سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

حالت حیض میں عمرہ کرنے کاحکم

|

کتاب: الحج والعمرۃ

|

سائل: ثاقب عباسی

سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ ، ہم آج ریاض سے عمرہ کے لیے نکلنے والے ہیں ۔ میری بیٹی جو ابھی تقریباً 12سال کی ہے اس کو آج صبح ماہواری شروع ہو گئی ہے۔ ہم اس کو یہاں کسی کے پاس چھوڑ نہیں سکتے۔ اب اس کے عمرہ کے کیا احکام ہیں ۔ ہم نے وہاں صرف 5 دن رکنا ہے لحاظہ اس کا دو بارہ پاک ہونا بھی اس سفر میں ممکن نہیں ہو گا۔

جواب

الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد

اگر کوئی عورت عمرہ کے لیے روانہ ہو اور اسے حیض آ جائے اوراگر احرام نہ باندھا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ عورت حالتِ حیض میں بھی احرام باندھ سکتی ہے۔ حالتِ حیض میں احرام باندھنے کے بعد عورت کے لیے تمام افعال اداکرنا جائز ہیں، صرف طواف کرنا اور نماز پڑھنا منع ہے۔لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چونکہ اتنے وقت میں دوبارہ پاک ہونا ممکن نہیں، اور بچی کو کسی کے پاس چھوڑنا بھی ممکن نہیں، تو ایسی مجبوری کی حالت میں وہ حالتِ حیض ہی  میں احرام باندھ کر عمرہ کر لے اور حرم کی حدود میں ایک دَم (قربانی) دے دے۔

حوالہ جات

عن عائشة عن النبي ﷺ قال : الحائض تقضي المناسک کلها إلا الطواف بالبیت. رواه أحمد و ابن أبي شیبة”.( إعلاء السنن (۱۰ ؍ ۳۱۷ ):)
إِنَّ الْمَسْجِدَ لَا يَحِلُّ لِجُنُبٍ، وَلَا لِحَائِضٍ.( ابن ماجه، السنن، كتاب الطهارة وسننها ، باب في ما جاء في اجتناب الحائض المسجد، 1: 212، رقم: 645، بيروت: دار الفكر)
قَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلاَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ قَالَتْ: فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: افْعَلِي كَمَا يَفْعَلُ الحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى (بخاري، الصحيح، كتاب الحج، باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت وإذا سعى على غير وضوء بين الصفا والمروة، 2: 594، رقم: 1567، بيروت: دار ابن كثير اليمامة)تَطْهُرِيالْحَائِضُ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ.( أحمد بن حنبل، المسند، 6: 137، رقم: 25099، مصر: مؤسسة قرطبة)
وفي الفتح: لو طاف للعمرة جنباً أو محدثاً فعليه دم ، “.( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 550)
۔الأدِلَّة:أوَّلًا: مِنَ السُّنَّةِعَنِ ابْنِ عبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عنهما أنَّه قال: ((مَن نَسِيَ مِنْ نُسُكِه شيئًا، أو تَرَكَه فلْيُهْرِقْ دمًا))يجِبُ بِتَرْكِ الواجِبِ دَمٌ، وهذا باتِّفاقِ المَذاهِبِ الفِقْهيَّةِ الأربَعةِ: الحَنَفيَّة ، والمالِكيَّة ، وَجْهُ الدَّلالةِ: أنَّ مِثْلَه لا يُقالُ بالرأيِ؛ فله حُكْمُ الرَّفْعِ، ولا مخالِفَ له مِنَ الصَّحابةِ رَضِيَ اللهُ عنهم، وعليه انعقَدَتْ فتاوى التَّابعينَ، وعامَّةِ الأُمَّةِ(الموسوعة الفقهية، مجموعة من الباحثين بإشراف :ﻋﻠﻢ اﻟﻤﺮﺃة. المحیط البرھاني: (الفصل السابع في الخصومات، 50/4، ط: دار الكتب العلمية)الشيخ عَلوي بن عبد القادر السقاف 1433 هـ۔169/2والشَّافعيَّة ، والحَنابِلةﻋﻠﻢ اﻟﻤﺮﺃة. المحیط البرھاني: (الفصل السابع في الخصومات، 50/4، ط: دار الكتب العلمية)
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: مفتی ناصر سیماب

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد