سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے فارم پر کرکے بھیج دیں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

itvworkویب سائٹ کی کمائی حلال ہے یاحرام

|

کتاب: جدید مسائل

|

سائل: رفیع الددین سرباٹ دریربالا

سوال

"itvwork" ایک ویب سائٹ اور ایپ ہے جس کے ذریعے کمائی کی جاتی ہے۔اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں 10 قسم کے پیکجز ہوتے ہیں جنہیں P1 سے P10 تک کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔سب سے پہلا پیکیج "انٹرن شپ" کہلاتا ہے، جس میں کسی قسم کی رقم جمع نہیں کروائی جاتی، اور اس میں دن میں 5 ٹاسک مکمل کرنے ہوتے ہیں، جو کہ فلموں کی ویڈیوز دیکھنے پر مشتمل ہوتے ہیں۔لیکن یہ انٹرن شپ صرف ایک مہینے کے لیے ہوتی ہے، اس کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔پھر پیکیج خریدنا لازمی ہو جاتا ہے۔پہلا خریداری والا پیکج P1 ہے، جس میں 3,900 روپے جمع کروائے جاتے ہیں، اور اس میں روزانہ 8 ویڈیوز (ٹاسک) دیکھنے ہوتے ہیں۔اس پیکیج میں ماہانہ 6,240 روپے اور سالانہ 74,880 روپے آمدنی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔اسی طرح سب سے مہنگا پیکیج P10 ہے، جس میں 7,000,000 روپے جمع کروائے جاتے ہیں، اور اس میں ماہانہ 432,000 روپے اور سالانہ 5,184,000 روپے آمدنی دی جاتی ہے۔اس کے علاوہ اس ایپ میں ریفرل سسٹم بھی موجود ہے، جس میں اگر آپ کسی کو ریفر کرتے ہیں تو:اگر آپ نے P1 یا P2 پیکیج خریدا ہوا ہے تو جس کو ریفر کیا گیا ہے، اس کی کمائی کا 8 فیصد آپ کو ملے گا۔جتنا مہنگا پیکیج ہوگا، اتنا ہی زیادہ ریفرل آمدنی بھی ملے گی۔ کمپنی کا اصل دعویٰ یہ ہے کہ وہ فلموں کی تشہیر (advertising) کرتی ہے اور انہی ویڈیوز کو لوگوں کے ذریعے دیکھوا کر آمدنی تقسیم کرتی ہے۔

جواب

الحمدللہ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین امابعد:

1۔ اس ایپ میں جو ویڈیوز وغیرہ دیکھنے کا کام ہے، یہ دراصل اجارہ (ملازمت) کی ایک صورت ہے، جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو ویڈیو ز دیکھنے کی اجرت دی جاتی ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی منفعت بخش چیز نہیں جو اصلاً مقصود ہو اور شرعاً اس کی اجرت لینا جائز ہو۔ اس کے برعکس، یہ کام اکثر جعل سازی کے لیے استعمال ہوتا ہے، مثلاً فیس بک یا یوٹیوب چینلز پر غلط طریقے سے ویورز لا کر یوٹیوب، گوگل ایڈسینس اور اشتہار دینے والی کمپنیوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔ یا یہ ویڈیوز محض ایک بہانہ ہوتی ہیں تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ ایپ ویڈیوز دیکھنے کے بدلے کمائی دیتی ہے، لیکن حقیقت میں اس کی آڑ میں دھوکہ دہی کی جاتی ہے اور لوگوں کی سرمایہ کاری ہڑپ کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا شرعاً یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا درست نہیں ہے۔

2۔ اس میں جو ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں، انہیں خود دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہر ٹاسک 10 سیکنڈ پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں زیادہ تر انگریزی فلموں کے ٹریلرز دکھائے جاتے ہیں۔ 10 سیکنڈ دیکھنے کے بعد ٹاسک مکمل ہو جاتا ہے۔ ہر پیکیج میں ٹاسک کی تعداد الگ الگ ہوتی ہے، بعض میں دن میں 5 ٹاسک مکمل کرنے ہوتے ہیں اور بعض میں زیادہ۔ ایک ٹاسک کے بدلے جو سب سے کم اجرت دی جاتی ہے وہ 26 روپے ہے۔

اب چونکہ ان ویڈیوز اور فلموں میں اکثر فحاشی اور عریانی ہوتی ہے (اور ایپ کا خود بھی دعویٰ ہے کہ وہ فلموں کی اشتہار بازی کرتا ہے)، لہٰذا ایسی ویڈیوز دیکھنا اور ان کی تشہیر کرنا نہ صرف ناجائز ہے بلکہ ایک بہت بڑا گناہ بھی ہے۔

3۔ پیکیج خریدنا: اس ایپ میں جو پیکیج خریدے جاتے ہیں، وہ دراصل ویڈیوز دیکھنے اور ان سے کمائی کرنے کی غرض سے کی جانے والی سرمایہ کاری ہے، جو حقیقت میں اجارے (ملازمت) کے حق کو خریدنا ہے۔ یہ “حقِ مجرد” کی بیع ہے، یعنی بلا کسی حقیقی عوض کے ادائیگی کی ایک صورت، جو کہ اکل بالباطل اور رشوت کے زمرے میں آتی ہے، اور یہ جائز نہیں ہے۔

4۔ ریفرل سسٹم: اس ایپ میں جو ریفرل سسٹم ہے، اس کو حقیقت میں “ملٹی لیول مارکیٹنگ” کہتے ہیں، جس میں بعد میں آنے والے چین میں جتنے بھی لوگ شامل ہوتے ہیں، ان کی کمائی کا کچھ فیصد پہلے ریفر کرنے والے کو ملتا ہے۔ معیشت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملٹی لیول مارکیٹنگ سود سے بھی زیادہ خطرناک ہے، اس لیے کہ سود میں ایک شخص کا حق کھایا جاتا ہے، جبکہ ملٹی لیول مارکیٹنگ میں پورے چین کے افراد کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔ لہٰذا ریفرل سسٹم بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔

مندرجہ بالا مکمل تفصیل کی روشنی میں، اس ایپ میں سرمایہ کاری کرنا، فحاشی پر مبنی فلموں کی ویڈیوز دیکھنا، اور اس کی اجرت لینا شرعاً درست نہیں ہے۔۔

حوالہ جات

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(19)وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔سورہ النور(۱۹،۲۰)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا۔سورہ النساء(۲۹)
وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪ سورہ المائدہ(۲)
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة،
ومقتضى هذين التعريفين أن المال مقصور على الأعيان المادية، فلا يشمل المنافع والحقوق المجردة،

ولذلك صرح الفقهاء الحنفية بعدم جواز بيع المنافع والحقوق المجردة، وقد صرحوا بأن بيع حق التعلي لا يجوز. مجلة مجمع الفقه الإسلامي، مقالة الشيخ محمد تقي العثماني،  (5/1931)

قال الحصكفي ؒ: “وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية.”

علق عليه ابن عابدين ؒ: “(قوله مقصود من العين) أي في الشرع ونظر العقلاء، بخلاف ما سيذكره فإنه وإن كان مقصودا للمستأجر لكنه لا نفع فيه وليس من المقاصد الشرعية، وشمل ما يقصد ولو لغيره لما سيأتي عن البحر من جواز استئجار الأرض مقيلا ومراحا، فإن مقصوده الاستئجار للزراعة مثلا، ويذكر ذلك حيلة للزومها إذا لم يمكن زرعها تأمل.” الدر المختار و حاشية ابن عابدين،  ط: دار الفكر 6)/(4)

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: مفتی ناصر سیماب

|

مفتیان کرام: مولانا ڈاکٹر حافظ حبیب الرحمٰن،مفتی وصی الرحمٰن

دارالافتاء مرکز تعلیم وتحقیق اسلام آباد