سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

طلاق شدہ عورت کی عدت کی مدت  کتنی ہے ؟

|

کتاب: الطلاق

|

سائل: (موہد عابد)

سوال

طلاق شدہ عورت کی عدت کی مدت  کتنی ہے ؟

جواب

الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد

طلاق کی صورت میں عورت کے لیے عدت گزارنا شرعاً ضروری ہے۔ اگر عورت کو حیض آتا ہو تو اس کی عدت تین حیض تک ہوگی، اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش تک جاری رہتی ہے۔ البتہ اگر کسی عورت کو حیض عمر کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے نہیں آتا تو اس کی عدت تین مہینے مقرر کی گئی ہے۔

تاہم اگر رخصتی یا خلوتِ صحیحہ سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے تو ایسی صورت میں شریعت کے مطابق عورت پر عدت لازم نہیں ہوتی اورایسی خاتون عدت کے بغیر ہی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات

“وأما بيان أنواع العدد فالعدد في الشرع أنواع ثلاثة: عدة الأقراء، وعدة الأشهر، وعدة الحبل أما عدة الأقراء فلوجوبها أسباب منها: الفرقة في النكاح الصحيح سواء كانت بطلاق أو بغير طلاق۔۔۔وأما عدة الأشهر فنوعان: نوع يجب بدلا عن الحيض، ونوع يجب أصلا بنفسه أما الذي يجب بدلا عن الحيض فهو عدة الصغيرة والآيسة والمرأة التي لم تحض رأسا في الطلاق، وسبب وجوبها هو الطلاق۔۔۔وأما عدة الحبل فهي مدة الحمل، وسبب وجوبها الفرقة أو الوفاة. ( بدائع الصنائع، كتاب الطلاق، فصل فيما يتعلق بتوابع الطلاق 4/ 4، 415۔419ط:دارالکتب العلمیۃ)
وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة …..وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن )
 تحفة الفقهاء: كتاب الطلاق، باب العدة (2/ 244، 245)،ط. دار الكتب العلمية،بيروت
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: مفتی ناصر سیماب

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد