الحمد للہ رب العالمین والصلوٰ ۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم امابعد۔!
آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب حسب ذیل ہیں :
1۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ لڑکی (بنت عبیداللہ ) کانکاح اس کے چچا(قاری عبیدالرحمٰن ) نے لڑکی کے والد (عبیداللہ) کے اجازت کے بغیر کیاہے ۔اور قاری عبیدالرحمٰن کاشمار لڑکی کے ولی ابعد میں ہوتاہے لہذیہ نکاح لڑکی کے والد عبیداللہ کی اجازت پر موقوف تھا ۔اب اگر واقعی لڑکی کے والد عبیداللہ نے اس رشتہ سے انکار کیاہے تو بنت عبیداللہ کانکاح سعیداللہ سے منعقد ہی نہیں ہوا۔
کیونکہ فقہی اصول ہے کہ ولی اقرب کی موجودگی میں ولی ابعد کاکیاہوانکاح ولی اقرب کی اجازت پرموقوف ہوتاہے ،اگر ولی اقرب اجازت دیے تو وہ نکاح منعقد ہوجاتاہے اگر ولی اقر ب انکار کردےتو نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔
فتاوی شامی میں لکھاہے :
فلو زوج الأبعد حال قيام الأقرب توقف على إجازته (الدر المختار،جلد2،ص432،باب الولی)
2۔ جزنمبر ایک کے جواب سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بنت عبیداللہ کا نکاح سعیداللہ سےمنعقد نہیں ہوا لہٰذاسعیداللہ کا یہ د عوی ٰ کرنا کہ بنت عبیداللہ اس کی بیوی ہے شرعا درست نہیں ہے ۔
3۔ جب سعیداللہ سے اس لڑکی کا نکاح منعقد ہی نہیں ہواہے تو اب بنت عبیداللہ کا نکاح کسی دوسری جگہ کرسکتے ہیں ۔
4۔ آپ کے سوال میں مذکورہے کہ ولد نے اس رشتہ سے انکار کردیاتھالہذہ اس صورت میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تو لڑکی کا بلوغت سے پہلے اور بلوغت کے بعدا نکارکی اب ضرورت ہی نہیں رہی ۔
5۔ ملکی قانون (قانون امتناع نکاح نابالغان 1929) کے مطابق نابالغ لڑکی اور لڑکے کا نکاح نہیں کرایاجاسکتاہے ،اسی طرح خیاربلوغ(Option of Puberty) ملکی قانون میں موجود ہےکہ جب لڑکی بالغ ہونے کے بعد انکارکرے اور اس کاثبوت موجود ہو تو عدالت اس نکاح کا اعتبار نہیں کرتی ۔