اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
الجواب حامداومصلیا:
یادرہے کہ سسر کا اپنی بہو سے ایسی نازیبا حرکت کرنا حرام ہے اور بہت بڑا گناہ ہے ،سسر کو تو بہ استغفار کرناچاہے اور اس شیطانی حرکت کو ترک کرناچاہئے۔
صورت مسئولہ میں اگر واقعی سسر نے شہوت کے ساتھ اپنی بہو کے ساتھ یہ حرکت کی ہے اور بہو اور اس کا شوہر اس بات کی تصدیق بھی کررہے ہیں تو اس صورت میں احناف کے نزدیک حرمت مصاہرت ثابت ہوجائے گی اور یہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہوگی ،ان میں تفریق اور جدائی ضروری ہوگی ۔
علامہ زیلعی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں لکھتے ہیں :
قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ ( وَالزِّنَا وَاللَّمْسُ وَالنَّظَرُ بِشَهْوَةٍ يُوجِبُ حُرْمَةَ الْمُصَاهَرَةِ )…وَلَنَا قَوْله تَعَالَى { وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ} وَالنِّكَاحُ هُوَ الْوَطْءُ حَقِيقَةً ؛ وَلِهَذَا حُرِّمَ عَلَى الِابْنِ مَا وَطِئَ أَبُوهُ بِمِلْكِ الْيَمِينِ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { مَلْعُونٌ مَنْ نَظَرَ إلَى فَرْجِ امْرَأَةٍ وَابْنَتِهَا } وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { مَنْ نَظَرَ إلَى فَرْجِ امْرَأَةٍ لَمْ تَحِلَّ لَهُ أُمُّهَا وَلَا ابْنَتُهَا } وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { مَنْ مَسَّ امْرَأَةً بِشَهْوَةٍ } حَرُمَتْ عَلَيْهِ أُمُّهَا وَابْنَتُهَا وَهُوَ مَذْهَبُ عُمَرَ وَعِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَأُبَيُّ بْنِ كَعْبٍ وَعَائِشَةَ
وَابْنِ مَسْعُودٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجُمْهُورِ التَّابِعِينَ (تبين الحقائق شرح كنز الدقائق،فصل فی المحرمات،جلد2،صفحہ۔106)
علامہ کاسانی لکھتے ہیں؛
قَالَ عَزَّ وَجَلَّ : { وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنْ النِّسَاءِ } عَقْدًا وَوَطْئًا وَرُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ{مَنْ نَظَرَ إلَى فَرْجِ امْرَأَةٍ لم تَحِلَّ لَهُ أُمُّهَا وَلَا ابْنَتُهَا } وَرُوِيَ { حُرِّمَتْ عَلَيْهِ أُمُّهَا وَابْنَتُهَا } وَهَذَا نَصٌّ فِي الْبَابِ ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ ذِكْرُ النِّكَاحِ .بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،(جلد5،صفحہ 420 )
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،(جلد5،صفحہ 420 )
البتہ اس مسئلہ میں ایک رائے ائمہ ثلاثہ(امام شافعی ،امام مالک ،امام احمدبن حنبل) کی بھی ہے کہ زناسے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے۔لہذا ان کے نزدیک مذکورہ بالہ صورت میں سسر کی اس حرکت کی وجہ سے بہو اور اس کے شوہرا یک دوسرے کے لیے حرام نہیں ہونگے اور نہ ہی ان میں تفریق کرنے کی ضرورت ہوگی۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے :
ویری الحنفیۃ ان امن زنی بامرأۃ اولمسھا اوقبلھا بشہوۃ او نظر الی فرج امرأۃ لم تحل لہ امھا و لابنتھا
(ا لموسوعۃ الفقہیۃ ،جلد36،ص 214)
البتہ اس مسئلہ میں ایک رائے ائمہ ثلاثہ(امام شافعی ،امام مالک ،امام احمدبن حنبل) کی بھی ہے کہ زناسے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے۔لہذا ان کے نزدیک مذکورہ بالہ صورت میں سسر کی اس حرکت کی وجہ سے بہو اور اس کے شوہرا یک دوسرے کے لیے حرام نہیں ہونگے اور نہ ہی ان میں تفریق کرنے کی ضرورت ہوگی۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے :
وذھب مالک فی قولہ الراجح والشافعی الی ان الزنا لاتثبت بہ حرمۃ المصاھرۃ ۔(ا لموسوعۃ الفقہیۃ ،جلد36،ص 214
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ : الزِّنَا لَا يُوجِبُ حُرْمَةَ الْمُصَاهَرَةِ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ } وَلِأَنَّهَا نِعْمَةٌ فَلَا تُنَاطُ بِالْمَحْظُورِ(تبين الحقائق شرح كنز الدقائق، فصل فی المحرمات،جلد2،صفحہ۔106)
بہرحال حنفی نقطہ نظر سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے جب کہ جمہور فقھا کے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