سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سسر کابہو پر الزام لگانا۔

|

کتاب: الطلاق

|

سائل: مفتی سمیع اللہ ہری پور

سوال

مفتی صاحب امید ہے خیرت سے ہونگےہمارا ایک استفتاء ہے:ایک شادی شدہ عورت پر اس کےسسر اور دیور نے یہ الزام لگایاہے (دونوں نے الگ الگ طورپر )اور اس کےشوہر کوکہا کہ آپ کے بیوی نے مجھے جماع (زنا)کی دعوت دی تومیں اس سے بھاگ نکلا ۔شوہر نے مجلس میں یہ جملہ استعمال کیا کہ اگر اس (میری بیوی )نے آپ لوگوکو کیساتھ یہ کام (معاملہ )کیاہے تو میں اسے طلاق دیتاہو(مرۃ) اب سوال یہ ہے کہ: 1. کیا مذکورہ جملے سے طلاق واقع ہوئی؟ 2. اگر ہوئی تو کتنی واقع ہوئی؟ 3. اگر واقع ہوئی ہے تو اس کی شرعی علت کیا ہے؟ وضاحتی وائس میسج:کہ یہ الزام بے بنیاد ہے اورجنہوں نے الزام لگایاتھا یعنی سسر اور دیور نے انہوں خود اعتراف کی ہے کہ ہم کسی دوسرے لوگوں کی باتوں میں آگئی تھے جس کی وجہ سے ہم نے یہ الزام لگایاتھا۔

جواب

الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد

واضح رہے کہ شوہر اگر طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرے، تو شرط کے پورا ہونے کی صورت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔لیکن صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جو الفاظ استعمال کیے”:اگر اس (میری بیوی) نے آپ لوگوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے تو میں اسے طلاق دیتا ہوں “یہ ایک مشروط (معلق) طلاق ہے، جس کا وقوع شرط کے پایا جانے پر موقوف ہے۔چونکہ سسر اور دیور نے خود یہ اعتراف کیا کہ”یہ الزام بے بنیاد تھا، ہم نے کسی اور کی باتوں میں آ کر یہ کہا تھا “ لہٰذا چونکہ شرط واقع نہیں ہوئی، اس لیے طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔میاں بیوی اپنی ازدواجی زندگی بدستور قائم رکھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات

والتعليق في الملك نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي: فنحو أن يقول لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق أو إن كلمت فلانا أو إن قدم فلان ونحو ذلك وإنه صحيح بلا خلاف؛ لأن الملك موجود في الحال، فالظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فكان الجزاء غالب الوجود عند وجود الشرط فيحصل ما هو المقصود من اليمين وهو التقوي على الامتناع من تحصيل الشرط فصحت اليمين، ثم ‌إذا ‌وجد ‌الشرط، والمرأة في ملكه أو في العدة يقع الطلاق
بدائع الصنائع: (كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:126، ط: دارالكتب العلمية)
وإذا أضافه إلى الشرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.” فتاوی ہندیہكتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط ونحوه ، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما،
ج:1، ص:420، ط:دارالفكر
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: مفتی ناصر سیماب

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد