سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

ایک طلاق کے بعدرجوع کا حکم

|

کتاب: الطلاق

|

سائل: محمد علی۔ پشاور

سوال

لیاقت کا بھانجہ ہے پرویز کا بیٹا اس نے اپنی بیوی کو گھر میں چوری کرنے کی وجہ سے بیان حلفی پر ایک طلاق دی ہے اور وہ لڑکی غیر آباد ہو کر اپنےوالدین کے گھر چلی گئی ۔ وہاں پر ان کے والدین اس معاملے کو لے کر عدالت چلے گئے، عدالت نےلڑکے کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور لڑکے پر عدت کی رقم ،مہراور بچیوں کا خرچہ مقرر کر دیا ہے ۔ اب لڑکا یہ کہتا ہے کہ میں نے ایک طلاق دی ہے ۔ لڑکی بھی آباد ہونا چاہتی ہے لڑکا اس کو آباد کرنا چاہتا ہے جبکہ جج نے لڑکے کے خلاف فیصلہ سنا دیا ہے ۔ تو اس صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟آیا کورٹ کا یہ فیصلہ درست تصور کیا جائے گا۔ اور کیا لڑکے پر عدت کا خرچہ اور بچیوں کا خرچہ لازمی ہوگا ؟

جواب

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد

اللہ نے مرد کو تین طلاق دینے کا اختیار دیا ہے،اگرمرد ایک یا دوطلاق دے دے تو اس کے بعد عدت کے اندر رجوع کااختیار مرد کے پاس ہوتاہے اور اگرعدت گزرجائے تو باہم رضامندی سے دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ۔ اسی طرح عدت کاخرچہ اور بچوں کا خرچہ بھی شرعا خاوندپرلازم ہوتاہے ۔


صورت مسئولہ میں چونکہ تحریری طور پر ایک ہی طلاق دی ہے ، اب اگر عدت نہیں گزری ، تو شوہرکو اختیارہے کہ وہ رجوع کرے اور رجوع کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی سے کہہ دے کہ میں نے طلاق سے رجوع کیا ہے یا اس کے ساتھ خلوت اختیار کرے ، تو اس کا رجوع ثابت ہو جائے گا ،اس حالت میں عورت کےلیے نیامہرلازم نہیں ہوگا۔ لیکن اگرایک طلاق کے بعد عدت گزر گئی ہے تو باہم رضامندی سے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کریں گے۔


جہاں تک عدالت کا فیصلہ ہے اگر تو یہ دونوں رجوع کرلیتے ہیں تو پھر بچوں کاخرچہ،مہراو ر بیوی کا خرچہ ویسے بھی مرد پر لازم ہے لہذا اس صورت میں عدالتی فیصلے سے کوئی اضافی چیز لازم نہیں ہورہی ہے ۔لیکن اگر یہ دونوں رجوع نہیں کرتے تو اس صورت میں عدالت کا فیصلہ درست ہے ،مرد پر عورت کی عدت کا خرچہ،مہر اور نابالغ بچوں کا خرچہ سب لازم ہوگا۔

أسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ وَ اِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ… لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُه فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْر} [الطلاق:6و7)

ترجمہ: تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے (اس کے بارے میں ) تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا ) خرچ دو ۔۔۔ (آگے بچہ کے نفقے کے بارے میں ارشاد ہے کہ ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کودیا ہے ۔ خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت وحاجت روائی سہی) ۔

جیساکہ فتاوی ہندیہ میں ہے:

وإذا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً رَجْعِيَّةً أو تَطْلِيقَتَيْنِ فَلَهُ أَنْ يُرَاجِعَهَا في عِدَّتِهَا رَضِيَتْ بِذَلِكَ أو لم تَرْضَ كَذَا في الْهِدَايَةِ
المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن۔(الفتاوى الهندية ، كتاب الطلاق ، الباب السابع عشر في النفقات ، الفصل الثالث في نفقة المعتدة ، ج: 1 ص: 557)
واللہ اعلم باالصواب

کتبہ: احتشام الحق

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد