکلیف ومشقت کا سبب بن سکتا ہے ۔
ناک کی ھڈی کا ٹیڑھا ہونا:
اگر کسی مریض کی ناک کی ھدی ٹیڑھی ہو تو اسکی ناک اکچر بند رہتی ہے،گلے میں خراش پیدا ہوجاتی ہے ،چہرے اور کانوں میں درد اور سونگھنے کی قوت کم ہوجاتی ہے ،اسکا علاج بھی آپریشن کے ذریعے کیا جاتا ہے،اگرچہ اس آپریشن سے مریض ٹھیک ہوجاتا ہے ،لیکن اکثر یہ آپریشن کرنے کے باوجود تکلیف دور نہیں ہوتی۔اسی طرح بسا اوقات ناک میں لمبی لمبی غدودیں نکل آتی ہیں،جن کو نواصیر کہتے ہیں،یہ ناک کو بند کردیتی ہیں،اور اس سے سونگھنے کی صلاحیت متاثر ہوجاتی ہے،سر میں درد رہتا ہے،یاداشت خراب ہونے لگتی ہے،اور کسی چیز پر توجہ دینے میں مشکل پیش آتی ہے،ناک کی شکل مینڈک کی سی ہوجاتی ہے،باوجود اس کے اسکا علاج آپریشن ہی ہے ،لھذا یہ آپریشن کرنا بھی شرعا جائز ہے۔
آنکھ کی آپریشن:
آنکھ جسم کا ایک اہم عضو ہے اسکی حفاظت بہت ضروری ہے،اگر آنکھ ضائع ہوجائے تو یہ دنیا آدمی کیلئے اندھیر نگری ہے،آنکھ میں کالا موتیا بند ہوجانا یہ ایک عام بیماری ہے،آنکھ میں جب فلورائڈ کا پریشر ہو تو اس سے آپٹک نرو optic nerve کمزور ہوجاتا ہے اور نظر پر اثر انداز ہوتا ہے،اس بیماری سے آنکھ کی بینائی بہت کم ہوجاتی ہے،جب آنکھ سرخ ہوجاتی ہے تو اس موقع پر اسکا آپرشن کیا جاتا ہے،یعنی اس کا آپریشن کرنا ضروری ہوجاتا ہے،بلکہ اسکا علاج صرف آپریشن ہی ہے آپریشن کے علاوہ اسکا کوئی اور علاج ایجاد ہی نہیں ہوا۔
آنکھ کی روشنی بحال کرنے کیلئے یہ آپریشن کرنا شرعا درست اور جائز ہے،اسکے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ،بلکہ یہ آپریشن اللہ کی ایک نعمت ہے ،اس آپریشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں آنکھ کی قدرتی ساخت میں بہت کم توڑ پھوڑ کی جاتی ہے ،اس لئے آنکھ بہت جلد اپنی اصلی حالت میں آجاتی ہے ۔
چربی کا بڑھ جانا:
کبھی جسم کے کسی خاص حصہ میں چربی بہت بڑھ جاتی ہے ،اسکو اگر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ موٹاپے ،جوڑوں اور پیٹھ کے درد کاباعث بن سکتی ہے،لھذا اسکو آپریشن کے ذریعے نکالا جاتا ہے اور یہ اس صورت میں جائز ہے جب دیگر طریقے پرہیز اور ورزش وغیرہ کارآمد نہ ہوں۔
دلیل: یہ آپریشن دوا اور علاج کے تحت ہوگا۔
بعض فقہاء نے حقنہ(دبلے پن کے علاج) کی اجازت دی ہے کیونکہ اس سے دیگر امراض بھی پیدا ہوسکتے ہیں‘‘و يجوز الحقنة للتداوي للمرأة و غيرها و كذا الحقنة لأجل الهزال لأن
الهزال إذا فحش يقضي إلى السل’’ ۔
موٹا کرنے کیلئے جب دوا اور علاج جائز ہے تو چربی نکال کر موٹاپے کو زائل کرنے کی بھی اجازت ہوگی اس لئے کہ یہ بھی دوا اور علاج کے ہی قبیل سے ہے لھذا دونوں مشروع ہیں۔
۵- آپریشن برائے ختنہ:
وہ سرجری (آپریشن) جس میں مرد کے عضو خاص کی اس چمڑی کو جو حشفہ کو چھپائے ہوتی ہے ،اور عورت کے فرج کے اعلیٰ حصے کے ادنیٰ جز کو کاٹا جاتا ہے ۔
ختنہ امور فطرت میں سے ہے:
متعدد احادیث میں ختنہ کو امور فطرت میں سے شمار کیا گیا ہے،چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ، وَحَلَقُ الْعَانَةِ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَحَلْقُ الشَّارِبِ ” ۔
ترجمہ: حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پانچ چیزیں فطرت ہیں ،ختنہ کرنا، زیر ناف بال کاٹنا،موچھیں کاٹنا،ناخن کاٹنا،بغل کے بال اکھاڑنا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رِوَايَةً: ” الفِطْرَةُ خَمْسٌ، أَوْ خَمْسٌ مِنَ الفِطْرَةِ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ ” ۔
ختنہ کے میڈیکل فوائد:
۱- سپاری کی اوپر کی کھال کٹنے سے انسان ضرر رساں چکنے مادے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور ان ناپسندیدہ رطوبات سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ہے،جن سے انسانی طبیعت نفرت کرتی ہے اور گندگی کے جمع ہونے اور اس جگہ کے بدبودار ہونے سے بچ جاتا ہے۔
۲- اس کھال کے کاٹنے سے اس خطرے سے بچ جاتا ہے کہ سپاری عجو کے پھیلاؤ کے وقت اندر ہی محبوس اور بند رہے۔
۳- ختنہ کی وجہ سے سرطان کے مرض سے کافی حد تک بچاؤ ہوجاتا ہے اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ایسے لوگوں کو سرطان زیادہ ہوتا ہے جن کی سپاری کی اوپر والی کھال تنگ ہوتی ہے۔
۴- ختنہ جنسی تعلق کے لئے مفید ہے۔
۵-ختنہ احتلام سے بچاؤکا ذریعہ ہے،کیونکہ ختنہ نہ کرانے سے عضو مخصوص میں میل کچیل جمع ہوجاتی ہے ،جس سے خارش پیدا ہوتی ہے اور خارش سے احتلام کی شکایت بڑھتی ہے۔
۶- ختنہ عضو مخصوص میں مختلف قسم کے جراثیم کے جمع ہونے سے مانع ہے۔
۷-ختنہ کی وجہ سے پیشاب کے قطرے عضو میں جمع نہیں ہوتے۔
۸-ختنہ شدہ انسان پیشاب میں تکلیف محسوس نہیں کرتا ،ختنہ کی وجہ سے پیشاب کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے،جب کہ غیر مختون پیشاب کرنے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔
۹-ختنہ سرعت انزال کو کنٹرول کرتا ہے۔
۱۰- ختنہ باعث صحت ہے۔
اسکے علاوہ بھی ختنہ کے بہت سارے فوائد ہیں۔
حکم:
عند الاحناف ختنہ سنت ہے:
وَالْأَصْلُ أَنَّ الْخِتَانَ سُنَّةٌ كَمَا جَاءَ فِي الْخَبَرِ، وَهُوَ مِنْ شَعَائِرِ الْإِسْلَامِ وَخَصَائِصِهِ ۔
اور فتاویٰ ھندیہ میں ہے: وَاخْتَلَفُوا فِي الْخِتَانِ قِيلَ إنَّهُ سُنَّةٌ وَهُوَ الصَّحِيحُ ۔
عند المالکیہ ختنہ سنت ہے:
وَوَافَقَ (ح) مَالِكًا فِي أَن الْخِتَان سنة لِأَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ – قَرَنَهُ بِقَصِّ الشَّارِبِ وَنَتْفِ الْإِبِطِ فَقَالَ فِي الْمُوَطَّأِ(خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ تَقْلِيمُ الْأَظَافِرِ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَنَتْفُ الْإِبِطِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ وَالِاخْتِتَانُ) وَلَا خِلَافَ أَنَّ هَذِهِ لَيْسَتْ وَاجِبَةً ۔
عند الشوافع صحیح قول کے مطابق واجب ہے:
إنَّ الْخِتَانَ وَاجِبٌ فِي حَقِّ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ عَلَى الصَّحِيحِ
لھذا سرجری (آپریشن) برائے ختنہ جائز ہی نہیں بلکہ سنت اور واجب کے درجے میں ہے۔
۶- جراحۃ التجمیلیہ الحاجیہ:
جب انسان کے کسی عضو میں کوئی نقص پیدا ہوجائے ،یا کوئی عضو حادثے یا مرض کی وجہ سے تلف ہوجائے،یا مسخ ہوجائےتو اسکی درستگی کیلئے سرجری(آپریشن ) کرنا جراحۃ التجمیلیہ الحاجیہ کہلاتا ہے۔
اسکی دو قسمیں ہیں:
۱- ضروری درجہ کا آپریشن:
۱- ایسے عیوب کی سرجری(آپریشن) کرانا جو انسان کیلئے باعث ضرر ہوخواہ وہ عیوب پیدائشی ہوں ،جیسے اوپر کے ہونٹوں کا پھٹا ہوا ہونا ،ہاتھ پیر کی انگلیوں کا ملا ہوا ہونا ،یا وہ عیوب جو پیدا ہونے والے ہوں،جیسے آگ میں جلنے کی وجہ سے جلد کا خراب ہونا ،ہتھیلیوں کی انگلیوں کا مل جانا ،یہ عیوب انسان کے لئے حسی اور معنوی دونوں طرح سے نقصاندہ ہیں تو ایسے اشخاص کو آپریشن کے ذریعے ان عیوب کازالہ کی اجازت ہے۔
الف : اس قسم کے آپریشن کےجائز ہون کے سلسلے میں اہل سیر نے یہ واقعہ بیان کیا ہے:
قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی آنکھ اھد کے دن زخمی ہوگئی اور وہ اپنے حلقہ سے نکل آئی،لوگوں نے اسکو کاٹ دینا چاہا ،ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے درفت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس آنکھ کو اسکی جگہ پر کردیا ‘‘فردھا مکانھا براحتہ’’ ۔
آنکھ نہ ہونے سے چہرے کے بگاڑ اور بد صورتی کی صورت جو حسی اور معنوی نقصانات ہوسکتے ہیں اسکی وجہ سے اس عمل کا جائز ہونا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
اسی طرح حضرت عرفجہ رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ أَسْعَدَ قَالَ: أُصِيبَ أَنْفِي يَوْمَ الكُلاَبِ فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَاتَّخَذْتُ أَنْفًا مِنْ وَرِقٍ، فَأَنْتَنَ عَلَيَّ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَّخِذَ أَنْفًا مِنْ ذَهَبٍ ۔
یعنی چلی گئی آنکھوں کی جگہ مصنوعی آنکھ لگائی جاسکتی ہیں ،جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کٹی ہوئی ناک کی جگہ سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا۔
ب: جس طرح دیگر آپریشن ضرورۃ جائز ہیں اسی طرح ضرورت کی وجہ سے یہ بھی جائز ہے۔
ج: یہ تغیر خلق اللہ کے تحت نہیں آتا ،اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ارادۃ نہیں ،بلکہ یہاں مقصود نقصان کو دور کرنا ہے۔
چنانچہ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ فرماتے ہیں:‘‘فان الظاھر ان المراد بتغییر خلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ حیوانا علی صورتہ المعتارۃ لا تغییر فیہ،لان ما خلق علی خلاف العادۃ مثلا کا للحیۃ للنساء او العضو الزائد فلیس تغییرہ تغییر خلق اللہ’’۔
ظاھر ہے کہ اللہ کی تخلیق میں تغیر اور تبدیلی سے مراد حیوان کا اسکی عام صورت پہ ہونا ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں چونکہ جو چیز خلاف عادت ہوگی مثلا عورتوں کی داڑھی یا ان کا زائد عضو تو اس میں تبدیلی اللہ کی خلقت میں تبدیلی نہیں۔
د: عمر کی زیادتی کی وجہ سے اعضاء پر تبدیلیاں اس قدر زیادہ ہوں کہ اسکی وجہ سے بد صورتی نظر آتی ہو یا اسکا بینائی پر اثر ہورہا ہو تو آپریشن سے اسکا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
شیخ عبد العزیز ابن باز سے تجمیلی آپریشن کے بارے میں پوچھا گیا جس میں لٹکے ہوئے پلکوں کا بھی ذکر تھا جو دیکھنے میں رکاوٹ بن رہے تھے تو انہوں نے اسکا جواب یوں دیا:
‘‘ لا حرج في علاج الأدواء المذكورة بالأدوية الشرعية، أو الأدوية المباحة وأما الأدوية المحرمة كالخمر ونحوها فلا يجوز العلاج بها’’ ۔
اسی طرح پلاسٹک سرجری سے متعلق ایک استفسار کا جواب جو الفتاوی الشرعیہ فی المسائل العصریہ فی فتاوی علماء البلد الحرام سے صادر ہوا ۔
سوال: اذا کان الانف کبیرا وضخما ،ھل یجوز اجراء عملیۃ لتجمیلیہ بحیث یصبح مناسبا للوجہ؟
جواب: القاعدۃ فی ھذہ الامور ان العملیۃ لازالۃ العیب جائزۃ،والعملیۃ للتجمیلیۃ غیر جائزۃ،ودلیل ذلک ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لعن المتفلجات فی اسنانھن من اجل تجمیل السن ولاکنہ ان لاحد الصحابۃ لما اصیبت انفہ وقطع ،اجاز ان یتخذ انفا من ذھب ،فالقاعدۃ ان ما کان لازالۃ العیب فھو جائز ،وما کان لزیادۃ التجمیل فھو لیس جائز ،فمثلا لوکان الانف اعوج،واجری عملیۃ لتعدیلہ فلا باس لان ھذا ازالۃ عیب لو کانت العین حولاء فاجری عملیۃ لتعدیلھا فلا باس لانہ ازالۃ عیب،وھذا الانف اذا کان کبرہ یعتبر عیبا فھذا عیب ولا باس باجراء عملیۃ ْ اما اذا کان فیہ کبر وتصغیرہ یکون اجمل فان ھذا یعتبر تجمیلا فھو کا لتفلج لا یجوز۔
ان امور کے تعلق سے قاعدہ یہ ہے کہ کوئی بھی سرجری عیب کے ازالہ کیلئے کرنا جائز ہے،اور خوبصورتی کیلئے کرنا جائز نہیں ،اسکی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر لعنت کی ہے کہ مقصود دانتوں کی خوبصورتی ہوتی ہے ،لیکن جب کسی صحابی کی دوران جنگ ناک کٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو سونے کی ناک کی اجازت مرحمت فرمائی،اس لئے قاعدہ یہ ہے کہ جو عمل یا سرجری عیب کی ازالہ کیلئے ہو تو وہ جائز ہے ،اور جو خوبصورتی اور حسن میں اضافہ کیلئے ہو تو وہ درست نہیں،مثلا ناک ٹیڑھی ہو تو اسکو سیدھا کرنے کیلئے سرجری کرنا درست ہے،کیونکہ یہ عیب کا ازالہ ہے،اگر آنکھ میں ترچھا پن ہو تو اسکی درستگی کیلئے سرجری کرنے میں کوئی حرج نہیں ،کیونکہ یہ بھی عیب کا ازالہ ہے،اگر ناک کا بڑا ہونا عیب شمار ہوتا ہے تو یہ بھی عیب ہے اور اسکے لئے سرجری کرنے میں کوئی حرج نہیں،اگر ناک بڑی اور اس کے چھوٹے کرنے سے خوبصورت نظر آتی ہو تو یہ تجمیل شمار ہوگا دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے کی طرح درست نہیں ہوگا ۔
دوسری صورت:بڑھاپے کو چھپانے کیلئے یا قدرتی طور پر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو چھپانے کیلئے پلاسٹک سرجری کرنا ،شرعا ایسی سرجری کرنا جائز نہیں ہے۔
۷- آپریشن سرجری برائے تشخیص مرض:
ایسی آپریشن جس سے مرض کی تشخیص کی جاتی ہے شرعا یہ آپریشن جائز ہے،لیکن اگر مرض کی تشخیص کیلئے کوئی آسان متبادل شکل موجود ہو جیسے سونو گرافی وغیرہ تو پھر اس صورت کو اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔
تشخیص وہ فن یا راستہ ہے جس سے مرض کی نوعیت کا جاننا آسان ہوتا ہے،تشخیص کی یہ تعریف دو باتوں پر مشتمل ہے:
(۱) تشخیص طب کا ایک فن ہے۔
(۲) تشخیص کا مقصد مرض کو پہچاننا ہے۔
اور طب میں یہ دونوں چیزیں بڑی اہم ہیں ،اس فن کو حاصل کرنے کیلئے اسکے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی صحبت اختیار کرنا ضروری ہے،اس فن کو سیکھے بغیر نہ تو تشخیص کرنا ممکن ہے اور نہ ہی تشکیص کرنا جائز ہے۔
تشخیص سے حاصل ہونے والے علم کی چار صورتیں بنتی ہیں ،چاروں کا حکم الگ الگ ہے:
(۱) ڈاکٹر کو مرض ہونے کا یقین ہو ،تو اس یقین کے مطابق اس مرض کا جو بھی علاج ہو وہ درست اور جائز ہوگا اگرچہ آپریشن ہو۔
(۲) ڈاکٹر کو تشخیص کرنے کے بعد مرض کا ظن غالب ہو تو اس ظن غالب کا اعتبار ہوگا ،شک کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا ،اور علاج کرنا ڈاکٹر کیلئے جائز ہوگا پھر چاہے آپریشن ہی کیوں نہ ہو۔
(۳) ڈاکٹر کو مرض کا یقین نہ ہو ،بلکہ مرض کا شک ہو تو اس صورت میں ڈاکٹر توقف کرے گا ، اگر مریض یا ڈاکٹر شک والی تشخیص کو بنیاد بنا کر آپریشن کرنا چاہے تو ڈاکٹر کیلئے ایسا آپریشن کرنا جائز نہیں ہوگا یہاں تک کہ شک والا پہلو ختم ہوکر کسی جہت کا غالب غمان ہوجائے۔
(۴) مرض کا وہم ہو یقین نہ ہو ،تو ایسی صورت میں ڈاکٹر اور مریض کیلئے مرض موہوم کا علاج کرنے کی اجازت نہیں ہے ،اس لئے کہ اس صورت میں غالب غمان بیماری کا نہ ہونا ہے اور اعتبار غالب غمان کا ہوتا ہے ۔
جائز آپریشن کی دیگر بعض صورتیں:
الثقب ،چھید یعنی سوراخ کرنا: آپریشن کی ایک قسم سوراخ کرنا ہے بعض مرتبہ اسکی ضرورت پیش آتی ہے جیسے بچوں میں پیدائشی طور پر جو مسخ اور بگاڑ ہوتا ہے اسکو دور کرنے کیلئے۔بچوں کے آپریشن میں پیدائشی طور پر بند مقعد کے اس حصہ کو کھولا جاتا ہے یا مرد یا بچوں کی پیشاب کی راہ کو کھولا جاتا ہے۔سوراخ کرنا اصلا بگاڑ اور خراب ہے لھذا حرام ہونا چاہئے کیونکہ اس میں جسم کے ایک جزء کو تلف کرنا لازم آتا ہے،لیکن ضرورت اور حاجت کے وقت اسکی اجازت ہوسکتی ہے۔
عورتوں کا ناک ،کان چھیدنا: عورتوں کی زیب وزینت کیلئے ان کے کانوں میں سوراخ کرنا جسمیں وہ بالیاں لٹکائیں جائز ہے،اگرچہ یہ حسن کیلئے ہے ،لیکن پھر بھی فقہاء کرامؒ نے اسکی اجازت دی ہے،حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ :أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «صَلَّى يَوْمَ العِيدِ رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلاَلٌ، فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ المَرْأَةُ تُلْقِي قُرْطَهَا» ۔
ترجمہ:حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو رکعت ادا کی اور نہ تو اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ ہی بعد میں ،پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال کے ساتھ عورتوں کی جانب آئےاور انہیں صدقہ کا حکم دیا تو عورتیں اپنے کان کی بالیاں نکالنے لگیں۔
حدی میں ‘‘قرط’’ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قرط کان کے زیور کو کہا جاتا ہے،چاہے زیور سونے کے ہوں یا چاندی کے یا کسی اور چیز کے، عام طور پر بالیاں کونوں کو چیر کر ہی پہنی جاتی ہیں،اس لئے اس حدیث سے محدثین نے کان چھیدنے کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں:‘‘واستدل به على جواز ثقب أذن المرأة لتجعل فيها القرط وغيره’’
فتاوی ھندیہ میں ہے:
وَلَا بَأْسَ بِثَقْبِ آذَانِ النِّسْوَانِ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ.وَلَا بَأْسَ بِثَقْبِ آذَانِ الْأَطْفَالِ مِنْ الْبَنَاتِ لِأَنَّهُمْ كَانُوا يَفْعَلُونَ ذَلِكَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ – مِنْ غَيْرِ إنْكَارٍ
اور کوئی حرج نہیں عورتوں کے کانوں میں سوراخ کرنے میں ،اسی طرح فتاوی ظہیریہ میں ہے اور کوئی حرج نہیں بچیوں کے کانوں میں سوراخ کرنے میں،اس لئے کہ وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کرتے تھے بغیر انکار کے۔
احسن الفتاوی میں مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ فرماتے ہیں:
کانوں میں بالیاں پہننے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رواج تھا اور اب بھی عرب میں اسکا رواج ہے،تو اس پر قیاس کرکے ناک چھیدنا بھی جائز ہے،اگر یہ تغیر خلق اللہ میں داخل ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور نکیر فرماتے ۔
زائد عضو کاٹنا: اگر عام فطرت کے خلاف انسانی بدن میں کوئی عضو زائد ہو تو آپریشن کرکے اسکو ہٹانا یا کاٹنا جائز ہے،مثلا کسی شخص کی پانچ کے بجائے چھ انگلیاں پیدا ہوگئی ہوں تو آپریشن کے ذریعے زائد انگلی کو ہٹایا جا سکتا ہے۔
فتاوی ھندیہ میں ہے:
إذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَقْطَعَ إصْبَعًا زَائِدَةً أَوْ شَيْئًا آخَرَ إنْ كَانَ الْغَالِبُ عَلَى مَنْ قَطَعَ مِثْلَ ذَلِكَ الْهَلَاكَ فَإِنَّهُ لَا يَفْعَلُ وَإِنْ كَانَ الْغَالِبُ هُوَ النَّجَاةُ فَهُوَ فِي سَعَةٍ مِنْ ذَلِكَ
ترجمہ:جب آدمی زائد انگلی یا کسی دوسری چیز کو کاٹ دینا چاہے تو اگر غالب امکان اسکے کاٹنے کی وجہ سے ہلاکت کا ہو تو ایسا نہ کرےماور اگر غالب غمان بچ جانے کا ہو تو اسکی گنجائش ہے۔
لھذا جسم کے اندر فطرت کے عموم کے خلاف اگر کوئی زائد عضو ہو تو اسکو آپریشن کر کے جسم سے کاٹا جا سکتا ہے یعنی اسکو کاٹنا جائز ہے۔
معطل اور بیکار عضو:
بعض اوقات کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے کوئی عضو معطل اور بے کار ہوجاتا ہے اور جسم کے ساتھ ویسا ہی لٹکتا رہتا ہے جس سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ عجو بدنما اور برا بھی لگتا ہے تو شرعا ایسے عضو کو بھی آپریشن کر کے کاٹ دینا جائز ہے
کٹے ہوئے عضو کو لوٹانا : اس قسم کے آپریشن میں کٹے ہوئے عضو کو نہایت دقت نظری اور باریک بینی کے ذریعے بحال کیا جاتا ہے ،صرف ایک کٹی ہوئی انگلی کو بحال کرنے کیلئے کم از کم چھ گھنٹے لگتے ہیں۔
یہ دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
(۱)عضو کے کٹے ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو۔
(۲) عضو کسی حد کے نافذ کرنے یا قصاص میں نہ کٹا ہو۔
یہاں بھی چونکہ ضرورت داعی ہے اس لئے اسکی اجازت معلوم ہوتی ہے ۔اور بعض اہل علم نے اس کے جواز کی صراحت کی ہے۔
امام احمد بن حنبل ؒ بھی اسی کے قائل ہیں: قلت قطع عُضْو من الْجَسَد ؟قَالَ لَا بَأْس أَن يُعِيدهُ مَكَانَهُ وَذَاكَ أَن فِيهِ الرّوح مثل الْأذن تقطع فيعيدها بطراتها
امام احمد بن حنبل ؒ سے جسم کے کٹے ہوئے عضو کے متعلق پوچھا گیا ؟ تو فرمایا :کوئی حرج نہیں کہ اسکو اسکی جگہ بحال کیا جائے،چونکہ اس میں روح موجود ہے،جیسے کان کٹ جاتا ہے تو اسکے تروتازہ ہوتے ہوئے اسکو دوبارہ بحال کردیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ کا صحیح قول بھی جواز ہی کا ہے جسکی صراحت امام نووی ؒ نے کی ہے:
وَلَكِنَّ الْمَذْهَبَ طَهَارَتُهُ وَهُوَ الْأَصَحُّ عِنْدَ الْخُرَاسَانِيِّينَ ۔
اسی طرح امام ابن عربی کٹے ہوئے کو جوڑنے کی ممانعت کا قول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال ابن العربيّ : وهذا غلط ، وقد جَهِل من خَفِي عليه أنّ ردّها وعودها بصورتها لا يوجب عودها بحكمها ؛ لأن النجاسة كانت فيها للانفصال ، وقد عادت متصلة ، وأحكام الشريعة ليست صفات للأعيان
ابن عربی فرماتے ہیں:یہ بات غلط ہے وہ شخص جاہل جس پر یہ بات مخفی ہو کہ ان اعضاء کا لوٹانا اور اس کا اسکی پہلی حالت میں بحال کرنا اسکا حکم اس عضو کے پہلے کے حکم کی طرح نہیں ہوگا ،چونکہ اس میں نجاست اس کے علیحدہ ہونے کی وجہ سے تھی ،پھر یہ اعضاء دوبارہ بحال ہوگئے ،شریعت کے احکام چیزوں کی صفات نہیں ہوتی ،بلکہ یہ احکام ہوتے ہیں جو اس کے تعلق سے اللہ عز وجل کے قول اور اس کے خبر سے متعلق ہوتے ہیں۔یہاں کٹے ہوئے عضو پر نجس ہونے کا حکم علیحدہ ہونے کی حالت میں ہے،جب دوبارہ بحال کردیا گیا تو طہارت کا حکم دوبارہ عود کر آئے گا۔
لھذا کٹے ہوئے عضو کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے آپریشن کرنا بھی جائز ہوگا اس لئے کہ یہ بھی علاج ہے۔
مبحث دوم: اقسام باعتبار حرمت
یعنی آپریشن (سرجری) کی وہ اقسام جن کو شریعت نے ناجائز ٹہرایا ہے انکی دو قسمیں ہیں:
(۱)آپریشن (سرجری) برائے حسن وزیبائش۔(۲) آپریشن برائے تبدیلی جنس۔
آپریشن(سرجری) برائے حسن وزیبائش:
یعنی وہ سرجری جو اعضاء کی خوبصورتی ،یا بڑھاپے کو زائل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔
جیسے چہرے پر جھریاں پڑگئیں ،ان کو دور کرنے کیلئے،یا ناک چپٹی ہے اسکو کھڑی کرنے کیلئے سرجری کرانا تاکہ وہ خوبصورت نظر آئے ،یہ ناجائز اور حرام ہے ،اس لئے کہ اس میں دھوکہ ہے،مثلا ایک انسان عمر دراز ہے اسکے چہرے پر جھریاں پڑگئیں ہیں،اس نے سرجری کے ذریعے جھریاں ختم کرالی،تو لوگوں کو اس سلسلے میں دھوکہ ہوجائیگا،وہ اس طرح کہ لوگ اسکو جوان سمجھیں گے حالانکہ حقیقت میں وہ بوڑھا ہے،اور حدیث میں ایسی چیز سے منع کیا گیا ہے جس سے لوگ دھوکہ میں پڑجائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے خضاب سے منع فرمایا ،اسکی وجہ یہ ہے کہ لوگ دھوکہ میں نہ پڑیں:
عن ابن عباس قال:قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ” يكون قوم يخضبون في آخر الزمان بالسواد كحواصل الحمام لايريحون رائحة الجنة “
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخری زمانہ میں کچھ لوگ ہونگے جو سیاہ خضاب لگائیں گے،جیسے کبوتر کا سینہ،ان لوگوں کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی۔
اسی طرح یہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے جب کہ حدیث میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ»
ترجمہ:عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں:گودنے والی ،گودوانے والی،بال اکھڑوانے والی اور خوبصورتی کیلئے دانتوں کو کشادہ کرنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہے،جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرنے والی ہیں۔
اور محض خوبصورتی کیلئے سرجری میں بسا اوقات اطباء کے سامنے ستر کھولنا بھی لازم آئے گا ،جو کہ بغیر ضرورت کے کھولنا حرام ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی شرمگاہ کی طرف نہ دیکھے اور نہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھے۔
معاصر علماء نے بھی محض خوبصورتی کیلئے سرجری کو خواہ وہ کسی بھی قسم کی ہو ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔
الاحکام الطبیہ میں ہے:
وھذا النوع من الجراحۃ محرم شرعا،لانہ لایشمل علی اسباب علاج ضروریۃ او حاجیۃ بل ان الغایۃ منہ ھو التجمل المحض واللعب بالخلقیۃ الالٰھیۃ والتدلیس والتزویر واتباع الشھوات والاھواء الاستسلام لحبائل الشیطان وغوائہ ۔
ترجمہ:اور سرجری کی یہ شکل حرام ہے،کیونکہ یہ کسی ضروری علاج کیلئے نہیں ہے،بلکہ اس کا مقصد محض خوبصورتی ،اور اللہ کی تخلیق کے ساتھ کھلواڑ ہے،پھر اس میں دھوکہ فریب،خواہشات نفس کی پیروی اور شیطانی پھندوں کی اتباع ہے۔
اور‘‘ احکام الجراحۃ الطبیۃ والآثار المترتبۃ علیہا ’’میں علامہ محمد بن محمد المختار شنقیطی لکھتے ہیں:
وهذا النوع من الجراحة لا يشتمل على دوافع ضرورية، ولا حاجية، بل غاية ما فيه تغيير خلقة الله تعالى، والعبث بها حسب أهواء الناس، وشهواتهم، فهو غير مشروع، ولا يجوز فعله،
ترجمہ:اور آپریشن(سرجری) کی یہ شکل کسی ضروری علاج کیلئے نہیں ہے ،بلکہ اسکا مقصد اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ہے،اور یہ عبث ہے لوگوں کی خواہشات اور شہوات پر مشتمل ہے ،یہ غیر مشروع ہے اور اسکا کرنا ناجائز ہے۔
لھذا صرف خوبصورتی بڑھانے کیلئے اس طرح کے آپریشن کرانا ناجائز اور حرام ہیں ،البتہ اگر کسی حادثے کی وجہ سے اگر جسم میں کوئی عیب پیدا ہوگیا ہو تو اس کو درست کرنے کیلئے اسکی گنجائش ہے۔
(۲) آپریشن برائے تبدیلی جنس:
یعنی وہ آپریشن (سرجری) جس میں مذکر کو مؤنث یا مؤنث کو مذکر میں بدل دیا جاتا ہے۔یہ آپریشن شرعی اعتبار سے بالکل حرام ہے۔جسکی وجوہات ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:
۱- یہ محض اپنی خواہش کی تکمیل کی غرض سے اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے،نیز یہ اللہ کے فیصلہ کے ساتھ مقابلہ ہے۔
۲- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے:
«لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ، وَالمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ»
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے مردوں میں سے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والوں پر ،اور عورتوں میں سے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والیوں پر۔
حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مردوں کی مشابہت اختیار کرنا عورتوں کیلئے باعث لعنت ہے،اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا مردوں کیلئے باعث لعنت ہے،جبکہ اس آپریشن (سرجری) کا مقصود بھی مرد کو عورت کی مشابہت اختیار کرنا اور عورت کو مرد کی مشابہت اپنانا ہوتا ہے۔
۳- اس میں کشف عورت کا ارتکاب کرنا پڑتا ہےیہ کوئی ایسی لازمی اور ضروری چیز نہیں ہے کہ غیر کے سامنے ستر کھولنے کی اجازت دی جائے۔
۴- مرد سے عورت بننے کی صورت میں مرد کا اختصاء(خصی کرنا) لازم آتا ہے،اور امام قرطبی فرماتے ہیں:
‘‘وَلَمْ يَخْتَلِفُوا أَنَّ خِصَاءَ بَنِي آدَمَ لَا يَحِلُّ وَلَا يَجُوزُ، لِأَنَّهُ مُثْلَةٌ وَتَغْيِيرٌ لِخَلْقِ اللَّهِ تَعَالَى’’
ترجمہ:اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ بنی آدم کا خصی کرنا حلال و جائز نہیں ہےاس لئے کہ یہ مثلہ ہے اور اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی ہے۔
اسی طرح بہت ساری احادیث سے بھی اسکی حرمت ثابت ہے
بخاری میں حدیث ہے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«رَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ التَّبَتُّلَ، وَلَوْ أَذِنَ لَهُ لاَخْتَصَيْنَا»
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون پرتبتل کو رد کیا (جب انہوں نے اجازت مانگی)فرمایا اگر انکو اجازت مل جاتی تو ہم بھی خصی ہوجاتے(خصی بن جاتے)۔
اسی طرح عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے:
‘‘كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ لَنَا شَيْءٌ، فَقُلْنَا: أَلاَ نَسْتَخْصِي؟ ” فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ’’
ترجمہ:ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جہاد(غزوہ)میں اور ہمارے پاس کچھ نہ تھا(بیوی اور باندی نہ تھی) ہم نے کہا ہم خصی نہ ہوجائیں،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو اس سے منع فرمایا۔
اسی لئے فقہاء کرام نے بھی اختصاء سے منع فرمایا ہے،فتاوی ھندیہ میں ہے: خِصَاءُ بَنِي آدَمَ حَرَامٌ بِالِاتِّفَاقِ
بنو آدم کا خصی کرنا بالاتفاق حرام ہے۔
اب جب خصی کرنا حرام ہے کہ جس میں صرف ایک عضو کی منفعت ختم ہوتی ہے تو مکمل جنس کی تبدیلی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے ،لھذا اس قسم کے آپریشن کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اس حوالے سے لجنۃ الدائمہ کا فتوی ہے کہ:
۱- اس مرد شخص کی جنس کی تبدیلی جسکی مکمل خلقت مردانہ انداز میں ہوئی ہو یا وہ عورت جسکی مکمل تخلیق عورت پن کے ساتھ ہوئی ہو تو دوسری جنس میں تبدیل کرنا جائز نہیں۔
۲- دوسری یہ کہ اس طرھ کی جنس کی تبدیلی کی کوئی بھی کوشش یہ بڑا جرم شمار ہوگی جس کو انجام دینے والا مجرم گردانا جائے گا جسکو سخت سزا ہوگی،چونکہ یہ اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے اور اللہ عزوجل نے اس تغیر اور تبدیلی کو حرام قرار دیا ہے:
وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ۔
اور جس کے اعضاء میں مرد وعورت دونوں کی علامتیں ہوں تو اس میں غالب اعضاء کا اعتبار ہوگا،اگر اس میں مذکر کی علامتیں ہوں تو اسکے مذکر پن میں اشتباہ پیدا کرنے والی چیزوں کو ختم کرنے کا علاج کرنا جائز ہے،اور جسمیں انوثت کی علامتیں غالب ہوں تو اسکی عورت پن میں اشتباہ پیدا کرنے والے امور کو کتم کرنا جائز ہے اس لئے کہ یہ ایک طرح کا مرض ہے اور علاج کے ذریعے مرض سے شفاء مطلوب ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی ۔
لھذا مذکورہ دلائل کی بنیاد پر آپریشن برائے تبدیلی جنس ناجائز اور حرام ہے۔
خلاصہ
۱- آپریشن کی لغوی معنی ہے چیرنا پھاڑنا زخم لگانا
۲- آپریشن کی اصطلاحی معنی ہے۔یہ ایک طبی طریقہ ہے جس کے ذریعے کسی جاندار کے جسم کو چیر کر اسکے اندر مخصوص بیماری کا پتہ لگانا اور اسکا علاج کرنا۔
۳-آپریشن کی باقاعدہ ابتداء ابو القاسم زھراوی نے کی ،اگرچہ اس سے پہلے بھی یہ کام مختلف طرق سے کیا جاتا تھا ،مثلا حجامہ لگانا ،داغنا وغیرہ۔
۴- قرآن میں ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی کو بچایا اور آپریشن کا مقصد بھی انسانی جان بچانا ہوتا ہے،اور جب مرض بڑھ جائے تو اسکو ختم کرنے کیلئے مختلف علاج کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں جن کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے،مثلا حجامہ کے ذریعے جسم سے فاسد خون نکالنا،داغنا ،اور کسی عضو کو کاٹنا وغیرہ۔
