الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد:
قربانی کرنے والے کےلیے قربانی کی نیت کرناشرط ہے یعنی اس نے قربانی کی نیت سے ہی اپنے وکیل کو پیسے دے ہوں ،اسی طرح جس کو وکیل بنایاگیاہے ا س کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے موکل کی قربانی کی نیت سے جانور خریدے ۔البتہ اگر کئی لو گ کسی کو قربانی کے لیے وکیل بنائیں اور وہ بغیرکسی کانام لیے سب کی طرف سے جانور خریدلے تو سب کی قربانی ادا ہوجائےگی ،ہرشخص کا الگ نام لیکر جانور خریدناضروری نہیں ہے ۔
صورت مسئولہ میں چونکہ آپ سب نے قربانی کی نیت سے پیسے جمع کیے تھے ،اور اجتماعی قربانی کرنے والے ادارے یاشخص کوقربانی کی نیت سے پیسے دے تھے ،لہذا وہ ادارہ یاشخص آپ کی طرف سے وکیل ہے،اب اگر وکیل نے آپ سب کے لیے جانور خرید کرقربانی کی توسب کی قربانی اداہوجائے گی ۔
سابقہ سالوں میں اس طرح آپ نے جو قربانی کی ہے وہ بھی درست ہے ۔
اجتماعی قربانی کا بہترطریقہ
اجتماعی قربانی کا بہتر اور افضل طریقہ یہ ہے کہ آپ میں سے جس جس شخص نے قربانی کرنی ہے وہ اپنا اپنا نا م لکھ کر اپنے وکیل کو دے اور وکیل جانور خریدکر ہر شخص کاحصہ کسی جانو رمیں متعین کردے ۔
اسی طرح جس شخص کو اجتماعی قربانی کےلیے اپناوکیل بنایاہے وہ آپ ہی کے لیے جانور خریدے ،اور خریدنے سے لیکر جانور ذبح کرنے اور پھرگوشت کی تقسیم کرنےتک وہ بطور وکیل آپ کے لیے کام کرے اور اس کے ساتھ تمام معاملات معاہدے میں واضح ہوں مثلا:وکیل کو جملہ انتظامی معاملات کا اختیار دیاجائےاور حق الخدمت یعنی انتظامی نوعیت کے اخراجات کرنے کے بعد جورقم بچ جائے اس کے استعمال کے بارے میں وضاحت ہو کہ اسے کہاں استعمال کرناہے ۔
اگر اجتماعی قربانی کےلیے جس شخص کو وکیل بنایاگیاہے وہ پہلے اپنے لیے جانور خریدے اور پھر بطور وکیل آپ کوفروخت کرے ،پھر خود ہی آپ کی طرف سے قبضہ بھی کرے تو یہ طریقہ درست نہیں ہے کیوں کہ اس صور ت میں وہ وکیل خود ہی جانور اپنے موکل پرفروخت کرتاہے اور خود ہی موکل کی طرف سے قبضہ بھی کررہاہوتاہے ،اس لیے یہ عمل درست نہیں ہے ۔
یہاں ایک بات یھی یادر ہے کہ اگر آپ باہر کسی ایسے ملک میں مقیم ہیں جہاں کے وقت اور پاکستان کے وقت میں اگرزیادہ فرق ہو تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں قربانی کے ایام شرو ع ہوچکے ہوں ۔
فتاوی ٰ قاضی خان میں ہے:
رجل ضحى عن نفسه و عن أربعة من عياله خمس شياه و لم يعين كل واحد عن صاحبها عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه يجوز عن الكل استحسانا۔(فتاوی قاضيخان علی هامش الهندية،ج:3،ص:351)
المحيط البرهاني ميں هے :