سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

قبرستان کوجناز گاہ بنانا؟

|

کتاب: قبرستان کےاحکام

|

سائل: الخدمت ویلفیئر فاؤنڈیشن گجر خان ملالہ

سوال

شہرگجرخان سے آگےہمارادیہات گاوں ملالہ ہے۔ یہ کہ آج سے 200۔150 سال پہلے ہماے جو پہلے 3۔2 نسلیں گزریں ہیں ان کی نشاندہی کے مطابق یہ جگہ قبرستان کے لیے وقف کی گئی تھی اور اب تک کاغذات کی حدتک قبرستان ہی رجسٹرڈ ہے ۔یہ کہ یہ جگہ بنجرتھی اور یہ قبرستان کی جگہ پر3۔2 فٹ کی کھدائی کی گئی لیکن وہاں پرکسی قسم کی کوئی ہڈیاں یاقبروں کی نشاندہی نہ ہوئی ہے اور وہاں سے بس پرانے دور کے مٹکے وغیرہ کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔اور پہلے کی نسلوں کے کہنے سننے کے مطابق ان کے وقت اوران سے پہلے کے وقت میں وہاں پرکوئی قبر وغیرہ بناتے نہیں دیکھی گئی ۔جبکہ ہمارا ایک قبرستان اتناہی پرانا ہے جہاں ابھی بھی قبریں ہورہیں ہیں ،جودیہات کے لوگ ہیں وہ اس جگہ پر اپنے مال مویشی باندھتے ہیں اوردیہات کےکچھ لوگ اس جگہ پر فصلو ں کی جھڑائی وغیرہ کرتے ہیں۔لہٰذا ہم نے اس جگہ کو جنازہ گاہ بنانے کے لئیے ارادہ کیاہے لیکن دیہات کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر جنازہ گاہ بنانا جائزنہیں ہے۔ جناب برائے مہربانی حالات وواقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے علماء کے لحاظ سے اسلامی احکامات کی روشنی کو مدنظر رکھتے ہوئے فتویٰ دیں کہ کیا اس جگہ جنازہ گاہ بنانا جائزہے یانہیں جناب کے فتویٰ سے اس معاملے کا بہتر حل نکل سکتاہے۔

جواب

الحمدللہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وبعد

مذکورہ بالہ صورت میں جس جگہ سے متعلق سوال کیاگیاہے اگر واقعی وہاں 150 سال سےکسی میت کو دفن نہیں کیاگیا اور یہ جگہ وقف رجسٹرڈ ہے تو اس کا حکم وقف کا ہی ہے،وقف قبرستان میں جب تک ضرورٹ باقی ہو اس وقت تک دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، اب اگر قبروں کے نشانات باقی نہیں رہے اور اہل علاقہ کی ضرورت کے لیے متبادل قبرستان بھی موجود ہے تو اسے اہل علاقہ کی باہمی مشاورت سے اسے جنازگاہ میں تبدیل کی جا سکتا ہے کیوں کہ ایک وقف کو دوسرے وقف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جب کہ پہلے وقف کی ضرورت باقی نہ رہے۔

علامہ عینی لکھتے ہیں :

فَإِن قلت: هَل يجوز أَن تبنى على قُبُور الْمُسلمين؟ قلت: قَالَ ابْن الْقَاسِم: لَو أَن مَقْبرَة من مَقَابِر الْمُسلمين عفت فَبنى قوم عَلَيْهَا مَسْجِدا لم أر بذلك بَأْسا، وَذَلِكَ لِأَن الْمَقَابِر وقف من أوقاف الْمُسلمين لدفن موتاهم لَا يجوز لأحد أَن يملكهَا، فَإِذا درست وَاسْتغْنى عَن الدّفن فِيهَا جَازَ صرفهَا إِلَى الْمَسْجِد، لِأَن الْمَسْجِد أَيْضا وقف من أوقاف الْمُسلمين لَا يجوز تملكه لأحد۔
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري،باب الصلاۃ فی مرابض الغنم ،جلد4،صفحہ 179)

فتاوی شامی میں ہے:

اذابلی المیت وصار ترابایجوز زرعہ والبناء علیہ
(حاشیۃ ابن عابدین،کتاب الصلاۃ،جلد3،صفحہ 184)
واللہ اعلم باالصواب۔

کتبہ: مفتی وصی الرحمٰن

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد