الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد
مذکورہ بالہ صورت میں جس جگہ سے متعلق سوال کیاگیاہے اگر واقعی وہاں 150 سال سےکسی میت کو دفن نہیں کیاگیا اور یہ جگہ وقف رجسٹرڈ ہے تو اس کا حکم وقف کا ہی ہے،وقف قبرستان میں جب تک ضرورٹ باقی ہو اس وقت تک دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اب اگر قبروں کے نشانات باقی نہیں رہے اور اہل علاقہ کی ضرورت کے لیے متبادل قبرستان بھی موجود ہے تو اسے اہل علاقہ کی باہمی مشاورت سے اسے جنازگاہ میں تبدیل کی جا سکتا ہے کیوں کہ ایک وقف کو دوسرے وقف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جب کہ پہلے وقف کی ضرورت باقی نہ رہے۔
علامہ عینی لکھتے ہیں :
فَإِن قلت: هَل يجوز أَن تبنى على قُبُور الْمُسلمين؟ قلت: قَالَ ابْن الْقَاسِم: لَو أَن مَقْبرَة من مَقَابِر الْمُسلمين عفت فَبنى قوم عَلَيْهَا مَسْجِدا لم أر بذلك بَأْسا، وَذَلِكَ لِأَن الْمَقَابِر وقف من أوقاف الْمُسلمين لدفن موتاهم لَا يجوز لأحد أَن يملكهَا، فَإِذا درست وَاسْتغْنى عَن الدّفن فِيهَا جَازَ صرفهَا إِلَى الْمَسْجِد، لِأَن الْمَسْجِد أَيْضا وقف من أوقاف الْمُسلمين لَا يجوز تملكه لأحد۔
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري،باب الصلاۃ فی مرابض الغنم ،جلد4،صفحہ 179)
فتاوی شامی میں ہے: