قلب ماہیت(استحالہ )کا شرعی احکام پراثرات:ایک جائزہ

مقالہ نگار: جلال الدین سرکانی

|

نگرانِ مقالہ: مولاناڈاکٹر حبیب الرحمٰن

|

|

مقدمہ

موضوع کی تعارف ،اہمیت اور ضرورت:
الحمدلله الذي اخرج الرزق الطيب لعباده من بين فرث ودم لبنا خالصا سا ىِٕغا للشاربین و الصلاة والصلام علٰی رسوله محمدﷺ واله ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین۔
امّا بعد:
اللہ تعا لیٰ نےجو چیزیں اس دنیا میں پیدا کی ہیں، ان کو تغیر وتبدل کا محل بھی بنایا ہے یہ تغیر صورت کے اعتبار سے بھی اور صفت کے اعتبار سے بھی رونما ہوتی ہے یہ تبدیلی ماہیت انسان کیلئے اللہ کی رحمت ہے کیونکہ انسان بھی اس تغیر سے گزر کر ایک ناپاک قطرہ سے بناہے اور ساتھ ہی اس کی غذا بھی قدرتی تغیرسے پیدا ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض چیز یں تغیر سے ناپاک ہو جاتی ہیں جیسے انسان پھل کا رس پی لیےتویہ پیشاپ کی شکل میں بلاتفاق ناپاک بن جاتا ہیں اور بعض ناپاک اشیاء تغیر سے پاک ہو جاتی ہیں جیسے شراب سرکہ بن جانے سے حلال اور پاک ہو جاتی ہیں لیکن بعض ناپا ک چیزوں کوپاک ہوجانے میں علماء کے درمیان دو مختلف نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ۔دور جدید میں بہت سے ناپاک اور حرام اشیاءمختلف ذرائع سے تغیر کرکےکھانے میں اس کا استعمال کیا جاتی ہےاس کے متعلق یہ ہیں
بنیادی سوالات
کیاقلب ماہیت سے حقیقت تبدیل ہو جاتی ہے ؟
کیاقلب ماہیت سے نجس کو طاہر اور حرام کو حلال قرار دیا جا سکتا ہے؟
اسلئے یہ ضرورت محسوس ہوئی قلب ماہیت کے متعلق نئے پیش آمدہ مسائل کےمتعلق شریعت کی روشنی میں اس کا حل واضح کیاجائے۔
سابقہ کام کا جائزہ :
 الاستحالۃ و اثرھا فی الطھارۃ و الحل’‘ڈاکٹر عبد ستار ابو غدہ’’
 أثر الأعلاف الصناعية في طهارة الحيوانات وحلها’‘ڈاکٹر محمد فالح مطلق بن صالح’’
 جدید فقہی مباحث ‘‘اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا’’
منہج تحقیق:
تحقیق بیانیہ اور تجزیاتی ہے۔قلب ماہیت سے متعلق ان سوالات کی تحقیق قران، حدیث اور فقہی اراءسے کی گئی ہے۔

خاکہ تحقیق:
یہ مقالہ تین ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب میں تمہیدی مباحث ہیں جس میں قلب ماہیت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف، قلب ماہیت کااحادیث میں ذکر، اور فقہاء کےآراء ذکر کی گئی ہیں۔
دوسری باب اس بات کی وضاحت ہو ئی ہے کہ موجودہ دور میں فوڈ انڈسٹری کی اشیاء جن مراحل گزارتے ہیں کیاواقعی اس میں قلب ماہیت ہیں اور اس سے نجس طاہر ہوتاہے یا نہیں اور اس کی حلت اور حمت پر کیا اثر ہے۔
باب تیسری میں قلب ماہیت کی اقسام کاذکر ہے ۔جس میں غذاوں اور عام اشیاءکا قلب ماہیت آلات، کمیکل اور حیوانات کے ذریعے قلب ماہیت ہوتی ہے اس کےعلاوہ موجودہ دورکے غذ اؤں کی ذ کر کی گئی ہیں اور ان کی استعمال کی شرعی حکم بیان ہواہےاور سا تھ ہی جدیدمسائل کا ذکر بھی کی گئی ہے ۔

باب اوّل :تمہیدی مباحث

قلب ماہیت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف

• لغوی تعریف
قلب کا معنیٰ پھیرنا، لوٹنا ،پلٹنا ہے ،ماہیت‘‘ ما ھو’’ سے ماخوذہے اس میں،ی،یائے نسبتی ہے جس کا معنیٰ ہے جس کی سبب سے شئ بناہوجس پر کسی چیز ‘‘مایقوم بہ الشی ‘’ ،تو ایک شئ کو اپنے موضوع لہ سے ہٹ کرغیرمو ضوع لہ کے کیلئے ہو جاناہے۔تو قلب ماہیت ایک حالت سے دوسرے حالت میں بدل ہوجانے کو کہتےہیں
التبدل من حال إلى حال۔ ‘‘ایک حال سے دوسرے حال میں بدل ہوجانا’’
• اصطلاحی تعریف:
قلب ماہیت ، استحالہ عین اور تحویل حقیقت کی واضح تعریف فقہا ء کے ہاں نہیں ملتی یہ تعریف موسوغہ الفقہیہ میں المصباح المنیر کے حوالے لکھی ہے۔کسی چیز کی طبعیت اور وصف کا بدل جانایا پہلی حالت پر لوٹنے کا امکان ختم ہوجائے۔
‘‘تَغَيُّرُ الشَّيْءِ عَنْ طَبْعِهِ وَوَصْفِهِ، أَوْ عَدَمِ الإْمْكَانِ
‘‘ایک چیز کی طبیعت اور وصف بدل جانا یا لوٹنے کا امکان ختم ہونا’’
فقہاءنے اس کو استحالہ کے نام سے استعمال کیاہےکہ
استحالہ بِمَعْنَى تَحَوُّل الشَّيْءِ وَتَغَيُّرِهِ عَنْ وَصْفِهِ.
‘‘استحالہ کی معنی ایک چیزکاایک حالت سےبدل ہوجانا اور اس کی صفات تبدل ہونا ہے’’
بعض فقہاء نےیہ تعریف کی ہے۔ کسی چیز کی ماہیت کااس طرح بدل جانا کہ اپنے سابقہ حالت پر واپس آنا ممکن نہ ہو۔
تغير ماهية الشئ تغيرا ” لا يقبل الاعادة، ‘‘کسی چیزکی ماہیت کا ایسی تغیر ہونا جس سے پہلے حالت کی طرف واپس جانا ناممکن ہو۔
استحالہ کا مفہوم یہ ہوا کہ کسی چیز کی ماہیت ، ذات ،اس کی بنیادی اساس جس ہیئت و حالت پر اس کا قیام ہو اور جس وصف کی وجہ سے اس کی وہ خاص حکم ہو، بدل کر کے اس کی ذات ، جنسیت وکیفیت نوعیت، اور اس کا وہ وصف بدل جائے جس کی بنیا د پر سابقہ حکم تھا ، اس کا عرف بھی بدل جائے یہی استحالہ کا مفہوم ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیزکےقلب ماہیت کے تحقق کےلئے اس میں بنیادی تبدیلی ضروری ہے۔ اس لحاظ اس رنگ ،صورت کیفیت مزہ اور بو اور ہر خاصیت بدلنا ضروری ہےتو پھر اس پر قلب ماہیت کا اطلاق ہوگا۔
فقہاء نےاستحالہ ، تحول عین ، استہلاک عین جیسے الفاظ اس لئے استعمال کیے کہ حکماء و عقلاء کے نزدیک قلب ماہیت ممتنع ہےان کے نزدیک چاندی سے سو نا بنانامحال ہے۔

     استحالہ (قلب ماہیت  )کا احادیث میں ذکر:  

استحالہ کے حوالے آحادیث میں دو چیزیں ایسےہیں جن کی قلب ماہیت ہو جائے تو تمام ائمہ اور فقہاء نزدیک بالاتفاق ان کا استعمال جائز ہے ایک میتہ کا چمڑا ہےجو دباغت سے پاک ہوجاتاہے،اور دوسراشراب ہے جس سے سرکہ بن جاتاہے۔کیونکہ یہ دونوں نص سے ثابت ہیں اور مختلف روایات میں بھی ان ذکرآیاہے۔
کہ مأ کول الحم جانور اگر مر جائے تو اس کا کھانا حرام ہے لیکن اس کی کھا ل کو اگر دباغت دی جا ئے تو وہ پاک ہو جاتی ہےپھر اس کو استعمال میں لانا جائز ہے۔
ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے:
عن ابن عباس عن ميمونة أن شاة لمولاة ميمونة مر بها قد أعطيتها من الصدقة ميتة ، فقال : ‘‘هلا أخذوا إهابها فد بغوه فانتفعوا به’’ قالوا : يا رسول الله : إنها ميتة ؟ قال : ‘‘إنما حرم أكلها’’.
‘‘ابن عباس ؓ میمونہؓ سے نقل کرتےہیں کہ رسول ﷺ میونہ ؓکی مولا کی بھیڑکے ہاں گزرا جو صدقہ میں دیا گیا تھا جو مرچکاتھا ک کیو نہ اس کھال کی اتارتی دباغت کرکے پھر اس سے فائدہ اٹھاتے انھوں نے کہا اے اللہ کے رسول یہ تو مرا تھا تو رسول ﷺ نے فرمایا، اس کی کھانا حرام تھا’’
دوسری حدیث میں ہے کہ دباغت سے کھال پا ک ہو جاتا ہے،
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ إِذَا دُبِغَ الإِهَابُ فَقَدْ طَهُرَ۔ ‘‘قال الألباني : صحيح.’’
‘‘ابن عباسؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ فرمارہے تھے جب کھال کو دباغت دی جائے تو یقینا وہ پاک ہو گی،شیخ البانؒی نے اس صحیح کہا ہے’’
عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نِعْمَ الإِدَامُ الخَلُّ.هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُبَارَكِ بْنِ سَعِيدٍ.
جابر ؓسے رویت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ بہترین سالن سرکہ کی ہے ، یہ مبارک بن سعید کی حدیث سے ذیادہ صحیح ہے۔
شراب اور میتہ کی کھال میں تغیرسےجوپاکی آتی ہے یہ منصوصی ہے اور منصوصی اشیاء میں اجتہاد نہیں کیا جا سکتا،اس لئے تمام فقہاء کا اس میں اتفاق ہے کہ شراب کےسرکہ بن جانےسے اور میتہ کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ جتنےاشیاء ہیں ان میں بعض نجس العین بھی ہیں ان کے استحالہ یا قلب ماہیت کی حکم میں فقہاء کی آراء میں اختلاف ہیں۔
قلب ماہیت ‘‘استحالہ ‘’فقہاء کی آراءمیں:
قلب ماہیت پہلے سےفقہاء کے درمیان ایک معرکۃالآراء مسئلہ چلا آرہا ہےبعض فقہاء نے ماہیت کی تبدیلی کوطہارت و نجاست کی علت کی تمام احکام میں موثر مانا ہے اور بعض فقہاء نے اسے مطلقا علت قرار نہیں دیاہے۔
اس میں فقہاء کے دو اقوال ہیں
پہلاقول یہ ہے کہ ‘‘نجس العین استحالہ سے پا ک ہوتا ہے۔’’
• حنفیہ کہتے ہیں کہ:
ہر قسم کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اور ابن عباس ؓ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ حدیث عام ہیں تمام جانورو ں کو شامل ہیں۔
‘‘ قَوْلُهُ وَكُلُّ إهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ ‘’ يَتَنَاوَلُ كُلَّ جِلْدٍ يَحْتَمِلُ الدِّبَاغَةَ لَا مَا لَا يَحْتَمِلُهُ ، فَلَا يَطْهُرُ جِلْدُ الْحَيَّةِ وَالْفَأْرَةِ بِهِ كَاللَّحْمِ ،وَعِنْدَهُمَا هُوَ كَسَائِرِ السِّبَاعِ ، وَاسْتَدَلَّ بِحَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنْهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { أَيُّمَا إهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ } رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ ۔
‘‘ ہر ایک کھال جس کی دباغت ہو ئے تو پا ک ہوجاتی ہے’’ یہ قول ان تمام کھالوں کو شامل ہے جن کو دباغت رہنا ممکن نہ ہو ۔ تو سانپ اور چوہے کی کھال پاک نہیں ہوگی جس طرح اس کا گوشت پاک نہیں ہوگا ،اور شیخین کے نزدیک یہ تمام درندو ں کو شامل ہے اور وہ استدلال ابن عباسؓ کی حدیث سے کر تے ہیں جس کھال کو بھی دباغت دی جائےتو پاک ہے۔ترمذی نےاس حدیث کونقل کیاہے اور صحیح بھی قرار دیا۔’’
• مالکیہ فرماتے ہیں کہ جس کھال کو رنگا جائے وہ پا ک ہو جائے گی کیونکہ رنگنے سے اشیاء کی نجاست ختم ہو جاتا ہے۔
علامہ قرافی مالکی فرماتے ہیں کہ :
ِأَنَّ قَوْلَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ مُطْلَقٌ فِي الطَّهَارَةِ وَإِنْ كَانَ عَامًّا فِي الْأُهُبِ وَالْأَصْلُ فِي الْمَيْتَةِ النَّجَاسَةُ فَيَتَعَيَّنُ الْمَاءُ لِمُطْلَقِ الطَّهَارَةِ لِقُوَّتِهِ وَالْيَابِسَاتُ لِعَدَمِ مُخَالِطِهَا وَبَقِيَ مَا عَدَا ذَلِكَ عَلَى الْأَصْلِ۔ وَلِأَنَّ الدِّبَاغَ يَرُدُّ الْأَشْيَاءَ إِلَى أُصُولِهَا قَبْلَ الْمَوْتِ وَالْحَيَوَانَاتُ عِنْدَنَا طَاهِرَةٌ
‘‘نبیﷺ کا قول کہ جوبھی جس کھال کو دباغت دی جا ئےتو پا ک ہوا یہ قول پاکی میں مطلق ہے اورکھالوں میں عام ہےاور اصل میتہ میں ناپاکی ہے ،تو ہم پانی مطلق نجاست دور کرنے کےلئےخاص کرتے ہیں اس کی قوت کی وجہ سے، اور خشک ہونااس کے ساتھ خلط نہ ہونےکی وجو دسے اور باقی کو اپنی اصل حالت پررہا کیونکہ دباغت اشیاء اپنی اصل کو لٹادیتی ہے موت سے پہلے اور حیوانات ہمارے نزدیک طاہر ہیں۔’’

• امام احمدؒسے ایک قول ہے کہ:
کہ دباغت کی حدیث عام ہیں تمام جانورو ں کی کھال کو شامل ہے۔
وَظَاهِرُ كَلَامِ أَحْمَدَ لِعُمُومِ لَفْظِهِ فِي ذَلِكَ؛ وَلِأَنَّ قَوْلَهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: أَيُّمَا إهَابٍ دُبِغَ فَقَدْ طَهُرَ يَتَنَاوَلُ الْمَأْكُولَ وَغَيْرَهُ وَخَرَجَ مِنْهُ مَا كَانَ نَجِسًا فِي الْحَيَاةِ؛ لِكَوْنِ الدَّبْغِ إنَّمَا يُؤَثِّرُ فِي دَفْعِ نَجَاسَةٍ حَادِثَةٍ بِالْمَوْتِ۔
‘‘امام احمدؒکا ظاہر کلام ہےکہ یہ لفظ عام ہے رسول ﷺکا یہ قول کہ جو بھی کھال کی دباغت ہو جائے تو پاک ہوا یہ مأکو ل الحم اور دوسرے جانورں کو بھی شامل ہےتو دباغت دینے سے وہ جانور نکل گئے جو نجس تھے تودباغت نجاست دور میں مئوثر ہے جو موت کی وجہ نجس ہوچکی تھی۔’’
• ظاہریہ فرماتے ہیں:
کہ خریدو فروخت ناجائز کیونکہ حدیث میں منع آیا ہےباقی اس سے فائدہ لینا جائز ہے اس طرح خنزیر نجس ہے اس کی کھال دباغت سے پاک ہوجاتی ہے ۔
علامہ ابن حز م ظاہری فرما تے ہیں کہ:
لقوله عليه السلام: ‘‘إنما حرم أكلها’’ فأباح ما عدا ذلك إلا ما حرم باسمه من بيعها والادهان بشحومها، ومن عصبها ولحمها * وأما شعر الخنزيز وعظمه فحرام كله، لا يحل أن يتملك ولا أن ينتفع بشئ منه، لان الله تعالى قال: ‘‘أو لحم خنزير فانه رجس’’ والضمير راجع إلى أقرب مذكور، فالخنزير كله رجس، والرجس واجب اجتنابه، بقوله تعالى: ‘‘رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه’’ حاشا الجلد فانه بالدباغ طاهر، بعموم قوله عليه السلام: ‘‘وأيما أهاب دبغ فقد طهر’’
‘‘رسولﷺ کا یہ قول اس کاکھانا حرام ہے، اس کے علاوہ جائز ہوا، البتہ وہ چیزیں حرام ہیں جس کا نام لیا گیا ہےاسکی فروخت اسکی چربی سے تیل بنانا،ہڈ ی اورگوشت حرام ہیں ، خنزیر کےبال اور ہڈی سارا حرام ہے اس کی تملیک اور اس سے فائدہ لینا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں’‘أو لحم خنزير فانه رجس’’ انہ میں ضمیر خنزیر کی طر ف ہے کہ خنزیر کی گوشت بھی حرام ہے کیونکہ یہ نجس ہے اور نجس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں ‘‘رجس من عمل الشيطان فاجتنبوه ‘’نجس اور گندہ عمل کر نا شیطان کاکام ہے تو اس سے منع ہوجاو، سوائے اس کی کھال کے یہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے رسولﷺ کا اس قول کو عموم سے جو کھال کی دباغت ہو جا ئے تو پاک ہوا ،یہ عام ہے ۔’’
• علماء معاصر کی اکثر کی رائے ہےکہ :
خنزیر ‘‘نجس العین ‘’ کی استحالہ ہو جائے تو پاک ہو جاتاہے۔مولانا محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ:
الخمائر والجلاتين المتخذة عن الخنزير:إن كان العنصر المستخلص من الخنزير تستحيل ماهيته بعملية كيمياوية، بحيث تنقلب حقيقته تماما، زالت حرمته ونجاسته، وإن لم تنقلب حقيقته بقي على حرمته ونجاسته، لأن انقلاب الحقيقة مؤثر في زوال الطهارة والحرمة عند الحنفية.
‘‘جلاٹین اگر خنزیر سے لیا ہو پھر اس مرکب کی ما ہیت میں کیمیا ئی عمل سے اس طرح بدلا کہ اس کے پوری حقیقت تبدیل ہو گی،تو اس کی حرمت اور نجاست ختم ہوگی،اور اگر اس کی حقیقت نہیں بدلی تو یہ نجس اور حرام ہو گا کیونکہ حقیقت میں تغیر حرمت اور طہارت میں احناف کے نزدیک موثر ہے’’
اس قول کے قائل علماء کتاب و سنت اورقیاس سے استدلال کرتے ہیں کہ کہ نجس العین استحالہ سے پا ک ہوتا ہے ۔
قران کی اس ایت سے استدلال کرتے ہیں’
‘وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ۔(اعرف157)
‘‘اور حلال کرتا ہے ان کےلئے پاک اور حرام کرتا ہے ان پر خبیث’’
تو یہ تمام اشیاءنجس اوصاف کےختم ہونے سےپاک ہو گیا۔
اس طرح یہ حدیث کو استدلال میں پیش کر تے ہیں “نعم الإدام الخل”اچھی سالن سرکہ ہے’’کہ تمام علماء خمر جب سرکہ بن جائے تو پاک بن جاتا ہے۔قیاس سے استدلال اسطرح کرتے ہیں جس طرح کھال دباغت سے شراب سرکہ بن جانے سے پاک ہو تا ہے باقی چیزیں کا پا ک ہو نا بھی معقو ل ہیں ۔
• شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ فر ماتے ہیں کہ:
سوچ بچار سے یہ بات ثابت ہو تا ہے کہ جو اشیا ءاللہ نے پیدا کی ہے وہ تحویل و تبد یل کی وجہ سے پیدا ہو ئے جس سے ایک نئی چیز بن گئی۔
الِاسْتِقْرَاءُ دَلَّنَا أَنَّ كُلَّ مَا بَدَأَ اللَّهُ بِتَحْوِيلِهِ وَتَبْدِيلِهِ مِنْ جِنْسٍ إلَى جِنْسٍ مِثْلُ جَعْلِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مَنِيًّا وَالْعَلَقَةِ مُضْغَةً وَلَحْمِ الْجَلَّالَةِ الْخَبِيثِ طَيِّبًا وَكَذَلِكَ بَيْضُهَا وَلَبَنُهَا وَالزَّرْعُ الْمَسْقِيُّ بِالنَّجِسِ إذَا سُقِيَ بِالْمَاءِ الطَّاهِرِ وَغَيْرِ ذَلِكَ فَإِنَّهُ يَزُولُ حُكْمُ التَّنْجِيسِ وَيَزُولُ حَقِيقَةُ النَّجِسِ وَاسْمُهُ التَّابِعُ لِلْحَقِيقَةِ وَهَذَا ضَرُورِيٌّ لَا يُمْكِنُ الْمُنَازَعَةُ فِيهِ؛ فَإِنَّ جَمِيعَ الْأَجْسَامِ الْمَخْلُوقَةِ فِي الْأَرْضِ فَإِنَّ اللَّهَ يُحَوِّلُهَا مِنْ حَالٍ إلَى حَالٍ وَيُبَدِّلُهَا خَلْقًا بَعْدَ خَلْقٍ
‘‘غور فکر سےہمیں ثابت ہو تا ہے وہ تمام چیزی جواللہ نے پیدا کی ہےوہ ایک جنس سے دوسری جنس کوتحویل سے اور تبدیل کی وجہ سے،جیسے شراب سے سرکہ بننا ،خون سے منی لوتھڑا سے بوٹی بننا، جلالہ کی گوشت سے نجاست پاک ہونا اس طرح اس کی انڈے اور اس کی دودھ ،وہ فصل جس کونجس پانی سے سیراب کیا جاتا ہے جب اس کو پاک پانی سے سیراب کیا جائے، اور اس کے علاوہ،تو اس کی ناپاکی کا حکم اور نجاست کی حقیقت ختم ہو جاتا ہے اور اس کا ،نام ،حقیقت کی تابع ہے یہ ضروری ہے اور جھگڑے کا امکان اس میں نہیں ،یقینا تمام اجسام زمین میں تمام مخلوق ہیں اور اللہ تعالٰی ان کو ایک حالت سے دوسرے حالت تبدیل کر تے ہیں اور ایک پیدائش سے دوسری پیدائش میں ۔’’
یہ تھے ان فقہاء کی آراء اور دلائل جن کا دعوٰی یہ تھا کہ نجس العین اشیاء کا استحلہ (قلب ماہیت )پاک ہو جاتے ہیں جو انپے دعوٰی کو نقلی اور عقلی دلائل سے ثابت کرتے ہیں ۔

دوسرا قول یہ ہے کہ :‘‘نجس العین استحالہ سے پاک نہیں ہوتا ہے’’
اب ان علماء کےآ راء کاذکر کرتے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ نجس العین میں جو بھی تبد یلی اور تغیر کیا جائے ناپاک ونجس ہی رہے گا سوائے ان اشیاء کے جو نص سے ثابت ہیں ۔
• شافعیہ فرماتے ہیں کہ:
• دو چیزوں کے علاوہ ایک میتہ کی کھال دباغت سے اور دوسراشراب سرکہ بن جانے سے ،باقی تمام نجس العین استحالہ سے پاک نہیں ہو تے ہیں ۔اگر پاخانہ راکھ اور کتا نمک کے کان میں گر کر نمک بن جا ئے تب بھی یہ اشیاء نجس ہی رہیں گے ۔
امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ پاخانہ اور میتہ کی ہڈی حقیقت بدلنے سے بھی طاہر نہیں ہوتی ۔
مَذْهَبُنَا أَنَّهُ لَا يَطْهُرُ السِّرْجِينُ وَالْعَذِرَةُ وَعِظَامُ الْمَيْتَةِ وَسَائِرُ الْأَعْيَانِ النَّجِسَةِ بِالْإِحْرَاقِ بِالنَّارِ وَكَذَا لَوْ وَقَعَتْ هَذِهِ الْأَشْيَاءُ فِي مَمْلَحَةٍ أَوْ وَقَعَ كَلْبٌ وَنَحْوُهُ وَانْقَلَبَتْ مِلْحًا وَلَا يطهر شئ مِنْ ذَلِكَ عِنْدَنَا۔
‘‘ہمارے مذہب ہیں کہ گوبر ،پاخانہ ، میتہ کی ہڈیاں اور تمام نجس العین اشیاءاگ میں جل جانے سے پاک نہیں ہوتے اور اس طرح یہ تمام اشیاء نمک کی کان میں گر جائے یا کتا گر جائے اور یہ نمک بن جائے ،ہمارے نزد یک ان میں سے کوئی پاک نہیں ہوگا۔’’
ابو اسحاق شیرای نے بھی کہا ہے کہ کو ئی نجاست استحالہ سے پا ک نہیں ہو تا سوا ئے سرکہ اور کھال کے ۔
ولا يطهر شيء من النجاسة بالاستحالة إلا شيئان: أحدهما جلد الميتة إذا دبغ وقد دللنا عليه في موضعه والثاني الخمر إذا استحالت بنفسها خلاً فتطهر
‘‘کوئی چیز قلب ماہیت سے پاک نہیں ہوتی مگر دو چیزیں ایک میتہ کی کھال جس کی دباغت ہوجائے ہم نےاپنی جگہ اس سے استدلال کیا ، دوسری شراب سے خود بخو د سرکہ بن جائے تو پاک ہوا’’
• حنابلہ فرماتے ہیں کہ:
خمر سےسرکہ بن جانے کے علاوہ تمام نجس العین طاہر نہیں ہوتی،اگر نجس عینی کومادہ میں تبدیل کیا جائے تب بھی اس پر نجاست کی حکم باقی رہے گی۔
ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ نجس العین پاک نہیں ہوتا سوائے شراب کے۔
ظَاهِرُ الْمَذْهَبِ، أَنَّهُ لَا يَطْهُرُ شَيْءٌ مِنْ النَّجَاسَاتِ بِالِاسْتِحَالَةِ، إلَّا الْخَمْرَةَ، إذَا انْقَلَبَتْ بِنَفْسِهَا خَلًّا، وَمَا عَدَاهُ لَا يَطْهُرُ؛ كَالنَّجَاسَاتِ إذَا احْتَرَقَتْ وَصَارَتْ رَمَادًا، وَالْخِنْزِيرِ إذَا وَقَعَ فِي الْمَلَّاحَةِ وَصَارَ مِلْحًا، وَالدُّخَانِ الْمُتَرَقِّي مِنْ وَقُودِ النَّجَاسَةِ، وَالْبُخَارِ الْمُتَصَاعِدِ مِنْ الْمَاءِ النَّجِسِ إذَا اجْتَمَعَتْ مِنْهُ نَدَاوَةٌ عَلَى جِسْمٍ صَقِيلٍ ثُمَّ قَطَّرَ، فَهُوَ نَجِسٌ.
‘‘ظاہر مذہب یہ ہے، کہ استحالہ سے کوئی نجس پاک نہیں ہوتامگر شراب پاک ہوتا ہےجب اسکی ماہیت بدل ہوکر خودبخود سرکہ بن جائے اسکے علاوہ پاک نہیں،جسےنجس اشیاءجل کر راک بن جائے،اور خنزیر نمک کی کان میں گر نمک بن جائے ،اپر جانے دھواں جو نجاست سے جلائی جائے اورنجس پانی سے اٹھنی والی باپ ،جب اس کو صراحی جسم میں جمع کی جائےبہایا جائے ، تو نجس ہے۔’’
مرداوی ؒ حنبلی فرماتے ہیں کہ آگ اور استحالہ سے نجس طاہر نہیں ہوتا اوریہ جمہورحنابلہ کی رائے ہے۔
‘‘وَلَا يَطْهُرُ شَيْءٌ مِنْ النَّجَاسَاتِ بِالِاسْتِحَالَةِ، وَلَا بِنَارٍ أَيْضًا إلَّا الْخَمْرَةَ’’ ، هَذَا الْمَذْهَبُ بِلَا رَيْبٍ. وَعَلَيْهِ جَمَاهِيرُ الْأَصْحَابِ. وَنَصَرُوهُ.
‘‘استحالہ اور اسطرح آگ سے کوئی نجس پاک نہیں ہوتا سوائےشراب کے،اس مذہب میں کوئی شک نہیں اور اس رائے پر ہمارے جمہور اصحاب بھی ہیں ‘’
• امام ابو یوسفؒ:
امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک تبدیلی ماہیت صرف غیر نجس العین میں ہوتا ہے نجس العین میں نہیں ہوتا ہے۔
بعض اشیاء کے با رے میں قول ہے کہ پاخانہ کو جلا کر راکھ بن جائے تو اس کی راکھ نجس ہو گا۔یعنی نجس العین کا استحالہ نہیں ہوتاہے۔
فتح القدیر میں ہےکہ:
وَالسِّرْقِينُ وَالْعَذِرَةُ تَحْتَرِقُ فَتَصِيرُ رَمَادًا تَطْهُرُ عِنْدَ مُحَمَّدٍ خِلَافًا لِأَبِي يُوسُفَ، وَكَلَامُ الْمُصَنِّفِ فِي التَّجْنِيسِ ظَاهِرٌ فِي اخْتِيَارِ قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: خَشَبَةٌ أَصَابَهَا بَوْلٌ فَاحْتَرَقَتْ وَوَقَعَ رَمَادُهَا فِي بِئْرٍ يُفْسِدُ الْمَاءَ
‘‘گوبر اور پاخانہ جلایا جائےاوروہ راکھ بن جائے تو امام محمد ؒ کے نزیک پاک ہے اور قاضی ابو یوسف ؒ کی نزدیک یہ راکھ نجس ہے اور مصف ابن الہمام الحنفی نے بھی ان کی نجس ہونے کی قائل ہیں امام ابو یوسف ؒ کی قو ل کو بہتر کہا ہے اور فرماتے ہیں کہ لکڑی پاخانہ سے گندہ ہو تو جل گیا اور اس کی راک پانی کےکنواں میں گرا ،تو پانی کو گندہ کرے گا۔’’

• راجح:
امام ابو یوسف ؒ کا قول کہ تبدیلی ماہیت صرف غیر نجس العین میں ہوتا ہے نجس العین میں نہیں ہوتا ہےیہ راجح قول ہے۔
احناف اور مالکیہ دباغت کی حدیث کو عام کر تے ہیں ،اورحنابلہ اور شافعیہ اس حدیث کوخاص کر تے ہیں کہ نجس اشیاءنجس ہی ہیں اور جلالہ کی حدیث میں رسولﷺ نے نجس کھانے والے جانورں سے منع بھی فرمایا،
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْجَلَّالَةِ وَأَلْبَانِهَا»
‘‘رسولﷺ نے گندگی کھانے والے جانوروں کے کھانے ور اس دودھ سے منع فرمایا۔’’
اگر استحالہ سے نجس پاک ہو جاتا تو منع نہ فرماتےتو نجس العین میں استحالہ موثر نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ ایک حکیم ذات اس نے وہ تمام چیزیں حرام کی ہیں جس میں انسانوں کے روح اور صحت کیلئے نقصان ہواور نجس العین اشیاءجس شکل میں بھی تبدیل ہوجائےنجاست اور نقصان کا اثر رکھتا ہے لیکن آج کی دور میں ان چیز وں سےبچناسے مشکل ہیں۔اضطرای حالت میں شریعت میں حرام اشیاءکھنے کی جوازہےارشاد باری تعالیٰ ہے،وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ’’
‘‘اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو جو تم پر حرام کی ہے تفصیل تم کو بتا دی ہےاور یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ حرام چیزیں بھی مجبوری اور اضطرای حالت میں حرام نہیں رہتی’’
اس آیت کی تفصیل میں ڈاکٹر اھبۃ زحیلی فرماتے ہیں کہ ضرورت کے وقت بقدر ضرورت حرام کھانے کی اجازت ہے۔
إباحة المحرّمات حال الضرورة الشرعية بقدر ما تقتضيه الضرورة
‘‘شریعت نےضرورت کی وقت بقدرضرورت حرام چیز کھانے کی اجازت ہے’’
مولانا اختر امام عادل صاحب فرماتے ہیں کہ:
قلب ما ہیت کی اعتباری حیثیت میں عموم بلوی کا بڑا دخل ہے اور عموم بلوی کا زیادہ ترمسائل کی اَساس تساہل اور چشم پوشی پر ہوتی ہے ،ان عام لوگوں کودقتوں سے بچانے کیلئے کئی طرح کے منفی امکانات و احتمالات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
فقہ اکیڈمی کافیصلہ ہےکہ :
اگر حلال و پاک اشیاء میں حرام وناپاک شئی کا اختلاط ہو ،اصل حقیقت تبدیل نہ ہو تو حرام اور ناپاک ہی باقی رہے گی۔
مناسب یہ ہے کہ وہ غذائیں جس میں نجس اشیاءشامل ہوکر استحالہ بھی ہواہو،عمو م بلویٰ کی وجہ سے ان اشیاء کے کھانے کی اجازت ہیں لیکن نہ کھانا بہتر ہے۔

باب دوم: قلب ماہیت کے شرعی احکام پر اثرات

قلب ماہیت سےحقیقت تبدیل ہوتی ہے یا نہیں؟
کسی چیز کی حقیقت کی تبدیلی،اس کی جوہری عناصر اورمجموعی مزاج میں تبدیلی کے لحاظ سے علماءنے مختلف معیارات ذکر کی ہیں ،ایک رائے یہ ہیں کہ صرف رنگ ،بو اور مزہ ، ان تین اوصاف کو بنیادی عناصر ماناگیا ہے ،اوران کے بدلنے کو حقیقت کی تبدیلی کامعیار ہے۔دوسرے علماء کے رائے یہ ہے،کہ ان تین اوصاف کے علاوہ ،وہ امور بھی بنیادی عناصر میں شامل ہیں کہ ایک چیز کی خاصیت اور تاثیر کا بدلنا، عمومی مزاج کو بدلنا اور امتیازات کا بدلنا بھی شامل ہیں ۔مولانا سعیدالرحمٰن فاروقی صاحب نےکہاہے کہ شئی کا بنیادی عناصر میں مکمل تبدیلی لازمی نہیں اور دلیل میں یہ بات کہاہے کہ شراب کاسرکہ بن جانے سے صرف سکر کی کیفیت زائل ہوتی ہے۔
• سابقہ خواص کا اثر
اشیا ء میں سابق خواص کے اثر کے بارے میں خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ رنگ ،بو اور مزہ یہ اوصاف مکمل طور پر تبدیل ہوجائے لیکن سابق حقیقت کے بعض کےبعض خواص باقی رہ جائیں تو وہ انقلاب حقیقت میں مانع نہیں ہیں کیونکہ شراب سرکہ بن جائےتو رقت سیلان کی کیفیت باقی رہتی ہے۔لیکن مولانا ابوعاص وحیدی اور کئی دوسری علماء کہتے ہیں کہ ایک چیز میں سابق خصوصیات و اجزا باقی ہے تو یہ چیز انقلاب ماہیت میں مانع ہے۔
ہرچیز کی اپنی طبعی خصوصیات اورفطری اوصاف ہوتے ہیں ،ضروری نہیں کہ ہر چیز میں تبدیلی کا وہی ضابطہ جاری ہو جو پانی میں جاری ہوتا ہے ،مختلف اشیاءمیں بعض ایسی چیز بھی ہو سکتی ہےجس میں کوئی ایک وصف طبعی اور فطری ہو اسی کی تبدیلی پر ماہیت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے،جیسے شراب سے نشہ کی وصف ختم ہو کر سرکہ بننا،اس لئے وصف کامکمل خاتمہ تبدیلی حقیقت کے لئے ضروری ہےیا زیادہ سے زیادہ تر حصہ ختم ہو جانا کافی ہے۔
البتہ مولانا عبد القدوس ندوی صاحب بہت ضروری بات فرماتے ہیں کہ‘‘خلقی نجس العین یعنی جسکی مکمل ذات پیدائشی طور پر نجس ہو جسے پیشاپ، پاخانہ اور خنزیر وغیرہ یہ جزوی تبدیلی سے پاک نہیں ہونگے تا آنکہ پوری ذات بدل نہ جائے،جسے پاخانہ زمین سے پڑھے رہ جانے سے مٹی بن جائے نہ کہ دھوپ سے خشک ہو جائے۔
اس لئے حقیقت کی تبدیلی کے لحاظ سے اشیاء کے معیارات مختلف ہیں ،لیکن نجس العین اشیاء کا کی ذات کامکمل تبدیل ہونا لازمی ہے ورنہ ان کا استعمال جائز نہیں ہو گا۔

نجس اور طاہر،حلت وحرمت پرقلب ماہیت کی اثر
🦌 اللہ تعالٰی اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئےفرمایا ہیں کہ اپنے آپ پرحلال اشیاء حرام نہ کرو،
ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّالْمُعْتَدِين’‘المائدۃ۸۷’’
‘‘اے ایمان والوں جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہارے لئے حلام کی ہےان کو حرام نہ ٹھراؤ اور حد سے تجاوز نہ کرو اللہ حد سے تجاوز کرنے والو ں پسند نہیں کرتا’’
اس آیت کی تفسیر میں مولانامودودی ؒ فرماتے ہیں کہ حد سے تجاوز کرنا وسیع مفہوم کا حامل ہیں حلال کو حرام کرنا اور خدا کی ٹھرائی ہوئی پا ک چیزوں سے اس طرح پرہیز کرنا کہ گویاوہ ناپاک ہیں یہ بجائے خود ایک زیادتی ہے پھر پاک چیزوں کے استعمال میں اسراف وافراط بھی زیادتی ہے،پھر حلال کی سرحد سے باہر قدم نکال کر حرا م کی حدودمیں داخل ہونا بھی زیادتی ہے اللہ کو یہ تینو ں باتیں ناپسندہیں
اسلا م نے حرام وحلال ،طاہر اور نجس کی واضح اصول متعین کئے ہیں نجاست جس سے طبیعت کراہت کرتی ہے بلاشبہ خبائث میں داخل ہیں اور اس کا استعمال اسلام میں حرام ہے، لیکن نجاست کی ہیئت بدل جانے کے بعد اس کا حکم بھی بدل جاتاہے، خون مشک بن جائے،شراب سرکہ ہو جائے ،غلاظت اوت گوبر راکھ یامٹی میں تبدیل ہوجائے، تو جمہورعلماء کےیہاں ان کے استعمال سے نہیں روکا جاتا ،وہ اس کی کئی توجیہات کرتے ہیں کبھی اس کو ابتلا ءعام کا نتیجہ قراردیا جاتا ہے، کبھی دفعہ حرج کی وجہ بیان کرتاہے ، اور کبھی استحالہ کواس کی بنیاد مانتاہے ۔
علماءفقہ کے عبادات میں استحالہ کے مسئلہ میں بڑاا ضطراب ہے ،لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ بعض چیزیں جو اپنی اصل اور معنیٰ کےاعتبار سے ہیں کچھ تبدیلی کے بعد استعمال کے قابل ہوجاتی ہے۔اشیاء پر طرح طرح کے اوصاف طاری ہوتے ہیں کسی مرحلے میں وہ پاک ہوتی ہے اور کبھی ناپاک قرار پاتی ہے ہم اسکی موجودہ شکل دیکھ کر اس پر حکم لگاتے ہیں۔
نجس کی استحالہ اور اس کی حلت اور حرمت کےحوالے سےفقہاء کا اختلاف پہلی باب میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہوچکاہے،منصوصی اشیاء کے علاوہ قلب ماہیت سے نجس پاک ہو جا تاہے اس کا کھانا حلال ہے ،البتہ نجس العین اشیا ء بیرونی استعمال کیلئے ٹھیک ہیں اور نہ کھانا بہترہے ۔

• حلت اور حرمت کے بعض اقسام کے احکام
اشیاء کی دو قسمیں ہیں ایک جامد اور دوسری غیر جامد ان میں سے ہر ایک انسان کے کھانے اور پینےسے متعلق ہے یا اس کا تعلق کھانے پینے کے علاوہ دیگر استعمالات سے ہے،پھر ان میں سے پر چیز یا انسانی زندگی کا لازمہ ہے اور ان میں ابتلا عام کی صورت ہے یا صورت حال ایسی نہیں ہے۔
جامد اور غیر سیال اشیاء جن کا تعلق کھانے سے نہ ہو بلکہ ان کا استعمال خارجی ہو اور ان میں ابتلا عام ہو،ہر حال میں بلا شبہ پاک ہیں جسے اگر ناپاک مٹی سےتیار کئے گئے برتن پک جائیں وہ تو تغیر ماہیت کی وجہ سے پاک ہیں ، ان کا معاملہ کرنا جائز ہے اور اگر پانی ان چیزوں میں مل جائے تو ناپاک نہ ہوگا، دباغت شدہ کھالوں اور کھالوں سے تیار کئے گئے موزوں اورمشکیزوں کا بھی یہی حکم ہوگا۔
وہ جامد اشیاء جو کھائی نہ جاتی ہو ں اور پانی میں ملنے سے سیا ل ہو جاتی ہو ں اور اس میں عموم بلویٰ کی صورت ہو جسے صابن تو اگر ان میں نجس اشیاء کی مل جانے کا یقین ہو تو یہ قلب ماہیت کی وجہ سے پاک ہیں اور ان کا معاملہ کرنا جائز ہیں یہی حکم ان نجس چیز وں کا بھی ہوگا جن کی ماہیت آگ کے زریعے تبدیل ہو جائے ، لہذا اگر راکھ پانی میں مل جائے وہ پاک نہیں ہوگا اور ایسی راکھ کا اور اس سے تیار کی گئی اشیاء کا بیچنا اور خریدنا بلاشبہ جائز ہوگا۔
کھائے جانے والے پا ک چیزوں کا حکم خوہ وہ جامد ہو ں یا غیر جامد جسے نمک وغیرہ ، اسی طرح اگرگیہو ں میں چوہا گر کر مر جائے اور تبدیل ہو جائے،تو اگر گر جانے والے چیز کی حقیقت بدل جائے تو وہ پا ک ہے،لیکن نمک اور اٹے میں ماہیت کی تبدیلی متحقق نہیں ہوتی لہذا یہ دونوں چیزیں پا ک نہیں ہوگی ، کیونکہ اس کی اصل اجزا بلاشبہ نجس اشیاء سے ملے ہوئے ہیں اور کسی دوسری ماہیت میں تبدیل نہیں ہوئے ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی اشیاء میں عمون بلویٰ متحقق نہیں ہے۔
کھائی جانے والی جدید اشیاء جیسے پنیر کے ٹکڑے اور وہ ہلکےکھانے جو اٹے دودھ اور چربی سے تیار کئے گئے ہو اورعالمی منڈیو ں میں دستیاب ہو جیسے چاکلیٹ اور چیونگم اگر ان میں ناپاک اجزا مل جائیں تو یہ اشیاء عام حالات میں پاک ہیں البتہ اگر ان اشیاء میں سے کسی متعین شئی کے بارے میں یقینی طور پر یہ ثابت ہوجائے کہ اس میں نجس اجزا ملے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں اختلاط کی وجہ سے یہ چیزیں ناپاک ہوگی کیونکہ عام حالات میں ان اشیاء کا پاک ہونا تغیر ماہیت کے متحقق ہونے وجہ نہیں ہے بلکہ اپنی اصل اباحت کے حکم پر باقی رہنے کی وجہ سے ہے اور یقین شک کی بنا پر زائل نہیں ہوتا۔
جامد اشاء جس میں تغیر متصور ہے جیسے صابن جس میں معمولی تغیر واقع ہوتا ہے اور کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوتی ،تو ظاہر ہے اگر اس طرح کی چیزوں میں نجس اجزا مل جائیں اور اس کے بارے میں یقینی علم حاصل ہوجائے تو وہ پاک ہو گی اور ابتلا ءعام کی شدت کی وجہ سے ان کا کھانا اور ان کا معاملہ کرنا جائز ہوگا۔

جہاں تک سیال دواؤں کا تعلق ہے تو اگر وہ نشہ اور شراب کی طرح ہو تو ان کا پینا اور معاملہ کرنا جائز نہیں،اس لئے نبیﷺ نے ،شراب کے ذیعہ علاج کرنے سے منع فرمایا،حدیث میں ہے
سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَمْرِ، فَنَهَاهُ – أَوْ كَرِهَ – أَنْ يَصْنَعَهَا، فَقَالَ: إِنَّمَا أَصْنَعُهَا لِلدَّوَاءِ، فَقَالَ: «إِنَّهُ لَيْسَ بِدَوَاءٍ، وَلَكِنَّهُ دَاءٌ»
‘‘رسولﷺسےشراب کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس سے کوئی چیز تیارکی جائے،توانھوں نے منع فرمایا ،یا برا مانا،تو شخص نے بولا کہ میں تو یہ دوا ‘‘علاج ‘’کی غرض سے بنا تا ہو ،تو رسول ﷺ نے فرمایا یہ دوا’‘علاج ‘’ نہیں ہے بلکہ بیماری ہیں ۔’’
البتہ اگر نشہ اور دیگر پاک سیا ل چیزوں سے مل جائے اور ان کی دوا تیار کر لی جائے نیز دیگر پاک اجزا کے غلبہ کی وجہ سے نشہ پیدا کرنے کی قوت زائل ہو جائے تو ایسی صورت میں ان دواؤں کی استعمال کی گنجائش ہے۔ بشرطیکہ دوسری پاک دواؤں کے حصول میں کامیابی نہ ملے ۔ یہ جواز ابتلاءعام ، نیز اس وجہ سے ہے کہ ماہیت میں معمولی تبدیلی واقع ہو تی ہے ۔ ایسی دوا کا معاملہ کرنا جائز ہے لیکن دوا کے طور پر اس کا استعمال کی حد سے اگے بڑ ھ کر ایسی اشاء کا کھانا اور پینا عام حالات میں جائز نہیں ہے ،اور نہ اس کا معاملہ کرنا درست ہے، البتہ علاج اور معاملہ سےہٹ کر ان کی خارجی استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
ناپاک سیال اشیاءیا مشروبات جو پاکی میں تبدیل ہو جائیں جیسے شراب سرکہ بن جائے یہ بلاشبہ ماہیت کی تبدیلی کے بنا پر پاک ہیں ، اس کی دلیل صریح حدیث ہے ، ان کاپینا ،معاملہ کرنا اور مختلف طریقوں سے اس کا استفادہ کرنا جائزہے ۔
جو مشروبات اصلاً پاک ہیں اورغیر نشہ آور ہیں اگر ان میں ناپاک اجزا کا شک ہوجیسے عالمی منڈ یوں میں رائج مشروبات ان میں بھی تغیر ماہیت متحقق نہیں ہوتا ہے لیکن عام حالات میں ان اشیاء کےپاک ہونے ، ان کے جائز ہونے اور ان سے معاملات درست ہو نے ہی کا حکم لگایا جائےگاکیونکہ قاعدہ ہے ،
الْيَقِينُ لَا يَزُولُ بِالشَّكِّ
‘‘یقین شک کی بنا پر زائل نہیں ہوتا’’۔

باب سوم قلب ماہیت کی اقسام اورجدید مسائل

اللہ تعالیٰ نے انسان و جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا،جبکہ انسان کے فائدے کے لئے تمام کائنات پیدا کیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا’’
‘‘وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے’’
ان اشیاء میں تغیرہونے یا تغیر کرنے سے ایک نئی چیز کئی طریقوں سے بنے ہوتے ہیں اورہر ایک چیز میں تبدیلی کے اسباب اور طریقہ کار مختلف ہوتےہیں شراب میں نمک سےسرکہ بنانے کاعمل یا چمڑے کو دباغت دینے سے پاک ہونے کا طریقہ یا خون سے گوشت بننے کا عمل وغیرہ کے الگ الگ طریقے ہیں اِس باب میں قلب ماہیت کی ان اقسام کا ذکر کیا جاتا ہے جن کا تعلق موجودہ دورمیں نئےپیش آنے وا لے مسائل سے ہے جن کاشرعی حکم بیان کیا جاتا ہے۔
قلب ماہیت بذریعہ اعلاف:(حیوانات کی خوراک سے)
اسطرح حیوانات کو بھی اللہ تعالٰی نے انسان کے فائدے کے لئے نہ صرف مسخر کیا بلکہ انسا ن کی غذائی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے بعض حیوانات کا گوشت، دودھ وغیرہ انسانی خوراک بنایا ارشاد باری تعالٰی ہیں ۔
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
‘‘اور حقیقتت یہ ہے کہ تمہارے لئے نصیحت کا سامان ہے جو ‘‘دووھ ‘’ ان کےپیٹ میں ہیں اس میں سے ہمیں سیراب کرتے ہیں اور ان میں سے تمہارے لئے فوائد ہیں ان ہی سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔’’
اسلام نے براہ راست حیوانات کو شرعی مکلف نہیں بنایا بلکہ ان کو اس کی فطرت کے مطابق رہنمائی کی جو اس سے روگردانی نہیں کرتے ہیں چونکہ حیوانات شریعت کے مخاطب نہیں اس لئے شریعت نے ان باتوں کو مقصود با لذات نہیں چھیڑا کہ حیوانات کی خوراک کیا ہوگی ؟ کونسا حیوان کیا کھائے گا کیا نہیں کھائے گا؟ بلکہ انسان خصوصاً مسلمان اپنے تمام افعال وقوال میں شرعی احکام کا مکلف ہے اسلئے جہاں کہیں بھی حیوانات کی خوراک کے معاملے میں انسانی عمل دخل ہوگا یا حیوانات سے ہونے والی انسانوں کی خوراک میں کوئی مسئلہ پیش آنے کا امکان ہو، وہاں پر شریعت نے رہنمائی کی ہے۔
انسانی جسم کی ساخت اور مختلف حیوانا ت کی فطرت ، گوشت کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ نے انسانو ں کے لئے ان کے حلال یا حرام ہونے کا حکم بتایا چنا نچہ شریعت نے ان حیوانات کو حرام قرار دیا جو گوشت خور ہو ،یعنی تمام ایسے گوشت خور بَری حیوانات ‘‘درندے ‘’ جو مستقلاً دوسرے جانوروں کا شکار کر کے کھاتے ہیں جیسے شیر ،چیتا ،کتا، بلی وغیرہ ۔وہ حیوانات جن کی خوراک غالب گندگی ، نجس و مضر اشیاء شامل ہوتی ہیں جسے شرعی اصطلاح میں جلالہ کہا جاتا ہے ۔

• جلالہ کا بیان: شریعت میں واحد مثال ہے جو اصلاً تو حلال ہے لیکن ان کی خوراک کی وجہ سے شریعت نے اس کے بارے میں تفصیلی احکام بیان کئے ہے مفتی سید عارف شاہ الحسینی فرماتے ہیں کہ جلالہ کے مسئلے سے حیوانات کی خوراک کے بارے میں بہت سارے تفصیلات ملتی ہیں حلال حیوانات کاگوشت،سواری ،انڈے ، دودھ ،قربانی اور کاروبار خوراک کی بنیاد پراس کا شرعی حکم ہوگا۔
اس لئے جلالہ کی وضاحت ضروری ہے۔
جلالہ کی لغوی تعریف:
جلالہ عربی میں اس جانور کو کہتے ہیں جو پاخانہ لید وغیرہ ناپاک چیزوں کو کھاتا ہے۔جلالہ جلۃ سے نکالا ہے عربی میں پاخانہ یا لید کو کہتے ہیں ۔
والجلَّالة مِنَ الْحَيَوَانِ: الَّتِي تأْكل الجِلَّة والعَذِرة
‘‘جلالہ وہ جانور ہے جو گندگی میں اورپائخانہ کھاتا ہے’’
o اصطلاحی تعریف:
اصطلاح میں جلالہ اس حیوان کوکہتے ہیں جس کی مستقل خوراک ناپاک اور گندگی چیزیں ہو چاہے وہ مستقل طور پر خود کھاتا ہو یا اورکوئی کھلائے جس کے نتیجے میں اس کاگوشت، دودھ وغیرہ متغیر ہو اور اس کے ذائقے ، رنگ یا بومیں بد بو آنے لگے بدبو کا علم ابتدائی طور اس کےپسینے سے ہوتا ہے۔
اسم يطلق على الدابة التي تعتمد أكل الجيف فقط، فيتغير لحمها ويكون منتناً أو: هي التي أغلب أكلها النجاسات
‘‘وہ گندگی کھانے والے جانورجس کی گوشت میں تغیر اوربدبو پیدا ہوجائےیاوہ جس کی خوراک اکثر گندگی ہو۔’’
اکثراحادیثو ں میں بھی ایسی جانوروں کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- عَنِ الْجَلاَّلَةِ فِى الإِبِلِ أَنْ يُرْكَبَ عَلَيْهَا أَوْ يُشْرَبَ مِنْ أَلْبَانِهَا.
‘‘ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسولﷺنےجلالہ اونٹ پر سواری کرنے اور اس کی دودھ پینے سے منع فرمایا ہے’’
جلالہ کی شرعی حکم کے لئے کسی حیوان کا مکمل یا غالب خوراک کا مکمل نجاست کا ہو نا ضروری ہے اگر کسی جانور نے ایک آدھ دفعہ کوئی گندگی چیز خود کھائی یا اسے کھلائی گئی تو وہ جلالہ نہیں بلکہ جلالہ کے لئے ضروری ہے کہ اس کی مستقل یا غالب خوراک اورغلیظ چیزیں ہوں اور ان کی وجہ سے بد بو پیدا ہو۔ بد بو سے مرادفقہاءنے صراحت فرمائی ہےناجائز ہونے کے لئے شرعاً بد بو سے مراد اسی نجاست کی بد بو ہے جو کھائی ہے مطلقاً بد بو مراد نہیں ہے کیونکہ عام طور پرحیوانات کے جسم سے بدبوآتی رہتی ہے۔

o حکم شرعی
جمہور فقہاءکے نذدیک جب نجاست کھانے کے وجہ سے جلالہ حیوان سے بدبو آنے لگے تو اس کا گوشت کھانا، اس کادودھ پینا، اس کا انڈا کھانا مکروہ ہے وَ هِيَ الدَّابَّةُ الَّتِي تَأْكُل الْعَذِرَةَ أَوْ غَيْرَهَا مِنَ النَّجَاسَاتِ – وَشُرْبَ لَبَنِهَا وَأَكْل بَيْضِهَا مَكْرُوهٌ، إِذَا ظَهَرَ تَغَيُّرُ لَحْمِهَا بِالرَّائِحَةِ، وَالنَّتْنُ فِي عَرَقِهَا ‘‘یہ وہ جانورہے جوپائخانہ کھاتا ہےیا دوسری گندگی اس کا دودھ اور پینا انڈے کھانا مکروہ ہے ،جب اُس کےگوشت میں تغیرآجائے پسینے کے بد بو آنے لگ جائے۔
• حیوانات کو مردار اور نجس کھلانا:
شریعت کی اصطلاح میں میتہ یعنی مردار اس حیوان کو کہتے ہیں جس کی موت غیر شرعی ذبیحہ سے وا قع ہو،اور بات پر تمام فقہاء کرام کا اجماع ہے کہ عام حالات میں اختیاری طور پر ٹڈی کے علاوہ خشکی کےحیوانات کا مردار کھانا حرام ہے۔
ابن رشدؒ لکھتے ہیں کہ:
اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى تَحْرِيمِ مَيْتَةِ الْبَرِّ
‘‘تمام علماء کاخشکی کے مردار کے حرام ہونے پر اتفاق ہے’’
قرآن نے مردار کو نجس کہا ہے
ارشاد باری تعالٰی ہےکہ:
إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ
‘‘مردار ہویا بہتا ہو ا خون یاخنزیر کا گوشت تو یہ نجس ہیں’’ عربی میں رجس نجس کو کہتے ہیں اورمیتہ سے مرادمردارہے ان کا کھانا حرام ہے ۔
کسی حیوان وغیرہ کو مردار کا گوشت چربی وغیرہ براہ راست کھلانا یااس کی مختلف اجز ء سے حیوانات کی خوراک تیار کرنے کی دو صوتیں ہیں ایک یہ کہ چیز بذات خود نجس اور ناپاک ہے مثلاًخون ،مردار وغیرہ
دوسرا یہ کہ ایک چیز بذات خود توپاک ہے لیکن کسی نجس کے ملنے کی وجہ سےناپاک ہوجائے ،پہلی صورت کے بارے میں تمام فقہاء متفق ہیں کہ نجس العین براہ راست فائدہ اٹھانا جائز نہیں ، البتہ اس کا ایسا استعمال جس کوشریعت میں گنجائش ہو ،مباح ہے،مثلاً زرعی مقاصد کے لئے گوبر وغیر ہ
کاا ستعمال، دوسری صورت میں تفصیل یہ ہےکہ نجس اورمردارکوحیوانات کو کھلانے جس سےنجس اشیاء کی قلب ماہیت بذریعہ اعلاف ہوجائے اس کی دو صورتیں ہیں
‘‘حلال حیوانات کو خالص مردار کھلانا ’’
‘‘حلال حیوانات کو مردار کے اجزاء کے ساتھ مخلوط خورا ک کھلانا’’
اس حوالے سے فقہاء کی تین رائے ہیں ۔
جمہور فقہاء ‘‘احناف شوافع اور امام احمد کی ایک روایت کے نز دیک کسی بھی حیوانات کو خالص مردارکا کھلانا جائز نہیں ،کیونکہ حیوانات کو نجس کھلانا انتفاع ہے اور مردار سے انتفاع اللہ کے ارشاد کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ امام جصاص فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مردار سے کسی بھی قسم کا انتفاع جائز نہیں ،یہاں تک کہ کتّو ں اور درندوں کو بھی نہیں کھلایا جائے گا جبکہ اللہ نے مردار کو متعین کر کے مطلقًاحرام قرار دیا ہے۔
ابو بکر جصاص الحنفی فرماتے ہیں کہ:
لَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِالْمَيْتَةِ عَلَى وَجْهٍ وَلَا يُطْعِمُهَا الْكِلَابَ وَالْجَوَارِحَ لِأَنَّ ذَلِكَ ضَرْبٌ مِنْ الِانْتِفَاعِ بِهَا
‘‘مردار سے انتفاع جائز نہیں ،کتوں اور درندوں کو بھی نہیں کھلانا چاہیے کیونکہ یہ بھی مردارسے انتفاع میں آتا ہے’’
فقہ مالکی کے مطابق شکاری کتے یا پرندے کو خالص مردار کھلانا جائز ہیں ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ انسانی صحت کو ضرر کا اندیشہ نہیں ہے ، دوسرےحضرات کے مطابق تمام حیوانات مطلقاً مردار خوراک جائز ہے چاہے حلال جانور ہو یا حرام ۔
شیخ ابن جلاب مالکی فرماتے کہ:
ولا باس بعلف الدواب الطعام النجس ما أكل لحمه وما لم يؤكل لحمه
‘‘جانورں کونجس خوراک کھلانے میں کوئی حرج نہیں خواہ اس کی گوشت کھایاجاتاہے یا نہیں ’’

• شرعی حکم :
آج کی دور میں حیوانات جو خوراک دی جاتی ہے اگر تیاری کے وقت ناپاک اجزاء کی قلب ماہیت کی گئی ہو تو اس کا کاروبار کی جواز ہے۔
مفتی سیدعارف علی شاہ الحسینی فرماتے ہیں کہ:
تمام حیوانات کی رگوں سے نکلنی والا خون بلاجماع حرام ہے لہذا خالص خون کی بیع ناجائز ہےاوراس کی کمائی بھی حرام ہے،البتہ اگرفکٹری میں خون لایا گیا اور اسے پاک چیزوں کے ساتھ ملایا گیا توخون خریدنے اورملانے کاعمل ناجائزہے،اس کا گناہ ہوگا البتہ ایسی پاک اور ناپاک چیزوں کا مجمو عہ سے بنی ہوئی خوراک میں اگر خون مغلو ب ہو اور دوسری پاک چیزیں غالب ہوں ،تو ایسی خوراک مرغیوں یا دوسرے جانوروں کا کھلانا اور اس کا کاروبار کرنا جائز ہوگا ورنہ نہیں ۔ اگر حلال وپاک اشیاء میں حرام و ناپاک شئ کا صرف اختلاط ہو، اصل حقیقت تبدیل نہ ہو ، تو وہ حرام ناک ہی قائم رہے گی۔
راجح یہ ہے ایسے حلال حیوانات جس کاگوشت دودھ اور انڈے وغیرہ استعما ل ہوتے ہیں ان کومردار یا مردار کےساتھ مخوط اجزا کھلانا مکروہ ہے اور ان کا کھاناعموم بلویٰ کی وجہ سے حلال اورجائز ہیں اورنہ کھانا بہترہے۔

 قلب ماہیت  بذریعہ کیمیائی مادہ: (chemical)

آج کل کیمکل مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتا ہے اس کےذریعے سے مختلف قسم کی اشیاء کو کیمیا ئی مادوں سے گذار کر اس کے ماہیت تبدیل کرتے ہیں۔
خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ :
قلب ماہیت کے باب میں نتیجہ اصل ہے نہ کہ ذرائع اور وسائل ،اس لئے فقہاء نے ان اسباب پر توجہ نہیں دی جن کی وجہ سے قلب ماہیت ہوتی ہے صرف اس کی مثالیں دی ،کیمکل کے استعمال سے اس شئ کے جوہر ی اوصاف رنگ،بو اور مزہ بدل جائے تو قلب ماہیت کے لئے کا فی ہو گا۔
• جلاٹین:
یہ ایک پروٹین ہے اورکا فی مقدار گوشت میں پائی جاتی ہے جلاٹین کوبنیادی طور پر کولاجین کو استعمال ہوتاہے کیونکہ پروٹین بنانے میں کولاجین استعما ل ہوتاہے یہی جلاٹین کی خام مال ہے ،ہمارے جسم میں جو خامرےبنتے ہیں اس کے بنانے اور ہر طرح کا عمل کرنے کا کا م جلاٹین ہی کرتے ہیں،عام ہڈی کےساتھ جو گوشت جڑا رہتا ہے جو سفید سخت شکل میں ہوتا ہے یہی وہ مادہ جو کولاجین کہاجاتاہے۔
ڈاکٹر اصغرعلی صاحب کہتے ہیں کہ:
جلاٹین مختلف چیزوں سے حاصل کیا ہوا ایک پیداوارہے جو کہ جانوروں کی آنتوں ، ہڈیوں اور کھالوں کو ایک خاص شکل میں بننےکے بعد حاصل ہوتا ہے جو کہ اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں ہو تا ۔ جلاٹین حاصل ہو نے کی ذرائع عام طور سے جانوروں کی ہڈیا ں اور کھالیں ہیں جس میں خنزیر کی کھال بھی شامل ہے جس سے عام طور پرسخت پرت ‘‘capsule ’’بنتے ہیں ۔
جلاٹین کیمکل سے اس طرح بناتے ہیں کہ سوکھی ہوئی ہڈیاں یا کھال کو صاف کرنے کے بعدتیزاب میں پندرہ دن تک رکھتے ہیں اس کے بعدچونے میں چھ سات گھنٹے رکھتے ہیں اس کے بعد چونے سے نکا ل کر اس کو گرم پانی میں ڈالتے ہیں پھر اس کو ٹھنڈا کر کے خشک کرتے ہیں اور اس کی نمی کو اڑانے کے بعدپیس کر جلاٹین بناتے ہیں ۔
استعمال:
میڈیکل میں جلاٹین عام طور پر کیپسول بنانے میں استعمال ہوتا ہے ۔اس کے علاوہ پیسٹ سرکہ بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے نیز مصنوعی جوس میں بھی استعمال ہوتاہے ۔
جلاٹین کا استعمال جیلی وا لے گوشت،سوف ٹافیاں بنانے کے لئے ، شکل دے ہوئے میٹھے کانوں اور جھاگ دارغذاؤں مثلاً ائس کریم،اور پانی کے ساتھ مختلف قسم کی روغن اور چکنائیوں کامکسچر بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔
o جلاٹین شرعی حکم :فقہ اکیڈمی انڈیا کا فیصلہ
اکیڈمی کے سامنے فنی ماہریں کے ذریعے جو تحقیق سامنے آئی ہے ، اس کے مطابق جلاٹین میں ان جانورں کی کھالوں اور ہڈیوں کی حقیقت باقی نہیں رہتی ہے جن کو کولاجیں سے جلاٹین بنایا جاتا ہے۔ بلکہ وہ ایک نئی حقیقت کے ساتھ نئی چیز ہو جاتی ہے ۔اس لئےاس کے استعمال کی گنجائش ہے۔ماہرین کی رائے میں اختلاف کی پیش نظرشرکاء میں سے مولانابدالحسن قاسمی نے حرام جانوروں کی اجزئےجسم سے حاصل شدہ جلاٹیں کے استعمال سے گریز کرنے کوترجیح دی ۔فقہاء کی اختلاف اور غذائی اشیاء کی اہمیت و نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے سیمنار مسلمان صنتکاروں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ حلا ل جانورں اوراس کے حلال اور پاک اجزاء سے جلاٹین تیار کریں ،تا کہ اس کے حلال و پاک ہونے میں کوئی شبہ نہ رہے۔
o مجمع الفقہ الاسلامی الدولی کا فیصلہ(۱۹۸۶)
خنزیر سے حاصل اجزاء سے جو جلاٹین بنائے جاتے ہیں ،ان کا استعمال کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے ،مذبوحہ جانوروں اورنباتا ت سے بنائے جانے والے جلاٹین سے ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ یہی درست اور راجح ہے۔
• فلٹر اور کشید کرنا :
کسی چیز کےکو کیمیائی سےعمل فلٹر اور کشید ہونے سے پاک ہونےپر علماء کااختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ تجزی ہے اس سے نجس پاک نہیں ہوتا اور بعض علماء کے نذدیک پا ک ہوتا ہے۔
خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں کہ:
کیمیائی عمل کے ذریعہ سے جس ناپاک چیز کو نکالا جاتا ہے ،اس کی صورتیں ہوسکتی ہیں :ایک ایسی چیز جس کا عین ناپاک ہو ،دوسری وہ چیز جو کسی ناپاک کے مل جانے کی وجہ سے نا پاک ہو گئی ہو یعنی نجس نہیں ‘‘متجنس’’ہے اگر متجنس سے ملنے والے اجزا ءنکال دی جائے تو وہ پا ک ہو جائے گا،لیکن ٖفضلات یا خون بذات خود نا پاک ہے یہ پا نہیں ہونگے۔
ڈاکٹر محمد یسری ابراہیم فرماتے ہیں کہ :
ويحصل هذا الانقلاب بدخول المادة في تفاعل كيميائي
‘‘یہ انقلاب حاصل ہوتا ہے مادہ ملا کر کیمیائی عمل سے’’
جس طرح زمیں گندہ پا نی کو جذب کے قدرتی ذریعے سے فلٹر ہو کر پاک ہوجاتا ہےاوربعض ممالک توصرف فلٹر پانی ہی ملتاہے اس لئے مناسب یہ ہے کہ اگر استعمال صحت کے لئے مضر نہ ہو تو کیمل کے ذریعے سے فلٹر کشیدہ پانی کا استعمال جائزہے۔

قلب ماہیت مأکولات (غذاؤں ) کھانے پینے کی اشیاء میں:
کھانے پینے کی اشیا ء دو قسم ہوتے ہیں ،حلال اور حرام مسلمانو ں کے لئے وہ تمام غذائیں کھانا جائز ہے جوحلال ہے اور ان غذاؤں کا کھاناناجائز ہے جو شریعت نے حرام کیا ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہیں :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
‘‘اے لوگو ! کھائو جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدموں پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔’’
وَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا ۠وَّاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْٓ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ
‘‘اور کھائو اللہ کے دیئے ہوئے میں سے حلال اور پاک اور ڈرو اللہ سے جس پر تم ایمان لائے ہو۔’’
اشیاء کے حلت اور حرمت کے بارے میں فقہاء کا قاعدہ ہے کہ :
لِأَنَّ الْأَصْلَ الْإِبَاحَةُ، إلَّا مَا وَرَدَ الشَّرْعُ بِتَحْرِيمِهِ
‘‘اشیاء میں اصل اباحت ہے جب تک اس میں حرمت کی دلیل نہ ہو’’
کسی بھی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کے لئے شریعت نےاصول وضع کیے ہیں ان اصول کی دو قسم ہیں ۔ایک قسم وہ جن کا نام شریعت نے لے کر حرام قرار دی ہیں مثلاًخنزیر،مردار اورشراب وغیرہ دوسری قسم ہے جن کا شریعت نے نام لے کر حرام نہیں دی ،البتہ اس چیز کو حرام ہونے کے لئے ضوابط بتا دی ہے ۔
مفتی سیدعارف علی شاہ الحسینی فرماتے ہیں کہ:
قران وسنت میں چھ اصول وضوابط ہیں م جن کی وجہ سے کوئی چیز حرام یا حلال یا ناجائز ہوتی ہے ، گو یا قران وسنت کی واضح نص دیا گیا ضابطہ کل ملا کر چھ ہو گئے جو درجہ ذیل ہیں :
۱۔ خباثت: یعنی کسی چیز کا خبیث و مستقذر ہونا ، جس سے طبائع سلیمہ کو گھن آتی ہو مثلاً کیڑے مکوڑے وغیرہ ۔
۲۔ ضرر : یعنی کسی چیز کا نقصان دہ ہو نا مثلاً مضر و مہلک چیزیں ضرر کی وجہ سے حرام ہیں ۔
۳ ۔اسکا ر : یعنی کسی چیز کا نشہ اور ہو نا ، مثلاًشراب یا تمام نشہ اوراشیاء اسی وجہ حرام ہیں ۔
۴۔ نجاست: کسی چیز کا ناپاک ہونامثلاً پاخانہ تمام ناپاک چیزیں اسی وجہ سے حرام ہیں ۔
۵۔ احترام انسانیت: کرامت انسانی کی وجہ سے انسانی جسم کے کسی بھی جزء کا استعمال حرام ہے۔
۶۔درنگی :کسی جانور یا پرندہ کا درندہ ہونا یعنی گوشت خور حیوانات جو فطری طور پر حیوانات کا شکا رکرتےہیں اس بناپر تمام درندے حرام ہیں ۔

ان دونو ں سے ایک تیسر ی قسم نکلتی ہے جس کو مشتبہات کہتی ہے ایک چیز کی اصل میں شک ہو کہ اصلاً حلال ہے یا حرام ۔اس میں بہتر یہ ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے ۔
مفتی سیدعارف علی شاہ الحسینی فرماتے ہیں کہ :
کسی بھی چیز کی بنیاد تین طرح کی ہوسکتی ہے ،پہلی یہ کہ اس چیز کی بنیاد حرم ہو مشلاً گوشت ،کہ اس میں اصل حرم ہوناہے ، ذبح شرعی سے پہلی اس کا کھانا جائز ہیں لہٰذا جب اس میں شک ہو گا تو جب تک حلت کا یقین نہ ہو اس سے حلت ختم نہیں ہوگی۔
دوسری یہ کہ اس چیز کی اصل مباح اور جائز ہو۔مثلاً کسی چیز کا پاک ہونا جیسے عام پانی ،جب تک ناپاکی کا یقین نہ ہوصرف شک کی وجہ اس کی پاکی ختم نہیں ہوگی ۔
تیسری یہ کہ اس چیز کا اصل میں شک ہو کہ اصل حلال ہے یا حرام ۔ اس میں بہتر یہ ہے کہ اس کو چھوڑ دیا جائے ۔
بعض غذائی مصنوعات جو کسی غیرمسلم ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر تیار کی جاتی ہیں وہ مشتبہ ہوتے ہیں ان میں کوئی حرام جزء بھی شامل ہوتاہے، مگر وہ جزء مقدار میں اتنا کم ہوتا ہے کہ پورے پروڈکٹ کے مقابلے اس کی نسبت بہت کم بالکل نہ ہونے کی برابر ہوتی ہے ۔
اس کے بارے میں شعیب صاحب فرماتے ہیں :
شریعت کسی چیز کے داخلی اور خارجی استعمال میں فرق کرتی ہے ۔عین ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے ایک ہی شی کا خوردنی اور داخلی استعمال تو ناجائز ہو مگر بیرونی اور خارجی استعمال جائز اور حلال ہو،لہذا ہمیں داخلی اور خارجی کا فرق بھی روا رکھنا ہوگا۔
یہ سوال کہ حرام کے امتزاج اور آمیزش کے بعد کسی چیز کا استعمال جائز ہے یا نہیں،صرف اور صرف صارف کے نقطہ نظر سے ہے ۔صانع کے نقطہ نظر سے مسئلے کی مختلف صورتیں ہوں گی جن کے احکام علیحدہ ہوں گے۔
یہ تمام بحث اس بنیاد پر ہے کہ کسی چیز میں حرام موجود ہو لیکن بہت کم مقدار میں ہو لیکن اگر حرام حرام نہ رہے بلکہ بدل کر حلال ہوجائے جیسا کہ انقلاب ماہیت کی صورت میں ہوتا ہے تو قلیل وکثیر کا ساری بحث ہی ختم ہوجاتی ہے۔لہذا اگر کیمیائی عمل کے نتیجے میں غذائی مواد کے ماہرین اور اہل فتوی حضرات قرار دیں کہ قلب ماہیت کے باعث کوئی حرام جزء بدل گیا ہے تو وہ پورا پروڈکٹ حلال کہلا ئے گا۔
اگر کسی پروڈکٹ میں کوئی نجس چیزملانا نہ تو صانع کے لیے جائز ہے اور نہ ہی صارف کے لیے اس کا استعمال جائز ہے کیونکہ نجس چیز کے ملنے سے مجموعہ نجس ہوتا ہے اس لیے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ حرام مقدار میں کم اور نہ ہونے کے برابر ہے۔نجس جزء پر مشتمل پروڈکٹ کا جس طرح داخلی استعمال منع ہے اسی خارجی استعمال بھی جائز نہیں ۔

• دور جدید میں نجس العین کا غذاؤں میں استعما ل :(ایک تحقیق)
آج کی دور میں جو دنیا بہت ترقی کر چکی ہےاور ایک ملک مصنوعات اور غذ ائیں دوسرے ملک کی کونے میں با آسانی پہنچ جاتے ہیں جس میں حرام غذائیں خاص کر خنزیرملے ہوتے ہیں جوغیرمسلم ممالک درآمد ہوتے ہیں ۔ان اشیاء پر ساگر صاحب نے تحقیق کی ہے جو درجہ ذیل ہے ۔
ساگر صاحب لکھتے ہیں کہ:
‘‘دراصل یورپ اور امریکہ کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں جو دنیا کے تمام بڑے بڑے ملکوں میں اپنا کار وبار چلا رہی ہیں اور اپنی مصنوعات کے ذریعہ ہر جگہ مارکیٹ پر چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں جو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت دنیابھر کے مسلمانوں کو کھلم کھلا سور یعنی خنزیر کی چربی کھلا رہی ہیں-۔ بسکٹ اور کیک سمیت بیشتر بیکری اشیاءٹوتھ پیسٹ، سیونگ کریم، چیونکم، چاکلیٹ ‘ٹافی اور کارن فلیک، نیز ڈبہ بند اشیاءغذائی میں ڈبہ بند پھل اور پھلوں کے رس کے علاوہ ملٹی وٹامن کی گولیوں سمیت بیشتر ایلوپتھک دواو ں کے ٹانکوں میں دیگر اجزاءکے علاوہ جو چیز لازماً شامل ہو تی ہے وہ خنزیر کی چربی ہے۔
فرانس کے سرکاری محکمہ غذاءکا یہ کام ہے کہ کھانے میں استعمال ہونے والی تمام اشیاءاور کا رجسٹریشن کرے۔ غذا کی یہ کوالٹی کنٹرول لیارٹری فرانس کے پیگل PEGAL مقام پر واقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف فرانس میں بیالیس ہزار کی تعداد میں خنزیروں کے فارم ہیں جہاں خنزیر کی پرورش اورپرداخت ہوتی ہے۔ چونکہ سور کے جسم میں چربی بہت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ساٹھ سال سے پہلے تک فرانسیسی کمپنیاں اس چربی کو جلا کر ضائع کر دیتی تھیں‘ پھر جب یہ کمپنیاں رفتہ رفتہ یہودیوں کے زیر انتظام یا ان کی ملکیت میں آئیں تو دولت کے لالچی ان یہودیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خنزیر کی چربی کوصابن بنانے میں استعمال شروع کردیا۔ بعدمیں شیونگ کریم میں اس کی آمیزش ہوئی پھر کچھ عرصے کے بعد خواتین کے افزائش حسن کے سامان جیسے کولڈ کریم ،نیل پالش وغیرہ میں خنزیر کی چربی پگھلا کر ملائی جانے لگی اور ٹوتھ پیسٹ میں بھی اس حرام چیزکا استعمال شروع ہو گیا۔
اب چونکہ بین الاقوامی تجارتی قانون کے تحت تمام اشیاءفروخت کے ڈبہ یا پیکٹ پر یہ لکھنا ضروری ہو تا ہے کہ اس کے اندر کون سے اجزاءشامل ہیں اور اس کی تغذیاتی قوت کیا ہے۔ چنانچہ شروع میں ڈبہ یا ریپر کے اوپرPIG FAT لکھا جا تا تھا مگر کچھ لوگوں نے ان کمپنیوں کے ذمہ داروں کی توجہ اس جانب بند دل کروائی کہ تمام دنیا کے مسلمان خنزیر کو نجس العین اور سخت حرام تصور کرتے ہیں اور سو سال پہلے ہندوستان میں 1857 کی جنگ آزادی جسے سامراج نے ہلکا اور بے وقعت کرنے کیلئے غدر کا نام دیا تھا۔اسی سور اور گائے کے چربی کے استعمال کے خلاف شروع ہوئی تھی تو ان مکاروں نے اپنے تجارتی مفاد کے پیش نظر پیکٹ پرPIG FAT کی بجائےANIMAL FATلکھنا شروع کر دیا ۔
اسی دوران عرب اور دیگر اسلامی ممالک میں تیل کی دولت کی بہتات ہوئی اور مغربی ممالک نے بڑے پیمانے پر عرب اور مسلم ممالک میں اپنے کارو بار کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا تو ان مسلم حکومتوں کے ذمہ داروں نے ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کس حیوان یعنی جانورکی چربی استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے اپنی فطری مکاّری سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ ہم ان چیزوں میں گائے اور بھیڑ کی چربی استعمال کرتے ہیں لیکن جب مسلم ممالک نے انہیں آگاہ کیا کہ اسلام میں ہر اس حلال جانور کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے جسے حلال طریقے سے اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا ہو ‘لہٰذا ہم ان اشیاءکا استعمال نہیں کر سکتے تو ان مکاّروں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اشیاءخوردو نوش کے پیکٹ پر خنزیر کی چربی اور حیوانی چربی کے الفاظ لکھنے کی بجائے ایک مخصوص خفیہ اشارہ’ ای کوڈ‘E code کے نام سے لکھنا شروع کردیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان کے فرانس کی پیگل لیبارٹری میں ملازم کی اطلاع کے مطابقe 100 سے لے کرe 904تک جتنے کوڈ غذائی اشیاءکے پیکٹ،ریپر یا ڈبے پر درج ہو تے ہیں ان سے مراد سور کی چربی ہی ہو تی ہے۔ مثال کے طور پر بریٹانیہ کمپنی کے مختلف بسکٹ جیسے نیوٹری چوائس ،کریم کریکر وغیرہ کے ریپ پر اس میں شامل اجزاءجنھیں INGRADIENTS کی فہرست میں EMULSIFIER.E481 بھی درج ہے۔ ساتھ ہی گیہوں کے آٹے،نباتاتی تیل، شکر وغیرہ کی شمولیت کا حوالہ بھی ہے۔حتی کہ بازار سے مہر بند اشیاءخوردنی جیسے بسکٹ وغیرہ خریدتے وقتE نمبروں کے اندراج کو ضرور چیک کر لیا کریں کیونکہE-100 سے لیکر E-904تک کے تمام کوڈوں سے مراد خالص سور کی چربی ہی ہو تی ہے۔
آج کل چائنیز یعنی چین کے کھانے شوق سے کھا ئے جا رہے ہیں ان میں TAST MAKER کے طور پر جو خاص اجزاءاجینو موتوشامل کیا جاتا ہے، وہ بھی سور کی چربی سے ہی بنا یا جا تا ہے۔
یورپ،امریکہ،جاپان،کوریا وغیرہ غیر مسلم ممالک میں حلال کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہاں جلے ٹین بنا نے کے لئے گدھے،کتے اور سور و غیرہ ناپاک اور حرام جانوروں کی خال استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ سور یا خنزیر کے علاوہ دیگر جانوروں میں ایک مخصوص بیماری میڈ کا خطرہ گذشتہ کئی سال سے بڑھ گیا ہے اور اسی مرض کے جراثیم کے موجود گی کے اندیشہ کے پیش نظر اب یورپ کی تمام دوا ساز کمپنیاں صرف سور کی کھال سے ہی جلے ٹین تیار کر رہی ہیں ۔یہ تیارہ شدہ جلے ٹین شکر کی طرح سفید دانے دارسفوفGRANULES کی شکل میں تمام دنیا کے دوا ساز اداروں کو فروخت کی جاتی ہے۔جلے ٹین نہ صرف ادویات بلکہ بازار میں دستیاب 22290 فیصد غذائی اشیاءکا جزءلازم ہے اور ہم یہ جلے ٹین کسی نہ کسی شکل میں روزانہ کھا رہے ہیں۔
جلے ٹین اگر چہ حلال جانوروں کو با قاعدہ اسلامی طریقے سے ذبح کرنے کے بعد ان کی کھال سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے مگر بد قسمتی سے مسلم ملکوں میں ملیشیا کے علاوہ کسی دیگر اسلامی ملک یہاں تک کہ سعودی عرب نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی ہے‘محض ملیشیا اپنی ادویات کی صنعت اور غذائی ضروریات کے لئے حلال جلے ٹین تیار کرتا ہے۔ اس کا پڑوسی مسلم ملک انڈونشیا اور ایران اپنی ضروریات کے لئے ملیشیاسے جلے ٹین درآمد کرتے ہیں۔ بہرحال ملیشیا کے علاوہ ہر جگہ یوروپ سے آمد شدہ خنزیر کی ناپاک اور حرام جلے ٹین دوا استعمال ہوتی ہے۔
جہاں مسلمان محض اقلیت میں رہتے ہیں‘ جیسے برظانیہ،امریکہ، فلپائن، زمبابوے، افریقہ، ہالنیڈ اور برازیل وغیرہ وہاں کے مسلمان ایسے ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جو غذائی اشیاءکے مشمولات پر گہری نگاہ ہی نہیں رکھتے ہیں بلکہ ممکنہ تحقیق کے بعد مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ فلاں چیز کو استعمال کرنا چاہئے یا نہیں اور فلاں چیز حلال اور فلاں چیز حرام ہے۔ اس اہتمام کی وجہ سے ان مقامات کے مسلمان کافی حد تک بیدار ہو چکے ہیں اور وہ غذائی اشیاءکے استعمال کے معاملہ میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔چنانچہ حال ہی میں انگلینڈ میں آباد مسلمانوں کی ایک ایسی ہی تنظیم نے انٹرنیٹ پر مسلمانوں کی آگاہی کے لئے اپنی ایک سائٹ قائم کی ہے جس کا پتہ www.guidedways.comہے۔
اس تنظیم کی فراہم کردہ اطلاعات کے مستند اورقابل اعتبار ہو نے کا سرٹیفکٹ دار السلام اور پاکستان کی حکومتوں نے عطا کیا ہے۔مغربی ممالک کی صیہونیت زدہ کمپنیوں کی اشیاءخور دو نوش میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ کی خبر اورای کوڈe codeکے ذریعہ اس کو خفیہ رکھنے کی ان کی پالیسی کے انکشاف سے اسلام پسند حلقوں میں تشویش وبے چینی کی لہر دوڑ جانا ایک فطری بات تھی۔ چنانچہ برطانیہ کے مسلمانوں کی قائم کردہ اس تنظیمguided wayگائیڈڈ وے نے اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر اس سلسلے میں چوبیش رفت اور چھان بین کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متنازعہ ای کوڈمیں سے پانچ ای کوڈبلاشبہ قطعی طور پر حرام اشیاءسے متعلق ہیں اور نوای کوڈمشکوک ہیں یعنی ان کے حرام یا حلال ہو نے میں شبہ ہے۔ لہٰذا حدیث نبوی کہ جو چیز شک و شبہ والی ہے اس کو اس وقت تک ترک کر دینا لازم ہے جب تک کہ تحقیق و تفتیش کے ذریعہ اس کے حرام یا حلال ہونے کا قطعی فیصلہ نہ ہو جائے‘ کے مطابق مسلمانوں کو ان چیزوں سے بھی حتی الامکان پرہیز کر نا چاہئے۔فی الواقع حرام اشیاءکے پانچ ای کوڈیہ ہیں: E-120،E-441، E-542،E-920،اور E-921۔مشکوک اور مشتبہ اشیاکے ای کوڈوںکی فہرست میں E-111،E-121،E-125، E-126،E-130،E-152،E-316،E-318،E-445 شامل ہیں۔ان کی تشریح اور تفصیل اس طرح ہے:
۱:قطعی حرام اور نجس اشیاءکے ای کوڈوںکی تفصیلات اس طرح ہیں:
E-120: اس کا پورا نام یا فارمولہCOCHINAL,CARMINE ہے۔ یہ کیمیکل مختلف اشیاءخور و نوش کو رنگ دینے کے کام آتا ہے۔ اس کو کیڑوں مکوڑوں کو کچل کرCRUSHED INSECTS ان کے عرق سے حاصل کیا جا تا ہے۔ بیشتر انگریزی یعنی ایلوپتھک کے سیرپ جن کا رنگ سرخ ہو تا ہے وہ اسی کیڑے مکوڑوں کے کچلے ہوئے عرق کو شامل کر کے سرخ رنگ کے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے فارمولہ کے ساتھ دیگر دوائی اجزاءکی تفصیلات کے بعد آخر میں اکثر CARMINEREDکے الفاظ لکھے ملتے ہیں، اور کہیں کہیں COCHINALکے الفاظ سے بھی رنگ کی نوعیت کی اطلاع اور اظہار کیا جاتا ہے۔ کے علاوہ مختلف پھلوں کے رس رنگین بنا کر بیچنے کے لئے، اسی طرح ICE CANDIESاور SHAMPO وغیرہ کو بنا نے کے لئے بھی یہی رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔ جلے ٹین کے کیپسول بنا تے وقت انہیں رنگین کر نے کے لئے بھی یہی E-120یا CARMINE رنگ استعمال ہوتا ہے۔ کنفیکشنری میں شکر کی خوردنی گولیوں کو رنگین اور خوشنما بنا نے کے لئے جو FOOD COLOURS مستعمل ہیں ان میں بھی اس کا استعمال ہو تا ہے۔ چاول سے بنے ہوئے خوش رنگ مرمرے جو گھی یا تیل میں تل کر پھول جاتے ہیں اور عموماً رمضان وغیرہ میں افطار کے ساتھ کھائے جاتے ہیں وہ بھی اس رنگ کی آمیزش سے تیار کئے جا تے ہیں۔
E-44: یہ کوڈ جلے ٹین کیلئے مستعمل ہے جو مختلف جانوروں خصوصاً خنزیر کی کھال سے بنا یا جاتا ہے اور جس کی تفصیلات گذشتہ سطور میں بیان کی جا چکی ہیں۔
E-542: یہ BONE PHOSPHATEکا کوڈ ہے۔ یہ جانوروں کی ہڈیوں سے بنا یا جا تا ہے۔ اس کا زیادہ تر استعمال بیکری میں ANTICAKING AGENTکی حیثیت سے آٹے اور دیگر اشیاءکو گوند کر لہدی یا آمیزہ بنا نےEMULSIFICATIONکیلئے کیا جاتا ہے۔ اس کا اہم استعمال حسن افزاءاشیائCOSMATICS خصوصاً ٹوتھ پیسٹ میں ہو تا ہے۔علاوہ ازیں تغذیہ نجش دواو ¿ں اور غذاو ¿ںFOOD SUPPLIMENTSمیں فاسقدس کی کمی جنم الشانی میں پورا کر نے کے لئے بھی اس کو ملائے ہیں۔
E-920 : اس کے فارمولے کا نامCYSTEINE HYDROہے۔ یہ پروٹین یعنی لحمی اجزاءسے حاصل کیا جا تا ہے جس میں مختلف جانوروں کے گوشت اور ان کے بال شامل ہیں۔زیادہ تر ان کا حصول خنزیر کے جسم کے حصوں سے کیا جا تا ہے۔یہ ڈبل روٹی یا بریڈ کا خمیر اٹھا نے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ خمیر کے بعد روٹی کو پھلانےTO ENHANCEاور پھولی ہوئی کو علیٰ حالہ قائم رکھنے میں یہ کیمیکل بے حد معاون ثابت ہو تا ہے۔
E-921: اس کا کیمیاوی نام E 920سے ملتا جلتا ہے یعنی اس کوL CYSTINEکے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ خواص بھی اس کےE 920ہی کی طرح ہیں۔ البتہ یہ صحت کے لحاظ سے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ جگر کے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے۔ صفراءکی نالی یعنیBILE DUCTکو نقصان پہنچا تا ہے اور گردوں کو نا کارہDAMAGE کر کے اس کی طبعی افعال میں خلل پیدا کر نے کا باعث ہو تا ہے۔
٭ مشکوک ای کوڈجن کے حرام یا حلال ہو نے میں شبہ ہے:
E-111: اس کا پورا نام ALPHA NAPHTHOLہے۔
E-121: یہ ایک کیمیکل رنگ ہے جو عموماً کائیLICHENسے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ سرخی مائل بھورا رنگ ہو تا ہے۔ یہ رنگ جسم انسانی کے اندرونی اعضاءکو نقصان پہچاتا ہے اور اس کے استعمال سے کینسر پیدا ہونے کاخدشہ ہو تا ہے۔
E-125: کیمیاوی رنگ ہے جو RED AZODYE یا SCARLET رنگ کہلا تا ہے E-126: یہ تیز سرخ رنگRED DYE ہوتا ہے جو کیمیاوی مادوں سے بنایا جاتا ہے۔
E-130: یہ نیلے رنگBLUE DYE کا کیمیاوی مادے کا کوڈ ہے۔
E-152: یہ سرخی مائل سیاہBROWN BLACK رنگ کا کوڈ ہے۔
E-316: اس کا کیمیاوی نام ERYTHORBIC ACIDہے۔
E-318: اس کا نامSODIUM ERYTHORBIC ACID ہے۔یہ ایک پیٹر کی ڈالWOOD ROSIN ہے جس کا کیمیاوی نام GLYCEROL ESTERS ہے۔ یہSTABILIZERکے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس کے استعمال سے الرجک ری ایکشنALLERGIC REACTION کا خطرہ لا حق ہو تا ہے۔
بہرکیف خنزیر کی چربی اور اس کے اجزاءجسم کی انسانی میں ملاوٹ کی یہ تشویشناک خبر تمام مسلمانوں تک پہنچا دینا اگرچہ ہم سب کی ذمہ داری اور اہم دینی فریضہ ہے تاہم موجودہ دور میں مسلمانوں کے دین کے معاملات میں بے حسی، دنیا کمانے کی ہوس اور ذاتی مفاد کا غلبہ اس قدر شدید ہے کہ وہ یہ سب کچھ پڑھنے اور سننے کے بعد بھی ان خنزیر آلود حرام اشیاء، بسکٹ،ٹافی ،چیونگ گم،حام،حبیلی اور آئس کریم وغیرہ کی خرید و فروخت سے دست بردار ہو نے پر آمادہ ہو پائیں گے‘بظاہرایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ کیونکہ جو مسلمان خنزیر کی چربی سے بنے بسکٹ،ٹافی وغیرہ کی ایجنسی لے کر کروت دراز سے ان حرام اشیاءکا کاروبار کر رہے ہیں
ایسی غذائیں جن جن کے ساتھ حرام چیزیں ملے ہوئے ہو اور قلب ماہیت بھی نہیں کی گئی ہو تو اس کا کھاناحرام ہے، اگر اس کے ساتھ حرام ملنے کا شبہ ہو،یا یہ کہ اس کا قلب ماہیت ہوا ہے پھربھی ایسی اشیاءکا نہ کھانا بہتر ہیں ۔

قلب ماہیت غیرمأکولات میںٍ ٍ(غیر غذائی ) بیرونی استعمال کی اشیاءمیں :

ایسی غذائی اشیاءجو قلب ماہیت نہ ہو ا ہواورنجس العین ہیں اس کا بیرونی اشیاء میں استعمال بھی ناجائز ہیں کیونکہ حدیث میں اس سے منع آیا ہے ۔
رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول عام الفتح وهو بمكة ( إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام ) . فقيل يا رسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنها يطلى بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس ؟ فقال ( لا هو حرام ) . ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم عند ذلك ( قاتل الله اليهود إن الله لما حرم شحومها جملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه۔
‘‘رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح کے سال جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب مردار سور اور بتوں کی خریدو فروخت کو حرام کیا ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردار کی چربی کا کیا حکم ہے وہ کشتیوں پر ملتے ہیں اور کھالوں پر روغن چڑھاتے ہیں اور اس سے لوگ چراغ روشن کرتے ہیں آپ نے فرمایا نہیں وہ حرام ہے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فرمایا اللہ یہود کو تباہ کرے اللہ نے جب ان پر چربی حرام کی تو ان لوگوں نے اس کو پگھلا کر بیچنا شروع کردیا اور اس کی قیمت کھانے لگے ’’نجس العین کا استحالہ ہو جائے تو خارجی استعمال کرنا جائز ہےجیسے اس طرح کے صا بن کا استعمال یا رنگوں الکحل کی قلیل استعمال وغیرہ ۔
استاذ محترم ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ:
الصابون الذي ينتج من استحالة شحم الخنزير أو الميتة يصيرطاهراً بتلك الاستحالة ويجوز استعماله.
‘‘صابو ن جو مردار یا خنزیر سے استحالہ سے بنا ہو تو استحالہ سے پا ک ہو جاتا ہے اس کا استعمال جائز ہے ۔’’
المراهم والكريمات ومواد التجميل التي يدخل في تركيبها شحم الخنزير لايجوز استعمالها إلا إذا تحققت فيها استحالة الشحم وانقلاب عينه. أما إذا لم يتحقق ذلك فهي نجسة. ۔
‘‘مرہم ،کریم مک اپ کےاشیاء کی ترکیب میں خنزیر داخل ہو تو اس کا استعمال جائز نہیں ،مگر جب اس میں استحالہ ہوکے ماہیت تبدیل ہوجائے پھر جائز ہیں ،اگر اس میں استحالہ نہ ہوجائے تو پھر نجس ہیں ’’
صفہ اسلامک رسرچ اکیڈ می کا فتویٰ ہے کہ:
‘‘نجس العین کا استعمال خارجاً اور داخلاً ناجائز ہے اور حرام، اور نجس لغیرہ یعنی متنجس کا استعمال خارجاً جائز اوراکلاً (کھانا) ناجائز، چنانچہ نجس کپڑے کی بیع اور اسکاپہننا جائز ہے’’ اس لئے نجس اور متجنس کے بارے میں یہی بہترین اور راجح رائے ہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

خلاصہ/نتائج

 قلب ماہیت لغت میں ایک حال سے دوسرے حال میں بدلنے کو کہتے ہیں ۔اصطلاح میں ایک چیز کی طبیعت کا اس طرح بدل جانا کہ اپنے سابقہ حالت واپس آنا ممکن نہ ہو ۔توکسی چیز کی ماہیت ، ذات اوراس کی بنیادی اَساس جس ہیئت و حالت پر اس کا قیام ہو اور جس وصف کی وجہ سے اس کی وہ خاص حکم ہو، بدل ہو جانے کوقلب ماہیت کہتے ہیں ۔
• احادیث میں دو چیزیں کا ذکرہیں جن کی قلب ماہیت ہو جائے تو تمام ائمہ اور فقہاء نزدیک بالاتفاق ان کا استعمال جائز ہے، ایک میتہ کا چمڑا ہےجو دباغت سے پاک ہوجائے،اور دوسراشراب ہے جس سے سرکہ بن جائے۔
 حنفیہ ،مالکہ،امام احمدؒکی ظاہر قول ،ظاہریہ،ابن تیمیہؒ اور معاصر علماء کی رائے ہیں کہ قلب ماہیت سے نجس العین پاک ہو جاتا ہے۔
 شافعیہ اور حنابلہ کی رائے ہیں کہ قلب ماہیت سے نجس العین پاک نہیں ہوتاہے۔
 امام ابو یوسفؒ کے نزدیک تبدیلی ماہیت صرف غیر نجس میں ہوتا ہے نجس العین میں نہیں ہوتا ہے۔یہی راجح ہے۔
• وہ غذائیں جس میں نجس اشیاءشامل ہواور استحالہ بھی ہواہو،عمو م بلویٰ کی وجہ سے ان اشیاء کے کھانے کی اجازت ہیں لیکن نہ کھانا بہتر ہے۔
 حقیقت کی تبدیلی کے لحاظ سے اشیاء کے معیارات مختلف ہیں ،لیکن نجس العین اشیاء کا کی ذات کامکمل تبدیل ہونا لازمی ہے ورنہ ان کا استعمال جائز نہیں ہو گا۔
• منصوصی حرام اشیاء کے علاوہ جن متجنس اشیاء کی قلب ماہیت کیا جا تاہے اس کا کھانا حلال ہے ،البتہ نجس العین اشیا ء بیرونی استعمال کیلئے ٹھیک ہیں اس کاکھانا بہترنہیں ہے ۔
 حرام اشیاءکےجامد اشیاء جن کا تعلق کھانے سے نہ ہو بلکہ ان کا استعمال خارجی ہو اور ان میں ابتلا ءعام ہوتوہر حال میں بلا شبہ پاک ہیں
 سیال اشیاءکا پینا اور معاملہ کرنا جائز نہیں ہےلیکن عالمی منڈ یوں میں رائج مشروبات میں اگر ناپاک اجزا کا شک ہواورتغیر ماہیت متحقق نہ ہو تو عام حالات میں ان اشیاء کاپاک ہونا اورمعاملات درست ہیں ۔
• منصوصی اشیاء کے علاوہ قلب ماہیت سے نجس پاک ہو جا تاہے اس کا کھانا حلال ہے ،البتہ نجس العین اشیا ء بیرونی استعمال کیلئے ٹھیک ہیں اور نہ کھانا بہترہے۔
• وہ حرام جامد اشیاء جن کا تعلق کھانے سے نہیں ہوبلکہ استعمال خارجی ہو،تو ان میں ابتلا عام ہے ، ہر حال میں بلا شبہ پاک ہیں ۔ سیال اشیاء اگر وہ نشہ اور شراب کی طرح ہو تو ان کا پینا اور معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
• عالمی منڈ یوں کی رائج مشروبات میں اگر ناپاک اَجزا کا شک ہو اورقلب ماہیت متحقق نہ ہوتو عام حالات میں ان اشیاء کےپاک اور جائز ہونا درست ہے۔
 نجاست کھانے کے وجہ سے حیوان سے بدبو آنے لگے تو اس کا گوشت کھانا، اس کادودھ پینا، اس کا انڈا کھانا مکروہ ہے۔ایسی حلال حیوانات جس کی جس کی گوشت دودھ اور انڈے وغیرہ استعما ل ہوتے ہیں ان کو مردار کی خلط اجزا کھلانا مکروہ ہے اور ان کا کھاناعموم بلویٰ کی وجہ سے حلال اورجائز ہیں اورنہ کھانا بہتر ہیں۔
• قلب ماہیت میں اسباب اور ذرائع اصل نہیں بلکہ نتیجہ اصل ہوتا ہے ،کیمکل کے استعمال سے اس شئ کے جوہر ی اوصاف رنگ،بو اور مزہ بدل جائے تو متجنس کے لئے قلب ماہیت کا فی ہے ،نجس میں نہیں۔
 جلاٹین حلال ذرائع سے حاصل ہوتو استعمال جائز ہے جبکہ حرام ذرائع سے حاصل ہو ناجائز ہے۔
• حلال غذاؤں میں اگرچیزشک ہوجائے،اس کی اصل حلال ہے تو غذا بھی حلال ہے،اگر غذاکی اصل ناپاک ہے تو حرام ہو گا ۔اگر اس کی اصل میں شک ہو ا تو اس چھوڑنا بہتر ہے۔
• غیرمسلم ممالک سے جتنے بھی غذائی اشیا ء درآمد کی جاتی ہےاس کےساتھ دیگر اجزا کے علاوہ خنزیر کی چربی لازماً شامل ہوتی ہے۔اس کےمخصوص خفیہ اشارہ ‘‘ای کوڈ’’ کےمطابق‘‘e100سے لیکرe904’’تک غذائی اشیا ء کے ڈبوں پر درج ہوتے ہیں اس کوڈسے مرادخالص سور کی چربی ہو ہوتی ہے۔ ان خنزیر آلود حرام اشیاء، بسکٹ،ٹافی ،چیونگ گم،حام،حبیلی اور آئس کریم وغیرہ کی خرید و فروخت اور کھانا حرام ہیں ۔
• نجس العین کا استعمال خارجاً اور داخلاً ناجائز ہے اور حرام ہے اور نجس لغیرہ یعنی متنجس کا استعمال خارجاً جائز اوراکلاً داخلاً(کھانا) ناجائز ہیں ۔

سفارشات

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ‘‘قلب ماہیت کی شرعی احکام کا جائزہ’’ کام کرنے کا موقع اور توفیق دی جس کی وجہ سے اپنی کم علمی کے باوجود ان پرکچھ احاطہ ہوسکا۔ جبکہ اب بھی اس موضوع پر کام کرنے ضرورت ہے۔
قلب ماہیت کا تعلق اسلام کی اہم احکام حلال اور حرام سے ہیں جس کے ساتھ ہماری ساری ذندگی وابستہ ہے ۔
اس لئے استحالہ کے حوالے سے قدیم وجدید فقہاء کی آراء اکٹھا کرکے اس کا جائز ہ لینے کے بعدایک حتمی اور راجح فہم سامنے لانا چاہیے۔
جن چیزوں میں قلب ماہیت ہوتے ہیں ہر ایک کی معیار معلوم کرنا چاہیے۔
مسلم ممالک اور خاص کر غیر مسلم ممالک سے جتنی اشیاء خاص کر غذائی اشیاء درآمد کی جاتی ہیں ان پرتحقیق کر نا چاہیےکہ ان کی قلب ماہیت کی پہلو اور ان سے ملے ہوئے اجزاء کومعلوم کرنے کے بعد جید علماء کی سیمنا ر بلاکر مباحثہ کرنا چاہیےاور اِن اشیاء کی حکم سے عام مسلمانو ں کو اگاہ کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ میرے سے اس کاوش کو قبول کرے اور جوغلطی اور کوتاہی ہوئی ہو تو وہ معاف فرمائیے۔
آمین