۵-آپریشن کرنے کیلئے آٹھ شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔
۶- حکم کے اعتبار سے آپریشن کی دو بنیادی قسمیں ہیں،(۱) جائز آپریشن (۲) ناجائز آپریشن
(۱) جائز آپریشن
آپریشن برائے ولادت:آپریشن کے ذریعے بچے کو اسکی ماں کے پیٹ سے نکالا جاتا ہے پھر چاہے کامل الخلقت ہو یا ناقص الخلقت،اسکی دو صورتیں ہیں(۱۔حالت ضروری۔وھی الحالۃ التی یخشی فیہا علی حیاۃ الام،او جنیہا ،او ھما معا،یہ آپریشن‘‘ ومن احیاحا فکانما احیا الناس جمیعا ’’کے تحت جائز ہے۔(۲۔حالت حاجیہ۔اسکا حکم ڈاکٹر کی رائے پر موقوف ہوگا۔
(۲)پوسٹ مارٹم:اسکی تین قسمیں ہیں ،عدالتی ،تشخیصی،تعلیمی،ان میں زندہ لوگوں کا مفاد اور مصلحت ہوتی ہے اس لئے ‘‘لو کان احدھما اعظم ضررا من الآخر ،فان الاشد یزال بالاخف’’ اور الضرر یزال ،الضروروات تبیح المحظورات’’کے قواعد کے تحت یہ جائز ہیں۔
(۲) آپریشن برائے علاج وضرورت شدیدہ:مثلا بائی پاس آپریشن ،اپنڈیکس کا آپریشن ،یہ بھی جائز ہیں اگر یہ آپریشن نہ کی جائیں تو انسان مرسکتا ہے۔
(۳)آپریشن برائے علاج وضرورت خفیفہ:مثلا پھیپھڑوں میں پانی پڑجاتا ہے اسکا نکالنا ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان مر سکتا ہے ،یا کسی ایک عضو میں کوئی بیماری لگ جائے اور وہ بڑھتی رہے تو اس کو کاٹا جائے ورنہ وہ بیماری تمام اعضاء کو لگ جائے گی اور انسان مر جائے گا ،یہ آپریشن بھی جائز ہے۔
(۴)آپریشن صغری برائے علاج :اس میں انسان کے مرنے کا خطرہ نہیں ہوتا البتہ اگر اس بیماری کو چھوڑ دیا جائے تو بڑی تکلیف کا سبب بن سکتی ہے،جیسے آنکھوں کی بینائی ، اگر اسکی آپریشن نہ کی جائے تو آگے چل کہ انسان اندھا ہوسکتا ہے ،لھذا یہ بھی جائز ہے۔
(۵)آپریشن برائے ختنہ:واجب(شافعیہ،حنابلہ) سنت(احناف ومالکیہ)
(۶) آپریشن برائے تجمیل ضروری:کسی حادثے میں کوئی عضو کٹ جائے یا کسی بیماری کی وجہ سے تلف ہوجائے تو اسکو درست کرنا جائز ہے،حضرت عرفجہ بن اسعد کی جنگ میں ناک کٹ گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی۔
(۷) عورتوں کے کان چھیدنا :یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں بھی عام رواج تھا اور آپ نے اس نے منع نہیں کیا ،لھذا یہ بھی جائز ہے
(۸)عام فطرت کے خلاف کوئی زائد عضو ہو جسم میں تو اسکو کاٹنا بھی جائز ہے،جیسے پانچ کی جگہ چھ انگلیاں ہوں تو چھٹی کو کاٹنا جائز ہے۔
ناجائز آپریشن؛
(۱)آپریشن برائے حسن وزیبائش؛یعنی اعضاء کی خوبصورتی یا بڑھاپے کو زائل کرنے کیلئے جو آپریشن (سرجری) کی جاتی ہے۔یہ ناجائز اور حرام ہے،اس لئے کہ اس میں دھوکہ ہوتا ہے اور محض خوبصورتی بڑھانے کیلئے اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہوتی ہے۔
(۲)آپریشن برائے تبدیلی جنس:
مذکر سے مؤنث یا مؤنث سے مذکر بننا۔یہ ناجائز اور حرام ہے ،اس لئے کہ اس میں اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے اور اللہ کے فیصلوں کے ساتھ مقابلہ ہے،اس میں مرد کا خصی ہونا لازم آتا ہے جب کہ اس سے احادیث میں روکا گیا ہے۔
سفارشات
۱- آپریشن کے دوران جو نشہ آور دوائی دی جاتی ہیں کہ مریض کو تکلیف محسوس نہ ہو تو ان کا کیا حکم ہوگا اس پہ تحقیق کی جائے۔
۲- اسی طرح کچھ آپریشن ایسے ہوتے ہیں جو دو دن تین دن تک چلتے ہیں تو اس دوران جو فرائض و واجبات رہ جاتے ہیں ان کا کیا حکم ہوگا۔
۳- اس موضوع پر اردو میں کوئی خاص مستند کتب موجود نہیں جب کہ عرب علماء نے اس پر کافی لکھا ہے تو ان کتب کا ترجمہ کرکے اور معاصر علماء اور قابل ڈاکٹرز کی آراء کی روشنی میں آپریشن کی مختلف اقسام اور ان کے احکام پر کوئی مستقل کتاب شایع کی جائے۔
۴- آج کل مختلف مقاصد کے لئے پلاسٹک سرجری کا رواج عام ہوتا جارہا ہے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسکی طرف عوام کو بلایا جا رہا ہے،تو اس حوالے سے سیمینارز منعقد کرنے چاہییں اور ان میں علماء اور ماہر ڈاکٹرز کو بلایا جائے اور وہ اس کے فوائد و نقصانات پر روشنی ڈالیں اور علماء اسکے کیلئے شرعی حدود کا تعین کریں پھر عوام کو اسکے بارے میں آگاہی دی جائے۔