سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

کیا بیمہ ( (insurance میں ملازمت کرنا شرعادرست ہے؟

|

کتاب: فائننس

|

سائل: ابوبکرصدیق ،چارسدہ

سوال

کیا بیمہ ( (insurance میں ملازمت کرنا شرعادرست ہے؟رہنمائی فرمائے

جواب

جواب: الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد:

بیمہ insurance: فریقین کے درمیان ایک معاہدے کانام ہے ،جس میں ایک فریق (بیمہ کمپنی )دوسرے فریق (بیمہ کرانے والا)کے نامعلوم نقصان کے واقع ہونے پرایک مقررہ رقم اداکرنے کاذمہ لیتاہے اور اس کے بدلے دوسرافریق ایک مقررہ رقم اقساط(پریمیئم)کی شکل میں اس وقت تک اداکرنے کا عہد کرتاہے جب تک کہ وہ نامعلوم نقصان واقع نہ ہوجائے۔
چونکہ بیمہ یعنی انشورنس کی جتنی صورتیں اس زمانے میں رائج ہیں ،سب ناجائز ہیں کیونکہ وہ سب سوداورقمار پر مشتمل ہیں ،جس کی حرمت نصوص قطعیہ سے ثابت ہے

ارشاد باری تعالٰی ہے:

احل اللہ البیع وحرم الربوٰا الآیۃ (البقرۃ آیت ۲۷۵)
انماالخمروالمیسر والانصاب والازلامُ رجس من عمل الشیطن الآیۃ (سورۃ المائدۃ آیت ۹۰)۔

مولانا مودودی ؒ لکھتے ہیں کہ:

بیمہ insurance:کی جملہ اقسام میں چونکہ سود اور جوا پایا جاتاہے جوشرعا ناجائز اور حرام ہے ،اس لئے بیمہ کی تمام اقسام ناجائز اور حرام ہوگی۔(مولانامودودیؒ،رسائل ومسائل ،باب جدید فقہی مسائل،ص ۷۷۶ ،اسلامی پبلی کیشینز (پراویٹ) لمیٹڈ ،منصورہ ملتان روڈ ،لاہور،اشاعت جنوری ۲۰۲۲ء)۔

مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ:

بیمہ(insurance) کے جو طریقے اس وقت مروج ہیں وہ سب سود اور قمار پر مشتمل ہیں اور حرام ہیں ۔(مفتی تقی عثمانی،فتاوٰی عثمانی ، کتاب الربا والقمار والتامین، مکتبہ معارف القرآن کراچی،فروری ۲۰۲۰ء ،جلد۳ ص۳۲۸

چونکہ سودی معاملہ کرنا،سودکامعاہدہ لکھنا،سودکی رقم وصول کرنا وغیرہ سب شرعا حرام ہے،جیساکہ حدیث میں ہے:

لعن رسول اللہ ﷺ اٰکل الربوٰا وموکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء

(رواہ مسلم)۔

لہذا صورت مسئولہ میں بیمہ (انشورنس)میں ملازمت کرنابھی شرعا جائز نہیں ہے۔

کتبہ: مفتی محمد سلیمان

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمٰن ،مفتی وسس

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد