مقدمہ
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام علي رسوله الكريم محمد صلي الله عليه وسلم,وعلي آله وأصحابه أجمعين وعلي من تبعهم بإحسان إلي يوم الدين, وأشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله, أما بعد:
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،زندگی کے اندر ہر پہلو میں ان کی رہنمائی موجود ہے،چاہے مرد ہو ،عورت ہو ،انفرادی زندگی ہو ،اجتماعی زندگی ہوپیدائش سے لے کر موت تک اصول اور ہدایات مل جاتی ہے ۔لیکن دنیا میں جہاں مسلمان رہتے ہیں،تو وہاں ایک کثیر تعداد میں غیر مسلم بھی موجود ہیں ۔ مسلمانوں کی اپنی طور طریقے ،زندگی گزارنے کی معمولات ہے ،اور غیر مسلموں کی اپنی معمولات ہے ۔
لیکن جب معاملہ دین کا ہو تو ایک سماج اور معاشرے کے اندر دونوں ایک دوسرے کو اپنے پروگرامات میں بلاتے رہتے ہے، جبکہ ان پروگرامات میں بعض مذہبی تہواریں بھی ہوتی ہے ،تو ایسے پروگرامات اور مذہبی تہواروں میں مسلمانوں کو بھی شرکت کرنا پڑتا ہے،تو شریعت مطہرہ کی روشنی اس کی کیا حیثیت ہے؟ حالانکہ موجودہ دور میں “کثیر مذہبی معاشرہ” کی اصطلاح بہت زیاد ہ عام ہے یعنی ایسا معاشرہ اور سماج جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں سب اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو،اور دیگر مذاہب کا احترام بھی کرتے ہوں ،ان کے درمیان ہر قسم خوش گوار تعلقات استوار ہو۔
اسلام پر جہاں بہت سارے اعتراضات کئے جاتے ہیں، وہاں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ وہ کثیر مذہبی معاشرے کا قائل نہیں ہے وہ اپنے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مل کر رہنے سے روکتا ہے ،اور الگ رہنے کی تلقین کرتا ہے وہ خود کو حق اور دیگر مذاہب کو باطل قرار دیتا ہے اور ان کے نزدیک حق و باطل میں یک جائی ممکن نہیں ہے۔ اگر چہ مسلمانوں پر مذکورہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے خود مدینہ منورہ میں یہود اور غیر مسلموں کے ساتھ معاہدے اور تعلقات استوار کئے تھے ۔
عصر حاضر میں عامۃ الناس کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیرمسلموں کے تہواروں میں شرکت کے حوالے سے اسلا م کیا راہنمائی کرتا ہے ؟اسی طرح بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام دیگر مذاہب کی خوشیوں میں اپنے متبعین کو شرکت سے کیوں منع کرتا ہے ؟اس کے اسباب کیا ہیں ؟ کیونکہ کافروں سے اظہار دوستی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ ان کے تہواروں میں شرکت کیا جائے۔
اس مقالے میں ان سوالات کے تفصیل کے ساتھ جواب دینے کی پوری کوشش کی جائے گی تاکہ مسلم معاشرے کے عام وخاص فرد کے ذہن میں غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت سے متلعق اسلام کی درست تعلیمات واضح ہوسکے ۔ لیکن اس مقالے کے اندر خصوصی طور پر وہ مشہور تہواروں پر بحث پیش کی جائے گی ،جو ملک پاکستان میں منائی جاتی ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کریں ۔اللہ رب العز ت اس ادنی سی کوشش کو قبول فرمائے ،اور ہمیں اپنی دشمن کو دشمن ہی سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
آمین یا رب العالمین !
سابقہ کام کاجائزہ:
اس موضوع کے حوالے سے جتنا پڑھا ہے اس پر مستقل کتب تو مجھے نہیں ملی ہے البتہ کچھ آرٹیکل اور بعض کتابوں میں ضمناً اس عنوان پر کچھ لکھا گیا ہے ، جس کا اجمالاً تذکرہ یہ ہے!
• “مذاھب عالم کاتقابلی جائزہ” از پروفیسر غلام رسول چیمہ ،اس کتاب میں مصنف نے دنیا جہاں کے مشہور اور مختلف مذاہب کی تاریخ ،تفصیل سے بیان کیا ہے ،اورمتعلقہ مذہب کی تاریخ،ان کی کتب،ان کی تعلیمات و عقائد اور ہر ایک کی اسلام کے ساتھ تقابل ذکر کیا ہے،جب کہ انتہائی اختصار کے ساتھ ،ضمناً ، ان مذاہب کی رسوم اور تہواروں پر بحث کیا ہے ،یہ کتاب’ ‘897” صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کی اشاعت ، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور میں ہوئی ہے،موجودہ اشاعت سن 2012ء میں ہوئی ہے۔ناشر چوہدری غلام رسول اینڈ سنز پبلشرز۔
• “غیر مسلم تہوار بے حیائی کا بازار” از تفضیل احمد ضیغم ، مصنف نے اس کتاب میں تہواروں کی مختصراً تاریخ پر گفتگو کی ہے ، اور ان کی پھیلی ہوئی بے حیائی کے حوالے سے کچھ ذکر کیا ہے ،اور تہواروں کی مشہور اقسام پر بحث کیا ہے ،مثلاً اپریل فول،ویلنٹائن ڈے یہ کتابچہ ، دار الاندلس 4-لیک روڈ،چوبر جی ـلاہور ،پاکستان سے شائع ہوا ہے،اشاعت اول (جو کہ موجودہ ایڈیشن ہے) مارچ 2006ء میں ہوا ہے ۔
• آرٹیکل بعنوان”کفار کے تہواروں میں شرکت”جو کہ دارالعلوم کراچی سے فتوی کی صورت میں شمسی تاریخ کے مطابق 23 مئی 2017 کو شائع کیا گیا تھا۔فتوی دینے والا”مفتی محمد اشرف”(مفتی دار الافتاءدارالعلوم کراچی) تھے۔
زیر نظر مقالے کے اندر سابقہ کام سےاستفادے کے ساتھ غیر مسلموں کے جو مشہور تہوار پاکستان میں رائج اور منائے جاتے ہیں ،اس میں مسلمانوں کی شرکت کے حوالے سے مدلل بحث پیش کی جائے گی، جو کہ سابقہ کام میں مفقود ہے۔
بنیادی سوالات
• غیر مسلم تہواروں میں شرکت کے حوالے سے قرآن و سنت میں کیا احکامات ہیں؟
• غیر مسلم تہواروں کے حوالے سے قدیم و معاصر فقہاء کی آراء کیا ہے؟
• غیر مسلموں کے تہواروں میں مسلمانوں کا شریک ہونے پر مسلم معاشرے پر اثرات؟
منہج مقالہ
اس مقالے کے اندر بیانیہ منہج کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
خاکۂ تحقیق
اس مقالے میں دو ابواب، اس کے تحت فصول،نتائج،سفارشات، فہرست ا ورمصادر و مراجع ہونگےجس کا خاکہ درجہ ذیل ہے :
باب اول: تہوار کا مفہوم اور اس کی اقسام
جس کے تحت دو فصلیں ہیں۔
فصل اول :تہوار کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
فصل دوم :غیر مسلموں کے تہوار وں کی اقسام
باب دوم: غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت شرعی نقطہ نظر سے
جس کے تحت دو فصلیں ہیں ۔
فصل اول :غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت قرآن و سنت کی روشنی میں
فصل دوم : غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت سے متعلق قدیم و معا صر فقہاء کی آراء
باب سوم: قدیم اور معاصر فقہاء کی آراء کا تجزیہ،اس میں شرکت کی حدود
جس کے تحت دو فصلیں ہیں ۔
فصل اول: قدیم اور معاصر فقہاء کا تجزیہ
فصل دوم: کافروں کے سماجی اور ثقافتی تہواروں میں شرکت کی حدود
خاتمہ
نتائج تحقیق
سفارشات
فہرست آیات،فہرست احادیث
مصادر و مراجع
باب اول تہوار کا مفہوم اور اس کی اقسام
فصل اول
تہوار کا مفہوم
لفظ “تہوار” کا مفہوم:
یہ لفظ سنسکرت زبان سے ماخوذ ہے ،لفظ ” تیوہار ” سے لیا گیا ہے ،جو کہ ہندی زبان سے ہے۔ تہوار اسم نکرہ ہے جس کی جمع “تہواروں ” آتی ہے ۔ عربی زبان میں ‘عید’ ، فارسی میں ‘ جشن’ ، ہندی میں ‘ تیوہار’ اور اردو میں ‘تہوار’ ایک ہی چیز کے مختلف نام ہے۔ وہ تقریب جس میں اجتماعی طور پر مقررہ تاریخ میں غم یا خوشی منائی جائے ،چنانچہ تہوار وہ دن ہے جو ہر ہفتے،ہر مہینےیا ہر سال منائی جائے،یعنی تہوار کسی بھی قوم اور مذہب کے الگ الگ ہوتی ہیں ،جس کو ہر قوم اہتمام کے ساتھ مناتی ہے،اس کے لئے بہت سی تیاریاں ہوتی ہےیہاں تک کہ مقررہ دن پر لوگ ہر قسم کی مصروفیات کو چھوڑ کرشوق اور دلجمعی کے ساتھ تہوار میں شرکت کرتے اور کرواتے ہیں ۔
“کیونکہ تہوار کے دن وہ مخصوص اعمال کئے جاتے ہیں جن کا عام دنوں اہتمام نہیں کیا جاتا ،مثلاً :
• اسی دن خوشی یا سوگ منانا۔
• کسی ایک یا مختلف جگہوں پر لوگوں کا اکٹھا ہونا ۔
• خاص کھانوں کا احترام کرنا۔
• خاص لباس کا احترام کرنا ۔
• تہوار کی مناسبت سے تقریبات منعقد کرنا۔
• اس روز کی چھٹی کرنا”
امام ابن تیمیۃؒ کے نزدیک غیر مسلموں کے ہاں جو بھی تہوار ہو ، اس کی اہانت لازم ہے ، وہ فرماتے ہے
” فإن كل ما عظم بالباطل من مكان أو زمان أو حجر أو شجر أو بنية يجب قصد إهانته، كما تهان الأوثان المعبودة، وإن كانت لولا عبادتها لكانت كسائر الأحجار”
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اس عبارت سے غیر مسلموں کے تہوار اور رسومات کے حوالے سے دو بڑی اقسام ہمارے سامنے آتی ہیں، ایک زمانی ، دوسرا مکانی ۔
(1) زمانی: وہ جو کسی خاص دن سے منائے جاتے ہو۔(2) مکانی: وہ جو کسی خاص مکان کے ساتھ مخصوص ہو۔
اس لئے تہوار ،جشن یا عید کسی بھی ملک و قوم اور مذہب کی ثقافتی ،مذہبی وحدت اور قومی تشخص کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اس لئے دنیا کے اندر قومیں انتہائی جوش و خروش سے مناتی ہیں ،کیونکہ یہ تہوار انہیں دوسری قوموں سے منفرداور جداگانہ حیثیت دیتا ہیں۔
شعائر اور غیر مسلموں کے تہوار میں فرق
جو چیز کسی قوم کی خاص علامت اور پہچان ہو اسے اسلامی اصطلاح میں شعیرہ کہتے ہیں جس کی جمع شعائر ہے،جس کی جمع شعائر ہے ،اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ،دین اسلام میں جس طرح دیگر احکامات کا تعین کیا گیا ہے اسی طرح مسلمانوں کے لئے سال میں دو دن عید کے لئے متعین کئے گئے ہیں ۔ا س لئے اللہ تعالیٰ نے شعائر کو صرف اپنی طرف سے منسوب کیا ہے،قرآن کریم میں ہے:
“اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاۗىِٕرِاللّٰهِ”(ترجمہ)”بیشک صفا اور مروہ اللہ کی علامت میں سے ہیں” “
اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن هذا يوم عيد، جعله الله للمسلمين…. ” بے شک یہ عید (یوم الجمعہ) کا دن ہے جسے اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے “
مذکورہ حدیث کے اندر یوم الجمعہ مسلمانوں کے لئے اجتماعی طور پر منانے کا دن ہے ، اور حدیث کے اندر اس کی نسبت اللہ تعالی کو کیا گیا ہے،معلوم ہوا کہ یہ انھی کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے۔مشہور صحابی رسول سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت ہے:
” قال قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما فقال ما هذان اليومان قالوا كنا نلعب فيهما في الجاهلية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما يوم الأضحى ويوم الفطر “
(ترجمہ) “سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ ےتشریف لائے ، تو اہل مدینہ کے ہاں دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے (وہ اسی دن اپنے تہوار مناتے تھے )آپﷺ :یہ دو دن کونسے پروگرام آ پ کرتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں یہ دو دن منایا کرتے تھے ،تو اسی پر آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے تمھارے لئے ان دو کے بدلے میں عید الفطراور عید الضحیٰ، ان سے بہتر عطا کئے ہیں “
اس لئے عید، تہوار اسلامی شریعت میں صرف وہی معتبر ہیں جو خود شارع مقرر کرے، اس کے علاوہ انسان اپنی طرف سے کسی دن کو تہوار کے لئے متعین نہیں کرسکتا۔مذکورہ آیا ت اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ: اسلام نے مسلمانوں کے لئے جو تہوار مقرر کر دئیے ہیں ،صرف وہی منانا جائز ہے۔
اسباب درجہ ذیل ہیں!
• مسلمانوں کے تہوار دنیا کی تما م باطل قوموں کے تہواروں سے برتر اور بہتر ہیں۔
• مسلمانوں کے تہوار مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے۔
• مسلمانوں کو اپنی سے مرضی سے تہوار کی تعداد کم یا زیا دہ کرنے کا اختیا نہیں ہیں ۔
• مسلمان مشروع تہوار کا مرتبہ کم یا بڑھا نہیں سکتا۔
• کافروں اور مشرکوں کے تہواروں میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔
اس لئےبحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ مجموعی طور ہم ان کالحاظ رکھیں اور غیر مسلموں کے تہواروں سے اجتنا ب کریں ۔
تہوار کیوں منایا جاتا ہے؟
تہوار کسی بھی قوم کی شناخت ہوتی ہے جو کہ ہر قوم اپنی شناخت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے اس لئے تہوار عوام و خواص کے دلوں میں اپنے مذہب سے وابستگی کے جذبات کو گرمانے اور انہیں مزید پختہ کرنے کا سبب ہوتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تہوار وں کے موقع پر ہر قوم اپنے اپنےمذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا دل کھول کر مظاہرہ کرتی ہیں۔اور اس کے لئے کئی دنوں سے تیاریا ں کرتی ہیں ،تا کہ عوام ان سے وابستہ رہے اور ہر سال اس کی آمد کا منتظر رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہے جو اپنے مذہب کے احکامات پر اتنا عمل پیرا نہیں ہوتے ، لیکن مذہبی تہوار کے دن اس کی سرگرمیوں میں پیش ہوتے ہیں۔ تہوار کسی مذہب کے پرچار کا مؤثر ذریعہ ہے ،اس لئے تہواروں میں ہر قوم اپنی روایات پر عمل کرتے ہوئے انہیں شان و شوکت سے منانے کے لئے پورا زور لگاتی ہے تا کہ دوسرے لوگ ان سے متاثر ہو کر ان کی مذہب میں شامل ہوجائے۔
اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ دور قدیم میں ذرائع ابلاغ اتنے نہیں تھے،بلکہ کسی بھی مذہب کی تشہیر کا سب سے بڑا ذریعہ تہوار ہی ہوتا تھا۔ جو جگہ جس مذہب کا مرکز ہوتی ، یا جہاں اس کے معبد ہوتے،وہاں لوگ تمام مذہبی علامات کے ساتھ سفر کر کے آتے تھے،۔اور آج بھی یہ اندز اسی طرح موجود ہے،چنانچہ مسلمانوں کا حج کے لئے احرام باندھ کر سفر کران ،عیسائیوں کا کرسمس پر چرنیاں بنانا،ہندؤں کا دیوالی پر رنگ پھینکنا وغیرہ وغیرہ ، اور یہ سب ایک خاص انداز اور مخصوص مقامات پر منائے جاتے ہیں ۔
باب ثانی
غیر مسلموں کے تہوار وں کی اقسام
یقیناً دنیا عالم کے اندر مختلف مذاہب اور قومیں رہتی ہیں ،ہر مذہب میں اپنی شعائر اور مذہبی تہوار یا د کئے جاتے ہیں ، جس کو مخصوص ایام میں منایا جاتا ہے ۔
عقائد و نظریات کے علاوہ جس چیز سے کوئی مذہب دوسرے مذہب سے جداگانہ حیثیت اور امتیازی شان برقرار رکھ سکتی ہے وہ اس کی تہذیب و ثقافت اور طرز تمدن ہے،کیونکہ عقائد اور تہذیب کا آپس میں گہرا رشتہ ہے لہذا اگر ان میں کسی ایک کو بھی ترک کردیا جائے،تو اس کی وہ امتیازی شان ختم ہوجاتی ہے،وجہ یہ ہے کہ عقائد و نظریات کی بنیاد پر تہذیب و ثقافت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے،اگر کوئی مذہب اپنی تہذیب کو چھوڑ کر دوسروں کے طرز حیات اور رہن سہن کے طریقوں کو اپنالیں ،تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے صرف دعوے ہیں باقی ان کے پاس عمل کے حوالے کچھ نہیں ہے۔اور وہ بندہ اسی میں سے ہوگا جس کے طور طریقوں کو اس نے اختیار کرلیا ہے۔ہر مذہب کے اند ر یہ معیوب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی شخص دوسری مذہب کے روایات کو اپنائیں۔
اہل ایمان کے معاشرے میں غیر مسلموں کے تہواروں سے آگاہی ضروری ہے تا کہ وہ ان کی حقیقت کو سمجھ کر ان میں شرکت نہ کریں ،اورر اسی طرح اپنے شعائر کی حقانیت سے آگاہی بھی ضروری ہیں ۔
ذیل میں غیر مسلمو ں کے بعض مذہبی تہوار وں کا تفصیل کےساتھ ذکر کیا جارہا ہے!
(1)
بَسَنت تہوار
“بسنت” یا “بسنت پنچمی” موسم بہار میں منائے جانے والا بنیادی طور پر ہندوں کا تہوار ہے ،’بسنت ‘ کا سنسکرت میں لفظی مطلب بہار ہے اور اسے ‘بسنت پنچمی’ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ماگھ کی (ہندوؤں کی حساب) پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے ،جو کہ عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے ۔دراصل فروری کے مہینے میں گستاخ رسول کی یاد میں پتنگ بازی کو ” بسنت” کہتے ہے، ایسا ہی ہلڑ بازی ،بے پناہ فائرنگ ،شراب و کبا ب کی محفلیں ،رقص و سرور کا اہتمام کرنا بسنت کہلاتا ہے۔
بسنت کی حقیقت واضح کرتے ہوئے محمد اختر صدیق لکھتے ہے:
” اگر آپ اس لفظ کو پنچابی زبان کے دائرہ کار میں جانچنے کی کوشش کریں تو یہ مذکورہ اوصاف رذیلہ کے حاملین پر صحیح صحیح فٹ آتی ہے “بسنتا، یا بسنتی” اس آدمی یا عورت کو کہتے ہیں جس کی زندگی بری عادات کا مجموعہ ہو ، اور اس سے خیر اور بھلائی کی کوئی توقع نہ کی جاسکتی ہو “
“بسنت” تہوار کے دن ہندوؤں کے ہاں ایسے رسومات اور روایات ہوتے ہے ،جو بالکل شرکیہ اور اسلام سے متصادم ہیں ،اور وہ یہ کرتے بھی اس لئے تا کہ مسلم معاشرے کے اندر بے حیائی اور فحاشی کا رواج عام ہو کر دین اسلام سے نفرت کرنے لگیں،مسلم قوم بد دینی اور عریانی کو اپنائیں ،اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب کسی قوم کا نوجوان طبقہ راہ راست سے کٹ جائےتو اس قوم کا مستقبل دھنستی چلی جائے گی ۔
بقول شاعر :
“بسنت ” تہوار کے حوالے سے تفضیل احمد ضیغم نے لکھا ہے :
” ہندوں لوگ مکانوں کی چھتوں پر بسنتی اوڑھنیوں والی عورتیں اور لڑکیاں آجاتیں اور شہر کی چھتوں پر محسوس ہوتا ہے،جیسے ‘بسنت’ پھولوں کی کیا ریاں آئی ہوں ،اس روز سکھ لڑکے بھی بسنتی پگڑیاں باندھتے تھے اور نیلے آسمان کے سمندر میں رنگ برنگھ پتنگیں کشتیوں کی طرح تیرتی ہو ئی نظر آتی تھیں۔۔۔۔۔۔کئی ہندوؤں سکھ لڑکیاں سارا دن کوٹھوں پر ‘بسنت’ مناتی تھیں اس روز انہیں کوٹھوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا لیکن مسلمان گھروں کی مائیں اپنی بیٹیوں کو چھت پر سے اتار کر نیچے لے جاتی تھیں ،انہیں بسنت کے روز چھتوں پر آنے کی اجازت نہیں تھی”
بسنت کا تاریخی پس منظر
مذکورہ بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ‘بسنت’ خالصتاً ہندوانہ رسم ہے اور ان کا مذہبی تہوار ہے اس کا منانا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے ۔کیونکہ اس میں تشبہ بالہنود ، مال وجان کا ضیاع ،اخلاقیات کا بگاڑ ہے ، اس کی ابتدا پیغمبرﷺ کی گستاخی سے ہوتی ہے ۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ مسلم حکمران خود بسنت کے منانے کی ترغیب دے رہے ہیں شرعی طور پر اس سے اجتناب کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ہندوانہ تہوار ہے اور ہندو مذہب والے اس کو انتہائی جو ش و خروش سے مناتی ہیں ۔ ذیل میں اس کی تاریخی پہلو پر کی جائے گی!
محمد اختر صدیق اپنی کتاب میں ذکر کرتے ہے:
“بسنت خالص ہندو تہوار ہے اور اس کا موسم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں بسنت کی کہانی ہر سکول میں پڑھائی جاتی ہے لیکن لاعلمی یا بھارتی لابی کی کوششوں سے بسنت کو اب پاکستان میں مسلمانوں نے موسمی تہوار بنا لیا ہے۔ بسنت کی حقیقت کیا ہے اور اس کا آغاز کیسے ہوا؟ اس بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قریباً دو سو برس قبل ایک ہندو طالب علم” حقیقت رائے “نے نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ مغل دور تھا اور قاضی نے ہندو طالب علم،کو سزائے موت سنا دی۔ اس ہندو طالب علم کو کہا گیا کہ وہ اسلام قبول کر لے تو اسے آزاد کر دیا جائے گا مگر اس نے اپنا دھرم چھوڑنے سے انکار کر دیا، چونکہ اس نے اقرارِ جرم کر لیا تھا، لہٰذا اسے پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی لاہور میں علاقہ گھوڑے شاہ میں سکھ نیشنل کالج کی گراؤنڈ میں د ی گئی۔ قیام پاکستان سے پہلے ہندوؤں نے اس جگہ یادگار کے طور پر ایک مندر بھی تعمیر کیا لیکن یہ مندر آباد نہ ہوسکا، اور قیامِ پاکستان کے چند برس بعد سکھ نیشنل کالج کے آثار بھی مٹ گئے۔ اب یہ جگہ انجینئرنگ یونیورسٹی کا حصہ بن چکی ہے۔ ہندوؤں نے اس واقعہ کو تاریخ بنانے کے لیے، اپنے اس ہندو طالب علم کی ”قربانی“ کو بسنت کا نام دیا اور جشن کے طور پر پتنگ اُڑانے شروع کردیے۔ آہستہ آہستہ یہ پتنگ بازی لاہور کے علاوہ انڈیا کے دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی۔ اب ہندو تو اس بسنت کی بنیاد کو بھی بھول چکے مگر پاکستان میں مسلمان بسنت منا کر اپنی نبیﷺ کی گستاخی بار بار دہرا کر ، اسلام کی رسوائی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں”
اگر چہ کچھ لوگ اس حقیقت کا انکار کرتے ہے کہ بسنت تہوار کا آغاز تو ہزاروں سا ل قبل ہوا ہے اور اسے مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اگر اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے،تو پھر بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ “بسنت” خالص ہندوؤں کی مذہبی تہوار ہے کیونکہ اس کے منانے کے ایام میں جو میلے اور پروگرامات منعقد کئے جاتے ہیں وہ صرف ہندوؤں کے ہاں مذہبی انداز سے منائے جاتے ہے ۔ اور اس بات کا ثبوت ہندو مصنفین کی کتب سے بھی کیا جاتا ہے، کہ “بسنت” تہوار ان کی مذہبی تہوار ہے۔
ڈاکٹر بی. ایس نجار اپنی کتاب میں رقم طراز ہے:
“حقیقت رائے نامی ہندو نوجوان باکھ مل پوری سیالکوٹ کے کھتری کا لڑکا تھا۔ ایک دفعہ اس کی لڑائی کچھ مسلمان نوجوانوں سے ہوگئی، اس ہندو نوجوان نے سرورِ کائنات ﷺکی شان میں کچھ نازیبا گفتگو کی،گالیاں نکالیں، ساتھ ساتھ سیدہ فاطمۃالزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شان میں مغلظات بکے، جس سے برصغیر کے سارے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوگئے۔اس وقت کاگورنر زکریا خان مسلمان تھا، اس نے گستاخ ہندو نوجوان کو اس کے جرم کی پاداش میں گرفتار کروا دیا ۔عدالتی کاروائی کے لیے لاہور لایا گیا، اس کے گرفتار کرنے سے پنجاب کی ساری غیر مسلم آبادی سوگ منانے لگی۔ اس سے ان کو بڑا شدید دھچکا لگا لہٰذا پھر کچھ ہندو آفیسرز مل کر گورنر پنجاب کے پاس گئے اور اس نوجوان کے لیے درخواست کی کہ اس کو معاف کردیا جائے، مگر گورنر پنجاب زکریا خان نے صحیح مسلمان ہونے کا حق ادا کر دیا اور معاف نہ کیا۔ بہرحال اس نوجوان کو کوڑے مارے گئے اور پھر تلوار سے گردن اُڑادی گئی۔ پھر ہندوؤں نے اس کی یاد میں بسنت کا تہوار منانا شروع کر دیا۔ اس نوجوان کی سمدھی لاہور میں ہے۔ لاہور میں واقع بھاٹی گیٹ سے گاڑی جاتی ہے۔ پنجاب کا بسنت میلہ اسی حقیقت رائے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔”
خلاصہ یہ ہے کہ “بسنت تہوار” ایک طرف اس میں ہندوؤں رسومات ، تو دوسری طرف اس میں بہت سارے ایسے نقصانات بھی ہے جو ایک مسلمان کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔ اسی طرح پتنگ بازی کی وجہ سے بے گناہ لوگوں کی قتل کئے جاتے ہے ، موسیقی کیا اہتمام کیا جاتا ہےاور کفریہ کلمات علانیہ طور پر ذکر کئے جاتے ہیں،اس کے علاوہ بہت ساری قباحتیں ہیں ،جو کہ اس تہوار کی زینت بن جاتی ہے۔
(2)
ویلنٹائن ڈے
حقیقت یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے یعنی روئے زمین پر جتنی مخلوقات آباد ہے ان میں سب سے افضل انسان ہے ،کیونکہ اس کو عقل جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسان نے شرم و حیا کو چھوڑ کر حیوانیت کی طرف داخل ہوتا جارہا ہے ،اور اغیار کی ہمیشہ سے یہی کوشش ہے کہ مسلمان سے غیرت اور شرم کو چھین کر اسے حیوانوں کے برابر کھڑا کیا جائے،تا کہ جو مقدس رشتے ماں ،بہن، بیٹی کی صورت میں ہے اس کی تصور کوختم کیا جائے۔
بالکل ایسا ہی ” ویلنٹائن ڈے” بھی انہی سازشوں کی ایک کھڑی ہے جو کہ مسلم ممالک میں بالخصوص نوجوان طبقہ اس کو جوش وخروش سے مناتے ہیں۔اور اس کے منانے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو مغرب زدہ ہو اور اہل مغرب کے شکنجے میں پھنس چکے ہوں،ورنہ ایک شریف طبقہ اور خاندانی لوگ اسے حقارت اور بے حیائی کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں ۔
” و یلنٹائن ڈے پر کیا ہوتا ہے؟”
ویلنٹائن ڈے 14 فروری کو منایا جاتا ہے اور اس دن شرم وحیا سے عاری اور طبقہ محبت کے نام نہاد دعویدار ایک دوسرے کو پھولوں کا تحفہ پیش کرکے اظہار محبت کرتے ہیں ،لڑکے اور لڑکیاں تحفوں کا تبادلہ کرتے ہیں ،جس میں عشقیہ کارڈ اور اس کے ساتھ گلاپ کا پھول ملا کر اپنی محبوب یا محبوبہ کو بھیجتے ہیں ،اور یا کہیں بازاروں ،گلی کوچوں میں میں یا خود حیا کو دامن چھوڑ کر حوالہ کردیتے ہیں ۔ اور پھر اسی نامحرم سے تعلقات بنا کر ملاقات اور ناجائز گپ شپ کا ماحول بناتے ہیں ،جو کہ یہ معاملات اکثر معاشرے کے اندر غیر شادی شدہ افراد کے مابین کیا جاتا ہے۔
ا س لئے آج کل عام طور “ویلنٹائن ڈے” پر وہی لوگ ایک دوسرے سے جذبات کا اظہار کرتے ہیں جو رشتہ ازدوج میں تو منسلک نہیں ہوتے مگر تعلقات کے خواہا ں ہوتے ہیں ۔
“اور یہ بات مبنی بر حقیقت ہے کہ ہر کام کا معیار اس کے کرنے والوں پر کھا جاتا ہے ، شرفاء سے شریفانہ حرکات سرزد ہوتی ہیں جبکہ گندے کردار کے مالک لوگ گندی چیزوں کو اپناتے ہیں اور دامن پر لگی گندگی کو چھپانے کی بجائے اس کے اظہار میں فخر محسوس کرتے ہیں”
“ویلنٹائن ڈے” مختلف انداز سے منایا جاتا ہے ،اداکاروں کے ہاں ایک اندا ز سے تو عوام کے ہاں دوسرے انداز سے جبکہ نوجوان طبقے کے نزدیک ایک منفرد انداز سے منایا جاتا ہے۔لیکن فی الحقیقت اس بات میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کے اندر بچوں اور شرفا پر اس کے گہرے غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تاریخی پس منظر
ہر سال 14فروری کو دنیا کے مختلف حصوں میں بالخصوص مغربی ممالک میں “ویلنٹائن ڈے” منایا جاتا ہے اور محبت کرنے والے ایک دوسرے کو مٹھائیاں ،پھولوں ،اور تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں،اور یہ سب کچھ ایک نصرانی پادری” ویلنٹائن ” کی یاد میں کیا جاسکتا ہے،اس لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ تہوار کیوں منایا جاتا ہے اور منانے کی وجوہات کیا ہیں؟
شفیق الرحمن اپنی کتاب ‘ محبت کا تہوارویلن ٹائن ڈے ‘ میں ذکر کیا ہے:
“جب رومی بت پرستوں نے نصرانیت قبول کرلی اور عیسائیت کی ظہور کے بعد اس میں داخل ہوگئےتو تیسری صدی میلادی میں رومانی بادشاہ :کلاودیس روم” نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگادی،کیونکہ پھر وہ اپنی بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہیں جاتے تھے۔لیکن” ویلنٹائن ” نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے خاموشی سے فوجیوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا، لیکن جب ” کلاودیس” کو اس کا علم ہوا تو اس نے “ویلن ٹائن ” کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا،اور پھانسی کا فیصلہ کیا ،قید کے دوران انہی ” ویلنٹائن” کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور سب کچھ خفیہ ہوا،کیو نکہ پادریوں اور راہبوں کے لئے عیسائیوں کے نزدیک شادی کرنا اور محبت کرنا حرام ہیں ،نصاریٰ نے ان کو نصرانیت پر قائم رہنے کی تاکید کیا ،لیکن شہنشاہ روم نے اسے عیسائیت ترک کر رومی ( بت پرستی) دین قبول کرنے کا کہا،کہ اگر وہ عیسائیت چھوڑ دیں تو اسے معاف کیا جائےگا۔لیکن ‘ ویلنٹائن’ نے اس سے انکار کردیا،اور اپنی مذہب کو ترجیح دی،اور اس پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ،تو 14 فروری 270ء کے دن اسے پھانسی دے دی گئی،اور اسی دن سے ان کو “قدیس” یعنی پاک بازبشب کا خطاب دیا گیا۔ اس قربانی کے نتیجے میں اہل کلیسا نے 14 فروری کو ‘ ویلن ٹائن ‘ کی یاد میں ایک مذہبی تہوار منا نا شروع کیا ہے۔”
مذکورہ تحقیق سے معلوم ہواکہ یہ واقعہ “کلاودیس” بادشاہ کے دور حکومت میں واقع ہوئی تھی اور اس کی دو وجوہات بھی ذکر کی گئی ایک تو انھوں نے بادشا ہ کی مخالفت ،اور چپکے سے شادیاں کی اور دوسری بات یہ کہ بادشاہ نے ان ایک مطالبہ کیا ،لیکن انہوں نے نہیں مانا،جبکہ تیسری بات اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ 270ء یعنی تیسری صدی کے اندر پیش ہوا۔
لیکن تفضیل احمد ضیغم نے اس قصے کو ایک اور طریقے سے ذکر کیا ہے :
“ایک مستند روایت یہ ہے کہ یہ دن رومن سینٹ ویلن ٹائن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے جیسے محبت کا دیوتا بھی کہا جاتاہے ،اس روایت کے مطابق ویلن ٹائن نامی شخص کو مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے محصور کیا گیا ،لیکن بعد میں سولی پر چڑھا نے سے پہلے انہوں نے جیلر کی بیٹی کے نام خط لکھا تھا ،جس کا عنوان “تمہارا ویلن ٹائن” تھا ۔یہ واقعہ 14 فروری 469ء کو رونما ہوا،یوں محبت کرنے والوں کے لئے ویلن ٹائن کو پیش رو تسلیم کیا جانے لگااور اس کی یا د میں 14 فروری یوم تجدید محبت مقرر کیا گیا “
اس کے بعد عیسائیوں نے اس کو شہید کا لقب دے دیا اور ان کی عظیم قربانی کے نتیجے میں اظہار عقیدت کے طور پر ہر سال ایک عظیم مذہبی تہوار منانا شروع کیا ، ویلنٹائن ڈے کی مناسبت ست ان کے ہاں جو خاص پرو گرامات ہوتے ہیں ،ان میں :
• دیگر تہواروں کی طرح خوشی و سرور کا اظہار۔
• مختلف قسم گلاب کے پھولوں کا تبادلہ اور یہ کام بت پرستوں کی حب الٰہی اور نصاریٰ کے باب عشق کی تعبیر میں کرتے ہیں، اس لئے مذکورہ تہوار کانام بھی محبت کاتہوار ہے۔
• اس کی خوشی میں کارڈ تقسیم کئے جاتے ہیں جس پر عشقیہ کلمات ہوتی ہے۔
• عیسائی بہت سے علاقوں میں دن کے وقت محفلیں سجاتے ہیں اور رات کو بھی عورتوں اور مردوں کا رقص ہوتا
لہذا اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ بت پرست رومی یا نصاریٰ کا مذہبی تہوار ہے ،اس لئے اسلامی معاشر ے میں اس بے حیائی اور فحاشی کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ،اسلامی معاشرہ اعلیٰ اقدار پر قائم ہوتا ہے ،ایسے حیا سوز تہواروں اور پروگراموں سے اس کی جڑیں کھوکھلی ہوسکتی ہیں ۔جو قوم اپنی بہترین معاشرتی اقدار کھودیتی ہے اسے دنیا میں ذلیل اور آخرت میں عذاب الٰہی کا شکار ہوگا۔
علامہ اقبال ِؒ نے کیا خوب فرمایا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا،ناپائیدار ہوگا
“ویلنٹائن ڈے” ہر اعتبار سے “یوم اوباشی” ہے اس کا اصل مقصد عورت اور مرد کے درمیان ناجائز تعلقات کو فروغ دینا ہے ، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل ان خرافات کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا جارہا، اخبارات اور سو شل میڈیا پر اس بے حیائی کے لئے ماحول برابر کیا جاتا ہے۔جو کہ ایک مسلم معاشرے کے لئے ناسور ثابت ہوگی، لہذا نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے مغرب چونکہ اسلام سے بہت خائف ہے اس لئے وہ ہمارے معاشرے میں ایسے تہواروں کو فروغ دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ پاک معاشرہ گندگی کی طرف چلا جائے،جس کے نتیجے میں مسلم معاشرہ اپنی اطوار و عادات کو بھول کر مغرب کی طرز زندگی اپنائے۔
(3)
اپریل فول
یقیناً سچائی معاشرے کے اندر اتفاق و اتحاد کی علامت ہے اور جھوٹ اختلاف و افتراق کی علامت ہے۔”اپریل فول” یہ وہ تہوار ہے جس میں جھوٹ اور خرافات کی ترویج ہوتی ہے ،کیونکہ ماہ اپریل کی ابتدائی تاریخوں میں لوگ مذاقاً جھوٹ کے ذریعے دوسرے ایک دوسرے کو بے و قوف بناتے ہیں اور اس احمقانہ فعل کو “اپریل فول” کا نام دیا جاتا ہے ۔ یہ تہوار یکم اپریل کو منایا جاتا ہے ، اس دن لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مذاق میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ،لیکن جب مسائل پیدا ہوجائے تو پھر کہتے ہے کہ یہ تو ” اپریل فول” ہے ۔یعنی یکم اپریل کو جھوٹ اور مذاق میں سب کچھ جائز ہے کیونکہ اس پر یہ تہوار منایا جاتا ہے ،
لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان مغرب کی تقلید میں اس قدر اندھے ،اور دین اسلام سے اتنا دور ہوچکے ہیں کہ اسلام کے صریحی احکامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نفس کے خواہشات کی اتباع کررھے ہیں ،حتی کہ ہمارے ہاں بعض لوگ اپریل فول کے پیش نظر اپنی بیوی کو مذاق میں طلاق دیتے ہیں ،لیکن جب بیوی پریشان ہوتی ہے تو پھر کہتے ہے کہ یہ تو ” اپریل فول ” ہے ۔
ان لوگوں کوا تنا بھی علم نہیں ہے کہ طلاق تو شریعت نبویﷺ میں ایسا حکم ہے کہ یہ ارادے کرنے سے ،اور مذاق سے بھی واقع ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث مبارک میں آیا ہے :
“عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ثلاث جدهن جد و هزلهن جد النكاح والطلاق والرجعة”
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ہیں جن کو سنجیدگی سے ادا کرنا سنجیدگی ہے اور مذاق ودل لگی سے اداکرنا بھی سنجیدگی ہے (1)نکاح (2)طلاق (3)رجعت”
اسی طرح ” اپریل فول ” بہت سی لڑائیوں کا سبب بنتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کا امن خراب ہوتا ہے اور آپس کی محبت نفرت سے بدل جاتا ہے ۔ لہذا یہ تہوار شرعی اعتبار سے منا نا بالکل ناجائز ہے اور باطل ہے ۔کیونکہ اس میں غلط بیانی ہے ،اور مسلمان کبھی بھی غلط بیانی نہیں کرسکتا، اس میں دھوکہ دہی ہے،جو کہ ایک مسلمان کو ذیب نہیں دیتی،ایسا ہی اس میں امن و سکون کی تباہی ہے اور معاشرے کا امن و سکون کو تبا ہ کرنا مسلمانوں کاکام نہیں ہے۔ اپریل فول” میں اخلاقی پامالی ہوجاتا ہے ، اور اس میں تمام اخلاقی اقدار بالائے طاق رکھ کر “بے پرکی” چھوڑی جاتی ہے ۔جو کہ اسلام کے اندر کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے ۔
اپریل فول میں سچائی کی بیخ کندی اور جھوٹ کو پذیر آئی ملتی ہے،حالانکہ حدیث نبوی ﷺ میں سچائی نجات کا ضامن جب کہ جھوٹ ہلا کت کا ضامن ہے ۔حدیث میں آیا ہے :
“عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عليكم بالصدق فإن الصدق يهدى إلى البر وإن البر يهدى إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا وإياكم والكذب فإن الكذب يهدى إلى الفجور وإن الفجور يهدى إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا”.
” اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ ہمیشہ اور پابندی کے ساتھ سچ بولنا، نیکوکاری کی طرف لیجاتا ہے یعنی سچ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ نیکی کرنے کی توفیق ہوتی ہے اور نیکوکاری نیکوکار کو جنت کے اعلی درجات تک پہنچاتی ہے اور یاد رکھو! جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور ہمیشہ سچ بولنے کی سعی کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدیق لکھاجاتا ہے، نیز تم اپنے آپ کو جھوٹ بولنے سے باز رکھو کیونکہ جھوٹ بولنا فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے یعنی جھوٹ بولنے کی خاصیت یہ ہے کہ برائیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کی طرف رغبت ہوتی ہے اور فسق وفجور وفاجر کو دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے اور یاد رکھو! جو شخص بہت جھوٹ بولتا ہے اور زیادہ جھوٹ بولنے کی سعی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب یعنی بڑاجھوٹا لکھا جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ سچ بولنا نیکی اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنافسق وفجور ہے اور فسق وفجور ، دوزخ کی آگ میں دھکیلتا ہے”
معلوم ہوا کہ اسلام نے کہیں پر بھی اس طرح روش اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیا ،البتہ اسلام کے اندر تفریح کی اجازت حدود کے اندر موجود ہے لیکن جھوٹ کی اجازت بالکل نہیں ہے اور مزاح کا دائرہ بھی اسلا م میں سچائی کے گرد گھومتی ہے ،لہذا مذاق و خوش طبعی جس میں جھوٹ شامل ہو اسلام اچھا نہیں سمجھتا ۔اس لئے حدیث مبارکہ میں آئی ہے :
“عن بهز بن حكيم قال حدثنى أبى عن أبيه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ويل للذى يحدث فيكذب ليضحك به القوم ويل له ويل له”
“حضرت بہز بن حکیم کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے اپنے والد کے واسطہ سے بیان کیا انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو گفتگو میں قوم کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولے اس کی بربادی ہے اس کی بربادی ہے”
تاریخی پس منظر
یہ تہوار دنیا میں یکم اپریل کو منایا جاتا ہے ،اس لئے اس ” اپریل فول” کی تاریخی پس منظر پر گفتگو ضروری ہے ،لیکن کثرت سے روایات موجود ہےلہذا جو مستند ہو صرف اسی کو نقل کیا جائے گا ۔ آزاد دائرہ المعارف نے ذکر کیا ہے :
“اپریل April انگریزی سال کا چوتھا مہینہ ہے جو تیس دن پر مشتمل ہے۔ یہ لفظ قدیم رومی کیلنڈر کے ایک لاطینی لفظ Aprilis ‘اپریلیس’ یا Aperire سے مشتق ہے۔ وہ لوگ یہ لفظ موسم بہار کے آغاز، پھولوں کے کھلنے اور نئی کونپلیں پھوٹنے کے موسم کے لئے استعمال کرتے تھے”
“اپریل فول “کی تاریخی پس منظر کے حوالے سے ڈاکٹر عاصم عبد اللہ قریوطی نے لکھا ہے :
“پہلے پہل فرانس میں سال کی ابتدا جنوری کی بجائے اپریل سے ہوتی تھی۔ 1645ء میں فرانس کے حکمران شارل نہم نے اپریل کی بجائے جنوری سے سال شروع کرنے کا حکم دیا۔۔۔۔اسی طرح موسم بہار کی ابتدا ماہ اپریل سے ہوتی ہے تو رومیوں نے اس مہینے کے پہلے دن کو محبت، خوبصورتی کے خدا، ہنسی اور خوش قسمتی کی ملکہ ،(جنہیں وہ ‘فینوز’ کہتے تھے) کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کے لئے مخصوص کر دیا۔روم میں بیوائیں اور دوشیزائیں ‘فینوز’ کے عبادت خانہ میں جمع ہو کر اس کے سامنے اپنے جسمانی اور نفسانی عیوب افشا کر کے اس سے درخواست کیا کرتی تھیں کہ وہ ان کے عیوب کو ان کے خاوندوں کی نظر سے مخفی رکھے یعنی ان پر ان عیوب کو ظاہر نہ ہونے دے۔ “سیک سنا ” قوم اس مہینے میں اپنے خداؤں سے دور ہٹ کر خوشی کی تقریبات منعقد کیا کرتی تھیں۔ ایسٹر ان کا قدیم خدا ہے جسے آج کل عیسائیوں کے ہاں ‘عید الفصح’ کہا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ قدیم زمانہ میں یورپی اقوام کے ہاں ماہ اپریل کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے”
اس تہوار کی تاریخی پس منظر کے حوالے سے محمد اختر صدیق نے لکھا ہے :
“بعض کا خیال ہے کہ یہ رسم بد فرانس میں 1564ء میں نیا کیلنڈر جاری ہونے کے بعد یوں شروع ہوئی کہ جو لوگ نئے کیلنڈر کو تسلیم نہ کرتے اور ان کی مخالفت کرتے تھے، انہیں طعن و تشنیع اور لوگوں کے استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا اور ان کے ساتھ انتہائی بدسلوکی روا رکھی جاتی۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ رسم بت پرستی کے باقی ماندہ آثار میں سے ہے۔ اس کی تاریخ قدیم بت پرستی کی تقریبات سے ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس رسم کا تعلق موسم بہار کے آغاز میں ایک معین تاریخ سے ہے”
معلوم ہوا کہ ” اپریل فول” تہوار کے حوالے سے مختلف اقوال ہیں، لیکن جس کو بھی دیکھا جائے ، یا اس کے پس منظر کا مطالعہ کیا جائےتو معلوم ہوتا ہے کہ یہ غیر مسلموں کا خود ساختہ تہوار ہے ، جو انہی سے شروع ہوا ہے اور مسلم معاشرے میں اب مسلمان ان کو منا رہے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم عبد اللہ قریوطی نے مزید انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے حوالے سے لکھا ہے :
“یہ تمام بیوقوفوں کا دن ہے جس میں ہر عمر کے لوگ اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کو بیوقوف بناتے ہیں، بیوقوف بنانے پر مبنی پیغامات ارسال کرتے ہیں اور اس دن اس فعل کی معاشرے میں گویا اجازت تصور کی جاتی ہے۔ اپریل فول کی ابتدا کا تو کوئی علم نہیں، صدیوں سے جاری ہے اور مختلف اقوام میں منایا جاتا ہے۔ بھارت میں 31 مارچ کو ختم ہونے والے مقدس تہوار کو بھی اس کی وجہ بتایا جاتا ہے اس کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ فطرت مارچ کے اواخر میں موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کر کے دنیا کو بےوقوف بناتی ہے۔ امریکہ میں یہ رسم برطانیہ سے درآمد ہوئی جبکہ سکاٹ لینڈ میں اپریل فول سے متاثر ہونے والوں کو “”Cuckoo کہا جاتا ہے”
اب اس دن نے ایک مکمل حیثیت اختیار کیا ہے ، عیسائیوں نے اس تہوار کا آغاز کیا ہے لیکن اب مسلمانوں نے اپنالیا ، باوجود اس کے کہ وہ لوگ کبھی بھی ہمارے اسلامی شعائر کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر استہزا ء کرتے رہتے ہیں ،اور ہم سے شدید نفرت کرنے والے ہے ۔لیکن ہم ان کے مذہبی و ثقافتی تہواروں کو منا کر ان سے محبت اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے نفرت کا اظہار کرنےوالے ہیں ،جبکہ اسلام ان خرافات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا ۔
اپریل فول میں جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے اور جھوٹ ایک کبیرہ گناہ اور انتہائی برا عیب ہے ، اس لئے یہ بڑی بیماری ہے اسے منافقت کی علامت اور نشانی قرار دیا گیا ہے ، اور ایمان میں بہت بڑا عیب قرار دیا گیا ہے ۔
“عن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر”
“عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔وہ یہ ہیں جب اسے امین بنایا جائے تو امانت میں خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے، اور جب کسی سے عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے ۔اور جبک کسی سے لڑے تو گالیوں پر اترآئے “
مسلمان اگر احادیث مبارکہ کا مطالعہ کریں تو اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی، کہ جو بندہ قصداً جھوٹ بولے اس نے تو گناہ کبیرہ کیا ، لیکن جو بندہ مزاح یا خوش طبعی میں جھوٹ بولے اس کو نبی کریمﷺ نے برا فعل قرار دیا ہے ، اس لئے اپریل فول
“کے اندر ہر قسم کے جھوٹ جائز نہیں ہے اور اس سے بچنا چاہیے ،کیونکہ یہ خسرا ن ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے ۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے :
” عن عبد الله بن عامر أنه قال دعتني أمي يوما ورسول الله صلى الله عليه و سلم قاعد في بيتنا فقالت ها تعال أعطيك فقال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم ” وما أردت أن تعطيه ؟ ” قالت أعطيه تمرا فقال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم ” أما إنك لو لم تعطيه شيئا كتبت عليك كذبة”
اس حدیث مذکورہ صحابیہ نے صرف آواز دی اور ان بچے کو کچھ دینا بھی تھا ،لیکن نبی کریمﷺ نے اسے بھی کہا اگر اپ کچھ بھی نہ دیتے تو ا پر ایک جھو ٹ لکھا جاتا ،معلوم ہوا کہ جھوٹ ہر حال میں جائز نہیں ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کیا جانا چاہیے۔
(4)
کرسمس ڈے
کرسمس دو الفاظ سے مرکب ہے یعنی”کرائسٹ” اس کا معنی مسیح ، جبکہ دوسرا “ماس” اس کا معنی عبادت ہے۔ یعنی اس کا مکمل معنی “مسیح کے یوم ولادت کی عبادت” ہے، عام طور پر اسے ولادت مسیح کا دن کہا جاتا ہے، 25 دسمبر کو عیسائی حضرات اسے مذہبی تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ 25 دسمبر کو عیسائی سیدنا عیسی ؑ کی پیدائش کی خوشی میں عید منائی جاتی ہیں ۔اس لیے عیسائیوں کے ہاں یہ دن بہت اہم ہے، کیونکہ 25 دسمبر کو وہ اپنا بڑا تہوار” کرسمس” مناتے ہے، اس دن ان کے ہاں نئے کپڑے،نئے سامان ، زیب وزینت اور تحفوں کا اہتمام ہوتا ہے۔اور کرسمس کو عیسائی حضرات دراصل یوم ولادت مسیح کے طور پر مناتے ہیں، یہ دن ان کے ہاں ‘عید ولادت المسیح ‘ہے ، جس طرح مسلمانوں کے ہاں عید الفطر ، عیدالاضحی بڑی خوشی کے دن ہے بالکل عیسائیوں کے ہاں” کرسمس ”بے حد خوشی وشاد مانی کا دن مانا جاتاہے۔
اسی طرح وہ بڑے بڑے اجتماعات مقرر کرتے ہے جس کے لئے پورے دسمبر تیاریاں کرتی رہتی ہے، اور بڑے شوق اور جذ بے سے وہ کرسمس مناتےہیں ۔ لیکن کرسمس کا آغاز کسی طرح ہوا، اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟
اس حوالے سے عبد الوارث ساجد لکھتے ہے :
سیدنا عیسی ؑ کے آسمان پر اٹھا ئے جانے کے کم از کم تین صدیوں تک عیسائیوں میں یہ تہوار نھیں منایا جاتا ،اس لئے عیسائیوں کے بیشتر عقائد کا پس منظر مشرکانہ ہے۔ جس کی آغاز مختلف ادوار میں عیسائیوں نے کیا ہے،در اصل عیسائی تعلیمات کو برباد کرنے میں دو اہم شخصیات کا کردار بہت اہم ہے ۔ اول” سینٹ پال ” جس نے اصل عقائد مسخ کرکے بالکل نئے عقائد، عیسائیت میں داخل کردئیے، یعنی کفار کی عقیدہ تثلیث کا نظریہ ، خدا کے بیٹے کا نظریہ ،ختنے کے سنت کا خاتمہ، ایسٹر کی ایجاد اور مصلوب کیے جانے کا عقیدہ یہ سب سینٹ پال کی ایجاد کردہ عقاید ہے ۔جو کہ آج عیسائی اس کو انتہائی جوش خروش سے مناتی ہیں ۔ دوسری شخصیت رومی بادشاہ “کانسٹنٹاین” ہے، انھوں نے دوسرے مذہب چھوڑ کر عیسائیت قبول کی تھی ، جس کی وجہ سے عیسائیت کو بے حد فروغ حاصل ہوا تھا ۔” اس کے دور تک کئی ایسے انجلیں موجود تھی اور ان کا باقاعدہ مطالعہ کیا جاتا تھا جن میں بڑی حد تک صحیح مواد موجود تھے۔ان میں ایک انجیل برنا باس تھی ،لیکن اس بادشاہ نے چار ملاوٹ شدہ انجلیں نافذ کی اور باقی تمام انجیلوں کو جلایا ۔ اور دنیا سے صحیح عقائد والی انجلیں ختم ہوئی ۔”
لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے دور تک عیسائیت بڑی حد تک اپنی اصل شکل میں موجود تھی، جس کا ثبوت ورقہ بن نوفل ہیں جنہوں نے نبوت سے پہلے نبی اکرمﷺ کے آنے کی پیش گوئی کردی تھی، اسی طرح سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے واقعہ سے بھی عیسائیت کی درست تعلیمات کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ عیسائیوں نے اصل تعلیمات چھوڑنا شروع کیا اور خود ساختہ احکامات ایجاد کیا، اور اس کے نتیجے میں ان کا دین اور انجیل تحریف شدہ ہوگیا ۔
کرسمس ڈے ، کرسمس کارڈ
پہلے تو عیسائی صرف 25 دسمبر کو “کرسمس ڈے”منا رہے تھے۔ یہ تہوار سب سے پہلے تقریبا 25 دسمبر ،336ءکو منایا گیا تھا۔اھل کلیسا اس دن اچھے کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں، گھروں اور گرجا گھروں کو مزین کرتے ہیں، اور پھر گرجامیں جا کر مذ ہبی گیت گایا کرتے تھے، اور مختلف ممالک کے اندر کرسمس اپنے اپنے انداز مناتے ہے۔
اس حوالے سے تفضیل احمد ضیغم نے لکھا ہے:
“اٹھاریوں صدی عیسوی میں “کرسمس ڈے ” پردو اور چیزوں کا اضافہ ہو ایک تو “کرسمس ٹری” یعنی 25 دسمبر کو درختوں کو روشنیوں سے سجانے کی رسم ،اور دوسرا کرسمس کارڈ تھے جو کہ 25 قریب دکانوں پر فروخت کئے جاتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو بھیجے جاتے تھے۔انیسویں صدی تک کرسمس کارڈ ایک باقاعدہ رسم اور تجارتی کمپنیوں کے لئے کاروبار کی حثییت اختیار کرگئے”
لیکن جب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو سادہ لوح مسلمان ہندوں کے تہواروں میں شرکت کیا کرتے تھے، لیکن جب انگریز اپنی مکار یوں سے برصغیر پر قابض ہوئے تو ظاہر ہے کہ غلبہ جس قوم کا ہو تو ملک میں اسی کا راج ورواج ہوگا ،تو کرسمس وغیرہ جیسے تہوار تو انگریز لئے آئے تھے تو برصغیر پاک وہند میں چونکہ مسلمان مغلوب تھے تو بعض مسلمان مجبوری کے تحت جبکہ بعض مغرب ذدہ تھے ، تو وہ بھی انگریز وں کے مختلف تہواروں میں شرکت کیا کرتے جس کی بدولت اس میں بھی وہی رسوم اور بدعات رائج ہوئی جوکہ مسلم قوم کی مغلوبیت کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوئی ، اور یہی سے مسلمانوں نے بھی عید کارڈ شروع کیا اور اب ہمارے ہاں بھی ایک ، دوسرے کو عید کارڈ بھیجے جاتے ہیں جو کہ عیسائیوں کا ورثہ ہے ۔اور ہم نہایت ہی پابندی کے ساتھ اس کا اہتمام کرتے ہیں، ہمارے معاشرے میں بعض ایسے نام نہاد مسلمان بھی ہے کہ معمولی سی پیسوں کے خاطر اور اپنی کاروبار کے شہرت کی لئے 25 دسمبر کو کرسمس کا رڈبنا کہ اسے تقسیم کرتے ہے، تاکہ میرا کاروبار ، کمپنی ، دکان مشہور ہوجائے۔ علامہ اقبال ؒ نے فرمایا ہے:
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
تفصیل احمد ضیغم اس حوالے سےلکھتے ہے:
“150 سال پہلے کرسمس کارڈ کا اغاز انگلینڈ سے ہوا، رچر ڈامور نے تحریر کہا” تم کبھی بھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے جب تک یہ کوشش نہ کرو کہ تمھارے لئےہمیشہ ایک دوست ہے، تمہیں ایک کارڈ بھیجنا ہوگا ۔۔۔۔1875 ء میں لیوس پرنگ نے جو جرمنی سے امریکہ میں آباد ہوئے تھے، 250 ڈالر میں پتھر سے چھپانی کی ایک دکان کھولی اور پہلی لائن ” یوایس “کارڈز کی شائع کی۔ اس نے ابتدا میں پھول ،پرندے اور کرسمس کے متعلق نقوش کو بنایا، 188ء کے دور میں “پرنگ”ہرسال پانچ ملین سے بھی ذیادہ کرسمس کارڈ بناناتھا”۔
تاریخی پس منظر
دنیا بھر کے عیسائیوں کے ہاں 25 دسمبر کے روز کرسمس کا تہوار منایا جاتا ہے پاکستان میں بھی اس دن کو اردو زبان میں “بڑادن” کہا جاتا ہے۔لیکن اگر حقیقیت میں بندہ سوچے تو سال کے 365 دنوں میں یہ وہ دن ہے ،کہ چھوٹے دنوں میں شمار کیا جاتا ہے باوجود اس کے عیسائی اس کو “بڑادن ” سمجھتے ہیں، اس لئے پوری دنیا میں عیسائی اس دن کرسمس کی چھٹی کرتے ہیں۔ بڑے بڑے پروگرامات او ر تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ سیدنا عیسی ؑ کا یوم پیدائش ہے اور ان کی پیدائش عظیم خوشی ہے اس لئے ہم ان کی خوشی میں کرسمس مناتے ہیں، لیکن تاریخ کے آئینے میں اگر دیکھا جائے ،تو یہ عیسائیوں کی خود ساختہ ایک تہوار ہے نہ اس دن پر عیسی ؑ پیدا ہوئے ہے اور نہ انھوں اس کی منانے کا حکم کیا ہے، لٰھذا اس بات کی جاننا ضروری ہے کہ کرسمس کی تاریخی حثییت کیا ہے اور عیسائی یہ تہوار کیوں مناتے ہےَ؟
اس حوالے سے عبدالوارث ساجد نے لکھا ہے”
“کرسمس متعدد روایات کے مطابق حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے صدیوں پہلے سے منائی جاتی رہی ہے ۔کرسمس کے 12 دن آگ روشن کی جاتی تھی ، جلانے کی لکڑی تحفے میں دینے کا رواج عام تھا ۔ کرسمس کا ترانہ بھی گھر گھر گایا جاتا تھا ، ابتدائی طور پر “میسوپوٹامینز”کرسمس کو مناتے تھے اور وہ کئی خداؤں پر ایمان رکھتے تھے ، اور یہ تہوار نئے سال کی آمدکی خوشی میں 12 دنوں تک منایا جاتا تھا جو کہ بعد میں ” کرسمس “کے نام سے مشہور کیا گیا ہے۔ ،پہلے تو چرچ نے اس قسم کی تقریبات کو منانے سے منع کیا لیکن چرچ کی ہدایت لا حاصل رہی اور بالآخر یہ فیصلہ کیاگیا کہ یہ تہوار خدا کے بیٹے کے تہوار کی حیثیت سے منا ئے جائیں گے، 25 دسمبر کی تاریخ نہ صرف، رومیوں کے لئے مقدس تھی بلکہ فارسیوں کے لئے بھی جن کا مذہب اس وقت عیسائیت کا اہم حریف تھا،روایات سے یہ بات اخذکی جاتی ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی پیدائش کا جشن 98 ء سے منایا جاتاہے ، 127 ء میں روم کے “بشب” نے حکم دیا تھا کہ حضرت عیسیؑ کی سالگرہ کو بطور مذہبی رسم منایا جائے گا، 350 ءمیں “بشپ”نے 25 دسمبر کو کرسمس کے لئے منتخب کیا ، دسمبر کے آغاز کے ساتھ ہی مذہبی رسومات شروع کردی جاتیں، چرچ میں خصوصی عبادتیں ہوتیں تھی اور بعض گرجا گھروں میں کرسمس کے ترانے گائے جاتے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چوتھی صدی عیسوی تک دنیا میں کرسمس کا نام ونشان نھیں تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ سے یقینی طور پر یہ معلوم نھیں ہوتا کہ یہ تہوار پہلی مرتبہ کس سن میں منایا گیا،لیکن 336 ءمیں روم کے اندر اس تہوار کا سراغ ملتا ہے اور یہ اس سلسلے کی قدیم ترین تاریخی شہادت ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ رومی حکمران کا نسٹنٹاین نے کرسمس کے تہوار کی بیناد رکھی “۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ خالص عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہے ،جس کے لئے دسمبر کے آغاز ہی سے تیاری شروع کردی جاتی ہے ۔اور پھر چرچ مزین کرکے ان میں مختلف عبادات کااہتمام کرتے اور مرد وعورت اکٹھے ہو کر اپنے خداسے دعائیں بھی مانگتے ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک پاکستان جو کہ دو قومی نظریہ کے پیش نظر معرض وجود میں آیا تھا اور اس خطہ کے لئے بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا ہے۔ تاکہ ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام ہوجائے ۔ لیکن اب ملک پاکستان کے اندر اسی اسلام کو مظلوم بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔اور عیسائیوں کے” کرسمس ڈے” پر مسلمان خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، ان کو مبارک باد دیتے ہے ، انھیں کارڈ بھیجتے ہیں، اور یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور ایک غیر اسلامی تہوار کے منانے میں شریک ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس روایت سے کیا جاسکتا ہے کہ یہ خالص عیسائیوں کا مذ ہبی تہوار ہے اور وہ ان کو عبادت کے نام سے مناتے ہے۔
“اصل میں روم کے عیسائی علماء نے تجویز دیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی شناخت کے لیے بھی ایک تہوار ہوتا چاہیے۔ چونکہ روم کے مشرکین 6 جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے ہیں ، تو عیسائیوں نے بھی اس کو مقدس دن کے لئے منتخب کیا ، اس کلئے ابتداء میں دنیا کے تمام عیسائی کرسمس 6 جنوری کو منایا کرتے تھے، اور یروشلم میں 6 جنوری کا تہوار عیسیؑ کے پیدائش کی یاد میں منایا جاتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکثر عیسائی مکاتب فکر نے یہ تہوار 25 دسمبر کو منانے پر اتفاق کیا “
انہی روایات سے معلوم ہواکہ “کرسمس “جو عیسائی اپنی نبی سیدنا عیسی ؑ کی پیدائش کے خوشی میں مناتے ہے ۔بالکل جھوٹ ہے، اور انھی کے کتابوں سے ثابت ہوا کہ 25 دسمبر یوم ولادت عیسی ؑ نھیں ہے۔بلکہ یہ تہوار ان کی فقط خود ساختہ ہے اور انھوں مذہبی رنگ چڑھا کر اس میں چرچ کے اندر عبادات کا اہتمام کرتے ہیں ۔
کیا واقعی 25 دسمبر یوم ولادت عیسی علیہ السلام ہے؟
25دسمبرکا دن دنیا بھر کی عیسائی اقوام میں حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش ‘عید میلاد المسیح’ یعنی کرسمس کے نام سے انتہائی شان وشوکت سے منایا جاتا ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند مکاتبِ فکر تاحال موجود ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ25 دسمبر حضرت مسیحؑ کی و لادت کا دن نہیں بلکہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی بدعت ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ تاریخِ کلیسا میں کرسمس کی تاریخ کبھی ایک سی نہیں رہی ،کیونکہ عیسیٰ ؑ کا یومِ پیدائش کسی بھی ذریعے سے قطعیت سے معلوم نہیں۔
انجیل اور ولادتِ مسیح کا تعین:
بائبل کے مشہور مفسر “آدم کلارک ” اپنی مشہور تفسیر میں یوں وضاحت کرتے ہیں کہ:
“مسیح کی پیدائش ستمبر یا اکتوبر کے ایام میں ہونے کی بالواسطہ تائید اس حقیقت سے بھی ملتی ہے کہ نومبر سے فروری تک چرواہے رات کے وقت کھیتوں میں اپنے ریوڑ کی نگہبانی نہیں کرتے بلکہ ان مہینوں میں رات کے وقت وہ اُنہیں حفاظتی باڑوں میں لے جاتے ہیں،اس لئے 25 دسمبر حضرت مسیح کی پیدائش کے لیے انتہائی نا مناسب تاریخ ہے”
اسی طرح پروفیسر ایچ ڈبلیو آرم سٹر انگ اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں:
“یسوع سردی کے موسم میں پیدا نہیں ہوئے تھے، کیونکہ جب یسوع پیدا ہوئے تو اس علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہتے اور اپنے گلہ بانی کی حفاظت کرتے تھے ۔دسمبر کے مہینے میں یہودیہ کے علاقے میں ایسا نہیں ہو سکتا۔چرواہے ہمیشہ اپنے ریوڑ کو پہاڑی علاقوں اور کھیتوں میں لے جاتے اور15 اکتوبر سے پہلے پہلے اُنہیں ان کے حفاظتی باڑوں میں بند کر دیتے تھے تاکہ اُنہیں سردی اور برسات کے موسم سے بچایا جا سکے جو کہ25؍اکتوبر کے بعد شروع ہو جاتا تھا ۔یاد رکھیے کہ بائبل خود اس کا ثبوت دیتی ہے کہ سردی برسات کا موسم تھا جو چرواہوں کو کھلے کھیتوں میں رات بسر کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا “
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے ہاں جتنی بھی مشہور تہواریں ۔ان میں اکثر مذہبی تہواریں ہیں ،اور اس کے پیچھے ایک تاریخ موجود ہے ،جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ یہ تہوار ثواب کے نیت سے مناتے ہے ۔لہذا ایک مسلمان کے لئے اس میں شرکت کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔
باب دوم
غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت شرعی نقطہ نظر سے
فصل اول
غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت قرآن و سنت اور اقوال صحابہ کی روشنی میں
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ،زندگی کے اندر کوئی ایک مسئلہ بھی نہیں ہے جس کا حل قرآن وسنت میں نہ ہو ِاس لئے تو امام شافعی ؒ سے منسوب ہے ، وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو بھی مسئلہ ہو میں اس کاحل قرآن سے نکالو گا،اس کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایک کامل اور مکمل کتاب ہے ،لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ہم اس کے بجائے کہیں اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈتے ہیں ،اس لئے تو ہم دنیا کے اندر حیران و سرگرداں ہے ،اگر ہم نے صحیح طریقے سے”کتاب اللہ”اور “سنت رسولﷺ” کی طرف رجوع کیا تو یقیناً وہ دن دور نہیں ہے کہ پوری دنیا پر اسلام کا بول بالا ہو اور قوت اور طاقت مسلمانوں کے پاس ہوگی۔ لیکن اس پر فتن دور میں اہلِ اسلام پر مختلف النوع فتنوں ، گمراہیوں اور بدعتوں کا زور دار حملے ہورہے ہیں ، اور اُمت مسلمہ میں مجموعی طور پر قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے یہ تما م فتنے ، گمراہیاں اور بدعات جراثیم کی طرح ہمارے اندر داخل ہورہے ہیں، اور اہلِ اسلام روز بروز مختلف قسم کی روحانی ، اعتقادی و فکری اور عملی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ ان مصائب اور گمراہیو ں میں سے ایک مصیبت یہود اور نصاریٰ اور مشرکین کے مذہبی تہواروں میں شرکت کا مسئلہ ہے۔ ہمارے وہ نوجوان جو دین کے علم سے ان کو پس پردہ رکھا گیا ہے،وہ کفار کے تہوار شوق سے مناتے ہیں اور ان میں شرکت بھی کرتے ہیں۔
عیدوں ، تہواروں ،خوشی اور غم کی محافل اور انسان کو فرحت ، سرور اور خوشی دینے کے سلسلے میں بھی اسلام کے اندر ایک متوازن نظام موجود ہے۔سال میں دو مرتبہ عید جو مسلمانوں کے لیے اجتماعی خوشی کا پیغام لے کر آتی ہے۔ اللہ رب العالمین کی بہت عظیم نعمت ہے۔ انفرادی خوشیاں جیسے عقد نکاح ، عقیقہ ، دعوت ولیمہ اور خالص مذہبی خوشیاں جیسے جمعۃ المبارک، رمضان المبارک، لیلۃ القدر اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج اور عمرے جیسی عبادات عطا فرمائیں جو کے ساتھ سکون واطمینان کا باعث بنتی ہیں۔
اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا “
“آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور میں نے پسند کرلیا تمہارے لیے اسلام کو ازروئے دین کے”
مولانا عبد المجید لدھیانوی اس ایت کے ذیل میں لکھتے ہے:”یعنی اب میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا ، تمام حلال وحرام فرض وواجب چیزیں اور تمام مکارم اخلاق و عقائد اور اصول وقواعد سب بیان کردیئے ہیں اب قیامت تک جتنے واقعات پیش آئیں گے ان سب کے احکام قرآن وسنت کی روشنی میں معلوم ہو سکیں گے “
لہذا دین اسلام میں اپنی خود ساختہ اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہود ” مغضوب علیھم” یعنی ان پر غضب کیا گیا ہے،اور نصاریٰ”ضالین” یعنی سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ غیر مسلم تہواروں میں شرکت اور موافقت کے مسئلے کا قرآن اور سنت کی روشنی میں کیا تعلیمات ہے ؟ اس کا مختصر تذکر کیا جائے گا۔ قرآن کریم سے کفار کے ساتھ دوستی کے بارے میں آیات کریمہ پیش کرنے سے پہلے چند اُصولی باتیں جاننا ضروری ہے ۔ یہ کہ ہمار ا کامل ایمان ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور نظام زندگی ہے۔ انسان اور خصوصاً اہلِ اسلام کی کامیابی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت اور تابعداری میں ہے۔ اور شریعت، قرآن اور سنت کا نام ہے۔اس لئے دین میں اپنی طرف سے کچھ چیزیں مقرر کرنا ،اس بات قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
کفار سے قلبی تعلق ، ہمدردی ، ، ان کے لیے اللہ کے دربار میں دعائے مغفرت کرنا، ان کی عیدوں ، تہواروں ، عبادات کے اوقات میں کلیساء اور گرجے میں جانا یا ان کی عبادات میں شریک ہونا، یہ تمام اعمال حرام ، ناجائز اور بعض حالات میں کفر ہیں۔ اور یہ موالات محرمہ ” ناجائز دوستی”کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح کفار سے مشابہت کرنا، ان جیسی وضع قطع اختیار کرنا، ان کے کچھ مخصوص لباس پہننا، ان کے مذہبی شعائر کا احترام اور تعظیم کرنا بھی موالات محرمہ کے زمرے میں آتے ہیں۔لیکن کفار کے ساتھ مدارات ظاہری تعلق کی کچھ حدود ہیں۔ مثلاً اہل ذمہ کو صدقہ دینا، ضرورت کے وقت سلام کرنا، کبھی کبھار ان کی دعوت قبول کرنا، بیمار پرسی کرنا اگر وہ بیمار ہو، یہ تما م اُمور جائز ہیں لیکن اس میں بھی سرگرمی دکھانا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے۔اور حتی الامکان اس سے بھی بچنا چاہیے۔
قرآن کریم کی روشنی میں :
اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لیے سال میں دو عیدین مقرر کئے ہے ۔اور یہ اہل اسلا م کی امتیازی شان اور حیثیت، قائم رکھنے کے لیے الگ عیدین اللہ تعالیٰ نے دی ہیں ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
1:- ”والذ ین لا یشھدون الزور واذا مرو اباللغو مروا کراما “
“رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گذر ہوجائے تو شریف آدمیوں کی طرح گذر جاتے ہیں۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے اس آیت میں لفظ “الزور” کی تفسیر میں خیر القرون کے اندر گزرے فقہاء امت کے اقوال کو ذکر کیا ہیں :” عن مجاهد قال:”هو أعياد المشركين ” وكذلك عن الربيع بن أنس قال: أعياد المشركين ،عن الضحاك قال: ” عيد المشركين، وروى بإسناده عن عمرو بن مرة:قال” لا يمالئون أهل الشرك على شركهم ولا يخالطونهم”
“مجاہدبن جبر ؒ فرماتے ہیں: الزور سے مراد مشرکین کی عید اور تہوار ہیں۔ ربیع بن انسؒ فرماتے ہے کہ اس سے مراد غیر مسلموں کے تہوار ہے،ضحاک بن مزاحم ؒ معروف تابعی ہیں ، فرماتے ہیں: الزور سے مراد مشرکین کی عید اورتہوارہیں،عمرو بن مرۃ فرماتے ہے کہ مؤ منوں کی ایک صفت یہ ہے غیر مسلموں کے اختلاط سے بچتے ہیں “
حافظ عماد الدین ابن کثیر ؒ نقل کرتے ہے:
” وهذه أيضا من صفات عباد الرحمن، أنهم: لا يشهدون الزور قيل: هو الشرك وعبادة الأصنام. وقيل: الكذب، والفسق، واللغو، والباطل.وقال محمد بن الحنفية: هو اللهو والغناء.”
“یہ بھی عبادالرحمن کی صفت ہیں کہ وہ جھوٹی گواہیوں کے میں داخل نہیں ہوتے ،یا اس سے مراد شرک اور بتوں کی عبادت ہے ،یا اس سے جھوٹ لغو ،باطل ا ور گمراہی کی مجالس ہے،امام محمد بن حنفیہ نے فرمایا ہے اس سے مراد لہو اور گانے ہیں”
علامہ محمود آلوسیؒ نے اس نقل کیا ہے :
“وعن ابن عباس أنه عيد المشركين وروي ذلك عن الضحاك”
عظیم مفسر قرآن ،حبر ہذہ الامۃ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ مذکورہ آیت میں “الزور” سے مراد غیر مسلموں کی تہوار یں اور عیدیں ہے “
امام فخر الدین رازیؒ فرماتے ہے:
“وحضور كل موضع يجري فيه ما لا ينبغي ويدخل فيه أعياد المشركين ومجامع الفساق، لأن من خالط أهل الشر ونظر إلى أفعالهم وحضر مجامعهم فقد شاركهم في تلك المعصية، لأن الحضور والنظر دليل الرضا به”
“اور ہر اس جگہ پر حاضر ہونا جہاں داخل ضروری ہی نہ ہو اور اس میں مشرکین کے تہوار اور بدکاری کا اجتماع شامل ہو ، کیوں کہ جو شخص شر یر لوگوں سے گھل مل جاتا ہے اور ان کے اعمال کو دیکھتا ہے اور ان کی مجلس میں شریک ہوتا ہے ،تو وہ بندہ گناہ میں ان کے ساتھ برابر شریک ہے ، کیونکہ ایسے مجالس میں حاضری اور دلچسپی لینا،اس پر راضی ہونے کا ثبوت ہے “
مفسر قرآن عبد المجید لدھیانوی ؒ لکھتے ہے”عبادالرحمن کا نویں صفت یہ ہے کہ وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ۔ یا یہ معنی رہیں کہ وہ کسی بیہودہ اور باطل اور خلاف شرع کام کی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے مطلب یہ ہے کہ خود گناہ کرنا تو درکنار گناہ کی مجلس میں بھی شامل نہیں ہوتے اگر بلاقصد کسی لغو اور بےہودہ چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو شریفانہ طور سے گزرجاتے ہیں تاکہ اس لغوباطل کا گردوغباران کے لباس تقویٰ کو آلودہ نہ کرے”
مذکورہ تفسیر سے معلوم ہوا کہ بے ہودہ مجلسوں میں شرکت جائز نہیں ہے ، جہاں پر کوئی بے حیائی کا مجلس ہو ایک بندہ مومن کے لئے مناسب ہی نہیں ہے کہ اس میں داخل ہو جائے تو غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت کہاں سے جائز ہوگی۔کیونکہ وہاں تو بے حیائی سمیت شرک اور کفری بہت سے افعال کئے جاتے ہیں ۔
2:- وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا “
“یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں تم پہ یہ بات اتار چکا کہ جب تم اللہ تعالی ٰ کی آیتوں کا انکار اور ان کے ساتھ ٹھٹھا سنو تو ان لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو۔ بے شک اللہ جل مجدہ منافقوں اور کافروں سبھی کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے”۔
آیت مبارکہ کے پیشِ نظر ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اگر کسی محفل ومجلس میں گناہ کی بات دیکھے تو انہیں روکے ، اگر روک نہ سکتا ہو تو ان کے ساتھ بیٹھنے سے اجتناب کرے ورنہ ازروئے آیت اس کا شمار بھی انہی لوگوں میں سے ہو گا۔
” حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی نے چند لوگوں کو شراب پیتے پکڑا تو ان لوگوں کے ساتھ ایک روزہ دار بھی تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالی نے ان شراب پینے والوں کے ساتھ اس روزہ دار کو بھی سزا دی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز سے کہا گیا کہ یہ تو روزے سے ہے۔آپ ؒ نے کہا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
فلا تقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذا مثلهم” تم گناہ میں شریک لوگوں کے ساتھ مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں۔ ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو،اور یہ شخص اپنے اختیار سے شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھا رہا تو روزہ دار ہونے کے باوجود گناہ میں شریک ہے”
3:- “ولا تركنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار وما لكم من دون الله من أولياء ثم لا تنصرون”
“اعداء اسلام کی طرف بال برابر بھی نہ جھکو انکی موالات مصاحبت ، تعظیم وتکریم ، مدح وثناء ظاہری تشبہ ، اشتراک عمل ، ہر بات سے حسب طاقت بچتے رہو ورنہ تم بھی ظالموں جیسی سزا کے مستحق ٹھہرائے جاؤ گے ۔
اس آیت کے ذیل میں ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں :
قال أبو العالية: لا ترضوا أعمالهم. وقال ابن جريج، عن ابن عباس: ولا تميلوا إلى الذين ظلموا وهذا القول حسن، أي: لا تستعينوا بالظلمة فتكونوا كأنكم قد رضيتم بباقي صنيعهم،”فتمسكم النار وما لكم من دون الله من أولياء ثم لا تنصرون”أي: ليس لكم من دونه من ولي ينقذكم، ولا ناصر يخلصكم من عذابه.
ابو العالیہ ؒنے کہا: ان (کافروں)کے عمل کو قبول نہ کرو۔ ابن جریج نے ابن عباس کی حوالے سے کہا” ظلم کرنے والوں کی طرف رجوع نہ کریں اور یہ قول اچھا ہے ، مطلب: اندھیرے کی مدد نہ کرو ،ورنہ تو آپ نے ان کے باقی اعمال کو بھی قبول کرلیا ہے۔اللہ تعالی کے علاوہ کون آپ کو بچا ئے گا، اور کون ہے آپ کو اس کے عذاب سے بچا سکیں “
معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کا کوئی عمل بھی قبول کرنا صحیح نہیں ہے اور تہوار تو ان کے بڑے اعمال میں ایک عمل ہے جو کہ مذہبی بھی ہے ،اور اس میں شامل ہونا ان کے ساتھ ظلم میں شرکت کے مترادف ہے ،لہذا تہواروں سے بچنا لازم ہے ۔
مفسر قرآن ابو زہرۃ ؒ مذکورہ آیت کے نیچے فرماتے ہیں:
ويتضمن ذلك النهي الاعتماد على الظالم، والإدهان إليه والميل إليه، والتودد له، والتقرب منه، ومعاونته في الأمر الذي يفعله، وقوله تعالى: (الَّذِينَ ظَلَمُوا) أي الذين وقع منهم الظلم، وإن لم يتصفوا بالظالمين، ولقد قال الرسول – صلى الله عليه وسلم – في معاونة الظالمين: ” ومن سعى مع ظالم، فقد سعى إلى جهنم “؛ لأنه عاونه في ظلمه”
نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے صحابہ کرام، کافرانہ اور مشرکانہ تہواروں میں حصہ لیا کرتے ،لیکن جیسے ہی صحابہ کرام نے اسلام قبول کیا ،انہوں نے کافرانہ اور مشرکانہ تہواروں سے بھی مکمل قطع تعلق کرلیا، اور کبھی ان تہواروں کی نسبت سے کوئی ذرا سا کام بھی نہیں کیا ۔نہ کافروں اور مشرکوں کو ہدیہ دیا ،نہ مبارک باد کہی ،نہ اس تہوار پر ان کے اجتماع میں گئے نہ کافروں کی طرح کوئی خاص لباس پہنا ،نہ خاص کھانے کا احترام کیا کرتے تھے۔
4:-” وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ “
“اور ہرگز خوش نہیں ہوں گے آپ سے یہود اور نصاریٰ جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ ہوجائیں۔ آپ کہہ دیجئے ! کہ بیشک اللہ کی ہدایت وہی ہدایت ہے، اگر آپ پیروی کرنے لگیں ان کی خواہشات کی بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آچکا تو آپ کے لیے اللہ کی گرفت کے مقابلے میں نہ کوئی دوست ہوگا نہ مددگار”
اللہ تعالی نے ہمیں بار بار خبردار کیا ہے کہ کافر یہودی ،عیسائی مشرک سب ہمارے دشمن ہیں اور ان سے ہمیں کسی قسم کی دوستی ،محبت اور ان کے مذہب کی کسی چیز میں پسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔دور حاضر میں ہم نے پوری رح ان کے دین اور ان کی روایات کا حلقہ اپنے اردگرد کس رکھا ہے اور غیر مسلم چاہتے بھی یہی ہے کہ مسلمان کسی بھی طرح ہم جیسے ہوجائے ، اللہ تعالی کافرمان ہے :
“وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاءً”
وہ تو یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش تم بھی کافر ہوجائو جیسے وہ کافر ہوئے کہ تم سب برابر ہوجائے”
5:- “وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ”
“اور جو شخص مخالفت کرے رسولﷺ کی اس کے بعد کہ روشن ہوگئی اس کے لیے ہدایت اور پیروی کرے مسلمانوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی تو ہم اس کو اسی راہ پر ڈالیں گے جس پر وہ پڑا اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے”
اس آیت کے تفسیر میں علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہے :
“فالنهي ثابت عن جنسه، فيكون مفارقة الجنس بالكلية أقرب إلى ترك المنهي ومقاربته مظنة وقوع المنهي عنه۔۔۔۔ واعلم: أن في كتاب الله من النهي عن مشابهة الأمم الكافرة وقصصهم التي فيها عبرة لنا بترك ما فعلوه كثيرًا۔۔۔۔۔ ثم متى كان المقصود بيان أن مخالفتهم في عامة أمورهم أصلح لنا؛ فجميع الآيات دالة على ذلك وإن كان المقصود أن مخالفتهم واجبة علينا، فهذا إنما يدل عليه بعض الآيات دون بعض، ونحن ذكرنا ما يدل على أن مخالفتهم مشروعة في الجملة، إذ كان هو المقصود هنا”
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ غیرمسلموں کے عادات و اطوار میں شرکت اور ان کی مشابہت بالکل منع ہے ،بصورت دیگر کسی ممنوع فعل میں حصہ لینے کے مترادف ہونگے۔اور قرآن کریم کے اندر غیر مسلم کی مشابہت کا جو منع آیا ہے وہ اس لئے تا کہ کوئی بھی مسلمان اس کا شکار نہ ہوجائے ،لہذا کتاب اللہ کے اندر جتنے بھی آیات کریمہ ہے ،ان کا مجموعی حکم یہ ہے کہ غیر مسلموں سے مخالفت ہر حال میں لازم ہے ،اور یہی ان آیات کے ذکر کرنے کا مقصد بھی ہے ۔تو ان کی تہوار میں شرکت ان پر راضی ہونا ہے ،یا کم از کم ان کے ساتھ محبت کی نشانی ہے ،جو کہ قرآن و سنت کی رو سے حرام ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں سے برادرانہ تعلق یہ مسلمان کو زیب نہیں دیتے، کیونکہ غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ کھلے عام مسلمان کو کفر کا دعوت دینا ناممکن ہے ، لیکن اگر اس میں ہمارے طور طریقے ،تہوار اور معمولات زندگی شامل ہوجائے ،تو جلد ہی یہ ہمارے جال میں پھنس سکتا ہے ،اور یقیناً وہ اس مقصد میں کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں ۔
در اصل اسلام اور کفر دو مختلف نظریے ہیں ،لہذا اس میں کسی قسم کی مصالحت یا سمجھوتہ ممکن نہیں ہے ۔قرآن کریم کے اندر موجود ہے جب اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا تھا کہ آئیے ہم باہم دشمنی کرنے کی بجائے اس بات پر مصالحت کرلیتے ہیں ،کہ ایک روز آپﷺ کے معبود کی ہم سب مل کر عبادت کرلیا کریں گےاور ایک روز سب مل کر ہمارے بتوں کی پوجا کر لیا کریں گے تو جواب میں اللہ تعالی نے سورۃ کافرون نازل فرمائی :
“قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ ۔ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ۔ وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ۔ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ ۔ وَلَا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ۔ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ۔ “
اے پیغمبر کہہ دیجئے، اے کافرو ! ، میں پرستش نہیں کروں گا جن کی تم پرستش کرتے ہو، اور نہ ہی تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں، اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم نے عبادت کی،اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو، جس کی عبادت میں کرتا چلا آرہا ہوں ، تمہارےلئے آپ کا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ کی زبان مبارک کے ذریعے یہ دو ٹوک اعلان تھا کہ حق کسی قسم کا سمجھوتہ باطل کے ساتھ نہیں کرسکتا ۔اسلام اور کفر دونوں کے راستے قطعی جدا جدا ہیں ۔ غیر مسلم کا تہوار جو اس کے باطل مذہب کی پہچان ہے ،اور اس کے کفر کی امتیازی علامت ہے،لہذا ! رب واحد پر ایمان رکھنے والا اور کفر سے نفرت کرنے والا کیسے اس کے کام میں دل چسپی لے سکتا ہے؟
احادیث مبارکہ کی روشنی میں :
قرآن کریم کی ان آیا ت سے ثابت ہوا کہ غیر مسلموں کے عید اور ان کے تہواروں میں شرکت جائز نہیں ہے ،اسی طرح بیشتر احادیث مبارکہ کے اندر بھی نبی کریمﷺ نے ان کافروں کے تہوار اور ان کے ساتھ محبت و عقیدت رکھنے سے بھی منع کیا ہے۔
1:- ” قال قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما فقال ما هذان اليومان قالوا كنا نلعب فيهما في الجاهلية فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما يوم الأضحى ويوم الفطر “
“سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ ےتشریف لائے ، تو اہل مدینہ کے ہاں دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے (وہ اسی دن اپنے تہوار مناتے تھے )آپﷺ :یہ دو دن کونسے پروگرام آ پ کرتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں یہ دو دن منایا کرتے تھے ،تو اسی پر آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے تمھارے لئے ان دو کے بدلے میں عید الفطراور عید الضحیٰ، ان سے بہتر عطا کئے ہیں “
شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ مذکور ہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہے:
” أن العيدين الجاهليين لم يقرهما رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا تركهم يلعبون فيهما على العادة، بل قال:إن الله قد أبدلكم بهما يومين آخرين، والإبدال من الشيء يقتضي ترك المبدل منه، إذ لا يجمع بين البدل والمبدل منه”
“نبی کریمﷺ نےجاہلیت کے عیدوں کو برقرار نہیں رکھا ،اور مسلمانوں کو بھی ان کے حال پر نہیں چھوڑ ا،بلکہ پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا :یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے بدلے دو اور ایام عطا ء فرمایا ہے ،اور کسی بھی چیز کی تبدیلی ان مبدل منہ چھوڑنے کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ بدل اور مبدل منہ دونوں اکٹھے نہیں ہوسکتے”
جب مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کی،تو مدینہ میں چونکہ پہلے سے یہود رہتے تھے اور ان کے اپنے عبادا ت اور مذہبی رسومات تھے ، جو لوگ اگر چہ یہودیت میں نہیں تھے لیکن جب وہ یہود کے رسومات کو دیکھتے تھے تو وہ بھی اس میں شریک ہوا کرتے تھے ، لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کیا ،تو انصار اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اسی طرح جاہلیت کے تہواروں میں شرکت کیا کرتے تھے ، جب نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا تو انہوں فوراً مسلمانوں کو منع کیا ،اور فرمایا کہ ان غیروں کی عیداور تہوار میں شرکت نہ کریں ،اللہ تعالی نے ان کے بدلے آپ کو دو اچھے تہوار اور عید عطا فرما یا ،ایک عید الفطر جو کہ یکم شوال کو ،اور دوسرا عید الاضحیٰ جو کہ دس ذی الحجۃ کو منایا جاتا ہے۔اور سال میں ایک مرتبہ انتہائی جوش و جذبے،خلوص ،محبت اور اتفاق کے ساتھ اہل اسلام مناتے ہیں ۔اور تاریخ میں کہیں سے بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ کسی مسلمان نے ان تہواروں میں شرکت کیا ہو۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اتنی قوت اور شدت سے منع کیا کہ کسی اور میں اتنی طاقت تھی نہیں کہ ان کو برقرار رکھ سکیں ،لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ رسول اللہ کی اتنی طاقت سے منع کرنا ،اس بات کا ثبوت ہے کہ اس تہوار میں شرکت حرام ہے ۔
2:-” عن ثابت بن الضحاك قال : نذر رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ينحر إبلا ببوانة فأتى النبى ﷺ فقال : إنى نذرت أن أنحر إبلا ببوانة, فقال النبىﷺ: هل كان فيها وثن من أوثان الجاهلية يعبد؟ قالوا : لا. قال : هل كان فيها عيد من أعيادهم ؟ قالوا : لا، قال رسول الله ﷺ: أوف بنذرك فإنه لا وفاء لنذر فى معصية الله ولا فيما لا يملك ابن آدم”
“ایک آدمی نے نذر مانی کہ وہ” بوانہ “مقام پر اونٹ ذبح کرے گا تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تو نہیں، جس کی عبادت کی جاتی ہو ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا ! کہ اس جگہ میں ان کے میلوں میں سے کوئی میلہ تو نہیں لگتا ؟ صحابہ کرام نے کہا نہیں !تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر لے اور یاد رکھو !اللہ کی نافرمانی میں نذر کو پورا نہیں کرنا اور نہ اس کو پورا کرنا ہے جس کا انسان مالک نہ ہو”
یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلہ لگتا ہو یا اس مقام پر ان کا کوئی بت وغیرہ نصب ہو، بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ایسے مقامات میں شرکت نہ کریں ، کیونکہ مشرکین کا کسی جگہ پر میلہ لگانا یا کسی مقام پر ان کا غیراللہ کی عبادت کرنا ،ایک مسلمان کی شایان شان نہیں ہے کہ وہاں جاکر ان کے ساتھ شریک محفل ہوجائے،کیونکہ حدیث میں اس حد تک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دوران میلہ یا تہوار میں شامل ہونا تو بالکل ممکن ہی نہیں ہے ،لیکن جب ایک جگہ ایسا ہو کہ پہلے ادھر میلے لگتے تھے ، تو ادھر بھی جانا مذکور ہ حدیث کی رو سے منع ہے ۔ اور جب مسلمان میں سنت نبویﷺ سے محبت ہو ،وہ کبھی بھی غیر مسلم تہوار میں دلچسپی نہیں لیتا۔
3:- “عن عائشة، قالت: دخل علي أبو بكر، وعندي جاريتان من جواري الأنصار تغنيان بما تقاولت به الأنصار في يوم بعاث، قالت: وليستا بمغنيتين، فقال أبو بكر: أبمزمور الشيطان في بيت النبي صلى الله عليه وسلم؟ وذلك في يوم عيد الفطر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا أبا بكر، إن لكل قوم عيدا، وهذا عيدنا”
” ام المؤمنین سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا،ایک دفعہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابوبکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے”
مذکورہ حدیث کے اندر انتہائی باریک بینی سے رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ دراصل اسلام ایک جامع دین ہے ،جس میں زندگی کے متعلق ہر قسم احکامات شامل ہے ، خوشی کےلئے الگ احکام ،جبکہ غم کے لئے الگ احکام ہے ،اور اس کا طریقہ کار بھی ہمیں بتایا ہے ،
“فالدلالة من وجوه: أحدها: قوله:’إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا’ فإن هذا يوجب اختصاص كل قوم بعيدهم، كما أن الله سبحانه لما قال:وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَ وقال: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا أوجب ذلك اختصاص كل قوم بوجهتهم وبشرعتهم، وذلك أن اللام تورث الاختصاص، فإذا كان لليهود عيد وللنصارى عيد؛ كانوا مختصين به فلا نشركهم فيه، كما لا نشركهم في قبلتهم وشرعتهم.وكذلك أيضا، على هذا: لا ندعهم يشركوننا في عيدنا. الثاني قوله: ‘وهذا عيدنا’،فإنه يقتضي حصر عيدنا في هذا، فليس لنا عيد سواه،”
مذکورہ روایت سے شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ؒ نے کئی دلائل کے ساتھ غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت کی حرمت ثابت کیا ہے ان میں سے ایک یہ کہ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “ہر قوم کا تہوار ہوتا ہے ،اور یہ ہماری تہوار ہے۔” اس حدیث سے تہذیب و ثقافت کا الگ الگ تشخص کا ثبوت ملتا ہے ، اللہ تعالی نے فرمایاہے: اور ہر کسی کے لیے ایک جہت ہے وہ ادہر منہ پھیرنے والا ہے ‘ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک ضابطہ اور ایک طریقہ ٹھہرایا، ان ایات کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مذہب کی اپنی عبادات ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق وہ اس کو بجا لاتے ہیں ۔حدیث کے اندر نبی کریم ﷺ نے “لکل” پر ‘لام’ داخل کیا ،جو کہ تخصیص کے لئے آتا ہے ، لہذا جب یہودیوں کی الگ تہوار ہوتی ہے اور عیسائیوں کی الگ تہوار ہوتے ہے،تو ہم اس میں شریک نہیں ہونگے، جس طرح ہم ان کی عبادات میں شرکت نہیں کرتے، اور نہ ہم ان کو اپنی عیدوں میں شریک کرواتے ہیں۔ ابن تیمیہؒ نے فرمایا دوسری وجہ “وہذاعیدنا” ہے،اس میں اس بات مقید کیا گیا کہ مسلمانوں کا عید صرف یہی ہے اس کے علاوہ بالکل نہیں ہے ۔تو مسلمان کس طرح ان صریح احادیث کو چھوڑکر غیرمسلموں کے خوشی کے لئے اور دنیاوی مفاد کے خاطر ان میں شرکت کرکے اپنے عظیم رب کریم کی مخالفت کرتے ہیں “
نبی کریمﷺ کے زمانہ اطہر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ،کہ دور نبویﷺ میں مدینہ منورہ میں کثرت سے یہود آباد تھے،حتی کہ رسول اللہ ﷺ کا ان کے ساتھ معاملات بھی ثابت ہے کیونکہ وہ مشہور حدیث ہے جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو ان” ذرہ” ایک یہودی کے پاس بطور رہن پڑھی ہوئی تھی ۔اور یہودیوں کا رسومات،عبادات اور تہوارہوتے تھے جسے وہ مناتے تھے ، کسی ایک صحا بی سے ان کے تہوار میں شرکت ثابت نہیں ہیں ،لیکن کوئی مانع ،سوائے منع رسولﷺ کے نہیں تھا۔
4:- ” عن جريربن عبدالله : أتيت النبي صلى الله عليه و سلم وهو يبايع فقلت يا رسول الله ابسط يدك حتى أبايعك واشترط علي ، قال أبايعك على أن تعبد الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتناصح المسلمين وتفارق المشركين “
جریر بن عبد اللہ فرماتے ہے کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس بیعت لینے آیا ،تو میں نے عرض کیا اے اللہ تعالی کے رسول ﷺ اپنا ہاتھ دیجئے! تا کہ میں بیعت کرواور انہوں نے کچھ شرائط بھی میرے اوپر عائد کیا اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں ان باتوں پر تمہاری بیعت لیتا ہوں کہ تُم اللہ کی عبادت کرو گے اور نماز ادا کرو گے اور مسلمانوں کو نصیحت کرو گے اور مشرکوں سے الگ رہو گے “
اس حدیث میں مشرکوں سے الگ رہنے کا مطلب معاشرتی علیحدگی نہیں کیونکہ ایسا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دور مبارک میں مسلم معاشرے میں بھی نہ تھا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کی عادات اور نقالی سے الگ رہو گے، اور اگر کوئی معاملہ اُن کے ہاں دینی نوعیت کا ہو تو پھر تو اس میں کسی بھی طور شمولیت بدرجہ اَولیٰ ممنوع ہے۔
5:- “عن عمرو بن الحارث أن رجلا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة، فلما جاء ليدخل سمع لهوا، فلم يدخل، فقیل له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “من كثر سواد قوم، فهو منهم، ومن رضي عمل قوم كان شريك من عمل به”
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو کسی نے ولیمہ کی دعوت دیا ،لیکن جب آکر گانے کی آواز سنی تو داخل نہ ہوا ،پوچھنے پر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس نے کسی کی تعداد میں اضافہ کیا تو وہ انہیں میں سے ہوگا ،اور جو کسی قوم کے برے عمل پر راضی ہوا تو وہ بھی ایک شریک ہے ۔
یہ واضح ہو اکہ غیر مسلموں کے تہوار وں میں شرکت ان کی تعداد میں اضافہ ہے اور شرکت اس میں رضا ہے ۔ تو یقیناً وہ اس وعید میں شامل ہوگا ۔ اس لئے بحیثیت مسلمان ہمارے لئے ان جیسے محافل میں شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اقوال صحابہ کی روشنی میں :
• “عن عطاء بن دينار قال قال عمر رضي الله عنه لا تدخلوا على المشركين في كنائسهم يوم عيدهم فإن السخطة تنزل عليهم “
“عطاء بن دینا ر نقل کرتے ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مشركوں كی عيد كےدن ان كےگرجا گھروں ‘چرچ’ميں مشركوں كےپاس نہ جاؤ كيونكہ ان پر(اللہ کی) ناراضگی نازل ہوتی ہے.عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابی رسول ﷺ ہے اور دوسرا خلیفۃ المسلمین ہے ، جب وہ کوئی بھی مسئلہ بیان کرتا ہو، تو انہوں ضرور نبی کریم ﷺ سے سنا ہوگا ،کیونکہ یہ بات خلاف القیاس ہے اور محدثین کے ہاں اصول یہ ہے کہ جب ایک صحا بی کوئی خلاف القیاس بات نقل کریں تو وہ حدیث متصور ہوگا، لہذا اس قول سے معلوم ہوا کہ غیر مسلموں کے پاس جا کر ان کی تہواروں میں شرکت کرنا ، یا ان کی عبادت گاہوں میں جا کر بیٹھنا،اللہ تعالی کے عذاب کو دعوت دینا ہے ،کیونکہ ان کے تہوار ااور عبادت گاہوں میں صراحتاً اللہ اور رسول ﷺ کے نافرمانی ہوتی ہیں ،اور شرکیہ افعال اور اعمال کئے جاتے ہیں ،اور باطل عقائد کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔ ان غیر مسلموں پر پہلے سے ہی اللہ تعالی کا غضب و غصہ نازل ہوتا ہے لیکن جو مسلمان ان پاس بیٹھتا ہے وہ بھی اللہ تعالی کی غصہ کی لپیٹ میں آجائے گی۔
• ” عن سلمة قال سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه یقول : اجتنبوا أعداء الله في عيدهم”
سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ میں نے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ،وہ فرمایا کرتے تھے کہ اے مسلمانوں! “اللہ تعالی کی دشمنوں سے ان کے تہواروں میں اجتناب کرو،یعنی غیر مسلم چونکہ کافر ہے اور اسلام کے دائرے سے خارج ہے اس لئےوہ اللہ تعالی کے دشمن ہے ،کیونکہ یہ کائنات انہی کی ہے ،اور اپنی قبضہ قدرت سے پیدا کیا ہے ،لہذا کسی کے لئے جائز ہی نہیں ہے کہ اس میں رہتے ہوئے اسی ذات اقدس کے انکار کریں۔اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو اللہ تعالی کے دشمنوں کے پاس جاکر ان کے تہوار اور رسومات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ،بلا شبہ وہ بھی “اعداء اللہ تعالی” میں آجائے گا۔
• “عن عبد الله بن عمرو قال : من بنى/مرّ ببلاد الأعاجم وصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة”
یہ وہ صحا بی ہے جن کا قول و فعل نبی کریمﷺ کے اتباع میں گزر رہے تھے ، فرماتے ہے” کہ جس نے بلا د عجم(یعنی غیر مسلموں) میں شادی کی پھر ان کے تہوار ( نوروز اور مہرجان) منائی اور اس میں شرکت کرتا ہو،موت تک ان کی مشابہت کرتا رہا تو قیامت میں ا س کا حشر کفار کے ساتھ ہوگا۔ “
یعنی کوئی بھی بندہ غیر مسلموں کے ہاں آبادیاں کریں ،یا ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان کی رسومات اور تہواروں میں شرکت کرتا ہو ،اور ان کے افعال میں مشابہت بھی اختیار کرتا رہے ،یقیناً یہ بندہ ان جیسا بنتا رہے گا،اگر بالفرض اسی حال میں ان کو موت بھی آجائے تو قیامت کے روز غیر مسلموں کے صف میں اٹھے گا ،ان کا حشر بھی ان کے ساتھ ہوگا ،اور جب کسی کا حشر مشرکوں اور کافروں کے ساتھ ہو ، تو نتیجہ جہنم ہی ہوگا۔والعیاذ باللہ
شیخ الاسلام ابن تیمیۃ فرماتے :
“وهذا يقتضي أنه جعله كافرا بمشاركتهم في مجموع هذه الأمور، أو جعل ذلك من الكبائر الموجبة للنار، وإن كان الأول ظاهر لفظه، فتكون المشاركة في بعض ذلك معصية”
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ جو مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ ایسا معاملہ کریں ،تو یہ کفر کو مقتضی ہے ،یا یہ ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ جو جہنم کو واجب کرتی ہے ۔
فصل دوم
غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت سے متعلق قدیم و معا صر فقہاء کی آراء
پچھلے صفحات کے اندر قرآن کریم ،سنت رسول اور اقوال صحابہ کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ غیرمسلموں کے ہاں ان کے تہواروں میں شرکت مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے ،اور نہ ان کے ساتھ کسی قسم کا محبت اور دوستی جائز ہے ،اس فصل کے اندر قدیم و جدید علما ء کے اقوال ذکر کئے جائینگے۔ کیونکہ علماء اور فقہاء اس امت کا بہترین اثاثہ ہیں ،اور نبی کریمﷺ کے حقیقی وارثین ہے ،تو کسی بھی مسئلے کے اندر ان کے آراء ذکر کرنا ضروری ہے ۔
اللہ تعالی فرماتے ہے:
“فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ” (ترجمہ) “اگر اپ نہیں سمجھتے تو اہل علم سے پوچھ لیا کریں “
1:-امام بیہقیؒ نے اس حوالے سے باب قائم کیا ہے :
“باب كراهية الدخول على أهل الذمة في كنائسهم والتشبه بهم يوم نيروزهم ومهرجانهم”
امام بیہقی ؒ کے نزدیک غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت حرام ہے، مکروہ سے مراد حرام ہے کیونکہ اس با ب میں جو روایات ذکر ہے وہ سب حرمت پر دلالت کرتی ہے ،انہوں نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ ،عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ،وغیرہ سے روایات نقل کیا ہے ،اور تقریباً پانچ صحیح روایات نقل کیا ہے ۔
2:- ” وقال الإمام أبو الحسن الآمدي , المعروف بابن البغدادي – في كتابه: عمدة الحاضر وكفاية المسافر: ” فصل: لا يجوز شهود أعياد النصارى واليهود، نص عليه أحمد في رواية مهنا واحتج بقوله تعالى: وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ”
“امام ابو الحسن الآمدیؒ جو کہ ابن البغدادی سے مشہور ہے انہوں نے فرمایا” کہ یہود اور نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت جائز نہیں ہے اور امام احمدبن حنبل ؒ نےاس کی صراحت کی ہے۔ اور انہوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت مبارکہ ذکر کیا ہے ‘ رحمٰن
کے بندے وہ ہیں جو جھوٹ کا مشاہدہ نہیں کرتےاور کسی لغو چیز پر ان کا گذر ہوجائےتو شریف آدمیوں کی طرح گذر جاتے ہیں”
3:- علامہ ابن حجر ؒجو کہ عظیم محدثین میں شمار کیا جاتا ہے وہ غیر مسلموں کے تہوار اور ان کے عیدوں کے حوالے سے لکھتے ہے کہ اس میں شرکت حرام ہے :
“قدم النبي صلى الله عليه و سلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما فقال قد أبدلكم الله تعالى بهما خيرا منهما يوم الفطر والأضحى واستنبط منه كراهة الفرح في أعياد المشركين والتشبه بهم”
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ ےتشریف لائے ، تو اہل مدینہ کے ہاں دو دن ایسے تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے ،آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے تمھارے لئے ان دو کے بدلے میں عید الفطراور عید الضحیٰ، ان سے بہتر عطا کئے ہیں،اس حدیث سے علامہ ابن حجر ؒ نے استنباط کیا ہے ،انہوں نے فرمایا کہ غیر مسلموں کی تہوار اور عیدوں میں شرکت اور اور ان سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے ۔
4:-ملا علی القاری ؒ نے غیر مسلموں کے تہوار اور اس میں ایک دوسرے کو تحفے دینے کے حوالے سے لکھا ہے:
” فيه دليل على أن تعظيم النيروز والمهرجان وغيرهما أي: من أعياد الكفار منهي عنه. قال أبو حفص الكبير الحنفي: من أهدى في النيروز بيضة إلى مشرك تعظيما لليوم فقد كفر بالله تعالى، وأحبط أعماله”
ملاعلی قاری نے انس رضی اللہ عنہ کے مشہور حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی رو سے غیر مسلموں کے تہواروں میں منع ہونے کی واضح دلیل ہے ،حتی کہ امام ابو حفص ؒ نے فرمایا کہ جو مسلمان نیروز کے دن کسی غیر مسلم کو ان کی تہوار کی وجہ سے گفٹ دے دیں ،یعنی ان کے تہوار میں جا کر تحفے دے تو اس نے کفری عمل کیا ہے ۔
5:-علامہ زین الدین ابن نجیم الحنفی ؒ فرماتے ہے :
“مجوسیوں کے تہوار نیروز میں نکلنے اور اس دن جو کچھ وہ کرتے ہیں ،وہ کام کرنے سے (کافر ہوجائے گا)”
یہاں پر ذکر اگر چہ مجوس کا ہے لیکن مراد اس سے تمام غیر مسلم ہے کیونکہ اسلام کے علاوہ تمام ادیا ن بطلان میں برابر ہے ، اور جو بندہ ان کے تہواروں میں شرکت کریں تو ضرور ان جیسے افعال کرےگا۔
6:- امام شمس الدین الذہبیؒ غیر مسلموں کے تہوار اور اس میں شرکت کے حوالے سے لکھتا ہے:
” أن من يشهدها و يحضرها يكون مذموما ممقوتا لأنه يشهد المنكر ………. وأي منكر أعظم من مشاركة اليهود والنصارى في أعيادهم۔۔۔۔۔۔نفس الموافقۃ والمشارکۃ لھم فی آعیادھم مواسمھم حرام”
جو بھی غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت کریں اور اس میں حاضری کریں تو یہ مذموم اور نا جائز ہے ،کیونکہ اس میں حاضری منکر میں حاضری ہے ،اور اس سے بڑی گناہ اور کونسی ہے کہ جو یہود و نصاری ٰ کے تہوار میں شرکت کیا جاسکیں،لہذا مطلق ان کے تہواروں میں حرام ہے ۔
7:- شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ؒ نے فرمایا ہے:
” وإذا كان السخط ينزل عليهم يوم عيدهم بسبب عملهم فمن يشرك في العمل أوبعضه, أليس قدتعرض لعقوبة ذالك”
انہوں غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت کے حوالے سے سخت موقف اختیار کیا ہے اور انہوں نے مذکورہ کتاب میں قرآ ن کریم،احادیث طیبہ،اجماع اور دلائل عقلیہ سے ثابت کیا ہے کہ ان میں شرکت کرنا ،ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا بالکل حرام ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے تہواروں میں جو شرکیا ت کرتے ہیں ، اس دوران اللہ تعالی کا عذاب نازل ہوتا ،تو کوئی مسلمان کس طر ح اس س اجتناب نہیں کرے گا۔
8:- علامہ ابن باز ؒ جو کہ عظیم محدث ہے،وہ فرماتے ہے :
“لا يجوز للمسلم ولا للمسلمة مشاركة النصارى أو اليهود أو غيرهم من الكفرة في أعيادهم بل يجب ترك ذلك؛ لأن ‘من تشبه بقوم فهو منهم’ والرسول ﷺ حذرنا من مشابهتهم والتخلق بأخلاقهم”
کسی بھی مسلمان مرد،یا مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں ہے ، کہ وہ غیر مسلموں کے تہواروں میں شرکت کریں ،بلکہ اس سے اجتناب لازم ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں ان کی مشابہت ، اور ان جیسا بننے سے سخت منع کیا ہے ۔تو ایک مسلمان کس طرح اپنے نبیﷺ کی مخالفت کر کے غیر مسلموں کو خوش کرے گا۔
9:-امام محمد خطیب الشا فعی جن لوگوں کے لئے تعزیرات دینا لازم ہے ،ان کے حوالے سے لکھتا ہے :
“ويعزر من وافق الكفار في أعيادهم” جس نے بھی غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت کیا اس کے لئے سخت تعزیر دیا جائے ،اور یہ بات ظاہر ہے تعزیر صرف ان کے لئے دینا ہے جس نے کوئی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہو معلوم ہوا کہ ان تہواروں میں گناہ کبیرہ ہے ، اس سے اجتناب کرنا لازم ہے “
10:- مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی لکھتے ہے:
غیر مسلم کے تہواروں میں شرکت اور ان کے ساتھ ہولی کھیلنا اور غیر مسلم کی طرح دھوم دھام سے جنم دن منانا ممنوع اور ناجائز ہے۔ اور ان کے تہوار کو ان ہی کی طرح دھوم دھام سے منانا یہ سارے امور ناجائز اور حرام ہیں ، ان سے توبہ کرنا لازم اور ضروری ہے”
11:- “لا يجوز للمسلم حضور أعياد الكفار ومناسباتهم الدينية لما في ذلك من الاعتراف والإقرار لشعائرهم المرتبطة بعقائدهم الفاسدة”
12:-مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ سے کسی نے غیر مسلموں کے تہوار ،میلہ میں شرکت کے حوالے سے پوچھا تو انہوں فرمایا :
“ایسے میلوں میں جانا درست نہیں ہے خرید و فروخت کے لئے بھی جانا نہیں چاہیے،جس طرح خلاف شرع اور شرکیہ امور کا ارتکاب ممنوع ہے ،ایسی جگہ جاکر ان کی رونق میں اضافہ کرنا بھی ممنوع ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد پھر لکھتے ہے ‘یہ سب ناجائز اور گناہ ہے “
13:-مفتی احمد ابراہیم بیمات ؒ اس حوالے سے تحریر فرماتے ہے :
” ایسے میلوں(تہواروں) میں جانا جائز نہیں ہے ،کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے ،اور ان میلوں میں جا کر کوئی چیز خریدنا یا بیچنا بھی جائز نہیں ہے ،حضرت عبد الحئی لکھنوی ؒ تحریر فرماتے ہے کہ اس طرح کی کھیل کود کی جگہوں میں جانا بھی حرام ہے ،کوئی مسلمان ایسی چیزوں سے راضی رہے اور اسے اچھی سمجھے تو یہ اس کے کفر کا سبب ہوگا اس لئے گو کول آٹھم (یہ غیر مسلموں کی ایک تہوار ہے) کے میلے میں جانا، اس میں کسی چیز کو خریدنا جائز نہیں ہے ،یہ ان کے تہوار کو پسند کرنا اور ا س کو فروغ دینے اور کفار کی مدد کرنے کے مترادف ہے “
14:- “الجزیرۃ “جو کہ عرب علماء کی ایک کمیٹی ہے اور آن لائن فتاوی جات دیتے ہے،ان کی تحقیق غیر مسلم کی مذہبی تہواروں کے حوالے یہ ہے :
وأما مشاركة غير المسلمين في أعيادهم الدينية فالقول بالحرمة تدل عليه نصوص الشرع، وليس هناك من قول معتبر يرى جواز مشاركة غير المسلمين في أعيادهم الدينية “
15:-جامعہ دارالعلوم بنوریہ ٹاؤن کے مشترکہ کمیٹی برائے افتاء کا فتوی بھی یہ ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت بالکل ناجائز اور حرام ہے :
” غیر مسلموں کو ان کے مذہبی تہوار پر مبارکباد دینا ، ہدایا دینا یا ان کی مجالس میں شرکت کرنا گویا ان سے محبت اور مودت کا اظہار اور ان کے مذہبی شعار اور تہوار میں شریک ہونا ہے، جوکہ شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے۔اگر ان کےمذہبی تہوار کی تعظیم، تکریم اور احترام کرتے ہوئے کوئی مبارکباد دے یا ہدیہ دے تو یہ موجبِ کفر ہے،اگر محض رسمی طور پر کہہ دے تب بھی اندیشۂ کفر ہے، لہذا اس طرح کی مارکیٹنگ سے اجتناب ضروری ہے”
16:- ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظہ اللہ سے ایک آدمی نے سوال کیا ،کہ ‘ہمارے ہاں غیر مسلم رہتے ہیں اور جس طرح مسلم کمیونٹی اپنے عید اور شعائر اللہ مناتے ہے ، اسی طرح ان کا بھی کچھ تہوار ہے اور وہ دھوم دھام سے مناتے ہے ،لیکن ہم ایک دوسرے کو اپنی مذہبی اور ثقافتی پروگرامات میں شرکت کی دعوت بھی دیتے ہیں تو کیا ہمارے لئے جائز ہے کہ ہم ان کی پروگرامات میں شرکت کریں ، یا ان کو مبارک باد دیں دے ،کیونکہ وہ لوگ ہمارے ہاں آتے بھی ہے اور مبارک باد بھی دیتے ہیں،شریعت کی روشنی میں ہمارے لئے کیا ہدایا ت ہے ‘؟
اس کے جواب میں ٖڈاکٹر یوسف القرضاوی نے تفصیل کے ساتھ جواب دیا جس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے :
“وأنا معه في مقاومة احتفال المسلمين بأعياد المشركين وأهل الكتاب، كما نرى بعض المسلمين يحتفلون بـ (الكريسماس) كما يحتفلون بعيد الفطر، وعيد الأضحى، وربما أكثر، وهذا ما لا يجوز، فنحن لنا أعيادنا، وهم لهم أعيادهم، ولكن لا أرى بأسا من تهنئة القوم بأعيادهم لمن كان بينه وبينهم صلة قرابة أو جوار أو زمالة، أو غير ذلك من العلاقات الاجتماعية، التي تقتضي المودة وحسن الصلة، التي يقرها العرف السليم.”
موصوف نے فرمایا کہ مجھے پتہ ہے کہ اس مسئلے کے اندر شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ؒ نے سخت موقف اختیا ر کیا ہے ،لیکن جو مسلمان ان غیر مسلموں کے ساتھ ایک ہی معاشرے کے اندر رہتے ہیں ،اور ان کے مذہبی تہوارکرسمس ۔۔۔ میں شرکت کر کے انہی جیسا مناتے ہے ،جس طرح ہم اپنی عیدوں کو مناتے ہے ،تو اس میں ابن تیمیۃؒ کا موقف میرا بھی ہے یعنی حرمت کا قائل ہو کیونکہ ہمارے لئے اپنے شعائر اللہ ہے ،لیکن وہ غیر مسلم جس کے ساتھ اچھے تعلقات ہو ،پڑوس ہو یا عام معاشرتی زندگی ہو تو ان کے تہواروں پر انہیں مبارک باد دینے میں کوئی قباحت نہیں ہے ،اور اس کو عرف زمانہ کی وجہ سے جائز قرار دیتے ہے کیونکہ موجودہ دور میں اتنا سخت موقف اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ۔
کیونکہ قرآن کریم میں بھی ان کافروں کے ساتھ جو مسلمانوں سے ن قتل کرتے ہے اور نہ ان کو اپنے گھروں سے نکالتے ہیں ،اچھے حسن سلوک ،اور بہترین معاشرتی زندگی سے منع نہیں کیا ہے بلکہ اجازت دیا ہے ، تو غیر مسلموں کو ان کے تہواروں پر مبارک باد دینا حسن معاشرت کے اندر داخل ہے ۔
۔باب سوم: قدیم اور معاصر فقہاء کی آراء کا تجزیہ ،اورشرکت کی حدود
فصل اول
قدیم اور معاصر فقہاء کے اقوال کا تجزیہ
پچھلے صفحات کے اندر قدیم و معاصر فقہاء کی آراء کا ذکر کیا گیا ہے جس میں دو پہلو سامنے آتے ہیں ایک یہ ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار وں میں شرکت اور دوسرا غیر مسلموں کو ان کے تہوار وں پر مبارک باد دینا ، اس حوالے سے قدیم اوربعض معاصر فقہاء کی آراء مختلف ہے ۔
قدیم فقہاء کے اقوال کا جوحاصل ہے وہ یہ ہے کہ غیر مسلموں کے تہواروں میں نہ شرکت جائز ہے اور نہ ان کو مبارک باد جائز ہے ،کیونکہ اسلام ایک جامع اور مکمل دین ہے ،اس میں بندہ اپنی طرف سے کسی کو داخل نہیں کرسکتا حدیث مبارکہ میں آیا ہے:
“عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد”
سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے بھی کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہماری طرف سے کوئی حکم نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔
مذکورہ حدیث کا تشریح کرتے ہوئے علامہ ابن رجب ؒ فرماتے ہے :
“وهذا الحديث أصل عظيم من أصول الإسلام ، وهو كالميزان للأعمال في ظاهرها كما أن حديث: «الأعمال بالنيات» ميزان للأعمال في باطنها، فكما أن كل عمل لا يراد به وجه الله تعالى فليس لعامله فيه ثواب، فكذلك كل عمل لا يكون عليه أمر الله ورسوله، فهو مردود على عامله، وكل من أحدث في الدين ما لم يأذن به الله ورسوله، فليس من الدين في شيء”
“یہ حدیث دین اسلام کی اصولوں کا ایک بہت بڑابنیادی اصول ہے ، اور یہ حدیث ظاہری اعمال کے لئے بنیاد ہے ، جس طرح یہ حدیث ” کہ تمام اعمال کا دارامدار نیتوں پر ہے ” باطنی اعمال کے لئے بنیا د ہے،جب کوئی عمل ایسا ہو جس میں اللہ تعالی ٰ کی رضا نہ ہو ،اس پر کوئی ثواب نہیں ملے گا،بالکل اسی طرح وہ عمل جس کا اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے حکم نہ دیا ہو تو کرنے والے پر مردود ہے ،اور جس نے بھی اپنی طرف سے کوئی ایسا عمل ایجاد کیا ،تو اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے “
مذکورہ تشریح سے معلوم ہوا کہ مسلمان سے زندگی کے اندر جو قول یا فعل صادر ہوگا ،اگر اس پر شریعت نے حکم دیا ہو پھر تو صحیح ورنہ الٹا اس پر وبال ہوگا ۔لہذا غیر مسلم تہوار پر نہ تو شریعت نے حکم دیا ہے اور نہ جائز قرار دیا ہے ،حتی کہ خیر القرون (دور صحابہ کرام،تابعین تبع تابعین) میں کسی سے بھی غیر مسلموں کے تہوار شرکت ثابت نہیں ہے ۔
بلکہ دین اسلام ہمیں اغیار کی روش اختیار کرنے منع کیا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اللہ کے رنگ میں رنگ ہوجاؤ،اور وہ ہے اسلام اور اس کے احکامات ، اس کے علاوہ اغیار کے تہوار میں اور ان کی مشابہت اختیار کرنے میں مسلمان اپنی دنیا و آخرت ناکام بنادیتا ہیں ۔ اور کل قیامت میں بھی رسوائی کا سامنا ہوگا،اس لئے متقدمین نے غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت یا ان کو مبارک باد دینے سے سختی سے منع کیا ہے ۔
دوسری طرف معاصر ین میں بعض علماء خاص کر جو یورپین کونسل سے تعلق رکھتے ہے،یا ہمارے ہاں ہندوستا ن میں بعض محققین کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت اگر چہ جائز نہیں ہے ،لیکن ان کو مبارک باد دینا جائز ہے .
لیکن یہ تحقیق ان علماء کا اس لئے ہے کہ یورپ میں ،ہندوستان میں یا جہاں بھی مسلمان اقلیت میں ہو تو وہاں کے اکثر علماء کی رائے یہی ہے کیونکہ اگر مسلمان ان کے تہواروں میں شرکت نہ کریں اور مبارک باد بھی نہ دیں تو وہی غیر مسلم ان سے منتشر اور متنفر ہوجائے گی،جس کے نتیجے میں پھر مسلما ن پر ظلم و ستم کیا جائے گا،اور یہ ان کا ایک انتقامی سلوک ہوگا ۔
فصل دوم
کافروں کےسماجی اور ثقافتی تہواروں میں شرکت کی حدود
ایک معاشرے کے اندر بہت سی قومیں رہتی ہیں ،جن کا تعلق مختلف مذاہب ونظریات سے ہوتاہے ،اور یہ فطرت انسانی میں داخل ہے کہ معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے او ر ایک اچھا معاشرہ تشکیل کر کے امن کے ساتھ زندگی گزاری جائے ،لیکن اسلام نے جو حدود مقرر کیے ہیں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور ان کی پامالی کی صورت میں اللہ رب العزت نے وعید سنائی ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :
“لا یَنْہٰکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن”
’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات کے حوالے سے یہ آیت بطور دلیل ذکر کی جاتی ہے اور اس سے مفسرین نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ جہاں غیر مسلم اقلیت میں ہوں تو ان کے ساتھ معاشرے میں اچھا برتا ؤ کیا جائے ۔ مکی عہد میں مسلمان مشرکین کے ساتھ رہتے تھے۔حبشہ میں مہاجرین عیسائیوں کے درمیان اور مدینہ کے اطراف میں یہودیوں کے قبائل آباد تھے اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی معاشرتی تعلقات جاری تھے ۔ ان مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خوش گوار سماجی تعلقات تھے۔ نبی کریمﷺ نے ان پر کبھی بھی غیر قانونی پابندیاں نہیں لگائیں ۔ ہر مذہب کے اندر کچھ مخصوص تہوار اور تقریبات منائی جاتی ہیں لیکن ان میں سماجی بھی اور مذہبی بھی ہو سکتی ہیں،غیر مسلموں کے ہاں جو مذہبی تہوار ہیں ان میں شرکت حوالے سے پچھلے صفحات کے اند ر دلائل ذکر کیے جا چکے ہیں ،لیکن جو تہوار خالص مذہبی نہ ہو بلکہ سماجی اور ثقافتی ہو تو کیا ایک مسلمان کے لئے اس میں شرکت جائز ہوگی ؟اس حوالے سے فقہاء امت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اکثر متقدمین فقہاء کی رائے یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ہر قسم تہواروں میں شرکت جائز نہیں ہے بلکہ اس سے اجتناب کرنا چاہیے،لیکن معاصر علماء کے ہا ں ان کے ثقافتی تہواروں میں شرکت حدود کے اندر جائز ہے ۔ ان حدود کے حوالے سے اختصار کے ساتھ بحث کی جائے گی۔
• شرکیات سے اجتناب:
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اسلام کا سب سے پہلا رکن توحید ہےجس کے بغیر کوئی بندہ مسلمان نہیں رہ سکتا ۔کیونکہ توحید اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ اس کے مقابلہ میں اس نے شرک پر سخت تنقید کی ہے۔ قرآن کریم کے نزول سے پہلے عرب اور عجم شرک و بت پرستی میں مبتلا تھے ۔ اوراللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا ظلم اور بدترین جرم ہے۔یہ ایسی خوفناک غلطی ہے کہ جو شخص شرک میں ملوث رہا اور توبہ کیے بغیر مر گیا اور اللہ کے ہاں اس حال میں حاضر ہو کہ ساتھ میں شرک لیے ہوئے ہے تو اس کا یہ گناہ اس دوزخ میں لے جائے گا کیونکہ یہ اللہ کی کتاب میں ناقابل معافی گناہ ہے اور اس کے مرتکب پر اللہ نے جنت حرام کر دی :
إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَآء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْماً عَظِیْماً” ’’اللہ بس شرک کو ہی معاف نہیں کرتا، اس کے ما سوا دوسرے جس قدر گناہ وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھہرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی”
“عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ألا أنبئكم بأكبر الكبائر؟ ثلاثا ،الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وشهادة الزور – أو قول الزور ، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم متكئا، فجلس فما زال يكررها حتى قلنا: ليته سكت”
عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپﷺ نے یہی فرمایا -پھر فرمایا کہ-اللہ کے ساتھ شرک کرنا (یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے ) دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اور رسول اللہﷺ تکیہ لگائے بیٹھے تھے ، آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ فرمانے لگے ،تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں، حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپﷺ خاموش ہو جائیں۔
معلوم ہو ا کہ شرک اللہ تعالی معاف نہیں فرماتا تو ایک مسلمان کس طرح اتنی جرأت کرکے رب کریم کے غضب کو دعوت دیتا ہیں، اس لیے غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کرتے وقت ان تمام اعمال سے لازماً پرہیز کیا جائے گا جو صراحۃً شرکیہ ہوں، یا ان میں شرک کا شائبہ پایا جاتا ہو۔
• غیر مسلموں کو سلام کرنا
مسلمانوں کو جن الفاظ سے سلام کا حکم دیا گیا ہے غیر مسلموں کو ابتداءً اسی طرح سلام کرنا جائز نہیں ہےکیونکہ یہ اہلِ اسلام اور اہلِ جنت کا تحیہ ہے، یعنی مخاطب کو متعین کرکے اسے سلامتی کی دعا دینا اور السلام علیکم کہنا۔ البتہ اگر غیر مسلم سلام میں پہل کرے تو اسے سلام کا جواب دے دینا چاہیے، لیکن جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ پورا نہیں کہا جائے ، بلکہ صرف ’’وعلیک‘‘ کہنے پر اکتفا کیا جائے ۔ اور اگر غیر مسلم کو ابتداءً سلام کرنا پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اس کا حل بھی موجود ہے، نبی کریم ﷺ نے غیر مسلم حکمرانوں کو مختلف خطوط ارسال فرمائے تھے ان کی ابتدا میں نبی کریم ﷺ نے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘ کے الفاظ تحریر فرمائے، چناں چہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ عمومی احوال میں غیر مسلموں کو ابتداءً سلام نہ کیا جائے، ہاں اگر کسی موقع پر اس کی ضرورت ہو تو مخاطب کو متعین کیے بغیر عمومی الفاظ میں سلام کے الفاظ کہے جائیں جیسے ’’اَلسَّلَامُ عَلَی مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ‘‘، یعنی اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ لہٰذا ضرورت کے مواقع پر ابتداءً ان الفاظ میں سلام کرنے کی اجازت ہے۔
“عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” إذا سلم عليكم اليهود، فإنما يقول أحدهم: السام عليك، فقل: وعليك”
“جب تم کو یہود سلام کرتے ہیں تو وہ کہتے السام علیک۔ وہ یہ لفظ استعمال کرتے تھے اس کا معنی ہے تم جلدی مرجاؤ۔ تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جواب میں تم بھی یہی الفاظ کہو وعلیکم یعنی تم کو بھی ایسا ہی ہو”
لہذا کسی غیر مسلموں کی تہوار میں شرکت کرنا ہو تو اس کو “السلام علیکم” کے الفاظ سے سلام نہیں کیا جاسکتا ۔ غیر مسلم کو سلام کر نے کے تعلق سے احادیث میں مختلف احکام ملتے ہیں۔ بعض احادیث میں انھیں سلام کرنے سے منع کیا گیا ہے، جب کہ بعض صحابہ و تابعین سے ثابت ہے کہ وہ انھیں سلام کرتے تھے۔بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مجمع میں اگر غیر مسلموں کے ساتھ کچھ مسلمان بھی ہوں تو سلام کیا جا سکتا ہےالبتہ اس بات کا ضرور خیال رکھنا ہوگا کہ تعلقات کے اظہار میں ایسے طریقے نہ اختیار کیے جائیں جو کسی دوسرے مذہب یا تہذیب کے مخصوص شعار کی حیثیت رکھتے ہوں اور ایسے الفاظ نہ استعمال کیے جائیں جو اسلامی عقائد سے متصادم ہوں ۔
• غیرمسلموں کی مشابہت سے اجتناب کیا جائے
غیر مسلموں کے تہواروں اہم چیز جس کاخیال رکھنا انتہائی اہم ہے ۔ وہ یہ کہ دین اسلام میں مسلمانوں کو اپنا تشخص برقرار رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور انھیں دیگر قوموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے:
“عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تشبه بقوم فهو منهم”
“حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے‘‘
عہد نبویؐ میں یہود و نصاریٰ کا شمار مذہبی اقوام میں ہوتا تھا۔ عبادات اور معاشرت میں وہ بہت سے ایسے کام انجام دیتے تھے جو ان کی پہچان بن گئے تھے۔نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کو ان اعمال میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا،لہذا جو بھی غیروں سے مشابہت اختیار کریں وہ انہی میں سے ہے ،یعنی ان کاحشر بھی ان کافروں سے ہوگا جس کی مشابہت وہ اختیا ر کررہے ہوتے ہیں ۔
• کھانے کی چیزوں میں احتیاط کرنا چاہیے
عام طور پر جہاں بھی کوئی پروگرام ہو، چاہے وہ مسلمانوں کا ہو یا غیر مسلموں کا ان میں بالخصوص کھانے کا اہتمام ضرور کیا جاسکتا ہے،لہذا جو مسلما ن اگر غیر مسلموں کی کوئی تقریب میں جانا چاہے تو کھانے کے حوالے سے اسلام نے جو بنیادی تعلیمات دی ہیں انھیں تقریبات میں بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے:
اسلام میں جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے ان میں سے ایک خنزیر ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کی صراحت آئی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْر”
’اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ تم مردار نہ کھاؤ، خون اور سور کے گوشت سے پر ہیز کرو‘‘
غیر مسلموں کی تقریبات میں شراب اور دیگر نشہ آور مشروبات کا استعمال عام ہے۔ اسلام میں اس کو صراحت کے ساتھ حرام قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ـ
یاآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ”
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ شراب، جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں۔ ان سے پر ہیز کرو۔ امید ہے کہ تمھیں فلاح نصیب ہوگی‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل مسكر خمر، وكل مسكر حرام، ومن مات وهو يشرب الخمر يدمنها لم يشربها في الآخرة”
’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اورہر نشہ آور چیز حرام ہے،اور جو بھی اس حال میں مرگیا کہ وہ شراب پی رہا تھا ،تو آخرت میں کبھی بھی شراب نہیں پی لے گا ‘‘
اسی طرح قرآن مجید میں محرمات کی جو فہرست دی گئی ہے، اس میں یہ بھی ہے وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللہ”
غیر مسلموں کے ہاں جن جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس حوالے سے حکم یہ ہے کہ حرام ہے،اس لئے اس کا لحاظ رکھنا لازم ہے ، البتہ اس معاملہ میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو مستثنیٰ رکھا گیا ہے کہ ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
الْیَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُم “
’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے‘‘۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہے : ’’
اہل کتاب کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہونے کی عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرہ کا اعادہ فرما دیا گیا ہے کہ’’ تمھارے لیے پاک چیز یں حلال کر دی گئیں ہیں ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ِ کتاب اگر پاکی و طہارت کے ان قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں، یا اگر ان کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ مثلا ً اگر وہ اللہ کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں یا اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیں تو اسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اسی طرح اگر ان کے دستر خوان پر شراب یا سور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے‘‘
لہذا جو احکامات دین اسلام ہمیں دیتا ہے اس کی پیروی کرنی ہے ،اور غیر مسلموں کی کھانے کے حوالے سے انتہائی احتیاط سے کام لے۔ایسا نہ ہو کہ غیر مسلموں کے تہوار میں شرکت کر کے حرام چیزوں کا ارتکاب کریں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق بن جائے ۔
خاتمہ
نتائج بحث
غیرمسلموں کے تہوارو ں میں شرکت سے متعلق تفصیل کے ساتھ قرآن وسنت اور فقہاء کرام کی آراء کا ذکر کیا گیا ہے جس کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ۔قرآن کریم،احادیث رسول ﷺ،اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے مذکورہ بالا فرامین کی روشنی میں ، کافروں سے دوستی، اُن کےمذہبی تہواروں میں کِسی قسم کی شمولیت جائز نہیں ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے ہدایت کا سامان رکھتی ہے ،اسی بنیاد پر یہ بات واضح ہے کہ اس میں انسان کے تمام معاملات سے متعلق اصول فراہم کردیے گئے ہیں جن کی روشنی میں ہردور کا انسان اسلامی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوسکتا ہے ۔
یہ بات بھی خُوب یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت کے احکام مختلف علاقوں کی عادات اور مختلف لوگوں کی مُعاشرتی دلچسپیوں یا لگاؤ، یا مجبوریوں سے أخذ نہیں کیے جا سکتے، بلکہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات سے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے اخذ کیے جاتے ہیں، اور وہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال کے مُطابق نہ کہ ہر کس و ناکس اپنی اپنی سوچ و فِکر کی بنا پر ایسا کرنے کا اہل ہے۔
اگرچہ اسلام نے مذہبی رواداری کی اجازت دی ہے لیکن اس کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ یہ رواداری لامحدود ہے۔ لہذا غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت ، ان کے تہواروں کی تعریف ، ان کو مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا ، ان کے تہواروں میں ان کی مشا بہت اختیار کرنا جیسے کام کرنا اسلامی شریعت میں سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کام کرتا رہا ہے تو اس پر توبہ کرنا اس گناہ سے اجتناب کرنا لازم ہے ۔
یہ بھی واضح ہے کہ راقم نے غیر مذہبی تہواروں کے حوالے سے جو خلاصہ ذکر کیا ،یہ کسی بھی طور مذہبی رواداری کے خلاف نہیں۔ کیونکہ یہ حکم کفار کے دینی اور ان تہواروں میں شرکت کا ہے جو اہلِ کفر کا شعاروعلامت ہیں، نہ کہ کسی ذاتی تقریب کا، اگر کوئی مسلمان اسلامی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے کسی غیر مسلم کی گھریلو تقریب میں یا غیر مذہبی مثلاً ثقافتی ، یاسماجی پروگرامات میں شریک ہوتا ہے تو شریعتِ اسلامیہ میں اس کی گنجائش موجود ہے، جب تک مقررہ حدود کو پامال نہ کیا جائے۔
اسی امر سے متعلق علامہ ابن نجیم حنفی ؒ نے اپنی کتاب ’’الأشباہ والنظائر‘‘ میں ایک قاعدہ ذکر کیا ہے :
“ولا تکرہ ضیافتہ”
یعنی اسلامی ریاست میں بسنے والے غیر مسلم کی دعوت کو قبول کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔لیکن یہ اجازت اسی وقت ہے جبکہ وہ تقریب کفار کی دینی تقریب اور ان کی مذہبی علامت نہ ہو ، اور اگر وہ تقریب کافروں کا دینی تہوار اور ان کا مذہبی شعار ہو تو اب کسی مسلمان کو اس میں شرکت کی اجازت نہیں۔لیکن مسلمان لیڈر کے لئے ان کے سماجی اور ثقافتی تہوار میں بھی شرکت سے اجتناب کرنا چاہیے ،کیونکہ اگر وہ شرکت کرتا ہو تو ان کے متبعین بھی ضرور ان کی شرکت کو دلیل بناتے ہوئے شریک ہوں گے ۔
سفارشات
موجودہ دور میں مسلم ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرنے کی عام دعوت دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ایک عام مسلمان مذہبی رواداری کے جھانسے میں آکر شریک ہوجاتا ہے اور اپنے ایمانی تقاضوں سے آہستہ آہستہ ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔اس مقالہ کی وساطت سے مسلم مماک کی حکومتوں سے درخواست ہے کہ حکومت کی جانب ایسے امور پر پابندی عاید کی جائے جس کے نتیجے میں مسلمان غیر مسلموں کے تہواروں میں آسانی کے ساتھ شرکت نہ کرسکے ۔
عصر حاضر میں اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی مکمل تعلیمات کو عامۃ الناس تک پہنچانے کی ذمہ داری کو احسن انداز میں پوراکریں اور بالخصوص عقاید کے معاملات آسان فہم انداز میں لوگوں کو سمجھائے جائیں ۔
مسلم معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اپنے دین کی مکمل تعلیمات سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کیا جائے اور جو بھی مسئلہ پیش آئے تو اس صورت میں اہل علم کی طرف رجوع کرکے ان مسائل کا شرعیت کی روشنی میں حل طلب کیا جائے ۔
علماء کرام ،اسلامی تحریکوں کی قیادت کا فرض ہے کہ ہر اس کام سے اجتناب کریں جن کی شریعت میں اجازت نہیں دی گئی بالخصوص ایسے معاملات میں جن کاتعلق عقاید سے ہو تاکہ ایک عام فرد کوقیادت کے عمل کو دلیل بناکر اس کام خود نہ کرے ۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر اس کام کی توفیق عطا فرمائے جس کا حکم اس نے دیا ہے اور ان تمام امور سے اجتناب کرنے کی توفیق دے جن کاموں سے منع کیا ہے ۔