فہرست مضامین

تبدیلی ٔقیادت یا اصلاح حال اور طرزِ عمل دوسرا ساتواں

انسان عموماًکسی عمل کے اچھے نتائج اور کامیابی کو اپنے زورِ بازو اور ہنر مندی کا نتیجہ سمجھتا ہےاور ناکامی کو اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تصور کرتے ہوئے صبر کی طرف مائل ہوتا ہے ، جب کہ قرآن کریم، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے رحم و کرم اور انسان کی بھلائی کے حوالے سے یہ اصول بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر رحمت و شفقت کو اپنے اوپر فرض کر چکا ہے۔ چنانچہ خرابی ،ظلم و فساد اور غارت گری کے واقع ہونے میں بنیادی طور پر انسان کی اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا دخل ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں یہ قیمتی اصول بیان کیا ہے:

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۳۰ۭ  (الشوریٰ ۴۲: ۳۰) تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے ، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔

 یہ اس لیے کہ ربِّ کریم نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے ۔وہ اپنے بندوں پر ظلم وزیادتی نہیں کرتا ۔ اپنے بندوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالتا اور ہمیشہ اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کرنے پر آمادہ رہتا ہے، اس کے کرم کی کوئی انتہا نہیں   ؎

کرم ہی سے تیرے پھولوں سے دامن بھر گیا میرا
کرم ہی سے تیرے کچھ اور گنجائش نکل آئی

اس لیے اگر کسی معاشرے میں انسانی حقوق کی پامالی، قید و بند اور تعذیب، پکڑ دھکڑ اور زباں بندی اور افواہ سازی کا دور دورہ ہو اور حق و انصاف کی آواز بلند کرنے والوں اور حق و انصاف کے لیے نکلنے والوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، تو صرف ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا کافی نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ شہادتِ حق کا تقاضا ہے کہ احتسابِ نفس کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ ظلم کے غالب آنے میں خود مظلوموں کی اپنی کوتاہی و پسپائی کا کتنا دخل ہے؟ یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر شہادت حق اور امر بالمعروف کا فریضہ مؤثرانداز میں ادا نہ کیا جائے تو معاشرے میں جو اخلاقی خلا پیدا ہو گا، اسے ابلیسی قوتیں ہی پُر کریں گی۔ گویا استقامت سے ہٹ کر اپنے فرائض و واجبات کو ادا نہ کرنا فطری طور پر ظلم اور نا انصافی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے، کیوں کہ ابلیسی قوتیں ہمیشہ اس تلاش میں رہتی ہیں کہ کہیں سے کوئی خلا ملے اور وہ اس میں گھس کر ظلم و فساد برپا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کے برعکس اگر غیر متزلزل طور پر استقامت کے ساتھ حق کی شہادت ادا کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ ظلم ، جبر اور مکر کی تمام چالیں آخر کار ناکام ہو جاتی ہیں اور اللہ ربّ العزت کی تدبیر ہی غالب آکر رہتی ہے: وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴ (اٰل عمرٰن ۳:۵۴) ’’اور انھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے‘‘۔

ملک عزیز میں ایک عرصہ سے یہ ایک علمی بحث کی جا رہی ہے کہ ایک عادل ڈکٹیٹر اور عوام کے ایک منتخب کردہ لیکن بد عنوان شخص دونوں میں

 افضل کون ہے؟

اول الذکر کا نقص مطلق العنان ہونا ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہے ،جب کہ آخر الذکر کو اگرچہ نام نہاد لبرل جمہوری انتخابات میں کامیابی ہوئی ہے لیکن وہ بدعنوانی کے لیے معروف ہے۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام نہاد جمہوریت، اسلامی ریاست کی روح کے منافی ہے۔یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ فوجی حکمران ہو یا ’عوامی ووٹ‘سے برسر ِاقتدار آنے والا سربراہ، ماضی میں دونوں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اگر کسی چیز میں کامیاب رہے ہیں، تو وہ مہنگائی،بے روزگاری ، عدم تحفظ کو بڑھانااور معاشرے میں ناانصافی اور ظلم کو فروغ دینا ہے۔ گویا اگر انتخاب کیا بھی جائے تو ایک طرف گڑھا ہے اور دوسری طرف کھائی۔