سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

کشف فاؤنڈیشن کےقرضے کا شرعی حکم؟

|

کتاب: ربا

|

سائل: فضل بادشاہ

سوال

ایک کمپنی ہے جس کا نام ہے کشف فاؤنڈیشن جو کہ قرضہ دیتے ہیں ساٹھ ہزار روپے اورماہانہ طورپر 6500رو پے قسط لیتے ہیں جوکہ 78000ہزار روپے بنتے ہیں۔ اور ان کاکہناہے کہ یہ جو اضافی رقم ہے اس کے بدلے میں ہم آپ کو دو آفریں دیتے ہیں۔ پہلی آفر یہ ہے کہ آپ میں سے کوئی شخص جو فوت ہو جاتا ہے تو اس کا یہ سارا قرضہ معاف ہو جاتا ہے۔ اور دوسرا س کا فائدہ یہ ہوگا قسطوں کے دوران اگر آپ کا کوئی میڈیکل خرچ ہے اور وہ چالیس ہزار روپے کےاندر ہے تو وہ پیسے ہم ادا کریں گے۔ تو کیا یہ صورتیں سود کے زمرے میں آتی ہیں؟

جواب

الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد:

واضح رہے کہ اگر کشف فاؤنڈیشن یا کوئی اور ادارہ واقعی قرض کے او پر نقد رقم فراہم کرتا ہے، اور اس پر اصل رقم سے زائد مشروط نفع وصول کرتا ہے،چاہے وہ قسطوں کی صورت میں ہو یاایک ساتھ تو ایسی زائد رقم شرعی اعتبار سے صریح سود (ربا) میں داخل ہے۔اگرچہ وہ اس زائد رقم کو “سود” کے بجائے:سروس چارج،مارک اپ،فیس،چارچیز ،ہیلتھ ،لائف انشورنس یا مرنےکےبعد معافی جیسے الفاظ سے تعبیر کریں، تب بھی اس کا اصل شرعی حکم سود ہی رہے گا۔

حوالہ جات:

قال اللہ تعالیٰ : یَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ اٰمَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَ ذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤمِنِينَ (٢٧٨) فَإِن لَّم تَفعَلُواْ فَأذَنُواْ بِحَربٖ مِّنَ ٱللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ إِن تُبتُم فَلَكُم رُءُوسُ أَموَٰلِكُم لَا تَظلِمُونَ وَ لَا تُظلَمُونَ (٢٧٩) وَ إِن كَانَ ذُو عُسۡرَةٖ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيسَرَةٖ وَ أَن تَصَدَّقُواْ خَير لَّكُم إِن كُنتُم تَعلَمُونَ .(سورۃ البقرۃ،اٰیت: (280)۔
و فی مشکاۃ المصابیح : عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا ، وَ مُؤْكِلَهُ ، وَ كَاتِبَهُ ، وَ شَاهِدَيْهِ ، وَ قَالَ : «هُمْ سَوَاءٌ» (243/1)۔
و فی الدر المختار : و في الأشباه ‌كل ‌قرض ‌جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن۔۔الخ
و رد المحتار تحت (قوله ‌كل ‌قرض ‌جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر ، و عن الخلاصة و في الذخيرة و إن لم يكن النفع مشروطا في القرض ، فعلى قول الكرخي لا بأس به ۔(5/166)
واللہ اعلم باالصواب

کتبہ: مفتی ناصر سیماب

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد