الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد:
اگر کوئی بھائی یا بہن مستحقِ زکاۃ ہو تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ افضل اور باعثِ اجر ہے، کیونکہ اس میں صلہ رحمی کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ لہٰذا صاحبِ استطاعت بہن یا بھائی کے لیے اپنے مستحقِ زکاۃ بھائی یا بہن کو زکاۃ دینا شرعاً جائز و مستحسن ہے۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ زکاۃ صرف ایسے شخص کو دی جا سکتی ہے جو شرعی طور پر فقیر ہو۔ یعنی اس کے پاس ضرورتِ اصلیہ سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔ اس میں نقد رقم، سونا، چاندی شامل ہے۔ اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا، ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ان کے برابر مالیت کا کوئی بھی سامان موجود ہو، یا ان سب کا مجموعہ چاندی کے نصاب تک پہنچ جائے، تو ایسا شخص زکاۃ کا مستحق نہیں رہتا۔
لہٰذا اگر بھائی یابہن شرعاً فقیر ہو اور مذکورہ شرائط کے مطابق مستحقِ زکاۃ ہو تو بہن بھائی کو اس کو زکاۃ دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ باعثِ اجر بھی ہے۔
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ-فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(60)سورہ التوبۃ
ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم ؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم ولهذا تقبل شهادة البعض على البعض (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع – (4 / 42):)
لا مانع من دفع الزكاة إليهما إذا كان مسلمين وعليهما دين، يغطي زكاتك لا يستطيعان قضاءه، لأنهما داخلان في قوله سبحانه (إنما الصدقات للفقراء والمساكين
فتاوی الاسلامیہ ج2 ص89