الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد:
ملک میں اس وقت مختلف رفاہی تنظیمیں ، ادارے اور ٹرسٹ زکات وصول کر رہے ہیں ، اور نادار لوگوں کی مدد میں سرگرمِ عمل ہیں۔جوادارہ زکات کی رقم صحیح طور پر مستحقین تک پہنچاتاہے اور شرعی اصولوں کے مطابق مصارف زکات میں خرچ کرتاہے ،تو اصولی طور پر ان رفاہی اداروں کو زکات دینا جائز ہے ۔ جس طرح آدمی خود اپنی زکات اداکرسکتاہے ایسے ہی کسی دوسرے کو اپناوکیل بھی بناسکتاہے ،ان رفاہی اداروں کی فقہی حیثیت ایک وکیل کی ہے ،وکیل کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جب تک وہ خرچ نہ کرے،تب تک مزکی(زکات ادا کرنے والا) کی زکات ادانہیں ہوتی ہے ۔
صورت مسئولہ کاجواب بالترتیب یہ ہے :
- جب کوئی فرد اپنی زکات ان اداروں میں جمع کراتا ہے، اس کی زکات کب ادا ہوگی؟ جب وہ پیسے ان اکاؤنٹس میں جمع کرواتا ہے یا جب یہ ادارے اس رقم کو خرچ کریں؟
اجتماعی ادارے چوں کہ زکات دینے والے کے وکیل ہیں، اس لیے جب تک وہ اس رقم کو خرچ نہیں کرتے ،تب تک آپ کی زکات ادانہیں ہوتی،صرف رفاہی اداروں کے اکاونٹ میں رقم جمع کرنے سےفرضِ زکات ادانہیں ہوتا ۔ - اگر ان اداروں نے زکات کی رقم کا غلط استعمال کیا یا ان کے ساتھ کوئی فراڈ ہوا جس میں زکات کی رقم ضائع ہوگئی، تو کیا اس کی زکات ادا ہو گئی؟
اگررفاہی ادارے نے کسی ایسی جگہ آپ کی زکات کی رقم خرچ کی ، جو زکات کے مصارف میں شامل نہیں یارفاہی ادارے کے ساتھ فراڈ ہوجاتاہے جس سے وہ رقم ضائع ہوگی، تو آپ کی زکات ادانہیں ہوئی ،دوبارہ آپ کو زکات اداکرنی ہوگی ۔ہاں اگر اس رفاہی ادارے کی غفلت سے رقم ضائع ہوئی ہے ،تو ان سے ضمان لی جاسکتی ہے ۔ - اگرکوئی اپنی زکات کسی ادارے کو دے، بعد میں اس کو اس ادارے کے طریقہ کار پر شک ہوا اور وہ اس ادارے سے اپنے پیسے واپس مانگے، تو کیا اس شخص کا واپس مانگنا جائز ہے؟ اس ادارے کا واپس کرنا جائز ہے؟ اگر واپس کردیے تو کیسے معلوم ہوگا کہ جو رقم واپس آئی ہے، وہ اسی فرد کی ہے؟
اگرآپ نے کسی رفاہی ادارے کو زکات کی رقم دی اور انہوں نے وہ رقم ابھی تک آگے صرف نہیں کی ، بلکہ رقم ان کے پاس موجود ہے تو آپ ان سے اپنی رقم واپس لےسکتے ہیں ،کیونکہ یہ ادارہ آپ کاوکیل ہے اور وکیل کومؤکل معزول کرسکتا ہے ۔اور ادارہ جو رقم ادا کرے ، وہ مزکی کی سمجھی جائے گی۔
“الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره”(ردالمحتارعلی الدرالمختار،مطلب فی زکاتثمن المبیع وفاء، ج3، ص189، دارالکتب العلمیة)
“سئل عمر الحافظ عن رجل دفع إلی الآخر مالاً، فقال لہ: ”ھذا زکاة مالي فادفعھا إلی فلان“ ، فدفعھا الوکیل إلی آخر ھل یضمن؟ فقال: نعم، لہ التعیین”(الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الزکوة، ج:3، ص:228)
آپ کے مسائل او ران کے حلمیں مذکور ہے کہ :
جوفلاحی ادارے زکات جمع کرتے ہیں وہ زکات کی رقم کے مالک نہیں ہوتے ،بلکہ زکات دہندگان کے وکیل اور نمائندے ہوتے ہیں،جب تک ان کے پاس زکات کاپیسہ جمع رہے گاوہ بدستورزکوۃ دہندگان کی ملک ہوگا….اسی طرح اگررفاہی ادارے نے زکات کی رقم بینک میں رکھوادی توجب تک وہ رقم بینک میں ہے تب تک زکات ادانہیں ہوئی ۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل،جلد5،ص177)