الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد:
عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ ماہواری کے ایام میں نہ ہی نماز پڑھ سکتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھ سکتی ہے۔ تاہم، جب عورت ایسی عمر کے حصے میں داخل ہو جاتی ہے کہ اس کی ماہواری بند ہو جاتی ہے، تو ایسی عورت کو “آئسہ” کہا جاتا ہے۔ آئسہ کی عمر کی حد مختلف فقہاء کے نزدیک مختلف ہے، لیکن راجح رائے کے مطابق آئسہ کی عمر 55 سال ہے۔
اگر عورت کی ماہواری مکمل طور پر بند ہو جائے اور وہ آئسہ کی عمر کو پہنچ جائے، یعنی اس کی عمر 55 سال یا اس سے زیادہ ہو، اور پھر 6 ماہ یا اس سے زائد مدت گزرنے کے بعد کچھ تھوڑا خون آتا ہے، تو یہ خون حیض کا خون شمار نہیں ہوگا، اور ایسی عورت پر نماز اور روزہ فرض ہوں گے۔
لیکن اگر عورت کی عمر 55 سال سے کم ہو اور اس کی ماہواری بند ہو گئی ہو، اور پھر 6 یا 8 ماہ بعد دوبارہ خون آ جائے، تو یہ خون حیض کا خون شمار ہوگا اور ان ایام میں وہ نماز اور روزہ نہیں ادا کر سکتی۔
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًاO
جنہیں (ابھی) حیض نہیں آیا (ان کی بھی یہی عدّت ہے)، اور حاملہ عورتیں (تو) اُن کی عدّت اُن کا وضعِ حمل ہے، اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ اس کے کام میں آسانی فرما دیتا ہے۔ (الطَّلاَق، 65: 4)
رد المحتار میں ہے:
و عندنا ما لم تبلغ حد الإياس لا تعتد بالأشهر وحده خمس وخمسون سنة هو المختار لكنه يشترط للحكم بالإياس في هذه المدة أن ينقطع الدم عنهامدة طويلة وهي ستة أشهر في الأصح ثم هل يشترط أن يكون انقطاع ستة أشهر بعد مدة الإياس، الأصح أنه ليس بشرط حتى لو كان منقطعا قبل مدة الإياس ثم تمت مدة الإياس وطلقها زوجها يحكم بإياسها وتعتد بثلاثة أشهر هذا هو المنصوص في الشفاء في الحيض وهذه دقيقة تحفظ اه.”
(ردالمختار،كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:516)
النہر الفائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة.”
(النہرالفائق،کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے: