سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

نکاح سے متعلق قانونی مسائل اور احکامات؟

|

کتاب: کتاب النکاح

|

سائل: ضیاء الرحمٰن عبید اخوانی

سوال

مفتیان کرام سے درجہ ذیل مسئلہ(جو نکاح سے متعلق ہے ) کا شرعی موقف مطلوب ہے: مسئلہ کچھ اس طرح ہےکہ قاری عبید الرحمان صاحب نے انیس سوستانوے ؁1997 میں اپنے بھائی غلام اللہ کی شادی کرانے کا ارادہ کیااس لڑکی سے جو غلام اللہ کی منگنی میں تھی توقاری عبید الرحمٰن صاحب نے لڑکی کے گھر والوں سے شادی کی بات کی تو وہ اس شادی (غلام اللہ کی اس لڑ کی سے) پر راضی ہوگئے اوردونوں فریقین شادی کے تمام انتظامات کر نے لگے جیسے ہی انتظامات مکمل ہوگئے اورشادی شروع ہوئی جسں میں مہمان ودیگر افراد بھی شریک رہے،آخرمیں جب دلہن کی رخصتی کا وقت آیا تو عین اسی موقعہ پر دلہن کے گھر والوں نے قاری عبیدالرحمن صاحب سے اس دلہن کے بدلے دوسری لڑکی جو (قاری عبیدالرحمن صاحب اورغلام اللہ کی بہن تھی)جو ( دلہن کے بھائی )سعید اللہ کے نکاح میں دینے کا مطالبہ کیا تو قاری عبید الرحمن صاحب نےبعض وجوہات کی بنا پر اس رشتے کو دینے سے منع کیا ۔ پھر دلہن کے گھر والوں نے قاری عبید الرحمان صاحب سے ان کے بڑے بھائی مولانا عبیداللہ کی بڑی بیٹی کا مطالبہ کیا (جوقاری عبید الرحمن صاحب کی بتھیجی تھی )جس پر قاری عبید الرحمان صاحب نے اولانکار کیا اور معذرت پیش کی اور کہاکہ اس کے والدین موجود ہیں (یعنی ان کے والدین کی مرضی جہاں چاہے اپنی بیٹی کے رشتہ کا تعین کرے ) اس معاملے پر مجھےکوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی دونوں فرقین کے درمیان کافی بحث و مباحثہ ہوا بلآخر قاری عبید الرحمن صاحب مجبور ہوکر بنت عبیداللہ جو کہ نابالغ تھی کا نکاح سعید اللہ سے کروایا،اس وقت لڑکی (بنت عبیداللہ)اورانکے والدین ان تمام صورتحال سے لاعلم تھے جب لڑکی کے والد عبیداللہ کو اس بات کا علم ہواتو اس نے اپنی بیٹی دینےسے انکارکیا۔ اسی طرح لڑکی بھی قبل البلوغت اور بعدال بلوغت انکار کرتی رہی جس کی وجہ سےسعیداللہ کے گھر والوں نے سعیداللہ کےلے دوسری لڑکی کا انتخاب کیا اوراسی سے شادی کرائی دی ۔ (یعنی بنت عبید اللہ کے انکار کے سبب سعیداللہ نے دوسری شادی کی) اور اب سعید اللہ شادی شدہ ہے۔ لیکن پھرشادی کے کچھ عرصے بعد سعید اللہ نے بنت عبیداللہ کو اپنی منکوحہ( حالانکہ بنت عبیداللہ نے اس نکاح کو قبول کرنے سے صراحتا والدین کی موجودگی میں انکا رکیا ہے اور اب بھی انکارکررہی ہے)یعنی بیوی ہونے کا دعوی کیا ہے اورکر رہا ہے،یہ ہی نہیں بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ بنت عبیداللہ کیےلئےآنےوالے دیگر رشتوں میں رکاوٹ بن کردھمکی بھی دے رہے ہیں ،جس کے سبب بنت عبیداللہ کوبہت پریشانی ہو رہی ہے،اوروہ اس مسئلے سے (جوغلام اللہ کے شادی کے دوران قاری عبید الرحمن نے سعیداللہ سے نکاح کی صورت میں کیا)مکمل طور پرآزادی چاہتی ہے ۔ جبکہ یہ مسئلہ دس بارہ سالوں سے اسی طرح معلق (لٹکا ہوا)ہے۔ جسکا کوئی حل نہ ہونے کی صورت میں مسلسل بنت عبیداللہ کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہے، اوراس کے لیےدوسری جگہ شادی کر نے میں بھی رکا وٹ ہے۔ لہذا! اب اس مسئلے کے بارےفقہا کرام سے گزارش ہے کہ اس متعلقہ مسئلہ کا شریعت کی روشنی میں ہمیں ایسافتویٰ دیں جس کوپاکستانی قانون میں بھی اسے قبول و منظورکیا جا تاہو،نیز اس مسئلے سے نکلنے والے جزئیات کا بھی شرعی موقف مع دلائل درج کریں۔ اس مسئلے سے نکلنے والے چند جزئیات درج ذیل ہیں۔ 1: کیا چچا نے لڑکی اور والدین کی اجازت کے بغیر جو نکاح کیا ہے۔ یہ شرعا منعقد ہوا ہے یا نہیں؟ 2: کیا سعید اللہ کا یہ دعوی کہ( بنت عبیداللہ) میری بیوی ہے یہ درست ہے یا نہیں؟ 3: کیا بنت عبیداللہ کا نکاح ہم دوسری جگہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ 4: بنت عبیداللہ کو جب اپنی نکاح (جو چچا نے کیا تھا )ہونےکا علم ہوا تو انہوں نے صراحتا انکار کیا قبول کرنے سےقبل بلوغت بھی اور بعدبلوغت بھی اس کی شریعت میں کیا حیثیت ہے ؟ مندرجہ با لا صورتوں میں پاکستانی قانون کیا ہے کیاقانونا ایسا نکاح منعقد ہوتاہے یا نہیں ؟۔

جواب

الحمد للہ رب العالمین والصلوٰ ۃوالسلام علیٰ رسولہ الکریم امابعد۔!

آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب حسب ذیل ہیں :
1۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ لڑکی (بنت عبیداللہ ) کانکاح اس کے چچا(قاری عبیدالرحمٰن ) نے لڑکی کے والد (عبیداللہ) کے اجازت کے بغیر کیاہے ۔اور قاری عبیدالرحمٰن کاشمار لڑکی کے ولی ابعد میں ہوتاہے لہذیہ نکاح لڑکی کے والد عبیداللہ کی اجازت پر موقوف تھا ۔اب اگر واقعی لڑکی کے والد عبیداللہ نے اس رشتہ سے انکار کیاہے تو بنت عبیداللہ کانکاح سعیداللہ سے منعقد ہی نہیں ہوا۔

کیونکہ فقہی اصول ہے کہ ولی اقرب کی موجودگی میں ولی ابعد کاکیاہوانکاح ولی اقرب کی اجازت پرموقوف ہوتاہے ،اگر ولی اقرب اجازت دیے تو وہ نکاح منعقد ہوجاتاہے اگر ولی اقر ب انکار کردےتو نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔
فتاوی شامی میں لکھاہے :
فلو زوج الأبعد حال قيام الأقرب توقف على إجازته (الدر المختار،جلد2،ص432،باب الولی)
2۔ جزنمبر ایک کے جواب سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بنت عبیداللہ کا نکاح سعیداللہ سےمنعقد نہیں ہوا لہٰذاسعیداللہ کا یہ د عوی ٰ کرنا کہ بنت عبیداللہ اس کی بیوی ہے شرعا درست نہیں ہے ۔
3۔ جب سعیداللہ سے اس لڑکی کا نکاح منعقد ہی نہیں ہواہے تو اب بنت عبیداللہ کا نکاح کسی دوسری جگہ کرسکتے ہیں ۔
4۔ آپ کے سوال میں مذکورہے کہ ولد نے اس رشتہ سے انکار کردیاتھالہذہ اس صورت میں نکاح منعقد ہی نہیں ہوا تو لڑکی کا بلوغت سے پہلے اور بلوغت کے بعدا نکارکی اب ضرورت ہی نہیں رہی ۔
5۔ ملکی قانون (قانون امتناع نکاح نابالغان 1929) کے مطابق نابالغ لڑکی اور لڑکے کا نکاح نہیں کرایاجاسکتاہے ،اسی طرح خیاربلوغ(Option of Puberty) ملکی قانون میں موجود ہےکہ جب لڑکی بالغ ہونے کے بعد انکارکرے اور اس کاثبوت موجود ہو تو عدالت اس نکاح کا اعتبار نہیں کرتی ۔

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ: مفتی وصی الرحمٰن

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد