سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

انگلینڈمیں مورگیج پر گھر خریدنے کا حکم

|

کتاب: الربا

|

سائل: ڈاکٹرزبیر.انگلینڈ

سوال

میں نے انگلینڈ میں طویل عرصہ کرایہ پر رہائش اختیار کی تھی، اور اس دوران کچھ عرصہ کے لیے سعودی عرب منتقل ہو گیا تھا۔ اب میں دوبارہ انگلینڈ جا رہا ہوں اور چونکہ کرایہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، اس لیے ہاؤس مورگیج پر گھر خریدنا مناسب لگ رہا ہے۔ اس سے قبل میں نے اس وجہ سے گھر نہیں خریدا کیونکہ وہ سودی بینک کے ذریعے ہوتا تھا، حالانکہ بعض علما جیسے علامہ یوسف القرضاوی نے سودی بینکوں سے ہاؤس مورگیج کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ تاہم، اب اسلامی بینک موجود ہیں۔ تو میرے لیے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد:

سود شریعت اسلامیہ میں حرام ہے، اور اس سے بچنا ضروری ہے۔ مغربی ممالک کے روایتی بینکوں میں جو ہاؤس مورگیج (mortgage) کا نظام رائج ہے، وہ دراصل ایک سودی قرضہ ہے، جس میں بینک گھر خریدنے کے لیے رقم فراہم کرتے ہیں اور اس پر سود وصول کرتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلم اقلیتوں کے لیے جب کوئی دوسرا جائز ذریعہ یا سودی بنکوں کا اسلامی متبادل نہ ہو، تو ضرورت شرعیہ اور مجبوری کی بنا پر بعض علما اور فقہی اداروں نے ہاؤس مورگیج (mortgage) کے جواز کا فتویٰ دیا تھا ۔

يحرم الإقتراض من البنوك الربويّة ولو في غير ديار الإسلام إلا لحاجة ماسة تقدر بقدرها وعلى ألاّ يكون سبيل آخر من الطرق المشروعة يمكن التوصل من خلالها إلى الغرض المقصود۔

سود ی بینکوں سے قرض لینا حرام ہے، خواہ وہ مسلم ممالک میں ہوں یا غیر مسلم ممالک میں ،سوائے ضرورت یا حاجت شرعیہ کے (حاجت شرعیہ کی صورت میں جائز ہے ) بشرط یہ کہ کوئی دوسرا جائز ذریعہ نہ ہو جس کے ذریعے مطلوبہ مقصد حاصل کیا جا سکے۔( ڈاکٹر مشہور فواز محاجنہ،الاقتراض من البنوك الربوية القائمة خارج ديار الإسلام،۱۹ مجلس ، یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیقات )

فإن المجلس في ضوء الأدلة والقواعد والاعتبارت الشرعية، لا يرى بأسا من اللجوء إلى هذه الوسيلة، وهي القرض الربوي لشراء بيت يحتاج إليه المسلم لسكناه هو وأسرته، بشرط ألا يكون لديه بيت آخر يغنيه، وأن يكون هو مسكنه الأساسي، وألا يكون عنده من فائض المال ما يمكنه من شرائه بغير هذه الوسيلة

شرعی شواہد اور قواعد فقہیہ کی روشنی میں، کونسل اس بات کو جائز سمجھتی ہے کہ ایک مسلمان سودی قرضے کا سہارا لے سکتا ہے تاکہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے رہائش کے لیے گھر خرید سکے، بشرط یہ کہ اس کے پاس اس مقصد کے لیے کوئی دوسرا مکان نہ ہو، اور یہ مکان اس کی بنیادی رہائش ہو۔ مزید برآں، یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس اتنی اضافی رقم نہ ہو کہ وہ کسی دوسرے ذریعہ سے یہ گھر خرید سکے۔( فتوی نمبر :4148،یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیقات، 2018 )

سائل کے استفسار کے مطابق، سودی بینکوں کے علاوہ، ایسےاسلامی بینک یا مالیاتی ادارے بھی موجود ہیں ، جو علماء اور ماہرینِ مالیات کی نگرانی میں کام کر رہے ہوں، اس صورت میں ان ہی اسلامی مالیاتی اداروں سے مورگیج لیناجائزہے ،اسلامی مالیاتی اداروں کی موجودگی میں کسی سودی بینک سے مورگیج لینا یا ان کے ساتھ معاملات کرنا درست نہیں ہے ۔

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ: مفتی عثمان یونس

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد