سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

حمل کےدوران طلاق کاحکم۔

|

کتاب: الطلاق

|

سائل: سعودی عرب جدہ

سوال

ایک دوست کی بیٹی کی جدہ میں شادی ہوئی تھی۔ وہ تین چار ماہ بعد پاکستان گئی۔ اس کے بعد اس کے شوہر نے اسے تحریری طور پر ایک طلاق بھیجی، اس وقت وہ حاملہ تھی ۔ سوال یہ ہے کہ کیا حمل کے دوران طلاق دینا جائز ہے؟کیا دوسری اور تیسری طلاق ہر ماہ بعد خود بخودواقع ہوجائے گی ؟ کیا طلاق کے ثبوت کے لیے گواہ کا ہونا ضروری ہے ؟ براہ کرم اس معاملہ میں راہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ﷺ ، امابعد:

صورت مسؤلہ میں حمل کے دوران صریح الفاظ کے اندر ایک طلاق دی گئی ہے تو اس صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔اسی طرح حمل کے دوران اگر شوہر طلاق دے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے،اور بچے کی پیدائش تک شوہر رجوع کرنے کاحق رکھتاہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ عدت کی مدت وضع حمل ہے یعنی جس دن بچہ کی پیدائش ہوگی تو عدت ختم ہوجائے گی ۔عدت گزرنے کے بعد باہمی رضامندی سے نکاح کرسکتے ہیں۔
سوال کا ایک جز ء کہ کیا طلاق کے واقع ہونے کے لیے گواہ کا ہونا ضروری ہے ؟ طلاق کے واقع ہونے کے لیے کسی شخص کی گواہی ضروری نہیں ہے ۔شوہر اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ میں نے طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی ۔
اس طرح سوال کا ایک جزء یہ ہے کہ کیا باقی دو طلاق خود بخود واقع ہوجائیں گی ؟ ایک طلاق کے بعد باقی دو طلاق اس وقت تک واقع نہیں ہوں گی جب تک شوہر نہ دے ،خود بخود طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ: مفتی وصی الرحمٰن

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد