سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

بہن کا میراث میں اپنا حصہ معاف کرنا

|

کتاب: المیراث

|

سائل: آصف علی انجم، محلہ درس ، ٹیپو روڈ ، مورگاہ، راولپنڈی

سوال

میرے والد صاحب کی وفات 2009-05-19 ( تقریباً 16 سال قبل ) کو ہوئی ان کی وفات بعد بھائیو نے ان کا تر کہ ہنوز تقسیم نہیں کیا اور نہ ہی بہنوں کو انکا حصہ دیا ہے ،البتہ بہنیں یہ کہتی ہیں کہ ہم نے اپنا حصہ بھائیوں کو معاف کر دیا ہے: 1. کیا بہنیں حصہ لیے بغیر اپنے حصے کی مالک بنے بغیر ،بھائیوں کو اپنا حصہ معاف کر سکتی ہیں۔؟ 2. والد کی وفات کے بعد بھائیوں کا ترکہ تقسیم نہ کرنا یہ عمل قران وحدیث کی روشنی میں کیسا ہے۔؟ 3. والد کی وفات کے بعد تمام بھائیوں اور بہنوں کے حصوں کی تقسیم کے لیے کوشش کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیسا ہے۔ ؟

جواب

الحمد للہ رب العالمین ، والصلاہ والسلام علی رسولہ الکریم اما بعد :

اصولی طور پر یہ جاننا ضروری ہے کہ حقِ وراثت تمام ورثاء میں شریعت کے مطابق تقسیم کرناضروری ہے،بغیرکسی شرعی عذر کے تقسیم میں تاخیرکرنا باعثِ گناہ ہے ۔اسی طرح کوئی وارث اپنا حق تب ہی معاف کرسکتاہے جب وراثت شرعی طریقے سے تقسیم ہوجائے، اور ہر حق دار اپنے حصہ پر قبضہ کرلے ۔ اپنے حصے کا مالک ہوئے بغیر حق وراثت معاف نہیں ہوسکتاہے ۔
صورت مسئولہ میں آپ کے سوالات کے جواب بالترتیب حسب ذیل ہے ۔

۱۔ چونکہ آپ کے والدکی وفات کے بعد وراثت تقسیم نہیں ہوئی، وہ بدستور بھائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ اب تک بہنوں کو اپنے حصے کا قبضہ ہی نہیں ملا، اس لیے ان کایہ کہناکہ ہم نے معاف کردیاہے، اس سے ان کا حق میراث ساقط نہیں ہوگا۔ہاں ،اگر ورثاءزمین یا پراپرٹی تقسیم کرلیں اور ہر وار ث کاحصہ الگ کرکے اس کے حوالے کردیا جائے، تو اس صورت میں بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو گفٹ کرنا چاہیں، تو اس میں اس شرعی طور پر کوئی حرج نہیں ۔یاد رہے کہ میت کی وفات کے بعد خود کار طریقے سے میراث میں شریک بہن کا حق ِ وراثت ثابت ہوجاتا ہے ، بھائیوں کا اس کو اپنے پاس رکھنا ناجائز قبضہ ہے ۔

۲۔ جہاں تک والدکی وفات کے بعد بھائیوں کا ترکہ تقسیم نہ کرنا ہے ،تو یہ عمل قرآن وسنت کی روسے درست نہیں ، بغیر کسی مجبوری کے میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنا یا اس میں رکاوٹ ڈالنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ یہ حق دار کو اس کے حق سے فائدہ اٹھانے سے محروم کرنا ہے، جو کہ حق دار کو نقصان دینے کے مترادف ہے۔ حدیث میں اس پرسخت وعید آئی ہے۔
۳، میراث کی تقسیم کی کوشش کرنا درحقیقت شرعی طور پر ورثاء کو ان کا حق دلوانا ہے، جو ایک نیک اور مستحسن عمل ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين. (مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے

: الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط. (ج؛7/ص؛505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)
واللہ اعلم باالصواب

کتبہ: مفتی عثمان یونس

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد